Wednesday, December 30, 2015

Change In Modi’s Mood About Pakistan

Relations Between Two Nuclear Powers

Change In Modi’s Mood About Pakistan

مجیب خان

Photo Credit: Press Information Bureau, Via Agence France-Presse -- Getty Images
         وزیر اعظم نریندر مودی مختصر نجی دورے پر وزیر اعظم نواز شریف کی سالگرہ کا کیک کاٹنے لاہور آۓ تھے ۔ اس موقعہ پر وزیر اعظم نواز شریف کی نواسی کی شادی بھی تھی۔ لہذا وزیر اعظم مودی نے ان کی نواسی کی شادی میں بھی شرکت کی تھی۔ وزیر اعظم مودی کا یہ نجی دورہ شریف خاندان کے لئے ایک تاریخ بن گیا ہے۔ لیکن پاکستان کے ساتھ وزیر اعظم مودی کے سرکاری تعلقات صرف تاریخی موڑ پر کھڑے ہیں۔ اور اس میں حریت انگیز معجزہ نہیں ہو رہا ہے ۔ وزیر اعظم مودی کے وزیر اعظم نواز شریف  کے ساتھ نجی تعلقات اپنی جگہ قابل تحسین ہیں۔ لیکن پاکستان کے کروڑوں لوگ پاکستان کے ساتھ وزیر اعظم مودی کے سرکاری تعلقات قابل تحسین دیکھنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کے بارے میں وزیر اعظم مودی نے حالیہ دنوں میں جو باتیں کی ہیں۔ ان سے پاکستان کی توہین ہوئی ہے۔ اور پاکستان کے لوگ اس کی وضاحت چاہتے ہیں کہ پرانے واقعات کی تاریخ بیان کر کے وہ پاکستان کے ساتھ نئے تعلقات قائم کرنے میں کتنے مخلص ہیں؟ ٹھیک ہے، وزیر اعظم مودی نے اپنے نجی دورے سے وزیر اعظم نواز شریف کا سیاسی Stature بنایا ہے۔ لیکن پاکستان کے عوام کے لئے پاکستان کا سیاسی Stature زیادہ اہم ہے۔ جسے انہوں نے مختلف ملکوں کے دوروں میں پاکستان کے بارے میں معاندانہ باتوں سے گرانے کی کوشش کی ہے۔ بنگلہ دیش میں وزیر اعظم مودی ان کی آزادی میں بھارت کے رول کی تاریخ Refresh کر رہے تھے۔ پھر چودہ سال سے بھارت دنیا میں پاکستان کو دہشت گرد ریاست قرار دینے کی جو مہم چلا رہا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کو گلے لگانے سے پہلے وزیر اعظم مودی نے بھارت کی اس پالیسی کو تبدیل نہیں کیا تھا۔ حالانکہ دنیا یہ دیکھ رہی تھی کہ پاکستان سب سے زیادہ دہشت گردی کا شکار بنا ہوا تھا۔ پھر بھارت میں انتخابی مہم کے دوران مودی نے بھارت میں دہشت گردی کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ وہ جب وزیر اعظم ہوں گے اور ان کی حکومت میں اگر دہشت گردی کا واقعہ ہوا تو پاکستان کے ساتھ وہ ایسا ہی کریں گے جو انہوں نے گجرات میں کیا تھا۔ اور پھر وزیر اعظم مودی نے  مقبوضہ کشمیر میں باغیوں کی تحریک کے جواب میں پاکستان کی سرحدوں پر مسلسل بمباری اور فائرنگ شروع کر کے وہ ہی کیا تھا جو انہوں نے انتخابی مہم کے دوران کہا تھا۔ خیر اگر صبح کے بھٹکے شام کو صحیح راستے پر آ جائیں تو ان کی باتیں نظر انداز کی جا سکتی ہیں ۔
         لیکن پھر بھی یہ سوال ہو گا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی سوچ میں یہ تبدیلی کیسے آئی ہے؟ اور کون لایا ہے؟ پاکستان بھارت کے ساتھ ہر طرح کے حالات میں جینے کا عادی ہو گیا ہے۔ لیکن کیا بھارت کے لئے اس طرح کے حالات میں پاکستان کے بغیر جینا مشکل ہو رہا ہے۔ دنیا میں وزیر اعظم مودی جہاں بھی جا رہے ہیں ان سے یہ کہا جا رہا ہے کہ بھارت کو اب پاکستان کے ساتھ کس طرح رہنا ہو گا۔ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے ۔ اور ایٹمی طاقت کے ساتھ اس طرح نہیں رہا جاتا ہے۔ جبکہ بھارت خود بھی ایٹمی طاقت ہے۔ اور ایٹمی طاقتیں امن سلامتی اور استحکام کے مسئلہ پر ہمیشہ ایک ہی صفحہ پر رہتی ہیں۔ یورپ اس کی ایک بہترین مثال ہے۔ جہاں تین ایٹمی طاقتیں تھیں۔ یورپ نظریاتی سیاست کی وجہ سے دو بلاک میں تقسیم تھا۔ لیکن اس نظریاتی کشیدگی کے باوجود مشرقی اور مغربی یورپ امن اور سلامتی کے مسئلہ پر ایک ہی صفحہ پر رہتے تھے۔ یورپ کی 70 سال کی تاریخ میں ابھی تک کوئی جنگ نہیں ہوئی ہے۔ ایٹمی طاقتوں کی یہ بہت بڑی کامیابی ہے کہ انہوں نے یورپ کو جنگوں سے دور رکھا ہے۔ اور یورپ میں نظریاتی جنگ کے باوجود امن اور سلامتی کو فروغ دیا ہے۔ اور بھارت کو مشورہ دیا گیا ہے کہ انہیں اب بھارت کی منہ پر رام رام اور بغل میں چھری والی پالیسی تبدیل کرنا ہو گی۔ اس لئے وزیر اعظم مودی لاہور میں جب وزیر اعظم نواز شریف سے بغل گیر ہوۓ تھے تو ان کی بغلوں اور منہ سے رام رام نظر آ رہا تھا۔
       بھارت کے روئیے میں اچانک یہ تبدیلی آنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بھارت کی ایجنسیوں کے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونے کے ثبوت پر مبنی جو رپورٹ پاکستان نے اوبامہ انتظامیہ، اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور اقوام متحدہ کے سیکرٹیری جنرل بان کی مون کو دی تھیں۔ اس پر ایک خاموش رد عمل کا بھارت کو علم ہو گیا تھا۔ اس سے قبل کہ بھارت سے اس رپورٹ کے بارے میں پوچھ گچھ ہوتی۔ وزیر اعظم مودی نے پیرس میں خود آگے بڑھ کر وزیر اعظم نواز شریف سے تنہائی میں کچھ دیر بات کی تھی جس کے بعد دونوں ملکوں میں تعلقات کے بارے میں لب و لہجہ بدل گیا تھا۔ بھارتی وزیر خارجہ ششما سوراج ہا رٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کرنے اسلام آباد آئی تھیں۔ اسلام آباد میں وزیر خارجہ ششما سوراج نے دہشت گردی، ممباۓ کے دہشت پکڑنے، پاکستان میں دہشت گردوں کے اڈے ختم کرنے کی کوئی بات نہیں کی تھی۔ بلکہ بڑے نرم لہجہ میں پاکستان کے ساتھ خیر سگالی اور اچھے تعلقات کے لئے باتیں کی تھیں۔ اور دونوں ملکوں کے اعلی حکام میں مذاکرات شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ پاکستان کے ساتھ تعلقات میں 180 ڈگری یو ٹرن سے بھارت نے ان کے منہ بند کر دئیے تھے۔ جنہیں پاکستان نے بھارتی ایجنسیوں کے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونے کے ثبوت پر مبنی دستاویز دیں تھیں۔ اور پس پردہ وہ بھارت سے اس سلسلے میں دریافت کرنا چاہتے تھے۔ وزیر اعظم مودی لاہور آۓ ۔ وزیر اعظم نواز شریف کی نجی رہا ئش گاہ گیے اور ان کے ساتھ سیاسی اننگ کھیل گیے ہیں۔ اور اب اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ ، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل مودی اور نواز شریف میں ملاقاتوں کا خیر مقدم کر رہے ہیں۔
       پاکستان کے ساتھ تعلقات میں مسلسل کشیدگی کی وجہ سے بھارت میں غیر ملکی سرمایہ کاری بھی سست ہو رہی ہے۔ بھارت میں سیاسی استحکام ہے۔ لیکن پاکستان کے ساتھ سرحدوں پر کشیدگی بھارت میں استحکام کے لئے خطرے پیدا کر سکتی ہے۔ سرمایہ کار ان حالات کو سرمایہ کاری کے لئے زیادہ ساز گار نہیں سمجھتے ہیں۔ گزشتہ ستمبر میں وزیر اعظم مودی اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس میں شرکت کر نے آۓ تھے۔ نیویارک میں Fortune میگزین نے ایک مقامی ہوٹل میں ان کے اعزاز میں ڈنر دیا تھا۔ جس میں بہت بڑی تعداد میں امریکہ کی بڑی بڑی کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹو نے شرکت کی تھی۔ ڈنر کے بعد چیف ایگزیکٹو سے یہ سوال کیا گیا تھا کہ بھارت میں اقتصادی ترقی کو کس طرح تیز تر کیا جا سکتا ہے۔ اور اس بارے میں وہ کیا مشورہ  دیں گے۔ چیف ایگزیکٹو نے بڑا دو ٹوک جواب دیا تھا۔ تاہم انہوں نے وزیر اعظم مودی کی بزنس کے لئے حالات بہتر بنانے کی کوششوں کو سراہا یا تھا۔ لیکن اس کے ساتھ انہوں نے بھارت میں بے شمار رکاوٹوں کی نشاندہی کی تھی۔ جن میں پیچیدہ ریگولیشن ، حد سے زیادہ اجازت نامے ،بیوروکریسی کا فیصلہ کرنے کے عمل میں پریشانی کا سامنا، خستہ حال انفرا اسٹریکچر، مقامی ٹیکسوں کا انبار وغیرہ نمایاں تھے۔ اور انہوں نے وزیر اعظم مودی پر اس میں تبد یلیا ں لانے پر زور دیا تھا۔ ان میں سے ایک چیف ایگزیکٹو نے کہا کہ بزنس کے لئے یہ اتنی آسان جگہ نہیں ہے۔ چیف ایگزیکٹو کے یہ خیالات سن کر وزیر اعظم مودی نے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ دنیا ہمارا انتظار نہیں کرے گی۔ اور ایشیا بھی بھارت اور پاکستان کے تعلقات استوار ہونے کا انتظار نہیں کرے گا۔ وزیر  اعظم مودی شاید یہ بھی جانتے ہیں؟ 

Sunday, December 27, 2015

Only America Can Solve The Taliban Problem

The War in Afghanistan

Only America Can Solve The Taliban Problem

مجیب خان
   



         گزشتہ ہفتہ خود کش حملے میں چھ امریکی فوجی ہلاک کرنے کی طا لبان نے ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ جبکہ اس خود کش حملے میں متعدد فوجی زخمی ہوۓ ہیں۔ طا لبان کا یہ خود کش حملہ نیا نہیں تھا۔ اس سے قبل بھی امریکہ اور نیٹو فوجوں پر اس طرح کے حملے ہوتے رہے ہیں ۔ جن کی ذمہ داری طا لبان قبول کرتے تھے۔ اس کے جواب میں پھر امریکہ طا لبان کے خلاف کاروائی کرتا تھا۔ پھر طا لبان امریکہ کے خلاف کاروائی اس لئے کرتے تھے کہ امریکہ غلطی سے بم ان پر گرانے کے بجاۓ افغان عورتوں اور بچوں پر گرا دیتے تھے۔ اور بے گناہ عورتیں اور بچے مار دیتے تھے۔ چودہ سال سے یہ جیسے افغان جنگ کا سبب بن گیا ہے۔ امریکہ نے گزشتہ سال افغان جنگ ختم کرنے کا با ضابطہ اعلان کیا تھا۔ اور افغانستان سے امریکہ کی فوجیں چلی گئی تھیں۔ صرف دس ہزار امریکی فوجیں افغان سیکورٹی فورسز کو تربیت دینے کے لئے افغانستان میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جبکہ نیٹو نے بھی اپنے فوجی آپریشن ختم کر دئیے ہیں۔ اور صرف پانچ ہزار نیٹو فوجیں افغانستان میں ہیں۔ امریکہ اور نیٹو نے افغانستان میں اپنی جنگ ختم کر دی ہے۔ لیکن اب افغان سیکورٹی فورسز اور طا لبان کی جنگ شروع ہو گئی ہے۔ یہ ہی حکمت عملی امریکہ کی عراق کے لئے بھی تھی۔ وہاں عراقی سیکورٹی فورسز اور عراقی سنیوں میں جنگ ہو رہی ہے۔
      غیر ملکی فوجوں کے لئے سخت گیر قبائلی ملک میں جنگ کا آغاز کرنا آسان ہوتا ہے۔ لیکن جنگ پھر قبائلی اپنے پروگرام کے مطابق ختم کرتے ہیں۔ اس وقت تک طا لبان کی کاروائیاں افغانستان کے جنوب میں ہوتی تھیں۔ جو زیادہ تر پشتون علاقہ تھے۔ لیکن اس سال اکتوبر میں طا لبان کی حکمت عملی میں ایک بڑی تبدیلی آئی تھی۔ طا لبان افغانستان کے شمالی صوبوں میں پہنچ گۓ تھے ۔ جو غالب تا جک اور از بک علاقہ تھے۔ گزشتہ اکتوبر میں طا لبان نے کند وز پر تقریباً  قبضہ کر لیا تھا۔ افغان سیکورٹی فورسز طا لبان کا مقابلہ نہیں کر سکی تھیں۔ اور اپنے ہتھیار پھینک کر چلی گئی تھیں۔ اور افغان پولیس بھی اپنے تھانے اور وردیاں چھوڑ کر چلی گئی تھی۔ یہ صورت حال دیکھ کر کند وز صوبے کے گورنر اور کابل حکومت نے طا لبان کو کند وز سے نکالنے کے لئے امریکی فوجی مدد کی درخواست کی تھی۔ جس کے بعد امریکہ نے کند وز میں طا لبان کے ٹھکانوں پر بمباری کا فیصلہ کیا تھا۔ لیکن اتفاق سے طا لبان کا یہ ٹھکانہ کند وز کا ہسپتال نکلا تھا جس پر امریکی طیاروں نے بمباری کی تھی۔ ہسپتال کا عملہ اور مریض بمباری کے نتیجے میں ہلاک ہو گۓ  تھے ۔ جن کی تعداد پچیس بتائی گئی تھی۔ اور ان میں دس بچے بھی شامل تھے۔ ہسپتال کے عملہ کا تعلق Doctors Without Borders سے تھا۔ اور عملہ کے بارہ لوگ ہلاک ہو گۓ تھے۔ ہلاک ہونے والے افغان تھے۔
       امریکی طیاروں نے کند وز میں ہسپتال پر اکتوبر میں بمباری کی تھی۔ اور دس ہفتے بعد طا لبان نے امریکہ کے چھ فوجی مار دئیے ہیں۔ یہ اس سال کا ایک بڑا واقعہ ہے۔ جس میں طا لبان کے خود کش حملے میں اتنی بڑی تعداد میں امریکی فوجی مارے گۓ ہیں۔ اور زخمی علیحدہ ہوۓ ہیں۔ جبکہ افغانستان کے کئی صوبوں اور ضلعوں میں افغان سیکورٹی فورس اور طا لبان میں گھمسان کی لڑائی ہونے کی خبریں بھی آ رہی ہیں۔ امریکی میڈ یا کے مطابق اس وقت افغانستان کے ستر ضلعوں پر طا لبان کا قبضہ ہے۔ ادھر ہلمند صوبے پر قبضہ کے لئے طا لبان نے اپنا بھر پور دباؤ بڑھا دیا ہے۔  Sangin ضلع پر بڑی حد تک طا لبان کا قبضہ ہو گیا تھا۔ صوبے کے گورنر نے کابل حکومت سے مدد مانگی ہے۔ ہلمند افغانستان کے بڑے صوبوں میں شمار ہوتا ہے۔ اور یہ ایک اہم صوبہ ہے۔ ہلمند پر طا لبان کا قبضہ روکنے کے لئے برطانیہ نے بھی اپنی فوجیں بھیجی ہیں۔ اور امریکہ کی اسپیشل فورسز بھی طا لبان کے خلاف کاروائی کر رہی  ہیں۔ اعلانیہ جنگ بندی غیر اعلانیہ جنگ بن گئی ہے۔ اورSangin  ضلع میں فوجی آپریشن ابھی جاری ہے۔
       سوال اب یہ ہے کہ کیا افغانستان اور طا لبان کا مسئلہ بھی فلسطین اسرائیل تنازعہ کی طرح رہے گا؟ اور یہ کبھی حل نہیں ہو سکے گا۔ افغان حکومت کی عسکری قوت انتہائی کمزور ہے۔ اور حکومت  میں  سیاسی صلاحیتوں کا فقدان ہے۔ سابق کرزئی حکومت نے طا لبان مسئلہ کے سیاسی حل کی کوئی کوشش نہیں کی تھی۔ صدر کرزئی تیرہ سال اقتدار میں رہے تھے۔ لیکن تیرہ سال تک وہ صرف امریکہ اور نیٹو کے فوجی آپریشن کو طا لبان کے مسئلہ کا حل سمجھتے رہے تھے۔ اور اب اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ حکومت میں بھی طا لبان مسئلہ کے سیاسی عمل کا آغاز ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے۔ ان کی حکومت کو ایک سال سے زیادہ ہو گیا ہے۔ اشرف غنی پشتون ہیں اور عبداللہ عبداللہ تاجک ہیں۔ لیکن انہوں نے افغان ثقافتوں کے درمیان اختلافات حتم کرنے کے لئے کچھ  کیا ہے۔ اور نہ ہی افغان ثقافتوں کو متحد کرنے کی کوئی کوشش کی ہے۔ بلکہ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ میں بھی اختلافات کی خبریں گشت کر رہی ہیں۔ لیکن یہ طے ہو گیا ہے کہ طا لبان کے مسئلہ کا اب فوجی حل نہیں ہے۔ اور جو اب بھی اس مسئلہ کو فوجی طریقوں سے حل کرنے پر اڑے ہوۓ ہیں وہ احمق ہیں۔ اور وہ صرف بےگناہ لوگوں کو قتل کروا رہے ہیں۔ جن میں امریکی فوجی بھی شامل ہیں۔
       افغان مسئلہ امریکہ نے پیدا کیا ہے اور صرف امریکہ ہی اسے حل کر سکتا ہے۔ آخر امریکہ نے افغانستان میں اپنا مسئلہ حل کر لیا ہے کہ القا عدہ کو ختم کر دیا ہے۔ لیکن طا لبان کا مسئلہ حل کرنے کے لئے پاکستان کو ذمہ دار بنا دیا ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ امریکہ اور نیٹو کو یہ سمجھنا چاہیے کہ افغانوں نے سوویت فوجوں کو افغانستان سے نکالنے کے لئے گراں قدر قربانیاں دی ہیں۔ انہوں نے اپنے بچے قربان کیے ہیں۔ اپنے خاندان قربان کیے ہیں۔ انہوں نے اپنا سب کچھ قربان کر کے سوویت فوجوں کو افغانستان سے نکالا تھا۔ امریکہ اور نیٹو ملکوں کو افغانوں کی ان قربانیوں کا احترام کرنا چاہیے ۔ اور انہیں افغانستان سے اپنی فوجیں بالکل نکال لینا چاہیے۔ یہ ایک جائز مطالبہ ہے۔ اور تاریخ بھی ان کے مطالبہ کی تائید کرتی ہے۔ اور افغانستان میں جو امریکہ اور نیٹو فوجوں کے قیام کی حمایت کر رہے ہیں۔ ان کی سوویت فوجوں کو افغانستان سے نکالنے میں کوئی قربانیاں نہیں ہیں۔ امریکہ کو اب طا لبان کے ساتھ براہ راست Deal کرنا چاہیے۔ پاکستان اور افغانستان کے لئے صدر او بامہ کے خصوصی سفیر پندرہ سال سے دونوں ملکوں کے دارالحکومتوں کے صرف دورے کر رہے ہیں۔ لیکن یہ بغیر نتائج کے دورے ثابت ہوۓ ہیں۔ خصوصی سفیر طا لبان کے ساتھ بیٹھ کر اگر مذاکرات کرتے تو شاید آج اس کے مثبت نتائج دنیا کے سامنے ہوتے۔
       صدر اوبامہ کا یہ آخری سال ہے۔ اور اس سال میں صدر اوبامہ اپنی بھر پور توانائی کے ساتھ طا لبان کا مسئلہ سیاسی طریقوں سے حل کرنے پر خصوصی توجہ دیں۔ امریکہ نے طا لبان کے ساتھ مل کر سوویت ایمپائر کو شکست دی تھی ۔اور اب طا لبان کے ساتھ مل کر امریکہ دنیا میں اپنی گرتی ساکھ کو بھی بچا سکتا ہے۔  صدر اوبامہ کے لئے یہ سوچنے اور فیصلے کرنے کا سال ہے۔       

Tuesday, December 22, 2015

The Islamic World Should Support The Russian Peace Initiative

No New Military Alliances

The Islamic World Should Support The Russian Peace Initiative

مجیب خان



            34 اسلامی ملکوں سے کسی مشاورت کے بغیر سعودی عرب نے اچانک آدھی رات کو 34 اسلامی ملکوں کے ایک اسلامی فوجی الائنس  کے قیام کا اعلان کیا ہے۔ ان ملکوں میں بعض کو اس فوجی الائنس کے بارے میں پہلے سے کوئی علم نہیں تھا۔  انہیں یہ فرمان سن کر حیرت ہوئی تھی۔ اور پاکستان بھی ان ملکوں میں شامل ہے۔ جبکہ بعض اسلامی ملک یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس وقت اسلامی فوجی الائنس بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی ہے۔ اور اس کے مقاصد کیا ہیں ؟ سعودی عرب پہلے ہی کئی فوجی الائنس میں شامل ہے ۔ اور جنگیں لڑ رہا ہے۔ لیکن سعودی حکومت نے 34 اسلامی حکومتوں سے کسی مشاورت کے بغیر اپنا فیصلہ ان پر مسلط کر دیا ہے۔ تاہم اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ سعودی حکومت سے یہ 34 اسلامی ممالک مشرق وسطی میں سعودی پالیسی کے بارے میں سوالات کرنے لگتے۔ اور سعودی حکومت پر فوجی حل کے بجاۓ سیاسی حل پر زور دینے لگتے۔ سعودی حکومت شاید یہ سننے کے لئے تیار نہیں تھی۔ اس لئے آدھی رات کو سعودی ڈپٹی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے یہ اعلان کر کے 34 اسلامی ملکوں کو اپنی حکومت کے اس فیصلے کا جیسے پابند کر لیا ہے۔
      سعود یوں سے یہ سوال ہے کہ آخر کتنی جنگیں یہاں ہوں گی۔ اور کتنے نئے فوجی ا لائنس  بناۓ جائیں گے۔ سعودی عرب کی قیادت میں ایک فوجی ا لائنس یمن میں نو ماہ سے ہو تیوں کے خلاف جنگ کر رہا ہے۔ ساٹھ ملکوں کا ایک دوسرا الا ئنس امریکہ کی قیادت میں شام اور عراق میں داعش کے خلاف لڑ رہا ہے ۔ اور اس کے ساتھ اسد حکو مت کو اقتدار سے ہٹانے کی خانہ جنگی بھی جاری ہے۔ اس سال اپریل میں واشنگٹن میں ا لائنس میں شامل ملکوں کے فوجی سربراہوں کا اجلاس ہوا تھا۔ جس کی صدارت کمانڈر انچیف صدر اوبامہ نے کی تھی۔ جس میں داعش سے لڑنے کی حکمت عملی تیار کی گئی تھی ۔ پھر عراق اور شام کے کرد بھی اپنے علاقوں میں داعش سے لڑ رہے ہیں۔ برطانیہ میں پارلیمنٹ نے جیسے ہی حکومت کو شام میں داعش کے خلاف فوجی کاروائی کرنے کا اختیاردیا تھا۔ اس کے صرف چند گھنٹوں میں برطانیہ کی فضائیہ شام کی حدود میں داخل ہو گئی تھی۔ اور داعش کے ٹھکانوں پر بمباری شروع کر دی تھی۔ پیرس میں 13 نومبر کے دہشت گردی کے واقعہ کے بعد فرانس بھی روس کے ساتھ داعش کے اڈوں پر بمباری کر رہا تھا۔ جبکہ جرمنی نے بھی داعش سے لڑنے کے لئے اپنی فوجیں بھیجی ہیں۔ ایران اور حزب اللہ بھی شام میں داعش کے خلاف اسد حکومت کی مدد کر رہے ہیں۔ اس وقت نصف دنیا داعش سے لڑ رہی ہے۔ لیکن داعش اتنی بڑی طاقت ہے کہ امریکہ برطانیہ فرانس اور ساٹھ ملکوں کا فوجی الا ئنس داعش کا خاتمہ کرنے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔ اور شاید یہ احساس ناکامی ہے جس نے سعود یوں کو ایک نیا اسلامی فوجی ا لائنس بنانے کی ترغیب دی ہے ۔
      خلیج کے حکمران ایک خطرناک غلط راستہ پر ہیں۔ جس طرح وہ جنگوں کو پھیلا رہے ہیں۔ یہ جنگیں دراصل ان کے گرد حلقہ تنگ کر رہی ہیں۔ صدر بش نے نائن الیون کے بعد یہ دعوی کیا تھا کہ امریکہ تنہا ساٹھ ملکوں سے جنگ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لیکن داعش کے خلاف امریکہ ساٹھ ملکوں کا فوجی ا لائنس بنا کر جنگ کر رہا ہے۔ پھر یہ کہ جنگیں ابھی تک کوئی مسئلہ بھی حل نہیں کر سکی ہیں۔ صدام حسین کے خلاف فوجی کاروائی صرف اس لئے کی گئی تھی کہ صدام حسین خطہ میں امریکہ کے اتحادیوں اور عالمی سلامتی کے لئے خطرہ تھے۔ لیکن اب داعش عالمی سلامتی اور خطہ کے لئے صدام حسین سے زیادہ بڑا خطرہ ثابت ہوئی ہے۔ اگر صدام حسین کا مسئلہ جنگ کے بغیر پرامن سیاسی طریقوں سے حل کیا جاتا تو یہ پرامن سیاسی طریقے دنیا کو ضرور امن دیتے ۔ لیکن جنگ سے عالمی امن اور سلامتی کے خطروں کو دور کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ لہذا جنگ عالمی امن اور سلامتی کے لئے یہ نئے خطرے لائی ہے۔ اور اب اس کی کیا ضمانت ہے کہ جنگ سے داعش کا خاتمہ ہونے کے بعد دنیا کو داعش سے بھی زیادہ بڑے خطرے کا سامنا نہیں ہو گا ؟ سابق وزیر اعظم ٹونی بلیر کی عقل میں اب یہ آیا ہے کہ عراق پر حملے کے نتیجے میں داعش وجود میں آیا ہے۔ وزیر اعظم ٹونی بلیر جب پارلیمنٹ میں عراق پر حملہ کرنے کی حمایت میں بحث کر رہے تھے اس وقت ان کے ذہین اور گمان میں اس حملے کے موجودہ نتائج نہیں تھے۔ سعودی عرب خلیج کے حکمران اور عرب لیگ موجودہ حالات کے ذمہ دار ہیں۔ جنہوں نے عرب دنیا کے تین سو ملین لوگوں کو اس عذاب میں ڈالا ہے۔ انہوں نے اس خطہ کے تنازعوں کا علاج بیرونی طاقتوں کی مہم جوئیوں سے کرانے کی اجازت کیا سوچ کر دی تھی؟ نہ صرف یہ بلکہ عراق میں صدام حسین کو اقتدار سے ہٹانے کے نتائج ان کے سامنے تھے۔ اس کے باوجود سعودی عرب خلیج کے حکمران اور عرب لیگ لیبیا اور شام کا علاج  بھی ان ہی بیرونی طاقتوں سے کروا رہے تھے۔
      سعودی عرب اور خلیج کے حکمران اگر امریکہ اور برطانیہ کی عقل سے فیصلے کرنے کے بجاۓ اپنی عقل استعمال کر لیتے اور عراق میں سیاسی استحکام اور امن پر توجہ دیتے۔ ایران کو بھی اس مشن میں شریک رکھتے تو داعش شاید وجود میں نہیں آتی۔ ادھر سعودی اور خلیج کے حکمران پندرہ سال سے طا لبان کے خلاف امریکہ اور نیٹو کی جنگ کا مطالعہ بھی کر رہے تھے – امریکہ اور نیٹو کی بھر پور فوجی  طاقت کے باوجود طا لبان کی سوچ نہیں بدلی ہے اور طا لبان ابھی تک غالب ہیں۔ اور ہو تی طا لبان سے مختلف نہیں ہیں۔ یمن اب سعودی عرب اور اس کے عرب اتحادیوں کے لئے افغانستان بن گیا ہے۔ ہو تیوں نے چند روز قبل 158 سعودی اتحادی فوجیوں کو ہلاک کیا ہے۔ جس میں سعودی خصوصی دستوں کا کمانڈر بھی شامل تھا۔ اس سے قبل ہو تیوں نے 58 سعودی اتحادی فوجی ہلاک کر دئیے تھے۔ جس میں ایک سعودی جنرل بھی تھا۔ جن کے تن پر صرف کپڑے ہوتے ہیں۔ ان کے پاس اور کچھ نہیں ہوتا ہے ۔ ان سے لڑنا اپنے تن کے کپڑے اتروانا ہوتا ہے۔ اب سعودی اور خلیج کے حکمران ہو تیوں سے اپنے تن کے کپڑے اتروا رہے ہیں۔ ایک بیوقوفی کے بعد دوسری ہمیشہ حماقت ہوتی ہے ۔ عراق لیبیا اور شام ان کی بیوقوفی تھی اور یمن ان کی حماقت ہے۔
      ان کی بیوقوفی اور حماقت کے درمیان اب پاکستان کیا رول ادا کر سکتا ہے؟ پاکستان نے بھی بیوقوفی اور حماقت کی تھی۔ لیکن پاکستان اب ان بیوقوفیوں اور حماقتوں سے نکل آیا ہے۔ پاکستان ساٹھ سال تک فوجی ا لائنس میں شامل رہا ہے۔ پندرہ سال قبل پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ  کے ساتھ الائنس میں شامل ہو گیا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف اب اپنی جنگ خود لڑ رہا ہے۔ پاکستان کے تیس ہزار فوجی شہید ہو گیے ہیں۔ پچاس ہزار لوگ مارے گیے ہیں۔ اور پاکستان کا ایک بلین سے زیادہ کا نقصان ہو چکا ہے۔ اور جنگ ابھی جاری ہے۔ پاکستان کے لئے سعودی قیادت میں ایک نئے فوجی الائنس میں سرگرمی سے شامل ہونے کا یہ مناسب وقت نہیں ہے۔ پاکستان اسلامی ایٹمی طاقت ہے ۔ اور پاکستان کو بہت محتاط ہو کر اپنے مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔ پاکستان کے لئے اس وقت اقتصادی ا لائنس زیادہ اہم ہے۔ 
      شام میں پانچ سال سے ایک خونی خانہ جنگی کے بعد امریکہ سعودی عرب خلیج کے حکمران اور ترکی اسی راستے پر واپس آۓ ہیں۔ جہاں روس اور چین نے سلامتی کونسل میں امریکہ کی قراردادوں کو ویٹو کیا تھا۔ یہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی ایک بڑی ناکامی ہے۔ مشرق وسطی میں امریکہ کو جمہوریت اور آزادی فروغ دینے میں ناکامی ہوئی ہے۔ اسرائیل اور فلسطینیوں میں ایک پائدار امن کی کوششوں میں امریکہ کو ناکامی ہوئی ہے۔ عراق جنگ میں امریکہ کو شکست ہوئی ہے۔ لیبیا کو ایک ناکام ریاست بنانے میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو صرف  کامیابی ہوئی ہے۔ مشرق وسطی میں امن اور استحکام کے لئے اسلامی دنیا کو اب روس کی کوششوں کی حمایت کرنا چاہیے۔ امن کی یہ آخری امید ہے۔  


                                                                                          

Saturday, December 19, 2015

The Victims of The Elite Nations

People of The Year    

The Victims of The Elite Nations

مجیب خان

Destruction In Yemen

Syrian Refugees Fleeing Civil War

Syrian Refugees In A Refugee Camp
Refugees From Countries Destroyed By Conflict

Innocent People Suffering In Yemen

The Physical And Emotional Stress of War Is Unlike Any Other 

The Future Generations Will Only Know A Life of War
For Some, There Will Be No Future Generation
Palestinian Refugees Fleeing Conflict In Syria
Children of War
Refugees From War-Torn Countries Trying To Enter Europe
Fear-Mongering of The Refugees In Need of Help Has Spread Across The World
Poor People Continue To Suffer At The Hands of The Elite Nations
Shame On Humanity

         انسانیت کے لئے 2015 زیادہ اچھا سال نہیں رہا ہے۔ گزشتہ سال کے مقابلے میں اس سال جنگوں نے انسانیت کو درر ناک  اذیتیں دی ہیں۔ اس سال جنگوں میں زیادہ لوگ ہلاک ہوۓ ہیں۔ ان جنگوں سے لاکھوں لوگوں کی زندگیاں بری طرح متاثر ہوئی ہیں ۔ جنگیں انسانیت کے لئے صرف تباہی لائی ہیں۔ لوگوں کے گھر اجڑ گۓ ہیں۔ خاندان تباہ ہو گۓ ہیں۔ ان کے شہر کھنڈرات بن گۓ ہیں۔ شام عراق اور یمن میں کوئی خاندان ایسا نہیں ہے کہ جس کے ایک یا دو افراد جنگ میں نہیں مارے گۓ ہیں۔ جنگ زدہ ملکوں میں لوگ ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ اور جو ملک ان جنگوں میں شامل نہیں ہیں لیکن ان ملکوں کے لوگوں بالخصوص ان کے نوجوانوں میں اس کا ایک نفسیاتی اثر ہو رہا ہے۔ ان میں مغرب سے نفرت اور غصہ پیدا ہو رہا ہے۔ اس کا رد عمل دہشت گردی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ کیلیفورنیا اور پیرس میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات اس کے ثبوت ہیں۔ اسلامی ملکوں میں جنگوں کو لوگوں میں اشتعال پیدا کرنے کے لئے طول دیا جا رہا ہے۔ تاکہ لوگ مشتعل ہوں اور دہشت گردی کریں۔ اور اس طرح یہ جنگ جاری رہے۔
      یہ نئی حکمت عملی نہیں ہے۔ نوے کے عشر ے میں عراق کے خلاف انسانی تاریخ کی انتہائی غیر انسانی اقتصادی بندشیں لگائی گی تھیں۔ عرب دنیا میں جب تک لوگوں کو ان اقتصادی بندشوں کے عراقیوں کی زندگیوں پراس کے اثرات کے بارے میں علم نہیں تھا۔ امریکہ کے خلاف کوئی رد عمل نہیں ہوا تھا۔ لیکن اقوام متحدہ کی رپورٹیں جب سامنے آئی تھیں۔ جن میں عراقی معاشرے پر اقتصادی بندشوں کے تباہ کن اثرات تفصیل سے بیان کیے گۓ تھے۔ کہ کس طرح یہ اقتصادی بندشیں عراقی معاشرے کو تباہ کر رہی تھیں۔ پانچ لاکھ معصوم بچے پیدائش کے صرف ابتدائی چند دنوں میں دواؤں کی قلت کی وجہ سے مر گۓ تھے۔ اقوام متحدہ کی یہ رپورٹیں لوگوں میں نفرت اور غصہ کا جیسے آتش فشاں تھا۔ جو امریکہ کے خلاف پھر دہشت گردی کی صورت میں پھٹا تھا۔
     اور اس وقت بھی حالات اس صورت حال سے مختلف نہیں ہیں۔ شام میں پانچ سال سے جاری خانہ جنگی کے نتائج عراق پر دس سال تک عائد اقتصادی بندشوں کے نتائج سے زیادہ خطرناک نظر آ رہے ہیں۔ شام میں تقریباً تین لاکھ بے قصور لوگ اس خانہ جنگی میں مارے گۓ ہیں۔ امریکہ اور عرب بادشاہتیں شام میں خونی خانہ جنگی کی حمایت کر رہے ہیں۔ اور جن کی یہ حمایت کر رہے ہیں وہ انسانیت کے سب سے بڑے دشمن ہونے کے ثبوت دے رہے ہیں۔ لوگوں کے گلے کاٹ رہے ہیں۔ جو خانہ جنگی کی حمایت نہیں کرتے ہیں انہیں قتل کر دیا جاتا ہے۔ لوگوں کے گھروں اور شہروں کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا ہے۔ شام کے قدیم تاریخی اور مذہبی اثاثے تباہ کر دئیے ہیں۔ اور یہ امریکہ اور عرب بادشاہوں کے واچ میں ہو رہا تھا۔ حالانکہ امریکہ کی انسانی اخلاقی اور قانونی قدریں بہت منفرد تھیں۔
     اقوام متحدہ کے کمیشن براۓ مہاجرین کے مطابق تقریباً چار ملین شامی مہاجرین بیرون ملک پناہ لینے آۓ ہیں۔ جبکہ سات ملین شامی اپنے کھنڈرات ملک میں اجڑ گۓ ہیں۔ عالمی تنظیم براۓ مہاجرین کے مطابق اس سال جنوری سے ستمبر کے عرصہ میں دو ہزار سات سو اڑتالیس لوگوں نے بحرہ روم کو عبور کرنے کے خطرناک سفر کے دوران اپنی جانیں دے دی ہیں۔ جبکہ اس ادارے کی رپورٹ کے مطابق اس سال تقریباً  چار لاکھ تیس ہزار مہاجرین نے اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈال کر کشتیوں کے ذریعے یورپ پہنچنے کی کوشش کی تھی۔ دنیا انسانیت کے یہ درد ناک مناظر دیکھ رہی تھی۔ لیکن شام میں خانہ جنگی جاری رکھنے کا عزم پختہ تھا۔ ان کے ضمیر میں انسانیت جیسے مر چکی تھی۔ جنگوں کا جنون ان کا ضمیر بن گیا تھا۔ اور ایک غریب یمن کے خلاف سعودی جا حا ریت کی حمایت بھی اسی ضمیر کے ساتھ کی جا رہی ہے۔

      حالانکہ شام کی طرح یمن کا مسئلہ بھی داخلی تھا۔ اور بیرونی پنگا بازوں کو مداخلت کرنے کا کوئی قانونی جواز نہیں تھا۔ بیرونی مداخلت نے صرف تباہی اور بربادی کے انسانیت کو کبھی کچھ نہیں دیا ہے۔ عالمی سیکورٹی عالمی قانون عالمی اقتصادیات دنیا کی واحد فوجی طاقت کے ہاتھوں میں دینے کے یہ نتائج ہیں کہ یکے بعد دیگرے قومیں کھنڈرات بنتی جا رہی ہیں۔ لوگوں کی دنیا اجڑتی جا رہی ہے۔ امیر اور غریب میں فرق بڑھتا جا رہا ہے۔ غریبوں اور کمزوروں کو جیسے دنیا سے نکالا جا رہا ہے۔ دنیا پر مالدار قوموں کا قبضہ ہوتا جا رہا ہے۔ 2015 اس لحاظ سے انسانیت کے لئے تباہ کن ثابت ہوا ہے۔ انسانیت کے مفاد میں اس سال میں اتنے کام نہیں ہوۓ ہیں کہ جتنا ہتھیاروں سے انسانیت کو نقصان پہنچانے کا کام لیا گیا ہے۔      

Tuesday, December 15, 2015

How Do We Bring Three Religions Under One God?

One God And Three Religions

How Do We Bring Three Religions Under One God?

  مجیب خان 




       ری پبلیکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈ ونا لڈ ٹرمپ نے یہ صرف کہا ہے کہ " مسلمانوں کے امریکہ آنے پر پابندی لگا دی جاۓ۔" ان کے اس بیان پر امریکہ اور دنیا بھر میں مذمت کی جا رہی ہے۔ برطانیہ کے وزیر اعظم ڈ یوڈ کمیرن نے اس سے اختلاف کیا ہے۔ یورپ کے بعض دوسرے رہنماؤں نے بھی ڈونا لڈ ٹرمپ کی تجویز سے اتفاق نہیں کیا ہے ۔ اسرائیل کے وزیر اعظم نا تھن یا ہو نے بھی ڈونالڈ ٹرمپ کے بیان کی مخالفت کی ہے۔ اور اسلام کی تعریف کی ہے۔ حالانکہ ان کی حکومت نے مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں کی نقل و حرکت پر پابندی لگائی ہے۔ جگہ جگہ اسرائیلی فوجی چوکیاں قائم ہیں۔ اور فلسطینیوں کو ان چوکیوں سے گزرنا ہوتا ہے۔ لیکن وزیر اعظم ناتھن یا ہو نے ڈونالڈ ٹرمپ کے بیان کی حمایت نہیں کی ہے۔ جبکہ خلیج کی عرب ریاستوں کی حکومتوں نے ٹرمپ برانڈ اشیا کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اور ڈونالڈ ٹرمپ کے ساتھ تمام کاروباری تعلقات ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سعودی شہزادہ الو لید بن طلال  نے بھی ڈونا لڈ ٹرمپ کے بیان کی مذمت کی ہے۔ اور کہا ہے کہ انہوں نے اپنے ملک کی توہین کی ہے۔ شہزادہ الولید نے ڈونا لڈ ٹرمپ سے صدارتی امیدوار سے دستبردار ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔ لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کے اس بیان پر یہ اس قدر رد عمل کیوں ہو رہا ہے۔ حالانکہ شام عراق اور لیبیا میں خانہ جنگی سے لاکھوں مسلمان انتہائی تکلیف دہ حالات میں ہیں۔ ہزاروں مسلمان ان حالات سے تنگ آ کر یورپ میں پناہ لینے کی کو شش کر رہے ہیں۔ اس جدوجہد میں کتنے مسلمان خاندانوں نے راستے میں دم توڑ دئیے تھے۔ سینکڑوں مسلمانوں کی کشتیاں بحیرروم میں ڈوب گی تھیں۔ سینکڑوں عورتیں بچے ڈوب گیے تھے۔ سمندر کی موجیں انہیں مردہ حالت میں ساحل پر لائی تھیں جن میں بچے بھی شامل تھے ۔ جو زندہ تھے اور یورپ کے دروازوں تک پہنچ گۓ تھے۔ یورپ کے ملکوں نے انہیں خار دار تاروں کے پیچھے کیمپوں میں رکھا تھا۔ یہ مہاجر کیمپ جیسے Zoo نظر آ رہے تھے ۔ دنیا یہ مناظر دیکھ رہی تھی۔ لیکن اس پر دنیا کا وہ رد عمل نہیں تھا جو ڈونالڈ ٹرمپ کے بیان پر ہو رہا تھا۔ خلیج کے عرب حکمرانوں کا  مسلمانوں کے اس حالت زار پر کوئی رد عمل نہیں تھا۔ اور نہ ہی کسی سعودی شہزادے نے اس صورت حال کو اسلام کے لئے توہین کہا تھا۔
     انتہا پسندی کے خلاف تین بڑے مذاہب میں مکمل اتفاق ہے۔ اور انتہا پسندی کا خاتمہ کرنے میں یہ تین مذاہب ایک دوسرے سے تعاون بھی کر رہے ہیں۔ لیکن انتہا پسندی کی اس جنگ کی تہہ میں  تین بڑے مذاہب کے درمیان رہس کشی کی سیاست بھی ہو رہی ہے۔ سرد جنگ کے دوران تقریباً  پچاس برس تک مشرق وسطی میں اسرائیلی یہودیوں اور عرب مسلمانوں میں لڑائیاں ہوتی رہتی تھیں۔ جنہیں مغرب کے عیسائی ملک بالخصوص امریکہ Manage کرتا رہتا تھا۔ عربوں کے زخموں کی مرہم پٹی کرتا تھا اور اسرائیلی یہودیوں کی سیکورٹی کی ضرورتیں پوری کرتا تھا۔ لیکن نائن الیون اور پھرعراق پر اینگلو امریکی حملے کے بعد یہ سیاست تبدیل ہو گی ہے۔ مسلمانوں اور عیسائوں میں لڑائیاں ہونے لگی ہیں۔ عراق شام مصر لیبیا اور بعض دوسرے اسلامی ملکوں میں عیسائوں پر حملے ہونے لگے تھے۔ ان کے گرجے جلائے جا رہے تھے۔ مصر میں سلا فسٹ عیسائوں کے گلے کاٹ رہے تھے۔ داعش  شام میں عیسائوں کے گلے کاٹ رہا تھا۔ عیسائی عرب جو یہاں ہزاروں سال سے یہاں آباد تھے۔ اور ان کی بھی عرب ثقافت تھی۔ دہشت گردی کے خوف نے انہیں اس خطہ سے اپنی قدیم مذہبی وابستگی کو خیرباد کرنے پر مجبور کر دیا  تھا۔ ان کی ایک بڑی تعداد نے لا طین ملکوں میں اور مشرقی یورپ کے ملکوں میں سکونت اختیار کر لی ہے۔ مسلمانوں اور عیسائوں میں بڑھتی کشیدگی پر پوپ نے تشویش کا اظہار کرتے ہوۓ کہا تھا کہ مسلمانوں کو عیسائوں سے نہیں لڑایا جاۓ۔ پوپ نے اپنے کئی بیانات میں مسلمانوں کو اپنے بھائیوں اور بہنوں کی طرح بتایا تھا۔ پوپ مسجد میں بھی گۓ تھے اور وہاں بھی انہوں نے مسلمانوں اور عیسائوں کو بھائیوں طرح رہنے پر زور دیا تھا۔
      یورپ کے ملکوں کی پیشتر پارلیمنٹ نے گزشتہ سال فلسطین کی آزاد ریاست تسلیم کرنے کی قراردادیں منظور کی ہیں۔ جن میں برطانیہ فرانس جرمنی  اسپین اور اٹلی بھی شامل ہیں۔ لاطین امریکہ کے ملکوں نے پہلے ہی فلسطین کی آزاد ریاست تسلیم کر لی ہے۔ اور یہاں  فلسطین کے سفارت خا نے کھل گۓ ہیں۔ اوبامہ انتظامیہ نے شاید پہلی مرتبہ اسرائیل اور یہودی لابی کے بھر پور دباؤ کے باوجود ایران کے ساتھ ایٹمی سمجھوتے پر دستخط کیے ہیں۔ اور امریکہ کے مفاد کو اسرائیل کے مفاد پر فوقیت دی ہے۔ حالیہ چند سالوں میں امریکہ میں یہودیوں کے خلاف ایک خاموش مخالفت دیکھی جا رہی ہے۔ 2000 کے صدارتی انتخاب میں الگور کو فلوریڈا میں دھاندلی ہونے کی وجہ سے شکست ہوئی تھی۔ لیکن الگور کو ہرانے کی وجہ کچھ اور تھی۔ الگور آٹھ سال صدر کلنٹن کی سب سے کامیاب اور مقبول انتظامیہ میں نائب صدر تھے۔ کسی کو یہ بالکل یقین نہیں تھا کہ ان کے دور میں اقتصادی ترقی اور خشحالی کے باوجود وہ انتخاب ہار جائیں گے۔ الگور نے غلطی یہ کی تھی کہ انہوں نے سینیٹر جوزف  لیبرمین کو اپنا نائب صدر چنا تھا۔ اور سینیٹر لیبرمین یہودی تھے۔ اور امریکہ یہودی کو اتنا اعلی عہدہ دینے کے لئے تیار نہیں تھا۔ اگر الگور کو کوئی حادثہ پیش آ جاتا تو نائب صدر جوزف لیبر مین امریکہ کے صدر بن جاتے۔
      ری پبلیکن پارٹی کے کانگرس میں اکثریتی لیڈر Eric Cantor کو جو یہودی تھے ۔ اورریاست ورجینیا سے کانگرس مین تھے۔ گزشتہ سال کانگرس کے مڈ ٹرم انتخابات میں انہیں ری پبلیکن پارٹی کی پرائمری میں آخری موقعہ پر پارٹی کے ایک عیسائی ری پبلیکن کے ذریعے شکست دلائی گی تھی۔ کیونکہ Eric Cantor اگر منتخب ہو جاتے تو وہ کانگرس میں بدستور ری پبلیکن پارٹی کے اکثریتی لیڈر ہوتے۔ اور پھر اسپیکر بننے کی لائن میں سر فہرست ہوتے۔ اور امریکہ کے آئین کے تحت صدر اور نائب صدر کے بعد اسپیکر کا عہدہ اہم ہوتا ہے ۔ اگر صدر اور نائب صدر کو کوئی حادثہ پیش آ جاۓ تو اسپیکر پھر امریکہ کا صدر بن جاتا ہے۔
      عرب اسپرنگ کو ناکام کرنے کے بعد خلیج کے حکمرانوں اور اسرائیل میں De facto تعلقات قائم ہو گۓ ہیں۔ خلیج کے حکمرانوں اور اسرائیل میں اس خطہ کے اہم ایشوز پر سیاسی ہم آہنگی ہوتی جا رہی ہے۔ ایران پر دونوں ایک صفحہ پر ہیں۔ اسلامی انتہا پسندی پر بھی سعودی عرب کی قیادت میں خلیج کی ریاستوں اور اسرائیل کا ایک ہی موقوف ہو گیا ہے۔ سعودی عرب نے گزشتہ دنوں حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا ہے۔ حزب اللہ کے رہنماؤں کے بنک اکاؤینٹس منجمد کر دئیے ہیں۔ اور ان پر بندشیں لگا دی ہیں۔ حالانکہ لبنا ن کی حکومت حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم نہیں سمجھتی ہے۔ اور لبنا ن کی سلامتی کے لئے حزب اللہ کو ایک اہم فورس سمجھتی ہے۔ حزب اللہ نے لبنا ن کے علاقوں کو اسرائیل سے آزاد کرانے کی جنگ لڑی تھی۔ اس لئے بھی حزب اللہ کا لبنا ن کی سلامتی اور استحکام میں ایک رول ہے۔ حزب اللہ اسرائیل کے خلاف ہے اور ایران اور شام کے ساتھ اس کا الائنس ہے ۔ اس لئے بھی سعودی عرب نے حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے۔
      دوبئی نے اسرائیل کو International Renewable Energy Agency کا دفتر کھولنے کی اجازت دے دی ہے۔ تاہم  دوبئی نے کہا ہے کہ یہ اسرائیلی دفتر عالمی تنظیم کا حصہ ہو گا جس کا صدر دفتر بھی دوبئی میں ہے۔ اور اسے سفارتی مشن کا درجہ حاصل نہیں ہو گا۔ دوسری طرف بحرین کے امیر حما د بن عیسی الخلیفہ نے شاہی محل میں یہودیوں کا تہوار Hanukkah  منانے کا اہتمام کیا تھا۔ جس میں یہودیوں کے مذہبی رہنما بھی شریک ہوۓ تھے۔ اسرائیل کے تجارتی سینٹر پہلے ہی قطر اومان مراکش اور تونس میں موجود ہیں۔ اور اب ترکی کے صدر طیب اردگان نے بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کا اظہار کیا ہے۔ صدر اردگان نے کہا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات ہونے سے سارے خطہ کو فائدہ ہو گا۔ ترکی کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات پہلے سے تھے۔ لیکن 2010 میں اسرائیل کے ساتھ ترکی کے تعلقات غازہ جانے والے ترکی کے نیول  جہاز پر اسرائیلی حملے کے بعد یہ تعلقات منقطع ہو گۓ تھے ۔اس اسرائیلی حملے میں ترکی کے آٹھ شہری اور ایک ترکی نثراد امریکی شہری مارے گۓ تھے۔
      2016 میں مشرق وسطی میں نئی تبدیلیاں آئیں گی۔ سعودی عرب کی قیادت میں خلیج کے ملک اسرائیل کو تسلیم کرنے کے فیصلے کے قریب پہنچ گیے ہیں۔ سعودی عرب اگر یہ فیصلہ کرے گا تو کتنے دوسرے اسلامی ملک اس کی پیروی کریں گے اور یہ سوال سعودی عرب کو اسلامی دنیا کا رہنما ہونے کا اعتراف ہو گا۔ پاکستان کے لئے یہ ایک مرتبہ پھر بڑی آزمائش ہو گی۔ پاکستان کو اس صورت کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہنا چاہیے ۔ سعودی شاہ ایک مرتبہ پھر پاکستان سے اس سعودی   فیصلے میں شامل ہونے کی درخواست کریں گے۔ بھارت کے روئیے میں اچانک تبدیلی کا آنا بھی مستقبل میں مشرق وسطی میں ہونے والے اس فیصلے سے بڑی حد تک تعلق ہے۔ پاکستان اسلامی دنیا کا ایک بڑا ملک ہے۔ اور ایٹمی طاقت بھی ہے۔ اس لئے امریکہ کے روئیے میں بھی کچھ قربت نظر آ رہی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ سعودی عرب کی قیادت میں سنی اسلامی ملک کیا ایران کو تنہا کریں گے ؟ اور مشرق وسطی کو سنی شیعہ کی سیاسی محاذ آ رائی میں تقسیم کریں گے. ادھر یورپ اور امریکہ  بھی فلسطین کی آزاد ریاست تسلیم کرنے کا فیصلہ کریں گے۔         

Saturday, December 12, 2015

The Last Two Years of Obama Will Be Like The First Four Years of Bush

Terrorism And The Hopeless Muslims

The Last Two Years of Obama Will Be Like The First Four Years of Bush

مجیب خان





       صدر اوبامہ اپنی صدارت کے اب آخری سال میں آ گۓ ہیں۔ اور آئندہ سال دسمبر میں اس وقت ایک نئی انتظامیہ کو اقتدار منتقل کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہوں گی۔ یہ 380 دن صدر اوبامہ کے لئے بہت اہم ہیں ۔ صدر اوبامہ کے اقتدار کا یہ آخری Chapter ہے۔ اور یہ صدر اوبامہ کی Legacy کے لئے بھی بہت اہم ہے۔ صدر اوبامہ نے 2008 میں اپنی انتخابی مہم میں عراق جنگ ختم کرنے اور افغانستان میں طالبان کے خلاف جنگ کو فیصلہ کن بنانے کا اعلان کیا تھا۔ اسامہ بن لادن کو پکڑنے اور القاعدہ کا خاتمہ کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ صدر اوبامہ نے اپنے اقتدار کے پہلے چار سال میں عراق جنگ تو ختم کر دی تھی لیکن عراق کو سیاسی استحکام دیا تھا اور نہ ہی امن دیا تھا۔ اسامہ بن لادن کو بھی دریافت کر لیا تھا ۔اور ایبٹ آباد پاکستان میں امریکہ کے خصوصی دستوں کے آپریشن کے دوران بن لادن مارا گیا تھا۔ اوبامہ انتظامیہ کے لئے یہ ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔ صدر اوبامہ 2012 میں دوسری مرتبہ پھر صدر منتخب ہو گۓ تھے۔ اور 2014 میں صدر اوبامہ نے افغان جنگ ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن صرف دس ہزار فوجیں افغان سیکورٹی فوج کو تربیت دینے کے لئے افغانستان میں رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ جبکہ پانچ ہزار نیٹو فوجیں بھی افغانستان میں رکھنے کا اعلان کیا تھا۔ عراق کی طرح افغانستان میں بھی استحکام تھا اور نہ ہی امن تھا خانہ جنگی کی چنگاریاں ہر طرف سلگ رہی تھیں۔ صدر بش افغانستان کو جن حالات میں چھوڑ کر گۓ تھے ۔ با ظاہر یہ نظر آ رہا ہے کہ صدر اوبامہ بھی افغانستان کو شاید ان ہی حالات میں چھوڑ کر جائیں گے۔ تاہم افغانستان میں ایک سیاسی حل کے لئے کوششوں کا بوجھ پاکستان کے کندھوں پر ڈال دیا ہے۔ امریکہ کے لئے افغان جنگ نتیجہ خیز ثابت ہوئی ہے اور نہ ہی عراق جنگ کے نتائج امریکی عوام کے مفاد میں ثابت ہوۓ ہیں۔ امریکہ کے لئے یہ خسارے کی جنگیں تھیں ۔اور دنیا کے لئے یہ جنگیں تباہی کا باعث بنی ہیں۔
      بن لادن کے زندہ رہنے یا مرنے سے اسلامی انتہا پسندی میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔ بلکہ اسلامی ملکوں میں Regime Change فوجی حملوں سے اسلامی انتہا پسندی کو زیادہ فروغ ملا ہے۔ بے شمار نئے اسلامی انتہا پسند گروپ میدان میں آ گۓ ہیں۔ Regime Change کی لڑائیاں ان کے ملکوں میں لڑی جا رہی ہیں۔ لیکن مغرب اسلامی انتہا پسند گروپوں کا ٹارگٹ بن رہا ہے۔ Regime Change  سے دنیا کا ایک بڑا مسئلہ حل کیا گیا  تھا۔ لیکن اس کے نتیجے میں دس نئے مسئلے پیدا ہو گۓ ہیں۔ اس حوالے سے 3 دسمبر کو کیلیفورنیا میں دہشت گردی کا واقعہ نائن الیون کے بعد شاید دوسرا بڑا واقعہ تھا۔ جس میں 13 لوگ مارے گۓ تھے۔ اور 27 لوگ زخمی ہو ۓ تھے۔ کیلیفورنیا میں دہشت گردی کے واقعہ پر صدر اوبامہ نے 6 دسمبر کو امریکی عوام سے خطاب کیا تھا۔ جسے امریکہ میں تمام ٹی و ی چینلز نے دیکھا یا تھا۔ صدر اوبامہ نے اس خطاب میں کوئی نئی بات نہیں کی تھی۔ خطاب میں جو باتیں کی تھیں وہ نائن الیون کے واقعہ پر صدر بش کی باتوں کا دراصل ایک تسلسل تھا۔ اپنے خطاب   میں صدر اوبامہ نے مسلمانوں پر زور دیا کہ "وہ انتہا پسند آئیڈ یا لو جی کا مقابلہ کریں۔ یہ حقیقت ہے اور اس سے انکار نہیں کیا جاۓ کہ انتہا پسند آئیڈ یا لو جی بعض اسلامی معا شروں میں پھیل گی ہے۔ اور یہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اور مسلمانوں کو کسی عذر کے بغیر ان کا مقابلہ کرنا چاہیے۔"  
      لیکن مسلمان کس طرح کسی عذر کے بغیر انتہا پسند آ‏ئیڈ یا لوجی کا مقابلہ کریں کہ جب امریکہ کے اتحادی وہ بعض اسلامی معاشرے ہیں جو انتہا پسند آئیڈ یا لوجی پھیلانے میں سب سے آگے ہیں۔ دنیا کے ایک بلین مسلمان نہ تو انتہا پسند ہیں اور نہ ہی انتہا پسند آئیڈ یا لوجی میں یقین رکھتے ہیں۔ یہ مسلمان 80 کے عشرے سے امریکہ کی اس پالیسی کے سخت خلاف تھے کہ جب امریکہ نے بعض اسلامی معاشروں کے ساتھ مل کر اسلامی انتہا پسندی کی افغانستان میں سنگ بنیاد رکھی تھی۔ یہ انتہا پسند ی وہاں سے پھیلتے  پھیلتے اب یورپ اور امریکہ کے دروازے پر پہنچ گی ہے۔ صدر ریگن کے بعد امریکہ میں جو صدر آۓ تھے۔انہوں نے اس طرف توجہ نہیں دی تھی۔ بلکہ انہوں نے عراق میں Regime Change جنگ شروع کر دی تھی۔ لوگ مسجدوں کے ملاؤں کی باتیں سن کر اتنے انتہا پسند نہیں ہوتے ہیں کہ جس قدر جنگیں اور ہتھیار انہیں انتہا پسند بناتے ہیں۔
      نوے کے عشرے میں افغانستان سے زیادہ بڑی خانہ جنگی با سنیا میں مسلمانوں کے خلاف ہو رہی تھی۔ اور سرب فوجیں مسلمانوں کی نسل کشی کر رہی تھیں۔ صدر ایچ بش نے باسنیا میں مداخلت کرنے سے انکار کر دیا  تھا۔ اورباسنیا کے مسلمانوں کو ہتھیاروں کی فراہمی پر پابندی لگا دی تھی۔ لیکن صدر ایچ بش کی انتظامیہ میں عراق کے خلاف فوجی کاروائی کی  گی تھی۔ اور پا نا مہ پر حملہ کیا تھا۔ صدر نوریگا کو ان کے محل سے  ہتھکڑیاں لگا کر میا می لایا گیا تھا۔ اور یہاں انہیں نظر بند کر دیا تھا۔  پانامہ ایک خود مختار ملک تھا اور نوریگا اس کے قانونی صدر تھے۔ اس جا حا ریت کے ذریعے دنیا میں امریکہ کے نئے رول کو تعارف کرایا گیا تھا۔ اس کے بعد صدر بل کلنٹن کی انتظامیہ میں صدر صدام حسین کے خلاف امریکہ اور برطانیہ نے تین ہفتے تک بمباری کی تھی۔ یہ رمضان کا مہینہ تھا۔ اور لوگ سحری کے لئے اٹھتے تھے اور اس وقت بمباری ہونے لگتی تھی۔ سی این این اور دوسرے امریکی چینلز اسے براہ راست دکھاتے تھے۔ اس بمباری کا مقصد صرف صدام حسین سے سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد کرانا تھا۔ عراق کے خلاف امریکہ کے ان حملوں کا اسلامی معاشروں میں لوگوں میں ایک نفسیاتی ردعمل امریکہ سے نفرت اور انتقام پیدا کر رہا تھا۔ اور مسجدوں میں ملا لوگوں کے اس نفسیاتی ردعمل کو Exploit کرنے کی ترغیب دے رہے تھے۔ صدر کلنٹن کی انتظامیہ میں دوسری جنگ یوگوسلاویہ کے خلاف ہوئی تھی ۔ جس  میں نیٹو ملکوں نے بھی حصہ لیا تھا۔ با سنیا میں ایک لاکھ مسلمان مارے گۓ تھے۔

      پھر صدر جارج ڈ بلو بش کی انتظامیہ میں افغانستان میں طالبان کے خلاف جنگ شروع کی گی تھی ۔ اور انہیں اقتدار سے ہٹایا گیا تھا۔ یہ وہ ہی طالبان تھے جن سے سو ویت فوجوں کو شکست دینے کا کام لیا تھا۔ افغانستان میں سو ویت فوجوں سے جنگ اور پھر امریکہ اور نیٹو فوجوں سے جنگ میں تقریباً ایک ملین افغان مارے گۓ ہیں۔ جبکہ ہزاروں افغان بچے افغانستان میں صرف Land Mines سے آپا ہج ہو گۓ ہیں۔ افغانستان میں جنگ ابھی اختتام پر نہیں پہنچی تھی کہ صدر بش نے عراق پر حملہ کر دیا اور صدام حسین کا اقتدار ختم کر دیا۔ بش انتظامیہ کا یہ اقدام غیر قانونی تھا اور جا حا ریت تھی۔ عراق کو اس حملہ نے عدم استحکام کر دیا تھا۔ عراق میں انتشار اور سیاسی  افراتفری پھیلا دی تھی۔ اور عراق میں انتہا پسندی کو اس انتشار اور سیاسی افراتفری نے ایک مقام دیا ہے۔ صدر اوبامہ جب اقتدار میں آۓ تھے۔ دنیا کو ان سے بہت زیادہ امیدیں تھیں کہ صدر اوبامہ دنیا میں Civility لائیں گے۔ عالمی قانون کا وقار بحال کریں گے۔ دنیا کو جنگوں سے نجات دلائیں گے۔ صدر اوبامہ کی انتظامیہ صدر جارج بش کی انتظامیہ سے بہت مختلف ہو گی۔ مسلمانوں کو بھی صدر اوبامہ سے ایسی ہی امیدیں تھیں۔ انہیں یہ امید بھی  تھی کہ صدر اوبامہ اسلامی دنیا میں جمہوریت اور آزادی کو فروغ دینے کی پالیسیاں اختیار کریں گے۔  
      لیکن صدر اوبامہ بھی صدر بش کے راستے پر آ گۓ تھے۔ فرانس اور برطانیہ کے ساتھ مل کر صدر اوبامہ نے لیبیا پر حملہ کر دیا۔ اور صدر قدافی کی حکومت ختم کر کے لیبیا میں اسلامی انتہا پسندی کوUnleash  کر دیا۔ صدر بش نے عراق پر حملہ کر کے جو غلطی کی تھی۔ صدر اوبامہ نے لیبیا پر حملہ کر کے جیسے اس غلطی کو درست کرنے کی کوشش کی تھی۔ جس طرح ایک جھوٹ کو دوسرے جھوٹ سے سچ ثابت نہیں کیا جا سکتا ہے اسی طرح ایک غلطی کو دوسری غلطی سے درست نہیں کیا جاتا ہے۔ امریکہ، برطانیہ اور فرانس جب لیبیا پر حملہ کرنے جا رہے تھے ۔ کیا اس وقت انہیں اسلامی انتہا پسند آئیڈ یا لوجی کا علم نہیں تھا؟ حالانکہ مسلمان اس وقت چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ قدافی کے مخالفین اسلامی انتہا پسند ہیں۔ اور یہ لیبیا میں اسلامی ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں۔ کیا امریکہ برطانیہ اور فرانس نے ان کی بات سنی تھی۔  اور اب وہ مسلمانوں سے کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنے معا شروں میں انتہا پسند آئیڈ یالوجی کا مقابلہ کریں۔ اب شام میں بھی امریکہ برطانیہ اور فرانس یہ ہی کھیل کھیل رہے ہیں۔ پانچ سال سے اسلامی انتہا پسندوں کی پشت پنا ہی کر رہے ہیں۔  شام میں ایک نئے Sharif صدر پو تن نے انہیں داعش کی مدد کرتے پکڑ لیا تو امریکہ برطانیہ فرانس سب داعش پر بم گرانے آ گۓ ۔
       یہ مغربی ثقافتیں جو جمہوریت آزادی اور قانون کی بالا دستی میں یقین رکھتی ہیں۔ عرب دنیا میں لوگوں کو کیا یہ قانون کی بالا دستی کی تربیت دے رہے ہیں؟ یا انہیں ہتھیاروں کا قانون دے رہے ہیں؟ کیا امریکہ برطانیہ اور فرانس نے عرب دنیا کے تین سو ملین مسلمانوں سے پوچھا تھا کہ وہ لیبیا میں فوجی حملہ کر کے حکومت تبدیل کریں گے ؟ کیا شام کے 25 ملین لوگوں سے پوچھا تھا کہ وہ شام میں کس طرح کی تبدیلی چاہتے ہیں ؟ امریکہ نے خلیج کے چھ عرب حکمرانوں کے ساتھ ان کے محل میں کمرہ بند کر کے تین سو ملین عرب مسلمانوں کے لئے یہ فیصلے کیے تھے۔ یہ مسلمان تو کیلیفورنیا میں ان خاندانوں کے غم کو اپنا غم محسوس کر تے ہیں۔ کیونکہ تین لاکھ بے گناہ مسلمان شام میں مارے گۓ ہیں۔ دو ملین مسلمان عراق میں مارے گۓ ہیں۔ ہزاروں مسلمان عورتیں بچے مرد مہاجر کیمپوں میں مر رہے ہیں۔ لاکھوں مسلمان بچوں کا مستقبل تاریک ہو گیا ہے۔ سینکڑوں بے گناہ مسلمان ڈر ون حملوں میں مارے گۓ ہیں۔ ہزاروں مسلمان ایف 16 طیاروں کی بمباری میں مارے گۓ ہیں۔ مسلمانوں کے لئے یہ بہت بڑے غم ہیں۔
      اگر صدر اوبامہ عراق لیبیا شام یمن افغانستان کو امن دینے میں ناکام ہو گۓ ہیں۔ صدر اوبامہ کا عرب دنیا میں جمہوریت اور آزادی کا پیغام فیل ہو گیا ہے ۔ پھر یہ مسلمان جن سے صدر اوبامہ اسلامی انتہا پسند آئیڈ یالوجی کا مقابلہ کرنے کی اپیل کر رہے ہیں۔ وہ کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں ؟ صدر اوبامہ کے اقتدار کے آخری دو سال با ظاہر صدر جارج بش کے پہلے چار سال نظر آ رہے ہیں۔