عالمی امور
ایران عالمی برادری اور اسرائیل
مجیب خان
برطانیہ،فرانس،جرمنی،روس اور چین نے ایران کے ایٹمی پروگرام پر سمجھوتے کو قبول کرلیا ہے۔ لیکن امریکی کانگریس میں ابھی تک یہ بحث ہورہی ہے کہ اوبامہ انتظامیہ نے جن پانچ بڑی طاقتوں کے ساتھ ایران سے ایٹمی سمجھوتے پر دستخط کئے ہیں اسے مسترد کیا جائے یامنظور کیا جائے۔ یوروپی یونین نے ایران پر عائد پابندیاں ہٹالی ہیں۔ اور سلامتی کونسل نے بھی ایران کے ساتھ ایٹمی سمجھوتہ کی حمایت میں کسی مخالفت کے بغیر قرارداد منظور کرلی ہے۔اور ایران پر عائد اقوام متحدہ کی پابندیاں بھی ختم ہوگئ ہیں۔ایران قوموں کی برادری میں واپس آگیا ہے۔
تہران میں برطانیہ کا سفارت خانہ دوبارہ کھول گیا ہے۔اس موقع پر برطانیہ کے سیکریٹری خارجہ فلپ ہمونڈ ( Hammond) خصوصی طور پر تہران آئے تھے۔تہران میں بی بی سی سے انڑویو میں سیکریٹری خارجہ فلپ ہمونڈ نے کہا ایران اس خطہ کا ایک بڑا کردار ہے، ایک بہت اہم کردار ہے اور اسے تنہا کیسےرکھا جاسکتا ہے۔حقائق اس وقت زیادہ واضح نظر آتے ہیں جب انھیں طاقت کی بلندیوں سے نیچے اتر کر دیکھا جاتا ہے۔اور برطانیہ کو اب اس حقیقت کا احساس ہوا ہے کہ جب مشرق وسطی انتشار کی آگ میں جل رہا ہے۔
عراق میں مہلک ہتھیاروں کے بارےمیں جھوٹ سے حقائق چھپانے کے بجائے اگر حقائق کو سامنے آنے کا موقعہ دیا جاتا تو دنیا آج بہت بہتر ہوتی۔لیکن حقائق چھپائے گئے تھے۔اور طاقت کے بھرپور استعمال سے دنیا کو بہتر بنانے کے جو دعوی کرتے تھے۔وہ بھی جھوٹے نکلے ہیں۔۔انھوں نے دنیا سے یہ بھی کہا تھا کہ عراق میں حکومت تبدیل ھونے سے دنیا کو ایک بڑے Evil سے نجات مل جائےگی۔ لیکن ایک Evil ختم کرکے انھوں نے دنیا کو ہزاروں نئے Evil دیےدیئے ہیں۔
دنیا بہتر ہونے کے بجائے اتنی زیادہ خطرناک ہوگئ ہے کہ عرب خوفزدہ
ہیں۔اور ایک بہتر دنیا کی تلاش میں اپنے خاندانوں کے ساتھ نقل مکانی پر مجبور ہوگئےہیں عرب دنیا میں حالات جس سمت میں جارہے ہیں۔اور جس پیمانے پر خاندان نقل مکانی پر مجبور ہورہیے ہیں۔ یہ نظر آرہا ہے کہ بہت جلد عرب دنیا میں شہر ویران ہوجائیں گے۔ دنیا نے اس طرح حالات سے خوفزدہ ہوکر لوگوں کو اپنے گھروں اور اپنے ملک سے نقل مکانی کرتے نہیں دیکھا ہوگا۔
جنہوں نے عراق کےبارے میں دنیا سے جھوٹ بولےتھے۔ انھوں نے دنیا سے یہ بھی کہا تھا کہ دنیا میں جہاں بھی انسانی بحران پیدا ہوگا ۔مغربی طاقتیں وہاں انسانی بنیادوں پر مداخلت کرنے سے گریز نہیں کریں گی۔ لیکن عرب دنیا اور شمالی افریقہ میں انہی مغربی طاقتوں نے اکیسویں صدی کا انسانی بحران پیدا کیا ہے۔لوگ امن کی تلاش میں اس طرح جارہے ہیں کہ جس طرح لوگ ریگستان میں پانی تلاش کرتے ہیں۔
عرب دنیا کے موجودہ حالات میں اگر ایران میں حکومت تبدیل کر نےکے
1979کے حالات پیدا ہو جاتےہیں۔تو اس صورت میں مشرق وسطی کا سیاسی نقشہ کیا ہوگا؟ یہ حالات مشرق وسطی کو تیسری جنگ عظیم کے قریب لے جائیں گے۔
ایران کے ساتھ جو ایٹمی معاہدہ طے پایا ہے۔ وہ بڑی حد تک جرمنی اور جاپان کے ایٹمی پروگرام کے خطوط پر ہے۔ جرمنی اور جاپان کی طرح ایران بھی اپنے ایٹمی پروگرام کو صرف ریسرچ اور انرجی کے مقاصد میں استعمال کرے گا۔اگر یہ معاہدہ اسرایئل کے ساتھ ھوتا تو کانگریس اس معاہدے کی دوسرے ہی دن بھاری اکثریت سے توثیق کرچکی ہوتی۔لیکن اسرائیل اس معاہدے کے خلاف ہے۔ اس لئے کانگریس کے اراکین کی اکثریت بھی خواہ وہ اس معاہدے کو ایک معقول معاہدہ سمجھتے ہوں گے لیکن اسرائیل کے بھرپور دباؤ میں معاہدے کو مسترد کررہے ہیں۔
کانگریس کے سامنے اب ایک طرف امریکا کا پریزیڈنٹ ہے۔جو دنیا میں ایک طاقتور مقام رکھتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف اسرائیل ہے۔جیسےامریکا کھربوں ڈالرکی
امداد بھی دیتا ہے۔ امریکا کے قریبی اتحادی برطانیہ،فرانس،جرمنی کے سفیروں نے سسینٹ کی فارن ریلیشنز کمیٹی کے سامنے ایران کے ساتھ معاہدہ پر اپنا موقف بیان کیا تھا۔ان سفیروں نے سینٹروں کے سوالوں کے جواب دئے تھے۔اور کانگریس سے اس معاہدے کو منظور کرنے کی اپیل کی ہے ۔یہ امریکا کے قریبی اتحادی ملکوں کے سفیر تھے۔سینٹ کی فارن ریلیشنز کمیٹی کے سامنے ان سفیروں کے ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے کی حمایت میں دلیلوں اور وضاحتوں کے بعد کانگریس کو اس معاہدے کو بھاری اکثریت سے منظور کرنا چاہیے۔اور جیسا کہ ان کا پریزیڈنٹ بھی ان سے یہ اپیلیں کررہا ہے۔ لیکن کانگریس پر اسرائیل کا انفلوئنس خاصا ہے۔ کانگریس اگر اسے منظور کرے گی تو بہت معمولی ووٹ سے کرے گی۔
دنیا کے پیشتر سے زیادہ ملکوں نے ایران کے ساتھ ایٹمی سمجھوتے کا خیرمقدم کیا ہے۔لیکن اسرائیل واحد ملک ہے جس نے اس سمجھوتے کی مذمت کی ہے۔اور ابھی تک اس کی مخالفت کررہاہے۔ایران کے ساتھ یہ سمجھوتہ ہونے سے مشرق وسطی میں اسرائیل کے کیا اسڑیٹجک منصوبےالٹے ہوگئے ہیں؟