Tuesday, August 18, 2015

پاکستان کی داخلی سیاست بلا عنوان

 پاکستان کی داخلی سیاست     

بلا عنوان  

 مجیب خان


    ویسے تو پاکستان ہر طرح کے مسلوں میں خود کیفل ہے۔لیکن لندن میں پاکستانی نثراد برطانیہ کے شہری جو پاکستان کی ایک علاقائ جماعت کے رہنما ہیں۔پاکستان سے اب روٹھ گئے ہیں۔اور انھیں کس طرح منایا جائے اس وقت حکومت کے سامنے یہ سب سے بٹرا مسلئہ ہے۔
       وزیراعظم اپنی کابینہ کے سنیئر وزرا اور چوٹی کےدہنماؤں کے ساتھ سر جوڑے بیٹھےتھے۔اور سب اس پر غور کررہے تھےکہ انھیں اب کیسے منایا جائے۔آیا       کابینہ کے کسی وزیر کو  لندن بھیجا جائے؟ لیکن پھر  حکومت اور لندن میں مقیم ایم کیو ایم کے رہنما میں ثالثی کرانے کا ٹھیکہ مولانا فضل الرحمن کو دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔اور مولانا نے یہ  فیصلہ قبول کرلیا ہے۔
       ملا محمد عمر اس حسرت کے ساتھ دنیا سے چلےگئے کہ ان کی طا لبان جماعت اور صدر حامد کرزئی حکومت کے درمیان مولانا فضل الرحمان ثالثی کراسکتے تھے۔صدر کرزئ بھی ان کے ثالثی کی کوششوں کا ضرور خیرمقدم کر تے
لیکن مولانا مصالحت پسند ہیں ۔ بہرحال مولانا ایم کیو ایم کے رہنما سے ملاقات کرنے لندن  جانے کے لئے بھی تیار ہیں ۔
        دنیا میں بعض لوگوں کو خدا  عزت دیتا ہے۔ اور بعض لوگوں کو برطانیہ اور امریک عزت سے نوازتے ہیں۔اب ذوالفقار علی بھٹو کو کیونکہ خدا نے بے پناہ      عزت دی تھی اس لئے کسی مفتی یا مولوی نے جنرل ضیا الحق کی فوجی حکومت اور پیپلزپارٹی میں ثالثی کرانے کو شاید غیر اسلامی سمجھا تھا۔ اگربھٹو صاحب پاکستان کے بجائے عوام اور برطانیہ کے ہر دلعزیز ہو تے تو شاید   فوجی حکومت اور ان کے درمیان ثالثی ہو جاتی ۔
         فیڈل کاسترو خدا  نے دنیا میں جو عزت دی ہے۔وہ خدا جیسے عزت دیتا ہے اس کا ثبوت ہے۔اور خدا نے کاسترو کو بڑی پائیدار عزت دی ہے۔ کاسترو کو اپنی سیاسی زندگی میں کبھی زلت کاسامنانہیں ہوا ہے ۔سی آئ اے نے انھیں کئ مرتبہ زہر دینے کی سازش بھی کی تھی لیکن خدا نے انھیں ہر ایسی سازش سے بھی بچایا تھا۔اور خدا نے اب انھیں یہ عزت بھی دی ہے کہ ان کی زندگی میں امریکا ان کے ساتھ تعلقات بحال کرنے میں فخر محسوس کررہا ہے۔سیکرٹری خارجہ جان کیری خصوصی طور پر ہوانا امریکی سفارت خانے پر امریکا کا پرچم لہرانے آئے   تھے ۔اس روز کاسترو کی سالگرہ تھی اور وہ 89 برس کے ہوگئےتھے۔
بیسویں صدی کی سیاسی تاریخ میں فیڈل کاسترو کو ایک عظیم سیاسی مدبر ہونے  کا اعزاز حاصل رہے گا۔
        ایم کیو ایم کے رہنما پچیس سال سے ملک سے غیرحاضر ہیں۔ اور لندن میں ان کی رہائش ہے۔ان کے لندن میں بیٹھ کر پاکستان میں آن کی سیاسی سرگرمیاں برطانیہ کو پاکستان کی اندرونی سیاست میں ملوث ہونے کا موقعہ دے رہی ھیں۔اور کبھی یہ تاثر پیدا ہونے لگتا ہے کہ جیسے پاکستان کو برطانیہ کی نیم کالونی بنایا جارہا ہے۔ ایم کیو ایم کی ایک قیادت کراچی میں بھی ہے جو اسمبلیوں کے اراکین بھی ہیں۔ اور سیاست میں خاصے سرگرم ہیں ۔حکومت سے سیاسی مطالبےکرتےہیں۔اپنے مطالبے منوانے ہیں۔ سیاسی رہنماؤں سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔حکومت سے مذاکرات بھی کرتےہیں۔
         پھر حکومت ایم کیو ایم کی کراچی قیادت کو لندن میں اس کی قیادت سے رابطہ کا ذریعہ کیوں نہیں بناتی ہے۔حکومت صرف کراچی قیادت کو اہمیت دے۔صرف اس سے معاملات طےکرےاور کراچی قیادت خود لندن میں اپنے قائد سے صلاح و مشورے کرے۔حکومت کی جو پالیسی بلوچستان کے بارے میں ہے۔ جن بلوچ رہنماؤں نے لندن میں پناھ لیلی ہے۔ حکومت ان سے بات نہیں کرتی ہے بلکہ جو بلوچ  بلوچستان میں ہیں۔ حکومت انہیں سیاسی عمل میں لانے کے لئے صرف آن سے مذاکرات کرتی ہے۔ حکومت کو خصوصی کمیٹی تشکیل دینے کی ضرورت نہیں تھی۔ لندن میں ایم کیو ایم کے رہنما کو منانے کا کام ایم کیو ایم کی رابط کمیٹی سے لیا جاتا۔
          نو سال قبل بش انتظ میہ کے جنوبی ایشا کے امور کےاسیسٹنٹ سیکریٹری آف اسٹیٹ رچرڈ Boucher  نے صدر پرویز مشرف اور اور پیپلزپارٹی کی جلاوطن
قیادت کے درمیان ثالثی کرآئ تھی جس کے نتیجے میں صدر مشرف ،پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن میں سمجھوتہ ھوا تھاپاکستان کی اندرونی سیاست میں اس وقت امریکہ نے مداخلت کی تھی۔بیرونی مداخلت کا یہ دروازہ اتنا زیادہ کھل گیا تھا کہ پیپلزپارٹی کی حکو مت نے امریکہ میں پاکستان کا جس کو سفیر بنایا تھا۔ وہ واشنگٹن میں امریکہ کا سفیر بن کر کام کرنے لگے تھے۔
         آصف علی زرداری کا پاکستان میں اینٹ سے اینٹ بجانے والی تقریر کے بعد امریکہ آنے کا پروگرام تھا۔ لیکن دوبئ سے امریکہ آنے کے بجائے وہ لندن چلے گئے۔امریکہ کی جس لابی نے اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے جن اہل کاروں نےبینظربھٹو کی پاکستان واپس جانے میں مدد کی تھی۔وہ اب آصف علی زرداری کی ایک مرتبہ پھر اقتدار میں آنے کی کوششوں میں مدد کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔شاید امریکہ میں یہ موڈ دیکھ کر زرداری امریکہ آنے کے بجائے لندن چلے گئے ہیں۔
          صدر کارٹر ایک ٹرم کے بعد 1980 کا صدارتی انتخاب ہار گئے تھے۔اور پھر بارہ سال تک ڈیموکر ٹیس اقتدار میں نہیں آئے تھے۔ اور اب ریپبلیکن دو صدارتی انتخاب ہار چکے ہیں۔اور تیسرے صدارتی انتخاب میں بھی ان کی کامیابی کے امکان یقینی نہیں ہیں۔امریکہ میں اگر دو سے زیادہ سیاسی پادٹیوں کا نظام ہوتا تو تیسری پارٹی ظرور اقتدار میں آجاتی۔
            پاکستان میں انتخابات کیونکہ پانچ سال بعد ہوتے ہیں۔ لہذا پیپلزپارٹی کو پندرہ سال تک اقتدار میں نہیں آنا چاہیے۔پیپلزپارٹی کو انتہائ گھٹیا اقتدار کرنے کی سزا عوام اسے انتخابات میں مسترد کرکے دے سکتے ہیں۔جمہیوریت میں عوام  تمام اداروں سے بٹرا ادارہ ہوتے ہیں۔اور جب کوئ ادارہ حکمرانوں کا احتساب نہیں کرتاہے ۔پھر عوام کا ادارہ بیلٹ باکس سے آن کا احتساب کرتا ہے۔ حکمرانی کو صاف ستھرا بنانے کا عمل اب عوام کو شروع کرنا ہوگا۔ برادری ازم ،چودھری ازم ،سردار ازم جیسا کچرا جمہوری عمل سےنکال کر جمہوریت کا معیار  بلند کرنا ہوگا۔

No comments:

Post a Comment