بھارت کی پریشانی کیا ہے؟
مجیب خان
بظاہر پاکستان کے خلاف بھارت کا معاندانہ دباؤ بڑھتا جارہا ہے۔پاکستان کی سرحدوں پر بھارتی فوجوں کی گولہ باری روز کا معمول بن گئ ہے۔دونوں ملکوں کے تعلقات بہتر ہونے کے بجائے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔دہلی میں دونوں ملکوں کے مشیروں کی ہونے والی کانفرنس بھارت نے منسوخ کردی ہے۔پاکستان یہ بھی مدنظر رکھے کہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ،پینٹاگون اور قومی سلامتی امور میں بھارتی نژاد امریکی اہم پالیسی ساز عہدوں پر بیٹھے ہوئے ہیں۔جو اوبامہ انتیظامیہ کی جنوبی ایشیا بلخصوص بھارت پاکستان امور سے متعلق پالیسیوں میں معاونت کرتے ہیں۔
تنازعہ کشمیر 67 سال سے پاکستان بھارت تعلقات کے فروغ میں ایک بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔یہ تنازعہ اگر 65 سال قبل حل کرلیا جاتا تو آج دونوں ملکوں کے اس خطہ میں مفادات مشترکہ ہو سکتے تھے۔ یہ تنازعہ اگر 50 سال قبل تاشقند معاہدے کے تحت حل کرلیا جاتا تو آج اس خطہ کی سیاست کا نقشہ شاید مختلف ہوتا۔ یہ تنازعہ اگر 44 سال قبل شملہ معاہدے کے تحت حل کر لیا جاتا تو شاید آج دونوں ملکوں کو خوفناک بیرونی دہشت گردی کا سامنا بھی نہیں ہوتا۔اگربھارت اور پاکستان کے اچھے تعلقات ہوتے تو سوویت فوجیں شاید افغانستان میں نہیں آتیں۔اور اگر آگئ تھیں تو بھارت اور پاکستان اسے علاقائ امن اور استحکام کے مفاد میں سیاسی اور سفارتی طریقوں سے بہتر طور پر حل کر لیتے۔اور افغانستان سوویت فوجوں کے خلاف دہشت گردی کا اکھاڑہ بھی نہیں بنتا۔یہ خطہ آج آس صورت حال کے اثرات میں اسی طرح ہے کہ جس طرح ہیرو شیما اور ناگاساکی ستر سال بعد بھی اٹیم بم کی تباہی کے اثرات سے ابھی تک مکمل طور پر نکل نہیں سکیں ہیں۔
پاکستان بھارت کا ایک اھم ھمسایہ ملک ہے اور اھم ھمسایہ ملک کے ساتھ دروازےکبھی بند نہیں رکھے جاتے ہیں۔پاکستان نے جس دن چین کی کمیونسٹ حکومت کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور چین کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کئے تھے۔وزیراعظم جواہرلال نہرو نے اسی دن کشمیر کے تنازعہ پر اپنا موقف بدل دیا تھا ۔اور کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ آنگ کہنا شروع کردیا تھا۔اور اس وقت سے یہ بھارتی پالیسی تبدیل نہیں ہوئ ہے۔
حالانکہ بھارت نے بھی چین کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لئے تھے اور آج چین بھارت کا ایک بڑا ٹریڈنگ پارٹنر ہے۔اور دونوں ملکوں کے درمیان تجارت تقریباً سو بلین ڈالر پر پہنچ رہی ہے۔لیکن یہاں چین سے بھارت کو کوئ خطرہ نہیں ہے۔لیکن پاکستان میں چین کے اسٹرٹیجک اقتصادی مفادات بھارت کے لئے خطرہ بن گئے ہیں۔چین نے پاکستان کو 46 بلین ڈالر کا معاشی راہداری کا جو منصوبہ دیا ہے۔اس نے بھارت کی پریشانی میں اور اضافہ کردیا ہے۔
وزیراعظم مودی اس سال موسم بہار میں جب چین کے دورے پر گئے تھے ۔تو انھوں نے صدر شی جن پنگ سے پاکستان کے لئے 46 بلین ڈالر کےمعاشی راہداری کے منصوبے پر بھارت کی تشویش کا اظہار کیا تھا۔اور صدر شی سے اس منصوبہ کو منسوخ کرنےکی درخواست کی تھی۔لیکن صدر شی نے وزیراعظم مودی کو پاکستان کے ساتھ تعلقات استوار کرنے اور بھارت کو بھی معاشی راہداری کے منصوبے میں شامل ھونے کی پیشکش کی تھی۔
بھارت معاشی راہداری منصوبہ کے کیوں خلاف ہے؟ پاکستان کو جب فوجی ہتھیار دینے کے منصوبہ کا اعلان کیا جاتا ہے۔ بھارت اس کی مخالفت کرتا ہے؟پاکستان کے لئے معاشی راہداری کا منصوبہ بھارت کے مفاد میں کیوں نیہں ہے؟معاشی راہداری کے منصوبہ پر عملدرامد ہونے سے بھارت کو جنوبی ایشیا سے اپنا بستر بوریا لپیٹنا پڑے گا۔جنوبی ایشیا میں چین کا اثر خاصا بڑھ جائے گا۔اور جنوبی ایشیا جس کے اثر میں ہوگا وسط ایشیا بھی اس کے حلقہ اثر میں ہوگا۔بھارت کشمیر سے ایک انچ پیچھےہٹنا نہیں چاہتا ہے۔لیکن جنوبی ایشیا اس کے قدموں سے کھسک رہا ہے؟بھارت اس بوکھلاہٹ میں مبتلا ہے۔اور اس بوکھلاہٹ میں بھارت پاکستان کے اندر سے، پاکستان کے باہر سے، پاکستان پر اوپر سے بھرپور دباؤ ڈالنے کے پتے کھیل رہا ہے۔ تاکہ کسی طرح معاشی راہداری منصوبہ پر عملدرآمد نہ ہو سکے۔
متحدہ عرب امارات بھارت کے ہاتھ میں ایک نیا پتہ ہے۔اس معاشی راہداری منصوبہ پر دونوں ملکوں کے مفادات مشترکہ ہوگئے ہیں۔گوادر میں ایشیا کی سب سے بڑی بندرگاہ تعمیر ھونے پر امارات زیادہ خوش نہیں ہے۔اس کے علاوہ بعض دوسرے ایشوز بھی ہیں جن پر دونوں ملکوں کے کچھ اختلافات ہیں۔
وزیراعظم مودی کے دورہ امارات کے دوران پاکستان کو جیسے یہ اشاریے دئے گئے تھے کہ امارات کے پاس 800 بلین ڈالر انویسٹمینٹ فنڈز ہیں۔اور پاکستان اگر اپنی پالیسی تبدیل کریے تو امارات پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔
امریکا اس وقت صورت حال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔اور حالات کا جائزہ لے رہا ۔سوال یہ ہے کہ کیا بھارت پاکستان پر دباؤ کے لئے امریکا کو اسی طرح استعمال کرے گا کہ جس طرح اسرائیل نے ایران پر دباؤ کے لئے امریکا کو استعمال کیا تھا؟صدر اوبامہ نے وزیراعظم نواز شریف کو اکتوبر میں وائٹ ہاؤس میں ملاقات کے لئے دعوت دی ہے۔امریکا کو روس اور پاکستان کے درمیان بڑھتے ہوئے فوجی اور اقتصادی تعلقات پر بھی تشویش ہوگی۔
اب پاکستان سے اگر یہ کہا جائے کہ بھارت کشمیر کا تنازعہ حل کرنے کے لئے تیار ہے۔ لیکن پاکستان کو چین کے ساتھ معاشی راہداری کے منصوبے کو سرد کرنا ہوگا؟ اس پیشکش پر وزیراعظم نواز شریف حکومت کا جواب کیا ہوگا؟
Great post
ReplyDeleteكوشوانت سينغ كتب الكاتب قبل كل شيء باللغة الإنجليزية رواية قطار لباكستان. تم تعيين ذلك خلال خلفية التقسيم وشمل القطار من أمريتسار إلى لاهور. كان ذلك عملا خياليا، لكن الهند وباكستان كانتا قطارين متكررين بين لاهور وكراتشي ومومباي ودلهي.
ReplyDelete