پاکستان کی داخلی سیاست
آصف علی زرداری جواب دیں
مجیب خان
پاکستان میں تھرڈ کلاس اقتدار کرنے کی مثال قائم کرنے کے بعد
سابق صدر آصف علی زرداری نے لندن سے یہ بیان جاری کیا ہے کہ نواز شریف نے ماضی سے کچھ سبق نہیں سیکھا۔انہوں نے 1990 کی دہائ کی سیاست کا پھر آغاز کردیا ہے۔انہوں نے ایک آنکھ سے واشنگٹن کی جانب اور دوسری آنکھ سے10ڈاؤننگ آسڑیٹ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ نواز شریف طالبان کے قدرتی ساتھی ہیں۔ اور انہیں بچانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔سابق صدر زرداری نےکہا کہ نواز شریف حقیقی دشمن کو چیلنج کرنے کے بجائے پیپلزپارٹی اور دیگر سیاسی مخالفین کو نشانہ بنارہے ہیں۔ پھر انہوں نے اینٹ سے اینٹ بجانے والےلہجے میں نواز شریف کو دھمکی دی کہ اگر انتقامی سیاست کا یہ سلسلہ جاری رہا تو اس کے سنگین نتائج ہوں گے۔صدر زرداری نے تاہم یہ نہیں کہا کہ انھیں ایک دن جانا ہے۔ لیکن ہمیں یہاں رہنا ہے۔ نواز شریف کہیں نہیں جائیں گے بلکہ انکے ساتھ ہی رہیں گے۔اور جہاں تک سنگین نتائج کی زمہ داری کا سوال ہے۔تو 1990سے اس کے دونوں زمہ دار ہیں؟
نظر یہ آرہا ہے کہ پیپلزپارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری زہنی طور پر عدم توازن کا شکار ہیں۔اوپر سے کرپشن کا خوف انھیں پریشان کئے ہوئے ہے۔ان کے سیاسی اسٹاک مسلسل گرتے جارہے ہیں۔ پیپلزپارٹی بھی اب جماعت اسلامی کے مقام پر آگئ ہے۔عمران خان کی پارٹی کے سیاسی اسٹاک اوپر جارہے ہیں۔پاکستان کی سیاست پر اس وقت پی ٹی آئ اور مسلم لیگ ن غالب جماعتیں نظر آرہی ہیں۔ زرداری نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ ماضی میں ہر حکو مت میں پیپلزپارٹی کو ختم کر نے کی کوشش کی گئ تھی۔لیکن یہ زرداری حکومت تھی جس میں ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلزپارٹی کو ختم کیا گیا ہے۔اور پیپلزپارٹی کو زرداری کی پارٹی بنادیا ہے۔
جنرل ضیاالحق کا فوجی اقتدار ختم ہونے کے بعد نوے کے عشرے میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن حکومت میں آتی اور جاتی تھیں۔ان دونوں پارٹیوں نے جنرل ضیا حکومت کی افغان پالیسی تبدیل کی تھی اور نہ ہی مسجدوں اور مدرسوں کی انتہاپسندی کا نظام تبدیل کیا تھا۔ یہ بیسویں صدی کا آخری عشرہ تھا۔ لیکن دونوں سیاسی جماعتوں کے پاس پاکستان کو اکیسویں صدی میں لے جانے کا کوئ پروگرام تھا اور نہ ہی انھوں نے اس بارے میں کبھی سوچا تھا۔ پاکستان آج جن مسائل کا سامنا کررہا ہے۔ ان میں سے پیشتر مسائل نوے میں حل ہونا چاہئے تھے۔ لیکن اقتدار میں دونوں پارٹیاں صرف لوٹ کھسوٹ کے منصوبوں پر کام کرتی تھیں۔جس طرح وہ حکومت کرتی تھیں۔ نتائج بھی اسی طرح سامنے آتے تھے۔
گیارہ سال بعد تیسری مرتبہ پیپلزپارٹی جب پھر اقتدار میں آئ تھی تو اس کے قائدین نے یہ سمجھا تھا کہ جیسے 1990 دوبارہ آگیا ہے۔ کرپشن میں کوئ فرق نہیں آیا تھا۔حکو مت کی کارکردگی میں بھی کو ئ فرق نہیں تھا۔ عوام تیسری بار پھر بیوقف نظر آرہے تھے۔ آصف علی زرداری نے پاکستان کا صدر بن کر ملک کو کیا دیا ہے؟ اور عوام کو کیا دیا ہے؟
پیپلزپارٹی کونسے اداروں کی بات کرتی ہے؟عدلیہ، پارلیمنٹ،فوج ہی صرف ملک کے ادارے نہیں ہیں بلکہ ملک بھی ایک ادارہ ہے۔ ملک کے اندر عوام کی فلاح و بہبود سے متعلق ادارے ہیں۔ ملک کا نظم و ضبط بھی ایک ادارہ ہے۔ عوام کے جان و مال کا تحفظ بھی ایک ادارہ ہے۔ ان اداروں کو سب سے پہلے مستحکم بنانا چاہئے تھا۔لیکن حکومت نے ان اداروں کو استحکام دینے سے غفلت برتی تھی۔ اور حکو مت کا صرف اداروں کو اپنی حدود میں رہے کر کام کرنے کا اصرار ایسا ہی تھا کہ جیسے امریکا کا دہشت گردی کی نام نہاد جنگ میں پاکستان سے ڈو مور (do more) کا اصرار ہوتا تھا۔
پانچ سال دور اقتدار میں پیپلزپارٹی نے پی آئ اے، اسٹیل مل، ریلوے، واپڈا، ایجوکیشن،صحت عامہ، پولیس جیسے اداروں میں سے کسی ایک ادارہ کو بھی نہیں بنایا تھا۔پا نچ سال تک صدر، وزیراعظم اور ان کے وزرا دعوتیں کھاتے رہے۔سیر و تفریح کرتے رہے۔اور ان اداروں کو تباہ حال چھوڑ کر گئے تھے۔ اگر پیپلزپارٹی کی حکومت ان اداروں کو ختم ہونے کے دہانے چھوڑ کر نہیں جاتی تو زرداری کو آج یہ نظر نہیں آتا کہ پیپلزپارٹی کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے؟ سیاسی پارٹیاں بھی ان اداروں کی طرح ہوتی ہیں۔
پارٹی کے پانچ سالہ دور میں زرداری صاحب اپنی حکومت کے صرف وہ فیصلے بتائیں جو عوام کی بہبود میں کئےتھے؟ جو عوام کی ترقی اور خوشحالی میں کئے گئے تھے؟ جو عوام کی حفاظت اور سلامتی میں کئے گئے تھے؟زرداری حکومت کا یہ کہنا ہے کہ ان کی حکومت میں سیاسی مخالفین کو نظربند نہیں کیا گیا تھا۔ کوئ سیاسی قتل نہیں ہوا تھا۔لیکن دہشت گرد جب لوگوں کو اغوا کررہے تھے ۔جب دہشت گرد سیاسی اور مذہبی بنیاد پر لوگوں کو قتل کررہے تھےتو حکومت کو یہ کام کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ حکومت نے امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو پاکستان کی جنگ بنادیا تھا۔دہشت گردوں کے لئے ملک کی سرحدیں کھول دی تھیں۔
ایک جمہوری حکومت کے دور میں دہشت گردوں کی انار کی تھی۔ جس طرح آرمی، آئ ایس آئ، نیوی، ائیر فورس کو ٹارگٹ بنایا جارہا تھا۔ اس نے ملک کی بنیادیں ہلا دی تھیں۔ جیسے پاکستان کو عراق، شام اور لیبیا بنایا جارہا تھا۔کراچی سندھ، بلوچستان،اور پختون خواہ کے حالات اسی رخ میں جارہے تھے۔پاکستان کے خلاف اندرونی اور بیرونی سازشوں کو صرف پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں نے ناممکن بنایا ہے۔اگر پاکستان کے پاس یہ ایٹمی ہتھیار نہیں ہوتے تو پاکستان آج عراق، شام اور لیبیا بنا ہوا ہوتا؟
اور آج یہ فوج ہے جس نے سیاسی قائدین کو حب الوطنی کے راستے پر رکھا ہوا ہے۔ فوج کی یہ اسٹرٹیجی بہت کامیاب ہے۔ یہ اسٹرٹیجی جمہوریت کا عمل جاری رکھنے میں مدد کررہی ہے ۔ فوج کی اس اسٹرٹیجی کی وجہ سے پاکستان 1990 کے دور میں کبھی نہیں جائے گا۔
No comments:
Post a Comment