علاقائ امور
کشمیر ہی نہیں بھارت کے عزائم بھی مسلہ ہے
مجیب خان
وزیراعظم نوازشریف نے وزیراعظم نریندر مودی کے لئے پہلے آموں کی پٹیاں بھیجی
تھیں۔ پھرروس میں کانفرس کے دوران سائیڈ
لائن پر وزیر اعظم مودی کےآگے سرجھکا کر اور آنکھیں بند کرکے کھڑے ہوگئے تھے۔ پھر
پاکستان کے
کمانڈروں نے تین روزتک دہلی میں بھارتی کمانڈروں کےساتھ سرحدی خلاف ورزیوں کو
روکنے کے لئے مذاکرات کئے تھے۔ جس کے بعد دونوں ملکوں کے کمانڈروں میں یہ معاہدہ
ہوا تھا کہ آئندہ ایک دوسرے پر گولہ باری اور فائرنگ کے واقعات سے گریز کیا جائے
گا۔ارو دونوں ملک اس معاہدے پر عملد رامد کریں گے۔
لیکن پاکستان کے آموں کی مٹھاس وزیراعظم مودی کے روئیے میں مٹھاس لاسکی۔اور نہ
ہی وزیراعظم نوازشریف کا وزیراعظم کے آگے سرجھکا کر اور آنکھیں بند کرکے مودبانہ
کھڑاہونا ان کے سیاسی برتاو میں لچک پیدا کرسکا تھا۔ادھر پاکستان کےکمانڈ ر دہلی
میں بھارتی کمانڈروں کے ساتھ فائربندی کا معاہدہ کرنےکے بعد ابھی اسلام آباد
ائیرپورٹ پرطیارےسےباہر آئےتھے کہ بھارتی فوجوں نے پاکستان کی سرحدوں کے اندر
فائيرنگ شروع کردی تھی۔ بھارت کی یہ کیا پالیسی ہے؟ بھارت جنگ چاہتا ہے؟امن چاہتا
ہے؟يا برصغیر کو جنگ اور امن کے ماحول میں رکدنا چاہتا ہے؟جبکہ پاکستان پہلے ہی
ایک جنگ لڑرہاہے اور دوسری جنگ اس کے لئے مشکل نہیں ہوگی۔ اور بھارت کو پتہ ہے کہ
پاکستان کے ساتھ جنگ اس کے لئے اقتصادی خود کشی ہوگی۔ بھارت نے بیس پچیس سالوں میں
جو ترقی کی ہے وہ پاکستان کے ساتھ صرف بیس پچیس روزکی جنگ میں پچیس تیس سال
پیچھےہو جائے گی اور بھارت یہ جانتاہے۔
پاکستان
کے سیاستدانوں کی کمزوریوں سے بھارت دراصل فائدہ اٹھا رہا ہے۔سیاسی حکومت بھی
کمزور ہے۔ اور پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی سیاست بھی کمزور ہے۔سابقہ سیاسی حکومت بھی
موجودہ حکومت سے زیادہ مختلف نہیں تھی۔ پانچ سال تک سابق حکومت وزیراعظم من موہن
سنگھ سے پاکستان آنے کےلئے خوشامدیں کرتی رہی تھی ۔ اور اب وزیراعظم نوازشریف وزیر
اعظم مودی کے آگے سرجھکا کر اور آنکھیں بندکرکے دلہن بن جاتے ہیں۔ بھارتی اس لئے
اکڑ رہے ہیں۔ اور پاکستان کےسرپرچڑھے جارہے ہیں۔ ادھر امریکا کا لاڈ اور پیار بھی
انھیں بگاڑ رہا ہے۔ بھارت پاکستان کی سرحدوں کے اندر بمباری اور فائرنگ سے فوج کو
جیسے ادارے کے اندررکھنے میں کمزور سیاستدانوں کی مد د کررہا ہے؟
بھارتی رہنماوں سے صرف ذوالفقارعلی بھٹو
جیسا لیڈر ہی بات کرسکتا تھا۔ جو د ہلی سینہ تان کر گئےتھے۔ پاکستان کی نوے ہزار
فوج بھارت کی تحویل میں تھی۔ اور اندرا گاندھی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بھٹونے
اپنے فوجیوں کی واپسی کا مطالبہ کیا تھا۔اور بھٹو نے اند راگاندھی کو فوجیوں پر
جنگی جرائم میں مقدمہ چلانے سے بھی متنبہہ کیا تھا۔ بھٹو کے دبدبے کو دیکھ کر
اندراگاندھی سوچنے لگی تھیں کہ کیا واقعی جنگ بھارت نے جیتی ہے۔ بھٹو کی شخصیت میں
ایک مضبوط قیادت کا رویہ دیکھ کر اند راگاندھی ڈھیلی پڑگئ تھیں۔اند راگاندھی نے
میدان جنگ میں جوکامیابی حاصل کی تھی بھٹو نے سیاست کے محاذ پر اسے بھارت کی
ناکامی میں بدل دیا تھا۔
پاکستان میں ایسے لیڈروں کا فقدان ہونے کی
وجہ سے بھارت پاکستان کی کامیابیوں کےسامنے رکاوٹیں بنا ہوا ہے۔اور پاکستان نے جو
کامیابیاں حاصل کی ہیں انھیں ناکام بنا رہا ہے۔لیکن بھارت پاکستان کی مارکیٹ چاہتا
ہے۔اورپاکستان کے ساتھ تجارت کا فروغ بھی چاہتا ہے۔اور پاکستان سے بھارت کو ایک
پسندیدہ ملک تسلیم کروانا چاہتا۔لیکن پاکستان کی کامیابیوں کواستحکام دینے میں
بھارت کو کوئ دلچپسی نہیں ہے۔کراچی میں رینجرزکے آپریشن کے دوران یہ ثبوت ملے ہیں
کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی را پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث تھی۔کراچی
میں ایک اعلی پولیس افسرنے بھی اپنی تحقیقات کےبعد یہ رپورٹ دی تھی کہ کراچی میں
دہشت گردوں کو بھارت میں تربیت دی گئ تھی۔ یہ دہشت گرد تربیت لینے بھارت جاتے تھے۔
یہ شواہد بڑی تفصیل سے بیان کئے گئے تھے۔جبکہ برطانیہ کی MI6
بھی اس میں ملوث تھی اور اس کے بھی ثبوت دئے گئےتھے۔برطانیہ نے اپنی
صفائ میں ایک رپورٹ تیار کی اور پھراسے بی بی سی پر دیکھایا کہ بھارت کس طرح
پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث تھا۔ بی بی سی نے یہ رپورٹ دیکھانے سے
پہلے بھارتی حکومت کو اعتماد میں لیا ہوگا۔ اس لئے بھارتی حکومت نے بی بی سی کی اس
رپورٹ پرخاموشی اختیار کی تھی۔پاکستان میں بی بی سی کی رپورٹ پرمیڈیا کی حد تک کئ
روزشور رہا۔حکومت کے بعض وزرا نے بھارت کی مذمت میں بیان دئیے تھے۔حکومت نے
پاکستان کے اندر دہشت گردی کی سرگرمیوں میں بھارتی را کےملوث ہونےکے ثبوت اقوام
متحدہ میں پیش کرنے کا اعلان کیا تھا۔اور
یہ معاملہ بظاہر ٹھنڈا پڑگیا ۔وزیراعظم نوازشریف کی حکومت یہ کہہ تو رہی ہے کہ وہ
دہشت گردی کے واقعات میں بھارتی را کے ملوث ہونے کے مسلے کو اقوام متحدہ میں
اٹھائےگی۔لیکن اس وقت اسلامی ملکوں میں غیرملکی خفیہ ایجنسیوں کی سرگرمیوں کے بارے
میں شکایتوں سے اقوام متحدہ کی تھالی بھری ہوئ ہے۔
ایسے اہم اور احساس امور کو صرف بیانات کی حد
تک نہیں رکھا جاتا ہے بلکہ کچھ ٹھوس کام کئے جاتے ہیں۔وزیراعظم نواز شریف پارلمینٹ
کا ایک مشترکہ اجلاس بلاتے اور غیرملکی سفیروں بلخصوص نیٹوملکوں کے سفیروں
کوپارلمینٹ کی گیلری میں بیٹھاتے۔اور پھر ایک زور دار تقریرمیں ٹھوس دلائل کے ساتھ
اپنا کیس ان کے سامنےپیش کرتے کہ افغانستان میں بھارت کی پاکستان کے خلاف مسلسل
سرگرمیوں کی وجہ سےہم سب کوکس طرح شکست ہوئ ہے ؟ امریکا نے ہمیں جب AFPAK کہا تھا تو اس کا مطلب یہ تھا کہ ہمارا امن افغانستان
کے استحکا م سے منسلک تھا۔
لیکن بھارت جو پاکستان کے امن کو تہس نہس
کرنے کی سرگرمیوں میں مصروف تھا۔ اس صورت میں افغانستان میں استحکام کیسے آسکتا
تھا۔ بھارتی را کے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونے کےثبوت حکومت نے
امریکا اور نیٹو ملکوں کے سول اور فوجی حکام کوفراہم کئے تھے۔ پاکستان نے یہ ثبوت
سابق وزیراعظم من موہن سنگھ کو بھی دیئے تھے۔ لیکن آخر میں ہمیں جیسے یہ تاثر ملا
تھا کہ افغانستان کو استحکام دینے سے زیادہ انھیں پاکستان کا امن تباہ کرنے میں دلچپسی تھی۔
افغان جنگ کےچودہ سال بعد ہمیں افغانستان میں
کیا نظر آرہا ہے۔ہم سب نے ایک دوسرے کو ناکام کیا ہے۔ازبک اور تاجک جو بھارت کے
زیادہ قریب تھے بھارت نے انھیں ناکام کیا ہے۔ ازبک اور تاجک نے پختونوں کو ناکام
کیا ہے۔پختونوں نے اپنی پختون حکومت کو ناکام کیا ہے۔افغان وارلارڈ نے اپنے عوام
کو ناکام کیا ہے۔ امریکا نے پاکستان کو ناکام کیاہے۔ پاکستان کے حکمرانوں نے اپنے
عوام کو مایوس کیا ہے۔ نیٹو نے امریکا کو ناکام کیا ہے۔اور طالبان نے اسلام کو ناکام
کیا ہے۔ اور یہ افغان جنگ کی ناکامی کے حقائق ہیں۔
وزیراعظم پھر امریکا سے مخاطب ہوکر کہتے کہ
پاکستان نے بش انتیظامیہ کی ان یقین دہانیوں کے بعد بھارت کے ساتھ اپنی سرحدوں سے
ستر ہزار فوج ہٹا کر افغانستان کے ساتھ اپنی سرحد پر لگائ تھی۔بش انتیظامیہ نے
پاکستان کو یہ ضمانت بھی دی تھی کہ پاکستانی فوجوں کی شمال مغربی سرحدوں پر طالبان اور القاعدہ کے
خلاف کاروائیوں کے دوران بھارت پاکستان پر حملہ نہیں کرے گا۔لیکن بھارت تین ماہ سے
ہماری مشرقی سرحد پر مسلسل شیلنگ کررہا ہے۔ہمارے متعد د شہری اس بھارتی جارحیت کے
نتیجے میں شہید ہو گئے ہیں۔ ہماری فوجیں اس وقت شمال مغربی سرحدوں پر د ہشت گردوں
کے خلاف ضرب عضب مشن میں مصروف ہیں اورہماری مشرقی سرحد پر بھارت کی شرانگیزیاں
دہشت گردی ہے۔لیکن پاکستان کو بڑے دکھ کے ساتھ یہ کہنا پڑرہا ہےکہ امریکا نے ہم سے
جو عہد کیا تھا اسے پورا نہیں کیا ہے۔حالانکہ اوبامہ انتظامیہ نےافغان جنگ کو اپنی
جنگ بنالیا ہے۔ لیکن بش انتظامیہ نے اس جنگ میں پاکستان سےجوعہد کیا تھا۔ اسے پورا
نہیں کیا ہے۔ اوبامہ انتظامیہ کوپاکستان کی سرحدوں پربھارت کی مسلسل شرانگیزیوں کو
روکنا چاہیے تھا۔
ہم جانتے ہیں کہ بھارت ہمیں اقتصادی ترقی
میں آگے آنے نہیں دینا چاہتا ہے۔ہم بھارت کے مقابلے میں ذیادہ تیزی سے ترقی کرسکتے
ہیں۔کیونکہ ہماری آبادی بھارت کے مقابلے میں بہت کم ہےاقتصادی ترقی کا ایک ڈھانچہ
ہمارے ملک میں موجود ہے۔ جبکہ بھارت کو اقتصادی ترقی کے لئے ایک ڈھانچہ تشکیل دینے
کےلئے اقتصادی کرنا پڑرہی ہیں ۔دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر ہی ایک تنازعہ نہیں
ہے۔ بھارت کے عزائم بھی ہمارے لئےتنازعہ بنے ہوئے ہیں؟
No comments:
Post a Comment