Tuesday, September 8, 2015

کیا یہ مسلمانوں کی صدی ہے؟

         عالمی آفئر

         کیا یہ مسلمانوں کی صدی ہے؟
  
         مجیب خان


          1990 میں صدام حسین کی فوجوں نے کویت پر قبضہ کر لیا تھا۔ کویت شہر تقریباً خالی ہوگیا تھا۔ہزاروں کی تعداد میں کوتیوں نے ہمسایہ ملکوں میں پناہ لے لی تھی۔ان میں شاہی خاندان کے افراد بھی شامل تھے۔مغربی میڈیا میں کویت میں صدام حسین کی فوجوں کے ظلم و بربریت کی داستانیں سرخیاں بن رہی تھیں۔عراقی فوجوں کی بربریت کا ایک واقعہ صدر جارج ایچ بش نے وائٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ صدام کی فوجیں کویت شہر کے ایک ہسپتال میں Incubators سے معصوم بچوں کو نکال کر کس طرح پھینک رہی تھیں۔صدر بش نے اسے اتنے درد انگیز لہجے میں بیان کیا تھا کہ کانگریس یہ سن کر بڑی متاثر ہوئ تھی۔ اور کانگریس نے صدر بش کو فورآ عراق کے خلاف فوجی کاروائ کرنے کا اختیار دے دیا تھا۔ حالانکہ کویت شہر میں ایسا کوئ واقعہ نہیں ہوا تھا۔ واشگٹن میں کویت کے سفیر کی صاحبزادی کو سی آئ اے نے یہ بریفنگ دے کر سینٹ کی فارن ریلیشنز کمیٹی کے سامنے تصدیق کرنے بھیجا تھا۔
          اب ایک معصوم شامی بچہ اپنے باپ ماں اور پانچ سالہ بھائ کے ساتھ  جو شام میں مذہبی انتہا پسندوں  کی بربریت سے تنگ آکر شام سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔اور ہزاروں دوسرے شامی باشندوں کے ساتھ یوروپ میں پناہ لینے کیےلئے ایک کشتی میں سوار ہوئےتھے بدقسمتی سے یہ کشتی یوروپ کے قریب سمندر میں غرق ہوگئ ۔ اور یہ بچہ اس کا پانچ سالہ بھائ اور اس کی ماں سمندر میں  ڈوب گئے تھے۔ اور اس تین سالہ بچہ کو سمندر کی موجیں ساحل پر لے آئ تھیں۔یہ شامی بچہ یوروپ کی ساحل پر جس طرح مردہ پایا گیا تھا۔ اسے دیکھ کر ذہین میں یہ آرہا تھا کہ اس ننے مننے کو انسانیت کے دشمنوں نے جیسے Incubator سے نکال کر یہاں پھینک دیا تھا۔ اس مردہ بچے کی یہ تصویر یوروپ کے اخبارات میں ہرجگہ صفحہ اول پر شائع ہوئ تھی ۔سوشل میڈیا میں بھی یہ تصویر کئ روز تک دیکھی گئ تھی۔
           لیکن افسوس کی بات ہے کہ اس المیہ پر امریک کا ردعمل مایوس کن تھا۔ انتظامیہ نے اس پر خاموشی اختیار کی تھی۔اور کانگریس نے اس پر جیسے منہ موڑ لیا تھا۔ اگر صدام حسین یا معمر قدافی اس صورت حال کے زمہ دار ہوتے تو ردعمل بڑا شدید ہوتا۔ شام،عراق اور لیبیا میں نام نہاد باغی دہشت گردوں کو ہتھیاروں کی ترسیل پر فورآ پابندی لگا دی جاتی۔اور انھیں  سیاسی مذاکرات سے تنازعہ کو حل کرنے کا کہا جاتا۔جیسے اسرائیل کے ساتھ تنازعہ میں ھماس سےکہا جاتا ہے۔
           اسلامی دنیا میں انسانیت کیے ساتھ یہ بہت بڑا المیہ ہے۔ اور کبھی یہ احساس ہوتا ہے کہ جیسے اکسیویں صدی مسلمانوں کی صدی نہیں ہے؟ عراق،شام ،لیبیا،یمن افغانستان بیس سے تیس سال پیچھےچلے گئے ہیں۔جبکہ بعض دوسرے اسلامی ملک اس لائن میں لگے ہوئے ہیں؟ اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ میں  کہا گیا ہے کہ مشرق وسطی اور شمالی افریقہ میں تیرہ ملین بچیے جنہیں برباد نسل بتایا گیا ہے اسکول سے محروم ہوگئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ان میں بعض ممالک بالخصوص شام میں جہاں خواندگی کی شرح دنیا میں سب سےزیادہ تھی۔جن بچوں کو اس وقت تیسرے اور چوتھے گریڈ میں ہونا چاہیے تھا۔اب شاید ہی وہ کلاس روم میں جائیں گے۔ شام،عراق ،یمن اور لیبیا میں نو ہزار اسکول تباہ  ہوگئے ہیں۔ان بچوں کو باغی بنا کر ہتھیار ان کے ہاتھوں میں دے دئے گئے ہیں۔
           حالانکہ نائین الیون کے بعد صدر جارج بش نے یہ اعلان  کیا تھا کی جو ملک بھی دہشت گردوں کو پناہ دے گا۔ دہشت گردوں کی مالی معاونت  کرے گا۔ دہشت گردوں کو ہتھیار اور تربیت دے گا آسے دہشت گرد ریاست قرار دیا جائے گا۔لیکن شام، لیبیا اور عراق میں پسندیدہ دہشت گردوں پر باغیوں کا لیبل لگا کر ان کی حمایت کی جارہی ہے۔ جو بے گناہ انسانیت کا قتل کررہے ہیں۔ وہ دہشت گرد ہیں۔لیکن اب نظر یہ آرہا کہ مظلوم انسانیت کے خلاف ضالم اور ظلم اتحادی بن گئے ہیں۔
          ابھی کچھ عرصہ تک یوروپ کو ڈرایا جارہا تھا کہ اسلام ویانا کے گیٹ پر پہنچ رہا ہے۔جس پر یوروپ کے دارلحکومتوں میں یہ کہا گیا تھا کہ یوروپ میں اسلامی خلافت قائم نہیں ہونے دی جائے گی۔یوروپ کا امریکا کے ساتھ اسلامی دہشت گردی کے خلاف ایک محاذ بن گیا تھا۔پھر ایک عرصہ سے عالمی میڈیا میں بالخصوص امریکا کے کارپوریٹ میڈیا میں یہ دیکھایا جارہا تھاکہ کس طرح یوروپ اور شمالی امریکا میں مسلم نوجوانوں کو بھرتی کیا جارہا تھا۔جو ان کے شہری تھے۔برطانیہ،فرانس، امریکا اور یوروپ کے دوسرے ملکوں میں  ایسے    مسلم نوجوانوں کے خلاف جو شام میں داعیش کے ساتھ اسلامی ریاست کے قیام کے لئے لڑنے گئے تھے،قانونی کاروائ کرنے کا کہا جارہا تھا۔ابھی یہ بحث جاری تھی کہ اسی اثنا میں ٹی وی کے اسکرین اور اخبارات کے صفحات پر عرب دنیا سے جوق در جوق لوگوں کے قافلے اپنے خطہ اور ملک کے حالات سے تنگ آکر اپنے خاندان کے ساتھ یوروپ کی طرف ہجرت کررہے ہیں۔ان میں بہت بڑی تعداد عرب نوجوانوں کی ہے۔لیکن ان میں کسی کو القاعدہ نظر آرہی ہے۔نہ ہی داعیش دیکھائ دے رہا ہے۔نہ ہی اسلامی انتہا پسندی نظر آرہی ہے۔یہ سب یوروپ کے شہریوں کی طرح ہیں۔ اور امن اور خوشحالی کی تلاش میں یہاں پہنچے ہیں۔ان لوگوں پر جنگیں اور انتشار مسلط کیا گیا ہے۔اور یہ حالات سے تنگ آکر اب   بھاگ رہے ہیں۔
          دہشت گردی کی یہ جنگ اب ایک معمہ بن گئ ہے۔سمجھ میں یہ نہیں آرہا ہے کہ آخر کون کس کے خلاف لڑ رہا ہے؟ عراق میں پہلے شیعہ ملیشیا کی القاعدہ کے خلاف  جنگ بتائ گئ تھی۔پھر اسے  سنی ملیشیا کی القاعدہ کے خلاف  لڑائ بتائ گئ تھی۔پھر اس لڑائ کو شیعہ سنی کی لڑائ بتایا جانے لگا۔ پھر اس لڑائ میں داعیش ایک نیا کردار بن کر داخل ہوگیا۔ ابتدا میں یہ بتایا گیا کہ داعیش القاعدہ کے خلاف لڑ رہی ہے۔ پھر یہ بتایا گیا کہ القاعدہ داعیش کے خلاف لڑرہی ہے۔پھر شام میں حکومت کے خلاف باغیوں سے کہا گیا کہ وہ القاعدہ کےساتھ مل کر پہلے داعیش کا خاتمہ کریں۔پھر یہ خبر آئ کہ داعیش اور القاعدہ مل کر شام کی حکومت کے خلاف باغیوں  سے جنہیں امریکا کی پشت پناہی حاصل ہےلڑرہی ہے۔اور اب امریکا نے اپنی ایک نئ حکمت عملی کا اعلان کیا ہے ۔جس میں شامی حکومت کے خلاف  اچھے باغیوں سے داعیش کے خلاف لڑنے کا کہا جائے گا۔ہاں،عراق میں شیعہ سنی اور ایران امریکا بھی داعیش سے لڑرہےتھے۔
         جتنے وسیع پیمانے پر مشرق وسطی سے نقل مکانی ہورہی ہے۔ اسے دیکھ کر یہ سوال اٹھتا ہیے کہ کیا ان دہشت گردوں کے زریعے مشرق وسطی کو اب  لوگوں سے خالی کرایا جا رہا ہے؟ آخر اس مہم کے در پردہ عزائم کیا ہیں؟  

No comments:

Post a Comment