عالمی امور
Persona Non-Grata
مجیب خان
سوا ل یہ نیہں ہے کہ یورپ کو د رپیش امیگرینٹ کا مسلہ امریکا اور یوروپ کو مل
کر حل کرنا ہوگا؟ سوال یہ ہے کہ یہ مسلہ پیدا کیسے ہوا ہے؟اور اس کا ذمہ دار کون
ہے؟ اس ڈرامہ کی اسکرپٹ کس نے لکھی ہے؟ تقریبا سترہ سال قبل کوسوو میں دنیا کو ایک
ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہوا تھا۔ جب ایک بہت بڑی تعداد میں کوسوو کے شہریوں کو
نقل مکانی پر مجبور کردیا گیا تھا۔اوردنیا نے سربیہ کو اس انسانی بحران کا ذمہ دار
ٹھرایا تھا۔اورسرب رہنما ملاسویچ کے خلاف فوجی کاروائ کی گئ تھی۔اور اس وقت یہ عہد
بھی کیا گیا تھا کہ انسانیت کے خلاف کرائم آیندہ برداشت نہیں کئے جائیں گے۔اور
دنیا اس کےخلاف کاروائ کرے گی۔
امریکاان کے ساتھ کھڑا ہے جنہوں نے مصر
میں ان کی جمہوریت چھین لی ہے۔جو آمریت میں بھی انھیں زندہ نہیں رہنے دے رہے
ہیں۔ان کی زندگیاں تہس نہس کردی ہیں۔یہ ان کا نائین الیون ہے۔ان میں ہر خاندان اور
ہر فرد کی ایک د ردناک داستان ہے۔ ان میں بہت سے سمندر میں ڈوب گئے ہیں۔ بعض نے
ریلوے ٹریک کے ساتھ چلتے چلتے دم توڑدیا تھا۔ بعض نے بھوک اور پیاس سے دم توڑدیا
تھا ۔ آخر ان سب کا قصور کیا تھا جس کی انہیں یہ سزا دی گئ ہے؟ یہ بےگناہ لوگ ہیں۔جو
صرف نفرتوں اور انتقام کی سیاست کا شکار بن گئے ہیں۔یہ آمریت میں بھی زندہ تھے اور
جمہوریت میں بھی زندہ رہے سکتے تھے۔لیکن حکومتیں تبدیل کرنے کی فوجی مہم جوئیوں
اور دہشت گردوں کی مہم جوئیوں میں ان کے لئے زندہ رہنا مشکل ہوگیا ہے۔ یہاں تئیسس
سال سے لوگوں پر صرف بمباری کی جارہی ہے۔ یہ سلسلہ عراق سے شروع ہوا تھا اور ابھی
تک جاری ہے۔
عراق پر فوجی حملے کی تیاری کے دوران جنرل ٹامی
فرینک نے جو عراق آپریشن کے کمانڈر تھے۔ایک ٹی وی انڑویو میں انھوں نے کہا تھا کہ
عراق ایک مالدار ملک ہے۔ عراق میں ایک درمیانہ طبقہ ہے۔ لوگ بھی پڑھے لکھے
ہیں۔صدام حسین کا اقتدار ختم ہونےکےبعد عراق بڑی تیزی سے ترقی کرے گا۔یہ ایک
جمہوری معاشرہ بن جائے گا۔اور دوسرے عرب ملکوں کے لۓیہ ایک مثالی ملک ہوگا۔جس کے
عرب دنیا پر گہرے اثرات ہوں گے۔اورصدر جارج بش نے دنیا سے یہ کہا تھا کہ عراق میں
صدام حسین کو اقتدارسے ہٹانے کے بعد دنیا سے ایک بڑے خطرے کا خاتمہ ہوجاۓگا۔اور
صدام حسین کے بعد دنیا بہت پرامن ہوجاۓ
گی۔اور عرب اسلامی دنیا سے صدر بش نے یہ کہا تھا کہ عراق کا مسلہ حل کرنے کےبعد ان
کی انتیظامیہ فلسطین اسرائیل تنازعہ حل کرے گی۔ لیکن عراق میں اس امریکی مہم جوئ
کے جو نتائج سامنے آۓ ہیں ۔ وہ صدام حسین سے دنیا کو خطروں سے کہیں زیادہ خطرناک
ہیں۔عراق،شام بلکہ یہ سارا خطہ دہشت گردی جوابی دہشت گردی،جنگوں، ڈرون حملوں،
بموں، راکٹوں،میزائیلوں، ایف16 طیاروں، ہیپاچی ہیلی کاپڑروں کے استعمال اور حملوں
کا ایک مثالی معاشرہ بن گیا ہے۔
دنیا جب ایک گلوبل ولیج بن گئ ہے اور امریکا کو
اس گلوبل ولیج کی ایک واحد سپر پاور تسلیم کیا گیا تھا۔پھر گلوبل ولیج میں امن،
استحکام،انسانیت کی سلامتی اور بقا جیسے مسلے امریکا کی بھاری ذمہ داری بن گئے
تھے۔لیکن امریکا میں واحد سپرپاور ہونے کا اتنا زیادہ گھمنڈ اور تکبر آگیا تھا کہ
امریکا اپنی اخلاقی اورقانونی قدریں بھول گیا تھا۔جمہوریت کے افہام وتہفیم اور
انکساری کے اصولوں پر پاور کا تکبر غالب آگیا تھا۔ اور گلوبل ولیج میں امریکی پاور
تیسری دنیا کے ایک فوجی ڈکٹیٹرکی طرح رول ادا کرنے لگی تھی۔ صدرجارج بش عوام کے
صدر سے زیادہ فوج کے کمانڈرانچیف بن گئے تھے۔تیسری دنیا کے فوجی کمانڈر انچیف جس
طرح بائیں بازو کے خلاف بھرپور طاقت کا استعمال کرتے تھے۔ انہیں اذیتں دینے کا
انھوں نے ایک نظام کیا تھا۔بالکل اسی طرح نائین الیون کے بعد گلوبل ولیج میں
اسلامی انتہا پسندوں کے خلاف بھرپورطاقت کا استعمال کیا گیا تھا۔خفیہ جیلیں بنائ
گئ تھیں۔اذیتں دینے کا نظام قائم کیا گیا تھا۔چلی میں پنوشے کی فوجی حکومت جس طرح
لوگوں کو خوفزدہ کرتی تھی کہ کمیونسٹ آجائیں گےاور ان کے اثاثے، دولت،کاروبار اور
جائيداد سب قومی ملکیت میں لےلیں گے۔اسی طرح پہلے صدام حسین کے ایٹمی ہتھیاروں سے
لوگوں کو خوفزدہ کیا گیا تھا کہ چھ منٹ میں صدام حسین اپنے ایٹمی ہتھیاروں کو یکجا
کرسکتے ہیں اور امریکا اور اس کے اتحادیوں کو تباہ کرسکتے ہیں۔پھر بن لادن سے
لوگوں کو خوفزدہ کیا گیا تھا۔اور اب داعش سےلوگوں کو خوفزدہ کیا جارہا ہے کہ یہ
امریکا میں Caliphate قائم کرنا چاہتے ہیں۔حالانکہ
عرب عوام ان کے ہاتھوں میں امریکا کے ہتھیاروں سے خوفزدہ ہوکر بھاگ رہے ہیں۔
صدام حسین، کرنل قدافی اور بشرالسد
ڈکٹیٹر تھے۔ لیکن بادشاہ اورخلیفہ نہیں تھے۔اور مذہبی قدامت پسند بھی نہیں تھے۔موڈریٹ
نظریات کے حامی تھے۔یہ اسلامی ریاست قائم کرنے والوں سے اس وقت سے لڑرہے تھے کہ جب
یہ مذہبی انتہاپسند سردجنگ میں امریکا کے انتہائ قریبی اتحادی تھے۔صدام حسین،قدافی
اور بشرالسد نے عوام کو جمہوری حقوق سے محروم رکھا تھا۔ لیکن انھوں نے عوام کو
اقتصادی خوشحالی دی تھی۔ انھیں تعلیم کی سہولتیں فراہم کی تھیں۔اسکول، کالج اور
یونیورسٹیاں دی تھیں۔تعمیراتی کام کئے تھے۔ سڑکیں اور پل بناۓ تھے۔عورتوں کو آزادی
دی تھی۔عیسائ اور شیعہ حکومت میں برابر کے شامل تھے۔عیسائیوں کی عبادات گاہوں کو
کبھی نقصان نہیں پہنچایا گیا تھا۔کرنل معمر قدافی نے اپنے پیٹرو ڈالر سے عیسائ
افریقہ میں اقتصادی ترقی کے منصوبے شروع کئے تھے۔قدافی حکومت ہر سال افریقہ کے
نوجوانوں کو اپنے خرچے پر اعلی تعلیم کے لئے بیرون بھیجا کرتی تھی۔جبکہ مغربی
طاقتوں نے افریقہ کے وسائل کا صرف استحصال کیا تھا۔اور قدافی اپنے وسائل سے افریقہ
کو اقتصادی ترقی دے رہے تھے۔یہ ایسے رہنما تھے جن سے سیاسی اصلاحات بھی کرائ
جاسکتی تھیں۔بشرالسد کےوالد صدر حافظ السد بھی ایک ایسے ہی ڈکٹیٹر تھے جیسے صدام
حسین اور کرنل قدافی تھے۔ لیکن صدر حافظ السد کی وفات پر صدر کلنٹن نے تعزیت کی
تھی۔ اور سیکرٹری آف اسٹیٹ میڈیلین البرائیٹ کی قیادت میں ایک وفد نے دمشق میں
حافظ السدکے جنازے کی رسومات میں امریکا کی نمائندگی کی تھی ۔آمریکا کے تمام
نشریاتی اداروں نے ان کے جنازے کی رسومات براہ راست دیکھائ تھیں۔
صدر بشرالسد
ایک نوجوان رہنما ہیں۔برطانیہ میں تعلیم حاصل کی ہے۔اور وہ اتنے بڑے ڈکٹیٹربھی
نہیں ہیں کہ جتنے بڑے ان کے والد حا فظ السد تھے۔لیکن امریکا نے اسد حکومت کےساتھ
مل کر شام میں سیاسی اصلاحات کے لۓکام کرنے کے بجاۓ دہشت گردوں کے ساتھ مل کر
انھیں اقتدار سے ہٹانے کا راستہ اختیار کیا ہے۔صدربشرالسد کا اقتدار ختم
ہوجاتا۔شام میں پھر کیا ہوگا؟ افغانستان سے سوویت فوجیں جانے کے بعد کیا ہوا
تھا؟امریکا ان سے لڑرہا ہے جنہوں نے سوویت فوجوں کو افغانستان سے نکالا تھا۔شام
میں صدر بشرالسد کے بعد پھر کیا ان سے لڑا
جاۓ گا۔جنہوں نے اسد حکومت کا خاتمہ کیا تھا؟
دہشت گردی کی جنگ کی مضحکہ خیزی ہ کہ جن
ملکوں کو آنتہا پسندی پھیلانے کا تجربہ ہے۔وہ اس جنگمیں امریکا کے قریبی اتحادی
ہیں۔ اور جن ملکوں ک انتہاپسندی ختم کرنے کا تجربہ تھا ان کے ر ہنماوں
کوقبروں میں پہنچا دیا ہے.
No comments:
Post a Comment