Monday, September 28, 2015

Same Mistakes

عالمی امور

 Same Mistakes

مجیب خان






      پہلی بار جب غلطی کی جاتی ہے تویہ کہہ کر د رگزر کرد یا جاتا ہے کہ آیندہ یہ غلطی پھر نہیں کرنا۔ لیکن دوسری مرتبہ جب وہ ہی غلطی پھر کی جاتی تویہ کہا جاتا ہے بڑے احمق  Idiot ہو۔ پھر وہ ہی غلطی کردی ہے۔ اب تیسری مرتبہ یہ غلطی مت کرنا۔ لیکن پھر تیسری مرتبہ بھی جب وہ ہی غلطی کی جاتی ہے تو یہ کہا جاتا ہے بڑے Bastard ہو تیسری مرتبہ پھر وہ ہی غلطی کی ہے۔ اب عالمی طاقتوں نے Rwanda میں خانہ جنگی کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا تھا۔ Rwanda میں چار سال تک خانہ جنگی کے دوران تقریبا ایک ملین لوگ مارے گئے تھے۔جس کے بعد عالمی طاقتوں نے یہ عہد کیا تھا کہ آئندہ ایسی صورت حال پیدا ہونے پر فوری مداخلت کی جائےگی۔ اور انتظار نہیں کیا جائے گا۔ پھر باسنیا میں سربیہ کی مسلمانوں کے خلاف نسل کشی کی مہم میں جو تین سال تک جاری رہی تھی۔ایک لاکھ سے زیادہ باسنین Bosnian ہلاک ہوئے تھے۔ جس کے بعد عالمی طاقتوں نے سربیہ کے خلاف فوجی کاروائ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اور یہ عہد ایک بار پھر کیا گیا تھا کہ آئندہ انسانیت کے خلاف کرائم کو روکنے کے لیے فوری مداخلت کی جاۓ گی۔ کانگو   Congoکی خانہ جنگی کو دنیا کی ایک بڑی خونی خانہ جنگی کہا گیا تھا۔ جس میں پانچ ملین Congolese مارے گۓ تھے۔ يہاں انسانیت کو بچانے کا کام اقوام متحدہ کی امن فوج کو دے د یا تھا۔
       نائین الیون کے بعد امریکا نے اپنے اس عزم کا اعادہ کیا تھا کہ افغانستان میں اس نے جو غلطی کی تھی اب وہ غلطی نہیں کی جاۓگی۔پھرعراق میں امریکا نے جو غلطی کی تھی ۔اس کے بعد کہا گیا تھا یہ غلطی پھر نہیں کی جاۓ گی۔ لیکن پھر ان غلطیوں کے سنگین نتائج دیکھنے کے باوجود تیسری مرتبہ وہ ہی غلطی لیبیا میں کی تھی۔ حالانکہ لیبیا میں اس وقت انسانی بحران پیدا نہیں ہوا تھا۔ لیکن یہ کہہ کرمداخلت کی گی تھی کہ قدافی کی فوجیں بن غازی میں اپنے مخالفین کی نسل کشی کرنے جارہی تھیں۔ اور اسے روکنے کے لۓ امریکا،برطانیہ اور فرانس نے فوجی کاروائ کی تھی۔لیکن یہاں ان کی قبل از وقت فوجی مداخلت نے لیبیا کو خوفناک خونی خانہ جنگی میں دھکیل د یا ہے۔اور افغانستان میں جو غلطی کی گئ تھی اسے لیبیا میں دہرایا گیا ہے۔ چار سال ہورہے ہیں اور لیبیا ابھی تک اس خانہ جنگی سے نکل نہیں سکا ہے۔ لیبیا ایک نیا باسنیا بن گیا ہے۔ریاست کا شیرازہ بکھر گیا ہے۔ لیبیا نے چالیس سال میں جتنی ترقی کی تھی ۔وہ کھنڈرات بن گئ ہے۔ ہزاروں لوگ خانہ جنگی میں مارے جاچکے ہیں۔ لاکھوں لوگ لیبیا چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں۔ لیکن امریکا،برطانیہ اور فرانس نے بن غازی میں صرف نسل کشی کے خوف سے قدافی حکومت کے خلاف فوجی مداخلت کرکے لیبیا کو تاریک قوتوں کے حوالے کردیا ہے۔
      اور شام میں حکومت کے خلاف ان قوتوں کی پشت پناہی کی جارہی ہے۔ جنہوں نے انسانیت کے خلاف کرائم میں ملاسوئچ کی فوجوں کے ریکارڈ توڑ د ئیے ہیں۔ شام میں اس وقت تک ڈھائ لاکھ سے زیادہ لوگ مارے جاچکے ہیں۔ اور لوگوں کی ہلاکتوں کا یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔جبکہ لاکھوں لوگ شام چھوڑ کر چلے گۓ ہیں۔ اور ہمسایہ ملکوں میں مہاجر کیمپوں میں چار سال سے انتہائ اذ یت ناک حالات میں ہیں۔ شام بھی کھنڈرات بن گیا ہے۔ مسلمان پہلے ہی ترقی میں پیچھے ہیں۔ اور جن ملکوں نے کچھ ترقی کرلی تھی ۔ ان کی ترقی دہشت گردوں کی پشت پناہی کرکے چھین لی گئ ہے۔                                                                                               
       لیکن نام نہاد مہذب دنیا نے شام کے لوگوں سے کیا یہ پوچھا تھا کہ وہ شام میں کس طرح کی تبدیلی چاہتے ہیں؟کیا وہ شام میں سیاسی تبدیلیاں سیاسی طریقوں سے چاہتے ہیں؟ یاخونریزی کے ذریعے حکومت کو اقتدار سے ہٹانا چاہتے ہیں۔کیا شام کے عوام کی اکثریت حکومت کے ساتھ ہے یا خلاف ہے؟اگر د نیا کی قدریں مہذب ہوتی تو باغیوں کو ہتھیار اور تربیت دینے سے پہلے شام کے عوام کی راۓ ضرور لی جاتی۔ لیکن مہذب دنیا نے سعود یوں اور خلیج کے مطلق العنان حکمرانوں سے مشورہ کرکے شام کی گرد ن پرچھری رکھ دی تھی۔ شام میں صرف Rebels کو ہتھیار اور تربیت دی جارہی ہے۔ لیکن اس کی ضمانت نہیں ہے کہ دمشق میں حکومت کا خاتمہ ہونے کے بعد یہ دہشت گرد ہوں گے؟لیبیا میں مہذب دنیا نےRebels کی اخلاقی مدد کی تھی لیکن بعد میں وہ دہشت گرد نکلے تھے۔لیکن یہ مہذب دنیا کا مسلہ نہیں ہے۔ دہشت گردی دنیا کا مسلہ ہے۔اور دہشت گردی کا خاتمہ کرنے میں دنیا کو امریکا سے تعاون کرنا ہوگا۔؟ آخر دنیا کب تک تعاون کرتی رہے گی۔جبکہ شام میں عراق میں لیبیا میں یمن میں دہشت گردوں کے حوصلے بلند رکھنے کے لۓ جنگیں جارہی ہیں۔
       ڈھائ لاکھ شامی مارے جانے کے بعد امریکا کی یہ اخلاقی ذمہ داری تھی کہ باغیوں کی حمایت ختم کرکے ایک سیاسی عمل کا راستہ اختیار کیا جاتا اور دمشق حکومت کے مخالفین کو اس عمل میں داخل ہونے پر مجبور کیا جاتا۔ لیکن سب جیسے شامیوں کی ہلاکتوں اور ریاست کی بربادی میں اپنا رول ادا کررہے ہیں۔ امریکا برطانیہ اور فرانس نے سعودی عرب اور خلیج کے حکمرانوں کو کھربوں ڈالر کا اسلحہ فروخت کرنے کا کیونکہ سمجھوتہ کیا ہے۔اور اس کےعوض سعودیوں اور خلیج کے حکمرانوں نے امریکا برطانیہ اور فرانس سے شام میں حکومت کے خلاف باغیوں کی خونی جنگ کی حمایت جاری رکھنے کی ضمانت لی ہے۔اور اس کی ضمانت بھی لی ہے کہ بشرالسد حکومت کے خاتمہ سے کم کوئ بات نہیں ہوگی۔ کھربوں ڈالرکے ہتھیاروں کی تجارت پر انسانیت کا سودا ہوگیا ہے؟ اب اگر نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے ملبے کی تصویریں ایک طرف رکھی جائيں اور دوسری طرف شام میں لوگوں کے گھروں اورعمارتوں کےملبے کی تصویریں رکھی جائیں اور پھر سوال کیا جاۓ کہ یہ دہشت گردی کیوں نہیں ہے؟
       استحصالی طاقتیں ہر صورت حال کا استحصال کرنے کا ہنر رکھتی ہیں۔ شام میں خانہ جنگی کو طول دے کر شامیوں کو ملک چھوڑنے  پر مجبور کیا گیا ہے۔ایک ملین سے زیادہ شامی ترکی ارد ن اور لبنان میں مہاجر کیمپوں میں انتہائ بدترین حالت میں ہیں۔اور ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔ چار سال ہوگۓ ہیں لیکن ان کا کوئ پرساں حال نہیں ہے۔ میزبان ملکوں کی معشیت کے لۓ بھی یہ ایک بوجھ بن رہے ہیں۔ اس صورت حال کا حل ہیومن ٹریفکنگ میں نکالا گیا ہے۔ لیکن یہ ہیومن ٹریفکرز کون ہیں؟ اور کس کے ایما پر کام کررہے ہیں؟ جو شامی مہاجرین کو یورپ لے جارہے ہیں۔ سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں Human Trafficking کوSlave Trade کہا جاتا تھا۔ لیکن اکیسویں صدی میں اسے  ہیومن ٹریفکنگ کہا جاتا ہے۔
       یوروپی یونین کے ملکوں نے ایک کوٹہ سسٹم کے تحت لاکھوں شامیوں کو اپنے انڈسٹریل نظام میں ضم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جرمنی یوروپ کی سب سے بڑی معشیت ہے ۔ لہذا جرمن حکومت نے اپنی کمپنیوں اور کارپوریشنوں کی ضروت کے مطابق آٹھ لاکھ شامیوں کو لینے کا اعلان کیا ہے۔ فرانس نے تیس ہزار اور برطانیہ نے بیس ہزارشامیوں کولینے کا اعلان کیا ہے۔جبکہ امریکا نے ایک لاکھ شامیوں کو لینے کا اعلان کیا ہے۔ اور دوہزارسترہ تک مزید شامیوں کو لینے کا کہا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ دوہزار سترہ تک شام میں امن کی کوئ توقع نہیں رکھی جاۓ ۔ حالات شاید اسی طرح رہیں گے۔اور جس طرح دوہزار نو میں امریکا کا نیا صدر بننے کے بعد افغان جنگ صدر اوبامہ کی جنگ بن گئ تھی ۔ اسی طرح دوہزارسترہ میں شام کی خانہ جنگی امریکا کے نۓ صدر کی جنگ ہوگی؟        
                   
                                                                                                                             
                                                          

                        

No comments:

Post a Comment