Monday, September 14, 2015

WAR OF "DO MORE"

       عالمی امور
      
       WAR OF "DO MORE"

        مجیب خان



          سیکرٹری دفاع آش (ash) کارٹر نے ترکی سے کہا ہے کہ وہ داعیش کے خلاف عالمی جنگ میں ڈو مور میں تیزی دیکھائے۔ سیکرٹری دفاع نے پینٹاگون میں ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ امریکا کو ترکی کے ائیر بیس سے فوجی آ پریشن کرنے کی اجازت دے دی گئ ہے۔ لیکن اس کے باوجود ترکی کی حکومت کو ڈو مورکرنے کی ضرورت ہے۔آش کارٹر نے کہا شام اور عراق جنگ زدہ جیسے ملکوں کا ہمسایہ ہونے کی وجہ سے ترکی کو اپنی سرحدیں کنٹرول کرنا چاہیے۔داعیش ان سرحدی علاقوں کو رسد اور جنگجوؤں کو محاز پر لے جانے کے لئے استعمال کرے گی۔اور ترکی انھیں کنٹرول کرنے کے لئے ڈو مور do more تیز کرے۔
         سیکرٹری دفاع کارٹر نے اپنے بیان میں جو لفظ استعمال کئے ہیں ۔پاکستانی ان سےاچھی طرح واقف ہیں۔صدر بش کے سیکرٹری دفاع، سیکرٹری  خارجہ اور قومی سلامتی امور کے مشیر بالکل اسی طرح پاکستان سے افغانستان کے ساتھ اپنی سرحدیں کنٹرول کرنے کے لئے بھی  do more کاکہتے تھے۔  پاکستان میں اس do more کا جواب بھی دہشت گرد پھر do more سے دیتے تھے۔
          دہشت گردی کے خلاف نام نہاد عالمی جنگ اکیسویں صدی کی تاریخ میں ایک مذاق دیکھا جائے گا۔دنیا کےلئے دہشت گردی کی جنگ بھی Ebola کی بیماری بن گئ ہے۔لوگ اس جنگ سے تنگ آکر اپنے ملکوں اور گھروں سے ان ملکوں میں پناہ لینے بھاگ رہے ہیں۔ جنہوں نے ان پر یہ جنگ مسلط کی ہے۔ ڈو مور کیا دہشت گردی ختم کرنے کی حکمت عملی ہے؟ یا ڈو مور ہتھیاروں کی صنعت کے   لئےمنافع  کمانے کی حکمت عملی ہے؟
          چودہ سال میں ایسے اسلامی ملکوں کو جن کا نائین الیون کو امریکا کے خلاف دہشت گردی سے کوئ تعلق نہیں تھا۔ انھیں کس طرح پھر ڈو مور میں بھرتی  کیا گیا تھا؟ پاکستان ان ملکوں میں پہلا ملک تھا جس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔لیکن پھر دہشت گردی کی یہ جنگ امریکا نے اپنے گلے سے اتار کر پاکستان کے گلےمیں ڈال دی۔اور دہشت گردی کی یہ جنگ پاکستان کی جنگ بن گئ تھی۔ عراق میں صدام حسین کو اقتدار سے ہٹا کر وہاں دہشت گردی کو عربوں کی جنگ بنا دیا۔ پھر لیبیا میں کرنل قدافی کا اقتدار ختم کرکے وہاں دہشت گردی کو آفریقی ملکوں کی جنگ بنا دیا۔لیکن مصر میں ایک جمہوری حکومت کا خاتمہ ہونے کے بعد وہاں دہشت گردی کو اسرائیل کی جنگ بنانے سے روکا گیا ہے۔ اور اب شام میں ایک شخص کو دہشت گردی کے زریعے اقتدار سے ہٹانے کی جنگ اب جنگ عظیم بننے کے دہانے پر پہنچ گئ ہے۔
           اور اب ترکی بھی ایک دوسرا پاکستان بن رہا ہے۔ دہشت گردی کی جنگ اب ترکی کی جنگ بن گئ ہے۔صدر طیب اردگان نے صدر جنرل پرویز مشرف کی جگہ لے لی ہے۔ صدر جارج بش کے ساتھ کھڑے ہونے سے قبل  صدر جنرل مشرف کی مقبولیت عوام میں ستر فیصد تھی۔پھر ان کی مقبولیت گر کر پینتیس فیصد رہے گئ تھی۔انتخابات میں انہیں بری طرح ناکامی ہوئ تھی۔اور آخر میں صدر مشرف  کو صدارت چھوڑنا پڑی تھی۔ صدر طیب اردگان اس وقت کچھ ایسے ہی حالات میں ہیں۔پارلیمانی انتخابات میں ان کی پارٹی کو بری طرح شکست ہوئ ہے۔عوام میں ان کی مقبولیت میں بڑی تیزی سے کمی آئ ہے۔ شام میں حکومت کے خلاف  دہشت گردی کی تحریک میں انہوں نے سعودی عرب، امریکا اور خلیج کی ریاستوں کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ایران کے سا تھ تعلقات خراب کر نے میں  انہوں نے اسرائیل کا موقف اختیار کیا ہے۔ لیکن اب ترکی بھی دہشت گردوں کا ٹارگٹ بن گیا ہے۔ اس سال ترکی میں دہشت گردی کے واقعات میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔جس میں سینکڑوں لوگ مارے گئے ہیں۔یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ امریکا پاکستان سے دہشت گردوں کے اڈے ختم کرنےپر زور دے دیتا ہے لیکن دوسری طرف شام میں حکومت کے خلاف دہشت گردوں کے اڈے اردن میں قائم ہیں ۔جہاں انھیں دہشت گردی کی تربیت دی جاتی ہے۔
           مشرف حکومت نے نائین الیون کے بعد امریکا کے ساتھ نئے تعلقات کی یقین دہانیوں کے بعد 180 ڈگری سے یو ٹرن لیا تھا۔لیکن صد اردگان نے دو ہزار بارہ میں سعودی عرب کے ساتھ نئے قریبی تعلقات کی یقین دہانی کے بعد 180 ڈگری سے یو ٹرن لیا تھا۔اس وقت شاہ عبداللہ سعودی عرب کے حکمراں تھے۔اور طیب اردگان وزیراعظم تھے۔ اس یوٹرن سے قبل ترکی صراط المستقیم کے راستہ پر تھا۔ ترکی نے ایران اور شام کے ساتھ اتحاد اور تعاون کا معاہدہ کیا تھا۔ جس میں تینوں ملکوں نے علاقائ امن اور استحکام کے لئے مل کر کام کرنے کا عہد کیا گیا تھا۔ایران،ترکی اور شام کے ھماس اور حزب اللہ سے بھی قریبی رابطہ تھے۔ مصر میں ایک منتخب جمہوری حکومت آنے کے بعد ترکی اور ایران نے اس کاخیرمقدم کیا تھا۔ صدر محمد مرسی کے ساتھ ترکی اور ایران قریبی رابطہ رکھنے کو اہمیت دے رہے تھے۔اور یہ بہت ممکن تھا۔ایران ترکی اور صدر مرسی شام کی صورت حال کا کوئ سیاسی حل نکالنے میں کامیاب ہوجاتے۔لیکن سعودی  شاہ عبداللہ مرحوم نے صدر طیب اردگان کو ایسے کیا ہرے باغ دیکھائےکہ صدر اردگان بھی شام میں بشرالسددحکومت کے خاتمہ کےلئے سعودیوں کے ساتھ مطالبہ کرنے لگے ۔ ایران کے ساتھ بھی ترکی کے تعلقات خراب ہوگئے۔ شاہ عبداللہ اب دنیا سے چلے گئے۔مغربی طاقتوں نے ایران کے ساتھ اپنے تعلقات بحال کر لئے ہیں۔اسرائیل کی شہ پر سعودی عرب نے ایران کے ایٹمی پروگرام کی مخالفت میں جو سخت موقف اختیار کیا تھا۔ وہ سعودی شاہ سلمان کے وائٹ ہاؤس میں صدر اوبامہ سے ملاقات کے بعد تبدیل ہوگیا ہے اور سعودی عرب نے ایران کے ساتھ ایٹمی سمجھوتے کی حمایت کر دی ہے۔ لیکن اردگان حکومت درست فیصلے ترک کرکے غلط مشوروں پر عمل پیرا ہونے کی اب ایک بھاری قیمت ادا کررہی ہے۔ صدر اردگان اب اپنی حکومت بچانے کی لڑائ لڑ رہے ہیں ۔ دوسری طرف ترکی کی سلامتی اور استحکام کی جنگ لڑرہےہیں۔تیسری طرف کردوں کی سرکشی سے لڑ رہے ہیں۔ترکی بھی ایک دوسرا پاکستان بن رہا ہے؟

No comments:

Post a Comment