اسلامی دنیا کا بحران
:Foreign Intervention And
Weapons
Humanity In The Quagmire
مجیب خان
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی چیف Federica Mogherini نے
کہا ہے کہ " یہ خطرہ ہے کہ روس افغانستان کی طرح ایک دوسرے دلدل {quagmire}میں پھنس رہا ہے۔ روس کو شام میں سیاسی تبدیلی میں مدد کرنا چاہیے "۔ فیڈ
ریکا موگھرینی نے کہا "مجھے یقین ہے کہ روس اس سے بخوبی واقف ہو گا۔ اگر وہ
سیاسی عمل شروع کرنے میں انتھک کوشش نہیں کرے گا۔ تو اسے افغانستان جیسی صورت کا
شام میں سامنا کرنا ہو گا۔ اور ایک بہت بڑی عرب آبادی اور روس کے مسلم شہری یہ
دیکھیں گے کہ وہ شیعہ سنی تقسیم میں حصہ لے رہا ہے۔ اور میں یہ سمجھتی ہوں کہ بہت جلد روسی یہ دیکھیں
گے کہ ان کی فوجی موجودگی کے ساتھ ان کا مفاد سیاسی عمل جلد شروع کرنے میں
ہے۔" روس کی فوجیں جب شام میں داخل
ہوئی تھیں تو واشنگٹن میں پہلے رد عمل میں quagmire کے خدشہ کا اظہار کیا گیا تھا۔ کہ
روس اب شام پھنس جاۓ گا۔ اور اس quagmire سے روس کو افغانستان یاد دلایا تھا۔
لیکن افغانستان اور شام دو مختلف صورت حال کا
سیاسی بحران ہیں۔ افغانستان سرد جنگ کے دور کا سیاسی بحران تھا۔ جبکہ شام سرد جنگ
ختم ہونے کے بعد دنیا کی واحد سپر پاور کی فوجی مہم جوئیوں اور خود مختار ملکوں
میں جارحانہ مداخلت کرنے کی سیاست سے حکومتیں تبدیل کرنے کا بحران ہے۔ اور ان
ملکوں کو عدم استحکام کرنا ہے۔ اس وقت عراق ، لیبیا ،شام، یمن اور افغانستان اس quagmire میں ہیں۔ اور روس شام کو اس quagmire سے نکالنے آیا
ہے۔ quagmire میں
گہرے دوسرے ملک بھی اب روس کی طرف مدد کے لئے دیکھ رہے ہیں۔ روس نہیں انسانیت quagmire میں
ہے۔
80
کے عشر ے میں سوویت فوجیں جب افغانستان میں آئیں تھیں ۔افغانستان میں سیاسی
استحکام تھا۔ وہاں حکومت مستحکم تھی۔ حکومت کے تمام ادارے معمول کے مطابق کام کر
رہے تھے۔ افغانستان کے بڑے شہروں میں روشن خیال اور پروگریسو Elite طبقہ تھا۔ ایک دانشورانہ ماحول
شہروں کی روشنیوں میں نظر آتا تھا۔ اگر صدر ریگن وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر جنرل ضیا
الحق اور سعودی عرب افغانستان میں پنگے لینے کی سیاست نہیں کرتے تو افغانستان
سوویت یونین کے لئے quagmire
نہیں بنتا جس طرح مشرقی یورپ سوویت
یونین کے لئے quagmire
نہیں تھا۔ افغانستان آج بہت بہتر حالات میں ہوتا۔ افغانستان میں سوویت فوجوں نے
افغان ثقافتوں کو آپس میں لڑانے کی سیاست نہیں کی تھی۔ اس وقت کابل حکومت اور فوج
میں تا جک ازبک اور پختون سب تھے۔ اور یہ
سوویت فوجوں کی حمایت بھی کرتے تھے۔ یہ
غیرملکی مداخلت تھی جس نے افغانستان کے دیہاتوں اور قصبوں کے لوگوں کو یہ جھوٹا
پراپگنڈہ کر کے خوفزدہ کیا تھا کہ کمیونسٹ
افغانستان میں آ گئے ہیں۔ اور یہ مسجدیں تباہ کر رہے ہیں۔ افغانستان کو کمیونسٹ
بنا رہے ہیں۔ اسلام کو بچانے کے لئے ہمیں جہاد کرنے کے لئے گھروں سے نکلنا ہو گا۔
اس پیغام کے پمفلٹ طیاروں سے دیہاتوں اور قصبوں میں گراۓ گۓ تھے ۔ دیہی علاقوں کے
لوگ بہت زیادہ مذہبی جنونی تھے۔ اور یہ اپنے خاندان کے ساتھ افغانستان سے بھاگ کر
پاکستان میں پناہ لینے آ گئے تھے۔ اور
یہاں ان کا تعارف سی آئی اے سے کرایا گیا تھا۔ جس کے بعد افغانستان کے خلاف جہاد
کا افتتاح صدر ریگن کے خصوصی پیغام کے ساتھ ہوا تھا ۔"تم حق پر ہو اللہ
تمہارے ساتھ ہے۔" اور یہ افغان جہادی افغانستان کے شہروں میں آباد لوگوں پر
حملے کرنے لگے تھے ۔ اور آج شام میں جو کچھ ہو رہا ہے۔ وہ اس وقت افغانستان میں ہو
رہا تھا۔ افغانستان کا تعلیم یافتہ طبقہ ملک چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ اور دیہاتوں اور
قصبوں کے لوگ شہروں پر قابض ہو گئے تھے۔ اور یہ اب طالبان ہیں۔ اور جو پڑھے لکھے
افغان یورپ اور امریکہ چلے گئے تھے وہ اب واپس آ گئے ہیں اور حکومت اور اداروں میں
ہیں۔ افغانستان میں لڑائی ایک محاذ پر نہیں ہے بلکہ یہ کئی محاذوں پر ہو رہی ہے۔
افغانستان اب کس کے لئے quagmire ہے
؟
روس اس وقت بھی غلط نہیں تھا۔ روس کو وقت بھی یہ گلہ تھا کہ سی آئی اے
پاکستان میں جہادیوں کو تربیت دے رہی تھی جن میں بڑی تعداد میں غیرملکی جہادی تھے جو
افغانستان میں تخریبی سرگرمیاں کرتے تھے۔ حامد کر ذ ئی اور ان کے خاندان کے لوگوں
کو اس وقت پاکستان نے پناہ دی تھی۔ اور کر ذ ئی آج پاکستان میں دہشت گردوں کے
کیمپوں کے دعوی کرتے ہیں کہ یہ دہشت گرد
افغانستان میں پاکستان سے آتے ہیں۔ افغانستان میں سوویت فوجوں کو شکست دینے کے لئے
ہر ہتکنڈہ استعمال کیا گیا تھا۔ اسلام کا استحصال کیا گیا تھا ۔ قرآن کو استعمال
کیا گیا تھا۔ اسلامی دنیا کے مذہبی جنونی نوجوانوں کو جہادی بنایا گیا تھا۔ اور اس
طرح افغانستان کو سوویت یونین کے لئے quagmire بنایا تھا۔
افغان جنگ ختم ہونے کے بعد بھی کابل میں حکومت اور ادارے بدستور موجود تھے
۔ نجیب اللہ افغانستان میں صدر تھے۔ اور حکومت کا کاروبار تمام خوف و ہراس کے
باوجود جاری تھا۔ نجیب اللہ حکومت باغی گروپوں سے مفاہمت کے لئے سیاسی کوشش کر رہی
تھی۔ لیکن افغان باغی اور غیرملکی جہادی اس وقت نجیب اللہ حکومت کو اسی طرح ختم کرنا چاہتے تھے کہ جس طرح
آج شام میں حکومت کے باغی اور غیر ملکی ماڈریٹ دہشت گرد بشار السد حکومت کا خاتمہ
چاہتے ہیں۔ صدر میکائیل گار با چو ف کو تشویش یہ تھی کہ سوویت فوجوں کے انخلا کے
بعد نجیب اللہ حکومت زیادہ عرصہ تک اقتدار میں نہیں رہے سکے گی۔ اور افغانستان میں
خطرناک خونی خانہ جنگی شروع ہو جاۓ گی۔ اور افغانستان عدم استحکام کی دلدل میں
دھنس جاۓ گا۔ اور یہ اس سارے خطہ کو اپنے عدم استحکام سے بری طرح متاثر کرے گا۔
صدر جارج ایچ بش سوویت ایمپائر کی شکست سے اتنے زیادہ خوش تھے کہ وہ ساتویں آسمان
پر پہنچ گۓ تھے ۔ اور انہوں نے زمین کی
طرف افغانستان کو دیکھنا چھوڑ دیا تھا۔ تاہم صدر گا ر با چو ف اپنی طرف سے یہ بھر پور کوششیں کرتے رہے کہ افغانستان
میں سیاسی استحکام کے لئے کسی طرح تمام افغان گروپوں اور نجیب اللہ حکومت میں صلح
ہو جاۓ ۔اور ایک مخلوط حکومت بن جاۓ ۔ تاکہ یہ حکومت افغانستان میں امن اور
استحکام قائم ر کھے۔ اور کسی بیرونی مداخلت کے بغیر یہ حکومت افغانستان میں ایک
سیاسی عمل کے ذریعے نظام اور حکومت تبدیل کرنے کا راستہ بناۓ۔ لیکن امریکہ نے صدر
گا ر با چو ف سے تعاون نہیں کیا اور پاکستان اور سعودی عرب نے ان کے مشوروں کو کوئی اہمیت نہیں دی تھی۔ پاکستان کا سعودی
عرب کے ساتھ یہاں اپنا ایجنڈہ تھا جو یہاں سے وسط ایشیا تک اسلامی سلطنت بنانا
چاہتے تھے۔ صدر گا ر با چو ف نے مایوس ہو کر افغانستان سے سوویت فوجوں کے انخلا کا
حکم دے دیا۔
افغانستان کے بارے میں اس وقت صدر گا ر با چو ف کے جو خدشات تھے آج وہ
خدشات صدر پو تن کے شام کے بارے میں ہیں ۔ امریکہ اور مغربی طاقتیں اس وقت
افغانستان کے بارے میں غلط تھیں اور آج امریکہ اور مغربی طاقتیں شام کے بارے میں
غلط ہیں۔ شام اس وقت ساٹھ فیصد افغانستان بن چکا ہے۔ اور نجیب اللہ حکومت کی طرح
اگر اسد حکومت گر جاتی ہے ۔ تو شام مشرق وسطی کے وسط میں ایک دوسرا افغانستان ہو
گا۔ افغانستان کے ارد گرد اس وقت ہر طرف استحکام تھا۔ لیکن شام کے ارد گرد ہر طرف
عدم استحکام ہے۔ اور ہر طرف خونی خانہ جنگی ہو رہی ہے۔ اور یہ غلط کہا جا رہا ہے
کہ شام روس کے لئے quagmire بن
جاۓ گا۔ یہ خطہ یہاں کے لوگوں کے لئے quagmire بن گیا ہے اور روس لوگوں کو quagmire سے نکالنے آیا ہے.