Friday, October 2, 2015

Now The Game Has Changed


مشرق وسطی

Now The Game Has Changed

مجیب خان




           روس کی مشرق وسطی میں آمد دراصل Neo Cons کی بہت بڑی شکست ہے۔یہ Neo Consسرد جنگ کی ذہنیت سے جس طرح نائین الیون کو بنیاد بنا کراس کرہ ارض کو ملٹرائزکررہے تھے۔ایک جنگ کو فیل چھوڑ کر دوسری جنگ میں کامیابی دیکھ رہے تھے۔ صدر جارج بش اپنے آٹھ سال دور اقتدار میں اگر افغانستان اور عراق کو امن اور استحکام د ینے میں کامیاب ہوجاتے اور ان ملکوں کو اس طرح فیل ریاستیں چھوڑ کر نہیں جاتے۔تو د نیا امریکا کو آج ایک فیل سپرپاورنہیں دیکھ رہی ہوتی۔اور مشرق وسطی میں امن اور استحکام کے ليے د نیا روس کی طرف مد د کے لۓ نہیں دیکھتی۔
        صدراوبامہ نے معمولی رد و بدل کے ساتھ صدر بش کی جنگوں کو جاری رکھا تھا۔حالانکہ انہیں اقتدار میں آنے کے چند ماہ میں امن کا نوبل انعام اس انشورنس پالیسی کے ساتھ دیا گیا تھا کہ وہ دنیا کو جنگوں سے دور اور امن کے راستے پر رکھیں گے۔لیکن دنیا کو بڑی مایوسی ہوئ ہے کہ صدر اوبامہ نے پرانی جنگیں کسی نتیجے پر پہنچانے کے بجاۓ ۔ جنگوں کے نۓ محاذ کھول ديۓ ہیں ۔اور ہر نیے محاذ پر دہشت گردوں کی آبکاری ہو رہی ہے۔ افغانستان پہلے ہی دہشت گردی کا محاذ بنا ہوا تھا۔ دہشت گرد عراق کے محاذ پر بھی تھے۔ دہشت گردوں کے لۓ  لیبیا میں بھی ایک نیا محاذ کھول کرد یا تھا۔ لیبیا کے بعد شام بھی دہشت گردوں کے لۓ نیا محاذ بن گیا تھا۔اور ان محاذوں پر دہشت گرد اب  داعش بن گۓ ہیں۔ ان محاذ وں                                                              پر جنگ بھی اس حکمت عملی کے ساتھ لڑی جارہی ہے کہ یہ طویل جنگ ہوگی۔؟ حالانکہ لوگ دہشت گردوں سے تنگ آچکے ہیں اورجنگوں کے عذاب سے سخت پریشان ہیں۔ان جنگوں کو چودہ سال ہوگۓہیں لیکن لوگوں کو نہ تو امن مل رہا ہے اور نہ ہی دہشت گردوں سے نجات مل رہی ہے۔اس صورت حال میں ایک عرصہ سے جو خلا تھا ۔ روس نےاب اس خلا سے فائدہ اٹھایا ہے۔ چودہ سال میں پانچ چھ لاکھ  بے گناہ لوگ مارے گۓ ہیں۔لیکن مٹھی بھر دہشت گردوں کا خاتمہ ہونے کی بجاۓ ان کے لشکر وجود میں آگۓ ہیں۔لوگوں کی ایک بہت بڑی خاموش اکثریت نے روس کا دہشت گردوں کا خاتمہ کرنے کے عزم سے شام کی خانہ جنگی میں داخل ہونے کا خیرمقدم کیا ہے۔
        چچنیا میں خانہ جنگی شام کی خانہ جنگی سے زیادہ مختلف نہیں تھی۔ ویلادیمر پوتن نے صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے چچنیا میں خانہ جنگی ختم کرنے کی جنگ لڑی تھی ۔اور ایک مختصر مد ت چچنیا میں دہشت گردوں کا مکمل خاتمہ کردیا تھا۔چچنیابھی خانہ جنگی میں بالکل کھنڈرات ہوگیا تھا۔لیکن آج چچنیا میں امن ہے۔ چچن کی اپنی حکومت ہے۔اور چچنیا دوبارہ تعمیر ہوگیا ہے۔صدر پوتن اپنے اس تجربے کے ساتھ شام کو دہشت گردوں سے نجات دلانے آۓ ہیں۔اور وہ اس مقصد میں مخلص بھی ہیں۔ جب عزائم اور مقاصد مخلص ہوتے ہیں تو ناکامی اور شکست کا سوال نہیں ہوتا ہے۔   
        جب پہلا فیصلہ غلط ہوتا ہے ۔توپھر بعد کے تمام فیصلے بھی غلط ہوتے ہیں۔ اگر پہلا فیصلہ درست ہوتا ہے توپھربعد کے فیصلےبھی درست ہوتے ہیں۔بش انتیظامیہ کا کیونکہ افغانستان میں پہلا فیصلہ غلط تھا ۔لہذا بعد کے تمام فیصلے بھی غلط ثابت ہوۓ ہیں۔افغانستان انتہائ غریب ملک تھا۔ عوام مسلسل جنگوں سے تنگ آچکے تھے۔اور امن کے لۓ ترس رہے تھے۔طالبان کا اقتدار ختم ہونے کے بعد لوگوں نے خوشی کا اظہار کیا تھا۔اور انہیں امن کی آس ہوئ تھی۔لیکن بش انتیظامیہ نے وارلارڈ کو طالبان کا خاتمہ کرنے کے لۓ خرید لیا تھا۔جنہوں نے طالبان کا خاتمہ نہیں کیا تھا بلکہ انسانیت کے خلاف سنگین کرائم کرنا شروع کرد ئیے تھے۔پھر افغان معاشرے کو متحد کرنے کے بجاۓ اسے گروپوں، فرقوں اورثقافتوں میں تقسیم کردیا تھا۔طالبان سے کوئ مذاکرات نہیں ہوں گے بش انتیظامیہ کا یہ فیصلہ غلط تھا۔اس ایک غلط فیصلہ کی وجہ سے افغانستان میں جنگ ابھی تک جاری ہے۔طالبان کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد انہیں افغانستان کے سیاسی عمل میں شامل کرنے کی کوشش کی جاتی۔طالبان اس وقت کمزور تھے ۔ان کے ساتھ سمجھوتہ ہوسکتا تھا۔ بش انتیظامیہ کا افغان آبادی کے ایک بڑے حصے کوسیاسی عمل سے علحدہ رکھنے کا فیصلہ بھی غلط تھا۔اس غلطی کی بھاری قیمت افغان حکومتوں کوادا کرنا پڑرہی ہے۔طالبان اب مضبوط ہوگئے ہیں۔اور افغان حکومت کمزور ہے۔یہ حکومت عوام میں اپنی ساکھ بھی کھوتی جارہی ہے۔ طالبان اس صورت سے بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
         افغانستان کے بعد عراق میں بھی فیصلے غلط ہوۓ تھے۔اول تو اس جنگ کی بنیاد ہی جھوٹ پر تھی۔اصل مقصد عراق کو تباہ کرنا تھا۔اور یہ مقصد حاصل کرلیا تھا۔صدام حسین کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد عراق میں حکومت کا سارا انتظامی ڈھانچہ بھی تباہ کردیا تھا۔فوج پولیس بیوروکریسی عدلیہ سب ختم کرد يئے تھے۔عراق کو چلانے کے لۓ انتظامی مشنیری امریکا سے برآمد کی گئ تھی۔مغربی دنیا میں کہیں بھی جمہوریت کی سیاسی بنیاد مذہب پر نہیں ہے۔لیکن عراق کے لۓ امریکا سے جو جمہوری نظام بھیجاگیا تھا وہ شیعاوں کی جمہوریت کا نظام تھا۔کیونکہ شیعہ عراق میں اکثریت میں تھے۔ یہ نظام سیاسی جماعتوں کے انتخابات میں اکثریت حاصل کرکے  حکومت میں آنے کی بنیاد پر نہیں تھا۔خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب یا عقیدے سےہوتا۔جیسے مغربی جمہوریت میں ایک یہودی بھی وزیراعظم یا صدر بن سکتا ہے۔لیکن امریکا نے عراق کو جو جمہوریت دی ہے اس میں سنی عراقی کبھی صدر یا وزیراعظم کے عہدے پر نہیں آ سکتے ہے۔سو ڈیڑھ سو سال قبل امریکا کی جمہوریت میں سیاہ فاموں کے ساتھ جس طرح برتاو ہوتاتھا ۔عراق میں سنی آج اس دور میں ہیں۔ بش انتظامیہ کے Genius نے عراق کو جو نظام دیا تھا۔ اس میں داعش جیسے سینکڑوں گروپوں کے ابھرنے کی خاصی گنجائش بھی رکھی تھی۔صدام حسین کے سیکولر نظام میں شیعہ سنی عسائیوں کو برابر کے حقوق حاصل تھے۔اس لۓداعش جیسے گروپوں کے وجود میں آنے کی اس نظام میں کوئ گنجائش نہیں تھی۔
          اوبامہ انتظامیہ نے افغانستان اور عراق جنگ میں بش انتظامیہ کی مہلک غلطیوں کا پہلے ازالہ کرنے کے بجاۓ اس میں کچھ نئ غلطیوں کا اضافہ کردیا تھا۔لیبیا اور شام میں دہشت گردوں کے لۓ نۓ محاذ کھول دئيے تھے۔ نائین الیون کے بعد کیونکہ پہلا فیصلہ غلط تھا۔ اس لۓ بعد کے تمام فیصلے بھی غلط ہورہے ہیں۔ اور ہر غلطی کی ایک قیمت ہوتی ہے۔افغان جنگ صدر ریگن کے دور میں شروع ہوئ تھی۔ عراق جنگ صدر جارج ایچ بش کے دور میں شروع ہوئ تھی۔ شام میں پانچ سال سے صرف جنگ ہورہی ہے۔ لیبیا میں چار سال سے خانہ جنگی ہورہی ہے۔ یمن میں امریکا کی پشت پناہی میں سعودی عرب کی سات ماہ سے جنگ جاری ہے۔ انسانیت ان جنگوں میں دھنستی جارہی ہے۔کسی اسلامی سربراہ نے ابھی تک ان جنگوں کو ختم کرنے کا مطالبہ نہیں کیا ہے۔ ان جنگوں میں صرف مسلم انسانیت کا خون بہہ رہا ہے۔ لوگ ان جنگوں سے تنگ آکر یوروپ  کی طرف پناہ لینے بھاگ رہے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا سیلاب  دیکھ کر یوروپ دہل گیا ہے۔ یوروپ بھر میں انگلیاں امریکا کی طرف اٹھ رہی ہیں کہ یہ مشرق وسطی میں امریکا کی بیس سال سے ناکام پالیسوں کے نتائج ہیں۔
        امریکا کی پالیسوں کے بارے میں یوروپ میں اس بیداری نے شام کی جنگ کا گیم چینج کردیا ہے۔اور روس کو مشرق وسطی کو دہشت گردی کی جنگوں سے نکالنے کا موقعہ دیا گیا ہے۔ شام میں روس کی فوجی مداخلت کے فیصلہ کی بعض یوروپی یونین کے ملکوں نے حمایت کی ہے۔ یوروپ کا یہ موڈ دیکھ کر امریکا کو روس کے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوۓ اتفاق کرناس پڑا ہے۔
         Game اب  Change ہوگیا ہے۔ چوبیس سال قبل عراق کی پہلی جنگ تھی جس کے بعد امریکا کو دنیا کی واحد سپر پاور تسلیم کیا گیا تھا۔ اور اب چوبیس سال بعد شام کی جنگ میں روس کا سپرپاور کا مقام بحال ہورہا ہے۔مشرق وسطی میں امریکا کی قیاد ت میں صرف ایک یہ بڑی تبدیلی ہے۔

No comments:

Post a Comment