Tuesday, October 13, 2015

Hate Between Israeli and Arab People, Business Normal Between Elite Jewish and Elite Arab

عرب اسرائیل تنازعہ

Hate Between Israeli and Arab People,
Business Normal Between Elite Jewish
and Elite Arab                                                     

مجیب خان






   عرب اسرائیل تنازعہ دنیا کی تاریخ کا قدیم طویل اور محکوم انسانیت کا ایک درد ناک خونی تنازعہ ہے۔ جسے 67 برس ہوگۓہیں۔ لیکن دنیا کے سیاسی اجارہ داروں کے پاس اس تنازعہ کا ابھی تک حل نہیں ہے۔ یہ تنازعہ سامراجی اور نوآبادیاتی طاقتوں نے شاید اس یقین کے ساتھ تخلیق کیا تھا کہ اس تنازعہ کو کبھی حل نہیں کیا جائے گا۔ حالانکہ انہوں نے فلسطین کو جب تقسیم کیا تھا اور یہودی ریاست وجود میں آئی تھی۔ انہیں اسی وقت فلسطینیوں کی خود مختار ریاست کو بھی تسلیم کرنا چاہیے تھا۔ اور اس کے ساتھ ہی یہودی ریاست کی سرحدوں کا تعین بھی کرنا چاہیے تھا۔ لیکن ایسے تنازعہ سامراجی اور نوآبادیاتی طاقتیں دنیا میں اپنی سیاسی اجارہ داری رکھنے کے لئے استحصال کرتی ہیں۔ اور عرب اسرائیل تنازعہ کو اس مقصد میں ناقابل حل بنایا گیا ہے۔ اور یہ تنازعہ ان کے مفادات کی تکمیل کر رہا ہے۔ انہوں نے یہودی ریاست بنا دی تھی۔ لیکن یہودیوں کو امن دیا اور نہ ہی عربوں کو امن دیا ہے۔
    دنیا میں بڑے تنازعوں کو حل کیا گیا ہے۔ سرد جنگ کا مسئلہ بھی حل ہو گیا ہے ۔ جرمنی بھی دوبارہ متحد ہو گیا ہے۔ اور جرمنی ایک طاقت بن کر پھر ابھر رہا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی نئی ایجاد دیں دنیا کے بہت سے مسائل حل کر رہی ہیں۔ لیکن 67 برس میں عرب اسرائیل تنازعہ کو حل کرنے میں ایسی سیاسی ایجاد ابھی تک نہیں ہوئی ہے۔ فلسطینیوں کے لئے مقبوضہ فلسطین  گو تانوموبے ہے۔ اسرائیلی ٹینک بک تربند گاڑیاں اور فوجیں فلسطینیوں کی بستیوں گلیوں اور سڑکوں پر نظر آتے ہیں۔ 67 برس میں جو فلسطینی بچے پیدا ہوئیے ہیں انہوں نے اس ماحول میں پرورش پائی ہے۔ ان کی حالت زار غلاموں سے بھی بد تر ہے۔ لیکن فلسطینیوں کے حقوق اور آزادی کا جب بھی سوال ہوتا ہے ۔ دنیا بے ضمیر ہو جاتی ہے ۔ امریکہ نے عراقیوں کو آزادی دلائی ہے۔ امریکہ نے لیبیا کے لوگوں کو آزادی دلائی ہے۔ امریکہ شام کے لوگوں کو آزادی دلانے کے لئے ان کے ساتھ لڑ رہا ہے۔ امریکہ افغانوں کو طالبان سے آزادی دلانے کے لئے لڑ رہا ہے۔ لیکن امریکہ فلسطینیوں کو اسرائیل سے آزادی دلانے کے لئے تیار نہیں ہے۔
    یہود یوں کی نسل کشی یورپ میں ہوئی تھی۔ عربوں کا یورپ میں یہود یوں کی نسل کشی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ عرب دنیا میں یہود یوں کی ایک بڑی آبادی تھی۔ اور یہ یہودی عرب تھے۔ ان کی ثقافت اور زبان بھی عرب تھی۔ اور صدیوں سے یہ عرب شہری تھے۔ یورپی یہودی عرب یہود یوں سے مختلف تھے۔ ایران میں اس وقت بھی ایک بڑی تعداد میں ایرانی یہودی ہیں۔ ان کی زبان اور ثقافت ایرانی ہے۔ ان کی عبادت گاہیں ہیں۔ اور یہ  اپنے تہوار بھی مناتے ہیں۔ اور یہ ایرانی مسلمانوں کے درمیان رہتے ہیں۔ ترکی میں بھی یہودی رہتے ہیں۔ جو ترکی کےشہری ہیں۔ ترکی میں ان کی اپنی عبادت گاہیں۔ اسی طرح تونس میں بھی یہودی آباد ہیں۔ مراکش میں بھی یہودی رہتے ہیں۔ اور یہ بڑے امن سے رہتے ہیں۔ عرب یہودی عراق شام مصر ارد ن یمن اور بہت سے دوسرے عرب ملکوں میں بھی رہے سکتے تھے۔ اور انہیں  اپنے آبائی گھر چھوڑ کر اسرائیل جانے کی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن سامراجی اور نوآبادیاتی  طاقتوں نے جس طرح فلسطین کی تقسیم کی تھی۔ یہودیوں کی ریاست بنا کر فلسطینیوں کو سڑکوں پر چھوڑ کر چلے گۓ تھے۔ اور یہ فلسطینیوں کے ساتھ  ایک Immoral ناانصافی تھی۔ عرب اسرائیل تنازعہ کی اصل جڑ سامراجی اور نوآبادیاتی طاقتیں ہیں۔ جنہوں نے 67 برس سے عرب اسرائیل تنازعہ کو اپنے سیاسی مفادات  میں استحصال کرنے کے لیۓ زندہ رکھا ہے۔ سوال یہ نہیں ہے کہ کتنے عرب اور اسرائیلی اس تنازعہ میں مارے گۓ ہیں؟ بلکہ یہ سب انسان تھے اور یہ کیوں مارے گۓ ہیں؟
      عرب اسرائیل کو اس وقت تک تسلیم کرنے کے لیۓ تیار نہیں ہیں کہ جب تک اسرائیل عربوں کے علاقہ انہیں واپس نہیں کرتا ہے جن پر اسرائیل نے 1967 کی جنگ میں قبضہ  کیا تھا ۔ عربوں کے علاقہ پر اسرائیلی قبضہ کو اب 48 سال ہو گۓ ہیں۔ اسرائیلی یہ کہتے ہیں کہ کیا امریکہ نے میکسیکو کے علاقے واپس کر دیۓ تھے جن پر امریکہ نے میکسیکو کے ساتھ جنگ میں قبضہ کیا تھا۔ ور اب ایک تنازعہ سے دو تنازعہ ہو گۓ ہیں ایک فلسطین اسرائیل تنازعہ ہے جسے 67 سال ہوگۓ ہیں ۔اور دوسرا تنازعہ عربوں کے علاقوں پر اسرائیل کا قبضہ ہے جسے 48 سال ہو گۓ ہیں۔ اور ان کا حل کسی کے پاس نہیں ہے ۔ لیکن مسئلہ کیا ہے؟   
     جو یہودی یورپ اور شمالی امریکہ کے شہری ہیں ۔ لیکن ان کی رواداریاں اسرائیل کے ساتھ ہیں ۔ ان میں بعض دوہری شہریت بھی رکھتے ہیں ۔ کیونکہ یہ امریکہ فرانس برطانیہ سوئڈ ن ڈنمارک  وغیرہ  کے شہری ہیں اور ان ملکوں کی حکومت میں اہم عہدوں پر بھی ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے ان کے عرب اسلامی ملکوں کے ساتھ بھی رابطہ ہوتے ہیں۔ اکثر امریکہ اور یورپی ملک عرب اسلامی ملکوں میں اپنے سفیر یہود ی نامزد کرتے ہیں۔ امریکی کانگرس اور یورپی پارلیمانی وفد عرب اسلامی ملکوں کے دورے کرتے ہیں۔ اور ان ملکوں کے اعلی حکام سے ملاقاتیں کرتے ہیں ان کے  ساتھ دو طرفہ تعلقات فروغ دینے پر تبادلہ خیال کرتے ہیں۔ عرب اسلامی ملکوں میں امریکہ اور یورپ کے یہودیوں کا خیر مقدم کیا جاتا ہے۔ سیکرٹیری آف اسٹیٹ ہنری کیسنجر جو خود ایک جرمن یہودی تھے ایک عرصہ تک مڈ ل ایسٹ پیس پروسس مشن کے سلسلے میں سعودی عرب بھی جاتے تھے۔ عراق بھی گۓ تھے۔ ار دن بھی گۓ تھے۔ شاہ کے دور میں ایران بھی جاتے تھے۔ شام بھی صد ر حافظ السد سے ملاقات کرنے جاتے تھے۔ لیکن اسرائیل کے وزیر خارجہ ان ملکوں میں نہیں جا سکتے تھے۔ نہ ہی عرب اسلامی ملکوں کے وزیر خارجہ اسرائیل کے وزیر خارجہ سے مڈل ایسٹ پیس پروسس پر براہ راست مذاکرات کر سکتے تھے۔ سینڈ ی برگر صد ربل کلنٹن  کے قومی سلامتی امور کے مشیر تھے ۔ امریکی یہودی تھے۔ ولیم کوہن کلنٹن انتظامیہ  میں سیکرٹیری دفاع تھے۔ اور یہ بھی یہودی تھے۔ عراق کے مسئلے پر ولیم کوہن اور سینڈ ی برگر عرب حکومتوں کو رابطہ میں رکھا کرتے تھے۔  سینڈی برگر خطہ کے سیکورٹی امور پر عرب حکومتوں سے صلاح و مشورہ کر تے رہتے تھے۔ سعودی عرب اور خلیج کی ریاستیں ان کی فہرست میں خصوصی اہمیت رکھتی تھیں۔ ان ریاستوں کے حکمرانوں  کو علاقائی خطروں سے آگاہ کرتے رہتے تھے۔ 1998 میں عراق سے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرامد کرانے کے لیۓ صدام حسین کے خلاف فوجی کاروائی کرنے کی مہم میں سیکرٹیری دفاع ولیم کوہن نے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات ،کویت،اردن اور مصر کے دورے کۓ تھے۔ اور ان ملکوں کے رہنماؤں کو بتایا کہ صدام حسین کے پاس کیمیائی ہتھیار اس خطہ   اور دنیا کے لیۓ کتنا بڑا خطرہ تھے۔ لیکن عرب ملکوں کے وزیر دفاع اسرائیل کے وزیر دفاع سے اس خطہ کو مہلک ہتھیاروں سے دور رکھنے کے لیۓ مشترکہ اقدام کرنے کے لیۓ خود بات نہیں کر سکتے تھے۔
    سعودی شہزادہ بندر بن سلطان تیس سال تک واشنگٹن میں امریکہ کے سفیر تھے۔ واشنگٹن میں انہوں نے بااثر یہودیوں کے ساتھ  بہت اچھے تعلقات تھے۔ نائین الیون کے بعد سعودی حکومت نے واشنگٹن میں ایک انتہائ بااثر یہودی لابی کوHire کیا تھا۔ جو واشنگٹن میں سعودی مفادات کو فروغ دینے کے لۓ لابی کرتی تھی۔ گوتانوموبے میں نظربند عرب اسلامی قیدیوں کی عدالتوں میں اکثر یہودی وکلا پیروی کرتے تھے۔ جبکہ اسرائیلی جیلوں میں جو فلسطینی تھے ۔اسرائیلی عدالتوں میں ان کی پیروی اسرائیلی وکلا کرتے تھے۔
    دنیا میں سب سے زیادہ تیل عربوں کی سرزمین سے نکلتا ہے لیکن دنیا میں تیل کی بڑی کمپنیاں یہودیوں کی ہیں یا ان کمپنیوں کے چیرمین اور چیف ایگز یکٹو یہودی تھے۔ اعلی عرب حکام لندن، پیرس، نیویارک جنیوا میں یہودی تاجروں اور سرمایہ کاروں سے ملاقاتیں کرتے تھے۔ اعلی سطح پر عربوں اور یہودیوں کے درمیان معمول کا کاروبار ہوتا تھا۔ لیکن عرب عوام میں انہوں نے اسرائیل کے ساتھ کشیدگی کی فضا برقرار رکھی ہے۔ جبکہ یہودیوں نے اسرائیلی عوام میں عربوں کو دشمن رکھنے کی فضا برقرار رکھی ہے۔ عرب اور اسرائیلی عوام ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں ۔ لیکن یہودی اشرفیہ اور عرب اشرفیہ میں کاروبار معمول کا ہے۔
    


    
                                      




No comments:

Post a Comment