Friday, October 16, 2015

پاکستان کی سلامتی کے مفادات اور امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات

امریکہ پاکستان تعلقات



پاکستان کی سلامتی کے مفادات

اور امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات



مجیب خان





     وزیر اعظم نواز شریف ایسے وقت واشنگٹن کے دورے پر آ رہے ہیں کہ جب اسلامی دنیا شدید انتشار، عدم استحکام اور عدم اتحاد کے حالات میں ہے۔ اسلامی ملکوں کا اس وقت کوئی مستقبل نظر نہیں آ رہا ہے ۔ شام کے بعد کس اسلامی ملک کا نمبر ہے؟ اس کا کسی کو علم نہیں ہے ۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ اسلامی ملکوں کے لیۓ غنڈہ گردی کی جنگ بن گئی ہے۔ اسلامی ملکوں کو جیسے دہشت گردی اور غنڈہ گردی میں جیکڑ دیا  گیا ہے۔ پاکستان کا اس جنگ میں 100 بلین ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے ۔ اور جو لوگ اس جنگ میں مارے گئے ہیں وہ نقصان علیحدہ ہے اس جنگ کی وجہ سے پاکستان اقتصادی طور پر بیس پچیس سال پیچھے ہو گیا ہے۔ اس جنگ نے پاکستان کو جو نئے مسائل دئیے ہیں۔ وہ علیحدہ مسئلہ بنے ہوۓ ہیں۔
       پاکستان نے80 کے عشرہ میں افغانستان میں سوویت فوجوں کے خلاف اور پھر  نائین الوین کے بعد افغانستان میں طالبان حکومت کے خلاف امریکہ سے تعاون یہ دن دیکھنے کے لیۓ نہیں کی تھی۔ بہرحال پاکستان کے لئے یہ بڑا تلخ تجربہ ہے اور قومیں تلخ تجربوں سے سبق سیکھتی ہیں۔ پاکستان میں قیادتوں کی تاہم یہ ثقافت نہیں ہے کہ انہوں نے تلخ تجربوں سے کبھی سیکھا ہے۔ اس مرتبہ فوج نے کیونکہ بڑی قربانیاں دی ہیں۔ اس لئے اس تلخ تجربہ سے کچھ سبق سیکھنے کی توقع رکھی جا سکتی ہے۔ اور وزیر اعظم نواز شریف اپنے واشنگٹن کے دورے میں اسے ذہن میں رکھیں گے ۔  قومی سلامتی اور قومی مفاد پر ایک ٹھوس موقوف اختیار کریں گے۔ اور اس پر کوئی سودے بازی نہیں کریں گے۔
       پاکستان کی خارجہ پالیسی میں حالیہ برس میں جو تبدیلی آر ہی ہے ۔ وہ وزیر اعظم نوازشریف اور آئندہ ماہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے ان ملاقاتوں کا ایک اہم موضوع ہو گا۔ اور اس حوالے سے خلیج کی ریاستوں کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کا سرد پڑنا،  جنوبی ایشیا میں پاکستان کا چین کے اثرو رسوخ کو فروغ دینے پر بھارت کی تشویش اور روس کے ساتھ پاکستان کے نئے قریبی تعلقات کا فروغ جس میں فوجی اور اقتصادی امور میں قریبی تعاون پر امریکہ کی تشویش اہم موضوع ہوں گے۔ وزیر اعظم نواز شریف سے شاید یہ بھی پوچھا جاۓ گا کہ شام میں روس کی فوجی مداخلت پر ان کی حکومت کا کیا رد عمل ہے۔ امریکہ کو بھارت کے روس اور چین کے ساتھ BRICS معاہدے میں سرگرم ہونے پر اتنی تشویش نہیں ہے۔ لیکن پاکستان کے مفاد میں روس اور چین کے ساتھ قریبی تعلقات کا فروغ امریکہ اور بھارت کو قبول نہیں ہے؟ اگر مڈل ایسٹ روس اور امریکہ کے درمیان تقسیم ہو جاتا ہے تو اس صورت میں پاکستان کس طرف کھڑا ہو گا؟
       افغانستان بھی اس ملاقات میں ایک اہم موضوع ہو گا۔ افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کے ڈاکٹروں کے انتھک فوجی آپریشن میں ناکامیوں کے بعد اب تھینک تھینکس یہ کہہ رہے کہ افغان مسئلے کے حل کی چابی پاکستان کے پاس ہے۔ اور پاکستان کا طالبان پر خاصا اثر و رسوخ ہے۔ پاکستان افغان حکومت اور طالبان کے درمیان سمجھوتہ کرانے میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس حقیقت میں اکتوبر 2001 تک کچھ وزن تھا۔ لیکن طالبان تنظیم اب وہ نہیں ہے جو اکتوبر 2001 سے قبل تھی۔ اس وقت طالبان کے سینکڑوں گروپ ہیں۔ طالبان کے کچھ گروپ وار لارڈ کے ساتھ ہیں۔ کچھ گروپ منشیات کے مافیا کے ساتھ ہیں۔ جبکہ بعض حکومت میں کرپشن کرنے والوں کے ساتھ لوٹ مار میں شامل ہو گۓ ہیں۔ طالبان کی قیادت کا خود طالبان کی تنظیم پر کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ چودہ سال میں افغانستان کو اتنا زیادہ کرپٹ اور معاشرے کو اتنا زیادہ تقسیم در تقسیم کر دیا گیا ہے کہ افغانستان میں امن اور استحکام سب کے لیۓ صرف ایک خواب ہے۔ کابل میں ایک جمہوری حکومت بیٹھا دی ہے لیکن سیاسی عمل میں افغان معاشرے کے تمام گروپوں کو شامل کرنے کے لئے کسی نے کچھ نہیں کیا تھا۔ اب ان حالات میں پاکستان کیا کر سکتا ہے ۔ جبکہ پاکستان خود پاکستانی طالبان سے لڑ رہا ہے۔
      بھارت افغانستان میں جن اقلیتی گروپوں کی سرپرستی کر رہا ہے۔ اور انہیں پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے ۔اس سے افغانستان میں پاکستان کی کوششوں کے لئے مشکلات پیدا ہو رہی ہیں ۔امریکہ کو اسے روکنا ہو گا۔   ادھر قطر میں طالبان کا آفس کھولنے کے در پردہ مقاصد مشکوک نظر آ رہے ہیں ۔ طالبان کے قطر آفس کے ذریعے افغانستان میں طالبان  کو کیا داعش کا اسلام قبول کرنے کے لئے کلمہ پڑھایا جا رہا ہے؟اورپھر امریکہ پاکستان سے داعش کے خلاف لڑنے کے لئے کہہ گا۔ امریکہ ڈھائ سو سال سے جنگیں لڑ رہا ہے اور دنیا کی واحد طاقت بن گیا ہے۔ لیکن کیا پاکستان اس طرح امریکہ کے ساتھ جنگیں لڑ کر اپنا وجود برقرار رکھ سکے گا؟ پاکستان کو ہر طرف سے اپنی آزادی اور بقا کو اس طرح بچانا ہو گا کہ جیسے غنڈوں سے اپنی آبرو بچائی جاتی ہے۔ وزیر اعظم کو محدود سوچ کے ساتھ واشنگٹن نہیں آنا چاہیے ۔ بلکہ حالات کے وسیع  مطالعہ کے ساتھ آنا چاہیے۔
    یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ1998 میں ایٹمی دھماکوں سے قبل صدر کلنٹن نے جب وزیر اعظم نواز شریف کو وائٹ ہاؤس آنے کی دعوت دی تھی۔ چوبیس ماہ کے لئے صدر تھے۔ اور نئے صدارتی انتخاب کی مہم شروع ہو چکی تھی ۔ صدر جارج بش نے 2007  میں صدر جنرل پرویز مشرف اور پیپلز پارٹی کے درمیان سیاسی سمجھوتہ کرایا تھا اس وقت صدر جارج بش تیرہ ماہ کے لئے صدر تھے۔ اور امریکہ میں صدارتی انتخابات کی تیاریاں ہو رہی تھیں ۔اور سترہ سال بعد وزیر اعظم نوازشریف  صدر اوبامہ کی دعوت پر وائٹ ہاؤس آ رہے ہیں ۔اور صدر اوبامہ چودہ ماہ کے لئے صدر ہیں۔ اور امریکہ میں صدارتی انتخاب کی مہم کا آغاز ہو چکا ہے۔ صدر اوبامہ پاکستان کو نئی انتظامیہ کے لئے Set کر رہے ہیں ۔ جیسے ان سے قبل صدربش نے کیا تھا۔ اور ان سے قبل صدر کلنٹن پاکستان کو صدر بش کے لئے Set کر کے گۓ تھے۔ ایک بات واضح ہونا چاہیے کہ پاکستان نے خارجہ پالیسی میں جو تبدیلیاں کی ہیں۔ اس میں کسی دھمکی اور دھونس میں U-Turn بالکل نہیں لیا جاۓ ۔  پاکستان کو روس اور چین کے ساتھ تعلقات کی خصوصی  اہمیت برقرار رکھنا چاہیے  ۔ پاکستان کو عالمی پیچیدہ حالات اور جنوب مغربی ایشیا کے انتہائی مشکل صورت حال میں انتہائی مشکل فیصلے کرنا ہیں۔ اور یہ قیادت کا امتحان بھی ہے؟   

                        

No comments:

Post a Comment