Tuesday, October 27, 2015

American Hypocrisy And The Middle East

عرب دنیا میں بحران


American Hypocrisy And The Middle East

The Regime Change In Syria Should Be
Linked To Political Reform In Saudi Arabia, Kuwait, And U.A.E


مجیب خان





     شام کے بارے میں فیصلے اسی ذہنیت سے ہو رہے ہیں کہ جس ذہنیت سے پہلی جنگ عظیم کے بعد برطانیہ اور فرانس نے صحراۓ عرب کے مستقبل کا سیاسی فیصلے کۓ تھے۔ عرب ملکوں کی نئ سرحدیں بنائ تھیں ۔ کچھ نۓ ملک بنا دیۓ تھے۔ سعود قبیلے کو سعودی ریاست بنا دیا تھا۔ لبنان عظیم تر شام کا حصہ تھا ۔ اور لبنان کو شام سے علیحدہ کر کے ایک نیا ملک بنا دیا تھا۔ پھر دوسری جنگ عظیم کے بعد بڑی طاقتوں نے فلسطین کو تقسیم کر دیا تھا ۔اور اسرائیل ایک نیا ملک بنا دیا تھا۔ اور فلسطین میں صدیوں سے آباد عیسائوں اور مسلمانوں سے کوئی مشورہ کیا تھا اور نہ ہی ان سے پوچھا تھا۔ ان طاقتوں نے اپنا فیصلہ فلسطینی عوام پر مسلط کر دیا تھا۔ حالانکہ ان طاقتوں نے فاش ازم کو شکست دی تھی۔ لیکن یہ خود فاشسٹ بن گۓ تھے۔ اور اپنے فیصلے دوسروں پر مسلط کرنے لگے تھے۔ اسی ذہنیت سے انہوں نے عراق پر اپنے فیصلے مسلط کیے ہیں۔ اور اسی ذہنیت سے کبھی عراق کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کی بات کرتے ہیں۔ اور کبھی شام کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔
    اسد حکومت کا خاتمہ کرنے کے لئے باغیوں کو تربیت اور ہتھیار دئیے جا رہے ہیں ۔ اور اب اس لڑائی میں داعش آ گئی ہے۔   اور باغیوں اور داعش میں خانہ جنگی ہونے لگی ۔ ایک خانہ جنگی کے اندر دوسری خانہ جنگی شروع ہو گئی ۔ امریکہ نے داعش کے خلاف نیا محاذ کھول دیا ۔ فرانس اور برطانیہ بھی امریکہ کے ساتھ داعش کے خلاف محاذ میں شامل ہو گۓ۔ ایران اور اسد حکومت نے بھی داعش کے خلاف کاروائی کرنے لگے امریکہ نے اسد حکومت کے باغیوں سے کہا کہ وہ پہلے داعش سے لڑیں۔ اور داعش کو شکست دی جاۓ ۔ لیکن اس کے ساتھ ان کا یہ اصرار بھی تھا کہ بشارالسد اقتدار میں نہیں رہے سکتے ہیں ۔ اور انہیں جانا ہو گا۔ امریکہ دہشت گردوں کی ماڈریٹ قسم کو اسد حکومت کے خلاف تربیت اور ہتھیار دے رہا ہے۔ لیکن بشار السد ایک ماڈریٹ ڈکٹیٹر ہیں۔ جبکہ سعودی حکمران انتہائی نظریاتی قدامت پسند ڈکٹیٹر ہیں۔
   آخر سعودی عرب کی شام کے داخلی معاملات میں اچانک یہ دلچسپی کیسی ہے؟ جبکہ سعودی عرب نے ایک فوجی ڈکٹیٹر کو مصر پر مسلط کیا ہے ۔ اور اس  فوجی ڈکٹیٹر نے مصر کی جیلوں کو فوجی آمریت کے خلاف مزاحمت کرنے والوں سے بھر دیا ہے۔ سینکڑوں سیاسی قیدیوں کو جیلوں میں اذیتیں دے کر ہلاک کر دیا ہے۔ ہزاروں سیاسی قیدی پھانسی گھر میں اپنی پھانسی کا انتظار کر رہے ہیں۔ اور امریکہ سعودی عرب کے ساتھ شام میں ڈکٹیٹر کو اقتدار سے ہٹانے کی خانہ جنگی میں ہتھیار تقسیم کر رہا ہے۔ جبکہ سعودی عرب کا انسانی حقوق کا ریکارڈ بھی شام سے زیادہ اچھا نہیں ہے۔ آخر ان جمہوری قدروں کا ضمیر کہاں مر گیا ہے ؟ کیا صدر اوبامہ یا جان کیری بتائیں گے کہ سعودی عرب کے ساتھ امریکہ کا شام میں سیاسی ایجنڈا کیا ہے ؟ کیا شام کو عرب دنیا کے سلا فسٹ کے لئے ریاست بنایا جاۓ گا ؟ اور اس لئے شام کے مہاجرین کو امریکہ میں آباد کیا جا رہا ہے ؟ آخر سعودی عرب کا شام میں کیا مفاد ہے ؟ غیرملکی حکومتوں کو خود مختار ملکوں میں حکومتیں تبدیل کرنے کا حق کس نے دیا ہے؟ آخر کس قانون کے تحت غیر ملکی حکومتیں خود  مختار ملک کے داخلی معاملات میں گھس کر انسانیت کا خون بہا رہی ہیں۔ اور اس ملک کو تباہ کر رہی ہیں۔ اینگلو امریکہ نے عراق پر غیر قانونی غیر اخلاقی اور غیر مہذب حملہ کیا تھا۔ دنیا ان کی اس جا حا ریت کو قانونی تسلیم نہیں کرے گی۔ صدام حسین کو غیر قانونی طریقے سے اقتدار سے ہٹایا گیا تھا ۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹیری جنرل کوفی عنان نے عراق پر حملہ کو غیر قانونی کہا تھا۔ غیر ملکی طاقتوں نے جب بھی دو سرے ملکوں میں مداخلت کی ہے اس کے نتائج انسانیت کے لئے ہمیشہ تباہی ثابت ہوۓ ہیں۔ اینگلو امریکہ کے اس حملے کی وجہ سے عراق کو ابھی تک استحکام نصیب نہیں ہوا ہے۔ ریاست تباہ ہو گئی ہے۔ انسانیت تہس نہس ہو گئی ہے۔ غیر ملکی طاقتیں دوسرے ملکوں میں مداخلت کر کے یہ کام کرتی ہیں۔ پھر فرانس برطانیہ اور امریکہ نے لیبیا میں مداخلت کی تھی اور صدر قدافی کو اقتدار سے ہٹایا تھا۔ انہوں نے لیبیا کو بھی عراق بنا دیا ہے ۔ اور اب امریکہ کی مدد سے شام میں حکومت تبدیل کر نے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جبکہ امریکہ برطانیہ اور فرانس کی عراق اور لیبیا میں حکومتیں تبدیل کرنے کی ساکھ بہت خراب ہے۔ کیا بنک ان لوگوں کو قرضہ دینے کی حمایت کر ے گا جن کی مالی ذمہ دار یاں پوری کرنے کی ساکھ خراب ہوتی ہے۔ اور ان ملکوں کی عراق اور لیبیا میں سیاسی ذمہ دار یا ں پوری کرنے کی ساکھ بہت خراب ہے۔ لہذا ان ملکوں کی مداخلت سے شام میں حکومت تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دی جاۓ۔ امریکہ کو ان کی حمایت سے اس وقت پیچھے ہٹ جانا چاہیے تھا کہ جب یہاں امریکی شہری کا گلہ کاٹا گیا تھا۔ اور دوسرے بےگناہ لوگوں کے گلے کاٹے جا رہے تھے ۔انسانیت کو اذیتیں دی جا رہی تھیں ۔ ڈھائی لاکھ شامیوں کو بشار السد نے ہلاک نہیں کیا ہے ۔ بشار السد اور ان کے والد حافظ السد کے چالیس سالہ دور میں شام کو ایک خوبصورت ملک بنایا تھا ۔ شام کو ترقی دی تھی۔ استحکام دیا تھا۔ شام ایک سول سوسائٹی تھا۔ ہر عقیدے کے لوگ یہاں امن سے رہتے تھے۔
   غیرملکی طاقتوں اور غیرملکی ماڈریٹ دہشت گردوں نے شام کو اب کھنڈرات بنا دیا ہے۔ شام کے قدیم تاریخی مقامات جو شام کا قیمتی اثاثہ تھے ۔اسے سلافسٹ نے امریکہ کے واچ میں تباہ کردیا ہے۔ غیر ملکی میڈیا ذرا شامیوں سے ان کے ملک کو تباہ کرنے پر تاثرات بھی پوچھے کہ شام اب کیسا ہے؟ شامی اپنے کھنڈرات ملک کو دیکھ کر روتے ہوں گے۔ امریکہ کا بہروپیا رول یہ ہے کہ اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں نے مزاحمت کی تحریک شروع کی تھی ۔ فلسطینیوں نے چھرے مار کر چار اسرائیلی ہلاک کر دئیے تھے۔ اس کے جواب میں اسرائیلی فوج نے بھی سات فلسطینی ہلاک کر دئیے  تھے ۔ کشیدگی بڑھ رہی تھی۔ سیکرٹیری خارجہ جان کیری اسرائیل پہنچ گۓ ۔ اور رمالہ میں صدر محمود عباس سے ملے اور دونوں فریقوں کو حالات خراب کرنے سے روکا تھا۔ امریکہ نے فلسطینی اتھارٹی کی مالی امداد میں 80 ملین ڈالر کمی کرنے کا اعلان کر دیا۔ کیونکہ  صدر محمود عباس اسرائیلیوں کے خلاف فلسطینیوں کی مزاحمت روکنے میں مدد گار ثابت نہیں ہو رہے  تھے۔ لیکن شام میں پانچ سال سے امریکہ ماڈریٹ دہشت گردوں کو اسد حکومت کے خلاف ہتھیار دے رہا ہے ۔ انہیں تربیت دے رہا ہے۔ انہیں فنڈ دئیے جا رہے ہیں۔ لیکن شام میں ایک انسانی جان بچانے کے لئے امریکہ نے کچھ نہیں کیا۔ ڈھائی لاکھ شامی ان ہتھیاروں اور ان کی  تربیت کے نتیجے میں مارے گیے  ہیں۔
     خلیج کے بادشاہوں کے کلب نے امریکہ سے کھربوں ڈالر کے ہتھیار خریدنے  کے معاہدے کر کے امریکہ کی معیشت  کو بہت اچھا کر دیا ہے ۔ امریکہ میں خوشحالی آ گئی ہے۔ زندگی کی رونقیں واپس آ گئی ہیں۔ اس لئے امریکہ کو شام میں سعود یوں کے مطالبے پورے کرنا ہیں۔ سعود یوں نے اس مقصد میں کھربوں ڈالر واشنگٹن میں لابیوں کو بھی دئیے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ سعودی یمن میں جو جنگی جرائم کر رہے ہیں۔ امریکی میڈ یا میں اسے بھی بلیک آوٹ کر دیا گیا ہے۔ حالانکہ سعود یوں کا یمن پر حملہ صدام حسین کے کو یت پر حملے سے مختلف نہیں ہے۔ لیکن صدام حسین نے امریکی میڈیا کا منہ بند رکھنے کے لئے واشنگٹن میں لابیوں کو کھربوں ڈالر نہیں دئیے تھے۔ اور نہ ہی  امریکہ سے کھربوں ڈالر کا اسلحہ خریدنے کا معاہدہ کیا تھا۔ سات ماہ ہو گۓ ہیں اور یمن کے خلاف سعودی جا حا ریت ابھی تک جاری ہے۔ اب تک چار ہزار سے زیادہ یمینی جو انتہائی غریب اور بےگناہ تھے۔ مار دئیے ہیں۔ لیکن کیونکہ وہ امریکہ کی معیشت میں خوشحالی لاۓ ہیں۔ لہذا انہیں یہ ایوارڈ دیا گیا ہے کہ شام میں اسد حکومت کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے مذاکرات کی ٹیبل پر سعودی وزیر خارجہ   جان کیری کے برابر بیٹھے ہیں۔ اور یمن میں انسانیت کے خلا ف کرائم کرنے کی بھی اجازت ہیے۔
    بادشاہوں کا یہ کلب جن کے ملکوں میں سیاسی آزادیاں نہیں ہیں۔ جو انسانی حقوق کا احترام نہیں کرتے ہیں۔ جو آزادی اظہار میں یقین نہیں رکھتے ہیں۔ جہاں حکومت کی مخالفت کرنے کی سزا پھانسی ہے۔ جہاں جیلیں سیاسی قیدیوں سے بھری ہوئی ہیں۔ جہاں عورتوں کے حقوق مساوی نہیں سمجھے جاتے ہیں۔ جو قومی دولت میں عوام کو شریک نہیں کرتے ہیں۔ جو یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا کی ساری عیش و عشرت اللہ نے انہیں دی ہے۔ لیکن عوام کو عشرت دینے کے لئے بھی تیار نہیں ہیں۔ بادشاہوں کا یہ کلب شام میں حکومت تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ حالانکہ وہ خود سب سے بڑے مطلق العنان حکمران ہیں۔
     دنیا میں جمہوری اور اخلاقی قدروں کے چمپین جو بادشاہوں کے کلب میں بیٹھے ہیں۔ اور شام میں حکومت  تبدیل کرنے میں ان کی مدد کر رہے ہیں ۔ اگر وہ واقعی انسانی حقوق اور سیاسی آزادیوں میں یقین رکھتے ہیں تو انہیں شام میں حکومت کی تبدیلی کو سعودی عرب  کویت اور متحدہ عرب امارت میں سیاسی اصلاحات سے منسلک کرنا چاہیے۔ ا ور پریس کی آزادی عورتوں کے حقوق ، انسانی حقوق کا احترام ،سیاسی قیدیوں کی فوری رہائی اور سیاسی مخالفین کو پھانسی کی سزاؤں کا خاتمہ جیسے ایشو شام کے تنازعہ پر ہونے والے مذاکرات کے ایجنڈے میں شامل کیا جاۓ۔

    شام کے ڈھائی لاکھ لوگوں نے عرب عوام کی آزادی کے لئے  اپنی جانیں دی ہیں۔ اور دنیا کو ان کی قربانیوں کا احترام کرنا  چاہیے۔               

No comments:

Post a Comment