Tuesday, October 6, 2015

Enemy of Islam, Within Islam

اسلا مک ورلڈ

                                      Enemy of Islam, Within Islam

مجیب خان     


         مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز آل شیخ نے مسجد نمرہ میں خطبہ حج میں کہا ہے کہ دشمن لبادہ اوڑھ کر اسلام کی جڑوں کو کمزور کرنے پر لگے ہوئے ہیں۔ اور مختلف شکلوں میں اسلام کے خلاف سازشیں کررہے ہیں۔ یہود و نصارا  مسجد اقصی کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔مفتی اعظم نے کہا کہ اسلامی ریاستوں پر حملہ کرنے والوں کا اسلام سے کوئ تعلق نہیں ہے۔ حملہ کرنے والے یہ لوگ دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔مسلمانوں فتنہ پھیلانے والوں کے ہاتھ کھلونا نہ بنو۔آج امت میں فساد پھیل چکا ہے۔اسلام کا لبادہ اوڑھ کر گمراہ کرنے والوں کے خلاف امت متحد ہوجائے۔ان گمراہ جماعتوں کا مقصد امت مسلمہ کو پستیوں کی جانب دھکیلنا ہے۔
         مفتی اعظم نے خطبہ حج میں مسلمانوں کو درپیش جن مسائل کا ذکر کیا ہے۔ وہ آج کوئ نئے مسائل نہیں ہیں۔ نصف صدی سے مسلم دنیا ان مسائل سے دو  چار ہے۔اگر گزشتہ نصف صدی کے خطبہ حج دیکھے جائیں تو ان سب میں یہ ہی باتیں کی جاتی تھیں۔ خطبہ دینے والوں کا کام اسلام کے حق میں خطبہ دینا ہے۔ اور ان کے حکمرانوں کا کام اپنے مفاد میں فیصلے کرنا ہے۔مفتی اعظم نے اپنے خطبہ میں اسلام کے جن دشمنوں کا ذکر کیا ہے۔ اسلام کے یہ دشمن دراصل اسلام کے اندر ہیں۔ جو اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اسلام کی جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں۔
        اسلامی دنیا کو سعودی قیادت پر بڑا فخر تھا۔سعودی قیادت پر اسلامی دنیا کا اعتماد تھا۔مسلم اُمّہ پر جب بھی مشکل وقت آئے تھے ۔ہمیشہ سعودی قیادت سے رہنمائ لی جاتی تھی۔لیکن پھر اسلامی دنیا میں سعودی عرب کے اس خصوصی مقام کا مغربی طاقتیں اپنے مفاد میں استحصال کرنے لگی تھیں۔اسلامی اُمّہ کا مفاد پس پشت چلا گیا تھا۔سعودی عرب نے مغربی مفادات کو اپنے مفادات بنا لیا تھا۔سعودی عرب کا کردار بدل گیا تھا۔اسلامی ملکوں کی تنظیم کے بعض رکن ملک سعودی عرب کو مغرب کا مخبر سمجھنے لگے تھے۔سعودی عرب کے اس رول کی وجہ سے اسلامی ملکوں کی تنظیم اسلامی اُمّہ کے مفاد میں موثر ثابت نہیں ہو سکی ہے۔اسلامی دنیا اس وقت خطرناک موڑ پر کھڑی ہے۔لیکن اس صورت کا سامنا کرنےکے لئے اسلامی ملکوں کی تنظیم کا کوئ مشترکہ لائحہ عمل نہیں ہے۔سعودی عرب نے گلف حکمرانوں کے ساتھ اپنی ایک تنظیم بنالی ہے۔ جو گلف بادشاہوں کی تنظیم ہے۔اور اس تنظیم کے فیصلوں کو اسلامی ملکوں پر مسلط کیا جارہا ہے۔سعودی عر ب کا پولٹیکل اسلام اب کھل کر سامنے آگیا ہے۔اور یہ پولٹیکل اسلام شیعہ سنی فرقہ پرستی کو ہوا دے رہا ہے۔اور یہ پولٹیکل اسلام ہے جو اسلام کی جڑیں کھوکھلا کررہاہے۔اسلامی دنیا میں جتنی زیادہ لڑائیاں ہوں گی اسلام کی جڑیں بھی کھو کھلی ہوتی جائیں گی۔یہود ونصارا کے ساتھ یہ سازشیں کون کررہا ہے؟ یہ لڑائیاں کس کے مفاد میں ہیں۔ان لڑائیوں میں اسلام کا کیا مفاد ہے؟
         سعودی پالیسیوں میں شاہ فیصل کے بعد نمایاں تبدیلیاں آئ تھیں۔جنہں محل میں ان کے بھانجے نے قتل کردیا تھا۔شاہ خالد کے دور میں سعودی عرب مغرب نواز زیادہ ہوگیا تھا۔امریکا کی سرد جنگ کی پالیسیوں کو سعودی عرب نے اسلامی ملکوں میں فروغ دینا شروع کردیا تھا۔ جس کی وجہ سے اسلامی دنیا بلخصوص عرب دنیا میں خلفشار پیدا ہوا تھا۔عرب یکجہتی اختلافات کا شکار  ہوگئ  تھی۔مشرق وسطی کے تنازعہ حل ہونے کے بجائے نئے تنازعے پیدا ہوگئے تھے۔عرب اسلامی دنیا میں سعودی عرب سرد جنگ میں امریکا کی مدد کررہا تھا۔ اور امریکا مشرق وسطی میں نئے تنازعہ پیدا کررہا تھا۔لیکن سعودی عرب کے لئے باعث شرم بات یہ تھی کہ امریکا اور مغربی طاقتوں کےساتھ سعودی عرب کے انتہائ قریبی  تعلقات ہونے کے باوجود یہ فلسطین اسرائیل تنازعہ حل کروانے میں کچھ نہیں کر سکا تھا۔ آج عرب سرزمین پر جس قدر خون بہہ رہا ہے اس وقت بھی اتنا ہی خون بہہ رہا تھا۔
        شاہ فیصل کو اگر قتل نہیں کیا جاتا۔اور وہ زندہ ہوتے تو ان کی قیادت میں عرب اسلامی دنیا کا نقشہ آج ضرور مختلف ہوتا۔ شاہ فیصل عرب اسلامی کاز کو اپنی پالیسیوں میں اہمیت دیتے تھے۔شاہ فیصل اسلامی یکجہتی اور اتحاد میں یقین رکھتےتھے۔ 1974 میں پاکستان میں پہلی اسلامی سربراہ کانفرنس اس یکجہتی اور اتحاد کا مظاہرہ تھا۔1973 کی عرب اسرائیل جنگ میں امریکا اور مغربی ملکوں کی اسرائیلی جاحاریت  کی حمایت کرنے پر شاہ فیصل نے امریکا اور مغربی ملکوں کو تیل کی فراہمی پر پابندی لگادی تھی۔ شاہ فیصل کو قتل کرنےکا یہ سبب بھی تھا کہ وہ سعودی عرب کو مختلف سمت میں لے جارہے تھے۔جو امریکا اور مغربی طاقتوں کو قبول نہیں تھا۔ شاہ فیصل کے بعد سعودی عرب بدل گیا تھا۔سعودی عرب مغربی مفادات کا تابعدار ہوگیا تھا۔عرب اسلامی مفادات کو فراموش کردیا تھا۔اور اس سعودی پالیسی کےنتائج آج عرب اسلامی دنیا میں ہر طرف نظر آرہے ہیں۔شاہ خالد، شاہ فہد،  شاہ عبداللہ اور موجودہ شاہ سلمان ان ہی پالیسیوں  پر چل رہے ہیں۔
         مفتی اعظم خطبہ حج میں یہود و نصارا مسجد اقصی کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں، کی بات کررہے تھے لیکن ان کی حکومت کی پالیسیوں نے اسلامی دنیا کو تقسیم کردیا ہے۔مسلمان مسلمانوں سے لڑرہےہیں۔صلیبی جنگیں سعودی عرب کے ذریعےلڑی جارہی ہیں ۔ سعودی عرب نے مصر میں پہلی اسلامی  منتخب جمہوری حکومت کا یہود کے ساتھ مل کر تختہ آلٹ دیا ہے۔مصر میں اسلامی جمہوری حکومت سے اسرائیل کو خوف ہورہا تھا کہ اسلامسٹ اس کے گرد حلقہ تنگ کررہے تھے۔ مصر میں اخوان المسلمون غزہ میں ھماس لبنان میں حزب اللہ اور یہ ایک نیا اتحاد بن رہاتھا۔ایران اور ترکی بھی اس اتحاد میں شامل ہورہے تھے۔
          مصر کی جمہوری حکومت کا تختہ آلٹنے والے فوجی ڈکٹیڑ کو سعودی شاہ عبداللہ مرحوم نے دس بلین ڈالر دینے کا اعلان کیا تھا۔فوجی حکومت نے اخوان المسلمون کے نو سو کارکنوں کو جن میں وزیر اعظم محمد مرسی بھی شامل تھے موت کی سزائیں دینے کا اعلان کیا تھا۔جبکہ اخوان المسلمون کے سینکڑوں کارکنوں کو جیلوں میں اذیتیں دے کر ہلاک کردیا گیا تھا۔بش اور اوبامہ انتظامیہ کے جو اعلی حکام ایک عرصہ سے عرب دنیا میں آزادی اور جمہوریت کو فروغ دینے کی باتیں کرتے تھےوہ صرف لیکچر دینا ثابت ہوئے تھے۔امریکا نے اپنی اخلاقی اور جمہوری قدروں کو فراموش کردیا تھا اور سعودی مصری آمریت کے آگے ہتھیار ڈال دئے تھے۔
          جبکہ سعودی عرب اور خلیج کے حکمرانوں  نے عراق میں ایک سنی حکومت کا خاتمہ کرنے میں نصارا سے تعاون کیا تھا۔ لیبیا میں معمر قدافی کی حکومت ختم کرنے میں بھی سعودی عرب اور خلیج کے حکمرانوں نے نصارا کے فیصلے کی حمایت کی تھی۔مفتی اعظم خطبہ حج میں کہتے ہیں کہ اسلام کے خلاف سازشیں ہورہی ہیں۔لیکن اسلام کے خلاف سازشوں میں شریک کون ہے؟ اتحادی کون ہے؟مفتی اعظم نے اپنے خطبہ حج میں یہ بھی کہا ہے کہ اسلامی ریاستوں پر حملے کرنے والوں کا اسلام سے کوئ تعلق نہیں ہے۔ حملہ کرنے والے اسلام سے خارج ہیں۔لیکن یمن ایک اسلامی مملکت ہے ۔قدیم تاریخی ملک ہے ۔اسلامی تاریخ اس کی دولت ہے۔لوگ انتہائ غریب ہیں۔ اس اسلامی ملک پر کس نے حملہ کیا ہے؟ کون یمن کی قدیم اسلامی تاریخ کو نیست و نابود کررہاہے؟
         نہ صرف یہ بلکہ شام میں بھی سعودی عرب ایک پروکسی جنگ کررہا ہے۔شام میں حکومت تبدیل کرنے کا حق سعودی عرب کو کس نے دیا ہے؟پھر بحرین میں جو حکومت تبدیل کرنا چاہتے ہیں انھیں یہ حق کیوں نہیں ہے؟سعودی عرب نے بحرین میں حکومت کے دفاع میں اپنی فوجیں بھیجی تھیں۔لیکن شام میں سعودی عرب نے حکومت تبدیل کرنے کے لئے دہشت گردوں کو بھیجا ہے ۔امریکا کو کھربوں ڈالر انھیں تربیت اور ہتھیار دینے کے لئے دئیےہیں۔ شام میں ایک شخص کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے ڈھائ لاکھ شامی مسلمان مارے گئے ہیں۔شام کو مسلمانوں نے پتھر کے دور میں پہنچا دیا ہے۔عراق کو امریکا نے پتھر کے دور میں پہنچا دیا ہے۔ لیبیا کو برطانیہ، فرانس اور امریکا سعودی عرب اور خلیج کے حکمرانو ں کی حمایت سے پتھر کے دور میں پہنچا دیا ہیے۔لاکھوں شامی ،لاکھوں عراقی، لاکھوں لیبین در بدر پناہ کی تلاش  میں ٹھوکر یں کھا رہے ہیں۔سعودی عرب کی شاندار قیادت میں مسلمانوں کو یہ ملا ہے۔
         پھر ایک شخص کو اقتدار کی کرسی پر بیھٹانے کے لئے سعودی عرب نے بھرپور طاقت سے یمن پر حملہ کیا ہے۔سات ماہ سے یمن پر مسلسل بمباری میں ہزاروں لوگ ہلاک ہوگئے ہیں۔ ایک اسلامی یمن کو ایک اسلامی سعودی عرب نے تباہ کردیا ہے۔اس کی معشیت تباہ کردی ہے۔اس کی قدیم اسلامی تاریخ کو نیست و نابود کردیا ہے۔ یمن کے لوگوں کا پانی خوراک بند کردیا ہے۔ لوگ بھوک اور پیاس سے دم توڑ رہے ہیں۔ مفتی اعظم صاحب کیا یہ یہود ونصارا کررہے ہیں؟ یا اسلام میں ان کے جو پروکسی ہیں  وہ یہ کر رہے ہیں۔
         سرد جنگ اسلام کی جنگ نہیں تھی۔یہ دو بڑی طاقتوں کے درمیان سیاسی نظریات کی جنگ تھی۔جس کا اسلامی نظریات سے کوئ تعلق نہیں تھا۔شاہ فیصل سرد جنگ میں اسلامک ورلڈ کو ملوث کرنے کی حمایت میں نہیں تھے۔شاہ فیصل اگر زندہ ہوتے  تو افغانستان میں جہاد بھی نہیں ہوتا۔سوویت یونین کو شکست دینے میں مذہب اسلام کا جس طرح استحصال کیا گیا تھا۔شاہ فیصل اس کی اجازت کبھی نہیں دیتے۔شاہ خالد کے دور میں اسلام کو سرد جنگ میں استعمال کیا گیا تھا۔اسلامی ملکوں میں اسلامی جماعتوں میں انتہا پسندی کے رجحانات ابھارے گئے تھے۔مغربی میڈیا سعودی عرب کی اس تحریک کو پھیلانے میں پروپگنڈہ کا کام کررہا تھا۔افغانستان میں سوویت فوجوں کے خلاف جہاد کے لئے جہادیوں کی بھرتی شروع ہوگئ تھی۔سعودی عرب کے اس فیصلے کی حمایت میں امریکا نے یہ فتوی دیا تھاکہ افغانستان میں مسلمان حق پر ہیں۔ اور اللہ ان کے ساتھ ہے۔ یہاں اللہ سے ان کی مراد امریکا تھا۔اگر اللہ ان کے ساتھ ہوتا تو آج افغانستان اور مسلمانوں کی دنیا اس عذاب میں نہیں ہوتی۔ شاہ خالد کے بعد شاہ فہد نے بھی اس سعودی پالیسی کو جاری رکھا تھا۔
         افغانستان میں جہاد کی تیاریاں ابھی جاری تھیں کہ اس اثنا میں ایران میں اسلامی انقلاب نے تہلکہ مچا دیا تھا۔ دنیا کو ایران کا اسلامی انقلاب  دوسرے اسلامی ملکوں میں پھیلنے کی تشویش ہونے لگی تھی۔امریکا کے 52 سفارتکاروں کو ایرانی طالب علموں  نے یرغمالی بنا لیا تھا۔ امریکا کے یرغمالی سفارتکاروں کو رہا کرانے کے لئے سعودی عرب نے خلیج کے حکمرانوں کے ساتھ مل کر صدام حسین کو ایران پر حملہ کرنے کی ترغیب دی تھی ۔اسلام کو افغانستان میں سوویت یونین پر حملے کر نے کے لئے استعمال کیا جارہا تھا۔ جبکہ صدام حسین کو ایران کا اسلامی انقلاب سبوتاژ کر نے کے لئے استعمال کیا جارہا تھا۔
                   اس وقت بھی اسلامی دنیا میں بیک وقت کئ مقامات پر کئ جنگیں ہورہی تھیں۔لبنان میں خانہ جنگی ہورہی تھی ۔فلسطائین میں اسرائیلی جارحیت جاری تھی۔صابرہ اور شتیلا کے فلسطینی مہاجر کیمپوں کی خونی تاریخ کبھی فراموش نہیں کی جاسکتی ہے۔ایران عراق دو اسلامی ملکوں کے درمیان جنگ آٹھ  سال تک لڑی گئ تھی ۔اس جنگ میں امریکا اور اسرائیل نے کھربوں کے ہتھیار فروخت کئے تھے۔ان ہتھیاروں سے لاکھوں ایرانی اور عراقی مارے گئے تھے۔ اور مفتی اعظم خطبہ حج میں یہ کہتے ہیں کہ یہود و نصارا اسلام کے خلاف سازشیں کررہے ہیں۔ آ ج 35 سال بعد بھی اسلامی ملکوں کی سرزمین پر اتنی ہی جنگیں ہورہی ۔ افغانستان میں جنگ ہورہی ہے۔ عراق میں جنگ ہورہی ہے۔ شام میں جنگ ہورہی ہے۔ لیبیا میں جنگ ہورہی ہے۔ یمن میں جنگ ہورہی ہ  ۔اور یہ سعودی عرب کی 35 سالوں کی پالیسیاں ہیں۔جنہوں نے اسلام اور اسلامی ملکوں کو  کھائ کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔سعودی سیاست کے گندے تالاب میں غوطہ لگانے اتر آئے ہیں تو ان پر انگلیاں بھی آٹھیں گی۔ اور ان سے سوال بھی ہوں گے۔اور ان سے یہ سوال بھی ہوگا کہ اسلام کے خلاف سازشیں کون کررہا؟
               

No comments:

Post a Comment