Saturday, October 24, 2015

“My Brother Kept Us Safe” But At What Cost

مڈل ایسٹ


“My Brother Kept Us Safe”

But At What Cost


مجیب خان





      ری  پبلیکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ  نے Jeb Bush کو ٹوئٹ میں کہا ہے  کہ تمہارے بھائی نے عراق پر حملہ کیوں کیا تھا ؟ اور مڈل ایسٹ کو عدم استحکام کر دیا ہے۔ حالانکہ وہاں مہلک ہتھیار نہیں تھے۔ انفارمیشن غلط تھی۔  ڈونالڈ ٹرمپ نے یہ بالکل درست کہا ہے۔ اس میں انتخابی مہم کی سیاست نہیں ہے۔ اس لئے Jeb Bush کے پاس اس کا کوئی معقول جواب بھی نہیں تھا۔ اور ان کا مختصر جواب یہ تھا کہ میرے بھا ئ [ جارج بش] نے ہمیں محفوظ رکھا ہے۔ لیکن سوال یہ تھا کہ کس قیمت پر ہمیں محفوظ رکھا تھا؟ اگر دنیا کو غیر محفوظ کر کے ہمیں محفوظ رکھا ہے ۔ تو یہ خود غرضی اور مفاد پرستی تھی۔ حالانکہ صدا م حسین کو اقتدار سے ہٹایا اس لئے گیا تھا کہ ان کے اقتدار میں رہنے سے دنیا غیر محفوظ ہو رہی تھی۔ لیکن عراق پر حملے سے دنیا آج زیادہ غیر محفوظ ہو گی ہے۔ مڈل ایسٹ کے تین سو ملین لوگ بالکل غیر محفوظ ہو گۓ ہیں۔ اور یہ لوگ تکلیفوں اور اذیتوں میں ہیں۔ عراق میں پچیس ملین لوگ زندگی اور موت کے درمیان لٹکے ہوۓ ہیں۔ گزشتہ بارہ سال سے روزانہ سینکڑوں عراقی ہلاک ہو رہے ہیں۔ جبکہ شام میں بیس ملین لوگ محفوظ نہیں ہیں۔ لیبیا میں بائیس ملین لوگوں کی زندگیاں محفوظ نہیں ہیں۔ افغانستان میں ساری انسانیت غیر محفوظ ہے۔ پاکستان میں 180 ملین لوگوں میں محفوظ ہونے کا اعتماد نہیں ہے۔
    عراق میں دو لاکھ سے زیادہ لوگ بش انتظامیہ کی فوجی مہم جوئی کے نتیجے میں مارے گۓ ہیں۔ لیبیا میں بیس ہزار لوگ صرف سامراجی اور نوآبادیاتی طاقتوں کی جا حا ریت کے نتیجے میں مارے گۓ ہیں۔ شام میں ڈھائ لاکھ لوگ امریکہ کی غلط پالیسی کی وجہ سے مارے گۓ ہیں۔ افغانستان میں 80 کے عشر ے میں مغربی طاقتوں کے مفاد میں پچاس ہزار افغانوں نے سوویت یونین کو شکست دینے کی جنگ میں اپنی جا نيں دی تھیں۔ اور پھر نائن الیون کے بعد افغانستان میں طالبان سے امریکہ کی سلامتی کو خطرہ ہو گیا تھا ۔ لہذا امریکہ نے افغانستان پر حملہ کر کے  طالبان کو اقتدار سے ہٹایا تھا۔ اور حملے میں پچاس ہزار سے زیادہ افغان مارے ‏گۓ تھے۔ اور افغانوں کی ہلاکتوں کا یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔
    مڈل ایسٹ شمالی افریقہ افغانستان جنوبی ایشیا غیر محفوظ ہیں۔ اور اس خوف سے لوگ محفوظ دنیا میں پناہ لینے بھاگ رہے ہیں۔ ان کی اس جدوجہد میں کتنے مرد عورتیں اور بچے سمند رو ں میں دریاؤں میں ڈوب گۓ ہیں۔ کتنے بچے عورتیں اور مرد پانی نہ ملنے اور بھوک سے مر گۓ ہیں۔ خود کو محفوظ رکھنے اور دوسروں کو غیر محفوظ کرنے کی لڑائی میں کتنے خاندان اجڑ گۓ ہیں۔ کتنے گھر برباد ہو گۓ ہیں۔ کتنے ملک تباہ ہو گۓ ہیں۔ تاریخ میں اسے اکیسویں صدی کا  Holocaust کہا جاۓ گا۔ ایک محفوظ دنیا  نے یہ اذیتیں اور تکلیفیں غیر محفوظ انسانیت کو دی ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے شاید انسانیت کے اس درد کو محسوس کیا ہے۔ اور Jeb Bush سے یہ سوال کیا ہے کہ تمہارے بھائی  نے عراق پر حملہ کیوں کیا تھا ؟ اس حملے نے مڈل ایسٹ کو عدم استحکام کے بھنور میں دھکیل دیا ہے۔
     جب تک امریکہ کو یہ یقین تھا کہ عراق میں مہلک ہتھیار ہیں اس وقت تک عراق پر صرف بلندیوں سے بمباری ہوتی رہی۔ لیکن جس دن امریکہ کو یہ یقین ہو گیا کہ عراق میں اب مہلک ہتھیار نہیں ہیں ۔ امریکی فوجیں اسی دن عراق میں گھس گئی تھیں۔ اور اس ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ اس ملک کا شیرازہ بکھیر دیا ۔اس ملک کی تہذیب و تمدن تہس نہس کر دیا۔ یہ ملک اب کبھی دوبارہ عراق بن سکے گا یا نہیں ؟ یہ مسئلہ بھی بغیر جنگ کے اسی طرح حل ہو سکتا تھا کہ جیسے ایران کے ایٹمی پروگرام کا مسئلہ حل کیا گیا ہے۔ صدا م حسین بش سینیئر کی Gotcha پالیسی کا شکار ہو گۓ تھے۔ حالانکہ صدام  حسین نے بغداد میں امریکی سفیر کے ذریعے کویت کے بارے میں اپنے عزائم پر صدر جارج ایچ بش کی رائے معلوم کی تھی۔ لیکن صدام حسین کو دیانتدارانہ مشورہ دینے کے بجاۓ ۔ انہیں گمراہ کیا گیا تھا۔ ا پھر سوویت صدر میکائیل گارباچوف کی سفارتی کوششوں کے نتیجے میں صدام حسین کویت سے اپنی فوجیں واپس بلانے پر آمادہ ہو گۓ تھے۔ اور اس مسئلے کو سیاسی طور پر حل کر لیا تھا۔ لیکن صدر جارج ایچ بش کو جب یہ یقین ہو گیا کہ صدا م حسین واقعی کویت سے اپنی فوجیں نکال رہے تھے۔ تو صدر بش سينئر نے اسی وقت عراق پر حملہ کا حکم دے دیا۔
     نائن الیون کے بعد یہ ہی افغانستان کے ساتھ ہوا تھا۔ طالبان حکومت سے اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اور طالبان سے کہا گیا تھا کہ اگر وہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے نہیں کریں گے تو ان کے خلاف فوجی کاروائی کی جا ۓ گی۔ پاکستان نے اس تنازعہ میں مداخلت کرتے ہوۓ اسے سیاسی طور پر حل کرنے کی کوشش کی تھی۔ اور طالبان کے رہنما ملا عمر سے اسامہ بن لادن امریکہ کے حوالے کرنے کا اصرار کیا تھا۔ تاہم
پاکستان کی کوششوں سے ملا عمر بن لادن کو امریکہ کے بجاۓ کسی تیسرے ملک کے حوالے کرنے کے لئے تیار ہو گۓ تھے۔ لیکن اس سیاسی عمل کو آگے بڑھانے کے بجاۓ صدر جارج ڈ بلو بش نے افغانستان پر حملہ کر دیا تھا۔
  صدر کرنل معمرقدافی نے اپنے تمام مہلک ہتھیار امریکہ کے حوالے کر دئیے  تھے۔ جس کے بعد صدر بش نے قدافی کو اقتدار میں رہنے کا سرٹیفکیٹ دے دیا تھا۔ صدر بش کی دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں صدر قدافی  امریکہ سے تعاون بھی کر رہے تھے۔ بش انتظامیہ نے القا عدہ کے متعدد دہشت گرد لیبیا کے حوالے ان سے تحقیقات کرنے کے لئے دئیے تھے۔ جبکہ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی سالانہ رپورٹ میں لیبیا میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے بارے میں بتایا جاتا تھا۔ پھر یہ اوبامہ انتظامیہ تھی جس نے برطانیہ اور فرانس کے ساتھ مل کر لیبیا پر بمباری کر کے قدافی حکومت کو اقتدار سے ہٹا یا تھا۔ یہ سامراجی اور نوآبادیاتی جا حا ریت تھی۔ اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی تھی۔ صدام حسین نے بیس سال قبل کویت  میں ایک ایسی ہی فوجی جا حا ریت سے حکومت کو اقتدار سے معزول کیا تھا ۔ لیکن یہاں یکے بعد دیگرے عرب ملکوں میں حکومتیں تبدیل کر کے ان ملکوں کو Destabilize کیا جا رہا تھا۔
       اوبامہ انتظامیہ کی یہ پالیسیاں دراصل بش انتظامیہ کی پالیسیوں کا تسلسل تھا۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ اوبامہ انتظامیہ کا خارجی امور میں بش انتظامیہ کے Neo-Cons کے ساتھ سمجھوتہ ہو گیا تھا۔ اور صدر اوبامہ کے داخلی ایجنڈے پر انہوں نے سمجھوتہ کر لیا تھا۔ صدر اوبامہ قانون کے پروفیسر تھے ۔ اور ان سے قانون کی بالا دستی بحال کرنے کی توقع کی جا رہی تھی۔ اور صدر بش کی انتظامیہ میں عالمی قوانین کی جس طرح خلاف ورزیاں کی گی تھیں انہیں اب نہیں دہرایا جاۓ گا۔ لیکن یہ دیکھ کر بڑی ما یوسی ہوئی ہے کہ عالمی قوانین کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ اوبامہ انتظامیہ میں بھی جا رہی تھا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ سے دنیا میں امریکہ کا امیج خراب ہوا ہے۔ چار سال سے شام میں حکومت کے خلاف دہشت گردی سے دنیا تنگ آ گی تھی ۔ امریکہ نئے دہشت گرد گروپوں پر ماڈریٹ کا لیبل لگا کر انہیں تربیت اور اسلحہ فراہم کر رہا تھا ۔ امریکہ کی اس پالیسی سے حاصل کچھ نہیں ہو رہا تھا۔ صرف بے گناہ لوگ مر رہے تھے۔ اور تباہی پھیل رہی تھی۔ بالآخر شام میں دہشت گردوں کے خلاف روس کو مداخلت کرنا پڑی ہے۔ یورپ نے روس کے اقدام کی خاموش حمایت کی ہے۔ جبکہ ایشیا افریقہ اور لاطین امریکہ کے ملکوں میں اس کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کا یہ سوال درست ہے کہ عراق پر حملہ کیوں کیا تھا ؟ یہ عراق پر اس حملہ کی آگ ہے جس نے سارے مڈل ایسٹ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اور یہ آگ پھیلتے  پھیلتے یورپ تک پہنچ رہی تھی۔ اور روس اس آگ کو بھجانے آیا ہے۔ امریکہ کی سمجھ میں اب آیا ہے کہ سلامتی کونسل میں روس اور چین نے اس کی قراردادوں کو کیوں ویٹو کیا تھا ؟


   

No comments:

Post a Comment