Tuesday, October 20, 2015

The Bush Administration and The Debacle of Afghanistan

افغانستان کا مسئلہ

 The Bush Administration And

The Debacle of Afghanistan


مجیب خان





       افغان فوج اور پولیس کو تربیت دینے میں بارہ سال لگے تھے۔ جس کے بعد فوج اور پولیس افغان حکومت کے باقاعدہ ادارے بن گۓ تھے اور یہ امید کی جا رہی تھی کہ فوج اور پولیس افغانستان میں امن اور استحکام لانے میں ایک کلیدی کردار ادا کریں گے۔ لیکن اب نظر یہ آ رہا ہے کہ افغان فوج اور پولیس بھی امریکہ اور نیٹو فوجوں کی طرح اس مقصد میں ناکام ہو رہے ہیں۔ پولیس اور فوج شہریوں کی جانیں بچانے کے بجاۓ اپنی جانیں بچانے کی فکر میں ہیں۔ طالبان کا خوف جیسے ان کا پیچھا کرتا رہتا ہے۔ اور جب وہ یہ دیکھتے ہیں کہ طالبان ان کی ڈسٹرکٹ یا شہر میں داخل ہو گۓ ہیں۔ وہ تھانے اور پولیس چوکیاں طالبان کے حوالے کر کے بھاگ جاتے ہیں۔ جبکہ افغان فوجی کئی ماہ سے تنخواہیں نہ ملنے کی وجہ سے فوج کو چھوڑ کر چلے گۓ ہیں۔
    عراق میں امریکہ نے صدام حسین کے فوجی ادارے کو تباہ کر کے ایک نئی فوج بنائی تھی اور اسے  تربیت امریکہ نے دی تھی ۔ لیکن عراقی فوج کا ایک بریگیڈ اس سال فوج سے منحرف ہو گیا تھا ۔ اور داعش سے مل گیا تھا۔ شام میں اسد حکومت سے لڑنے کے لیۓ  سی آئی اے نے سو نام نہاد ماڈریٹ باغیوں کو تربیت دی تھی۔ جس پر پانچ سو ملین ڈالر خرچ کئے تھے۔ لیکن تربیت لینے کے بعد نام نہاد ماڈریٹ میں سے 95 نے اپنے ہتھیار القاعدہ کو دے کر چلے گۓ تھے۔ اور اسد حکومت سے لڑنے کے لئے میدان میں صرف پانچ رہے گۓ تھے۔
   امریکہ کو افغانستان میں ابھی تک کوئی کامیابی ہوئی ہے اور نہ ہی عراق میں امریکہ کو کامیابی ہوئی ہے۔ بعد کی تمام جنگیں جیتنے کے لئے افغان جنگ کا جیتنا ضروری تھا۔ لیکن افغانستان میں امریکہ کی ناکامی نے باقی جنگوں کو بھی ناکام بنا دیا ہے۔ جس میں دہشت گردی کے خلاف جنگ بھی شامل ہے۔ افغان جنگ نیٹو کی ساکھ کا سوال تھا۔ پہلی بار نیٹو نے ایک گرم جنگ لڑی تھی ۔ نیٹو کو یہ شکست بھی ایک ایسے ملک میں ہوئی ہے جو انتہائی غریب ملک تھا۔ جس کی کوئی فوج تھی اور نہ ہی ان کے پاس جدید ہتھیار تھے۔ نیٹو کے لئے یہ شرمناک شکست ہے۔
   افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کو چودہ سال سے مصروف رکھنے کا مقصد نیٹو کو دراصل کمزور کرنا اور اس فوجی اتحاد میں دراڑیں ڈالنا تھا۔ طالبان اور القاعدہ امریکہ اور نیٹو کے لئے ایک بڑا خطرہ تھے اور نیٹو روس کے لئے ایک بڑا خطرہ بن رہا تھا۔ جو روس کے گرد حلقہ تنگ کر رہا تھا۔ جبکہ چین کو یورپ سے باہر نیٹو کی بڑھتی ہوئی مہم جوئیوں پر تشویش تھی۔ بھارت کا افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کو عدم استحکام کرنے کی کوششوں نے دراصل نیٹو کے لئے مشکلات پیدا کی تھیں۔ افغانستان میں بھارت امریکہ کی مدد کر رہا تھا اور نہ ہی نیٹو کو کامیاب بنانے میں مدد دے رہا تھا۔ بلکہ بھارت افغانستان میں صرف اپنے مفادات دیکھ رہا تھا۔ جبکہ پاکستان میں تاثر یہ تھا کہ امریکہ اور بھارت کے اسٹرٹیجک تعلقات ہیں جو پاکستان کو عدم استحکام کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ افغان جنگ سے سب اپنے مقاصد حاصل کر رہے تھے۔  افغانستان میں بھارت امریکہ اور نیٹو کی مدد صرف  پاکستان کو عدم استحکام کرنے میں کر رہا تھا۔
  بش چینی انتظامیہ کے انجنیئر جو جنگوں کے نقشے تیار کر رہے تھے۔ ان کے خیال میں افغانستان میں کامیابی عراق میں حکومت کی تبدیلی سے منسلک ہے۔ افغانستان میں طالبان کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد بڑی کامیابیوں کے لئے عراق میں صدا م حسین کو اقتدار سے ہٹانا ضروری تھا۔ لہذا افغان جنگ کو چوراہے پر چھوڑ کر بش چینی انتظامیہ نے عراق پر حملہ کر دیا تھا۔ امریکہ نے قبائلی معاشروں میں کبھی جنگیں نہیں لڑی تھیں اور نیٹو نے کبھی گرم جنگ نہیں لڑی تھی۔ لہذا افغانستان اور عراق ان کے لئے نیا تجربہ تھے۔ اور امریکہ اور نیٹو دونوں اس تجربے میں بری طرح ناکام ہوۓ ہیں۔
   حیرت کی بات تھی کہ بش انتظامیہ نے افغانستان پر حملے سے پہلے روسی جنرلوں سے افغانستان میں سوویت یونین کے ناکام ہونے میں غلطیوں کے بارے میں دریافت کیا تھا۔ لیکن انہوں نے افغانستان کی تاریخ کو اتنی اہمیت نہیں دی تھی جو یہ بتا رہی تھی کہ افغانستان میں جتنے بھی حملہ آور آئیے تھے سب نے ماریں کھائیں تھیں۔ اور افغانستان سے ناکام ہو کر گۓ تھے۔  افغانستان میں داخل ہونے کے لیۓ اس تاریخ کو ذہین میں رکھنا ضروری تھا۔ بش چینی انتظامیہ نے اس حقیقت کو بھی نظر انداز کر دیا تھا کہ طالبان اصل مجاہدین تھے جو سوویت ایمپائر سے لڑے تھے اور اسے شکست دی تھی۔ انہیں ایمپائر سے لڑنے کا تجربہ تھا۔ افغان مجاہدین سوویت ایمپائر سے اس وقت تک لڑتے رہے تھے کہ جب تک اس نے شکست قبول نہیں کی تھی۔ یہ سابق مجاہدین اب طالبان ہیں۔ اور یہ امریکی ایمپائر سے بھی اسی طرح اس وقت تک لڑتے رہیں گے کہ جب تک امریکہ شکست قبول نہیں کرے گا۔ خواہ اسے اٹھارہ سال لگ جائیں۔
   بش چینی انتظامیہ نے امریکہ سے چھوٹے قد والوں کو امریکہ کا ایک بہت بڑا دشمن بنا لیا تھا۔ امریکہ افغان جنگ صرف اٹھارہ ماہ میں جیت سکتا تھا۔ اگر بش چینی انتظامیہ کے پالیسی سازوں کے ذہنوں میں دنیا میں ہر طرف جنگوں کے جال بچھانے کا منصوبہ نہیں ہوتا۔ افغانوں نے اپنی تاریخ میں پہلی بار غیرملکی فوجوں کا خیر مقدم کیا تھا۔ اور وہ طالبان کا اقتدار ختم ہونے پر خوش تھے۔ طالبان کمزور ہو گۓ تھے۔ اور یہ بہترین موقعہ تھا جب افغانستان میں سیاسی عمل تیز کیا جاتا۔ اور طالبان کو اس عمل میں شامل ہونے کی ترغیب دی جاتی۔ جب سیاسی اور عسکری طور پر کمزور ہوتے ہیں تو سمجھوتہ کرنے میں زیادہ مشکلات نہیں ہوتی ہے۔ طالبان نے افغانستان میں دو کام اچھے کئے تھے ۔ ایک تو انہوں نے افغان وار لارڈ کا نظام ختم کر دیا تھا ۔ اور دوسرا افغانستان سے افیون کی کاشت کا مکمل طور پر خاتمہ کر دیا تھا۔ اس کا اعتراف اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بھی کیا گيا تھا۔ افغان معاشرے کے لیۓ یہ بڑی اہم اصلاحات تھیں۔ طالبان کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد بھی اسے برقرار رکھا جاتا۔ اور اس کے ساتھ افغانستان میں استحکام اور سیاسی اصلاحات کا عمل آ گے بڑھایا جاتا۔ اور ذہین میں یہ رکھا جاتا کہ طالبان سابق مجاہدین ہیں۔ جو سوویت ایمپائر کو شکست دے چکے ہیں۔اور انہیں ایمپائر سے لڑنے کا تجربہ ہے۔ لہذا ان سے غیر معینہ مدت تک تصادم نہیں رکھا جا سکتا ہے۔ اور انہیں جتنی جلدی سیاسی عمل میں شامل کیا جاتا ۔ اس میں سب کی کامیابی بھی ہوتی۔
    لیکن بش چینی انتظامیہ نے افغانستان میں وار لارڈ کا نظام بحال کر دیا تھا۔ اور وار لارڈ  سے افغانستان کی تعمیر نو کا کام لیا جا رہا تھا۔ افغانستان میں وار لارڈ نے افیون کی کاشت بحال کر دی تھی۔ وار لارڈ، افیون کی کاشت اور منشیات کی تجارت افغانستان میں کرپشن دہشت گردی اور انتشار کی اب اصل جڑ ہیں۔ اور اسے امریکہ برطانیہ اور نیٹو کے واچ میں افغانستان میں فروغ دیا گیا ہے۔ افغانستان میں وار لارڈ اب طالبان سے زیادہ مضبوط ہوگۓ ہیں۔ ان کے اپنے ملیشیا ہیں۔ اپنے علاقوں میں پولیس اور فوج پر ان کا کنڑول بھی ہے ۔ بعض صوبوں میں وار لارڈ طالبان کو اپنے مفاد میں استعمال کر رہے ہیں۔ وار لارڈ کی افیون کی معیشت کابل حکومت کی معیشت سے بڑی ہے۔
  سابق صدر حامد کرزئ نے افغانستان کے انتشار میں وار لارڈ کے کردار پر کبھی انگلی نہیں اٹھائی ہے۔ وار لارڈ  طالبان کو جس طرح اپنے مفاد میں استعمال کرتے ہیں ۔ سابق صدر کرزئ نے کبھی اس کا اعتراف نہیں کیا ہے ۔ بلکہ سابق صدر صرف پاکستان کو طالبان کی حمایت کرنے کا الزام دیتے رہتے ہیں۔ حالانکہ افغانستان کا بڑا مسئلہ اس وقت وار لارڈ ہیں۔ اور طالبان کا نمبر ان کے کرپشن کے بعد آتا ہے۔ بش چینی انتظامیہ پر اگر جنگوں کا نشہ طاری نہیں ہوتا اور وہ دانشمندی سے فیصلے کرتے تو افغانستان آج بہت مختلف ہوتا۔
   جارج بش اور ڈک چینی کوPolitical Science کے کن پروفیسروں نے یہ پڑھایا تھا کہ وار لارڈ اور منشیات کی تجارت سول سوسائٹی قائم کرتے ہیں اور جمہوریت کو فروغ دیتے ہیں؟
                                                                                                                                                                                                         



No comments:

Post a Comment