Political Blunders And Military Adventurism
“BUNCH
OF KILLERS":
From Al Qaeda To Daesh
مجیب خان
"I looked the man in the eye. I found him to be very straight forward and trustworthy and we had a very good dialogue. I was able to get a sense of his soul. He's a man deeply committed to his country and the best interests of his country and I appreciate very much the frank dialogue and that's the beginning of a very constructive relationship."
-George W. Bush on Russian President Vladimir Putin
صدر
جارج بش نے نائن ایلو ن کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں القا عدہ کو Bunch of Killer کہا تھا۔ چودہ سال بعد اب صدر اوبامہ نے داعش کو
Bunch of killer کہا
ہے۔ جو دہشت گردی کے خلاف اسی جنگ کا سلسلہ ہے۔ لیکن داعش اس جنگ میں ایک نیا
کردار ہے۔ اس سے ظاہر یہ ہوتا ہے کہ دنیا کے حالات جوں کے توں ہیں۔ اور چودہ سال
میں کوئی تعمیراتی سیاسی کام نہیں ہوا ہے۔ صرف انسانی تباہی بہت ہوئی ہے۔ دنیا
القا عدہ کے بعد داعش کے Bunch
of Killer میں پھنس گی ہے۔ 13 نومبر کے پیرس
میں دہشت گردی کے واقعہ کے بعد داعش کو Bunch of Killer کہا گیا ہے۔ جس میں 129 لوگ ہلاک ہوۓ تھے۔ اس سے
پہلے بیرو ت میں دہشت گردی کا واقعہ ہوا تھا بڑی تعداد میں یہاں بھی لوگ ہلاک ہوۓ
تھے ۔داعش نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی ۔ اس کے بعد سینا ئی میں روس کا مسافر
طیارہ تباہ ہوا تھا ۔ جس میں دو سو لوگ ہلاک ہوۓ تھے۔ امریکہ نے سب سے پہلے اسے
داعش کی دہشت گردی بتایا تھا۔ بعد میں داعش نے یہ اعتراف کیا تھا۔ لیکن اس وقت بھی
داعش کے بارے میں Bunch of
Killer امریکہ کے ریڈار پر نہیں آیا تھا۔
لیکن 13 نومبر کو پیرس میں دہشت گردی نے یورپ کو جیسے ہلا دیا تھا۔ جس پر
حکومتوں اور عوام کی سطح پر شدید رد عمل ہوا تھا۔ ان کے غم و غصہ کی تمام انگلیاں
واشنگٹن کی طرف اٹھ رہی تھیں ۔ مشرق وسطی کے حالات خراب کرنے کا الزام امریکہ کی
قیادت کو دیا جا رہا تھا۔ امریکہ کی عالمی قیادت میں دنیا کے اتنے مسائل حل نہیں
ہوۓ ہیں کہ جتنے دنیا کے لئے نئے مسائل ہو گیے ہیں۔ شام عراق لیبیا افغانستان جنگ
زدہ ملکوں سے لوگوں کا سیلاب یورپ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ یورپ میں لوگ پہلے ہی چین
اور بھارت کی سستی لیبر کی وجہ سے شدید اقتصادی مسائل کا سامنا کر رہے تھے۔ اور اب
پناہ گزینوں کی صورت میں سستی لیبر ان کے دروازوں پر کھڑی ہے۔ مشرق وسطی کا سیاسی
عدم استحکام یورپ کے لئے اب سو نامی بن رہا ہے۔ یورپ کی طرف اس سو نامی کو بڑھتا دیکھ
کر حکومتیں خاصی خوفزدہ ہیں۔ اس صورت حال کے پیش نظر فرانس کے صدر Francois Hollande امریکہ آۓ تھے۔ اور اب یورپ کے
ملکوں کو داعش کے خلاف ا رو شام کے سیاسی حل کے لئے ایک نئے اتحاد میں سرگرمی سے
شامل ہونے کے لئے صدر Francois کوششیں کر رہے ہیں۔
David Cameron, Barack Obama, and Francois Hollande |
پیرس
دہشت گردی کے واقعہ کے بعد یورپ کا موڈ دیکھ کر صدر اوبامہ نے داعش کے لئے Bunch of Killers کے لفظ استعمال کیے ہیں۔ داعش کو Bunch of Killers اس
وقت کہنا چاہیے تھا کہ جب یہ عراق اور شام میں لوگوں کے گلے کاٹ رہے تھے۔ جس میں
امریکی شہری بھی شامل تھے۔ اور امریکہ کو شام کے بارے میں اپنی حکمت عملی تبدیل
کرنا چاہیے تھی۔ خلیج کے مالدار اتحادیوں کو شام کے سیاسی حل کے لئے آمادہ کرنا
چاہیے تھا۔ شام میں نام نہا د باغیوں کو تربیت دینے، اسلحہ فراہم کرنے اور فنڈ ز فراہم
کرنے پر پابندی لگانا چاہیے تھی۔ لیکن شام کا محاذ بند ہونے کے بجاۓ ۔ یمن میں
خلیج کے مالدار حکمرانوں نے نیا محاذ کھول دیا تھا ۔ اس محاذ پر امریکہ نے مالدار
حکمرانوں کی حمایت کر نے کا فیصلہ کیا تھا۔ اور یہ Bunch of Killers یمن
کے محاذ پر ہوتیوں کے خلاف لڑ رہے تھے۔ ان میں ایک بڑی تعداد القا عدہ کی تھی
جنہیں صدر بش نے Bunch of Killers کہا
تھا۔ امریکہ نے اس سال شام میں ایک ہزار سے زیادہ داعش کے ٹھکانوں پر فضائی حملے
کیے ہیں۔ لیکن نتائج Bunch of
Killers ہی کی صورت میں سامنے آۓ ہیں۔
شام
میں روس کی مداخلت کے بعد اوبامہ انتظامیہ اب شام میں ایک سیاسی حل کی طرف آئی ہے۔
اور یورپ کے بھر پور دباؤ میں امریکی
فضائی طیاروں نے داعش کے 130 آئل ٹینکروں کو تباہ کرنے کا دعوی کیا ہے۔ شام کے جن
علاقوں پر داعش نے قبضہ کیا ہے۔ وہاں سے یہ ٹینکرز تیل لے جاتے تھے۔ اور اسے فروخت
کر تے تھے اور یہ ان کی آمدنی کا وسیلہ تھا۔ لیکن اس سال 13 نومبر تک اور شام میں روس کے
سرگرم ہونے تک داعش کے تیل کا کاروبار بند کرنے کے سلسلے میں کچھ نہیں کیا گیا
تھا۔ صدر اوبامہ نے وائٹ ہاؤس میں صدر Francois کے ساتھ پریس
کانفرنس میں کہا ہے کہ داعش کے خلاف اتحاد میں 65 ممالک شامل ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے
کہ ا سا مہ بن لادن کی رہائش گاہ امریکہ کے ریڈار پر آ گی تھی ۔ لیکن داعش کے آئل
ٹینکروں کی نقل و حرکت 65 ملکوں کے ریڈار پر نہیں آئی تھی۔ ان میں بعض شام کے
قریبی ہمسایہ تھے۔ 65 ملکوں کے اتحاد کے واچ میں داعش کی سرگرمیاں یورپ اور وسط
ایشیا میں پھیلنے کی خبریں دی جا رہی تھیں۔ صدر پو تن نے اب یہ انکشاف بھی کیا ہے
کہ 40 ممالک داعش کو فنڈ زفراہم کر رہے تھے۔ داعش کو اسلحہ دے رہے تھے۔ صدر پو تن
کے اس انکشاف پر امریکہ نے کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ ضرور
امریکہ کے علم میں ہو گا۔ دنیا کے 192 ملکوں میں سے 65 ملک داعش کے خلاف لڑ رہے
تھے ۔ 40 ملک داعش کو فنڈ ز دے رہے تھے۔ 87 ملکوں میں سے کچھ داعش کی دہشت گردی سے
بچے ہوۓ تھے اور کچھ اس کی دہشت گردی کی زد میں تھے۔
لیکن
یہاں Greed اور مفادات ایک ہو گیے ہیں۔ سعودی عرب اور خلیج کے حکمرانوں نے امریکہ
برطانیہ اور فرانس کو رشوتیں دینے کے بجاۓ ان کی اسلحہ ساز کمپنیوں سے کھربوں ڈالر
کا اسلحہ خریدنے کا معاہدہ کیا ہے ۔ اور ان معاہدوں کے عوض ان سے شام میں حکومت
تبدیل کرنے کا عہد کیا گیا تھا۔ صدر اوبامہ نے 2011 میں سب سے پہلے یہ فرمان جاری
کیا تھا کہ بشرالسد کو جانا ہے۔ اسد حکومت کے دن تھوڑے ہیں۔ اس کے بعد فرانس کے
صدر اور برطانیہ کے وزیر اعظم نے بھی ایسا ہی مطالبہ کیا تھا۔ امریکہ برطانیہ اور
فرانس کی شام پالیسی کے پیچھے اسلحہ ساز کمپنیوں کی لابی تھی۔ لیکن چار سال میں
اسد حکومت کے خلاف جنگ کا محاذ بدل گیا ہے۔ عالمی رائے عامہ تبدیل ہو گی ہے۔ عراق
اور لیبیا میں صدام حسین اور معمر قدافی کو اقتدار سے ہٹانے کے چار اور سات سال
بعد عالمی رائے اب تبدیل ہو گی ہے۔ اور
انہیں اقتدار سے ہٹانے کے فیصلے کو اب غلط فیصلہ کہا جا رہا ہے۔
پیرس
میں دہشت گردی کا واقعہ ہونے کے بعد یورپ میں رائے عامہ تیزی سے بدل گی ہے۔
بالخصوص فرانس میں حکومت پر اتنا زیادہ دباؤ پڑا ہے کہ فرانس کے صدر کو شام کے
تنازعہ پر صدر پوتن کے موقف سے سمجھوتہ
کرنا پڑا ہے۔ صدر اوبامہ اب ایک مشکل صورت میں آ گیے ہیں۔ ایک طرف ان کے روایتی یورپی اتحادی ہیں اور دوسری طرف
خلیج کے عرب اتحادی ہیں۔ جنہوں نے کھربوں ڈالر امریکہ کی معیشت میں انویسٹ کیے ہیں۔" بشراسد کو جانا ہے" یہ تسلیم
کرانا بھی ضروری ہے۔ اس مقصد میں اسلحہ
ساز کمپنیوں کا دباؤ بھی ان کی حکومتوں پر ہے۔ پھر امیروں کی دنیا میں غریب ملک کے ہاتھوں شکست بھی امیروں کو قبول نہیں ہے۔
لہذا صدر پوتن پر بھی یہ دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ صدر اسد کو ہٹائیں ۔ لیکن فی الحال
یہ ممکن نظر نہیں آ رہا ہے۔ یورپ میں اب
پہلے داعش کو ختم کرنے اور شام میں سیاسی استحکام پر زور دیا جا رہا ہے۔ ادھر امریکی
کانگرس میں بھی یہ آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ کانگرس شام میں اسد حکومت کو تبدیل کرنے
کے فیصلے کی حمایت نہیں کرے گی۔ صدر اوبامہ کی شام پالیسی صدر کارٹر کی تہران میں امریکی یرغمالیوں کو رہا کرانے کے لئے ملڑی ہیلی کا پڑ ایران کے قریب ریگستان میں گر جانے
کی طرح Debacle ثابت ہو رہی ہے۔
فوجی
مہم جوئیاں اب بہت ہو گی ہیں اور یہ صرف Bunch of Killers پیدا کر رہی ہیں۔ عرب اسپرنگ ان کا خاتمہ کرنے کا واحد راستہ تھا۔ اسلامسٹ
کو سیاسی عمل میں لا کر کمزور کیا جا سکتا تھا۔ اور انہیں شکست بھی دی جا سکتی تھی۔
مصر میں اخوان المسلمون اقتدار میں آۓ تھے۔ اور انہوں نے دنیا سے اپنے ماڈریٹ ہونے
کا یقین دلایا تھا۔ اخوان المسلمون میں ماڈریٹ عناصر اوپر آ رہے تھے ۔ اسلامسٹ
نظریاتی انتہا پسندوں سے 65 ملکوں کا اتحاد بنا کر فوجی مہم جوئیاں کرنے کے بجاۓ۔
اخوان المسلمون کے ماڈریٹ خود ان سے نمٹ لیتے۔ ایک سیاسی اور جمہوری عمل میں یہ
جلدی کمزور ہو جاتے۔ اور عوام ان کی سیاست مسترد کر دیتے۔ لبرل اور اعتدال پسندوں
کو اقتدار میں آنے کا موقعہ ملتا۔ جس طرح ارجنٹائن میں ایک سیاسی اور جمہوری عمل
کے ذریعے مغرب نواز اب اقتدار میں آ گیے ہیں۔
لیکن اوبامہ انتظامیہ نے امریکہ کی جمہوری حکومتوں
کے تختے الٹنے کی ثقافت ذ ندہ رکھتے ہوۓ مصر میں فوجی حکومت قبول کر لی تھی۔ اور
جو اسلامسٹ جمہوری اور سیاسی عمل میں آنا چاہتے تھے ۔ ان کے سیاسی عمل میں آنے کے
دروازے بند کر دئیے تھے۔ اور انہیں Bunch of Killers کی سیاست میں
شامل ہونے پر مجبور کر دیا۔ عرب قبائلی حکمرانوں کی طرح امریکہ کو بھی لڑائیوں سے
عشق ہے۔ اس لئے امریکہ ان کے ساتھ اتحاد میں شامل ہو گیا ہے۔ جنگیں اور طاقت کا
بھر پور استعمال دہشت گردی کو فروغ دے رہی
ہیں اور Bunch of Killers
پیدا کر رہی ہیں۔