Saturday, January 30, 2016

The Rise of Ultra-Right Nationalism, Neo-Nazism In Europe, And Daesh In The Middle East

       

Saddam Hussein, Hitler, 1930, And The Appeasement

The Rise of Ultra-Right Nationalism, Neo-Nazism In Europe, And Daesh In The Middle East

“Don’t Wait For The Mushroom Cloud”

مجیب خان  


            صدام حسین کو اگر اقتدار میں رہنے دیا گیا تو صدام حسین عالمی سلامتی کے لئے خطرہ بنے رہیں گے۔ اس لئے انہیں اقتدار سے ہٹانا ضروری ہو گیا ہے۔ اور یہ عراق پر حملہ کرنے کے لئے بش انتظامیہ کی دلیل ہوتی تھی۔ تاہم اصل حقائق اس دلیل کے برخلاف تھے۔ 2003 میں صدام حسین کو جب اقتدار سے ہٹایا گیا تھا۔ دنیا کو اس وقت ان خطروں کا سامنا نہیں تھا جن کا 2016 میں اب دنیا کو ہے۔ صدام حسین کو اقتدار سے ہٹانے سے انسانیت کے لئے سنگین خطرے پیدا ہو گۓ ہیں۔ عالمی سلامتی ہر طرف سے خطروں میں گھری ہوئی ہے۔ اور اس سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ صدام حسین عالمی سلامتی کے لئے خطرہ تھے اور نہ ہی انسانیت کو ان سے کوئی خطرہ تھا۔ یہ صرف ان کا پراپگنڈہ تھا۔ جن کا عالمی سلامتی اور انسانیت کے لئے خطرے پیدا کرنے کا ایجنڈا تھا۔ اور انہوں نے اپنے ایجنڈہ پر عملدرامد کے لئے صدام حسین کو ٹارگٹ بنایا تھا۔ اور وہ اپنے اس ایجنڈہ میں کامیاب ہو گۓ ہیں۔ عالمی سلامتی اس وقت انسانی خون میں ڈوبی ہوئی ہے۔ اس سلسلہ کا آغاز بش انتظامیہ میں ہوا تھا۔ اور اوبامہ انتظامیہ میں اسے فروغ ملا ہے۔ عالمی سلامتی کو آج زیادہ خطروں کا سامنا ہے۔ اور انسانیت کو بچانے میں کچھ نہیں کیا گیا ہے۔
        نائین ایلون کے بعد امریکہ کی قیادت میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک اتحاد بنا تھا۔ امریکہ کے حامی اور مخالف ہر ملک نے دہشت گردی کے خلاف مہم میں امریکہ سے مکمل تعاون کیا تھا۔ ان ملکوں کی ایجنسیوں نے امریکہ کی انٹیلی جنس ایجنسیوں سے تعاون کیا تھا اور انہیں دہشت گردوں کے بارے میں معلومات فراہم کی تھیں۔ بش انتظامیہ میں جن دہشت گردوں کو پکڑا تھا۔ ان میں کچھ کو پوچھ گچھ کے لئے شام، لیبیا، مصر اور اردن کی حکومتوں کے حوالے کیا تھا۔ یہ ملک دہشت گردی کا خاتمہ کرنے میں اس قدر سنجیدہ اور مخلص تھے۔ لیکن دنیا نے پھر دیکھا کہ جن ملکوں نے دہشت گردی کے خلاف جس قدر تعاون کیا تھا۔ وہ ملک دہشت گردی کا سب سے زیادہ شکار بنے ہیں۔ معمر قدافی کو دہشت گردوں سے قتل کروایا گیا تھا۔ اور ان کے ملک کو دہشت گردوں کے حوالے کر دیا تھا۔ شام کو دہشت گردوں نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر بنا دیا ہے۔
       افغانستان میں طالبان عالمی دہشت گردی کا کبھی بھی حصہ نہیں تھے۔ طالبان افغانستان کی خانہ جنگی میں ایک پارٹی تھے۔ ان کا القاعدہ سے بھی کوئی تعلق نہیں تھا۔ یورپ اور شمالی امریکہ سے بڑی تعداد میں داعش کے ساتھ لڑنے کے لئے شام گۓ تھے۔ لیکن افغانستان سے طالبان خود گیے ہیں اور نہ ہی انہوں نے افغانوں کو داعش میں شامل ہونے کی اپیل کی ہے۔ پاکستان نے طالبان کے خلاف امریکہ اور نیٹو سے تعاون کیا تھا۔ لیکن اس تعاون کے نتیجہ میں پاکستان کو پاکستانی طالبان ملے تھے۔ جن سے فوج اب لڑ رہی ہے۔ اس وقت جو شواہد ہیں انہیں دیکھ کر یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ یہ دہشت گردی ختم کرنے کی جنگ ہے۔ 2003 میں شمالی افریقہ میں ایسے انتہا پسند گروپ نہیں تھے۔ جن کا شمالی افریقہ کو اس وقت سامنا ہے۔ حما س اور حزب اللہ ان انتہا پسند گروپوں کے مقابلے میں بہت پرامن انتہا پسند ہیں۔ جن کی عرب ملکوں اور شمالی افریقہ میں کہیں کوئی برانچ  نہیں ہے۔ حما س اور حزب اللہ داعش کے خلاف ہیں اور القاعدہ سے بھی ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ کیونکہ یہ اسرائیل سے اپنے حقوق کے لئے جنگ کر رہے ہیں۔ اس لئے انہیں دہشت گرد قرار دیا گیا ہے۔
        بہرحال اب سوال یہ ہے کہ داعش کون وجود میں لایا ہے؟ کیا امریکہ کی انٹیلی جنس ایک بار پھر فیل ہو گئی ہے۔ داعش جہاد یوں کی ایک فوج ہے۔ جس کے پاس ٹینک اور فوجی ٹرکوں کی ایک فلیٹ ہے۔ اور یہ conventional ہتھیاروں سے مسلح ہیں۔ اسلامی ریاست کے قیام سے پہلے انہیں اسلامی ریاست کی فوج کس نے بنایا ہے؟ داعش کا وجود میں آنا ایک بہت بڑا آپریشن تھا۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ امریکہ کی 36 انٹیلی جنس ایجنسیوں کو داعش کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔ خطہ میں امریکہ کے اتحاد یوں کی انٹیلی جنس بھی اس سے بالکل بے خبر تھی۔ اردن کی انٹیلی جنس، اسرائیلی انٹیلی جنس، ترکی کی انٹیلی جنس، عرب ملکوں میں فرانس کے سفارت خا نے میں انٹیلی جنس چیف ،برطانیہ کے سفارت خا نے میں انٹیلی جنس چیف کسی کو بھی داعش کے وجود میں آنے کی خبر نہیں تھی۔ 15 سال سے یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔ لیکن انہیں دہشت گرد گروپ وجود میں آنے کے بعد اس کا پتہ چلتا ہے۔ نائین ایلون کے بارے میں بش انتظامیہ نے انٹیلی جنس فیل ہونے کا اعتراف کر لیا تھا۔ عراق پر حملہ کرنے کے بعد یہ کہا گیا تھا کہ عراق میں مہلک ہتھیاروں کے بارے میں انٹیلی جنس نے غلط رپورٹیں دی تھیں۔ یہ انٹیلی جنس بار بار فیل ہو جاتی ہے اور  دہشت گردی کو فروغ مل رہا ہے۔
        لیکن داعش کے بارے میں انٹیلی جنس کیسے فیل ہوئی ہے۔ اوبامہ انتظامیہ کو اس کی وضاحت کرنا ہو گی۔ اور یہ بھی بتانا ہو گا کہ کن ملکوں نے داعش کے قیام میں معاونت کی تھی؟ داعش کے پاس فنڈ کہاں سے آۓ تھے؟ داعش کو فوجی تربیت کس نے دی تھی؟ اور کس ملک میں دی گئی تھی؟ مغربی میڈیا میں داعش کو اتنی زیادہ شہرت کیسے دی ہے؟ کہ یورپ میں یہ نوجوان مسلمانوں میں مقبول ہو گئی تھی۔ اور بڑی تعداد میں لڑکے اور لڑکیاں داعش میں شامل ہو رہے تھے۔ اور شام میں داعش کے ساتھ جہاد کرنے جا رہے تھے۔ مختلف اسلامی ملکوں میں داعش کی برانچیں کھلنے کی خبریں بھی شہ سرخیاں بن رہی تھیں۔ لیکن حقیقت میں یہ صرف پراپگنڈہ  تھا۔ افغانستان اور پاکستان میں زبردستی داعش کا وجود ثابت کیا جا رہا ہے۔ بلکہ وسط ایشیا اور چین کی سرحدوں کے قریب داعش کا وجود بتایا جا رہا ہے۔ اور اب یورپ میں داعش کے سیل قائم ہونے کی خبریں آ رہی ہیں۔ لیکن یورپ میں داعش کا قیام اسلامی دنیا میں داعش کے قیام سے زیادہ خطرناک ہو گا۔ اسلامی ریاست " فاشسٹ " نظریات میں یقین رکھتی ہے۔ اور یورپ میں فاشسٹ نظریات ابھر رہے ہیں۔
        یورپ میں ultra-right، نیشلسٹ اور neo-Nazi مقبول ہو رہے ہیں۔ جس طرح مسلمان نوجوان داعش سے متاثر ہوۓ ہیں۔ اسی طرح یورپ میں نوجوان ultra-right، نیشلسٹ اورneo-Nazi سے متاثر ہو رہے ہیں۔ تقریباً ستر سال بعد جرمنی میں Adolf Hitler کی تحریروں پر سے پابندی ہٹا لی گئی ہے۔ Hitler کی Mein Kampf {میری جدوجہد} شائع کی گئی ہے۔ اس کی چار ہزار کاپیاں شائع ہوئی تھیں اور یہ ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو گئی تھیں۔ دنیا کے موجودہ حالات میں ایک مردہ ہٹلر زندہ ہٹلر سے زیادہ خطرناک ثابت ہو گا۔ ابھی صرف چودہ سال قبل صدام حسین کو دنیا کے لئے ہٹلر ثابت کیا جا رہا تھا۔ اب خطرہ یہ ہے کہ یورپ میں اگر داعش کا ultra-right، نیشلسٹ اور neo-Nazi کے ساتھ کوئی سمجھوتہ ہو گیا  تو پھر خطروں سے بھری دنیا کا نقشہ کیا ہو گا ؟

          

Tuesday, January 26, 2016

This Is Not Working

This Is Not Working


Pakistan Is Serious In Helping Afghanistan, Afghanistan Is Cooperating With India, India Is Using Afghanistan Against Pakistan, And America Is Backing India

مجیب خان


 Former Afghan President, Hamid Karzai, Meets With George W. Bush and Pakistan's General Musharraf
Pakistani Prime Minister, Nawaz Sharif
Indian Prime Minister, Narendra Modi
Current Afghan President, Ashraf Ghani
          فوجی قیادت جتنے فخر سے دہشت گردی کے خلاف اپنے مشن ضرب عضب  کامیاب ہو نے کا بتا  رہی ہے۔ اور سال کے آخر تک دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ہو نے کا قوم کو پیغام دے رہی ہے۔ لیکن پھر دیکھا یہ جا رہا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ چند ہفتوں میں دہشت گردی کے آگے پیچھے کئی خوفناک واقعات ہوۓ ہیں جن میں سینکڑوں لوگ مارے گیے ہیں۔ اور ایسا نظر آ رہا ہے کہ دہشت گردی کے ان واقعات سے پاکستان کو یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ جب دہشت گردوں سے کہا جاۓ گا پاکستان میں دہشت گردی اس وقت ختم ہو گی۔ بھارت میں پٹھان کوٹ کے فوری بعد چار سدہ میں باچا خان یونیورسٹی میں دہشت گردی کے حملہ میں 20 سے زیادہ لوگ مارے گیے ہیں۔ تعلیمی اداروں پر دہشت گردوں کا یہ حملہ پہلا نہیں ہے۔ اور شاید آخری بھی نہیں ہے۔
      اہل وطنوں۔ پاکستان کے دشمن ہر طرف ہیں۔ یہ نفسا نفسی کی دنیا ہے۔ اسلامی برادری یا اسلامی رشتہ آج کی دنیا میں کوئی معنی نہیں رکھتے ہیں۔ ایک چھوٹے سے خطہ اسلامی عرب کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ جہاں مسلمان ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہے ہیں۔ اور ایک دوسرے کو تباہ و برباد کر رہے ہیں۔ انہوں نے اسلامی یکجہتی میں اسلام کو فیل کر دیا ہے۔ پاکستان نے اپنے مسلمان افغان بھائیوں کے لئے زبردست  قربانیاں دی ہیں۔ پاکستان 35 سال سے افغانوں کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھاۓ ہوۓ ہے کہ یہ ہمارے اسلامی برادر ہیں۔ لیکن یہ اسلامی برادر بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کے کمر میں چھرے گھونپ رہے ہیں۔ لعنت ہے ایسے اسلامی برادروں پر۔
      افغانستان میں طاقتور ملکوں کا فوجی اتحاد نیٹو طالبان کی دہشت گردی ختم کرنے میں نا کام ہو گیا ہے۔ بش اور اوبامہ دو امریکی انتظامیہ افغانستان میں ناکام ہو گئی ہیں۔ کرزئی حکومت دس سال اقتدار میں رہی ہے۔ لیکن وہ بھی ناکام ہو گئی تھی۔ اب اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کی حکومت کو دو سال ہو گیے ہیں۔ لیکن یہ حکومت بھی زیادہ کامیاب ہوتی نظر نہیں آ رہی ہے ۔ افغانستان کی اس صورت حال میں پاکستان کا ایک اہم رول تسلیم کیا گیا ہے۔ اور افغانستان میں سیاسی استحکام کے لئے اب پاکستان پر انحصار کیا جا رہا ہے۔ پہلے افغانستان پر حملہ کرنے کے لئے پاکستان کو فرنٹ لائن اسٹیٹ بنایا تھا۔ اور اب افغانستان کو استحکام دینے کے لئے پاکستان کو فرنٹ لائن پر کھڑا کر دیا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ پاکستان سے بھارت میں دہشت گردوں کے خلاف چوکیداری کرنے کا بھی کہا جا رہا ہے۔
       جب میں روزنامہ جنگ میں لکھتا تھا۔ اس وقت 2004 میں میں نے یہ لکھا تھا کہ بش انتظامیہ پاکستان کو ایک خطرناک وار گیم میں پھنسا رہی ہے۔ اور ایک بار پاکستان اگر اس وار گیم میں پھنس گیا تو اس سے نکلنا پاکستان کے لئے بہت مشکل ہو گا۔ اور یہ وار گیم امریکہ کی دہشت گرد کے خلاف جنگ کو پاکستان کی جنگ بنانا تھا۔ امریکہ اور بھارت کے strategic تعلقات کا آغاز ہو رہا تھا۔ بش انتظامیہ نے صدر جنرل پرویز مشرف سے ستر ہزار فوج بھارت کے ساتھ سرحدوں سے ہٹا کر افغانستان کے ساتھ شمالی سرحد پر لگانے کے لئے کہا تھا۔ تاکہ طالبان اور القاعدہ کا سرحدی علاقوں میں مقابلہ کیا جاۓ۔ یہ دیکھ کر اس وقت شبہ ہونے لگا تھا کہ اب بھارت اور امریکہ افغانستان سے دہشت گردوں کو پاکستان کی طرف دھکیلیں گے۔ اور پھر پاکستان میں دھماکہ ہوں گے۔ دہشت گردی بڑھے گی۔ اور یہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی جنگ بن جاۓ گی۔ پاکستان میں پہلے ہی 2 ملین افغان مہاجرین بیٹھے تھے۔ یہ افغانستان جائیں گے۔ افغانستان میں جب دہشت گردی کے واقعات ہوں گے۔ پاکستان کو یہ الزام دیا جاۓ گا کہ یہ طالبان پاکستان سے آ رہے  ہیں۔ جنہیں پاکستان نے پناہ دی ہے۔ پاکستان انہیں روکے۔ اور یہ سلسلہ بیس پچیس سال اسی طرح جاری رہے گا۔ پاکستان اس میں پھنسا رہے گا۔ میرا مشورہ یہ تھا کہ حکومت ایک دن تمام بسیں بند کر دے۔ اور افغان مہاجرین کو ان بسوں میں بھرکر افغان سرحد پر چھوڑ دیا جاۓ۔ اور پھر سرحدیں فوری طور پر بند کر دی جائیں۔ صدر پرویز مشرف کی حکومت شاید یہ فیصلہ کرنے جا رہی تھی۔ لیکن صدر حامد کرزئی نے صدر بش سے پاکستان کو اس فیصلہ سے روکنے کی درخواست کی تھی۔ صدر بش نے پاکستان اور افغانستان کے رہنماؤں کو وائٹ ہاؤس میں ان سے ملنے کی دعوت دی تھی۔ اس ملاقات میں صدر کرزئی نے صدر بش سے کہا کہ افغانستان کے حالات ابھی ایسے نہیں کہ ان کی حکومت دو ملین افغانوں کو رہائش اور روز گار فراہم  کر سکتی ہے ۔ پاکستان انہیں ابھی اپنے یہاں ر کھے۔ صدر بش نے صدر کرزئی کی بات سے اتفاق کیا تھا۔ اور صدر مشرف کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا کہ ان افغان مہاجرین کو کچھ عرصہ اور پاکستان میں رہنے دیں۔ صدر مشرف خاموش ہو گیے ۔ صدر کرزئی کابل پہنچ کر پاکستان کو یہ الزام دینے لگے تھے کہ افغانستان میں دہشت گرد پاکستان سے آ رہے ہیں۔ طالبان نے پاکستان میں پناہ لے رکھی ہے۔ صدر بش صدر کرزئی کے الزامات کی تائید کرتے تھے ۔ اور پاکستان سے ان کے خلاف کاروائی کرنے کے لئے  do more ہونے لگتا تھا۔ صدر اوبامہ کی بھی سات سال سے یہ ہی پالیسی ہے۔ اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یہ پالیسی پاکستان کی کوششوں کو کامیاب نہیں ہونے دے گی۔ یہ پالیسی افغانستان میں امن نہیں آنے دی گی۔ یہ پالیسی صرف بھارت کے عزائم پورے کر رہی ہے۔
       افغان تنازعہ کا سیاسی نقشہ کچھ اس طرح بن گیا ہے کہ پاکستان افغانستان میں استحکام کے لئے سنجیدہ کوششیں کر رہا ہے۔ لیکن کابل حکومت پاکستان کو عدم استحکام کرنے میں بھارت سے تعاون کر رہی ہے۔ بھارت افغانستان کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ امریکہ بھارت کی پشت پنا ہی کر رہا ہے۔ باتیں سب بہت کر رہے ہیں۔ کانفرنسیں بھی بہت ہو رہی ہیں۔ لیکن نتائج صرف گھٹیا الزام تراشیاں ہیں۔ افغان حکومت یہ چاہتی ہے کہ پاکستان انہیں چاندی کی طشتری میں امن اور استحکام دے۔ بھارت یہ چاہتا ہے کہ پاکستان ان کے ملک میں سونے کی طشتری میں دہشت گردی ختم کر کے انہیں پیش کرے۔ پاکستان نے واقعی افغانستان میں ملوث ہو کر صرف اپنا وقت برباد کیا ہے۔ 50 ہزار پاکستانی صرف افغانستان میں ملوث ہونے کے نتیجہ میں دہشت گردی کا شکار بنے ہیں۔ پاکستان نے کشمیریوں کی آزادی کے لئے اتنی قربانیاں نہیں دی تھیں۔ کہ جتنی افغانوں کے لئے انہوں نے قربانیاں دی ہیں۔ لیکن افغان پاکستان کے خلاف بھارت سے مل گیے ہیں۔ بھارت اپنے سیاسی مقاصد میں افغانستان کو پاکستان کے خلاف Bully بنا رہا ہے۔ تاکہ افغانستان کے عدم استحکام کا پاکستان پر اتنا زیادہ دباؤ بڑھایا جاۓ کہ پاکستان تنگ آ کر بھارت کے آگے جھک جا ۓ۔ اور پھر کشمیر پر بھارت کی شرائط پر سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہو جاۓ۔ صرف اس صورت میں افغانستان پاکستان میں استحکام آۓ گا۔ مشرق وسطی میں عربوں کے عدم استحکام کو اسرائیل بھی اپنے سیاسی مقاصد میں استحصال کر رہا ہے۔ اور عرب یکے بعد دیگرے اسرائیل کے پیچھے کھڑے ہونے کے لئے تیار نظر آ رہے ہیں۔ ترکی کے صدر اردگان بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کرنے میں اس خطہ کا استحکام دیکھ رہے ہیں۔ بھارت کی وزیر خارجہ اسی ماہ اسرائیل کا دورہ کر کے گئی ہیں۔
       حالانکہ بھارت میں حالیہ دہشت گردی کے اصل اسباب سے امریکہ با خوبی واقف ہے۔ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ ہر سال دنیا بھر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر رپورٹ جاری کرتا ہے۔ پھر ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹوں کا بھی امریکہ کو علم ہے۔ نہتے کشمیریوں کے خلاف بھارتی فوج کے ظلم تشدد اور بربریت کے واقعات کی تفصیل ان رپورٹوں میں بتائی گئی ہے۔ اور یہ آج نہیں ہو رہا ہے۔ کئی برس سے کشمیریوں کے ساتھ  یہ سلوک ہو رہا ہے۔ ہزاروں کشمیری بھارتی فوج کے تشدد اور بربریت کے نتیجے میں مارے گیے ہیں۔ بے شمار کشمیری خاندانوں کے محبوب ابھی تک لا پتہ ہیں۔ بھارت کے خلاف جب کشمیری کوئی جوابی انتہا پسندانہ رد عمل کرتے ہیں۔ تو یہ الزام پھر پاکستان کو دیا جاتا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے نیٹ ورک ہیں۔ اگر پاکستان میں دہشت گردوں کے نیٹ ورک بھارت کے خلاف استعمال ہو رہے ہوتے تو پھر پاکستان میں نہیں بھارت میں پچاس ہزار لوگوں کو مرنا چاہیے تھا۔ دنیا میں سچ کا معیار بہت گر گیا ہے۔ دنیا کا سارا ںظام جھوٹ اورBully  کرنے پر چل رہا ہے۔ حالانکہ پاکستان گزشتہ ایک سال سے ضرب عضب مشن کے تحت انتہا پسندوں کے نیٹ ورک تباہ کرنے کی جنگ کر رہا ہے۔ اس جنگ میں نہ تو افغانستان کا تعاون ہے اور نہ ہی بھارت کا تعاون ہے۔ پاکستان کو صرف ان کی الزام تراشیوں کا تعاون مل رہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود صدر اوبامہ نے اس ہفتے پریس ٹرسٹ آف انڈیا اور بی بی سی سے انٹرویو میں پاکستان پر زور دیا ہے کہ پاکستان اپنی سر زمین پر انتہا پسندوں کے نیٹ ورک ختم کرنے میں اپنے سنجیدہ ہو نے کا ثبوت دے۔
       پاکستان کو اب افغانستان کے سلسلے میں اپنی پندرہ سال کی پالیسی کا جائزہ لینا چاہیے کہ یہ پالیسی پاکستان کو نقصان پہنچا رہی ہے یا پاکستان کے مفاد میں ہے۔ پاکستان کو اب افغانستان میں اپنے رول سے لاتعلقی کا اعلان کرنا چاہیے۔ اور بھارت کے ساتھ مذاکرات غیر معینہ مدت کے لئے معطل کرنا چاہیے۔ پاکستان میں بھارتی سفارتی عملہ میں کمی کی جاۓ۔ آمد و رفت کی سہولیتیں ختم کی جائیں۔ بھارت اور افغانستان کے ساتھ اپنی سرحدیں سیل کر دی جائیں۔ دہشت گردی کے نیٹ ورک ختم کرنے کے یہ سنجیدہ اقدام ہیں۔ افغانستان کے ساتھ تعلقات کا پاکستان کو کوئی فائدہ ہے اور نہ ہی بھارت کے ساتھ تعلقات پاکستان کی سلامتی کے مفاد میں ثابت ہو رہے ہیں۔ دونوں ملکوں کے ساتھ تعلقات پاکستان کے لئے Liability بن گیے ہیں۔ یہ ملک پاکستان پر صرف Trash پھینکتے  رہتے ہیں۔ اور کرتے کچھ نہیں ہیں۔
      افغانستان کے ساتھ تعلقات پاکستان کے لئے تباہ کن ثابت ہو رہے ہیں۔ بھارت پاکستان کی سلامتی کے لئے مسلسل خطرے پیدا کر رہا ہے۔ اور افغانستان کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ ایسی صورت میں پاکستان کو ان سے دور رہنے کی پالیسی اختیار کرنا چاہیے۔ 60 اور70 کے عشرے میں پاکستان کے افغانستان کے ساتھ اچھے تعلقات تھے اور نہ ہی بھارت کے ساتھ تعلقات تھے۔ لیکن پاکستان میں امن تھا۔ استحکام بھی تھا۔ اور پاکستان نے بھارت اور افغانستان سے زیادہ اقتصادی ترقی کی تھی۔ پاکستان کو اپنے گھر کے حالات بہتر بنانے کے لئے اس راستے پر واپس آنا ہو گا۔ پاکستان کو نہ تو افغانستان کی ضرورت ہے۔ اور نہ ہی بھارت کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو اس وقت صرف پاکستان کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ فیصلے ایک مضبوط اور سیاسی سنگدل قیادت ہی کر سکتی ہے۔             

Saturday, January 23, 2016

Children Without A Future

Children Without A Future 

مجیب خان         









        اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف نے اپنی حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ مشرق وسطی میں تنازعوں سے متاثر پانچ ملکوں کے چالیس فیصد بچے اسکول نہیں جا رہے ہیں۔ یونیسف نے متنبہہ کیا ہے کہ اس نسل کو کھونے سے انتہا پسندی اور نقل مکانی پھیلے گی۔ اور اس خطہ کے لئے یہ ایک مدھم مستقبل ہو گا۔ ایک جائزے کے مطابق 13.7 ملین اسکول جانے کی عمر کے بچوں کا تعلق شام، عراق، لیبیا، یمن اور سوڈان سے ہے۔ اور یہ بچے اسکول سے غیر حاضر ہیں۔ یونیسف کے مطابق آنے والے مہینوں میں تنازعوں میں جیسے شدت آۓ گی بچوں کے اسکول سے غیر حاضر ہونے کی شرح  پچاس فیصد ہو سکتی ہے۔ یونیسف کے علاقائی چیف Peter Salama نے کہا ہے کہ ہم اس خطہ میں بچوں کی ایک نسل تباہ ہونے کے داہنے پر ہیں۔ ہمیں اسی وقت اقدام کرنا ہوں گے۔ ورنہ ہمیں نتائج پر ضرور ملال ہو گا۔ یونیسف کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خانہ جنگی اور لاکھوں افراد بےگھر ہو جانے سے بچوں کی تعلیم بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ شام عراق لیبیا اور یمن میں نو ہزار اسکول خانہ جنگی میں تباہ ہو گیے ہیں۔ یا بےگھر لوگوں کی پناہ گاہیں بن گیے ہیں۔ یا باغیوں کے کمانڈ ادارے بن گیے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق شام میں پچاس ہزار ٹیچر اسکولوں میں نہیں جاتے ہیں۔ وہ قوتیں جو لوگوں کی زندگیاں اور مستقبل کو تباہ کر رہی ہیں۔ وہ اس سارے خطہ کے مواقع بھی تباہ کر رہی ہیں۔
       یونیسف کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عراق میں 2 ملین بچے اسکول جانے سے محروم ہو گیے ہیں۔ اور 3 ملین سے زیادہ بچوں کی تعلیم میں عراق میں مسلسل جنگ کے حالات سے خلل پیدا ہوا ہے۔ جنگ سے متعدد اسکولوں کو نقصان پہنچا ہے ۔ اور بعض اسکول بالکل تباہ ہو گیے ہیں۔ یمن، عراق، لیبیا، افغانستان میں جنگیں اور شام میں تاریخ کی طویل ترین خانہ جنگی ایک پوری نسل کو تباہ کر رہی ہیں۔ اور جہالت پھیلا رہی ہیں۔ افغانستان بچوں کے لئے ایک تاریک اور انتہائی بد قسمت ملک ہے۔ 35 سال سے افغانستان ایک نا ختم ہونے والے حالات جنگ میں ہے۔ 80 کے عشرے میں سوویت یونین کے خلاف جنگ ، 90 کے عشرے میں داخلی خانہ جنگی اور 21 ویں صدی کے آغاز سے امریکہ اور نیٹو کے خلاف جنگ۔ سوویت یونین کے خلاف جنگ میں تقریباً ایک لاکھ بچے یتیم ہو گیے تھے۔ ہزاروں بچے Land Mines سے اپاہج ہو گیے تھے۔ پھر افغانستان میں خانہ جنگی سے لاکھوں بچے بری طرح متاثر ہوۓ تھے۔ اقوام متحدہ کی 2014 کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں بچوں کی ہلاکتوں میں 48 فیصد اضافہ ہوا تھا۔ اور2502 بچے ہلاک ہوۓ تھے۔ جبکہ 2013 میں 1091 واقعات میں 710 بچے ہلاک اور 1792 بچے زخمی ہوۓ تھے۔ طالبان نے بھی بچوں کو خود کش حملوں میں استعمال کیا تھا۔97 بچوں نے خود کش حملوں میں اپنی جانیں دی تھیں۔
       اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 2007 سے 2014 عراق میں ہولناک ہلاکتوں کے سال تھے۔ اقوام متحدہ کو اس عرصہ میں عراق میں بڑے پیمانے پر اور مسلسل عالمی قانون کی خلاف ورزیوں کے بارے میں رپورٹیں موصول ہوئی تھیں۔ جن میں بچوں کی پھانسیاں، ٹارگٹ کلنگ، اغوا، جنسی تشدد اور داعش کے زیر کنڑول علاقوں میں بچوں کو زبردستی داعش میں بھرتی کرنے کی خبریں بھی تھیں۔ داعش کے زیر کنڑول شہری علاقوں پر امریکہ کی بمباری میں متعدد بچے بھی ہلاک ہوۓ‌ تھے ۔ اقوام متحدہ نے ہلاکتوں کے بارے میں جو اعداد جمع کیے تھے ۔ان میں 679 بچے ہلاک ہوۓ تھے۔ جن میں 121 بچیاں اور 304 بچے تھے ۔ 111 بچیاں اور 282 بچے زخمی ہو گیے تھے۔ 87 بچے IED سے اور خود کش حملوں میں ہلاک ہوۓ تھے اور 211 بچے زخمی ہوۓ تھے۔
        فلسطین کی صورت حال کے بارے میں اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ فلسطین میں سیکورٹی کی صورت حال ابتر ہوتی جا رہی ہے۔ غازہ میں کشیدگی خطرناک رخ اختیار کر رہی ہے۔ مغربی کنارے میں بھی انتشار میں شدت دیکھی جا رہی ہے۔ ان حالات کا بچوں کے ذہنوں پر گہرا اثر ہو رہا ہے۔ فلسطینی بچے پہلے ہی مسلسل فوجی قبضہ کے تنازعہ اور ناکہ بندی کے حالات کا سامنا کر رہے تھے۔ اس دوران تنازعہ پر رپورٹوں میں بچوں کی ہلاکتوں اور زخمیوں کی تعداد میں حیرت انگیز اضافہ بتایا گیا تھا۔ بالخصوص غازہ میں 561 بچے ہلاک ہوۓ تھے۔ جن میں 557 فلسطینی اور 4 اسرائیلی بچے تھے۔ اور 471 بچے جن میں 245 فلسطینی اور 22 اسرائیلی زخمی ہوۓ تھے۔ مغربی کنارے میں 13 فلسطینی لڑکے جن کی عمر 11 سے 17 سال تھی ہلاک ہوۓ تھے۔ ان  میں12  لڑکے مظاہروں، اسرائیلی فوج کی تلاشی اور گرفتاری کے دوران ہلاک ہو ۓ تھے۔ اور ایک فلسطینی لڑکے کو اسرائیلی آباد کار نے ہلاک کر دیا تھا۔
        مغربی طاقتوں کی سمجھ میں ابھی تک یہ نہیں آیا ہے کہ آخر فلسطینی اسرائیل کے خلاف اتنے زیادہ انتہا پسند کیوں ہیں۔ شام، عراق، لیبیا اور افغانستان میں خانہ جنگی کے نتیجے میں دو ملین مہاجرین یورپ میں پناہ لینے آۓ ہیں۔ ان مہاجرین کی اتنی بڑی تعداد کو دیکھ کر یورپ کے مقامی لوگوں میں انہیں پناہ دینے کی مخالفت ہو رہی ہے۔ بالخصوص یورپ کے نوجوانوں میں انتہا پسندی کے رجحانات ابھر آۓ ہیں۔ اور انہوں نے مہاجرین پر حملے کرنا شروع  کر دئیے ہیں۔ حالانکہ یہ عرب مہاجرین ان یورپی شہریو ں کو بے گھر نہیں کر رہے ہیں۔ اور ان کا قیام بھی عارضی ہے۔ لیکن اس کے باوجود یورپ کے شہریوں میں عرب مہاجرین کی آمد سے بے چینی بڑھ گئی ہے۔ جبکہ اسرائیل میں یورپ سے یہودی آ کر آباد ہوۓ ہیں۔ اور انہوں نے فلسطینیوں کو بے گھر کر کے ان کی زمینوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ انہوں نے فلسطینی بچوں کا مستقبل تاریک کر دیا ہے۔ لیکن اپنے بچوں کے مستقبل کو روشن کر لیا ہے۔ یورپ میں عرب مہاجرین کی آمد پر جس طرح رد عمل ہو رہا ہے۔ فلسطینی یورپی مہاجرین کی فلسطائین میں آمد اور ان کی ذ مینوں پر قبضہ کرنے اور انہیں بے گھر کرنے کے خلاف 68 سال یہ احتجاج کر رہے ہیں۔ لیکن دنیا  ان کے احتجاج کو دہشت گردی کہتی ہے۔
       جارج بش انتظامیہ نے افغانستان پر جب حملہ کیا تھا۔ اس وقت جو افغان بچے پانچ چھ برس کے تھے۔ وہ اب بیس اور اکیس سال کے ہو گیے ہیں۔ لیکن افغانستان میں جنگ ختم نہیں ہوئی ہے۔ ان بچوں نے اب یا تو طالبان کا مذہب قبول کر لیا ہے اور دہشت گرد بن گیے ہیں۔ یا اپنے روشن مستقبل کے انتظار میں تاریکی ختم ہونے کی آس میں بیٹھے ہیں۔ افغانستان میں دو نسلیں جنگوں میں پیدا ہوئی ہیں اور صرف جنگیں دیکھ رہی ہیں۔
       2003 میں جارج بش اور ٹونی بلیر نے عراق پر حملہ کیا تھا۔ اور صدام حسین کو اقتدار سے ہٹایا تھا۔ عراق میں اس وقت جو بچے پانچ چھ برس کے تھے۔ اب وہ سترہ اٹھارہ برس کے ہو گیے ہیں۔ صدام حسین اگر اقتدار میں ہوتے تو یہ بچے آج امریکہ اور برطانیہ میں تعلیم حاصل کر رہے ہوتے۔ اور ایک مہذب شہری بن گیے ہوتے۔ لیکن اینگلو امریکہ کے عراق پر حملہ نے انہیں شیعہ ملیشیا میں بھرتی ہونے پر مجبور کر دیا ہے ۔ یا یہ داعش میں شامل ہو گیے ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ کے ہتھیار ان کے ہاتھوں میں ہیں۔ اور ایک جنگ کے اندر کئی نئی جنگیں شروع ہو گئی ہیں۔
       لیبیا میں بچوں کو بھی ایک ایسا ہی مستقبل دیا گیا ہے۔ فرانس برطانیہ اور امریکہ نے جب لیبیا پر حملہ کیا تھا اور قدافی کو اقتدار سے ہٹایا تھا۔ اس وقت لیبیا میں جو بچے آٹھ نو برس کے تھے۔ ان کا مستقبل جیسے تاریک ہو گیا تھا۔ آج وہ بچے سولہ سترہ برس کے ہو گیے ہیں۔ مشین گنیں ان کے ہاتھوں میں ہیں۔ اور یہ مختلف ملیشیا گروپوں میں شامل ہو گیے ہیں۔ یا پھر یورپ میں ایک اچھے مستقبل کی تلاش میں گھوم رہے ہیں۔ شام کو بچوں کے لئے جہنم بنا دیا ہے۔ یورپ میں جنگوں میں اتنے بچے نہیں مارے گیے ہوں گے کہ جتنے بچے شام میں مارے گیے ہیں۔ شام پر ایٹم گرانے کے بغیر ہیرو شیما اور نا گا ساکی بنا دیا ہے۔
       جنگیں، ظلم، دہشت گردی دنیا کا نیا نظام بن گیے ہیں۔ انصاف کا نظام دنیا سے اٹھا لیا گیا ہے۔ خود غرضی مفاد پرستی دولت کا گھمنڈ، طاقت کا نشہ نئی اخلاقی قدریں بن گئی ہیں۔ انسانیت صرف تاریخ کی کتابوں میں نظر آتی ہے۔ اور یہ ان بچوں کا مستقبل ہے۔ جو دولت مند ہیں اور طاقتور ہیں ان بچوں کے لئے ان کا پیغام یہ ہے this is a very dangerous world                  

                                              

Tuesday, January 19, 2016

This Is Not The Question Of Saudi Arabia Versus Iran, This Is Israel Versus Iran

Iran Is The Winner  

This Is Not The Question Of Saudi Arabia Versus Iran, This Is Israel Versus Iran

مجیب خان



        کسی اسلامی ملک کو نائین ایلون کے بعد اتنی بڑی کامیابی نہیں ہوئی ہے کہ جو کامیابی اسلامی جمہوریہ ایران کو ہوئی ہے۔ ایران پر سے تمام اقتصادی بندشیں اٹھا لی گئی ہیں۔ اور اب گلوبل اکنامی میں ایران کا سرگرمی کے ساتھ واپس آنے کا خیر مقدم ہو رہا ہے۔ مغربی بنکوں میں منجمد کھربوں ڈالر ایران کو مل گیے ہیں۔ ایران کی قیادت نے اپنے نیوکلیر پروگرام پر بڑی قابلیت، تدبر اور دور اندیشی سے اس طرح سمجھوتہ کیا ہے کہ نیوکلیر ہتھیار بنانے کا پروگرام ختم کر دیا ہے۔ لیکن نیوکلیر ٹیکنالوجی  کو برقرار رکھا ہے۔ اور اسے انرجی اور ریسرچ کے لئے پرامن مقاصد میں استعمال کرنے پر سمجھوتہ کر لیا ہے۔ اور ایران اب نیوکلیر ٹیکنالوجی کو پرامن مقاصد میں استعمال کرنے والے ملکوں کے کلب میں شامل ہو گیا ہے۔ اور یہ اسلامی انقلاب ایران کی بہت بڑی فتح ہے۔ اسلامی ملکوں میں ہارورڈ اور آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ رہنما مغربی طاقتوں سے اس طرح سمجھوتہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوۓ ہیں کہ جس طرح قم کے آیت اللہ ؤں نے یہ مذاکرات کیے ہیں۔ اور ایران کے مفاد میں سودا نہیں سمجھوتہ کیا ہے۔ اور یہ قابل تحسین قیادت ہے۔
      ایران کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے لئے امریکہ تقریباً تین دہائیوں سے کوششیں کر رہا تھا۔ 1991 میں عراق کی پہلی جنگ کے بعد صدر جارج ایچ بش نے عراق میں شیعاوں کی اکثریت کے صوبوں کو نو فلائی زون سے مستثنی رکھا تھا۔ اور عراقی شیعاوں کو صدام حسین کے خلاف بغاوت کرنے کی شہ دی تھی۔ لیکن ایران نے امریکہ کی اس اپیل میں کوئی رول ادا نہیں کیا تھا۔ اور عراق کے معاملات سے ایران کو علیحدہ رکھا تھا۔ پھر صدر بل کلنٹن نے ایران کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی تھی۔ محمد خاطمی ایران میں صدر تھے۔ اور صدر حسن روحانی کی طرح وہ بھی اعتدال پسند تھے اور سیاسی اصلاحات میں یقین رکھتے تھے۔ صدر کلنٹن نے اپنی سیکریٹری آف اسٹیٹ میڈ یلن البرائٹ کو تہران بھیجا تھا۔ ایرانیوں کو امریکہ سے یہ شکوہ تھا کہ اس نے ڈاکٹر مصدق کی جمہوری اور منتخب حکومت کا تختہ الٹا تھا اور ان پر شاہ ایران کی آمرانہ حکومت کو مسلط کیا تھا ۔ سیکریٹری آف اسٹیٹ البرائٹ نے ایرانیوں سے اس کی معافی بھی مانگی تھی۔ اور ڈاکٹر مصدق کی حکومت کا تختہ الٹنے کو امریکہ کی غلطی تسلیم  کیا تھا۔ ایران کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کے لئے امریکہ ایران کو سب کچھ دینے کے لئے تیار تھا۔ لیکن آیت اللہ  اپنے موقف پر کوئی سمجھوتہ کرنے کے لئے تیار نہیں تھے۔
       صدر جارج بش کی انتظامیہ میں ایران کو Axis of evil ملکوں میں شامل کر دیا تھا۔ افغانستان اور عراق میں امریکی فوجوں کے درمیان ایران سینڈ وچ بن گیا تھا۔ احمدی نثراد ایران کے صدر بن گیے تھے۔ صدر احمدی نثراد اتنے ہی نظریاتی قدامت پسند تھے کہ جتنے صدر جارج بش تھے۔ اور اسرائیل سے صدر احمدی نثراد کو ایسی ہی دشمنی تھی کہ جیسے امریکہ کو اسامہ بن لادن سے تھی۔ صدر احمدی نثراد آٹھ سال ایران کے صدر تھے۔ اور اپنے دور اقتدار میں انہوں نے ہمیشہ فلسطینیوں کے کا ز کی وکالت کی تھی۔ امریکی نیوز چینلز سے انٹرویو میں صدر احمدی نثراد نے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی جا حا ریت پر ہمیشہ اظہار خیال کیا تھا۔ اور اسرائیل کی بڑی بے باکی سے مذمت کرتے تھے۔ صدر احمدی نثراد نے ایران کی اس پالیسی کو واضح کیا تھا کہ ایران ہمیشہ مظلوم اور محکوم لوگوں کی حمایت کرتا رہے گا۔ اور فلسطینیوں کی حمایت ایران کی اس پالیسی سے مطابقت رکھتی تھی۔ ایک امریکی چینل سے انٹرویو میں صدر احمدی نثراد نے یہودیوں سے یہ سوال کیا تھا کہ یورپ میں ان کے ساتھ جو کچھ ہوا تھا اس کی سزا وہ فلسطینیوں کو کیوں دے رہے ہیں۔ امریکی راۓ عامہ میں صدر احمدی نثراد کا اسرائیل کے خلاف موقف  کا گہرا اثر ہوا تھا۔ امریکیوں کی اسرائیل کے بارے میں راۓ تبدیل ہونے لگی تھی۔ اور یہ شاید اس کا نتیجہ ہے کہ اسرائیل اور واشنگٹن میں اسرائیلی لابی کے بھر پور دباؤ کے باوجود اوبامہ انتظامیہ نے ایران کے ساتھ نیوکلیر پروگرام کو فوقیت دی تھی۔ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی جا حا ریت کا امریکہ نے ہمیشہ اسرائیل کا Proxy بن کر اس کا دفاع کیا تھا۔ لیکن ایران کے خلاف امریکہ اب اسرائیل کاProxy  بننے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اس صورت حال میں اسرائیل کے لئے جیسے ایک خلا آگیا تھا۔
      اور یہ کام اب سعودی عرب کے ذریعہ لیا جا رہا ہے۔ اور یہ تاثر پیدا ہونے سے روکنے کے لئے کہ سعودی عرب ایران کے خلاف اسرائیل کا Proxy بن گیا ہے۔ اسے شیعہ با مقابلہ سنی محاذ آ رائی کا رنگ دیا گیا ہے۔ اور امریکی میڈ یا کے ذریعہ عربوں میں یہ خوف پھیلایا جا رہا ہے کہ مشرق وسطی میں ایران کا غلبہ بڑھ رہا ہے۔ اور سعود یوں کو اس پر گہری تشویش ہے۔ ادھر سعود یوں کو اس پر اکسایا جا رہا ہے کہ وہ ایران کے بڑھتے ہوۓ غلبہ کو چیلنج کریں۔ اور سعودی عرب اس چیلنج کا مقابلہ کرنے میدان میں اتر آیا  ہے۔ اسرائیلی اس سیاست کے خاصے ماہر Strategist ہیں۔ انہوں نے فلسطینیوں کے اتحاد کو تقسیم کر دیا تھا۔ اورPLO کے مقابلے پر حما س کو کھڑا کر دیا تھا۔ سعودی عرب کا فلسطینیوں کو تقسیم کرنے میں بھی خفیہ ہاتھ تھا۔ اب یہ علیحدہ بات ہے کہ اسرائیل نے جن مقاصد کے لئے فلسطینیوں کو تقسیم کیا تھا۔ وہ مقاصد پورے نہیں ہو سکے تھے۔ اور حما س حزب اللہ ایران کے ساتھ Red State” بن گیے تھے۔
      اگر اسرائیل کی ایران پر حملہ کر کے اس کے ایٹمی پروگرام کو تباہ کرنے کی مخالفت نہیں ہوتی۔ تو اس صورت میں شاید سعودی عرب کی ایران کے ساتھ کشیدگی کی یہ صورت پیدا نہیں ہوتی۔ ادھر امریکہ مشرق وسطی کے تنازعوں میں اب اپنی فوجیں اس طرح بھیجنے کے لئے تیار نہیں ہے کہ جیسے 80 کے عشر ے میں امریکہ نے لبنا ن میں فوجیں بھیجی تھیں۔ اور پھر90 کے عشر ے میں پہلی عراق جنگ میں امریکی فوجیں کویت کو آزاد کرانے گئی تھیں۔  پھر اس صدی کے آغاز پر امریکہ نے مشرق وسطی میں اپنے اتحاد یوں کو جن میں اسرائیل بھی شامل تھا۔ صدام حسین سے لاحق خطروں کا خاتمہ کرنے کے لئے اپنی فوجیں بھیجی تھیں۔ لیکن شام میں امریکہ نے اپنی فوجیں نہیں بھیجی ہیں۔ حالانکہ صدر اوبامہ نے شام میں Red Line کی حد سے نکلنے پر اسد حکومت کے خلاف فوجی کاروائی کا اعلان کیا تھا۔ لیکن اس حد سے نکلنے کے باوجود کوئی کاروائی نہیں کی گئی تھی۔ پھر یہ کہ شام میں ایک خوفناک خانہ جنگی اسرائیل کی سرحدوں کے قریب ہو رہی تھی۔ لیکن اس کے باوجود امریکی فوجیں شام میں نہیں بھیجی تھیں۔
       یمن میں چودہ سال سے القاعدہ کے خلاف امریکہ کے خصوصی فوجی دستے آپریشن کر رہے تھے۔ صدر علی عبداللہ صالح اس جنگ میں امریکہ کے انتہائی قریبی اتحادی تھے۔ سعودی عرب اور امریکہ دونوں صدر صالح کی پشت پر تھے۔ لیکن عرب اسپرنگ کے دوران امریکہ نے اپنا فوجی آپریشن ختم کر دیا تھا۔ صدر صالح کی حکومت کا زوال ہو گیا تھا۔ اور سعودی عرب یمن میں اب اپنی پسند کی حکومت قائم کرنے کی جنگ کر رہا ہے۔ اس جنگ میں دنیا کے متعدد انصاف پسند ملک یمنی ہو تیوں کی حمایت کر رہے ہیں۔ کیونکہ وہ اسے ان کے ملک کے خلاف جا حا ریت سمجھتے ہیں۔ اور ایران بھی ان ملکوں میں شامل ہے۔
       سعودی عرب کی قیادت میں عرب ملکوں کا فوجی اتحاد اس جنگ میں حصہ لے رہا ہے۔ لیکن ایک سال ہو رہا  ہے۔ اور اس فوجی اتحاد کو یمن میں ابھی تک کوئی کامیابی نہیں ہوئی ہے۔ سعودی عرب نے اب 34 اسلامی ملکوں کی ایک اسلامی فوج بنانے کا اعلان کیا ہے۔ جس میں پاکستان کو بھی شامل کیا ہے۔ جو ایک ایٹمی طاقت ہے۔ لیکن اس اسلامی فوج کے مقاصد ابھی واضح نہیں ہیں۔ لیکن یہ واضح ہے کہ امریکی فوجوں کے بجاۓ اب اس اسلامی فوج کے Boots عرب سرزمین پر ہوں گے۔ اسرائیلی تنازعوں کو سلجھانے کے بجاۓ الجھانے کے بڑے ماہر ہیں۔ اور 68 سال سے عرب دنیا میں وہ یہ سیاست کر رہے ہیں۔ اور اس میں کامیاب بھی ہیں۔ اسرائیل کی جنگ ایران سے ہے۔ ایران کی جنگ سعودی عرب سے نہیں ہے۔

Saturday, January 16, 2016

Neo-Cons Are Using American Power To Create Chaos In The World

The Regime Change And The "Hit-And-Run" Policy

 Neo-Cons Are Using American Power To Create Chaos In The World

مجیب خان
 

          صدر بر اک  ا وبا مہ نے اپنے آخری اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں افغانستان، عراق، لیبیا، شام اور یمن میں جنگوں کا کوئی ذکر نہیں کیا تھا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ پر بہت مختصر بات کی تھی۔ یوکرین کے مسئلہ کا بلیک آوٹ کیا تھا۔ شام میں روس کی فوجی موجودگی کے بارے میں خاموشی اختیار کی تھی۔ روس کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کے بارے میں بھی کوئی بات نہیں کی تھی۔ سعودی عرب اور خلیج کے حکمران امریکہ کی سرپرستی میں داعش کے خلاف جو جنگ لڑ رہے ہیں۔ صدر اوبامہ نے کانگرس سے اپنے خطاب میں اس جنگ میں کامیابیوں یا ناکامیوں کا بھی کوئی ذکر نہیں کیا تھا۔ فلسطین اسرائیل تنازعہ کے حل میں ان کی کوششیں ناکام ہونے پر بھی کوئی بات نہیں کی تھی۔ بحرہ ساؤ تھ چائنہ میں امریکہ کی بڑھتی ہوئی فوجی سرگرمیوں کے بارے میں بھی کانگرس سے خطاب میں کوئی بات نہیں کی تھی۔ یورپ میں امریکہ کے قدیم اتحادیوں کے ساتھ تعلقات میں حالیہ چند سال میں جو کھچاؤ آیا ہے اس پر بھی کچھ نہیں کہا تھا۔ صدر اوبامہ کے خطاب میں خارجہ امور بہت مختصر پیراگراف تھا۔ صدر اوبامہ کے خطاب کا ایک بڑا حصہ اقتصادی شعبوں میں ان کی انتظامیہ کی کامیابیوں کی تفصیل پرتھا۔ صحت عامہ کی اصلاحات کی کامیابی کا ذکر تھا۔ جس کے تحت اٹھارہ ملین امریکیوں کو صحت عامہ کی سہولتیں فراہم کی گئی ہیں۔ صدر اوبامہ نے اسٹیٹ اف دی یونین خطاب میں بڑے پر زور لفظوں میں کہا یونین آج بہت مضبوط اور مستحکم ہے۔ اور دنیا میں جہاں بھی مسئلہ ہوتا ہے وہ ہمارے پاس آتے ہیں۔ امریکہ کے فوجی بجٹ کا دنیا میں کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا ہے۔
       ایک بیمار خارجہ پالیسی صدر اوبامہ کو وراثت میں ملی تھی۔ سات سال سے صدر اوبامہ اس بیمار خارجہ پالیسی کا علاج کر رہے ہیں۔ لیکن انہیں ابھی تک کامیابی نہیں ہوئی ہے۔ Regime Change اورNation Building کا جو تصور بش انتظامیہ نے امریکہ کی خارجہ پالیسی کو دیا ہے۔ صدر اوبامہ بھی اسی خارجہ پالیسی کے بھنور میں بھٹکے ہوۓ ہیں۔ Regime Change کرنے کا تجربہ انتہائی آسان تھا۔ لیکن Nation Building کے تجربے نے جیسے امریکہ کے عصا ب ڈھیلے کر دئیے ہیں۔ اور جب تک افغانستان عراق اور لیبیا تندرست معاشرے نہیں ہوں گے ۔ امریکہ کی خارجہ پالیسی بھی اسی طرح بیمار نظر آۓ گی۔ اس بیمار خارجہ پالیسی کی وجہ سے شام میں Regime Change میں کامیابی ہو رہی ہے اور نہ ہی Nation Building کا مرحلہ قریب نظر آ رہا ہے۔ افغانستان بش انتظامیہ کی ناکامی تھا۔ اور شام اوبامہ انتظامیہ کی ناکامی ہے۔ اور امریکہ کی خارجہ پالیسی میں یہ ناکامیاں ایک تسلسل بن گئی ہیں۔ صدر اوبامہ ناکامیوں کے اس تسلسل کو ختم کر سکتے تھے ۔ لیکن صدر بش نے عراق پر حملہ کر کے انتشار اور عدم استحکام کا جو پنڈ رہ با کس کھولا تھا۔ صدر اوبامہ نے لیبیا پر حملہ کر کے اس پنڈ رہ با کس کو پنڈ رہ بیرل بنا دیا تھا۔ اور یہ پنڈ رہ بیرل سب کے قابو سے باہر ہو گیا ہے۔ افغانستان عراق اور لیبیا پر حملوں سے اوبامہ انتظامیہ نے یہ سبق سیکھا تھا کہ شام میں Regime Change کے لئے امریکی فوجیں بھیجنے کے بجاۓ یہ کام عربوں سے خود کرنے کے لئے کہا ہے۔ لیکن انہیں ہتھیار اور تربیت دینے کی ذمہ داری امریکہ نے لی ہے۔
       افغانستان میں طالبان نے نیٹو فوجوں کو ناکام کر دیا تھا۔ لیکن شام میں حکومت کے باغیوں نے خود اپنے آپ کو شکست دی ہے۔ پانچ سال تک عرب عربوں کا خون بہاتے رہے۔ ایک عرب ملک کو تباہ کرنے میں خلیج کے عرب حکمرانوں نے گراں قدر سرمایہ لگایا تھا۔ لیکن آخر میں شام کے تنازعہ پر سب روس کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔ روسی فوجیں شام میں آ گئی ہیں۔ اور پانچ سال بعد اب اوبامہ انتظامیہ نے شام کے مسئلہ کے ایک سیاسی حل پر اتفاق کیا ہے۔ روس اور چین نے سلامتی کونسل میں جب امریکہ کی قراردادوں کو ڈ بل ویٹو کیا تھا۔ امریکہ کو اس وقت راستہ بدل کر شام میں سیاسی حل کی طرف آ جانا چاہیے تھا۔ اس صورت میں امریکہ اپنی عالمی قیادت کو بھی بچا لیتا۔ شام میں روس کی فوجیں آنے کے بعد داعش کے بارے میں جو انکشافات سامنے آۓ ہیں کہ ترکی کس طرح داعش کی مالی مدد کر رہا تھا ۔ اور انہیں ہتھیار فراہم کر رہا تھا۔ اور یہ داعش کے خلاف جنگ میں امریکہ کے قریبی اتحادی تھے۔ دنیا کے لئے روس کے یہ انکشاف ایسے ہی تھے کہ جیسے ایڈ ورڈ سنو ڈن کے امریکہ کی خفیہ سرگرمیوں کے بارے میں انکشافات تھے۔ اور ان انکشافات سے امریکہ کی ساکھ مسلسل خراب ہو رہی ہے۔
       نائن ایلون کے بعد عالمی امن امریکہ کی خارجہ پالیسی کا مسئلہ نہیں رہا ہے۔ امریکہ کی خارجہ پالیسی میں دہشت گردی کے خلاف جنگ نے سرد جنگ کا مقام لے لیا ہے۔ بش انتظامیہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز جس انداز سے کیا تھا۔ اس سے ظاہر ہو گیا تھا کہ یہ جنگ دہشت گردی ختم کرنے کی نہیں ہے بلکہ یہ دہشت گردی کو دنیا کے کونے کونے میں پھیلانے کی جنگ ہے۔ اور پندرہ سال بعد یہ خدشات درست ثابت ہوۓ ہیں۔ اور اوبامہ انتظامیہ کے سات سال میں دہشت گردی کو فروغ دیا گیا ہے۔ صدر اوبامہ سے یہ سوال کبھی نہیں کیا گیا ہے کہ سینٹر اوبامہ نے عراق پر حملہ کی مخالفت کی تھی ۔ لیکن پریذیڈنٹ اوبامہ نے لیبیا پر حملہ کیوں کیا تھا؟ اس کی مخالفت کیوں نہیں کی تھی؟
       امریکہ کے عوام جنہیں منتخب کرتے ہیں خارجہ امور کے فیصلے وہ نہیں کرتے ہیں۔ ہزاروں میل دور دوسروں کے گھروں کے اندرونی معاملات میں جنگوں کے شعلے بھڑکانے میں امریکی عوام کا کیا مفاد ہے۔ لیکن یہ Neo Cons کا مفاد ہے۔ جو امریکہ کی خارجہ پالیسی کا مفاد بن گیا ہے۔ اور Neo Cons امریکی پاور کو اپنے مقاصد میں استعمال کر رہے ہیں۔ بش انتظامیہ میں Neo Cons کو خارجہ پالیسی اسٹبلیشمنٹ میں مضبوط ہونے کا موقعہ ملا تھا۔ اور اوبامہ انتظامیہ میں یہ کمزور نہیں ہوۓ ہیں۔ Neo Cons پرامن طریقوں سے دنیا میں تبدیلیاں لانے میں یقین نہیں رکھتے ہیں۔ ان کی تھیوری ہے کہ دنیا میں جتنا زیادہ انتشار ہو گا۔ جنگیں ہوں گی۔ خون خرابہ ہو گا۔ لوگ مارے جائیں گے۔ اس کے نتیجہ میں دنیا میں تبدیلی آۓ گی۔ عراق میں ہر سال ہزاروں لوگ مر رہے ہیں۔ لیکن Neo Cons کا اب بھی یہ کہنا ہے کہ چالیس پچاس سال بعد عراق ایک نیا ملک ہو گا۔ امریکی پاور کے ذریعے Regime Change پالیسی دراصل Neo Cons کی Hit and Run پالیسی ہے۔ اور اب یہ امریکہ کی خارجہ پالیسی بن گیا ہے۔ ایران میں Regime Change بھی ان کے ایجنڈے میں تھا۔ ایران کے خلاف اقتصادی بندشوں کے در پردہ عراق کا تصور تھا۔ ایران کے خلاف فوجی آپریشن کے تمامOptions  صدر اوبامہ کے سامنے رکھ دئیے تھے۔
        لیکن روس چین یورپی یونین اور اقوام متحدہ نے ایران کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے ایٹمی پروگرام کا تنازعہ حل کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اور امریکہ کو بھی اس فیصلہ کا پابند کر دیا تھا۔ اور ان مذاکرات میں عراق کے تجربہ کو مد نظر رکھا گیا تھا۔ اور ان مذاکرات کا دائرہ صرف ایران کے ایٹمی پروگرام تک محدود رکھا تھا۔ ایران میں انسانی حقوق ، پریس کی آزادی ، سیاسی قیدیوں کی رہائی اور Regime Change جیسے موضوع ان مذاکرات کا حصہ نہیں بناۓ تھے۔ لہذا ایران کے ساتھ مذاکرات میں کامیابی ہوئی تھی۔ اس صورت حال میں ایران کے سلسلے میں اوبامہ انتظامیہ کو اپنی پالیسی تبدیل کرنا پڑی ہے۔ جبکہ Neo Cons امریکہ کو مذاکرات سے دور رکھنا چاہتے تھے۔ صدام حسین کے ساتھ بھی یہ مذاکرات ہو سکتے تھے۔ اور صدام حسین عراق کے تیل کی دولت میں مغربی کمپنیوں کو بھی شامل کر سکتے تھے ۔ اس لئے لیبیا میں قدافی حکومت سے مذاکرات نہیں کیے تھے۔ اس لئے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی امریکہ نے سختی سے مخالفت کی تھی۔ اور پاکستان کو بھی طالبان سے مذاکرات کرنے سے روکا گیا تھا۔ اس لئے پانچ سال سے شام میں اسد حکومت سے مذاکرات امریکہ کی پالیسی نہیں تھی۔ کیونکہ Neo Cons  تنازعوں کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے میں یقین نہیں رکھتے ہیں۔
        صدر اوبامہ نے اپنے آخری اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں کہا ہے کہ داعش کے بغیر بھی پاکستان افغانستان اور متعدد دوسرے ملکوں میں کئی دہائیوں تک عدم استحکام رہے گا۔ صدر اوبامہ کے بعد جس پارٹی کا بھی صدر آۓ گا۔ حالات بدستور ایسے ہی رہیں گے۔ ان میں کسی بڑی تبدیلی کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ اب یہ پاکستان افغانستان ایران سعودی عرب اور دوسرے ملکوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ عدم استحکام کے حالات سے نکلنے کے لئے کئی دہائیوں کا انتظار مت کریں۔ اور اپنے خطہ میں امن اور استحکام کے لئے خود اقدامات کریں ۔ اور اس میں ان کا مفاد ہے۔