Time Off From Afghanistan
The Last 36 Years Pakistan Has Been Involved In Afghanistan, What Has Pakistan Got? Hand Over Afghanistan To India
مجیب خان
افغان
جنگ کے دوران امریکہ بھارت اسٹرٹیجک تعلقات پاکستان کی فوج اور آئی ایس آئی کو
ٹارگٹ بنا رہے تھے۔ ان کے خلاف ایک باقاعدہ پراپگنڈہ مہم چلائی جا رہی تھی۔ اس طرح
القاعدہ اور طالبان کو فوج اور آئی ایس آئی پر حملہ کرنے کی شہ مل رہی تھی۔ اور
فوج اور آئی ایس آئی پر القاعدہ اور طالبان کے حملہ شروع ہو گیے تھے۔ اور بھارت کے
لئے یہ اصل کامیابی تھی۔ جس سے تاثر یہ
تھا کہ امریکہ نے پاکستان کو طالبان کے خلاف جنگ میں اتحادی بنایا تھا۔ اور بھارت پاکستان
کے خلاف اتحادی تھا۔ یہ امریکہ کی اپنی پالیسی تھی جس نے نیٹو کو افغانستان میں
ناکام بنایا تھا۔ اور طالبان نے اس کا کریڈٹ لیا ہے۔ بش کی قومی سلامتی ٹیم نے
نامعلوم کیا سوچ کر بھارت کو افغانستان میں پاکستان کے مدمقابل کھڑا کر دیا تھا۔
حالانکہ انہیں دونوں ملکوں کے کشیدہ اور حقارت کے تعلقات کا علم تھا۔ اس جنگ میں
یہ امریکہ کا ایک بہت بڑا Blunder
تھا۔ جو افغانستان میں امریکہ کی شکست کا سبب بنا تھا۔ امریکہ بھارت اسٹرٹیجک
تعلقات پر کسی کو اعتراض نہیں تھا۔ لیکن امریکہ کو ان تعلقات کو پاکستان اور
افغانستان کی سرحدوں سے دور رکھنا چاہیے تھا۔ تاکہ افغان جنگ کو کامیاب بنایا جاۓ۔
اور جب افغانستان میں مکمل امن اور استحکام بحال ہو جاتا اس وقت بھارت افغانستان
کے ساتھ معمول کے تعلقات فروغ دے سکتا تھا۔ بش انتظامیہ افغان جنگ کو زیادہ اہمیت
بھی نہیں دے رہی تھی۔ اس لئے ایک نامکمل جنگ کو چھوڑ کربش انتظامیہ عراق چلی گئی
تھی۔ اور جب یہ واپس افغانستان آئی تھی تو بھارت کے ساتھ اس کا Joint Strategic Venture شروع ہو گیا تھا۔ نائن ایلون کے بعد بش انتظامیہ نے پاکستان کے ساتھ نئے
تعلقات کے سلسلے میں بڑے بلند وعدہ کیے تھے۔ صدر جنرل مشرف کو یہ یقین دلایا گیا
تھا کہ پاکستان کے ساتھ نئے تعلقات پرانے تعلقات نہیں ہوں گے۔ اور پھر دہشت گردی
کے خلاف جنگ میں پاکستان کو ایک قریبی اتحادی بنایا تھا۔ پاکستان کو نیٹو رکن ملک
کا درجہ دیا تھا۔
پھر
یہ وعدے اور یقین دہانیاں کہاں چلی گئی تھیں۔ اتحادی بنا کر پاکستان کی تذلیل کی
جا رہی تھی۔ اس کی خود مختاری اور اقتدار اعلی پر حملہ کیے جا رہے تھے۔ یہ بھارت
کو بڑا دکھانے اور پاکستان کو نچا دکھانے کی گھٹیا پالیسیاں تھیں۔ اوبامہ انتظامیہ
کا کہنا یہ ہے کہ پاکستان طالبان کو مذاکرات پر آمادہ نہیں کر رہا ہے۔ جب پاکستان
نے طالبان کو مذاکرات کے لئے آمادہ کر لیا تھا۔ اس وقت بش انتظامیہ کا کہنا یہ تھا
کہ طالبان سے کوئی مذاکرات نہیں ہوں اور ان کا خاتمہ کیا جاۓ گا۔ امریکہ کی یہ
پالیسی اتحادیوں کو Mental بنا
رہی تھی۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ آخر امریکہ افغانستان میں کیا چاہتا
تھا۔ 13 سال میں امریکہ نے جتنے طالبان مارے تھے۔ اتنے ہی طالبان اور پیدا کر دئیے
تھے۔ اس کا فوجی حل نہیں تھا۔ اس کا سیاسی حل نہیں تھا۔ پھر اس کا ایک ہی حل تھا
کہ طالبان کے بھاری اکثریت کے صوبوں کو ہیروشما بنا دیا جاتا۔ جاپان کی طرح
افغانستان میں بھی امن آ جاتا۔
صدر
جنرل پرویز مشرف نے 2005 میں افغان مہاجرین کو واپس افغانستان بھیجنے کا فیصلہ کیا
تھا۔ لیکن پھر صدر کرزئی نے صدر بش سے کہا کہ افغانستان معاشی طور پر ابھی اتنا
مستحکم نہیں ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں افغانوں کو بسا سکے گا اور انہیں روز گار فراہم
کر سکے گا۔ لہذا پاکستان ابھی ان افغانوں کو اپنے ملک میں رہنے دے۔ جنرل مشرف
کیونکہ امریکہ کی ڈارلنگ تھے۔ صدر بش کی درخواست پر انہوں نے یہ فیصلہ بدل دیا
تھا۔ پھر 2006 سے امریکہ اور کرزئی حکومت پاکستان
کو یہ الزام دینے لگے کہ پاکستان نے طالبان کو پناہ دی ہے۔ اور یہ طالبان پاکستان
سے افغانستان کے اندر دہشت گردی کرنے آتے ہیں۔ پاکستان میں اگر نتھن یاہو جیسا
لیڈر ہوتا وہ امریکہ سے واپس آ کر افغان مہاجرین کے پاکستان سے انخلا کے احکامات
دے دیتا۔ صدر بش اور صدر کرزئی کو چیخ پکار کرنے دیتا۔ انہیں یہ بتا دیا جاتا کہ
پاکستان کا یہ فیصلہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ ہے۔ اور اس سے افغانستان میں
دہشت گردی ختم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ افغانستان میں امریکہ اور نیٹو فوجیں تھیں
اور وہ پاکستان سے آنے والے افغانوں کو بسانے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔ حکومت کے یہ
فیصلہ پاکستان کی سلامتی پر ڈرون حملوں کو روکنے کے تھے۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ
کوئی امریکہ کی ڈارلنگ بنا ہوا تھا اور کوئی کلمہ گو افغانوں کے عشق میں مبتلا
تھا۔ پاکستان کے حکمران اور دفتر خارجہ کے حکام میں Bold فیصلہ کرنے کی
مردانگی نہیں تھی۔
امریکہ کے پاس پاکستان کو ذلیل اور خوار کرنے کے لئے ایف 16 طیارے اور مالی
امداد جیسے دو پتہ ہیں۔ 90 کے عشرے میں سرد جنگ ختم ہونے کے بعد جب امریکہ کو
پاکستان کی ضرورت نہیں تھی۔ تو پھر سینیٹر Larry Pressler ایکٹ سینٹ نے منظور
کیا تھا۔ جس کے تحت پاکستان کو ایف 16 طیاروں کی فراہمی روک دی تھی۔ حالانکہ
پاکستان نے 600 ملین ڈالر ادا کر دئیے تھے۔ اور پاکستان کی مالی امداد بھی بند کر
دی تھی۔ اور اب پھر سینٹ نے پاکستان کی 300 ملین ڈالر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اخراجات
کی رقم روک لی ہے۔ اور امریکہ کی امداد سے ایف 16 طیارے خریدنے کو بھی بلاک کر دیا
ہے۔ جبکہ ایوان نمائندگان نے پاکستان کی 450 ملین ڈالر امداد بلاک کر دی ہے۔
پاکستان آخر کب تک ان Tortures کا
سامنا کرتا رہے گا؟ فرض کیا جاۓ کہ افغانستان میں اگر امریکہ کو کامیابی ہو جاتی۔
طالبان حکومت کا حصہ بن جاتے۔ اور افغانستان میں امن اور استحکام بھی آ جاتا تب
بھی پاکستان کے ساتھ برتاؤ مختلف نہیں ہوتا۔ امریکہ بھارت اور افغانستان ایک ہوتے۔
اور پاکستان کو افغانستان سے دور رکھا جاتا۔ ہر صورت میں پاکستان کی اہمیت گرانا
مقصد ہے۔
وزیر
اعظم نریندر مودی گزشتہ ماہ سعودی عرب کے دورے پر گیے تھے۔ سعودی شاہ نے ان کی بڑی
آؤ بھگت کی تھی۔ بھارت کے ساتھ اقتصادی اور سرمایہ کاری کے کئی بڑے معاہدے ہوۓ
تھے۔ سعودی عرب نے 60 بلین ڈالر بھارت میں انویسٹ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ جس میں
بھارت میں انفراسٹیکچر کی تعمیر بھی شامل تھا۔
اور اب ایک ماہ بعد وزیر اعظم نریندر مودی ایران کے دورے پر آۓ تھے۔ اور
ایران میں مودی نے سعود یوں کے انویسٹمینٹ میں سے 500 ملین ڈالر سے چابہار بندر گاہ
تعمیر کرنے کا معاہدہ کیا ہے۔ اور چابہار سے زاہدان تک ریلوے لائن بچھانے کا
معاہدہ بھی ہوا ہے۔ اس کے علاوہ بھی بھارت نے ایران کے ساتھ دوسرے شعبوں میں بھی
بارہ معاہدے کیے ہیں۔ اب یہ دیکھ کر سعودی اور اسرائیلی ایک دوسرے کا سر کھجا رہے ہوں گے۔ سعودی جی سی سی ملک اور
اسرائیل ایران کو اقتصادی طاقت بن کر ابھرنے سے روک رہے ہیں۔ لیکن کیونکہ امریکہ
کا اشارہ تھا۔ اس لئے سعودی بھی خاموش ہیں۔ امریکی میڈیا میں بھی بلیک آؤٹ ہے۔ اگر
بھارت کی جگہ پاکستان ہوتا تو امریکی میڈیا میں سرخیاں لگ رہی ہوتیں کہ سعود یوں کے
پیسوں سے پاکستان یہ بندر گاہ تعمیر کر رہا ہے۔ جیسے ایٹمی دھماکوں پر کہا گیا تھا
کہ پاکستان نے مغربی ٹیکنالوجی چوری کی تھی۔ اور یہ اٹم بم بناۓ تھے۔ پھر یہ کہا
گیا کہ چین نے پاکستان کو یہ ٹیکنالوجی دی تھی۔ اس وقت بھی پاکستان کی تذلیل کرنا
تھا۔
جس
طرح انسان اپنی بیماری کے علاج اور زندہ رہنے کے لئے ڈاکٹر کی انتہائی کڑوی گولیاں
نگلتا ہے۔ اسی طرح اب پاکستان کے اداروں اور حکمرانوں کو پاکستان کے وقار اور بقا
کے لئے انتہائی کڑوے فیصلے کرنا ہوں گے۔ اس سے قبل کے امریکہ کا دوسرا ڈرون
پاکستان میں گرے۔ پاکستان کو فوری طور پر افغانستان کے امور سے قطع تعلق ہونے کا
اعلان کرنا چاہیے۔ طالبان کو امن کی میز پر
لانے کی فراڈ سیاست سے علیحدگی اختیار کرنے کا اعلان کرنا چاہیے۔ افغانستان کے
ساتھ تعلقات Freeze کر
دینا چاہیے۔ طالبان اور افغان مہاجرین کو پاکستان سے فوری طور پر نکال دیا جاۓ۔
جیسا کہ بلوچستان کے وزیر داخلہ نے کہا ہے بالکل اسی لہجہ میں بات کی جاۓ۔ اور
افغانستان کو بھارت کے حوالے کر دیا جاۓ۔ بھارت ایران میں چابہار بندر گاہ تعمیر
کر رہا ہے۔ جہاں سے وہ افغانستان اور وسعت ایشیا میں اپنے لئے تجارتی منڈیاں دیکھ
رہا ہے۔ لیکن اس کے لئے بھارت کو
افغانستان میں امن اور استحکام چاہیے۔ لہذا وہ خود افغانستان کے ساتھ مل کر امن
اور استحکام بھی لاۓ گا۔ پاکستان اب بھارت کے لئے افغانستان میں کیوں ذلیل و خوار
ہو۔
جہاں
تک افغانستان میں بھارت کا انفلوئنس بڑھ جانے کا سوال ہے پاکستان کو اس کی بالکل
فکر نہیں کرنا چاہیے۔ پاکستان میں جب 46 بلین ڈالر کا چین کا انویسٹمینٹ ہو گا تو چین
اس کا تحفظ کرنا بھی جانتا ہے۔ خلیج میں امریکہ کا اتنا بڑا انویسٹمینٹ بھی نہیں
تھا۔ لیکن خلیج مغرب کی اقتصادی لائف لائن تھا۔ لہذا امریکہ نے اس کا دفاع کیا
تھا۔ پھر پاکستان کے علاوہ چین کے افغانستان کے قدرتی معدنیات کے ذخائر میں بھی انویسٹمینٹ کے بڑے اقتصادی
سمجھوتے ہیں۔ لہذا افغانستان میں چین کا اثرورسوخ زیادہ اہم ہو گا۔ پاکستان کو اس
وقت صرف چین کے اقتصادی منصوبوں کی تکمیل پر توجہ دینا چاہیے۔ دہشت گردی کی Torture جنگ
سے اب چھٹکارا حاصل کرنا چاہیے۔ 36 سال سے پاکستان افغانستان کی دلدل میں دھنسا
ہوا ہے۔ اور ملا کیا ہے صرف امریکہ کے ڈرون اور گالیاں مل رہی ہیں۔ افغانستان کا
سر درد اب بھارت کو دے دیا جا ۓ۔