The Rise Of The People’s Power
President Obama: “The People
Of The United Kingdom Have Spoken, And We Respect Their Decision”
But Egypt's People Had
Spoken Too, And The World Had No Respect For Their Decision
Is This Discrimination Or
Injustice?
مجیب خان
امریکی میڈ یا میں برطانیہ کے یورپی یونین چھوڑنے کے فیصلے کو برطانوی عوام
کے اقتصادی حالات سے پریشانی کا سبب بتا جا رہا ہے۔ لیکن شاید یہ اتنی بڑی وجہ
نہیں تھی۔ برطانیہ کے لوگوں نے پہلے بھی ایسی اقتصادی پریشانیوں کا سامنا کیا ہے۔
پھر وزیر اعظم ڈیوڈ کمیرن پہلی بار جب اقتدار میں آۓ تھے تو انہوں نے سخت اقتصادی
اصلاحات نافذ کی تھیں۔ اور کم آمدنی والے برطانوی شہریوں کو حکومت کی طرف سے جو
مراعات ملتی تھیں ان میں کٹوتی کر دی تھی یا انہیں ختم کر دیا تھا۔ کمیرن حکومت کی
Austerity
اصلاحات سے خاصے برطانوی شہری متاثر ہوۓ تھے۔ اور وزیر اعظم کمیرن سے خوش نہیں
تھے۔ گزشتہ سال برطانیہ کے انتخابات میں ایسا نظر آ رہا تھا کہ کنزرویٹو یہ
انتخابات ہار جائیں گے۔ لیکن کنزرویٹو یہ انتخابات بھاری اکثریت سے جیت گیے تھے۔ وزیر
اعظم کمیرن نے پارٹی کے کنزر ویٹو اراکین کو جو ان سے یورپی یونین چھوڑنے کا اصرار
کر رہے تھے یہ یقین دلایا تھا کہ انتخابات کے بعد وہ اس پر ریفرینڈم کرائیں گے۔ اور اس ریفرینڈم کے نتائج اب سب کے
سامنے ہیں۔ بہرحال یہ فیصلہ برطانیہ کے 52 فیصد لوگوں کا ہے۔ برطانوی عوام کا یہ
فیصلہ بلاشبہ اس فیصلے سے بہت بہتر ہو گا جو 13 سال قبل وزیر اعظم ٹونی بلیر نے
برطانوی عوام کی مخالفت کو نظر انداز کر کے عراق پر امریکہ کے ساتھ ایک غیر قانونی
حملہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ وزیر اعظم کمیرن کے دوسری مرتبہ حکومت میں آنے کے بعد
امریکہ کے ساتھ برطانیہ کے سرد تعلقات محسوس کیے جا رہے تھے۔ برطانیہ پہلا ملک تھا
جس نے BRICS بنک کو سب سے پہلے تسلیم کیا تھا اور اس میں شامل ہونے کا اعلان کیا تھا۔
اوبامہ انتظامیہ کو وزیر اعظم کمیرن کے اس فیصلے پر حیرت ہوئی تھی۔ اور کہا کہ
ہمیں اس سے آگاہ نہیں کیا تھا۔ اس کے جواب میں وزیر اعظم کمیرن نے کہا کہ ایشیا
میں برطانیہ کے مفادات ہیں۔ اس الائنس پر پہلی چوٹ یہاں لگی تھی۔
گزشتہ سال چین کے صدر شی جن پنگ برطانیہ کے دورے پر آۓ تھے۔ اور انہیں ملکہ
برطانیہ کے محل میں ٹھہرایا گیا تھا۔ اس دورے میں چین نے برطانیہ کے ساتھ تقریباً 45
بلین ڈالر کے تجارتی اور سرمایہ کاری کے
معاہدے کیے تھے۔ برطانیہ نے چین کی کرنسی Renminbi کو لندن ٹریڈنگ میں
شامل کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا تھا۔ تاہم چین کے یورپی یونین کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی معاہدے علیحدہ تھے۔ وزیر
اعظم کمیرن با ظاہر برطانیہ کا ایک Independent کردار دیکھ رہے تھے۔ دنیا کی اقتصادی سرگرمیوں
میں لندن کا جو تاریخی رول تھا اسے دوبارہ بحال کرنا چاہتے تھے۔ جیسا کہ کنزرویٹو
پارٹی کے بورس جانسن نے کہا ہے کہ ہم برطانیہ کو دوبارہ ورلڈ پاور بنائیں گے۔
لندن
کے شہریوں نے ایسے وقت ایک مسلمان کو اپنا میئر منتخب کیا ہے کہ جب یورپ اور
امریکہ میں Islamophobia کا
زور ہے۔ لندن دنیا کی مالیاتی اور تجارتی سرگرمیوں کا سینٹر ہے۔ عرب Kingdoms
ہمیشہ اپنا سرمایہ British
Kingdom میں منتقل کرنے میں فخر محسوس
کرتی ہیں۔ ان کے لئے لندن جیسے ان کا دوسرا گھر ہے۔ پھر برطانیہ کی سابق کالونیوں
کا ایک کامن ویلتھ ہے جس کے تقریباً 50 سے زیادہ رکن ممالک ہیں۔ جن میں کینیڈا
آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ بھی شامل ہیں۔ ان ملکوں کے ساتھ برطانیہ کی تجارت میں بہت
وسعت اور استحکام ہے۔ لہذا یورپی یونین سے علیحدگی کا برطانیہ پر کوئی زیادہ اثر
نہیں ہو گا۔
16
سال سے جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ کی کامیابیاں اب سامنے آ رہی ہیں۔ عالمی اداروں
میں شگاف پڑ رہے ہیں۔ الائنس ٹوٹ رہے ہیں۔ قانون کی خلاف ورزیوں نے قانون کی بالا
دستی کی جگہ لے لی ہے۔ Nation
States کے قانون اور اصول Disregard ہو گیے ہیں۔ انسانی حقوق پامال ہو رہے ہیں۔ انصاف مفاد پرستی کے زد میں ہے۔
مفاد ہو گا تو انصاف ہو گا۔ اگر مفاد نہیں ہو گا تو نا انصافیاں ہوں گی۔ جمہوری
قدروں کی جگہ “Might
is Right” کی قدروں نے لے لی ہیں۔ یورپ میں
جو سیاسی بھونچال آیا ہے اس کے ذمہ دار ان کے رہنما ہیں۔ جنہوں نے فیصلے پہلے کیے
تھے۔ اور سوچا بعد میں تھا۔ دہشت گردی کی جنگ انہیں کھائی کی طرف لے جا رہی تھی۔
لیکن دہشت گردی کی جنگ جاری رکھنے کا عزم تھا۔ یورپی یونین کے تین ملکوں فرانس
برطانیہ اور اٹلی نے امریکہ کے ساتھ شامل ہو کر لیبیا پر دس ہزار بم گراۓ تھے۔ اور
اسلامی انتہا پسندوں کو لیبیا پر قبضہ کرنے کا موقعہ دیا تھا۔ اور یہ دہشت گردی کے
خلاف جنگ تھی۔ فرانس اور بلجیم میں یہ دہشت گردی کبھی نہیں ہوتی اگر یورپ کے رہنما
اپنا دماغ استعمال کرتے۔ عراق شام لیبیا یمن اور افغانستان میں جنگوں سے متاثرین
کا سیلاب یورپ پہنچ گیا ہے۔ اور یورپی یونین نے اس کا یہ حل نکالا تھا کہ ان لوگوں
کو پناہ دینے کے لئے یورپی یونین کے ہر ملک کے لئے ایک کوٹہ مقرر کر دیا تھا۔ جرمن
چانسلر انجیلا مرکل کا یہ رول ہے جس نے یورپ میں با لخصوص برطانیہ کے لوگوں کو
یورپی یونین کے خلاف بغاوت پر اکسایا ہے۔ اور یورپ کے دوسرے ملکوں میں بھی یہ
بغاوت ایک تحریک بن رہی ہے۔ دنیا میں یہ جنگیں لوگوں کو اب باغی بنا رہی ہیں۔
صدر
اوبامہ ساڑھے سات سال قبل اقتدار میں آنے کے بعد جب لندن آۓ تھے تو 10 ڈاؤننگ آ سٹریٹ
پر ہزاروں لوگ صدر اوبامہ کو سننے کے لئے آ گیے تھے۔ انہیں صدر اوبامہ سے دنیا میں
امن کے لئے بڑی امیدیں تھیں۔ پیرس اور برلن کے لوگوں نے بھی صدر اوبامہ کا ان ہی
امیدوں کے ساتھ استقبال کیا تھا۔ لیکن ساڑھے سات سال بعد صدر اوبامہ اپریل میں
لندن آۓ تھے۔ اور انہوں نے برطانیہ کے لوگوں سے یورپی یونین میں رہنے کی پر زور
اپیل کی تھی۔ لیکن برطانیہ کے لوگوں نے ان کی اپیل کے خلاف فیصلہ دیا ہے۔ کیونکہ
صدر اوبامہ سے انہیں جو امیدیں تھیں۔ صدر اوبامہ نے بھی ان کی امیدوں کے خلاف کام
کیے ہیں۔ اور ساڑھے سات سال میں صرف جنگوں اور خون خرابہ کی سیاست کو فروغ دیا ہے۔