?The War On Terror: Who Do You Trust
مجیب خان
Istanbul airport bombing |
People remove a body from a market in Baghdad |
Bomb detonated in Baghdad |
Terror hits a Hazara protest in Kabul |
Eighty Shia Hazara killed in a double suicide bombing in Kabul |
29 جون کو استنبول کے اتاترک انٹرنیشنل ایرپورٹ
پر دہشت گردوں کے خود کش بموں کے دھماکوں میں 54 لوگ ہلاک اور 2 سو سے زیادہ لوگ زخمی ہو گیے تھے۔
استنبول میں دہشت گردی کے صرف پانچ روز بعد اور عید الفطر سے دو روز قبل بغداد
مارکیٹ عراق میں دہشت گردوں نے بموں کے دھماکہ کر کے 213 لوگوں کو ہلاک کر دیا
تھا۔ اور 175 لوگ بری طرح زخمی ہو گیے تھے۔ یہ دھماکہ اتنا شدید تھا کہ ارد گرد کی
عمارتیں ہل گئی تھیں۔ انسانی جسموں کے ٹکڑے ہر طرف بکھرے ہوۓ تھے۔ انسانیت یہ
خوفناک منظر 21 ویں صدی میں دیکھ رہی تھی۔ عراق میں بموں کے ان دھماکوں کے تقریباً
دو ہفتہ بعد کابل افغانستان میں ہزارہ قومیت کے لوگوں کے ایک پرامن احتجاجی مظاہرے
میں بم دھماکہ میں 80 لوگ ہلاک ہو گیے تھے۔ اور231 لوگ زخمی ہو گیے تھے۔ دہشت گردی
کے یہ خوفناک واقعات تین اسلامی ملکوں عراق افغانستان اور ترکی میں ہوۓ تھے۔ جبکہ
فرانس اور جرمنی میں دہشت گردی کے واقعات کی نوعیت مختلف تھی۔ عراق ترکی اور
افغانستان میں بموں کے حملوں میں داعش کو Suspect بتایا گیا تھا۔ جیسے طالبان کو اب
پیچھے کیا جا رہا ہے اور داعش کو آگے لایا جا رہا ہے۔ افغان جنگ کا آغاز القاعدہ
کے خلاف ہوا تھا۔ پھر 6 سال بعد یہ طالبان کے خلاف جنگ بن گئی تھی۔ اور 10 سال بعد
اس جنگ کی Baton اب
داعش کو دی جا رہی ہے۔ صدر اوبامہ نے یہ صحیح کہا ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ ہونے میں Decades لگ جائیں گے۔
داعش کی بنیاد عراق میں ر کھی گئی تھی۔ جس عراقی
فوج کو امریکہ نے تربیت دی تھی۔ دو سال قبل اس کا ایک بریگیڈ حکومت سے منحرف ہو
گیا تھا۔ اور امریکہ کے فراہم کردہ ہتھیاروں کے ساتھ اسلامی ریاست کے بانیوں سے مل
گیا تھا۔ جنہوں نے فلوجہ اور موصل میں اپنی اسلامی ریاست قائم کر لی تھی۔ اور یہ
عراقی سنی تھے۔ اور پھر یہاں سے انہوں نے شام کا رخ کیا تھا۔ شام میں عدم استحکام
کھائی کی گہرائی تک پہنچ گیا تھا۔ اور یہاں حکومت شام کے ایک بڑے حصہ پر اپنا
کنٹرول کھو چکی تھی۔ اسلامی ریاست کے لئے یہ امریکہ کی شام کے باغیوں سے زیادہ ان کی
مدد ثابت ہوئی تھی۔ اسلامی ریاست نے شام کے بعض بڑے شہروں پر قبضہ جما لیا تھا اور
پھر یہاں اسلامی ریاست قائم کر لی تھی۔ لیکن پھر جوں ہی شام میں حکومت کا کنٹرول بحال
ہو گیا تھا۔ اسد حکومت نے روس کی مدد سے اسلامی ریاست سے اپنے شہر واپس لے لئے
تھے۔ اسلامی ریاست اب عراق کے سنی صوبوں پر قابض ہے۔ فلوجہ کو اسلامی ریاست سے
آزاد کرا لیا گیا ہے اور اب موصل کو آزاد کرانے کی تیاری ہو رہی ہے۔ لیکن سوال یہ
ہے کہ موصل کو آزاد کرانے کے بعد اسلامی ریاست میں جو لوگ شامل ہیں وہ کہاں جائیں
گے؟ ان کا تعلق عراق سے ہے۔ اور یہ عراق
کے سنی شہری ہیں۔ عراق پر اینگلو امریکی حملہ کے نتیجہ میں جو عدم استحکام آیا ہے۔
اس نے اسلامی ریاست کو جنم دیا ہے۔ اسلامی ریاست میں کچھ دوسرے ایکٹر بھی شامل ہو
گیے ہیں۔ عراق میں اگر شیعہ سنی ایک قوم بن جاتے اور سیاسی استحکام بحال ہو جاتا پھر
شاید اسلامی ریاست بھی دنیا کے لئے مسئلہ نہیں بنتا۔
لیکن
دنیا کے جو Genius
تھے۔ وہ دنیا کے سامنے عراق میں سیاسی استحکام کی صرف باتیں کرتے رہے اور دوسری
طرف وہ شام کو عدم استحکام کرتے رہے۔ شام جیسے ایک چھوٹے سے ملک میں پانچ سال سے
انتشار اور خانہ جنگی کسی ایٹمی دھماکہ سے کم نہیں تھی۔ شام کے ذریعے اسلامی ریاست
کو اپنا نیٹ ورک وسط ایشیا اور یورپ میں پھیلانے کا موقعہ فراہم کیا گیا تھا۔ اس
میں وسط ایشیا سے منشیات مافیا بھی شامل ہو گیا ہے۔ اس میں مشرقی یورپ کے Criminal Gangs بھی
شامل ہو گیے ہیں۔ اسلامی ریاست اتنی اسلامی نہیں کہ جتنی یہ Criminals کی State ہے۔ طویل جنگوں کے نتیجے میں ان ملکوں میں معاشی
وسائل اور معاشرتی قدریں تباہ ہو گئی ہیں۔ اور لوگوں میں کرائم کے رجحان بڑھ گیے
ہیں۔ لوگوں کو افیون کا عادی بنانا، لوگوں کو منشیات کی اسمگلنگ کا عادی کرنا اور
لوگوں کو دہشت گردی کی ترغیب دینا یہ سب ایک ہی نوعیت کے کرائم ہیں۔ اور یہ ان
ملکوں کا المیہ ہے۔ 29 جون کو بغداد مارکیٹ بم دھماکوں میں 213 لوگ ہلاک ہوۓ تھے۔
4 جولائی کو استنبول ایرپورٹ بم دھماکوں میں 54 لوگ ہلاک ہوۓ تھے۔ اور 22 جولائی
کو کابل میں ہزارہ کے ایک پرامن احتجاجی مظاہرے میں بم دھماکوں میں 80 لوگ ہلاک
ہوۓ تھے۔ جبکہ دہشت گردی کے ان تینوں واقعات میں زخمی ہونے والوں کی تعداد بھی
سینکڑوں میں تھی۔ دہشت گردی کے اگر ان تینوں واقعات کا ذرا گہرائی سے جائزہ لیا
جاۓ تو یہ ایک ہی طرح کا Pattern ہے۔ جو انتہائی اعلی پروفیشنل Criminal ہونے کا ثبوت
ہے۔
ترکی حکومت
کی ابتدائی تحقیقات کے مطابق استنبول ایرپورٹ بم دھماکوں میں حملہ آوروں کا تعلق وسط
ایشیا کی سابق سوویت ریاستوں سے تھا۔ حملہ آوروں نے استنبول کے ایک انتہائی قدامت
پسند ڈسٹرکٹ میں ایپارٹمنٹ کراۓ پر لیا تھا۔ اور یہاں انہوں نے استنبول ایرپورٹ پر
حملہ کی منصوبہ بندی کی تھی۔ ترکی کے حکام کے مطابق ان کے ایپارٹمنٹ کی تلاشی کے
دوران ان کے پا سپورٹ ملے ہیں۔ اور یہ روس ازبکستان اور کرغستان کے شہری تھے۔ لیکن
اصل سوال یہ ہے کہ انہیں کون Finance کر
رہا تھا؟ ان کے ایپارٹمنٹ کا کرایہ کون دے رہا تھا؟ یہاں قیام کے دوران ان کے
اخراجات کون ادا کر رہا تھا؟ ڈرون دہشت گردوں کو ہلاک کرتے ہیں۔ لیکن ان کو جو Finance
کرتے ہیں ان کا کوئی تعاقب نہیں کرتا ہے۔ صدام حسین کے خلاف اتنی سخت پابندیاں
لگائی گئی تھیں کہ اسکول کے بچوں کے لئے پین پنسل اور پیپر تک عراق میں نہیں جا
سکتے تھے۔ لیکن دہشت گردوں کو جو Finance کر رہے ہیں۔ انہیں ایسی بندشوں سے
آزاد رکھا ہے۔ افغانستان میں امریکہ اور نیٹو فوجوں کی موجودگی میں افیون کی
پیداوار اور منشیات کی اسمگلنگ کو فروغ
دیا جا رہا تھا۔ اور منشیات مافیا طالبان کی سرگرمیوں کو Finance کرتا تھا۔
کیونکہ طالبان کے تعاون کے بغیر منشیات مافیا کاروبار نہیں کر سکتا تھا۔ اس لئے 16
سال ہو گیے ہیں اور ان کی سرگرمیاں ابھی تک جاری ہیں۔ منشیات مافیا کا کاروبار بھی
جاری ہے۔ اور امریکہ کے فوجی آپریشن بھی جاری ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بش انتظامیہ نے جھوٹ
بولے تھے۔ اور اب اوبامہ انتظامیہ نے دہشت گردی کے خلاف مہم میں بہت سے حقائق
چھپاۓ ہیں۔ استنبول ایرپورٹ بم دھماکوں کے بعد نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ میں
روسی سیکورٹی حکام کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ تقریباً 7 ہزار روسی اور وسط ایشیا
سے شام میں لڑنے گیے تھے۔ اور ان میں پیشتر داعش میں شامل ہو گیے تھے۔ جبکہ 2015
میں کازکستان، کرغستان، تاجکستان، ترکمستان اور ازبکستان سے 4 ہزار رضاکار شام میں
داعش میں شامل ہو گیے تھے۔ روس کے North Caucasus سے اور وسط
ایشیا سے اتنی بڑی تعداد میں جہادی شام میں لڑنے گیے تھے۔ ان میں ایک بڑی تعداد نے
سی آئی اے کے تربیتی کیمپوں میں تربیت بھی لی ہو گی۔ لیکن امریکہ اور نیٹو ملکوں
کے میڈیا نے روس اور وسط ایشیا سے شام میں جانے والے جہادیوں کے بارے میں کبھی
نہیں بتایا تھا۔ دنیا کو صرف یہ بتایا جاتا تھا کہ یورپ اور شمالی امریکہ سے مسلم نوجوان
بڑی تعداد میں شام میں لڑنے جا رہے تھے۔ لیکن وسط ایشیا سے جو شام جاتے تھے وہ پھر داعش میں شامل ہو جاتے تھے۔ اور جب یہ واپس
وسط ایشیا آتے تھے تو افغانستان چلے جاتے تھے۔ اور وہاں بموں کے دھماکے کرتے تھے۔
اور یہ ازبک تاجک اور کرغستان وغیرہ کے جہادی تھے۔ انہیں داعش بتایا جاتا تھا۔
لیکن کابل میں جب بموں کے حملہ ہوتے ہیں۔ کابل کی حکومت ان کے حملوں کا الزام پاکستان
کو دینے لگتی تھی کہ یہ پاکستان سے آتے ہیں۔ اوبامہ انتظامیہ پاکستان پر دباؤ
ڈالنے لگتی تھی کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک کے خلاف کاروائی کرے۔ کانگرس پاکستان پر
پابندی لگا دیتی ہے کہ پاکستان دہشت گرد گروپوں کو ختم نہیں کر رہا ہے۔ یہ دہشت
گردی کے خلاف جنگ نہیں ہے۔ یہ ایک نظام بن گیا ہے۔ 16 سال میں اس نظام کے ذریعہ
کتنے ملکوں کو تباہ کیا گیا ہے۔ یہ کام داعش سے لیا جا رہا ہے۔ داعش کو اب
افغانستان میں Inject کیا
جا رہا ہے۔ افغان انٹیلی جنس کی توجہ پاکستان کی طرف ہے اور افغانستان کے پچھلے
دروازے سے داعش کابل میں داخل ہو رہی ہے۔ امریکہ اور نیٹو ملکوں کے میڈیا سے
طالبان غائب ہوتے جا رہے ہیں۔ اور داعش کو ان کے مقام پر لایا جا رہا ہے۔ اس لئے
عقلمندوں سے یہ کہا جاتا ہے کہ علاقائی تنازعوں کو علاقائی ملکوں کو خود حل کرنا
چاہیے۔ صرف اس میں ان کی بہتری ہوتی ہے۔ بیرونی طاقتیں علاقائی تنازعوں کو اپنے
مفاد میں استعمال کرنے لگتی ہیں۔ اور علاقائی ملکوں کے لئے نئے تنازعہ پیدا کر دیتی
ہیں۔