The Israel-Arab Conflict Has A Big Role In Making Islam The Fastest Growing Religion In Europe And North America
مجیب خان
شمالی امریکہ اور یورپ میں عرب مسلمانوں کو
ایکسپورٹ کرنے اور یہاں اسلام پھیلانے میں اسرائیل عرب تنازعہ کا ایک بڑا اہم رول
ہے۔ عربوں کے ساتھ جنگ میں اسرائیل جب بھی ان کے علاقوں پر قبضہ کرتا تھا۔ ان کی
آبادی کو مہاجر کیمپوں میں پہنچا دیا جاتا تھا۔ اور پھر وہاں سے انہیں شمالی
امریکہ یا یورپ میں ایکسپورٹ کر دیا جاتا تھا۔ 1968 کی عرب اسرائیل جنگ، پھر 1973
کی عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کے وسیع علاقوں پر اسرائیل نے قبضہ کر لیا تھا۔ جو
ابھی تک اسرائیل کے قبضہ میں ہیں۔ اور ان کی عرب آبادی کی دوسری اور تیسری نسل
شمالی امریکہ یا یورپ کے شہری ہیں۔ پھر 70 کے عشر ے میں لبنان میں خانہ جنگی کی
وجہ سے لبنانیوں کی بڑی تعداد نے یورپ اور شمالی امریکہ میں پناہ لے لی تھی۔
اسرائیل پہلے فلسطینیوں کے علاقوں پر قبضہ
کرتا تھا۔ پھر ان کو ان کے گھروں سے بید خل کر دیتا تھا۔ اور انہیں لبنان مصر اردن
اور شام کی طرف دھکیل دیتا تھا۔ جہاں اقوام متحدہ انہیں مہاجر کیمپوں میں آباد
کرنے کا کام کرتی تھی۔ لبنان کی خانہ جنگی
کے دوران اسرائیل نے صابرہ اور شتیلا کے فلسطینی مہاجر کیمپوں پر بلڈوزر چلا دئیے
تھے۔ اور فلسطینی مہاجر کیمپوں کو Ground Zero کر
دیا تھا۔ اسرائیل نے اس کی وجہ یہ بتائی تھی کہ فلسطینی یہاں سے ان پر حملے کرتے
تھے۔ جو فلسطینی یہاں زندہ بچ گیے تھے۔ انہوں نے اپنی بقا کے لئے شمالی امریکہ اور
یورپ کا رخ کیا تھا۔
اسرائیل کا عربوں کے علاقوں پر قبضہ کرنے اور پھر عربوں اور فلسطینیوں کو
شمالی امریکہ اور یورپ میں آباد کرانے کا اسرائیل کا جیسے ایک سوچا سمجھا منصوبہ
تھا۔ اور اس کے مطابق یہ کام ہو رہا تھا۔ یورپ اور شمالی امریکہ میں اسرائیلی لابی
کا حکومتوں کے قانون ساز اداروں پر خاصا اثر و رسوخ تھا۔ مقبوضہ عرب علاقوں سے آنے والوں کے ساتھ
امیگریشن کے سلسلے میں خصوصی نرمی برتی جاتی تھی۔ لہذا جن فلسطینیوں کو اسرائیلی
فوج ان کے گھروں سے بید خل کرتی تھی۔ اور پھر وہاں یہودی بستیاں آباد کی جاتی
تھیں۔ ان بے گھر فلسطینیوں کو پھر یورپ اور شمالی امریکہ میں آباد ہونے کے لئے
مواقع وہاں کی حکومتوں کے ذریعے فراہم کیے جاتے تھے۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ اس وقت
مقبوضہ عرب علاقوں سے آ نے والوں کے بارے میں کوئی سختی بھی نہیں تھی اور نہ ہی ان
کی سیاسی وابستگیوں کے بارے میں زیادہ پوچھ گچھ
ہو تی تھی۔ لہذا اخوان المسلمون کے ساتھ جن کی وابستگی تھی۔ وہ بھی یورپ
اور شمالی امریکہ آ گیے تھے۔ تاہم یہ بڑی پیچیدہ صورت حال تھی۔ کیونکہ اخوان
المسلمون عرب دنیا میں سوشلسٹ اور قوم پرست حکومتوں کے خلاف تھے۔ اور یہ حکومتیں
ان کے ساتھ سیاسی بنیادوں پر کچھ ایسا ہی سلوک کرتی تھیں جو اسرائیلی فلسطینیوں کے
ساتھ کر رہے تھے۔ اسی طرح جو فلسطینی یورپ اور شمالی امریکہ میں آ تے تھے ان میں
ایک بڑی تعداد تنظیم آزادی فلسطائین کے
حامیوں کی تھی۔ اس وقت حماس وجود میں نہیں آ ئی تھی۔ پی ایل او دنیا بھر میں با
لخصوص یورپ میں اسرائیلیوں کے مفادات پر حملہ کرتی تھی۔ ان کے طیارے بھی ہائی جیک
کیے جاتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود فلسطینیوں کے یورپ اور شمالی امریکہ میں داخل
ہونے پر کوئی سختی نہیں تھی۔ دہشت گردی دنیا کا بڑا مسئلہ نہیں تھا۔ دہشت گردی کو
سرد جنگ پر اہمیت نہیں دی جا سکتی تھی۔
70
اور 80 کی دہائیوں میں فلسطینیوں نے امریکہ میں اقتصادی طور پرخاصی ترقی کی تھی۔
اور یہ بڑے بڑے کاروباروں اور جائیدادوں کے مالک بن گیے تھے۔ بنکوں نے بھی ان کی
مدد کی تھی اور انہیں قرضہ دے دیتے تھے۔ ادھر یورپ اور امریکہ اسرائیل کو جو مالی
امداد دیتے تھے۔ اس سے اسرائیلی نئی یہودی بستیاں فلسطینیوں کے علاقوں میں تعمیر
کر تے جا رہے تھے۔ جبکہ سرد جنگ میں دوسرے ملکوں سے جو مسلمان شمالی امریکہ اور
یورپ میں آۓ تھے۔ وہ امریکہ کی ان پالیسیوں کا نتیجہ تھا جس نے اسلامی ملکوں میں
انتہائی کرپٹ اور مطلق العنان حکمران ان پر مسلط کیے تھے۔ اور یورپ ان کی پشت پنا
ہی کرتا تھا۔ یہ آمرانہ حکومتیں اپنے شہریوں پر جبر کرتی تھیں۔ ان حالات سے تنگ آ
کر یہ مسلمان یورپ اور شمالی امریکہ میں پناہ لینے آۓ تھے۔ افغانستان سرد جنگ کا
آخری محاذ تھا اور یہاں سوویت فوجوں کے خلاف ایک انتہائی خونی جنگ کے نتیجے میں
ہزاروں افغانوں نے یورپ اور شمالی امریکہ میں پناہ لے لی تھی۔ پھر اسی اثنا میں
ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد شاہ ایران کے حامی ایرانیوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے
شمالی امریکہ اور یورپ میں پناہ لی تھی۔
سرد جنگ ختم ہونے کے بعد با لکن Balkan میں
خانہ جنگی شروع ہو گئی تھی۔ یوگوسلاویہ کی فوجیں باسنیا میں مسلمانوں کی نسل کشی کر رہی تھیں۔ اس صورت حال نے با سنیا
کے مسلمانوں کو یورپ اور امریکہ میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا تھا۔ اور اب شام
میں خانہ جنگی کے حالات سے تنگ آ کر شام کے لوگ پناہ کی تلاش میں بھاگ رہے ہیں۔ جہاں
امریکہ اور مغربی طاقتوں کی حکومتیں باغیوں کی پشت پنا ہی کر رہی ہیں اور ایک
انتہائی خونی خانہ جنگی پانچ سال سے جاری ہے۔ اس خانہ جنگی نے ہزاروں بے گناہ
شہریوں کی جانیں لے لی ہیں۔ اور لاکھوں کی تعداد میں شامی یورپ اور شمالی امریکہ
میں پناہ لے رہے ہیں۔ اوبامہ انتظامیہ نے 10 ہزار شامیوں کو پناہ دینے کا فیصلہ
کیا ہے جو اس ہفتہ امریکہ پہنچ گیے ہیں۔ تاہم یہ ان مسلمانوں کی خواہش نہیں تھی
بلکہ یہ ان کی مجبوری تھی۔
جبکہ
اسرائیل عرب تنازعہ مسلسل عرب مسلمانوں کو شمالی امریکہ اور یورپ ایکسپورٹ کر رہا
تھا۔ یہ دیکھ کر شاید اس لئے سعودی عرب اور خلیج کی حکومتوں کا اسرائیل عرب تنازعہ
میں رد عمل خاصا سرد تھا۔ با ظاہر یہ حکمران اسرائیلی پالیسیوں کی مذمت کرتے تھے۔
لیکن پس پردہ یہ ان پالیسیوں کو شاید Appreciate بھی کرتے تھے۔ کیونکہ اسرائیل عرب
مسلمانوں کو ان کے گھروں سے بید خل کر رہا تھا۔ لیکن شمالی امریکہ اور یورپ میں
"اسلام" آباد ہو رہا تھا۔ سرد
جنگ کے اختتام پر سعودی عرب نے شمالی امریکہ اور یورپ میں مسجدوں اور اسلامی
سینٹروں کی تعمیر پر اپنے خزانے کھول دئیے تھے۔ 90 کی دہائی میں یورپ اور شمالی
امریکہ کے مختلف شہروں میں سینکڑوں عالی شان مسجدیں اور اسلامی سینٹر تعمیر ہو رہے
تھے۔ اسلام یہاں بڑی تیزی سے پھیل رہا تھا۔ صدر کلنٹن اور وزیر اعظم ٹونی بلیر بھی
یہ اعتراف کر رہے تھے کہ مغربی دنیا میں اسلام بڑی تیزی سے پھیل رہا تھا۔ اس وقت 6
ملین مسلمان یورپ میں ہیں۔ اور 2 ملین مسلمان شمالی امریکہ میں ہیں۔ کینیڈا میں
عیسائیت کے بعد اسلام دوسرا بڑا مذہب بن گیا ہے۔
اسلام جو 90 کی دہائی میں مغربی دنیا میں تیزی سے پھیل رہا تھا۔ اب 2016
میں یہ مغربی دنیا سے Retreat
ہوتا نظر آ رہا ہے۔ ان ملکوں میں مسلمانوں پر بندشیں لگانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔
مسلمانوں پر حملوں کی خبریں بھی آ رہی ہیں۔ مسجدوں کو آگ لگانے کی خبریں بھی آ رہی
ہیں۔ نئی مسجدیں تعمیر کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔ پہلے مسلم خواتین کے
اسلامی لباس کا احترام کیا جاتا تھا۔ اور اب ان کے سر سے حجاب اتارنے کا کہا جا
رہا ہے۔ فرانس میں ساحلوں پر مسلم عورتوں کے Burkini میں سوئمنگ کرنے پر پابندی لگا دی تھی۔ تاہم فرانس کی عدالت
نے مقامی حکومت کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود پولیس مقامی
حکومت کے فیصلے پر عملدرامد کروا رہی ہے۔ اور ساحلوں پر مسلم عورتوں سے Burkini
اتارنے کا کہا جاتا ہے۔ اگر فرانس میں دہشت گردی کے واقعات نہیں ہوتے تو شاید یہ
صورت کبھی پیدا نہیں ہوتی۔ یہ رسوائی یورپ اور شمالی امریکہ میں بڑی تیزی سے
پھیلتے ہوۓ اسلام کے لئے اسلامی دہشت گردی لائی ہے۔ اس اسلامی دہشت گردی نے اسلام
کے تیزی سے پھیلنے پر جیسے Brake لگا
دی ہے۔
یہ
90 کی دہائی میں نواز شریف حکومت کے آخری دور سے قبل وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے
دور کی بات ہے۔ کراچی میں شیعہ سنی فسادات ہو رہے تھے۔ رضویہ کالونی میں شیعاؤں کے
امام باڑے کو آگ لگا دی تھی۔ کئی عورتیں اور بچے اس میں ہلاک ہو گیے تھے۔ یہ بڑی
تکلیف کی خبر تھی۔ مارچ کا مہینہ تھا۔ یہاں خاصی سردی تھی۔ میرے ذہن میں اچانک یہ
آ یا کہ مسجد میں عشا کی نماز پڑھ لوں۔ پاکستان میں مولویوں کے لئے دعا کی جاۓ کہ
جس نے ان کی عقلوں پردے ڈال دئیے ہیں۔ اللہ ان کی عقلوں سے یہ پردے ہٹا دے۔ اتوار کی
شام تھی۔ امریکہ میں ہر جمعہ چاند رات ہوتا ہے۔ اور ہر اتوار یوم عاشور ہوتا ہے۔
لوگوں کو دوسرے دن کاموں پر جانا ہوتا ہے۔ اس لئے مارکیٹ وغیرہ جلد بند ہو جاتے
ہیں۔ اور سناٹا ہو جاتا ہے۔ میں اسلامک سینٹر پہنچا اس کے ساتھ ہی مسجد تھی۔ مسجد
کی پار کنگ بھری ہوئی تھی۔ عام طور پر اتوار کو عشا کی نماز میں اتنے لوگ نہیں
ہوتے ہیں۔ میں مسجد میں داخل ہوا تو ہر طرف ٹخنوں سے اونچی شلوار لمبے کرتوں اورسر
پر پگڑیوں میں خاصی بڑی تعداد میں لوگ تھے۔ میں نے انہیں پہچان لیا تھا یہ تبلیغی جماعت کے لوگ تھے۔ اور یہ پاکستان سے
تھے۔ میں نے ان سے بچنے کے لئے مسجد کے ایک کونے میں عشا کی نماز پڑھنا شروع کر
دی۔ آخری نفل پڑھ رہا تھا کہ عشا کی اذان ہونے لگی تھی۔ خیر میں نے نماز پڑھ لی
تھی۔ اور مسجد سے نکلنے کی طرف بڑھ رہا تھا کہ تبلیغی جماعت کے لوگوں نے مجھے گھیر
لیا سلام کے بعد ان میں سے ایک نے پوچھا کہ میرا تعلق کہاں سے ہے۔ میں نے بتایا
پاکستان سے ہے۔ انہوں نے کہا ہم بھی پاکستان سے ہیں۔ اور تبلیغی دورے پر ہیں۔ آئیں
بیٹھیں میں ان کے ساتھ بیٹھ گیا۔ تبلیغی جماعت کے دوسرے لوگ بھی میرے گرد گھیرا
بنا کر بیٹھ گیے تھے۔ انہوں نے اپنے تبلیغی دورے کے بارے میں مجھے بتایا کہ وہ امریکہ میں کتنی ریاستوں میں گیے
تھے۔ اور اب کہاں جائیں گے۔ میں خاموشی سے سنتا رہا۔ میں ان کی باتیں سن رہا تھا۔
لیکن میرے ذہن میں رضویہ کالونی میں شیعاؤں کا امام باڑہ جل رہا تھا۔ پھر میں نے
ان سے کہا جناب آپ اتنی دور سے یہاں تبلیغ کرنے آۓ ہیں۔ آپ کے گھر میں آگ لگی ہوئی
ہے۔ شیعہ سنی فسادات ہو رہے ہیں۔ امام باڑوں کو آگ لگائی جا رہی ہے۔ مسجدیں جل رہی
ہیں۔ عورتیں اور بچے ہلاک ہو رہے ہیں۔ جب گھر کے حالات اچھے ہوں گے تو آپ بھی
بیرون ملک تبلیغ کرتے اچھے لگے گے۔ یہاں مسلمان بہت اچھے ہیں۔ آپ اس شاندار مسجد
میں بیٹھے ہیں۔ قریب ہی گرجا بھی ہے۔ یہ عیسا ئیوں کی بستی ہے۔ لیکن کوئی مسجد کو
نقصان نہیں پہنچا رہا ہے۔ کوئی مسجد میں پتھر نہیں پھینک رہا ہے۔ میری یہ باتیں انہیں
اچھی نہیں لگ رہی تھیں۔ ان میں سے ایک نے کہا یہاں ہم جہاں بھی گۓ ہیں مسلمان
بالکل خوش نہیں ہیں۔ میں نے کہا یہاں مسلمان شاید پاکستان کے حالات سے خوش نہیں
ہیں۔ اتنی دیر میں عشا کی جماعت کی تکبیر شروع ہو گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے
ساتھ کھانا کھائیں میں نے معذرت کی مجھے جانا تھا۔ ان کا تعلق کراچی میں مکی مسجد
سے تھا۔ اور سب سے زیادہ فسادات کا گھڑ بھی کراچی بنا ہوا تھا۔