Wednesday, August 31, 2016

The Israel-Arab Conflict Has A Big Role In Making Islam The Fastest Growing Religion In Europe And North America


The Israel-Arab Conflict Has A Big Role In Making Islam The Fastest Growing Religion In Europe And North America

مجیب خان 
Muslim Woman swimming in a Burkini

Burkini is banned in France

      شمالی امریکہ اور یورپ میں عرب مسلمانوں کو ایکسپورٹ کرنے اور یہاں اسلام پھیلانے میں اسرائیل عرب تنازعہ کا ایک بڑا اہم رول ہے۔ عربوں کے ساتھ جنگ میں اسرائیل جب بھی ان کے علاقوں پر قبضہ کرتا تھا۔ ان کی آبادی کو مہاجر کیمپوں میں پہنچا دیا جاتا تھا۔ اور پھر وہاں سے انہیں شمالی امریکہ یا یورپ میں ایکسپورٹ کر دیا جاتا تھا۔ 1968 کی عرب اسرائیل جنگ، پھر 1973 کی عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کے وسیع علاقوں پر اسرائیل نے قبضہ کر لیا تھا۔ جو ابھی تک اسرائیل کے قبضہ میں ہیں۔ اور ان کی عرب آبادی کی دوسری اور تیسری نسل شمالی امریکہ یا یورپ کے شہری ہیں۔ پھر 70 کے عشر ے میں لبنان میں خانہ جنگی کی وجہ سے لبنانیوں کی بڑی تعداد نے یورپ اور شمالی امریکہ میں پناہ لے لی تھی۔ اسرائیل  پہلے فلسطینیوں کے علاقوں پر قبضہ کرتا تھا۔ پھر ان کو ان کے گھروں سے بید خل کر دیتا تھا۔ اور انہیں لبنان مصر اردن اور شام کی طرف دھکیل دیتا تھا۔ جہاں اقوام متحدہ انہیں مہاجر کیمپوں میں آباد کرنے کا کام کرتی  تھی۔ لبنان کی خانہ جنگی کے دوران اسرائیل نے صابرہ اور شتیلا کے فلسطینی مہاجر کیمپوں پر بلڈوزر چلا دئیے تھے۔ اور فلسطینی مہاجر کیمپوں کو  Ground Zero کر دیا تھا۔ اسرائیل نے اس کی وجہ یہ بتائی تھی کہ فلسطینی یہاں سے ان پر حملے کرتے تھے۔ جو فلسطینی یہاں زندہ بچ گیے تھے۔ انہوں نے اپنی بقا کے لئے شمالی امریکہ اور یورپ کا رخ کیا تھا۔
     اسرائیل کا عربوں کے علاقوں پر قبضہ کرنے اور پھر عربوں اور فلسطینیوں کو شمالی امریکہ اور یورپ میں آباد کرانے کا اسرائیل کا جیسے ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔ اور اس کے مطابق یہ کام ہو رہا تھا۔ یورپ اور شمالی امریکہ میں اسرائیلی لابی کا حکومتوں کے قانون ساز اداروں پر خاصا اثر و رسوخ تھا۔  مقبوضہ عرب علاقوں سے آنے والوں کے ساتھ امیگریشن کے سلسلے میں خصوصی نرمی برتی جاتی تھی۔ لہذا جن فلسطینیوں کو اسرائیلی فوج ان کے گھروں سے بید خل کرتی تھی۔ اور پھر وہاں یہودی بستیاں آباد کی جاتی تھیں۔ ان بے گھر فلسطینیوں کو پھر یورپ اور شمالی امریکہ میں آباد ہونے کے لئے مواقع وہاں کی حکومتوں کے ذریعے فراہم کیے جاتے تھے۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ اس وقت مقبوضہ عرب علاقوں سے آ نے والوں کے بارے میں کوئی سختی بھی نہیں تھی اور نہ ہی ان کی سیاسی وابستگیوں کے بارے میں زیادہ پوچھ گچھ  ہو تی تھی۔ لہذا اخوان المسلمون کے ساتھ جن کی وابستگی تھی۔ وہ بھی یورپ اور شمالی امریکہ آ گیے تھے۔ تاہم یہ بڑی پیچیدہ صورت حال تھی۔ کیونکہ اخوان المسلمون عرب دنیا میں سوشلسٹ اور قوم پرست حکومتوں کے خلاف تھے۔ اور یہ حکومتیں ان کے ساتھ سیاسی بنیادوں پر کچھ ایسا ہی سلوک کرتی تھیں جو اسرائیلی فلسطینیوں کے ساتھ کر رہے تھے۔ اسی طرح جو فلسطینی یورپ اور شمالی امریکہ میں آ تے تھے ان میں ایک بڑی تعداد  تنظیم آزادی فلسطائین کے حامیوں کی تھی۔ اس وقت حماس وجود میں نہیں آ ئی تھی۔ پی ایل او دنیا بھر میں با لخصوص یورپ میں اسرائیلیوں کے مفادات پر حملہ کرتی تھی۔ ان کے طیارے بھی ہائی جیک کیے جاتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود فلسطینیوں کے یورپ اور شمالی امریکہ میں داخل ہونے پر کوئی سختی نہیں تھی۔ دہشت گردی دنیا کا بڑا مسئلہ نہیں تھا۔ دہشت گردی کو سرد جنگ پر اہمیت نہیں دی جا سکتی تھی۔
     70 اور 80 کی دہائیوں میں فلسطینیوں نے امریکہ میں اقتصادی طور پرخاصی ترقی کی تھی۔ اور یہ بڑے بڑے کاروباروں اور جائیدادوں کے مالک بن گیے تھے۔ بنکوں نے بھی ان کی مدد کی تھی اور انہیں قرضہ دے دیتے تھے۔ ادھر یورپ اور امریکہ اسرائیل کو جو مالی امداد دیتے تھے۔ اس سے اسرائیلی نئی یہودی بستیاں فلسطینیوں کے علاقوں میں تعمیر کر تے جا رہے تھے۔ جبکہ سرد جنگ میں دوسرے ملکوں سے جو مسلمان شمالی امریکہ اور یورپ میں آۓ تھے۔ وہ امریکہ کی ان پالیسیوں کا نتیجہ تھا جس نے اسلامی ملکوں میں انتہائی کرپٹ اور مطلق العنان حکمران ان پر مسلط کیے تھے۔ اور یورپ ان کی پشت پنا ہی کرتا تھا۔ یہ آمرانہ حکومتیں اپنے شہریوں پر جبر کرتی تھیں۔ ان حالات سے تنگ آ کر یہ مسلمان یورپ اور شمالی امریکہ میں پناہ لینے آۓ تھے۔ افغانستان سرد جنگ کا آخری محاذ تھا اور یہاں سوویت فوجوں کے خلاف ایک انتہائی خونی جنگ کے نتیجے میں ہزاروں افغانوں نے یورپ اور شمالی امریکہ میں پناہ لے لی تھی۔ پھر اسی اثنا میں ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد شاہ ایران کے حامی ایرانیوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے شمالی امریکہ اور یورپ میں پناہ  لی تھی۔ سرد جنگ ختم ہونے کے بعد  با لکن Balkan میں خانہ جنگی شروع ہو گئی تھی۔ یوگوسلاویہ کی فوجیں باسنیا میں مسلمانوں کی  نسل کشی کر رہی تھیں۔ اس صورت حال نے با سنیا کے مسلمانوں کو یورپ اور امریکہ میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا تھا۔ اور اب شام میں خانہ جنگی کے حالات سے تنگ آ کر شام کے لوگ پناہ کی تلاش میں بھاگ رہے ہیں۔ جہاں امریکہ اور مغربی طاقتوں کی حکومتیں باغیوں کی پشت پنا ہی کر رہی ہیں اور ایک انتہائی خونی خانہ جنگی پانچ سال سے جاری ہے۔ اس خانہ جنگی نے ہزاروں بے گناہ شہریوں کی جانیں لے لی ہیں۔ اور لاکھوں کی تعداد میں شامی یورپ اور شمالی امریکہ میں پناہ لے رہے ہیں۔ اوبامہ انتظامیہ نے 10 ہزار شامیوں کو پناہ دینے کا فیصلہ کیا ہے جو اس ہفتہ امریکہ پہنچ گیے ہیں۔ تاہم یہ ان مسلمانوں کی خواہش نہیں تھی بلکہ یہ ان کی مجبوری تھی۔
     جبکہ اسرائیل عرب تنازعہ مسلسل عرب مسلمانوں کو شمالی امریکہ اور یورپ ایکسپورٹ کر رہا تھا۔ یہ دیکھ کر شاید اس لئے سعودی عرب اور خلیج کی حکومتوں کا اسرائیل عرب تنازعہ میں رد عمل خاصا سرد تھا۔ با ظاہر یہ حکمران اسرائیلی پالیسیوں کی مذمت کرتے تھے۔ لیکن پس پردہ یہ ان پالیسیوں کو شاید Appreciate بھی کرتے تھے۔ کیونکہ اسرائیل عرب مسلمانوں کو ان کے گھروں سے بید خل کر رہا تھا۔ لیکن شمالی امریکہ اور یورپ میں "اسلام"  آباد ہو رہا تھا۔ سرد جنگ کے اختتام پر سعودی عرب نے شمالی امریکہ اور یورپ میں مسجدوں اور اسلامی سینٹروں کی تعمیر پر اپنے خزانے کھول دئیے تھے۔ 90 کی دہائی میں یورپ اور شمالی امریکہ کے مختلف شہروں میں سینکڑوں عالی شان مسجدیں اور اسلامی سینٹر تعمیر ہو رہے تھے۔ اسلام یہاں بڑی تیزی سے پھیل رہا تھا۔ صدر کلنٹن اور وزیر اعظم ٹونی بلیر بھی یہ اعتراف کر رہے تھے کہ مغربی دنیا میں اسلام بڑی تیزی سے پھیل رہا تھا۔ اس وقت 6 ملین مسلمان یورپ میں ہیں۔ اور 2 ملین مسلمان شمالی امریکہ میں ہیں۔ کینیڈا میں عیسائیت کے بعد اسلام دوسرا بڑا مذہب بن گیا ہے۔  
     اسلام جو 90 کی دہائی میں مغربی دنیا میں تیزی سے پھیل رہا تھا۔ اب 2016 میں یہ مغربی دنیا سے Retreat ہوتا نظر آ رہا ہے۔ ان ملکوں میں مسلمانوں پر بندشیں لگانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ مسلمانوں پر حملوں کی خبریں بھی آ رہی ہیں۔ مسجدوں کو آگ لگانے کی خبریں بھی آ رہی ہیں۔ نئی مسجدیں تعمیر کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔ پہلے مسلم خواتین کے اسلامی لباس کا احترام کیا جاتا تھا۔ اور اب ان کے سر سے حجاب اتارنے کا کہا جا رہا ہے۔ فرانس میں ساحلوں پر مسلم عورتوں کے Burkini میں سوئمنگ  کرنے پر پابندی لگا دی تھی۔ تاہم فرانس کی عدالت نے مقامی حکومت کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود پولیس مقامی حکومت کے فیصلے پر عملدرامد کروا رہی ہے۔ اور ساحلوں پر مسلم عورتوں سے Burkini اتارنے کا کہا جاتا ہے۔ اگر فرانس میں دہشت گردی کے واقعات نہیں ہوتے تو شاید یہ صورت کبھی پیدا نہیں ہوتی۔ یہ رسوائی یورپ اور شمالی امریکہ میں بڑی تیزی سے پھیلتے ہوۓ اسلام کے لئے اسلامی دہشت گردی لائی ہے۔ اس اسلامی دہشت گردی نے اسلام کے تیزی سے پھیلنے پر جیسے Brake لگا دی ہے۔
     یہ 90 کی دہائی میں نواز شریف حکومت کے آخری دور سے قبل وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے دور کی بات ہے۔ کراچی میں شیعہ سنی فسادات ہو رہے تھے۔ رضویہ کالونی میں شیعاؤں کے امام باڑے کو آگ لگا دی تھی۔ کئی عورتیں اور بچے اس میں ہلاک ہو گیے تھے۔ یہ بڑی تکلیف کی خبر تھی۔ مارچ کا مہینہ تھا۔ یہاں خاصی سردی تھی۔ میرے ذہن میں اچانک یہ آ یا کہ مسجد میں عشا کی نماز پڑھ لوں۔ پاکستان میں مولویوں کے لئے دعا کی جاۓ کہ جس نے ان کی عقلوں پردے ڈال دئیے ہیں۔ اللہ ان کی عقلوں سے یہ پردے ہٹا دے۔ اتوار کی شام تھی۔ امریکہ میں ہر جمعہ چاند رات ہوتا ہے۔ اور ہر اتوار یوم عاشور ہوتا ہے۔ لوگوں کو دوسرے دن کاموں پر جانا ہوتا ہے۔ اس لئے مارکیٹ وغیرہ جلد بند ہو جاتے ہیں۔ اور سناٹا ہو جاتا ہے۔ میں اسلامک سینٹر پہنچا اس کے ساتھ ہی مسجد تھی۔ مسجد کی پار کنگ بھری ہوئی تھی۔ عام طور پر اتوار کو عشا کی نماز میں اتنے لوگ نہیں ہوتے ہیں۔ میں مسجد میں داخل ہوا تو ہر طرف ٹخنوں سے اونچی شلوار لمبے کرتوں اورسر پر پگڑیوں میں خاصی بڑی تعداد میں لوگ تھے۔ میں نے انہیں پہچان لیا تھا  یہ تبلیغی جماعت کے لوگ تھے۔ اور یہ پاکستان سے تھے۔ میں نے ان سے بچنے کے لئے مسجد کے ایک کونے میں عشا کی نماز پڑھنا شروع کر دی۔ آخری نفل پڑھ رہا تھا کہ عشا کی اذان ہونے لگی تھی۔ خیر میں نے نماز پڑھ لی تھی۔ اور مسجد سے نکلنے کی طرف بڑھ رہا تھا کہ تبلیغی جماعت کے لوگوں نے مجھے گھیر لیا سلام کے بعد ان میں سے ایک نے پوچھا کہ میرا تعلق کہاں سے ہے۔ میں نے بتایا پاکستان سے ہے۔ انہوں نے کہا ہم بھی پاکستان سے ہیں۔ اور تبلیغی دورے پر ہیں۔ آئیں بیٹھیں میں ان کے ساتھ بیٹھ گیا۔ تبلیغی جماعت کے دوسرے لوگ بھی میرے گرد گھیرا بنا کر بیٹھ گیے تھے۔ انہوں نے اپنے تبلیغی دورے کے بارے میں مجھے  بتایا کہ وہ امریکہ میں کتنی ریاستوں میں گیے تھے۔ اور اب کہاں جائیں گے۔ میں خاموشی سے سنتا رہا۔ میں ان کی باتیں سن رہا تھا۔ لیکن میرے ذہن میں رضویہ کالونی میں شیعاؤں کا امام باڑہ جل رہا تھا۔ پھر میں نے ان سے کہا جناب آپ اتنی دور سے یہاں تبلیغ کرنے آۓ ہیں۔ آپ کے گھر میں آگ لگی ہوئی ہے۔ شیعہ سنی فسادات ہو رہے ہیں۔ امام باڑوں کو آگ لگائی جا رہی ہے۔ مسجدیں جل رہی ہیں۔ عورتیں اور بچے ہلاک ہو رہے ہیں۔ جب گھر کے حالات اچھے ہوں گے تو آپ بھی بیرون ملک تبلیغ کرتے اچھے لگے گے۔ یہاں مسلمان بہت اچھے ہیں۔ آپ اس شاندار مسجد میں بیٹھے ہیں۔ قریب ہی گرجا بھی ہے۔ یہ عیسا ئیوں کی بستی ہے۔ لیکن کوئی مسجد کو نقصان نہیں پہنچا رہا ہے۔ کوئی مسجد میں پتھر نہیں پھینک رہا ہے۔ میری یہ باتیں انہیں اچھی نہیں لگ رہی تھیں۔ ان میں سے ایک نے کہا یہاں ہم جہاں بھی گۓ ہیں مسلمان بالکل خوش نہیں ہیں۔ میں نے کہا یہاں مسلمان شاید پاکستان کے حالات سے خوش نہیں ہیں۔ اتنی دیر میں عشا کی جماعت کی تکبیر شروع ہو گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ساتھ کھانا کھائیں میں نے معذرت کی مجھے جانا تھا۔ ان کا تعلق کراچی میں مکی مسجد سے تھا۔ اور سب سے زیادہ فسادات کا گھڑ بھی کراچی بنا ہوا تھا۔           

        

Friday, August 26, 2016

Donald Trump Wants To Bar Muslims From Entering The United States, But Why Not Bar The American Weapons Entering Those Parts Of The World Where Terrorism Breeds?

Donald Trump Wants To Bar Muslims From Entering The United States, But Why Not Bar The American Weapons Entering Those Parts Of The World Where Terrorism Breeds?     

مجیب خان
Trump vows to form a new partnership with Israel, Egypt and Jordan to try to stop the spread of terrorism, including groups such as Hamas and Hezbollah

     امریکہ کے صدارتی انتخابات میں 74 دن رہے گیے ہیں۔ ری پبلیکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ بعض اہم پالیسی ایشو پر اپنی پوزیشن بدلتے جا رہے ہیں۔ اور با ظاہر یہ نظر آ رہا ہے کہ اہم خارجہ پالیسی امور پر ڈونالڈ ٹرمپ امریکہ کی خارجہ پالیسی اسٹبلشمنٹ کے قریب ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسلامی دہشت گردی کے خلاف جنگ کی باتیں بھی کر رہے ہیں۔ جبکہ ڈیمو کریٹک پارٹی کی صدارتی امیدوار ہلری کلنٹن اس پر اپنا موقف واضح کرنے سے گریز کر رہی ہیں۔ لیکن عام تاثر یہ ہے کہ ہلری کلنٹن انتظامیہ میں بھی جارج بش اور برا ک اوبامہ انتظامیہ کی افغان، عراق اور اسلامی دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھنے کی پالیسی میں تسلسل رہے گا۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے Ohio یونیورسٹی میں اپنے خطاب میں کہا ہے کہ "جس طرح ہم نے کمیونزم کی برائیوں کو بے نقاب کیا تھا۔ اور فری مارکیٹ کی خوبیوں سے سرد جنگ جیتی تھی۔ اسی طرح ہمیں ریڈیکل اسلام کی آئیڈیا لوجی کو بھی لینا ہو گا۔" اور میں اس پر بش انتظامیہ کے دور سے لکھ رہا تھا کہ دہشت گردی کو ایک نظریاتی جنگ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جو سرد جنگ کا متبادل ہو گی۔ صدر بش کے نائب صدر ڈک چینی نے اپنی سیاسی زندگی میں شاید یہ سچ کہا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ 50 سال تک جاری رہے گی۔ اور یہ جنگ اسی سمت میں بڑھ رہی ہے۔ اس وقت میں نے لکھا تھا کہ دہشت گردی کو ختم نہیں بلکہ پھیلایا جاۓ گا۔ صدر پرویز مشرف کو آ گاہ کیا تھا کہ حکمت عملی یہ ہے کہ افغانستان سے دہشت گرد پاکستان میں بھیجے جائیں گے اور پاکستان سے کہا جاۓ گا کہ ان کا خاتمہ کرے۔ اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ لیکن اسلامی دنیا کی قیادتیں جس طرح سرد جنگ میں کمیونزم کی برائیوں کو بے نقاب کرنے والوں کے ہاتھوں میں ان کا کھیل کھیل رہی تھیں۔ بالکل اسی طرح اسلامی دنیا کی قیادتیں اب اسلامی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اسلامی ریڈیکل آ ئیڈیا لوجی کی جنگ میں تبدیل کرنے میں ان کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہیں۔ اور اسلامی دہشت گرد بھی ان کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ القاعدہ کی دہشت گردی کے خلاف جو جنگ شروع ہوئی تھی وہ اب اسلامی ریاست کے خلاف جنگ بن گئی ہے۔ لیکن اس جنگ میں یہ اسلامی ریاستیں ہیں جو ایک ایک کر کے تباہ ہوتی جا رہی ہیں۔
    افغانستان تباہ ہو چکا ہے۔ پاکستان تباہی کے کنارے پر پہنچ گیا ہے۔ عراق تباہ ہو گیا ہے۔ شام کھنڈرات بن گیا ہے۔ لیبیا بھی تباہ ہو گیا ہے۔ یمن تباہ ہو رہا ہے۔ صومالیہ تباہ و برباد ہے۔ اور اب ترکی عدم و استحکام ہوتا جا رہا ہے۔ ان ملکوں کے شہری امریکہ یا مغرب  کے خلاف دہشت گردی میں ملوث نہیں تھے۔ نائن ایلون کو امریکہ پر حملہ کرنے والوں میں جیسا کہ یہ بتایا گیا تھا کہ 15 سعودی شہری تھے۔ لیکن اوبامہ انتظامیہ سعود یوں کے ساتھ  شام کو تباہ کرنے کی مہم میں شامل ہو گئی ہے۔ اسی طرح لیبیا میں قدافی حکومت نے نائن ایلون کے بعد بش انتظامیہ سے  دہشت گردوں کے خلاف مہم میں مکمل تعاون کیا تھا اور امریکہ کی مدد کی تھی۔ لیکن پھر اوبامہ انتظامیہ نے قدافی کو اقتدار سے ہٹا کر ان اسلامی انتہا پسندوں کے آ گے پھینک دیا تھا جن کے خلاف صدر قدافی نے بش انتظامیہ سے تعاون کیا تھا۔ اور یہ اسلامی انتہا پسند قدافی پر بھوکے شیروں کی طرح ٹوٹ پڑے تھے۔ اور اب یہ سمجھ میں آتا ہے کہ صدام حسین اور معمر قدافی کو اقتدار سے ہٹانا کیوں ضروری ہو گیا تھا؟ کیونکہ اسلامی ریاست ان لیڈروں کی موجودگی میں کبھی وجود میں نہیں آ سکتی تھی۔ یہ لیڈر دہشت گردوں کا خاتمہ کرنا جانتے تھے۔ لیکن بش اور اوبامہ انتظامیہ نے ان عرب لیڈروں کے ساتھ  کام کرنے کو ترجیح دی تھی جو دہشت گردوں کو جنم دیتے اور ان کی پرورش کرتے تھے۔ افغانستان میں پسپا ہونے کے بعد اسلامی انتہا پسند عرب سر زمین پر دوبارہ منظم ہونے کے مواقع دیکھ رہے تھے۔ اور یہ مواقع انہیں پہلے عراق میں پھر لیبیا میں اور اس کے بعد شام میں فراہم کیے گیے تھے۔ حالانکہ اسلامی دہشت گردی جو دم توڑ رہی تھی اسے امریکہ اور نیٹو کی فوجی مہم جوئیوں کے نتیجہ میں ایک نئی زندگی مل گئی تھی۔ نائن ایلون کے بعد جن اسلامی ملکوں اور حکومتوں نے اسلامی دہشت گردی کا خاتمہ کرنے میں جو تعاون کیا تھا۔ ان کی محنت، وسائل اور کوششیں سب رائگاں ہو گئی تھیں۔
    امریکہ شام میں حکومت کے “Rebels” کے نام سے انہیں حکومت کے خلاف جہاد کی تر بیت دے رہا تھا۔ یہ سرد جنگ میں افغان جہاد کی کاربن کاپی تھا۔ ترکی اس جہاد میں پاکستان کا رول ادا کر رہا تھا۔ سعودی عرب اور خلیج کی ریاستیں اس جہاد میں فنڈنگ کر رہے تھے۔ سی آئی اے جہادیوں کو Rebel  بننے کی تر بیت دے رہی تھی۔ اور ہتھیار امریکہ سے آ رہے تھے۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ یہ Rebels بھی شام کے شہری نہیں تھے۔ ان میں ایک بڑی تعداد اسلامی انتہا پسندوں کی تھی جو دوسرے عرب ملکوں سے یہاں Rebels بننے کے شوق میں آۓ تھے۔ اردن میں امریکہ کے تربیتی کیمپوں میں تربیت لینے کے بعد ان میں سے کچھ عراق میں حکومت کے خلاف Rebels بن گیے تھے۔ کچھ داعش کے ساتھ مل کر دنیا کے خلاف Rebels بن گیے تھے۔  اور کچھ لیبیا چلے گیے تھے۔ جہاں انہوں نے اپنی اسلامی ریاست قائم کر لی تھی۔ ادھر غریب یمنیوں کو سعودی عرب اور خلیج کے ملکوں کے آ گے کر دیا گیا تھا۔ جنہوں نے امریکہ سے جو ہتھیار خریدے تھے۔ ان کو استعمال کر کے  15 ماہ میں تقریباً چار ہزار بے گناہ یمنی شہری ہلاک کر دئیے تھے۔ یہ یمن کے خلاف امریکی ہتھیاروں سے سعودی عرب کی ننگی جا حا ریت تھی۔ یمن نے سعودی عرب پر حملہ نہیں کیا تھا۔ یمنی سعودی عرب میں دہشت گردی بھی نہیں کر رہے تھے۔ یمن میں حکومت کا انتخاب ان کا داخلی مسئلہ تھا۔ سعودی عرب اور خلیج کے ملکوں کو اس میں مداخلت کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ جنگیں امریکی ہتھیارو ں کی ایک بڑی مارکیٹ بن گئی ہیں۔ کھربوں ڈالر کے ہتھیار ان جنگوں میں فروخت ہو رہے ہیں۔ ان جنگوں کے نتیجے میں امریکہ کے معاشی حالات بھی بہت بہتر ہو گیے ہیں۔
     صنعتی Productivity امریکہ سے چین اور دوسرے ملکوں میں منتقل ہو جانے سے جو خلا یہاں پیدا ہو گیا تھا۔ اس کی جگہ ہتھیاروں کی Productivity نے لے لی ہے۔ اور اسلامی دہشت گردی کے خلاف جنگ ان ہتھیاروں کے لئے ایک بڑی مارکیٹ ہے۔ نائن الیون  کے بعد سے تقریباً  نصف ٹیریلین ڈالر کے ہتھیار اس جنگ میں فروخت کیے گیے ہیں۔ عراق میں صدام حسین کا اقتدار ختم کرنے کے بعد عراق کو ایک ایسا نظام دیا گیا ہے۔ جس میں عراق ہمیشہ حالت جنگ میں رہے گا۔ اور امریکہ عراق کو کھربوں ڈالر کے ہتھیار فروخت کرتا رہے گا۔ عراقی ان ہتھیاروں سے اسی طرح مرتے رہیں گے۔ ان میں سے کچھ ہتھیار داعش کو منتقل ہوتے رہیں گے۔ اور باقی ہتھیاروں سے عراقی حکومت داعش سے لڑتی رہے گی۔ عراق میں اس نظام جنگ کے 13 سال ہو گیے ہیں۔ اور ان 13 سالوں میں امریکہ نے عراقی حکومت کو کھربوں ڈالر کے ہتھیار فروخت کیے ہیں۔
    افغانستان میں امریکہ اور نیٹو نے اپنے جو ہتھیار افغان سیکورٹی فورس کو دئیے تھے۔ وہ ہتھیار طالبان کے قبضہ میں آ گیے تھے۔ اور ان ہتھیاروں سے طالبان نے اب نصف سے زیادہ افغانستان پر قبضہ کر لیا ہے۔ لہذا اوبامہ انتظامیہ نے اب افغان حکومت کو 60 ملین ڈالر کے ہتھیار فروخت کرنے کا اعلان کیا ہے۔ 60 ملین ڈالر کے ان ہتھیاروں میں سے 30 ملین ڈالر کے ہتھیار طالبان کے ہاتھوں میں پہنچ جائیں گے۔ اور نئی امریکی انتظامیہ میں بھی یہ جنگ اسی طرح جاری رہے گی۔ 2002 اور 2003 میں پاکستان کی حکومت جب بھی طالبان سے مذاکرات کرنے کا کہتی تھی۔ بش انتظامیہ کی طرف سے یہ کہا جاتا تھا کہ طالبان سے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے۔ ان کا مکمل خاتمہ ہونے تک جنگ جاری رہے گی۔ اور اب 16 سال بعد یہ سمجھ میں آ رہا ہے کہ طالبان کا خاتمہ ہونے تک جنگ پر آخر اتنا زور کیوں تھا؟ کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ طالبان کا کبھی خاتمہ نہیں ہو گا۔ اور جنگ کبھی ختم نہیں ہو گی۔ لیکن ہتھیاروں کی انڈسٹری کے لئے یہ جنگ “Bonanza”  ہو گی۔
    اوبامہ انتظامیہ نے گزشتہ ہفتہ سعودی عرب کو 1.5 بلین ڈالر کے مزید ہتھیار فروخت کرنے کا اعلان کیا  ہے۔ سعودی عرب کے علاوہ کویت قطر اور بحرین  کو 8 بلین ڈالر کے فائٹرجٹ فروخت کرنے  کا اعلان بھی کیا ہے۔ جبکہ مصر کے فوجی ڈکٹیٹر کو جس نے جیلوں میں نظر بند 900 سیاسی مخالفین کو پھانسیاں دینے کا اعلان کیا ہے۔ اسے بھی اوبامہ انتظامیہ نے 1.3 بلین ڈالر کے ہتھیار دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ پانچ سال سے شام کی خانہ جنگی میں امریکہ نے لاکھوں ڈالر کے ہتھیار مہیا کیے ہیں جن کی فنڈنگ سعودی عرب اور خلیج کی حکومتوں نے کی ہے۔ کھربوں ڈالر اسلامی دنیا میں صرف انسانیت کو نیست و نابود کرنے میں خرچ  کیے جا رہے ہیں۔
    ڈونالڈ ٹرمپ نے اب یہ عہد کیا ہے کہ وہ صدر منتخب ہونے کے بعد اسرائیل مصر اور اردن کے ساتھ ایک نیا اتحاد بنائیں گے۔ جو دہشت گردی کو پھیلنے سے روکنے کی کوشش کرے گا۔ اور حماس اور حزب اللہ جیسے گروپ بھی شامل ہوں گے۔ اس سے قبل ڈونالڈ ٹرمپ نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ مسلمانوں کے امریکہ میں داخل ہونے پر پابندی لگا دیں گے۔ لیکن اب انہوں نے اپنے اس موقف کو بدل دیا ہے اور ان کا نیا موقف اب یہ ہے کہ دنیا کے ان خطوں میں جہاں دہشت گردوں کی پرورش ہو رہی ہے۔ ان خطوں سے مسلمانوں کے امریکہ میں داخل ہونے پر پابندی ہو گی۔ لیکن دہشت گردی ختم کرنے میں سب سے اہم بات ہے جو ڈونالڈ ٹرمپ نہیں کر رہے ہیں کہ دنیا کے جن خطوں میں دہشت گردوں کی پرورش ہو رہی ہے۔ ان خطوں میں امریکی میڈ ہتھیاروں کے داخل ہونے پر وہ پابندی لگا دیں گے؟       

                                  

Sunday, August 21, 2016

Mr. Modi, Baluchistan Is Not Occupied Kashmir

    
Mr. Modi, Baluchistan Is Not Occupied Kashmir

مجیب خان





     بھارت کی یوم آزادی کے موقعہ پر وزیر اعظم نریند ر مودی کے خطاب کا اہم پیراگراف جو پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں بلوچوں کے ساتھ ذیاتیوں اور ان کے حقوق پامال ہونے کے بارے میں تھا۔ دنیا کو اس پر خاصی حیرت ہوئی تھی۔ اہم عالمی اخبارات کی یہ نمایاں سرخی بھی تھی۔ وزیر اعظم کے خطاب کا یہ حصہ بعض کے لئے معنی خیز تھا۔ جبکہ بعض کے لئے مضحکہ خیز تھا۔ وزیر اعظم مودی کے اس خطاب سے صرف چند روز قبل کوئٹہ میں جو بلوچستان صوبہ کا دارالحکومت ہے، دہشت گردی کا خوفناک واقعہ ہوا تھا۔ جس میں 70 سے زیادہ لوگ مارے گیے تھے۔ 100 کے قریب لوگ زخمی ہو گیے تھے۔ اس دہشت گردی پر حکومت پاکستان کے اداروں کی انگلیاں بھارت کی طرف گئی تھیں۔ جس پر بلوچستان کے پشتون رہنما محمود خان اچکزئی اور پختون خواہ صوبہ کے رہنما مولانا فضل الرحمن نے بھارت کی ایجنسیوں کو الزام دینے کے بجاۓ اپنی ایجنسیوں کی ناکامی پر شدید تنقید کی تھی۔ اور انہیں دہشت گردوں کو پکڑنے میں ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرایا  تھا۔ جبکہ پاکستان ایک عرصہ سے بلوچستان میں بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی سرگرمیوں کے بارے میں ثبوت عالمی برادری کو دے رہا تھا۔ لیکن امریکہ اور نیٹو اپنے اتحادی پاکستان کی سننے کے بجاۓ بھارت کے ساتھ تعاون کر رہے تھے۔ اس لئے افغانستان میں ان کی شکست میں ان کا اپنا رول بھی ہے۔ اور اب وزیر اعظم مودی نے بھارت کے یوم آزادی کے پر بلوچستان کے علیحدگی پسند دہشت گردوں کے ساتھ بھارت کی ہمدردی کا اظہار کر کے بلوچستان میں بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی سرگرمیوں کے پاکستانی دعووں کو دنیا کے سامنے درست ثابت کر دیا ہے۔ تاہم وزیر اعظم مودی نے کشمیری عوام کے خلاف بھارتی فوج کے آپریشن کا کوئی ذکر نہیں کیا تھا۔ وزیر اعظم مودی اس وقت بڑی مشکل میں ہیں۔ گجرات میں ہندو مسلم فسادات ان کے دور میں ہوا تھا اور اب ان کی حکومت میں بھارتی فوج کشمیریوں کے خلاف بھر پور طاقت کا استعمال کر رہی ہے۔  ایمنسٹی انٹرنیشنل اور انسانی حقوق کی تنظیمیں کشمیریوں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو  خصوصی طور پر نوٹ کر رہی ہیں۔
    اب تک دنیا یہ سمجھ رہی تھی کہ قیادت کا بحران پاکستان میں تھا۔ لیکن وزیر اعظم مودی کے بیان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت میں بھی قیادت کا بحران آ گیا ہے۔ وزیر اعظم مودی نے کیا سوچ کر بلوچستان میں بھارت کی دلچسپی کا اظہار کیا تھا؟ کیا انہوں نے یہ  بیان دینے سے پہلے بھارت کے لئے اس کے دور رس منفی  اثرات کے بارے میں غور کیا تھا؟ بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے باوجود پاکستان نے بڑی حد تک بلوچستان کے مسئلہ پر قابو پا لیا ہے۔ اور بلوچستان میں صوبائی خود مختاری موثر طور پر کام کر رہی ہے۔ لیکن وزیر اعظم مودی کے اس بیان سے Damage بھارت کا ہوا ہے۔ اور بھارتی قیادت میں اس کا احساس ہو ر ہا ہے۔ جب ہی بھارتی حکومت نے Damage control کے لئے جلد ہی پاکستان سے مذاکرات پر آ مادگی ظاہر کر دی ہے۔ بلوچستان میں بھارت کی دلچسپی کے بیان سے بھارت کے دوسرے ہمساۓ بھی ضرور چونک گیے ہوں گے۔ کیونکہ بھارت کی دلچسپی سری لنکا میں بھی ہے۔ بھارت کی دلچسپی نیپال میں بھی ہے۔ بھارت کی دلچسپی بنگلہ دیش میں بھی ہے۔ بھارت دنیا کی ابھرتی طاقت بننے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ وزیر اعظم مودی نے دوسرے ملکوں کے اندرونی معاملات میں بھارت کی دلچسپی کا اعتراف کر کے دراصل پنڈ رہ  باکس کھول دیا ہے۔ بھارت میں اس وقت سو سے زیادہ خود مختاری اور سیاسی حقوق کی تحریکیں ہیں۔ اور اب پاکستان، چین اور بعض دوسرے ملکوں کو بھی بھارت میں علیحدگی پسندوں سے ہمدردی کرنے کا اسی طرح  موقعہ مل گیا ہے کہ جس طرح بھارتی حکومت بلوچ علیحدگی پسندوں سے اپنی یکجہتی کا اظہار کر رہی ہے۔
    بلوچستان کو انتشار میں رکھنے والی قوتوں کی بھارت اگر اس مقصد سے پشت پناہی کر رہا ہے کہ اس سے جین پاکستان Economic Corridor منصوبہ سبوتاژ ہو جاۓ گا تو یہ بھارتی حکومت کی ایک بہت بڑی غلط فہمی ہو گی۔ اور یہ بھارتی عزائم بھارت کے لئے Backfire ہوں گے۔ اس منصوبہ میں پاکستان سے زیادہ چین کے اقتصادی مفادات ہیں۔ چین اس منصوبہ میں بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ اور چین اپنی سرمایہ کاری کا ہر قیمت پر دفاع کرے گا۔ چین بھارت کے ساتھ تصادم کے موڈ میں بالکل نہیں ہے۔ چین نے اس منصوبہ میں بھارت کو بھی شامل ہونے کی پیشکش کی ہے۔ چین کا کہنا ہے کہ اقتصادی راہداری منصوبہ بھارت کے مفاد میں بھی۔ اور ان شاہراہوں کے ذریعہ بھارت وسط ایشیا میں اپنی تجارت کو فروغ دے سکتا ہے۔ لیکن بھارتی رہنماؤں کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کا “Mind Set” ہے۔ اور انہیں ہر اچھا مشورہ برا نظر آتا ہے۔ پھر خوف بھی ان کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ یہ پاکستان کے ساتھ تنازعوں کا حل چاہتے ہیں۔ لیکن پھر خوف سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری باجپائی پاکستان کے ساتھ تنازعوں کو حل کرنے کے معاہدے کے بہت قریب آ گیے تھے۔ لیکن پھر اچانک اس سے پیچھے ہٹ گیے تھے۔ انہیں یہ خوف ہو گیا تھا کہ پاکستان کے ساتھ کشمیر کے تنازعہ پر سمجھوتہ کر کے وہ اپنا مہاتما گاندھی جیسا حشر دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔
    پاکستان کا کشمیر پر موقف نیا ہے اور نہ ہی بلوچستان کے سیاسی حالات نئے ہیں۔ پاکستان نے متعدد بار سرکش بلوچ قبائلوں کے خلاف کاروائیاں کی ہیں۔ لیکن بھارت نے کبھی بلوچستان میں مداخلت نہیں کی تھی۔ یہ پاکستان کی افغان پالیسی ہے جس نے بلوچستان میں بھارت کو دلچسپی لینے کے نئے مواقع فراہم کیے ہیں۔ بلوچستان میں بھارتی مداخلت انتہا پسند ہندوؤں کی پالیسی ہے۔ جو پاکستان کی کشمیر پالیسی کا جواب ہے۔  یہ ان کی احمقانہ سوچ ہے۔ کشمیر کا بلوچستان سے کوئی موازنہ نہیں ہے۔ اگر پاکستان خالصتان تحریک کی حمایت کرنے لگے اور پھر بھارت سے یہ کہہ کہ اب وہ بلوچستان میں مداخلت بند کرے تو بھارت کا جواب کیا ہو گا۔ کشمیر کو دونوں ملکوں نے تنازعہ تسلیم کیا ہے۔ اور اقوام متحدہ میں کشمیر ایک تنازعہ کی حیثیت سے رجسڑڈ ہے۔ اور بھارت کشمیر کا تنازعہ حل کرنے کا ذمہ دار ہے۔ اب بھارت اگر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننا چاہتا ہے تو اسے پہلے کشمیر کے تنازعہ کو حل کرنا ہو گا۔ یہ تنازعہ حل کیے بغیر بھارت عالمی اسٹیج پر نہیں آ سکتا ہے۔ بھارت کو پہلے کشمیریوں کو حقوق دینے کا فیصلہ کرنا ہوگا۔
    اب جہاں تک بلوچستان میں بحرانوں کی سیاست کا تعلق ہے۔ یہ بحران دراصل بلوچستان کے سرکش Greedy, Opportunists قبائلی سردار پیدا کرتے تھے۔ جو بلوچستان کے عوام کا استحصال کرتے تھے اور وفاقی حکومت کو بلیک میل کرتے رہتے تھے۔ اور دونوں ہاتھوں سے اپنی جیبیں بھرا کرتے تھے۔ تاہم کچھ  نا انصافیاں  حکومت کی بھی تھیں۔ لیکن بلوچوں کو پسماندہ رکھنے میں قبائلی سرداروں کا ایک بڑا کردار تھا۔ آخر قبائلی سرداروں کے خاندان کیسے اتنے خوشحال تھے۔ ان کی زندگیاں بھی شاہانہ تھیں۔ لیکن ان کے قبیلے میں لوگ بہت غریب تھے۔ ان کے پاس اپنے بچوں کو اسکول میں بھیجنے کے لئے پیسے نہیں ہوتے تھے۔ جبکہ قبائلی سرداروں کے بچے گھومنے پھرنے سوئزرلینڈ جاتے تھے۔ عام بلوچوں کو بلوچستان کی سیاست کو قبائلی سرداروں کے ذہن سے نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ انہیں خود بھی سوچنا چاہیے کہ ان کے ساتھ ان کے اپنے لوگوں نے کیا کیا ہے۔
    پھر سرد جنگ کی سیاست کا بھی بلوچستان کے حالات میں ایک بڑا رول تھا۔ جیسے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی سیاست میں اب بھارت بلوچستان میں اپنا سیاسی رول دیکھ رہا ہے۔ اور بھارت کو بلوچستان میں چین کے اقتصادی منصوبوں پر تشویش ہو رہی ہے۔ اس وقت سرد جنگ میں امریکہ کو یہ تشویش تھی کہ سوویت یونین بلوچستان کے ذریعے خلیج کے گرم پانیوں تک پہنچنا چاہتا تھا۔ اس لئے بھی بلوچوں کے خلاف حکومت کی کاروائیوں میں بڑی طاقتوں کی اس سیاست کا بھی ایک رول تھا۔ لیکن اس کے باوجود حکومت نے سرکش بلوچ قبائلی سرداروں کے ساتھ سمجھوتے بھی کیے تھے۔ اور بلوچستان میں امن رکھنے کی کوشش کی تھی۔
    وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پہلی مرتبہ بلوچستان اور سرحد میں انہیں اپنی صوبائی حکومتیں بنانے کا موقعہ دیا تھا۔ اور انہوں نے صوبے کی حکومت میں جنہیں بھی شامل کیا تھا۔ بھٹو حکومت نے اسے ویٹو نہیں کیا تھا۔ اس سے بڑھ کر اہم بات یہ تھی کہ وزیر اعظم بھٹو نے بلوچ اور پشتون رہنماؤں کو آئین سازی میں تمام اختیارات کے ساتھ شامل کیا تھا۔ اور انہوں نے اقلیتی صوبوں کے لئے جو اختیارات اور حقوق تجویز کیے تھے۔ انہیں آئین میں شامل کیا گیا تھا۔ یہاں بھی وزیر اعظم بھٹو نے اپنی مرضی ان پر مسلط نہیں کی تھی۔ اس لئے بلوچ اور پشتون رہنماؤں نے 1973 کے آئین کو قبول کیا تھا۔ اور اس پر ان رہنماؤں نے دستخط بھی کیے تھے۔ اس طرح صوبوں کے حقوق اور اختیارات کا مسئلہ با خوبی حل ہو گیا تھا۔ بلوچستان اور سرحد میں ان کی حکومتیں کام کر رہی تھیں۔ اور وفاقی حکومت اپنے فرائض انجام دے رہی تھی۔ پھر بلوچستان کے بارے میں سی آئی اے کی رپورٹیں پکنا   (Cook)شروع ہو گئی تھیں۔  اور یہ خبریں دی جا رہی تھیں کہ  بلوچستان میں قوم پرست بلوچوں کی حکومت میں سوویت یونین کا اثر و رسوخ بڑھ رہا تھا۔ اور سی آئی اے کی یہ رپورٹیں امریکہ نے وزیر اعظم بھٹو کو فراہم کی تھیں۔ جس کے بعد پاکستان کی اپنی انٹیلی جنس نے بھی اس کی تحقیقات شروع کر دی تھی۔ اسی اثنا میں شاہ ایران نے بھی جو اس خطہ میں امریکہ کے پولیس مین تھے، وزیر اعظم بھٹو کو اپنی انٹیلی جنس کی یہ رپورٹیں دینا شروع کردی تھیں کہ بلوچستان میں سوویت یونین کا اثرو رسوخ بڑھ رہا تھا۔ اور یہ ایران کی سلامتی کے لئے خطرہ بن رہا تھا۔ امریکہ اور ایران کے اس دباؤ میں وزیر اعظم بھٹو نے بلوچستان اور سرحد میں ان کی حکومتیں ختم کر دی تھیں۔ اور ان کے خلاف فوجی آپریشن ہونے لگا تھا۔ بلوچستان کے بارے میں یہ رپورٹیں جو سی آئی اے  اور شاہ ایران نے پاکستان کو فراہم کی تھیں۔ بالکل ایسی ہی تھیں کہ جیسے بش انتظامیہ اور ٹونی بلیر حکومت نے عراق میں مہلک ہتھیاروں کے بارے میں دنیا کو رپورٹیں فراہم  کی تھیں۔ اور پھران رپورٹوں کی بنیاد پر عراق کی حکومت کو تبدیل کیا تھا۔ حالانکہ جنرل ضیا الحق نے پھر ان بلوچ رہنماؤں کو عام معافی دینے کا اعلان کیا تھا۔ جن کی موجودگی میں بلوچستان میں سوویت یونین کا اثر و رسوخ بڑھ رہا تھا۔ اور یہ سرد جنگ کی سیاست کا ڈرامہ تھا۔ اور اب اسلامی ریاست کے خلاف جنگ کی سیاست بھی سرد جنگ کے سیاسی ڈرامہ سے مختلف نہیں ہے۔                       

       

Monday, August 15, 2016

Seventy Difficult And Challenging Years Of Pakistan’s Independence

Seventy Difficult And Challenging Years Of Pakistan’s Independence

مجیب خان 

“The weak and the defenseless, in this imperfect world, invite aggression from others. The best way in which we can serve the cause of peace is by removing the temptation from the path of those who think that we are weak and, therefore, they can bully or attack us.”    

Muhammad Ali Jinnah, Founder of Pakistan
Jan 23,1948

      
     ہر سال 14 اگست آتا ہے۔ اور ہر سال پاکستان کا جشن آزادی منایا جاتا ہے۔ قیام پاکستان کے اب 70 سال ہو گیے ہیں۔ لیکن پاکستان کے لئے ان 7 دہائیوں کا ایک بڑا حصہ شدید بحرانوں اور سیاسی چیلنجوں میں گزرا ہے۔ اور اس وقت بھی پاکستان اپنی تاریخ کے ایک انتہائی پیچیدہ بحران میں پھنسا ہوا ہے۔ گزشتہ سال کے مقابلے میں اس سال بھی حالات میں کوئی بہت زیادہ تبدیلی نہیں ہے۔ اس وقت بھی پاکستان اپنے بے گناہ شہریوں کی اموات کے سوگ میں ہے۔ صرف چند روز قبل کوئٹہ میں "درندے مسلمان" دہشت گردوں نے 70 بے گناہ شہریوں کی جانیں لے لی ہیں۔ 70 خاندانوں کی دنیا انہوں نے تاریک کر دی ہے۔ لیکن آج تک یہ کسی کی سمجھ میں نہیں آیا ہے کہ آخر یہ کس کے مشن پر بے گناہ مسلمانوں کا قتل کر رہے ہیں۔ بلاشبہ یہ اللہ کا مشن  نہیں ہے۔ انہیں شاید دوزخ بھی قبول نہیں کرے گی۔ یہ قبر کے عذاب میں رہیں گے۔ پاکستان کو جب بھی سیاسی بحرانوں کے نہ ختم ہونے والے نظام میں دیکھتے ہیں۔ تو ذہن میں یہ آنے لگتا ہے کہ انگریزوں نے برصغیر میں اصل آزادی  ہندوؤں کو دی تھی۔ اور برصغیر کے مسلمانوں کو ایک ملک دے دیا تھا لیکن انہیں آزادی نہیں دی تھی۔ اس ملک میں مسلمانوں کو مسلمانوں سے لڑنے کی جیسے آزادی مل گئی تھی۔ مشرقی پاکستان کے مسلمان بنگالیوں نے مغربی حصہ کے مسلمانوں سے لڑ کر علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ مسلم بلوچ بھی مسلمانوں سے لڑ رہے ہیں۔ سندھی اور مہاجر مسلمان 7 دہائیوں سے ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں۔ پھر وفاق کے مسلمانوں سے صوبوں کے مسلمانوں کی محاذ آ رائی بھی تقریباً 7 دہائیوں سے جاری ہے۔ اور اب اسلامی دہشت گردوں کا مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ جو انتہائی سنگدل ہیں اور بڑی بیدردی سے اپنے ہم مذہب مسلمانوں کو قتل کر دیتے ہیں۔ یہ دیکھ کر کٹر ہندو ذہن میں آنے لگتے ہیں جن کے ہاتھوں پر مسلمانوں کے خون کے دھبے ہوتے تھے۔ اور اب ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ کٹر ہندو مسلمانوں کے بھیس میں ان اسلامی تنظیموں میں گھس گیے ہیں۔ اور مسلمانوں کے خلاف اپنے پرانے عزائم پورے کر رہے ہیں۔ اس لئے یہ یقین نہیں آتا ہے کہ یہ سنگدل درندے واقعی مسلمان ہیں۔ کیونکہ مسلمانوں کا اللہ رحمان الرحیم ہے۔ اور وہ اپنے بندوں پر رحم کرتا ہے۔ لہذا مسلمانوں کے لئے اللہ کے بندوں کے ساتھ رحم سے پیش آنا ایسا ہی ہے کہ جیسے کلمہ پڑھ کر مسلمان بننا ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں مذہبی جماعتوں اور ان کے قائدین کا کردار مفاد پرست ہے۔ اور اکثر ان کے منافقانہ ہونے کا تاثر بھی دیتا ہے۔ اگر اسلامی مملکت میں یہ مسلمانوں کو مسلمانوں کا انتہائی بیدردی سے قتل کرنے سے نہیں روک سکتے ہیں تو ان کے مذہبی قائدین ہونے کا پھر مقصد کیا ہے؟
     اور اب سمجھ میں آتا ہے کہ جنرل ایوب خان نے مذہب کی سیاست کرنے والی جماعتوں پر پابندی کیوں لگائی تھی۔ اور مذہب کو سیاست میں داخل نہیں ہونے دیا تھا۔ دس سال پاکستان میں استحکام اور امن رہا تھا۔ پاکستان کی تاریخ میں شاید اس دور میں اتنے زیادہ مذہبی فرقہ وارا نہ فسادات بھی نہیں ہوۓ تھے۔ ایوب خان نے دس سال میں اپنے پیشتر اقتصادی منصوبے بھی مکمل کر لئے تھے۔ صدر جنرل ایوب خان کے زوال کے بعد مذہبی جماعتیں بھی آزاد ہو گئی تھیں۔ اور سیاست میں پھر سے سرگرم ہونے لگی تھیں۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو ایک نئے پاکستان کی تعمیر میں کیونکہ سب کو شامل کرنا چاہتے تھے۔ اس لئے وزیر اعظم بھٹو نے ترقی پسند اور لبرل جماعتوں اور مذہبی جماعتوں کو بھی اپنے اس مشن میں ساتھ رکھا تھا۔ مولانا کوثر نیازی جماعت اسلامی چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں آ گیے تھے۔ اور بھٹو کی کابینہ کے رکن بن گیے تھے۔ بھٹو کی کابینہ کا رکن بن کر مولانا کوثر نیازی نے رجعت پسند مذہبی جماعتوں کی خاصی مدد کی تھی۔ جبکہ ترقی پسند اور لبرل وزیر اعظم بھٹو کی بعض پالیسیوں سے اختلافات کی وجہ سے سائیڈ لائن پر ہوتے جا رہے تھے۔ اور یہ ان کی ایک بہت بڑی غلطی تھی۔ انہیں مولانا کوثر نیازی کو ایک کھلا سیاسی میدان دینے کی بجاۓ انہیں اس میدان میں رہنا چاہیے تھا۔ اور بھٹو پر اپنا مسلسل اثر و رسوخ بڑھاتے رہتے۔ اور انہیں مذہبی جماعتوں کو پھیلنے کا موقعہ بالکل نہیں دینا چاہیے تھا۔ یہ ان کی اس غلطی کا نتیجہ تھا کہ مذہبی جماعتوں نے اس جمہوری نظام کو گرا دیا تھا جو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد پاکستان کو ایک نئی شکل دے رہا تھا۔ مذہبی جماعتیں By Nature فاشسٹ ہوتی ہیں۔ اور انہوں نے جنرل ضیا الحق کی ایک فاشسٹ حکومت کو قبول کر لیا تھا۔
     صدر جنرل ایوب خان نے مذہبی جماعتوں کو سیاست سے جتنا دور رکھا تھا۔ صدر جنرل ضیا الحق اتنا ہی زیادہ مذہبی جماعتوں کی سیاست حکومت کے ہر شعبہ میں لے آۓ تھے۔ ان کا اسلامی نظام بھی جنرل ضیا نے پاکستان میں رائج کر دیا تھا۔ جنرل ضیا الحق کے اس نظام نے اتنے دانشور پیدا نہیں کیے تھے کہ جتنے جہادی پیدا کیے تھے۔ اس نظام نے معاشرے کو اتنا تعلیم یافتہ نہیں بنایا تھا کہ معاشرے کو جتنے جاہل اسلامی دہشت گرد دئیے تھے۔ جنرل ضیا کے دس سال دور اقتدار میں پاکستانی معاشرہ تہس نہس ہو گیا ہے۔ اس کی مہذب اخلاقی اور معاشرتی قدریں ختم ہو گئی ہیں۔ اسلام کی تاریخ میں مسلمانوں نے اسلام کو کبھی اس طرح رسوا نہیں کیا تھا کہ جس طرح آج اسلامی دہشت گرد اسلام کو رسوا کر رہے ہیں۔ اور یہ مذہبی جماعتیں اور ان کے رہنما ہیں۔ جو صرف تماشائی بنے ہوۓ ہیں۔ ان میں سے کسی نے اسلام کے نام پر دہشت گردی کرنے والوں کے خلاف قومی اسمبلی میں قانون تک تجویز نہیں کیا ہے۔ پاکستان کی سیاست میں مذہبی جماعتوں کا کردار ہمیشہ منفی رہا ہے۔ پاکستان کو خوشحال اور مہذب معاشرہ بنانے میں ان جماعتوں نے کیا کیا ہے؟ اور اسلام کے لئے انہوں نے کیا کام کیے ہیں؟ یہ ایک اسلامی پاکستان میں مسلمانوں کو متحد بھی نہیں کر سکے ہیں؟ جماعت اسلامی نے وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹو کو پھانسی دینے پر مٹھائیاں تقسیم کی تھیں۔ لیکن بنگلہ دیش کی حکومت نے جماعت اسلامی کے دو رہنماؤں کو جب پھانسی دی تھی تو جماعت اسلامی نے اس کی مذمت کی تھی اور حکومت سے پاکستان کے سفیر کو ڈھاکہ سے واپس بلانے کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ اس جماعت کا اخلاقی کردار ہے۔ 70 سال ہو گیے ہیں جب ہی تو پاکستان آج اس مقام پر آگیا ہے۔
     پاکستان بڑا خوبصورت اور پیارا ملک تھا۔ ہم بھی اس ملک کی دھرتی کے فرزند تھے۔ اس ملک نے ہمیں تعلیم دی تھی اور ایک اچھا انسان بنایا تھا۔ لیکن اس ملک کے ایسے برے حالات کبھی نہیں دیکھے تھے۔ اس ملک میں بڑے بڑے بحران بھی دیکھے تھے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا بحران بھی آیا تھا۔ اور پاکستان اس سے بھی گزر گیا تھا۔ لیکن یہ دہشت گردی کا بحران جیسے پاکستان کا پیچھا نہیں چھوڑ رہا ہے۔ کراچی کے حالات پاکستان کے حالات سے بھی زیادہ خوفناک ہیں۔ اور 25 سال ہو گیے ہیں۔ ہم جب اپنے دور کے کراچی کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اب وہ انگریزوں کا دور نظر آتا ہے۔ کراچی یونیورسٹی میں ہم نے بھٹو صاحب کو پھانسی دینے کے خلاف مہم کے سلسلے میں ایک گروپ تشکیل دیا تھا جس میں کچھ پروفیسر بھی ہمارے ساتھ شامل تھے۔ جیسے جیسے بھٹو کا قتل کا کیس آگے بڑھ رہا تھا ہم بھی اتنے ہی سرگرم ہوتے جا رہے تھے۔ ہمارا اکثر 70 کلفٹن جانا رہتا تھا۔ بیگم صاحبہ جب کراچی میں ہوتی تھیں تو ان سے 70 کلفٹن میں ملنے جایا کرتے تھے۔ اور جب بیگم صاحبہ نظر بند ہوتی تھیں۔ اور بے نظیر بھٹو 70 کلفٹن میں ہوتی تھیں تو پھر ان سے ملاقات رہتی تھی۔ بے نظیر بھٹو ہم سے ہمیشہ آخر میں ملاقات کرتی تھیں۔ اندرون سندھ  وغیرہ سے آنے والوں کا ہجوم ہوتا تھا۔ بے نظیر بھٹو پہلے ان سے ملتی تھیں۔ اور پھر شام 9 بجے کے بعد 70 کلفٹن کے لان پر ہم سے ملاقات کرتی تھیں۔ ان کے ساتھ صنم بھٹو بھی ہوتی تھیں۔ بے نظیر بھٹو جیل میں بھٹو صاحب سے اپنی ملاقات کے بارے میں  ہمیں بتاتی تھیں۔ جنرل ضیا ملک میں جن پالیسیوں کو فروغ دے تھے اس پر گفتگو ہوتی تھی۔ دس ساڑھے دس بجے ہم 70 کلفٹن سے جاتے تھے۔ 70 کلفٹن کے باہر سی آئی ڈی ہوتی تھی۔ لیکن کسی نے ہمیں کبھی تنگ نہیں کیا تھا۔ 70 کلفٹن سے ہم پھر کراچی پریس کلب آتے تھے۔ اور بے نظیر بھٹو سے ملاقات کی پریس ریلیز بنا کر مساوات اور جنگ کے نمائندوں کو دے دیتے تھے۔ اب اس دور کو ہم جب موجودہ حالات میں صرف تصور کرتے ہیں۔ تو خوف آنے لگتا ہے کہ 70 کلفٹن سے اس طرح نکل کر جانے کے بعد موٹر سائیکل سوار ہمارا تعاقب کرتے اور ہمیں گولیاں مار دیتے۔ اور ہم زمین میں ہوتے۔ حالانکہ اس وقت بھی حالات اتنے اچھے نہیں تھے لیکن انسانیت پھر بھی تھی۔ وزیر اعظم بھٹو صاحب سے بھی ہماری آخری ملاقات 70 کلفٹن میں ہوئی تھی۔ جب بھٹو صاحب مری سے رہا ہونے کے بعد کراچی آۓ تھے۔ 70 کلفٹن پر بڑا ہجوم تھا۔ 70 کلفٹن پر اسٹاف نے ہمیں پہچان لیا تھا۔ اور ہماری بھٹو صاحب سے مختصر ملاقات کرا دی تھی۔ بھٹو صاحب حالات سے مایوس نظر آ رہے تھے۔ بھٹو صاحب نے کہا کہ یہ مجھے مقدموں میں ملوث کریں گے۔ یہ بڑی طویل لڑائی ہو گی۔ آپ لوگ جمہوریت کے لئے  جد و جہد  جاری رکھیں۔ اسی رات بھٹو صاحب کو 70 کلفٹن سے احمد رضا قصوری کے قتل کے کیس میں حراست میں لے لیا گیا تھا ۔ اور لاہور میں کوٹ لکھ پت جیل میں نظر بند کر دیا تھا۔
     پاکستان کی 70 سال کی تاریخ کا یہ سب سے سیاہ باب ہے۔ جس نے پاکستان سے روشنیاں چھین لی ہیں۔ اور پاکستان کو تاریکیوں میں چھوڑ دیا ہے۔ پاکستان کو واپس روشنیوں میں لانے کی جد و جہد واقعی بڑی طویل ہے۔ معاشرے کی تعمیر کرنے میں دہائیاں لگ جاتی ہیں۔ لیکن معاشرے کو بگاڑنے میں صرف سال لگتے ہیں۔ یہ پاکستان کے قیام کے 70 سال ہیں۔            


             

Friday, August 12, 2016

Why Is The Republican Party Going After One Woman?

Why Is The Republican Party Going After One Woman?    

Benghazi And The Private E-mail Server Are Not As Damaging For National Security As The Preemptive Attack On Iraq Was For Americans

مجیب خان
Secretary Hillary Clinton

Condoleezza Rice Met Muammar Gadaffi

     کانگرس کی مختلف کمیٹیوں کے با اثر ری پبلیکن اراکین بن غازی میں امریکی کونسلیٹ پر حملہ میں امریکی سفیر اور ان کے ساتھ چار دوسرے امریکیوں کی ہلاکتوں کے سوال پر ہلری کلنٹن کو جو اس وقت سیکرٹیری آف اسٹیٹ تھیں تقریباً چار سال سے Beat رہے ہیں۔ اور ہلری کلنٹن کو ان امریکیوں کی ہلاکتوں کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں کہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے انہیں مناسب سیکورٹی فراہم نہیں کی تھی۔ پھر گزشتہ سال مارچ میں یہ انکشاف ہوا کہ ہلری کلنٹن نے سیکرٹیری آف اسٹیٹ کی حیثیت سے اپنے نجی ای میل Server کو سرکاری گوش گزار کے لئے استعمال کیا تھا۔ جبکہ انہیں اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے سرکاری ای میل اکاؤٹنس کو استعمال کرنا چاہیے تھا۔ جنہیں وفاقی Servers زیادہ  محفوظ رکھتے ہیں۔ اور یہ گوش گزا رات  خفیہ ہوتی ہیں۔ یہ انکشاف ری پبلیکن اراکین کانگرس کے لئے جیسے نیوکلیر دھماکہ تھا۔ بعض اراکین کانگرس کا کہنا تھا کہ اس سے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے پروٹوکول اور Procedures کی خلاف ورزی ہوئی تھی۔ اور اس کے ساتھ ریکارڈ رکھنے میں وفاقی قوانین اور ریگولیشن کی بھی خلاف ورزی ہوئی تھی۔ تاہم سیکرٹیری ہلری کلنٹن کا کہنا تھا کہ ان کا نجی ای میل کا استعمال وفاقی قوانین اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ریگولیشن کے مطابق تھا۔ اور سابق سیکرٹیریوں کے بھی نجی ای میل اکاؤٹنس تھے۔ یہ نیا ا سکینڈل اب ری پبلیکن پارٹی کے ہاتھ آگیا تھا۔ انہیں اس ا سکینڈل میں بھی بن غازی Debacle کی خوشبو آ رہی تھی۔ ہلری کلنٹن کو کانگرس کے ری پبلیکن اراکین نے اس ا سکینڈل پر بھی Grill کرنا شروع کر دیا تھا۔ ہلری کلنٹن کو کانگرس اور سینٹ کی فارن ریلیشنز کمیٹیوں کے سامنے پیش ہونے کا کہا گیا تھا۔ جہاں ان پر بڑے ترش انداز میں سوالوں کی بو چھار کر دی تھی۔ جبکہ ہلری کلنٹن ڈیمو کریٹک پارٹی کی فرنٹ رنر اور ایک Formidable صدارتی امیدوار تھیں۔ ہلری کلنٹن کے نجی معاونین کو بھی ان کمیٹیوں کے سامنے پیش ہونے کے سمن جاری کیے گیے تھے۔ کئی سال تک کانگرس کی کمیٹی نے اس کی تحقیقات کروائی تھی۔ جس پر تقریباً 7 ملین ڈالر خرچ ہوۓ تھے۔ لیکن اس تحقیقات کے باوجود انہیں ایسے شواہد نہیں ملے تھے کہ جن سے وفاقی قوانین کی خلاف ورزی ہوئی تھی اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچا تھا۔
    لیکن اس کے با وجود ری پبلیکن پارٹی ہلری کلنٹن کو الزام دینے سے پیچھے نہیں ہٹ رہی ہے۔ اور بن غازی میں امریکی کونسلیٹ پر حملہ میں امریکی سفیر اور چار دوسرے امریکیوں کی ہلاکت میں سیکرٹیری ہلری کلنٹن کو ان کی سیکورٹی میں کوتاہی برتنے کا الزام دینے کا سلسلہ جاری ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ہلری کو جیل میں ہونا چاہیے تھا۔ حالانکہ جہاں تک بن غازی میں امریکی کونسلیٹ پر حملہ میں امریکی سفیر اور چار دوسرے امریکیوں کے ہلاک ہونے کا سوال تھا۔ اس میں کچھ کوتاہی ان کی اپنی بھی تھی۔ لیبیا میں خانہ جنگی ہو رہی تھی۔ امریکہ برطانیہ اور فرانس نے قدافی کو اقتدار سے ہٹا کر القاعدہ اور دوسرے اسلامی دہشت گرد گروپوں کو لیبیا میں Unleash کیا تھا۔ اور یہ لیبیا میں ہر طرف دندناتے پھر رہے تھے۔ ایسے حالات میں سفیر کو خاص طور پر محتاط ہونا چاہیے تھا۔ اور اپنے سفارتی عملہ کو بھی محتاط رہنے کی ہدایت کرنا چاہیے تھی۔ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور لیبیا میں امریکی سفارت کاروں کو شاید یہ غلط فہمی تھی کہ امریکہ نے لیبیا میں قدافی حکومت تبدیل کرنے میں باغیوں کی مدد کی ہے۔ اس لئے لیبیا میں اب سب امریکہ کے ممنون دوست ہیں۔ جبکہ ایسا نہیں تھا۔ حالانکہ ان کے سامنے عراق کی مثال بھی تھی۔ جہاں یہ کہا گیا تھا کہ امریکی فوجیں جب بغداد میں داخل ہوں گی تو ان کا پھولوں سے استقبال کیا جاۓ گا۔ لیکن صدام حسین کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد عراقیوں نے امریکی فوج پر حملوں سے ان کا استقبال کیا تھا۔ اس وقت یہ کوتاہی کیا کمانڈر انچیف جارج بش کی تھی جنہوں نے عراق میں فوجیوں کو مناسب سیکورٹی فراہم نہیں کی تھی؟
    ری پبلیکن پارٹی کے لئے بن غازی اور ہلری کلنٹن کا نجی ای میل کا استعمال عراق سے بھی بڑا ا سکینڈل بن گیے تھے۔ بن غازی میں صرف پانچ امریکی ہلاک ہوۓ تھے۔ لیکن بغداد میں چار ہزار امریکی فوجی ہلاک ہوۓ تھے۔ اور امریکہ کی سلامتی کے ایک خطرہ کو ختم کرنے کے بعد ایک درجن نئے خطرے پیدا ہو گیے تھے۔ عراق میں مہلک ہتھیاروں کے بارے میں امریکی عوام سے غلط بیانی کی گئی تھی۔ اور بڑھ چڑھ کر جھوٹ بولا گیا تھا۔ اس مہم کی CheerLeader قومی سلامتی امور کی مشیر کانڈو لیزا رائس تھیں۔ جنہوں نے ایک انتہائی احساس اور اہم مسئلہ پر غیر ذمہ دار ہونے کا ثبوت دیا تھا۔ اور عراق میں مہلک ہتھیاروں کے بارے میں انتظامیہ کا کیس جھوٹ پر تیار کیا تھا۔ اور اس پر خود کوئی ھوم ورک نہیں کیا تھا۔ کانڈو لیزا رائس صدر بش کی قومی امور کے بارے میں سلامتی کی مشیر تھیں۔ اور صدر بش کو وہ جو بھی مشورے دیتی تھیں ان کا تعلق براہ راست قوم کی سلامتی پر اچھے یا برے اثرات سے تھا۔ نائن الیون کے دوسرے دن بھی امریکہ کا امیج برقرار تھا اور دنیا امریکہ کی پشت پر کھڑی تھی۔ لیکن عراق پر امریکہ کے Preemptive attack  کے دوسرے دن دنیا میں امریکہ کا امیج بری طرح Tarnish ہوا تھا۔ عراق پر Preemptive attack نے امریکہ کو کمزور کیا تھا۔ لیکن ری پبلیکن پارٹی کی نظر میں عراق میں مہلک ہتھیاروں کے بارے میں جو جھوٹ بولا گیا تھا وہ اتنا بڑا ا سکینڈل نہیں تھا۔ لیکن بن غازی میں امریکی سفارت کاروں کو سیکورٹی فراہم کرنے میں سیکرٹیری ہلری کلنٹن کی کوتاہی ایک بڑا ا سکینڈل بن گیا تھا۔
    بش انتظامیہ کے اعلی حکام کو ری پبلیکن پارٹی کے اراکین کانگرس نے کانگرس کی مختلف کمیٹیوں کے سامنے اس طرح Grill نہیں کیا تھا۔ کانگرس نے عراق Debacle پر کوئی تحقیقات بھی نہیں کی تھی۔ کہ یہ جھوٹ کیوں بولا گیا تھا۔ اور جنہوں نے جھوٹ بولا تھا ان کے خلاف کوئی کاروائی بھی نہیں کی گئی تھی۔ کانگرس کی کسی کمیٹی کے سامنے قومی سلامتی امور کی مشیر کانڈو لیزا رائس کو اس طرح Grill نہیں کیا گیا تھا کہ جس طرح سیکرٹیری  کلنٹن کو Grill کیا جا رہا تھا۔ کانڈو لیزا رائس کی سیکرٹیری آف اسٹیٹ کی تقرری پر کانگرس کی فارن ریلیشنز کمیٹی کے کسی ری پبلیکن رکن نے قومی سلامتی امور کی مشیر کی حیثیت سے ان کے Judgements غلط ہونے کو ایشو نہیں بنایا تھا۔ اور سیکرٹیری آف اسٹیٹ کے لئے ان کی تقرری کی توثیق کر دی تھی۔
    صدر رونالڈ ریگن کی انتظامیہ میں بھی بعض فیصلوں میں قوم سے جھوٹ بولا گیا تھا۔ Iran Contra ریگن انتظامیہ کا ایک بڑا ا سکینڈل تھا۔ عراق ایران جنگ کے دوران ریگن انتظامیہ نے ایران کو خفیہ طور پر ہتھیار فراہم کیے تھے۔ اور ان ہتھیاروں کی فروخت کے منافع سے نکارا گواۓ میں Contra  باغیوں کو فنڈ فراہم کیے تھے۔ اور یہ ایران پر عائد ہتھیاروں کی پابندی کی خلاف ورزی تھی۔ جبکہ Boland Amendment کے تحت کانگرس نے حکومت کو Contra کو مزید فنڈ فراہم کرنے کی ممانعت کی تھی۔ لیکن اس کے باوجود ریگن انتظامیہ نے ایران کو ہتھیار فروخت کیے تھے اور Contra باغیوں کو فنڈ دینے کا سلسلہ بھی جاری تھا۔
    جبکہ لبنان کی خانہ جنگی میں امریکہ کی سلامتی کے لئے اچانک ایسے کیا خطرات پیدا ہو گیے تھے کہ صدر ریگن نے کئی ہزار امریکی فوجیوں کو بیروت میں تعینات کیا تھا۔ لیکن بیروت میں امریکی فوجیوں کی بیرکوں پر بموں کے دھماکوں میں 250  فوجی ہلاک ہونے کے بعد صدر ریگن نے بیروت سے تمام فوجیں واپس بلا لی تھیں۔ صدر ریگن کا یہ Judgement کیسا تھا؟ امریکی فوجیں بیروت کیوں بھیجی تھیں؟ اور پھر 250 فوجی ہلاک ہونے کے بعد انہیں واپس کیوں بلا لیا تھا؟ لیکن اس وقت ری پبلیکن پارٹی نے اس پر یہ واویلا نہیں کیا تھا جو بن غازی کے مسئلہ پر کیا جا رہا ہے؟ ری پبلیکن پارٹی کی یہ سیاست ہے جو اب پارٹی کے اندر توڑ پھوڑ کر رہی ہے۔ اس طرف توجہ دینے کی بجاۓ یہ ایک عورت کو جو ہلری کلنٹن ہے اسے Target کر رہی ہے۔


                          

Thursday, August 4, 2016

Do Not Blame Globalization, Americans Were Hit Hard From The Hardline Warmonger's "1945" Mentality

Do Not Blame Globalization, Americans Were Hit Hard From The Hardline Warmonger's "1945" Mentality      

مجیب خان   

Republican Presidential Candidates 2016

Republican Nominee, Donald Trump

      امریکی طیاروں کی لیبیا میں داعش کے خلاف بمباری کا آغاز ہو گیا ہے۔ لیبیا کی حکومت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ بمباری سے متعدد شہری ہلاک ہو گیے ہیں۔ پانچ سال قبل قدافی حکومت کے خلاف امریکہ اور نیٹو ملکوں نے تریپولی پر اس خوف سے بمباری کی تھی کہ قدافی کی فوجیں بن غازی میں حکومت کے مخالفین کے خلاف کاروائی کرنے کی تیاری کر رہی تھیں۔ اور اس کاروئی کے نتیجے میں اندیشہ تھا کہ لا تعداد لوگ مارے جاتے۔ اور پھر ایک Humanitarian بحران پیدا ہو جاتا۔ تاہم ایسے کوئی واضح ثبوت نہیں تھے کہ قدافی حکومت کا اتنے بڑے پیمانے پر فوجی کاروائی کا کوئی  منصوبہ تھا۔ حالانکہ اس وقت صدر قدافی اور ان کی حکومت کے اعلی حکام بار بار اوبامہ انتظامیہ کو متنبہ کر رہے تھے کہ القاعدہ انہیں اقتدار سے ہٹانا چاہتی ہے اور یہ لیبیا میں اسلامی ریاست قائم کرنا چاہتی ہے۔ لیکن اوبامہ انتظامیہ جو القاعدہ کے خلاف افغانستان اور عراق میں جنگ کر رہی تھی۔ القاعدہ اور اس کا قدافی حکومت سے نفرت میں جیسے سمجھوتہ ہو گیا تھا۔ یہاں اوبامہ انتظامیہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں نے قدافی حکومت کے بجاۓ القاعدہ کو سنجیدگی سے لیا تھا اور اس کی مدد کی تھی۔ اور اب پانچ سال بعد اوبامہ انتظامیہ لیبیا میں القاعدہ اور داعش کے اتحاد سے اسلامی ریاست کے خلاف بمباری کر رہی ہے۔ قدافی حکومت کی فوجی کاروائی سے جن لوگوں کو بچایا گیا تھا وہ اب امریکی فوج کی بمباری سے ہلاک ہو رہے ہیں۔ یہ بش انتظامیہ کی پالیسیاں تھیں اور یہ ہی اوبامہ انتظامیہ کی پالیسیاں ہیں۔ جنہوں نے ڈونالڈ  ٹرمپ کو عوام کا لیڈر بننےکا موقعہ فراہم کیا ہے۔
     لوگوں کی ایک بڑی اکثریت بش اور اوبامہ انتظامیہ کی جنگجو نہ خارجہ پالیسی اور War machine کے خلاف ڈونالڈ ٹرمپ کے موقف سے اتفاق کرتے ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ جب یہ کہتے ہیں کہ مڈل ایسٹ ایک Mess ہے تو لوگوں کو یہ دیکھ ‏ رہے ہیں۔ اور جب وہ یہ کہتے ہیں کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی Disastrous ہے تو یہ بھی وہ دیکھ رہے ہیں کہ دنیا میں ہر طرف انسانی لاشیں سڑکوں پر پڑی ہوتی ہیں۔ اور یہ ایسے حقائق ہیں جن سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ ہر طرف اسے محسوس کیا جا رہا ہے۔ 16 سال سے امریکہ کو خارجہ امور اور افغانستان عراق شام اور لیبیا میں صرف ناکامیاں ہو رہی ہیں۔ لہذا ڈونالڈ ٹرمپ کے ان دعووں سے بھی اختلاف نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اور یہ صدارتی انتخابات امریکہ کی خارجہ اور War machine پالیسیوں پر ریفرینڈم ہے۔ 16 سال میں امریکی عوام کو ان پالیسیوں سے سیکورٹی ملی ہے اور نہ ہی انہیں امن ملا ہے۔ نہ ہی دہشت گردی ختم ہوئی ہے بلکہ اس میں کمی تک نہیں ہوئی ہے۔ دنیا ایک محاذ جنگ بنی ہوئی ہے۔ ڈکٹیٹروں کے نظام سے زیادہ ان جنگوں میں لوگوں کی آزادی چھین گئی ہے۔ دنیا میں ہر طرف خوف پھیلا ہوا ہے۔ اس سے زیادہ آزادی سرد جنگ میں تھی۔ کمیونسٹ بھی آزادی سے امریکہ آتے تھے۔ اور سرمایہ دار آزادی سے کمیونسٹ ملکوں میں جاتے تھے۔
   
The Republican Party Is In Disarray And This Is The Beginning Of The Purges In The Party
    
     اگر ڈونالڈ ٹرمپ بش اور اوبامہ انتظامیہ کی ان پالیسیوں کو امریکہ کے لئے تباہی اور بربادی کہتے ہیں۔ تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہے۔ یہ حقیقت ہے۔ اور لوگوں کی زندگیاں ان پالیسیوں کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ امریکہ کی Elite Establishment Class کو اس کا کوئی احساس نہیں ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کو ری پبلیکن پارٹی کا پلیٹ فارم چاہیے تھا انہیں ری پبلیکن پارٹی کی ضرورت نہیں ہے۔ ری پبلیکن پارٹی کی Elite Class ان کے خلاف Rebellious ہو رہی ہے۔ حالانکہ ڈونلڈ ٹرمپ کوئی Proletariat نہیں ہیں۔ ان ہی کی Elite Class سے ہیں۔ انہوں نے صرف خارجہ اور War machine پالیسیوں کے خلاف صدارتی انتخابات کو محاذ بنایا ہے۔ اور لوگوں سے کہا ہے کہ وہ منتخب ہونے کے بعد انہیں بدل دیں گے۔
     16 سال سے دونوں پارٹیوں کی ان پالیسیوں کے نتیجے میں لوگوں میں بے چینی بہت بڑھ گئی ہے۔ اور اب امریکہ کے نظام کو وہ  Overhaul کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن لوگوں میں اس بے چینی کی وجہ اب وہ Globalization بتاتے ہیں۔ بش انتظامیہ میں یہ کہتے تھے کہ وہ ( بن لادن۔ القاعدہ ) ہماری خوشحالی سے نفرت کرتے ہیں۔ اور ہماری ترقی اور خوشحالی کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن پھر بش انتظامیہ کے اٹھ سال بعد سامنے یہ آیا تھا کہ ساری دولت امریکہ کے ایک فیصد Filthy Richs کے ہاتھوں میں تھی۔ اور درمیانہ طبقہ کو انہوں نے غریب کر دیا تھا۔ لیکن آٹھ سال تک بش انتظامیہ امریکی عوام سے یہ کہتی رہی کہ وہ ہماری خوشحالی سے نفرت کرتے ہیں۔ اور ہماری ترقی اور خوشحالی کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ اور اوبامہ انتظامیہ میں یہ Globalization ہے جس نے عوام کی خوشحالی ختم کر دی ہے۔ لوگوں میں بے چینی کی اصل وجہ امریکہ کی خارجہ اور War machine پالیسیاں ہیں۔ جو لوگوں کی خوشحالی کو ختم کر رہی ہیں۔ Globalization نے امریکہ کو 20 ٹیریلین ڈالر کا مقروض نہیں کیا ہے۔ یہ امریکہ کی خارجہ مہم جوئیاں اور War machine ہے جس نے امریکہ کو 20 ٹیریلین ڈالر کا مقروض اور لوگوں کو غریب کر دیا ہے۔ عراق اور افغان جنگوں پر ایک ٹیریلین ڈالر خرچ کیے گیے تھے۔ کیا یہ Globalization تھا۔ اگر خارجہ پالیسی اور War machine کی یہ مہم جوئیاں نہیں ہوتی تو Globalization کے  فائدے لوگوں تک ضرور پہنچتے۔
     امریکہ کے دو پارٹی نظام میں اب بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کرنا ہوں گی۔ اور یہ تبدیلیاں ان پارٹیوں میں ووٹرز کو لانا ہوں گی۔16 سال میں دونوں پارٹیوں ری پبلیکن اور ڈیموکریٹس نے آٹھ سال حکومت کی ہے۔ لیکن ان پارٹیوں کی حکومت میں خارجہ پالیسی اور وار مشین میں زیادہ فرق نہیں تھا۔ دونوں پارٹیوں میں جیسے دنیا میں سب سے زیادہ بم گرانے اور جنگوں کو پھیلانے کا مقابلہ ہو رہا تھا۔ اور دونوں پارٹیاں ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی سیاست کر رہی تھیں۔ دونوں پارٹیاں ابھی تک دنیا کو 1945 کی ذہنیت سے دیکھتی ہیں۔ اور سرد جنگ بھی ان کی اس ذہنیت کا حصہ ہے۔ اس لئے 21 ویں صدی کو یہ اپنی اس پرانی ذہنیت کے مطابق بنا رہے ہیں۔ حالانکہ چین کی کمیونسٹ پارٹی کے اندر جو Hardliners تھے وہ بھی Globalize World کے تقاضوں کے مطابق Soft ہو گیے ہیں۔ اور Sideline پر ہو گیے ہیں۔ ماسکو میں کمیونسٹ پارٹی کی Hardline سیاست بھی ختم ہو گئی ہے۔ لیکن امریکہ میں ری پبلیکن پارٹی کے اندر Hardline Warmongers دنیا کو ابھی تک 1945 کی دنیا سمجھتے ہیں۔ اور یہ ان کی ذہنیت بن گئی ہے۔ سرد جنگ ختم ہوۓ 26 سال ہو گیے ہیں۔ کمیونسٹ  ملک آزاد ہو گیے ہیں۔ ان ملکوں کے لوگوں کے ذہن جمہوری بن گیے ہیں۔ لیکن ری پبلیکن پارٹی کے Hardline Warmongers نے ابھی تک خود کو 1945 اور سرد جنگ کی ذہنیت سے آزاد نہیں کیا ہے۔ پارٹی کے اندر ان عناصر کے Purges کا وقت اب آگیا ہے۔ اور ووٹروں کو ان انتخابات میں یہ Purges کرنا ہے۔ نیٹو کے بارے میں ڈونالڈ ٹرمپ کا موقف بہت معقول ہے۔ یہ فوجی الائنس Globalize World کے لئے مسائل پیدا کر رہا ہے۔ یہ الائنس سرد جنگ دور کی  ایک سیاہ علامت ہے۔ اور اسے سرد جنگ ختم ہونے کے ساتھ دفن کر دیا جاتا۔ ری پبلیکن پارٹی اس وقت Disarray کا شکار ہے۔ اور یہ  پارٹی میں Purges کے عمل کا آغاز ہے۔