They Have Destroyed Iraq, Destabilized The Middle East, And Damaged America’s Standing In The Middle East
مجیب خان
برطانیہ
کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیر نے سی این این کی ویب سائڈ پر اپنے ایک مضمون میں کہا
ہے کہ "اسلامی انتہا پسندی کو شکست دینے کے لئے ایک واضح تناظر کے ساتھ ہم سب میں یہ اتفاق ہونا چاہیے کہ اس عالمی
خطرہ کا سبب کیا ہے؟ داعش اور القاعدہ جیسے گروپوں کے حالیہ ظہور میں Totalitarian سوچ
کے خطرناک رجحان ہیں جو تمام عالمی قواعد اور قدروں کے تحت رہنا مسترد کرتے ہیں۔
اور مذہبی تشدد کو گلے لاتے ہیں۔ یہ گروپ مذہبی سیاسی نظریات سے متاثر ہیں۔ اور
ساتویں صدی کا اسلام رائج کرنے میں پر تشدد جہاد میں یقین رکھتے ہیں۔" سابق
وزیر اعظم ٹونی بلیر اپنے مضمون میں کہتے ہیں کہ "ان کے ارادے ان تمام لوگوں،
اداروں اور حکومتوں کا مکمل خاتمہ کرنا ہے جو ان سے اتفاق نہیں کرتے ہیں۔ ہمیں ایک
نئے عالمی الائنس کی ضرورت ہے۔ جو اسلام کے اندر اور اس سے باہر انتہا پسندی کے
خلاف تحریک کی قیادت کرے۔ مسلمانوں کی اپنا پرامن مذہب ان جنونیوں سے لینے میں جو
اسے بدنام کر رہے ہیں، مدد کرنا چاہیے۔ وہ ان کی انتہا پسندی کا پہلا شکار ہیں۔
اور انتہا پسندی کی لڑائی میں فرنٹ لائن پر ہیں۔" عراق جنگ نے عرب اسلامی
دنیا میں اسلامی انتہا پسندی کو جس طرح دنیا میں جنگل کی آگ بنایا ہے۔ اس آگ کو
بھڑکانے میں وزیر اعظم ٹونی بلیر اور صدر جارج بش کا ایک Arson کا رول تھا۔
اور اب اس آگ کی شدت دیکھ کر وزیر اعظم ٹونی بلیر اسلامی انتہا پسندی کے خلاف
مشترکہ عالمی کوششوں کے لئے لیکچر دے رہے ہیں۔ اور اب اسلامی انتہا پسندی کو دنیا
کے لئے ایک بڑا خطرہ بتا رہے ہیں۔ لیکن جب اسلامی انتہا پسندی کے خلاف دنیا مشترکہ
کوششوں کے لئے متحد تھی۔ تو اس وقت ٹونی بلیر اور جارج بش عراق میں صد ام حسین کے
اقتدار میں رہنے سے دنیا کے لئے ایک بڑا خطرہ بتاتے تھے۔ اور یہ ثابت کرنے کے لئے
دنیا کو جھوٹے ثبوت دیتے تھے۔ یہ وہ عالمی لیڈر ہیں جنہوں نے دنیا کے لئے مسائل
پیدا کیے ہیں۔ اور جنہوں نے انسانیت کو مشکل خطروں میں ڈال دیا ہے۔
عراق کے خلاف جھوٹے الزامات کی بنیاد
پر فوجی کاروائی ہے جو اسلامی انتہا پسندی کے تمام اسباب کی ماں ہے۔ عراق
پر فوجی حملہ کے جن خطرناک نتائج کے بارے میں صد ام حسین نے دنیا کو متنبہ کیا
تھا۔ اور اس حملہ کے بعد عراق اور اس خطہ کا جو نقشہ بیان کیا تھا۔ وہ لفظ بہ لفظ
درست سامنے آیا ہے۔ وزیر اعظم ٹونی بلیر اور صدر جارج بش نے صد ام حسین کو اقتدار
سے ہٹانے کے بعد دنیا ایک بڑے خطرے سے محفوظ ہو جانے اور عرب دنیا میں امریکہ کے
اتحادیوں کی سلامتی اور استحکام کے بارے میں جتنے بھی دعوی کیے تھے وہ سب لفظ بہ
لفظ غلط ثابت ہوۓ ہیں۔ صد ام حسین اپنے خطہ اور لوگوں کو با خوبی سمجھتے تھے۔ وہ
اسلامی انتہا پسندوں کو جانتے تھے۔ اس لئے جب تک صد ام حسین اقتدار میں تھے۔ سعودی
بھی اتنے انتہا پسند وہابی اور سلا فسٹ نہیں تھے۔ وزیر اعظم ٹونی بلیر اور صدر
جارج بش نے صد ام حسین کو اقتدار سے ہٹا کر عراق شیعاؤں کو دے دیا ہے اور وہابی
اور سلا فسٹ کو آزادی دی ہے۔ اس خطہ کی انسانیت کے ساتھ یہ ظلم ہوا ہے۔ جو صد ام
حسین کے چالیس سال دور میں ہونے والے مظالم سے بھی زیادہ خوفناک مظالم ہیں۔
اور
سابق وزیر اعظم ٹونی بلیر اب اسلامی انتہا پسندوں کے مظالم کے خلاف ایک نیا الائنس
بنانے کی باتیں کر رہے ہیں۔ امریکہ پر نائن الیون حملہ کے بعد ایک تاریخی الائنس
وجود میں آیا تھا۔ القاعدہ کی انتہا پسندی کے خلاف اسلامی ملکوں نے اپنی پالیسیاں
تبدیل کی تھیں۔ سرد جنگ میں جن اسلامی ملکوں نے امریکہ کی حمایت میں سوویت اشتراکیت
کے خلاف اسلامی انتہا پسندوں کو استعمال کیا تھا۔ اور سرد جنگ ختم ہونے کے بعد بھی
ان سے اپنے رابطہ برقرار ر کھے تھے۔ نائن الیون کے بعد ان کے ساتھ تمام رابطہ ختم
کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اور امریکہ کے ساتھ الائنس میں شامل ہو کر ان کے خلاف لڑنے
کا اعلان کیا تھا۔ ادھر افغانستان میں طالبان کی حکومت ختم ہونے کے بعد یہ یقین ہو
گیا تھا کہ طالبان اب دوبارہ افغانستان میں کبھی نہیں ابھر سکتے ہیں۔ اور اس غلط
فہمی میں بش اور بلیر نے عراق میں صد ام حسین کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے حا لات
بہت موزوں دیکھے تھے۔ جنگ کی حکمت عملی اس طرح بنائی جاتی ہے کہ ایک محاذ سے کئی
محاذوں پر جنگ جیتی جاتی ہے۔ لیکن بش بلیر نے جنگ کے کئی محاذ کھول کر ہر محاذ پر
جنگ ہار دی تھی۔ صد ام حسین، معمر قدافی اور بشر السد کو دشمنوں کی صف میں رکھنے کے بجاۓ اگر نائن
الیون کے بعد ان سے سمجھوتہ کر لیا جاتا اور اسلامی انتہا پسندی ختم کرنے کا
الائنس ان کے ساتھ بنایا جاتا تو یہ انتہا پسندی جارج بش کے دور میں ختم ہو سکتی
تھی۔ امریکہ کو عرب دنیا میں اسلامی انتہا پسندی کی جنگ پر 6 ٹیریلین ڈالر بھی خرچ
نہیں کرنا پڑتے۔ اور برطانیہ کے 600 فوجی بھی آج زندہ ہوتے۔ اور صرف ایک محاذ سے
شمالی افریقہ تک یہ جنگ جیت لی جاتی۔ لیکن کمانڈر انچیف کا پہلا فیصلہ غلط ہونے سے
بعد کے تمام فیصلے بھی غلط ثابت ہو رہے ہیں۔ صدر اوبامہ کا لیبیا اور شام کے بارے
میں فیصلہ غلط تھے۔ یہ فیصلے عرب دنیا کو
مسلسل عدم استحکام کرنے اور انتشار میں ر کھنے
کے لئے تھے۔ اور اس میں انہیں کامیابی ہوئی ہے۔ لیکن یورپ کے لئے یہ Disastrous بننے
ہیں۔ کیونکہ مڈل ایسٹ یورپ سے قریب ہے۔ ٹونی بلیر اور جارج بش صد ام حسین سے اتنے
زیادہ Obsess تھے
کہ ان کا ذہن اس کے نتائج اور دور رس اثرات پر کام نہیں کر رہا تھا۔
اگر
افریقہ میں لیڈر ایسے فیصلے کرتے جن کے نتیجے میں لاکھوں لوگ مارے جاتے۔ لاکھوں
لوگ اپنے خاندانوں کے ساتھ نقل مکانی کرنے پر مجبور کر دئیے جاتے۔ ان کے خاندان
اور زندگیاں تباہ ہو جاتی۔ تو اسے انسانیت کے خلاف کرائم کہا جاتا۔ اور یہ لیڈر
انٹرنیشنل کریمنل کورٹ میں کھڑے ہوتے۔ اور ان سے سوال جواب ہو رہے ہوتے۔ لیکن یہ دنیا کے اسٹیج پر کھڑے
ہیں۔ اور انہیں عالمی رہنما ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اور ٹونی بلیر اب اسلامی ریاست
کے خلاف ایک نیا الائنس بنانے کی باتیں کر
رہے ہیں۔ صدر جارج بش نے جنگ القاعدہ کے خلاف شروع کی تھی۔ پھر یہ طالبان کے خلاف
جنگ بن گئی تھی۔ پھر یہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ بن گئی تھی۔ پھر یہ صد ام حسین
کو اقتدار سے ہٹانے کی جنگ بن گئی تھی۔
پھر عراق پر امریکہ اور برطانیہ کے قبضہ میں یہ شیعہ اور سنی کی جنگ بن گئی تھی۔
ان جنگوں نے اسلامی ریاست کو جنم دیا ہے۔ لیکن کیا اسلامی ریاست کے خلاف یہ آخری جنگ
ہو گی؟
نیٹو
افغانستان میں ناکام ہو گیا ہے۔ اور امریکہ اپنے عرب اتحادیوں کے ساتھ جن میں
اسرائیل بھی شامل ہے مڈل ایسٹ میں بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔ یہ ناکامیاں دیکھ کر
اب روس مڈل ایسٹ میں استحکام بحال کرنے شام میں آیا ہے۔ اور اسلامی ریاست کا خاتمہ
بھی اس کے مشن میں شامل ہے۔ ٹونی بلیر امریکہ برطانیہ فرانس اور نیٹو سے اسلامی
ریاست کے خلاف روس کے ساتھ الائنس میں شامل ہونے کا مشورہ کیوں نہیں دیتے ہیں؟
لیکن نظر یہ آ رہا کہ امریکہ اور مغرب روس سے تعاون کرنے کے بجاۓ جیسے تصادم پر
اتر آۓ ہیں۔ اور شام میں روس کی مداخلت کو امریکہ اور روس کے درمیان ایک نئی جنگ
کا آغاز بنا رہے ہیں۔ روس کے ساتھ اس تصادم میں نیٹو کا دباؤ بھی بڑھ رہا ہے۔ یہ
تصادم دیکھ کر ایسا نظر آتا ہے کہ اسلامی ریاست کے خلاف جنگ میں امریکہ اور نیٹو
کے جیسے پوشیدہ مفاد ہیں۔ یہ اسلامی ریاست کو ختم نہیں بلکہ جنگ کو جاری رکھنا
چاہتے ہیں۔ اس لئے اسلامی ریاست کی دہشت گردی پر توجہ دینے کے بجاۓ ان کی توجہ روس
سے پنگے لینے پر مرکوز ہو گئی ہے۔
اسپین
نے روس کے بحری جہازوں کو جو شام جا رہے تھے انہیں اسپین کی بندر گاہ پر ٹھہرنے
اور ڈیزل وغیرہ فراہم کرنے کی سہولیتیں دی تھیں۔ لیکن نیٹو نے اسپین پر یہ دباؤ ڈالا
کہ روس کو اسپین کی بندر گاہ استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جاۓ۔ اور نیٹو کے اس
دباؤ میں اسپین کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا ہے۔ روس مڈل ایسٹ میں اسلامی دہشت
گردوں کا خاتمہ کرنے میں مدد کرنے آیا ہے۔ جنہوں نے شام اور عراق کو تباہ کر دیا
ہے۔ اور مڈل ایسٹ میں مسلسل تباہی پھیلا رہے ہیں۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ نیٹو
نے ان ملکوں پر جو اسلامی ریاست اور اسلامی انتہا پسندوں کو ہتھیار فراہم کر رہے
ہیں۔ ان پر یہ دباؤ نہیں ڈالا تھا کہ ان دہشت گردوں کو ہتھیار نہیں دئیے جائیں۔
لیکن نیٹو نے اسپین پر یہ ڈالا ہے کہ روس کے بحری جہازوں کو بندر گاہ استعمال کرنے
کی اجازت نہیں دی جاۓ۔ یعنی اسپین سے کہا گیا ہے کہ شام میں دہشت گردوں کا خاتمہ
کرنے میں روس کی مدد نہیں کی جاۓ۔ اور اس سے ذہنوں میں پہلے سے موجود شبہات میں
اضافہ ہوتا ہے کہ نیٹو اور امریکہ دہشت گردی ختم کرنے میں کیا واقعی سنجیدہ ہیں؟
Dressed in a flight suit, President Bush meet Pilots and Crew of the aircraft |
Prime Minister Tony Blair with British Soldiers in Iraq |