Monday, October 31, 2016

They Have Destroyed Iraq, Destabilized The Middle East, And Damaged America’s Standing In The Middle East

    
They Have Destroyed Iraq, Destabilized The Middle East, And Damaged America’s Standing In The Middle East       

مجیب خان


      برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیر نے سی این این کی ویب سائڈ پر اپنے ایک مضمون میں کہا ہے کہ "اسلامی انتہا پسندی کو شکست دینے کے لئے ایک واضح تناظر کے ساتھ  ہم سب میں یہ اتفاق ہونا چاہیے کہ اس عالمی خطرہ کا سبب کیا ہے؟ داعش اور القاعدہ جیسے گروپوں کے حالیہ ظہور میں Totalitarian سوچ کے خطرناک رجحان ہیں جو تمام عالمی قواعد اور قدروں کے تحت رہنا مسترد کرتے ہیں۔ اور مذہبی تشدد کو گلے لاتے ہیں۔ یہ گروپ مذہبی سیاسی نظریات سے متاثر ہیں۔ اور ساتویں صدی کا اسلام رائج کرنے میں پر تشدد جہاد میں یقین رکھتے ہیں۔" سابق وزیر اعظم ٹونی بلیر اپنے مضمون میں کہتے ہیں کہ "ان کے ارادے ان تمام لوگوں، اداروں اور حکومتوں کا مکمل خاتمہ کرنا ہے جو ان سے اتفاق نہیں کرتے ہیں۔ ہمیں ایک نئے عالمی الائنس کی ضرورت ہے۔ جو اسلام کے اندر اور اس سے باہر انتہا پسندی کے خلاف تحریک کی قیادت کرے۔ مسلمانوں کی اپنا پرامن مذہب ان جنونیوں سے لینے میں جو اسے بدنام کر رہے ہیں، مدد کرنا چاہیے۔ وہ ان کی انتہا پسندی کا پہلا شکار ہیں۔ اور انتہا پسندی کی لڑائی میں فرنٹ لائن پر ہیں۔" عراق جنگ نے عرب اسلامی دنیا میں اسلامی انتہا پسندی کو جس طرح دنیا میں جنگل کی آگ بنایا ہے۔ اس آگ کو بھڑکانے میں وزیر اعظم ٹونی بلیر اور صدر جارج بش کا ایک Arson کا رول تھا۔ اور اب اس آگ کی شدت دیکھ کر وزیر اعظم ٹونی بلیر اسلامی انتہا پسندی کے خلاف مشترکہ عالمی کوششوں کے لئے لیکچر دے رہے ہیں۔ اور اب اسلامی انتہا پسندی کو دنیا کے لئے ایک بڑا خطرہ بتا رہے ہیں۔ لیکن جب اسلامی انتہا پسندی کے خلاف دنیا مشترکہ کوششوں کے لئے متحد تھی۔ تو اس وقت ٹونی بلیر اور جارج بش عراق میں صد ام حسین کے اقتدار میں رہنے سے دنیا کے لئے ایک بڑا خطرہ بتاتے تھے۔ اور یہ ثابت کرنے کے لئے دنیا کو جھوٹے ثبوت دیتے تھے۔ یہ وہ عالمی لیڈر ہیں جنہوں نے دنیا کے لئے مسائل پیدا کیے ہیں۔ اور جنہوں نے انسانیت کو مشکل خطروں میں ڈال دیا ہے۔
     عراق کے خلاف جھوٹے الزامات کی بنیاد  پر فوجی کاروائی ہے جو اسلامی انتہا پسندی کے تمام اسباب کی ماں ہے۔ عراق پر فوجی حملہ کے جن خطرناک نتائج کے بارے میں صد ام حسین نے دنیا کو متنبہ کیا تھا۔ اور اس حملہ کے بعد عراق اور اس خطہ کا جو نقشہ بیان کیا تھا۔ وہ لفظ بہ لفظ درست سامنے آیا ہے۔ وزیر اعظم ٹونی بلیر اور صدر جارج بش نے صد ام حسین کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد دنیا ایک بڑے خطرے سے محفوظ ہو جانے اور عرب دنیا میں امریکہ کے اتحادیوں کی سلامتی اور استحکام کے بارے میں جتنے بھی دعوی کیے تھے وہ سب لفظ بہ لفظ غلط ثابت ہوۓ ہیں۔ صد ام حسین اپنے خطہ اور لوگوں کو با خوبی سمجھتے تھے۔ وہ اسلامی انتہا پسندوں کو جانتے تھے۔ اس لئے جب تک صد ام حسین اقتدار میں تھے۔ سعودی بھی اتنے انتہا پسند وہابی اور سلا فسٹ نہیں تھے۔ وزیر اعظم ٹونی بلیر اور صدر جارج بش نے صد ام حسین کو اقتدار سے ہٹا کر عراق شیعاؤں کو دے دیا ہے اور وہابی اور سلا فسٹ کو آزادی دی ہے۔ اس خطہ کی انسانیت کے ساتھ یہ ظلم ہوا ہے۔ جو صد ام حسین کے چالیس سال دور میں ہونے والے مظالم سے بھی زیادہ خوفناک مظالم ہیں۔
     اور سابق وزیر اعظم ٹونی بلیر اب اسلامی انتہا پسندوں کے مظالم کے خلاف ایک نیا الائنس بنانے کی باتیں کر رہے ہیں۔ امریکہ پر نائن الیون حملہ کے بعد ایک تاریخی الائنس وجود میں آیا تھا۔ القاعدہ کی انتہا پسندی کے خلاف اسلامی ملکوں نے اپنی پالیسیاں تبدیل کی تھیں۔ سرد جنگ میں جن اسلامی ملکوں نے امریکہ کی حمایت میں سوویت اشتراکیت کے خلاف اسلامی انتہا پسندوں کو استعمال کیا تھا۔ اور سرد جنگ ختم ہونے کے بعد بھی ان سے اپنے رابطہ برقرار ر کھے تھے۔ نائن الیون کے بعد ان کے ساتھ تمام رابطہ ختم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اور امریکہ کے ساتھ الائنس میں شامل ہو کر ان کے خلاف لڑنے کا اعلان کیا تھا۔ ادھر افغانستان میں طالبان کی حکومت ختم ہونے کے بعد یہ یقین ہو گیا تھا کہ طالبان اب دوبارہ افغانستان میں کبھی نہیں ابھر سکتے ہیں۔ اور اس غلط فہمی میں بش اور بلیر نے عراق میں صد ام حسین کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے حا لات بہت موزوں دیکھے تھے۔ جنگ کی حکمت عملی اس طرح بنائی جاتی ہے کہ ایک محاذ سے کئی محاذوں پر جنگ جیتی جاتی ہے۔ لیکن بش بلیر نے جنگ کے کئی محاذ کھول کر ہر محاذ پر جنگ ہار دی تھی۔ صد ام حسین، معمر قدافی اور بشر السد  کو دشمنوں کی صف میں رکھنے کے بجاۓ اگر نائن الیون کے بعد ان سے سمجھوتہ کر لیا جاتا اور اسلامی انتہا پسندی ختم کرنے کا الائنس ان کے ساتھ بنایا جاتا تو یہ انتہا پسندی جارج بش کے دور میں ختم ہو سکتی تھی۔ امریکہ کو عرب دنیا میں اسلامی انتہا پسندی کی جنگ پر 6 ٹیریلین ڈالر بھی خرچ نہیں کرنا پڑتے۔ اور برطانیہ کے 600 فوجی بھی آج زندہ ہوتے۔ اور صرف ایک محاذ سے شمالی افریقہ تک یہ جنگ جیت لی جاتی۔ لیکن کمانڈر انچیف کا پہلا فیصلہ غلط ہونے سے بعد کے تمام فیصلے بھی غلط ثابت ہو رہے ہیں۔ صدر اوبامہ کا لیبیا اور شام کے بارے میں فیصلہ غلط  تھے۔ یہ فیصلے عرب دنیا کو مسلسل عدم استحکام کرنے اور انتشار میں ر کھنے  کے لئے تھے۔ اور اس میں انہیں کامیابی ہوئی ہے۔ لیکن یورپ کے لئے یہ Disastrous بننے ہیں۔ کیونکہ مڈل ایسٹ یورپ سے قریب ہے۔ ٹونی بلیر اور جارج بش صد ام حسین سے اتنے زیادہ Obsess تھے کہ ان کا ذہن اس کے نتائج اور دور رس اثرات  پر کام نہیں کر رہا تھا۔
    اگر افریقہ میں لیڈر ایسے فیصلے کرتے جن کے نتیجے میں لاکھوں لوگ مارے جاتے۔ لاکھوں لوگ اپنے خاندانوں کے ساتھ نقل مکانی کرنے پر مجبور کر دئیے جاتے۔ ان کے خاندان اور زندگیاں تباہ ہو جاتی۔ تو اسے انسانیت کے خلاف کرائم کہا جاتا۔ اور یہ لیڈر انٹرنیشنل کریمنل کورٹ میں کھڑے ہوتے۔ اور ان سے سوال جواب  ہو رہے ہوتے۔ لیکن یہ دنیا کے اسٹیج پر کھڑے ہیں۔ اور انہیں عالمی رہنما ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اور ٹونی بلیر اب اسلامی ریاست کے خلاف ایک نیا الائنس بنانے کی  باتیں کر رہے ہیں۔ صدر جارج بش نے جنگ القاعدہ کے خلاف شروع کی تھی۔ پھر یہ طالبان کے خلاف جنگ بن گئی تھی۔ پھر یہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ بن گئی تھی۔ پھر یہ صد ام حسین کو اقتدار سے ہٹانے کی جنگ  بن گئی تھی۔ پھر عراق پر امریکہ اور برطانیہ کے قبضہ میں یہ شیعہ اور سنی کی جنگ بن گئی تھی۔ ان جنگوں نے اسلامی ریاست کو جنم دیا ہے۔ لیکن کیا اسلامی ریاست کے خلاف یہ آخری جنگ ہو گی؟
     نیٹو افغانستان میں ناکام ہو گیا ہے۔ اور امریکہ اپنے عرب اتحادیوں کے ساتھ جن میں اسرائیل بھی شامل ہے مڈل ایسٹ میں بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔ یہ ناکامیاں دیکھ کر اب روس مڈل ایسٹ میں استحکام بحال کرنے شام میں آیا ہے۔ اور اسلامی ریاست کا خاتمہ بھی اس کے مشن میں شامل ہے۔ ٹونی بلیر امریکہ برطانیہ فرانس اور نیٹو سے اسلامی ریاست کے خلاف روس کے ساتھ الائنس میں شامل ہونے کا مشورہ کیوں نہیں دیتے ہیں؟ لیکن نظر یہ آ رہا کہ امریکہ اور مغرب روس سے تعاون کرنے کے بجاۓ جیسے تصادم پر اتر آۓ ہیں۔ اور شام میں روس کی مداخلت کو امریکہ اور روس کے درمیان ایک نئی جنگ کا آغاز بنا رہے ہیں۔ روس کے ساتھ اس تصادم میں نیٹو کا دباؤ بھی بڑھ رہا ہے۔ یہ تصادم دیکھ کر ایسا نظر آتا ہے کہ اسلامی ریاست کے خلاف جنگ میں امریکہ اور نیٹو کے جیسے پوشیدہ مفاد ہیں۔ یہ اسلامی ریاست کو ختم نہیں بلکہ جنگ کو جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ اس لئے اسلامی ریاست کی دہشت گردی پر توجہ دینے کے بجاۓ ان کی توجہ روس سے پنگے لینے پر مرکوز ہو گئی ہے۔
     اسپین نے روس کے بحری جہازوں کو جو شام جا رہے تھے انہیں اسپین کی بندر گاہ پر ٹھہرنے اور ڈیزل وغیرہ فراہم کرنے کی سہولیتیں دی تھیں۔ لیکن نیٹو نے اسپین پر یہ دباؤ ڈالا کہ روس کو اسپین کی بندر گاہ استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جاۓ۔ اور نیٹو کے اس دباؤ میں اسپین کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا ہے۔ روس مڈل ایسٹ میں اسلامی دہشت گردوں کا خاتمہ کرنے میں مدد کرنے آیا ہے۔ جنہوں نے شام اور عراق کو تباہ کر دیا ہے۔ اور مڈل ایسٹ میں مسلسل تباہی پھیلا رہے ہیں۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ نیٹو نے ان ملکوں پر جو اسلامی ریاست اور اسلامی انتہا پسندوں کو ہتھیار فراہم کر رہے ہیں۔ ان پر یہ دباؤ نہیں ڈالا تھا کہ ان دہشت گردوں کو ہتھیار نہیں دئیے جائیں۔ لیکن نیٹو نے اسپین پر یہ ڈالا ہے کہ روس کے بحری جہازوں کو بندر گاہ استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جاۓ۔ یعنی اسپین سے کہا گیا ہے کہ شام میں دہشت گردوں کا خاتمہ کرنے میں روس کی مدد نہیں کی جاۓ۔ اور اس سے ذہنوں میں پہلے سے موجود شبہات میں اضافہ ہوتا ہے کہ نیٹو اور امریکہ دہشت گردی ختم کرنے میں کیا واقعی سنجیدہ ہیں؟   
Dressed in a flight suit, President Bush meet Pilots and Crew of the aircraft

Prime Minister Tony Blair with British Soldiers in Iraq

US arms falling into ISIS hands in Iraq
                       

Tuesday, October 25, 2016

This Is The New Middle East: Created By America, Britain, And France

This Is The New Middle East: Created By America, Britain, And France

There Is No Rule Of Law, There Is No Respect Of Sovereignty, There Is No Value Of Human Life; Use Of Weapons Are The Principal   

Mujeeb Khan



Iraqi POWs, Taken by US marines fanning out in the desert during first Gulf war 1991

Iraq War

Victims of war

Iraq War

 "Highway of Death" in Kuwait during operation Desert Storm 1991 

Civil War in Syria

The Iraq War 2003

Islamic Militants in Libya

U.S. Military Personnel 

Islamic State

Homes destroyed in battle for Libya

Under Israeli Military occupation

Israeli Military detains Palestinian child



Israeli Military detaining Palestinians

Palestinians protest


       In 1991, President George H. Bush had liberated Kuwait from Iraqi forces. In 2003 President George W. Bush had liberated Iraq from Saddam Hussain. After thirteen years, Prime Minister of Iraq, Haider al-Abadi, is liberating Mosul from Daesh. In 2011 Nato had liberated Libya from the regime of Muammar Gaddafi. After the fall of Gaddafi's government, a political vacuum had been created in Libya, which was filled by the several militant Islamic groups in the region. These groups are now fighting to liberate Libya from each other. President Obama had liberated Egypt, but within a year liberty and freedom had been taken back from the Egyptian people.
       The last six years the war has been fought to give the freedom and the liberty to the Syrian people, and the Obama Administration has been backing their war. As always, war has been a very messy business. The Syrian’s war of freedom and liberty has been lost. Too many foreign countries are involved in the Syrian war with their proxies and these proxies are fighting for different objectives. GCC (Gulf Cooperation Council) countries are backing their proxies to liberate Syria and to establish a soft Sunni Islamic State, while Daesh is fighting to liberate Syria for establishing a hard Sunni Islamic state.
       The Obama Administration is backing and arming the Syrian Kurds to fight and defeat Daesh in Syria. Syrian-Kurds are helping the Turkish-Kurds to liberate from Turkey. Turkish-Kurds are helping Iraqi-Kurds in the fight against Daesh. Saudis are liberating the Sunnis and Iran is liberating the Shiites.
       But no power in the world can give the liberty and the freedom to the people of Palestine. And the Palestinian people are not allowed to fight for their freedom and liberty, as the Syrian rebels are getting support and help from America and Europe. President Putin is now involved by bringing his army to the Middle East to liberate America from the politics of the Middle East wars.    

       
Civil War In Syria




Friday, October 21, 2016

Prime Minister Modi, Calling Pakistan “Mother-Ship Of Terrorism” Is An Insult Of 180 Million People

Prime Minister Modi, Calling Pakistan “Mothership Of Terrorism” Is An Insult Of 180 Million People 
And Disrespects Those Who Give Sacrifices In Combating Terrorism   
No Talks With Modi Government, Until Prime Minister Modi Apologizes To The People Of Pakistan

مجیب خان
President Vladimir Putin, Indian Prime Minister Narendra Modi, Chinese President Xi Jinping

BIMSTEC Countries


      بھارت میں BRICS کانفرنس ایک ایسے موقعہ پر ہوئی تھی کہ جب وزیر اعظم پرندر مودی کے سینہ میں پاکستان کے خلاف خاصا بلغم جمع ہو گیا تھا۔ اور اسے نکالنے اور اپنا سینہ ہلکا کرنے کے لئے انہوں نے یہ بہتر موقعہ سمجھا تھا۔ وزیر اعظم اپنی سابقہ ملاقاتوں میں چین کے صدر شی جن پنگ سے پاکستان میں 46 بلین ڈالر کے اقتصادی منصوبوں کو بھارت کے مفاد کے خلاف ہونے میں دلیلیں دیتے رہے ہیں۔ اور ان منصوبوں پر عملدرامد کو روکا نے میں اپنے تمام ہتکھنڈے استعمال کرتے رہے ہیں۔ لیکن اس میں ناکامی ان کے سینہ میں بلغم جمع ہونے کی ایک وجہ تھی۔ وزیر اعظم مودی کی توجہ صرف چین پر تھی کہ یہ پاکستان میں کیا رہا تھا۔ پھر انہوں نے کھانسنے کے لئے منہ موڑا تو یہ دیکھا کہ روس کے دوسو فوجی پاکستانی فوج کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں کر رہی تھیں۔ یہ دیکھ کر وزیر اعظم مودی کی پریشانی اب پریشانیاں بن گئی تھیں۔ BRICS کانفرنس میں وزیر اعظم مودی کے دائیں ہاتھ پر صدر پوتن بیٹھے تھے۔ وزیر اعظم مودی اب صدر پو تن سے  پاکستان کے ساتھ روس کے بڑھتے ہوۓ فوجی تعلقات کے بارے میں بھارت کی تشویش کا اظہار کر رہے تھے ۔ لیکن وزیر اعظم مودی کی تشویش پر کچھ کہنے سے پہلے صدر پو تن نے امریکہ کے ساتھ بھارت کے بڑھتے ہوۓ فوجی تعلقات کے بارے میں وزیر اعظم مودی سے وضاحت  طلب کی کہ ان فوجی تعلقات کے مقاصد کیا ہیں؟ حال ہی میں بھارت اور امریکہ میں ہونے والے فوجی معاہدے کے تحت امریکہ بھارت میں فوجی اڈے استعمال کر سکے گا۔ اور روس کو بھارت کے فوجی طور پر امریکہ کے قریب تر ہونے سے تشویش تھی۔ روس اور بھارت کے سرد جنگ کے دور سے انتہائی قریبی تعلقات تھے۔ اور اب جیسے ان تعلقات کو خیرباد کیا جا رہا تھا۔  BRICS ایک اقتصادی ترقی اور تعاون کے مقاصد میں وجود میں آ یا تھا۔ اور اس گروپ میں شامل ملک اپنے نئے مالیاتی ادارے فروغ دینے میں خصوصی دلچسپی رکھتے تھے۔ اور بھارت اس گروپ کے ان مقاصد کے خلاف فوجی معاہدوں کے گروپ میں شامل ہونے میں خصوصی دلچسپی لے رہا تھا۔
    اور چین کی بھی یہ تشویش تھی کہ بھارت کا امریکہ اور جاپان کے ساتھ فوجی الائنس چین کے مفادات کے خلاف بن رہا ہے۔ روس اور چین نے پھر وزیر اعظم مودی سے یہ پوچھا کہ “Are you with us or against us” وزیر اعظم مودی نے اپنی خارجہ پالیسی بدل دی اور صدر پو تن سے کہا کہ بھارت اور روس کے خصوصی اور امتیازی نوعیت کے تعلقات ہیں۔ اور وہ انہیں مظبوط بنائیں گے۔ اور یہ ہمیشہ کی طرح مظبوط رہیں گے۔ وزیر اعظم مودی نے کہا “An old friend is better  than  two new friends” دو نئے دوستوں سے ان کا مطلب کیا امریکہ اور پاکستان تھا؟ اور  امریکہ اس کی وضاحت شاید ضرور چاہے گا۔ BRICS کانفرنس بھارت میں ہوئی تھی۔ لیکن وزیر اعظم مودی کا اس کانفرنس کے ذریعے پاکستان کو تنہا کرنے کی ابتدا میں مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ پاکستان کا نام کوئی بھی دہشت گردی سے منسلک کرنے کے لئے تیار نہیں تھا۔ صدر پو تن نے دہشت گردی کا کوئی حوالہ دیا تھا اور نہ ہی پاکستان کا ذکر کیا تھا۔ وزیر اعظم مودی نے کانفرنس شروع ہونے سے ایک روز قبل اپنے خطاب میں پاکستان کا نام لئے بغیر کہا کہ "یہ المیہ ہے کہ بھارت کے محلہ میں ایک ملک دنیا بھرمیں Mothership of terrorism ہے۔" وزیر اعظم مودی نے پاکستان کو “Mothership of terrorism” کہا ہے اور یہ پاکستان کے 180 ملین لوگوں کی توہین ہے۔ بالخصوص ان پاکستانی خاندانوں کے لئے جن کے پیارے دہشت گردی میں مارے گیے ہیں۔ اور سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو بھی ان میں شامل ہیں۔ وزیر اعظم مودی یہ Name calling گھٹیا سیاسی ذہنیت ہے۔ جو جمہوریت کے اخلاقی ضوابط  کے منافی ہے۔
     وزیر اعظم مودی کے اس بیان پر چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان Hua Chunying نے کہا "دہشت گردی کو کسی ملک یا مذہب کے ساتھ منسلک کرنا غلط ہے۔ اور عالمی برادری سے پاکستان کی عظیم قربانیوں کا اعتراف کرنے کا کہا ." ترجمان نے کہا "ہم ہر طرح کی دہشت گردی کے خلاف ہیں۔ اور ہمیں یقین ہے کہ تمام ملکوں کے استحکام اور سلامتی کو یقینی بنانے میں عالمی مشترکہ کوششیں ضروری ہیں۔ بھارت اور پاکستان دہشت گردی کا شکار ہیں۔" ترجمان نے کہا "اسلام آ باد نے دہشت گردی کی جنگ میں عظیم قربانیاں دی ہیں۔ اور عالمی برادری کو یہ اعتراف کرنا چاہیے۔" ادھر برطانوی حکومت نے پاکستان کو دہشت گردوں کو پناہ دینے اور پاکستان کی مذمت کرنے کی درخواست کو مسترد کرتے ہوۓ کہا ہے کہ "پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف نمایاں قربانیاں دی ہیں۔ ہم پاکستان اور اس کے لوگوں کی دہشت گردی کی جنگ میں نمایاں قربانیوں کا اعتراف کرتے ہیں۔ ہم پاکستان کی اپنی حفاظت کرنے کی وسعت بڑھانے اور ان کے خلاف کاروائی کرنے میں جو منصوبے بناتے ہیں اور پھر دشت گرد حملے کرتے ہیں، مدد کر رہے ہیں۔" پاکستان کے لئے برطانوی حکومت کا یہ موقف بہت حوصلہ افزا ہے۔ وزیر اعظم مودی کو اس سے مایوسی ہوئی ہو گی۔ برطانیہ کی وزیر اعظم آئندہ ماہ بھارت کا دورہ کریں گی۔ پاکستان اور بھارت دولت مشترکہ کا رکن ہیں۔ اور بھارت کی درخواست پر دولت مشترکہ میں شامل ملک پاکستان کو تنہا نہیں کریں گے۔ پاکستان شنگ ہائی گروپ میں شامل ہے۔ پاکستان وسط ایشیائی ملکوں کے اکنامک  گروپ میں بھی ہے۔ اس لئے BRICS کانفرنس میں چین اور روس نے بھارت کی پاکستان کو تنہا کرنے کی کوشش سے اتفاق نہیں کیا ہے۔ پھر اسلامی ملکوں کی تنظیم کی طرف سے اعلامیہ میں بھی پاکستان کے موقف کی حمایت کی گئی ہے۔ اور نہتے کشمیریوں کے خلاف بھر پور فوجی طاقت کے استعمال کی شدید مذمت کی ہے۔
     دنیا میں بھارت کے ساتھ ہاں میں ہاں کرنے والے نہ ملنے پر مودی حکومت اور زیادہ حواس باختہ  ہو گئی ہے۔ وزیر اعظم مودی کے یہ بس میں نہیں ہے ورنہ وہ خود ٹینک لے کر لاہور میں نواز شریف کے گھر پر چڑھ دوڑتے۔ یہ کتنے تعجب کی بات ہے کہ وزیر اعظم مودی نے بھارتی فوج کی سرجیکل اسٹرائک کا اسرائیل کی سرجیکل اسٹرائک مہم سے تشبیہ دی ہے۔ وزیر اعظم مودی نے ہماچل پردیش میں ایک اجتماع سے خطاب میں کہا ہے کہ "آج کل ملک بھر میں ہماری فوج کی بہادری کے چرچے ہو رہے ہیں۔ ہم نے پہلے سنا تھا کہ اسرائیل نے بھی یہ کیا تھا۔ قوم نے دیکھا ہے کہ ہماری فوج کسی سے کم نہیں ہے۔ اسرائیل اپنے فوجی اسٹرائک  سے دشمن ملکوں اور انتہا پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے میں بہت مشہور ہے۔ " وزیر اعظم مودی کو شاید معلوم نہیں ہے کہ نہتے اور بے گناہ عربوں کے خلاف اسرائیل کے سرجیکل حملوں کی امریکہ کے علاوہ دنیا کے تقریباً  تمام مہذب ملکوں نے مذمت کی ہے۔ اس اسرائیلی جا حا ریت کا وزیر اعظم مودی پاکستان کے خلاف اپنی سرجیکل اسٹرائک سے موازنہ کر رہے ہیں۔ لیکن یہ بھول گیے ہیں کہ پاکستان ایٹمی ہتھیاروں سے اسی دن کے لئے مسلح ہے کہ ایک دن اسے بھارت کی سرجیکل اسٹرائک کا سامنا ہو گا۔ بھارت انتہا پسندی کا مقابلہ اگر انتہا پسند دانہ پالیسیوں سے کرے گا تو اسے بھی پھر انتفا دہ کا سامنا کرنا ہو گا۔ یہ بڑے تعجب کی بات ہے کہ وزیر اعظم مودی عربوں کے خلاف اسرائیل کے سرجیکل اسٹرائک کی تعریف کر رہے ہیں۔ نظریاتی مذہبی خواہ کسی بھی مذہب کا ہو Militant ہوتا ہے۔ اور نرندر مودی بھی اب کھل کر سامنے آ گیے ہیں۔ ان کے لب و لہجہ میں Meanness اور Militancy آ تی جا رہی ہے۔
    مودی حکومت کے وزیر دفاع Manohar Parrikar نے بڑے جلے کٹے لہجہ میں یہ کہا تھا کہ “going to Pakistan is the same as going to hell” (پاکستان جانا ایسا ہی ہے جیسے جہنم میں جانا ہے)  وزیر دفاع نے یہ اسلام آ باد میں سارک کانفرنس سے چند ہفتہ قبل کہا تھا۔ اور پھر چند ہفتہ بعد وزیر اعظم مودی نے اسلام آ باد میں سارک کانفرنس میں شرکت کے لئے آنے سے انکار کر دیا تھا اور دوسرے ملکوں کو بھی ان کے فیصلے کا تابعدار بننے کا کہا تھا۔ کسی کو انہوں نے اربوں ڈالر کی کریڈٹ لائن دینے کا اعلان کیا تھا۔ اور جو ہندو اور بدھ پرست ملک تھے انہیں بھارت کی قیادت میں متحد ہونے کا کہا تھا۔ جنوبی ایشیا میں پاکستان کو تنہا کرنے کی شاید یہ  ایک کوشش بھی تھی۔ اور یہ بہت ممکن ہے کہ بھارت اس مقصد سے سارک کو بھی ختم کر دے۔ اسلام آباد میں سارک کانفرنس میں شرکت سے بھارت پاکستان کا Stature بڑھانا نہیں چاہتا تھا۔
     وزیر اعظم مودی کے ان عزائم کی ایک جھلک BRICS کانفرنس کے دوران دیکھی گئی تھی۔ وزیر اعظم مودی سارک میں شامل ملکوں کے ساتھ  ایک نئے گروپ BIMSTEC کا تعارف کرا رہے تھے۔ اس گروپ میں بنگلہ دیش، انڈیا، مینمار، سری لنکا، نیپال، بھو ٹان، تھائی لینڈ شامل تھے۔ اور اس گروپ میں پاکستان کو شامل نہیں کر کے اسے تنہا کر دیا تھا۔ مودی حکومت BIMSTEC گروپ کو فروغ دینے میں دلچسپی لے رہی ہے۔ اس گروپ کے ذریعہ مودی حکومت  اہم عالمی اداروں میں بھارت کے لئے کرسی حاصل کرنے کی کوشش کرے گی۔ لیکن  بھارت جو سوچ رہا ہے شاید وہ پورا نہیں ہو سکے گا۔ BIMSTEC گروپ میں شامل ممالک چین کے بھی ہمسایہ ہیں۔ اور چین کے ساتھ ان کے گہرے اقتصادی مفادات ہیں۔ بھارت نے بنگلہ دیش کو 2 بلین ڈالر کی کریڈٹ لائن دی تھی۔ لیکن صدر شی جن پنگ نے اپنے حالیہ دورہ بنگلہ دیش میں حکومت کو 24 بلین ڈالر دینے کا اعلان کیا ہے۔ اور بنگلہ دیش کی اقتصادی ترقی میں سرمایہ کاری کے سمجھوتے بھی کیے ہیں۔ سری لنکا اور تھائی لینڈ کے ساتھ بھی چین کے قریبی تعلقات  ہیں۔ چین سری لنکا میں بھی بندر گاہ تعمیر کر رہا ہے۔ آس خطہ کی جغرافیہ می  نرندر مودی کے عزائم کبھی پورے نہیں ہو ں گے۔


                                      

Monday, October 17, 2016

The Meddling And Hacking In America’s Election

The War On Terror And “Poor” Pakistan
The Meddling And Hacking In America’s Election
 Osama Bin Laden Had Meddled In The 2004 Election By Releasing His Video A Few Days Before The Election And John Kerry Had Lost The Election, Now President Putin Is Meddling In America’s Election



مجیب خان   

     ویکی لیکس نے حال ہی میں سابق سیکرٹیری آف اسٹیٹ ہلری کلنٹن کی دو ہزار ای میل جاری کی ہیں۔ اگست 2014 میں سیکرٹیری ہلری کلنٹن نے جان پوڈیسٹا (John Podesta) کو جو سابق صدر بل کلنٹن کی انتظامیہ میں شامل تھے اور اب سیکرٹیری ہلری کلنٹن کی صدارتی مہم کے چیرمین ہیں، 9 پوائنٹ ای میل میں قطر اور سعودی عرب کو اسلامی ریاست دہشت گرد گروپ کو فنڈ فراہم کرنے کا الزام دیتے ہوۓ لکھا تھا کہ "ہمیں سفارتی اور زیادہ روایتی انٹیلی جنس اثاثوں کو قطر اور سعودی عرب کی حکومتوں پر دباؤ بڑھانے کے لئے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ جو خطہ میں داعش اور دوسرے سنی گروپوں کی مالی اور لوجسٹک معاونت کر رہے ہیں۔" ہلری کلنٹن نے اپنے ان الزام کی حمایت میں مغربی انٹیلی جنس، امریکی انٹیلی جنس اور خطہ میں دوسرے ذرائع کے حوالے بھی دئیے تھے۔ تاہم سعودی عرب اور قطر نے ان الزامات کو بد خواہ جھوٹ کہا ہے۔
     دسمبر 2009 کے ایک خفیہ ممیو میں جس پر سیکرٹیری آف اسٹیٹ ہلری کلنٹن کے دستخط تھے۔ اور ویکی لیکس نے یہ ممیو بھی جاری کیا ہے۔ "سعودی عرب القاعدہ، طالبان، لشکر طیبہ اور دوسرے دہشت گروپوں کی مالی معاونت کا ابھی تک ایک اہم ذریعہ ہے۔ اور اس سلسلے میں زیادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ممیو میں امریکی سفارت کاروں سے خلیج کی دولت پاکستان اور افغانستان میں انتہا پسندوں تک پہنچنے سے روکنے کے لئے کوششیں دگنی کرنے پر زور دیا تھا۔ سعودی عرب میں چندے دینے والے موجود ہیں جو دنیا بھر میں سنی دہشت گردوں کی فنڈنگ کرنے کا ایک نمایاں ذریعہ ہیں۔" اس ممیو میں ہلری کلنٹن نے لکھا تھا سعودی عرب کے علاوہ قطر، کویت اور متحدہ عرب امارات بھی انتہا پسندوں کی فنڈنگ کرنے کی فہرست میں شامل تھے۔ ممیو میں یہ نشاندہی بھی کی گئی تھی کہ اکثر پاکستانی اور افغان تنازعوں میں اس پہلو کو نظر انداز کر دیا جاتا تھا کہ تشدد میں کسی قدر مالدار، قدامت پسند عطیہ دینے والوں نے جو خزانے کھول دئیے تھے اس کا بھی ایک بڑا حصہ تھا۔ اور ان کی حکومتوں نے انہیں روکنے میں بہت کم اقدام کیے تھے۔
     خلیج میں امریکہ کے لئے ایک دوسرا بڑا سر درد متحدہ عرب امارات تھا۔ افغان طالبان اور ان کے جنگجو ساتھیوں حقانی نیٹ ورک کے نمایاں فنڈ متحدہ عرب امارات میں مقیم کاروباروں سے جمع کیے جاتے تھے۔ ویکی لیکس نے جو ممیو جاری کیے تھے اس میں ایک رپورٹ کے مطابق طالبان متحدہ عرب امارات میں مقیم ایک بہت بڑی پشتون آبادی سے یہ رقمیں اکٹھی کرتے تھے۔ متحدہ عرب امارات میں تقریباً ایک لاکھ پچاس ہزار افغان تھے۔ اور ایک ملین کے قریب پاکستانی آباد تھے۔ اور وہ دوبئی میں پشتون تاجروں یا ان کے رشتہ داروں کو اغوا کر کے بھاری رقمیں جمع کر لیتے تھے۔ متحدہ عرب امارات میں بعض افغان تاجر پاکستان یا افغانستان پہنچنے پر اغوا ہو جانے  کے امکان کو محدود رکھنے کی غرض سے اپنی روانگی کے روز ٹکٹ خریدتے تھے۔
     گزشتہ جنوری میں امریکی انٹیلی جنس ذرائع کا کہنا تھا فنڈ جمع کرنے والے دو سینیئر طالبان باقاعدگی سے متحدہ عرب امارات آتے تھے۔ جہاں طالبان اور حقانی نیٹ ورک مقامی کمپنیوں کے ذریعے منی لانڈرنگ کرتے تھے۔ رپورٹ میں حاجی خلیل زاد ران کی کابل میں حقانی نیٹ ورک کا سہولت کار ہونے کی نشاندہی کی تھی۔ لیکن ہلری کلنٹن کو شکایت یہ تھی کہ یہ یقین کرنا بہت مشکل تھا۔ متحدہ عرب امارات کے اقتصادی ریگولیشن کمزور تھے۔ اور سرحدیں مسام دار تھیں۔ جس میں تحقیقات کرنے والے امریکیوں کے پاس طالبان اور لشکر طیبہ کے سہولت کاروں کی شناخت کرنے کے بارے میں بہت محدود معلومات رہ گئی تھیں۔ ہلری کلنٹن نے کہا "سرحدوں کو کنٹرول کرنے کے ناقص نظام کا طالبان ہرکارے اور منشیات لار ڈز تاجروں بزنس مین اور تارکین ورکروں کے ساتھ گھل مل کر اس کا استحصال کرتے تھے۔ امریکہ اور متحدہ عرب امارات کے حکام فنڈ کے بہاؤ کو روکنے اور کیش ہر کاروں  اور اسمگلروں کو پکڑنے کی  کوششوں میں جو بڑی بھاری رقمیں یہاں سے پاکستان اور افغانستان لے جاتے تھے ناکام ہو گیے تھے۔
     سیکرٹیری آف اسٹیٹ ہلری کلنٹن کی یہ چند ای میل ہیں۔ جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اوبامہ انتظامیہ کے علم میں یہ تھا کہ قطر اور سعودی عرب طالبان حقانی نیٹ ورک لشکر طیبہ اور داعش کو کس طرح فنڈنگ کی سہولیتیں فراہم کر رہے تھے۔ پاکستان کے قبائلی دروں میں حقانی نیٹ ورک کو زندہ رکھنے کی آکسیجن خلیج سے جا رہی تھی۔ جہاں امریکہ کا سب سے بڑا بحری اڈہ تھا۔ اور یہاں افغانستان اور عرب دنیا میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ کا کمانڈ و کنٹرول بھی تھا۔ ہلری کلنٹن کی ان ای میل کا جائزہ لینے کے بعد یہ تعین کرنا ایک معمہ ہو گیا ہے کہ اوبامہ انتظامیہ پاکستان اور افغانستان میں  دہشت گردی کے خلاف اسلام آباد کی مدد کر رہی تھی۔ یا قطر اور سعودی عرب کی طالبان حقانی نیٹ ورک لشکر طیبہ کو پاکستان پر مسلط رکھنے میں رہنمائی کی جا رہی تھی۔ تاکہ پاکستان کے عصاب پر ان دہشت گردوں کو سوار رکھا جاۓ اور پھر دوسری طرف پاکستان کو ان دہشت گردوں کو ختم کرنے کے دباؤ میں رکھا جاۓ۔ اس میں بھارت کا کردار دنیا میں پاکستان کو دہشت گرد ہونے کا شور مچانا ہے۔ امریکہ کا کام دہشت گردوں کا خاتمہ کرنے کے لئے پاکستان کو دباؤ میں رکھنا ہے۔ قطر اور سعودی عرب کا کام دہشت گردوں کو فنڈنگ کی سہولیتیں فراہم کرنا ہے۔  بھارت کی دو سابقہ حکومتیں باجپائی اور من موہن سنگھ یہ شور مچا کر چلی گئی ہیں۔ اور اب مودی حکومت بھی پاکستان دہشت گرد ہے کا شور مچا رہی ہے۔ سابق صدر بش دہشت گردی کی جنگ میں ناکامی کی فائلیں بغل میں دبا کر وائٹ ہاؤس سے گیے ہیں۔ اور اب صدر اوبامہ بھی دہشت گردی کی جنگ میں بری طرح ناکام ہونے کے بعد جا نے والے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دہشت گردی کی جنگ میں امریکہ کے کتنے گہرے مفاد ہیں۔ دو صدر اس جنگ میں ناکام ہو کر گیے ہیں۔ اور اب تیسرا صدر بھی اس جنگ کو اسی طرح جاری ر کھے گا؟
     قطر میں ایک لاکھ پچاس ہزار افغان تھے۔ قطر نے طالبان کو آفس کھولنے کی اجازت دے دی تھی۔ طالبان کو آفس کھولنے کی اجازت دینے کے پیچھے کیا مقاصد تھے؟ قطر میں مقیم افغانوں میں کتنی بڑی تعداد طالبان کی تھی؟ جو افغانستان کے لئے مسئلہ بنے ہوۓ تھے۔ اور پاکستان کے لئے بھی مسلسل مشکلات پیدا کر رہے تھے۔ اس بات کو بھی خصوصی طور پر نوٹ کیا گیا تھا کہ قطر میں طالبان کا آفس کھلنے کے بعد کوئٹہ اور پشاور میں دہشت گردی کے انتہائی خوفناک واقعات میں اضافہ ہوا تھا۔ کوئٹہ میں شیعہ ہزارہ آبادی کو انتہائی بیدردی سے قتل کیا گیا تھا۔ کوئٹہ میں بموں کے دھماکوں میں سینکڑوں بے گناہ لوگ مارے گیے تھے۔ قطر سے یہ طالبان کوئٹہ آتے تھے۔ قطر سے پشاور بھی جاتے تھے۔ پھر کوئٹہ سے افغانستان جاتے تھے۔ اور پھر کابل اور افغانستان کے شہروں میں دھماکے کرتے تھے۔ افغان حکومت پاکستان کو الزام دیتی تھی کہ یہ پاکستان سے آتے ہیں۔ پاکستان میں سیاسی رہنما جو حکومت کر کے گیے ہیں اور جو حکومت میں ہیں اور جو حکومت سے باہر بیٹھے ہیں۔ جب وہ یہ سنتے ہیں کہ ساری دنیا ہمیں دہشت گردوں کی پشت پنا ہی کرنے کے الزام دے رہی ہے تو وہ سر کھو جانے لگتے ہیں۔ اور پھر وہ فوج سے Do more کرنے لگتے ہیں۔ کیونکہ متحدہ عرب امارات میں ان سب کے ذاتی مفادات ہیں۔ ان کے بچوں کا یہاں محفوظ مستقبل ہے اس لئے قطر سے کبھی اس مسئلہ پر بات نہیں کریں گے۔
      ری پبلیکن پارٹی اور ڈیموکریٹک پارٹی کی 16 سال سے حکومت کی یہ پالیسیاں ہیں جن کا رد عمل اس صدارتی انتخابات میں دیکھا جا رہا ہے۔ ایسے الیکشن امریکہ کی 240 سال کی تاریخ میں کبھی نہیں دیکھے گیے تھے۔ دونوں پارٹیاں عوام میں اپنی ساکھ اور اعتماد تقریباً کھو چکی ہیں۔ امریکہ میں اگر آج تیسری پارٹی ہوتی تو اس الیکشن میں بڑی بھاری اکثریت سے کامیاب ہو جاتی۔ امریکی عوام کی ایک بھاری تعداد اس وقت بھی ڈونالڈ ٹرمپ کے ساتھ ہے۔ دونوں پارٹیوں کی ساری مشین ڈونالڈ ٹرمپ کو گرانے پر لگی ہوئی ہے۔ امریکی میڈیا بھی اب کھل کر ڈونالڈ ٹرمپ کے خلاف الیکشن مہم میں شامل ہو گیا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ، نیویارک ٹائمز نے کئی روز تک بڑے بڑے  ادارئیے بھی ڈونالڈ ٹرمپ کے خلاف لکھے ہیں۔ Arizona ، ہوسٹن اور ٹیکساس کے قدامت پسند تین اخباروں نے 100 سال میں کبھی ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار کو Endorse نہیں کیا تھا۔ لیکن اب Reluctantly ہلری  کلنٹن کو Endorse کیا ہے۔ ان اخباروں کے اس فیصلے پر Arizona ، ہویسٹن اور ٹیکساس کے لوگوں نے اخبار کا بائیکاٹ کر دیا ہے اور ان کا Subscription ختم کر دی ہے۔ امریکیوں کی ایک بڑی تعداد یہ سمجھتی ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ ری پبلیکن ہیں اور نہ ہی ڈیموکریٹ ہیں۔ اس لئے لوگوں کو ان سے بڑی توقعات ہیں۔ پھر امریکی عوام کی ایک اچھی خاصی تعداد ہلری کلنٹن کو اور نہ ہی ڈونالڈ ٹرمپ کو ووٹ دینے کے حق میں ہے۔ یہ دونوں کو اچھا نہیں سمجھتے ہیں۔ یہ صورت حال دیکھ کر اس وقت صدر اوبامہ نائب صدر بائڈن خاتون اول مشعل اوبامہ سابق صدر بل کلنٹن سابق نائب صدر الگور سب ہلری کلنٹن کے لئے مہم میں شامل ہو گیے ہیں۔
     16 سال سے مسلسل جنگوں اور ان جنگوں میں ناکامیوں نے امریکہ کو بھی جیسے تیسری دنیا کا ملک بنا دیا ہے۔ امریکہ ہمیشہ تیسری دنیا کے ملکوں کے انتخابات میں مداخلت کرتا تھا۔ لیکن اب روس امریکہ کے انتخابات میں مداخلت کر رہا ہے۔ اور یہ صدر اوبامہ کا کہنا ہے۔ صدر پوتن ڈیموکریٹک پارٹی کی Hacking کر رہے ہیں۔ اوبامہ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ صدر پوتن ڈونالڈ ٹرمپ کو امریکہ کا صدر دیکھنا چاہتے ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں کئی بار صدر پوتن کی تعریف کی تھی اور کہا تھا کہ صدر منتخب ہونے کے بعد وہ صدر پوتن کے ساتھ مل کر کام کريں گے۔ اور وہ روس کو دشمن نہیں سمجھتے ہیں۔ اس لئے یہ کہا جا رہا ہے کہ صدر پوتن امریکہ کے انتخابات میں مداخلت کر رہے ہیں۔ 2004 کے صدارتی انتخابات میں یہ اسامہ بن لادن تھا جو اس وقت انتخبات میں مداخلت کر رہا تھا۔ اور Hacking کر رہا تھا۔ صدارتی انتخابات کی مہم کے دوران بن لادن کے وڈیو بریکنگ نیوز بنے تھے۔ بن لادن کی اس مداخلت کے نتیجے میں جان کیری صدارتی الیکشن ہار گیے تھے۔ اور صدر جارج بش دوبارہ صدر منتخب ہو گیے تھے۔        
     میرے خیال میں ہلری کلنٹن پاکستان کے لئے زیادہ بہتر ہوں گی۔ دہشت گردی طالبان لشکر طیبہ حقانی نیٹ ورک قطر اور سعودی عرب کے بارے میں ان کی ای میل سے صورت حال پر ان کی بہتر ہم آہنگی ہونے کا پتہ چلتا ہے۔ ویسے بھی جب وہ سیکرٹیری آف اسٹیٹ تھیں انہوں نے سینٹ کی فارن ریلیشنزکمیٹی میں بڑے Blunt لہجے میں کہا تھا کہ یہ ہم تھے ہم نے سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں جہادیوں کو تربیت دی تھی۔ اور طالبان پیدا کیے تھے۔ اور پھر ہم انہیں چھوڑ کر آ گیے تھے۔ یہ اس خطہ کے حالات کے بارے میں جس میں پاکستان اور افغانستان پھنسے ہوۓ ہلری کلنٹن کی بڑی گہری Understanding ہونے کے ثبوت ہیں۔                                   

Tuesday, October 11, 2016

The Middle East: America’s Hard Power, Arab Rulers' Iron Fist, Israel’s Aggression

    
The Middle East: America’s Hard Power, Arab Rulers' Iron Fist, Israel’s Aggression  
“In The Middle East Every War Is A War Crime”

مجیب خان
  
Secretary of State John Kerry and Russian Foreign Minister Sergei Lavrov


War-torn Aleppo

Children of Syria


       ایک ہفتہ میں دوسری بار روس نے امریکہ کو شام میں حکومت کے ملٹری ائربیس فیلڈ پر کارپٹ بمباری کرنے سے متنبہ کیا ہے۔ روس کے وزیر خارجہ Sergei Lavrov نے کہا ہے "اگر امریکہ نے یہ فیصلہ کیا تو پھر روس کے پاس شام میں اپنے اثاثوں کا دفاع کرنے کے تمام وسائل ہیں۔" وزیر خارجہ Sergei Lavrov نے کہا "روس کو شام میں بہت خطرناک کھیل دیا گیا ہے۔ شام کی قانونی حکومت کی درخواست پر روس یہاں آیا ہے۔ اور یہاں روس کے دو اڈے ہیں۔ اور اس نے اپنے اثاثوں کا دفاع کرنے کے لئے ائرڈیفنس بھی حاصل کر لیا ہے۔" وزیر خارجہ نے کہا "انہیں یقین ہے کہ صدر اوبامہ اس منظر سے اتفاق نہیں کریں گے۔" اس سے قبل روس کی وزارت دفاع کے ترجمان میجر جنرل Igor Konashenkov نے بھی امریکہ کو متنبہ کیا ہے کہ وہ شام کے صدر بشرالسد کی حامی فوجوں کے خلاف کوئی فوجی مداخلت نہیں کرے۔ اور امریکہ کو یہ بھی بتا دیا ہے کہ اگر کسی طیارے نے یہ حملہ کرنے کوشش کی تو اسے گرا دیا جاۓ گا۔ وزارت دفاع کے ترجمان نے بڑے دو ٹوک لفظوں میں بیان میں کہا کہ روس اور حکومت شام نے کسی بھی امکانی حملوں کو روکنے کے لئے کافی ائر ڈیفنس نصب کر دئیے ہیں۔
     مشرق وسطی میں یہ بہت خطرناک صورت ہوتی جا رہی ہے۔ جس کے شام میں خانہ جنگی سے بھی زیادہ خطرناک اثرات ہوں گے۔ چھ سال قبل شام میں جب خانہ جنگی کو فروغ دیا جا رہا تھا۔ اس وقت اوبامہ انتظامیہ نے یہ سوچا بھی نہیں ہو گا کہ شام میں روس امریکہ کے مدمقابل کھڑا ہو گا۔ اور امریکہ کو متنبہ کر رہا ہو گا۔ اور یہ عرب حکمرانوں کے  ساتھ  شام میں خانہ جنگی کو طول دینے کے نتائج ہیں۔ شام میں صرف شیعہ سنی ہی مسئلہ نہیں تھا۔ Orthodox عیسائیت کی بھی شام میں ایک قدیم تاریخ ہے۔ روس میں کمیونزم ختم ہونے کے بعد Orthodox چرچ کا کریملن پر خاصا انفلوئنس ہے۔ اور روس کی فوجیں شام میں خانہ جنگی کے کرائم سے انسانیت کو بچانے کے علاوہ Orthodox عیسائیت کی ہزار سال کی تاریخ کو بھی بچانے آئی ہیں۔ جسے شام میں وہابی اور سلا فسٹ جنہیں خلیج کی ریاستوں کی حمایت حاصل ہے اور اوبامہ انتظامیہ شام کی خانہ جنگی میں ان کی ایک اہم اتحادی ہے، Orthodox عیسائیت کی قدیم تاریخ کی تمام نشانیوں کو تباہ کر رہے ہیں۔ تاریخ کے ساتھ انسانیت کا ایک گہرا رشتہ ہوتا ہے۔ اور تاریخ کے بغیر انسانیت کا وجود بے معنی ہو جاتا ہے۔ مشرق وسطی کی اس قدیم تاریخ کے بارے میں بش انتظامیہ کو کوئی علم تھا اور نہ ہی اوبامہ انتظامیہ اس سے واقف ہے۔ اردن کے شاہ عبداللہ نے ایک امریکی ٹی وی پروگرام میں یہ درست کہا ہے کہ امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ مشرق وسطی کے بارے میں سب کچھ جانتا ہے۔ لیکن حقیقت میں امریکہ مشرق وسطی کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ مشرق وسطی کے وسط میں روس امریکہ کے مد مقابل آ گیا ہے۔ اور امریکہ اب روس کو مشرق وسطی سے نکالنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہے۔ امریکہ کو مشرق وسطی میں استحکام کے لئے روس کے ساتھ تعاون کرنا ہو گا یا مشرق وسطی چھوڑ کر جانا ہو گا؟ امریکہ کے تھنک ٹینکس میں برصغیر میں بھارت اور پاکستان دو ایٹمی طاقتوں میں بڑھتی ہوئی کشیدگی پر تشویش ہو رہی تھی۔ لیکن مشرق وسطی میں دنیا کی دو عالمی ایٹمی طاقتیں شام میں ایک دوسرے کے مدمقابل آ گئی ہیں۔ اور جنگ کی باتیں ہو رہی ہیں۔ یہ صورت حال برصغیر کی صورت حال سے زیادہ خطرناک ہے۔
     پچھلے ماہ 11 ستمبر کو نائن الیون کی 15 ویں Anniversary منائی گئی تھی۔ نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو جنہوں نے زمین بوس ہوتے دیکھا تھا۔ اور ور لڈ ٹریڈ سینٹر کی کھڑکیوں سے لوگوں کو اپنی جانیں بچانے کے لئے چھلانگیں لگاتے دیکھا تھا۔ تین ہزار لوگ اس ملبے میں دب کر ہلاک ہو گیے تھے۔ ان کی نظروں کے سامنے آج بھی یہ ہولناک مناظر ہیں۔ اور شام میں ہر عمارت اور گھروں کا ملبہ ٹریڈ سینٹر کا ملبہ ہے۔ جس میں 500,000 مرد، عورتیں، بچے، بوڑھے ہلاک ہو گیے ہیں۔ اور جو زندہ تھے وہ شام سے اپنی جانیں بچانے کے لئے بھاگ رہے تھے۔ سمندروں میں شامیوں سے بھری کشتیاں الٹ رہی تھیں۔ مردوں عورتوں اور بچوں کی لاشیں سمندر کی لہروں میں دیکھی جا رہی تھیں۔ شامی کشتیوں سے چھلانگیں لگا رہے تھے۔ دنیا کے لئے یہ مناظر بھی نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ہولناک مناظر سے کسی طرح کم تکلیف دہ نہیں تھے۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کا ملبہ دیکھ کر اور تین ہزار لوگوں کے ہلاک ہونے سے دنیا بھر میں امریکہ سے یکجہتی اور حمایت کا جذبہ دیکھا گیا تھا۔ اب انہیں شام میں عمارتوں اور گھروں کے ملبے اور لاکھوں شامیوں کی ہولناک اموات، معصوم بچوں کی دریاؤں میں تیرتی لاشیں دیکھ کر شام کی خانہ جنگی میں امریکہ کے رول پر سخت غصہ ہے۔ امریکہ میں بھی لوگوں میں یہ غصہ ہے۔ امریکہ کے صدارتی انتخابات میں لوگوں کا یہ غصہ دیکھا جا رہا ہے۔
     امریکہ ایک جمہوری ملک اور اس کے غیر جمہوری عرب اتحادی، امریکہ کی Hard Power اور اس کے عرب اتحادیوں کا Iron Fist شام میں تباہی پھیلانے کے ذمہ دار ہیں۔  یہ بنیادی سبب ہے جس نے روس کو شام میں مداخلت کرنے پر مجبور کیا ہے۔ روس عراق میں نہیں آیا تھا۔ روس لیبیا میں نہیں گیا ہے۔ لیکن روس کو شام میں جنگ بندی ختم کرانے اور انسانیت کو بچانے کے لئے آنا پڑا ہے۔ یہ امریکہ اور مغربی طاقتیں تھیں جنہوں نے باسنیا، رؤنڈا Rwanda اور کانگو میں تقریباً 6 ملین لوگ جنگ اور Genocide کے نتیجے میں ہلاک ہونے اور بر وقت مداخلت کر کے  انہیں بچانے میں اپنی ناکامی کا اعتراف کیا تھا۔ اور پھر یہ عہد کیا تھا کہ آئندہ انسانیت کے خلاف جب بھی جرائم کی ابتدا ہو گی وہاں فوری مداخلت کی جاۓ گی۔ لیکن شام میں ان مغربی طاقتوں نے اپنے اس عہد کے بر خلاف مداخلت کی ہے۔ اور انسانیت کے خلاف جرائم کرنے والوں کی مدد کی ہے۔ انہیں ہتھیار دئیے ہیں۔ انہیں دمشق حکومت کے حامی شہریوں سے لڑنے کی تربیت دی ہے۔ آزاد فلسطین آرمی کو ہمیشہ دہشت گرد کہا گیا ہے اور اسرائیلی شہریوں کو ہلاک کرنے اور ان کی املاک تباہ کرنے کی دنیا کے ہر پلیٹ فارم سے مذمت کی جاتی تھی۔ لیکن آزاد شامی آرمی کے شامی شہریوں کو ہلاک کرنے اور ان کی املاک تباہ کرنے کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ اور اوبامہ انتظامیہ نے ان کے ماڈریٹ ہونے کا فتوی جاری کیا تھا۔ لیکن جو عراق میں امریکی فوجی قبضہ کے خلاف فلوجہ اور رمادی میں لڑ رہے تھے وہ القاعدہ کے کیوں بتاۓ جاتے تھے؟ وہ آزاد عراقی آرمی کیوں نہیں تھے؟
     آزاد شامی آرمی سے شام میں داعش وجود میں آیا ہے۔ ایک درجن سے زیادہ دوسرے نئے انتہا پسند گروپ بھی وجود میں آۓ تھے۔ Ahrar al-Sham جو آزاد شامی آرمی کے بعد دوسرا بڑا گروپ تھا۔ یہ ایک سخت گیر نظریاتی گروپ تھا۔ فتح الشام جہادی گروپ سے اس کا اتحاد تھا۔ یہ گروپ Aleppo اورIdlib صوبوں پر قابض تھے۔ ایک دوسرا اہم اپوزیشن گروپ جیش الا اسلام تھا۔ سعودی عرب اس گروپ کی پشت پر تھا۔ شام میں سابق القاعدہ کی اس گروپ سے وابستگی تھی۔ ان میں النصرہ فرنٹ بھی شامل تھا۔ لیکن پھر النصرہ فرنٹ نے اس گروپ سے فاصلے پیدا کر کے  یہ ثابت کرنا شروع کر دیا تھا کہ اس کا عالمی جہادیوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اوبامہ انتظامیہ نے داعش کے خلاف شامی کردوں کو مسلح کرنا شروع کر دیا تھا۔ آزاد شامی آرمی کو اسد حکومت کے خلاف مسلح کیا تھا۔ پھر ان گروپوں کے درمیان خانہ جنگی ہونے لگی تھی۔ کچھ گروپ داعش سے علیحدہ ہو گیے تھے۔ کچھ گروپ داعش سے مل گیے تھے۔ ان گروپوں کے درمیان محاذ آرا ئی کے نتیجے میں بھی ہزاروں شامی مارے گیے تھے۔ ہزاروں شامی شام سے بھاگ رہے تھے۔ صدر اوبامہ کی Red Line سے پیچھے ہٹنے کی وجہ بھی یہ تھی کہ ایک درجن انتہا پسند اور باغی گروپوں کے درمیان امریکی فوجیں گھر جاتیں۔ جبکہ یہ گروپ امریکہ کے فراہم کردہ ہتھیاروں سے مسلح تھے۔ اور ان کے پاس بڑی مقدار میں اسلحہ تھا۔ جس اسلحہ سے یہ اسد حکومت کے خلاف لڑ رہے تھے۔ وہ پھر امریکی فوجوں کے خلاف استعمال ہونے لگتے۔ اس لئے صدر اوبامہ نے Red Line پر امریکہ میں اپنے مخالفین کی تنقید کو قبول کر لیا تھا۔ لیکن فوجیں شام نہیں بھیجی تھیں۔
     شام میں روسی فوجیں آنے سے اسد حکومت کے خلاف خانہ جنگی کا نقشہ پلٹ گیا تھا۔ خانہ جنگی کو جو کردار Patronize کر رہے تھے۔ ان کے منصوبے بھی الٹ گیے تھے۔ امریکہ اور روس میں شام میں خانہ جنگی ختم کرنے پر ہم آہنگی ہو گئی تھی۔ پھر جنگ بندی پر سمجھوتہ بھی ہو گیا تھا۔ جنگ بندی سے اسد حکومت کو ایک نئی زندگی مل گئی تھی۔ لیکن باغی گروپ جنگ بندی معاہدے سے زیادہ خوش نہیں تھے۔ سعودی عرب بھی اوبامہ انتظامیہ کی اس پالیسی میں تبدیلی سے خوش نہیں تھا۔ باغیوں کا کہنا تھا کہ امریکہ نے انہیں دھوکہ دیا ہے۔ انتہا پسندوں اور باغی گروپوں کی بڑی تعداد Aleppo اور Idlib صوبوں میں تھی۔ اسد حکومت کی فوجوں نے Idlib کا محاصرہ کیا ہوا تھا۔ یہاں النصرہ اور دوسرے جہادی گروپوں کا قبضہ تھا۔ انہیں اسد حکومت کی فوجوں کے محاصرہ سے نکالنے کے لئے عرب اتحادیوں کا امریکہ پر دباؤ بڑھ رہا تھا۔ ایک انتہائی پیچیدہ خانہ جنگی میں جو باغیوں کو Patronize کرتے ہیں ان کے لئے پھر مشکل فیصلے کرنا اور زیادہ مشکل ہو جاتا ہے۔ گزشتہ ماہ Idlib کے قریب امریکی طیاروں کی بمباری سے شام کے 60 فوجی ہلاک ہو گیے تھے۔ اور سو سے زیادہ فوجی زخمی ہو گیے تھے۔ روس اس پر خاصا برہم تھا۔ شام کی حکومت نے اسے ایک Deliberate کاروائی قرار دیا تھا۔ اوبامہ انتظامیہ کے ترجمان نے اس پر افسوس کا اظہار کیا تھا اور اس واقعہ کی تحقیقات کرنے کا کہا تھا۔
     اس واقعہ کے کچھ روز بعد اقوام متحدہ کے  Convoys پر جو Aleppo میں محصور لوگوں کے لئے خوراک اور ادویات لے کر جا رہے تھے، بمباری سے 20 افراد ہلاک کر دئیے تھے۔ امریکی حکام نے شام میں اقوام متحدہ کے Convoys پر بمباری کا روس کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ جبکہ اسد حکومت نے اس واقعہ میں ملوث ہونے سے انکار کیا تھا۔ اور اپوزیشن گروپوں کو الزام دیا تھا۔ اسد حکومت کا کہنا تھا کہ یہ Convoys انتہا پسندوں کے علاقہ میں تھے۔ جو دہشت گردوں کے کنٹرول میں ہے۔ اور ہمیں کچھ معلوم نہیں ہے کہ کیا ہوا تھا۔ روس اور اسد حکومت Aleppo میں دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے ٹھکانوں پر مسلسل بمباری کر رہے ہیں۔ اور Aleppo پر حکومت کا کنٹرول بحال کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ امریکہ کو اس بمباری مہم پر شدید اعتراض ہے۔ اور روس سے کئی بار یہ بمباری بند کرنے کی درخواست کی ہے۔ گزشتہ ہفتہ روس اور امریکہ کے وزراۓ خارجہ کے درمیان اس پر مذاکرات ناکام ہو جانے کے بعد سیکرٹیری آف اسٹیٹ جان کیری نے شام میں جنگ بندی معاہدے پر روس کے ساتھ تعاون معطل کر دیا ہے۔ اور اقوام متحدہ سے روس کے خلاف جنگی جرائم کی تحقیقات کرانے کا کہا ہے۔ امریکہ اور روس میں شام کے مسئلہ پر یہ خطرناک کشیدگی دنیا کو 60 کی دہائی میں لے آئی ہے کہ جب کیوبا میزائل بحران پر امریکہ نے سوویت یونین کے کیوبا میں ایٹمی میزائل نصب کرنے کے فیصلے پر سخت دھمکی دی تھی۔
     روس اور امریکہ میں شام میں جنگی بندی معاہدے میں روس کے ساتھ تعاون کرنے کی شق سے سیکرٹیری دفاع ایشٹن کارٹر  اتفاق نہیں کرتے ہیں۔ اور انہوں نے روس سے تعاون کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے Convoys پر بمباری اور Idlib کے قریب شامی فوج پر امریکی طیاروں کی بمباری جس میں شام کے 60 فوجی مارے گیے تھے۔ روس کے ساتھ اس معاہدے کو سبوتاژ کرنے کی سازش سمجھا جا رہا ہے۔ امریکہ ایک بار پھر روس کو دشمن بنانے کے راستے پر لے آیا ہے۔