What Has The World Learned From Iraq?
?Why Is America Not In Favor of A Nuclear Weapons-Free Middle East
مجیب خان
?Why Is America Not In Favor of A Nuclear Weapons-Free Middle East
مجیب خان
Iranian President Hassan Rouhani meets with Pope Francis |
Prime Minister Benjamin Netanyahu |
Israeli Settlements near West Bank |
Nearly one-third of Al- Walajas land has been confiscated by the Israel |
اسرائیلی
رہنما یہ کہتے ہیں کہ اسرائیل ہر طرف سے خطرناک ہمسائیوں میں گھرا ہوا ہے۔ لیکن اس وقت اسرائیل کے ان خطرناک ہمسائیوں میں
امن اور استحکام تھا۔ اور اب اسرائیل کے لئے ہمسایہ شاید خطرناک نہیں ہیں۔ کیونکہ
یہ ہمسایہ اندرونی طور پر خطرناک عدم امن اور عدم استحکام میں گھرے ہوۓ ہیں۔ لیکن
اسرائیل کو اپنے ہمسایہ میں خطرناک عدم امن اور عدم استحکام کا اتنا خوف نہیں کہ جتنا اسرائیل کو ایران سے
خطرہ ہے۔ جو اسرائیل کا ہمسایہ نہیں ہے۔ ایران خلیج کے حکمرانوں کا ہمسایہ ہے۔ یہ
سنی حکمران ہیں۔ جن کے ساتھ اسرائیل نے اپنے مفاد میں خیر سگالی کا سمجھوتہ کر لیا
ہے۔ جس کے بعد یہ سنی عرب حکمران بھی ایران کو خطرہ کہنے لگے ہیں۔ عراق کے حالات
سے اسرائیلی بہت خوش ہیں۔ انہیں شاید یقین
ہو گیا ہے کہ عراق شیعہ سنی لڑائی کے Shackle سے برسوں نہیں نکل سکے گا۔ خلیج
کے سنی حکمرانوں نے امریکہ کی مدد سے شام کو Ground Zero کر
دیا ہے۔ اور یہ بھی اسرائیل کے مفاد میں خوش آئند ہوا ہے۔ اب اگر ایران کو بھی شام
اور عراق کی طرح بنا دیا جاتا ہے۔ تو پھر اسرائیلی Kingdom مڈل ایسٹ سے Central Asia تک
قائم ہو جاۓ گی۔ اور اسرائیل کے ایٹمی ہتھیار اس Kingdom کی حفاظت میں
استعمال ہوں گے۔
عراق
میں صد ام حسین کے اقتدار میں رہنے کو اسرائیل نے اپنی سلامتی کے لئے بہت بڑا خطرہ
بنا دیا تھا۔ بش انتظامیہ نے عراق کے مہلک ہتھیاروں کو مشرق وسطی میں امریکہ اور
اس کے اتحادیوں کے لئے خطرہ بتایا تھا۔ برطانیہ کے وزیر اعظم ٹونی بلیر نے
پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ صد ام حسین اپنے ایٹمی ہتھیار تین سیکنڈ میں Assemble کر سکتے ہیں۔ اور برطانیہ کے خلاف استعمال کر
سکتے ہیں۔ امریکہ کے 6 ہزار اور برطانیہ کے 600 فوجیوں نے صد ام حسین سے امریکہ
اور اس کے اتحادیوں کو لاحق خطرہ سے نجات دلانے کے لئے اپنی جانیں دی تھیں۔ لیکن
پھر ثبوت یہ ملے کہ صد ام حسین کسی کے لئے بھی خطرہ نہیں تھے۔ اور عراق میں مہلک
ہتھیار بھی نہیں تھے۔ یہ صرف Phony اور
Fake
خطرہ تھا۔ اور امریکی اور مغربی میڈ یا کے ذریعے دنیا سے جھوٹ بولا گیا تھا۔ عربوں کو یہ Bull-shit دی گئی تھی کہ
فلسطین کے تنازعہ کے حل میں صد ام حسین ایک بڑی رکاوٹ ہیں اور صد ام حسین کا مسئلہ
حل ہونے کے بعد فلسطین کے تنازعہ کو حل کیا جاۓ گا۔ ایران کے بارے میں جھوٹ بولا جا رہا ہے۔ اور پراپگنڈہ Phony ہے۔
Zionism and Wahhabism is the Biggest Problem in the Middle East
لیکن
عراق میں ایک مسئلہ حل ہونے کے بعد دس نئے مسئلے پیدا ہو گیے ہیں۔ عراق عدم
استحکام ہو گیا ہے۔ انتشار فسادات اور دہشت گردی نے ڈکٹیٹر کے نظام کی جگہ لے لی
ہے۔ بش انتظامیہ افغانستان عراق اور القا عدہ کے ساتھ جنگوں میں الجھ گئی تھی۔
مقبوضہ فلسطین میں اسرائیل کے خلاف انتفا دہ شروع ہو گیا تھا۔ اسرائیلی حکومت نے
چیرمین یا سر عرفات کے ساتھ مذاکرات کے دروازے بند کر دئیے تھے۔ اور چیرمین یا سر
عرفات کو عالمی دہشت گرد کہنا شروع کر دیا تھا۔ لیکوڈ پارٹی کی درخواست پر بش
انتظامیہ نے بھی چیرمین یا سر عرفات سے تعلقات منقطع کر لئے تھے۔ اور فلسطینیوں سے
ایک نئی قیادت کے لئے اصرار کیا تھا۔ اس وقت تک
امریکہ نے بھی فلسطینیوں سے بات چیت بند کر دی تھی۔ یا سر عرفات دنیا چھوڑ
کر چلے گیے۔ فلسطینیوں نے ایک نئی قیادت کے لئے جمہوری راستہ اختیار کیا تھا۔ اور
انتخاب کر آۓ تھے۔ اقوام متحدہ اور یورپی یونین کے مندوبین کی موجودگی میں یہ
انتخاب ہوۓ تھے۔ سابق صدر کارٹر بھی ایک امریکی وفد کے ساتھ فلسطینی علاقوں میں
انتخاب کے موقع پر موجود تھے۔ اقوام متحدہ، یورپی یونین اور سابق صدر کارٹر نے
انتخاب صاف ستھرا ہونے کی تصدیق کی تھی۔ حماس 60 فیصد ووٹوں سے بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی
تھی۔ جبکہ پی ایل او دوسرے نمبر پر آئی تھی۔ اسرائیل نے انتخاب کے نتائج قبول کرنے
سے انکار کر دیا تھا۔ اور حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا تھا۔ بش انتظامیہ نے
حماس کے سلسلے میں اسرائیل کے فیصلہ کی پیروی کی تھی۔ لیکن پی ایل او کے نئے صدر
محمود عباس سے رابطہ رکھا تھا۔
16
سال میں دو امریکی انتظامیہ میں فلسطین تنازعہ کے حل میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی
ہے۔ لیکن Regime change کے
ذریعہ دہشت گردی کو فروغ دیا گیا ہے۔ دنیا کو دہشت گردی میں مصروف کر دیا ہے۔ اور
اسرائیل لاکھوں کی تعداد میں فلسطینیوں کی زمین پر نئی یہودی بستیاں تعمیر کرتا جا
رہا ہے۔ امن سے اسرائیل کو جیسے نفرت ہے۔ دنیا دہشت گردی کے خلاف struggle کر
رہی ہے۔ اسرائیل کو فلسطینیوں کے ساتھ امن میں پیشقدمی کرنا چاہیے تھی۔ لیکن
اسرائیلی حکومت دہشت گردی کے حالات کا exploit کرنے کی سیاست کر رہی ہے۔ جیسا کہ
وزیر اعظم نتھن یا ہو نے امریکہ پر نائن الیون کی دہشت کے واقعہ پر کہا تھا کہ
“We are benefiting from one thing and that is the attack of the Twin Towers and Pentagon and the American struggle in Iraq (The events) swung American Public opinion in our favor. 9/11 terror attacks good for Israel.”
16 April, 2008
Ma’ariv, Israeli Newspaper
اس میں شبہ نہیں ہے کہ نائن الیون کے امریکہ پر حملہ سے اسرائیل نے بھر پور فائدہ اٹھایا ہے۔ دنیا کی توجہ اسلامی دہشت گردی پر لگا دی ہے۔ فلسطین تنازعہ کو حل نہ کرنے میں 16 سال اور گزار دئیے ہیں۔ اس تنازعہ میں جتنا وقت گزر رہا ہے۔ اسرائیل اپنی پوزیشن مضبوط کرتا جا رہا ہے۔ عرب دنیا میں ان قوم پرست اور سیکولر حکومتوں کو تبدیل کرنے کی مہم چلائی گئی تھی۔ جو 30 سال سے اسلامی انتہا پسندوں سے لڑ رہی تھیں۔ اسرائیلیوں نے چیرمین یا سر عرفات کو کمزور کر دیا تھا۔ اور حماس کو ابھرنے کا موقعہ دیا تھا۔ اور پھر مقبوضہ فلسطین کے حالات کو اسرائیلی حکومت نے اپنے مفاد میں exploit کیا تھا۔ عرب اسپرنگ سے بھی اسرائیل نے فائدہ اٹھایا ہے۔ عرب اسپرنگ خلیج کے حکمرانوں کے مفاد میں تھا اور نہ ہی یہ اسرائیل کے مفاد میں تھا۔ اسرائیل کو ایران کے خلاف عرب حکمرانوں کی حمایت کی ضرورت تھی۔ اور عرب حکمرانوں کو عرب اسپرنگ سے نجات کے لئے اسرائیل کی مدد چاہیے تھی۔ اسرائیل نے عرب حکمرانوں کو عرب اسپرنگ سے نجات دلانے کا یقین دلایا تھا۔ اور عرب حکمرانوں نے ایران کے خلاف اسرائیل کے موقف کی حمایت کی تھی۔ سعودی شاہ عبداللہ مرحوم نے کہا کہ "ایران ایک زہریلا سانپ ہے اور اس کا سر کچل دیا جاۓ۔" اب اسرائیل اور سعودی عرب ایران کا سر کچلنے کی مہم چلا رہے ہیں۔
ایران کے اسلامی انقلاب کو 37 برس ہو گیے ہیں۔ لیکن ان 37 برسوں میں کہیں
بھی ایسے ثبوت نہیں ہیں کہ ایران نے اپنا اسلامی انقلاب عربوں پر مسلط کرنے کی
کوشش کی تھی۔ یا عرب ملکوں میں شیعہ آبادی کو عرب حکومتوں کے خلاف اکسایا تھا۔ شیعہ
سنی کا فساد امریکہ اور برطانیہ کے عراق پر حملہ نے پیدا کیا تھا۔ اور ان عرب
حکمرانوں نے عراق پر حملہ میں امریکہ اور برطانیہ کی مدد کی تھی۔ جبکہ ایران نے
عراق پر حملہ کی مخالفت کی تھی۔ اس صورت حال سے بھی اسرائیل نے فائدہ اٹھایا تھا۔
300 ملین کی آبادی کے عربوں کے خطہ میں 80 ملین کی آبادی کے ایران سے عربوں کو کس
خطرے کا سامنا ہے۔ شام کو نیو کلیر ہتھیاروں نے ہیروشیما اور ناگا ساکی نہیں بنایا
ہے۔ لیکن اسرائیل اور سعودی عرب ابھی تک ایران کے نیو کلیر پروگرام سے خطروں کی
بات کر رہے ہیں۔ حالانکہ ایران کے نیو کلیر پروگرام پر سمجھوتہ ہو گیا ہے۔ اقوام
متحدہ کی سلامتی کونسل نے اس کی توثیق کر دی ہے۔ اور اس پر عملدرامد ہو رہا ہے۔
اسرائیل کو ایران کے ایٹمی پروگرام پر اتنا وا ویلا کرنے کا حق نہیں ہے کیونکہ
اسرائیل خود ایٹمی ہتھیار بنا رہا ہے۔ تعجب کی بات ہے اسرائیل کے ساتھ عربوں کی
تین جنگیں ہوئی ہیں۔ اسرائیل عربوں کے علاقوں پر قابض ہے۔ جنگ کے حالات بدستور
عربوں پر منڈ لا رہے ہیں۔ لیکن سعودی عرب
اور دوسرے عرب حکمران مڈل ایسٹ کو ایٹمی ہتھیاروں سے آزاد خطہ قرار دینے کا مطالبہ
کیوں نہیں کر رہے ہیں۔ حالانکہ ایران اس کی حمایت میں ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ
اسرائیل کو فلسطین کا تنازعہ حل نہ کرنے اور عربوں کے علاقوں پر قبضہ رکھنے کے لئے
اس خطہ میں ایسے دشمن ہونا ضروری ہیں جن سے دنیا کے لئے خطرہ بتایا جاۓ اور پھر
دنیا کی توجہ ان سے نمٹنے پر لگی رہے۔ امریکہ نے مڈل ایسٹ میں کب درست فیصلے کیے
ہیں۔ امریکہ کے مڈل ایسٹ میں غلط فیصلے اسرائیل کے لئے درست فیصلے ہوتے ہیں۔
اسرائیل کے وزیر اعظم بنجیمن نتھن یا ہو نے اپنے فیس بک پر ایرانی عوام سے ایک
و ڈیو پیغام میں کہا ہے کہ "ہم آپ لوگوں کے دوست ہیں۔ آپ کے دشمن نہیں ہیں۔
آپ کی ایک قابل فخر تاریخ ہے۔ آپ کی ایک شاندار ثقافت ہے۔ یہ المیہ ہے کہ آپ ایک
جابرانہ مذہبی حکومت کی بیڑیوں میں جکڑے ہوۓ ہیں۔" ایران میں ملاؤں کے اقتدار
کو 37 سال ہو گیے ہیں۔ 37 سالوں میں ایران میں تقریباً سات انتخاب ہو چکے ہیں۔
ایرانی اپنی قیادت کا چناؤ کرتے ہیں۔ ایرانیوں کی یہ سیاسی تربیت مذہبی ملاؤں کے
نظام میں ہو رہی ہے۔ اور ایک جمہوری نظام ایران میں فروغ پا رہا ہے۔ یہودی بھی
اچھے لوگ ہیں۔ یہودیوں کی بھی ایک شاندار تاریخ ہے۔ لیکن اسرائیلی حکومت کا
فلسطینیوں کے ساتھ سلوک ان کی شاندار تاریخ پر ایک سیاہ داغ ہے۔ 50 سال ہو گیے ہیں
اسرائیل نے فلسطینیوں کو اپنے فوجی Concentration کیمپوں سے
آزادی نہیں دی ہے۔