Friday, March 31, 2017

Is There Any Similarity Between The Bush Administration’s Meddling In Pakistan’s Internal Politics, And President Putin’s Interference In The American Election?

Is There Any Similarity Between The Bush Administration’s Meddling In Pakistan’s Internal Politics, And President Putin’s Interference In The American Election?         

مجیب خان
Russian President Vladimir Putin

Former Presidents Pakistan's Asif Zardari and George W. Bush

Former Prime Minister of Pakistan Raza Gillani and George W. Bush

Former Presidents Pervez Musharraf and George Bush
     
   اگر روس نے واقعی 2016 کے صدارتی انتخاب میں مداخلت کی ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ  مداخلت کیوں کی ہے؟ اس مداخلت کے در پردہ مقاصد کیا ہو سکتے ہیں؟ اگر روسی مداخلت کا مقصد امریکہ کے جمہوری نظام کو تباہ کرنا تھا۔ یا معاشی طور پر امریکہ کو نقصان پہنچانا تھا۔ یہ نقصان امریکہ کو اس کی اپنی جنگوں سے پہنچ رہا ہے۔ اور روس کو مداخلت کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ ان جنگوں میں امریکہ کے تقریباً 6 ٹیریلین ڈالر خرچ ہو چکے ہیں۔ اور ان جنگوں میں امریکہ کو مصروف رکھنا شاید روس کے مفاد میں ہوتا۔ لیکن روس کے با ظاہر یہ مقاصد نہیں تھے۔ امریکہ کو نقصان پہنچانے کے مقصد سے مداخلت بہت مختلف ہوتی۔ 9 سال قبل بش چینی انتظامیہ نے پاکستان کی داخلی سیاست میں مداخلت کی تھی۔ اور بے نظیر بھٹو کا صدر جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے ساتھ سمجھوتہ کرایا تھا۔ نواز شریف بھی اس سمجھوتہ میں شامل تھے۔ ڈپٹی سیکرٹیری اف اسٹیٹ John Negroponte اور اسسٹنٹ سیکرٹیری آف اسٹیٹ براۓ جنوبی اور وسط ایشیا امور Richard Boucher نے جنرل پرویز مشرف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان مذاکرات میں مدد کی تھی۔ اور ان کی مدد سے سمجھوتہ کا مسودہ  تیار ہوا تھا۔ کیونکہ سمجھوتہ کا یہ مسودہ واشنگٹن میں ٹائپ ہوا تھا۔ لہذا پاکستان میں تمام سیاسی رہنماؤں نے آنکھیں بند کر کے اسے بوسہ دیا تھا۔ کسی لیڈر نے پاکستان کی اندرونی سیاست میں بش چینی انتظامیہ کی اس مداخلت پر اس طرح واویلا نہیں کیا تھا۔ جس طرح  امریکہ میں روس کی صدارتی انتخاب میں مداخلت پر دونوں بڑی جماعتیں شور کر رہی ہیں۔ اور اس مداخلت سے متعلق روزانہ نئے سکینڈل سامنے آ رہے ہیں۔
   روس نے امریکہ کے صدارتی انتخاب میں اگر مداخلت کی ہے تو Intention کیا ہو سکتے ہیں؟ روس کے Intention امریکہ میں عدم استحکام پیدا کرنا نہیں تھا۔ جس طرح 1977 میں پاکستان کے انتخابات میں امریکہ کی مداخلت نے پاکستان کو عدم استحکام کیا تھا۔ لیکن امریکہ دنیا میں جتنا طاقتور ہے اس کا داخلی استحکام بھی اتنا ہی مضبوط ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے 18 ماہ اپنی صدارتی مہم کے دوران امریکی عوام سے خطاب میں جو باتیں کی ہیں۔ ان میں صدر پو تن کے امریکہ کے انتخاب میں مداخلت کرنے کے Intentions بڑے واضح نظر آتے ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے انتخابی مہم میں جنگوں کے خلاف Stand لیا تھا۔ عراق لیبیا اور شام میں Military Adventurism کو امریکہ کے لئے تباہ کن بتایا تھا۔ صدر پو تن بھی ان جنگوں کے خلاف تھے۔ اور وہ یہ دیکھنا نہیں چاہتے تھے کہ امریکہ کا تیسرا صدر بھی اسی طرح دنیا میں جنگیں پھیلانے میں اپنے چار یا آٹھ سال گزار دے۔ اور ڈر یہ تھا کہ ہلری کلنٹن اگر صدر منتخب ہو جاتی تو شاید دنیا Destabilize کر دیتیں۔ جس طرح شام اور لیبیا Destabilize کیے ہیں۔ اور یہ یورپ کو Terrorize کر رہے تھے۔ اگر روس نے امریکہ کے انتخاب میں مداخلت کی ہے تو یہ امریکہ  کو صرف جنگوں کے کاروبار سے نکالنے کی غرض سے کی ہے۔ جبکہ پاکستان میں بش چینی انتظامیہ کی مداخلت کا مقصد ایک طویل جنگ کے ذریعہ  پاکستان کو Destabilize  کرنا تھا۔ اور پاکستان کو دہشت گردی کی عالمی جنگ کا Epic Center بنایا جا رہا تھا۔ بش چینی انتظامیہ نے پاکستان کے رہنماؤں کو سیاسی Favor دی تھی۔ انہیں اقتدار میں آنے کا موقعہ دیا تھا۔ اور پھر ان سیاسی رہنماؤں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو فروغ دینے کا کام لیا گیا تھا۔ حالانکہ بے نظیر بھٹو کا یہ موقف تھا کہ افغانستان کا فوجی حل نہیں ہے اور جب وہ اقتدار میں آئیں گی۔ افغانستان کا سیاسی حل کریں گی۔ بش انتظامیہ افغانستان کے سیاسی حل میں دلچسپی نہیں رکھتی تھی۔ طالبان سے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے اور یہ امریکہ کی پالیسی تھی۔ سیاستدانوں کو امریکہ کی اس پالیسی کے بارے میں غور کرنا چاہیے تھا کہ سیاسی حکومت سے آخر فوجی حکومت کا کام کیوں لیا جا رہا تھا۔
   بے نظیر بھٹو کا قتل پاکستان میں بش انتظامیہ کی اس مداخلت کا ایک سبب تھا۔ بش انتظامیہ نے بے نظیر بھٹو اور صدر جنرل پرویز مشرف کے درمیان جو سمجھوتہ کرایا تھا۔ پاکستان پہنچنے کے بعد بے نظیر بھٹو اس سمجھوتہ سے پھر گئی تھیں۔ اور سمجھوتہ ختم کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ بش انتظامیہ کو بے نظیر بھٹو کے اس فیصلہ پر خاصی تشویش ہوئی تھی۔ نائب صدر ڈک چینی نے اپنی کتاب میں لکھا تھا کہ "بے نظیر بھٹو پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا تھا۔" بے نظیر کو راستہ سے ہٹا دیا گیا تھا۔ اور آصف علی زر داری کے لئے قیادت کا راستہ ہموار ہو گیا تھا۔ بش انتظامیہ نے سیاسی جماعتوں کا مشرف حکومت کے ساتھ جو معاہدہ کرایا تھا۔ اس میں آصف علی زر داری کے خلاف کرپشن کے تمام مقدمات بھی ختم کر دئیے گیے تھے۔ سوئس بنکوں میں زر داری کے منجمد 60 ملین ڈالر بھی بحال ہو گیے تھے۔ آصف علی زر داری پاکستان کے صدر بن گیے تھے۔ نائب صدر ڈک چینی سے یہ پوچھا جاۓ کہ کیا روس کی مداخلت سے امریکہ میں کسی کرپٹ شخص کے خلاف اس طرح مقدمات ختم ہو سکتے ہیں اور وہ صدر بن سکتا ہے؟
   عوام نے جس حکومت کو منتخب کیا تھا۔ اس حکومت کے لئے بش انتظامیہ کا پیغام یہ تھا کہ طالبان سے مذاکرات نہیں ہوں گے۔ اور جنگ جاری ر ہے گی۔ یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم کا حلف اٹھانے کے بعد پہلی پرواز سے واشنگٹن پہنچے تھے۔ اور وائٹ ہاؤس میں صدر بش اور نائب صدر ڈک چینی نے وزیر اعظم گیلانی سے ملاقات کی تھی۔ وزیر اعظم گیلانی سے یہ عہد لیا تھا کہ وہ صدر پرویز مشرف کی پالیسیوں کو جاری رکھیں گے۔ اور انہیں تبدیل نہیں کریں گے۔ امریکہ میں پاکستان کے مستقبل کے سفیر بھی اس ملاقات میں ان کے ساتھ تھے۔ وزیر اعظم کے بعد آصف علی زر داری صدر کے عہدہ کا حلف اٹھانے کے بعد وائٹ ہاؤس آۓ تھے۔ اور انہیں بھی صدر بش اور نائب صدر چینی سے ملا یا گیا تھا۔ صدر بش نے جو عہد وزیر اعظم سے لیا تھا وہ ہی صدر زر داری سے بھی لیا گیا تھا۔ رحمان ملک اور حسین حقانی بھی صدر زر داری کے ساتھ تھے۔ اور اس ملاقات میں نائب صدر چینی نے صدر زر داری سے حقانی کو امریکہ میں پاکستان کا سفیر بنانے کی سفارش کی تھی۔ اور صدر زر داری نے ان کی یہ سفارش قبول کر لی تھی۔ صدر زر داری کے جانے کے بعد پھر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری امریکہ آۓ تھے۔ امریکہ میں ان کی بڑی آؤ بھگت ہوئی تھی۔ انہیں نیویارک بار کی طرف سے اعزاز دیا گیا تھا۔
   پاکستان میں جمہوری حکومت کا نقشہ اس طرح تھا کہ وزیر اعظم گیلانی تھے۔ صدر آصف علی زر داری تھے۔ پارلیمنٹ کا وجود بغیر وجود کا تھا۔ فوج کو دہشت گردوں سے لڑنے کی جنگ دی گئی تھی۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو صدر زر داری کے سر پر تلوار بنا کر بیٹھا یا گیا تھا۔ تاکہ صدر زر داری امریکہ کی لائن پر رہیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد نے صدر زر داری کے خلاف کرپشن کے مقدمہ دوبارہ کھولنے کے لئے وزیر اعظم گیلانی سے سوئس حکومت کو خط لکھنے کے لئے کہا تھا۔ اس ڈرامہ میں صدر زر داری کے وکیل چودھری اعتزاز احسن تھے۔ جنہوں نے زر داری حکومت کے ساڑھے چار سال سپریم کورٹ میں یہ دلیلیں دینے میں گزار دئیے تھے کہ یہ خط نہیں لکھا جا سکتا ہے۔ اور پھر سپریم کورٹ کی سیڑھیوں پر ٹی وی کیمروں کے سامنے یہ کہتے رہے کہ خط لکھنے میں کوئی ہرج نہیں تھا۔ صدر زر داری اپنے محل میں Big Screen پر یہ ڈرامہ دیکھ رہے تھے۔ جس میں دہشت گردوں کے مار دھاڑ کے خوفناک سین بھی تھے۔ پاکستانی نوجوانوں کے قیمتی پانچ سال اس حکومت نے اس طرح برباد کیے تھے۔ 60 ملین ڈالر لے کر حکومت کرنے کے یہ نتائج تھے۔
   اول تو روس نے امریکہ کی داخلی سیاست میں کوئی مداخلت نہیں کی ہے۔ اور اگر مداخلت کی ہے تو یہ بش انتظامیہ کی پاکستان کی داخلی سیاست میں مداخلت سے بہت مختلف ہے۔ روس نے صدارتی انتخاب میں صرف امریکی عوام کے فیصلہ کی  حمایت کی ہے۔ امریکی عوام نے 8 سال ری پبلیکن پارٹی کو دئیے تھے۔ اور 8 سال ڈیموکریٹک پارٹی کو دئیے تھے۔ دونوں پارٹیوں نے صرف Security کے مسئلہ پر ایک دوسرے پر بازی لے جانے کے لئے حکومت کی تھی۔ اور امریکی عوام کے دوسرے تمام مسائل انہوں نے نظر انداز کر دئیے تھے۔ امریکی عوام Security کے نام پر جنگوں سے بہت تنگ تھے۔ اور انہیں دونوں پارٹیوں کی 16 سال سے پالیسیوں پر غصہ تھا۔ لہذا ڈونالڈ ٹرمپ امریکی عوام کے Populist بن گیے تھے۔ دونوں پارٹیاں اپنی شکست کے اسباب کا اعتراف کرنے کے بجاۓ صدر پو تن کو امریکہ کے انتخاب میں مداخلت کرنے کا الزام دے رہی ہیں۔ اسامہ بن لادن کے بعد اس فہرست میں صدر پو تن اب پہلے نمبر پر آ گیے ہیں۔ سابق نائب صدر Dick Cheney نے روس کی مداخلت کو ایک Hostile act کہا ہے۔ “Russian President Vladimir Putin  made a serious attempt to interfere in the 2016 election and other democratic processes in America. In some quarters, that would be considered an act of war.”                

Former U.S. Vice President Dick Cheney is right, and World is witnessing that “act of war” in Afghanistan, Iraq, Libya, Syria, Yemen, Somalia, and so many other places.         

Monday, March 27, 2017

Trump Administration Has Suppressed A U.N. Report Accusing Israel’s Practices' Against Palestinians As An “Apartheid”

Trump Administration Has Suppressed A U.N. Report Accusing Israel’s Practices' Against Palestinians As An “Apartheid”   

This Is A Gross Violation of Free Speech
"Rima Khalaf U.N. official resign after pressure to withdraw report "Israel Apartheid




South African former Justice Richard Goldstone
Former New York State Supreme Court Judge, Mary McGowan, and U.N. officials, develop a report on war crimes committed in Gaza


مجیب خان
   
   اقوام متحدہ  کے اکنامک  اور سوشل کمیشن براۓ مغربی ایشیا کی ایگزیکٹو سیکرٹیری ریما خالف Rima Khalaf کی رپورٹ جو انہوں نے ایک امریکی Richard Falk  کے ساتھ لکھی تھی۔ جو قانون کے پروفیسر تھے اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سابق Investigator تھے۔ جس میں فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی سلوک Apartheid کہنے پر اسرائیل اور ٹرمپ انتظامیہ اقوام متحدہ پر برس پڑے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے اس رپورٹ کو شائع کرنے سے روک دیا ہے۔ اور اقوام متحدہ سے یہ رپورٹ واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے اقوام متحدہ کی فنڈنگ میں کمی کرنے کی دھمکی بھی دی ہے کہ اقوام متحدہ میں اسرائیل کی بہت زیادہ مخالفت ہوتی ہے۔ اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نکی ہیلے Nikki Haley جو بھارتی نژاد امریکی ہیں۔ اقوام متحدہ میں اسرائیل کی مخالفت میں غالب رجحانات پر خاصی برہم ہیں۔ امریکی سفیر نے کہا اسرائیل کے خلاف پراپگنڈہ ایسے اراکین کی طرف سے ہوتا ہے جو اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ اور اس پر حیرت نہیں ہے۔ امریکی سفیر اقوام متحدہ کی اسی بلڈنگ میں ایک ماہ قبل کرائمیا Crimea پر روس کے قبضہ پر شدید تنقید کر رہی تھیں۔ اور Crimea یوکرین کو واپس دینے کا مطالبہ کر رہی تھیں۔ جبکہ اسرائیل 65 سال سے فلسطینیوں کے علاقوں پر قابض ہے۔ اور فلسطینی 65 سال سے اسرائیلی فوجی قبضہ میں پیدا ہو رہے ہیں اور مر رہے ہیں۔ اسرائیلی بلڈوزر آتے ہیں اور فلسطینیوں کے گھروں کو گرا دیتے ہیں۔ انہیں گھروں سے بید خل کر دیتے ہیں۔ اور پھر وہاں شاندار یہودی بستیاں تعمیر کی جاتی ہیں۔ فلسطینی بچے عورتیں مرد بوڑھے کھلے آسمان تلے پڑے ہیں۔ انہیں زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے بھی محروم کر دیا گیا ہے۔ اور اقوام متحدہ میں امریکی سفیر کا یہ کہنا ہے کہ اقوام متحدہ میں اسرائیل کی مخالفت بہت زیادہ ہے۔ اقوام متحدہ صرف طاقتور ملکوں کے مفادات میں کام کرنے کے لئے وجود میں نہیں لایا گیا تھا۔ اقوام متحدہ محکوم مظلوم اور کمزور انسانیت کے ساتھ انصاف کرنے، ان کے حقوق کا دفاع کرنے، ان کی آزادی اور سلامتی کی ضمانت دیتا ہے۔ اقوام متحدہ میں ان قوموں پر تنقید کی جاتی ہے۔ جو مظلوم اور محکوم انسانیت کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرتی ہیں۔ اور انہیں ان کے بنیادی اور آفاقی حقوق سے محروم کر دیتی ہیں۔ جس پر تقریباً ہر امریکی صدر نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے Podium پر کھڑے ہو کر یہ کہا ہے کہ "آزادی ہر فرد کا آفاقی حق ہے۔"
    یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے سلوک پر اقوام متحدہ کے کمیشن کی رپورٹ کو Suppress کیا ہے۔ یہ فیصلہ امریکہ کے Free Speech قدروں کے منافی ہے۔ اقوام متحدہ میں حکومتوں کے جا حارانہ اقدامات کی مذمت کی جاتی ہے۔ ان کی Freedom اور Free speech کو Suppress کرنے کی مذمت کی جاتی ہے۔ صدر جارج بش نے اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس سے خطاب میں ایران، عراق اور شمالی کوریا کو “Axis of Evil” کہا تھا۔ اقوام متحدہ کے کمیشن کی رپورٹ میں فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی سلوک کو Apartheid کہنے پرکیوں واویلا ہے۔ امریکہ ترقی یافتہ جمہوری ملک ہے۔ اور اسے اسرائیلی پالیسیوں پر عالمی تنقید قبول کرنا چاہیے۔ ریما خالف Rima Khalaf پہلی عرب خاتون ہیں۔ جنہوں نے یہ رپورٹ لکھی تھی۔ اردن سے ان کا تعلق ہے۔ سینیئر سفارت کار ہیں۔ اردن نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے۔ اور اسرائیل کے ساتھ اس کے سفارتی تعلقات ہیں۔ Rima Khalaf نے کمیشن کی رپورٹ میں اسرائیل کی ان نا انصافیوں کو بے نقاب کیا ہے جو اس نے کئی دہائیوں سے فلسطینیوں پر مسلط کی ہوئی ہیں۔ اور فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے اس سلوک کو Apartheid کہا ہے۔ صرف یہ کہنے اور اسرائیل کے Behavior پر شدید تنقید کرنے پر ٹرمپ انتظامیہ کے دباؤ میں اقوام متحدہ نے یہ رپورٹ شائع کرنے سے روک دی ہے۔ اور اقوام متحدہ کی ویب سائیڈ سے بھی یہ رپورٹ ہٹا لی ہے۔ اس دباؤ کے نتیجہ میں Rima Khalaf  کو کمیشن سے استعفا دینا پڑا ہے۔ ایک عرب مسلم خاتون سفارت کار کے ساتھ ٹرمپ انتظامیہ نے یہ سلوک کیا ہے۔ امریکہ عرب دنیا میں عورتوں کو حقوق دینے کی بات کرتا ہے۔ لیکن امریکہ نے اردن کی ایک عرب Rima Khalaf کو فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل کی زیادتیاں بے نقاب کرنے کا حق نہیں دیا ہے۔ اردن میں ایک بہت بڑی آبادی فلسطینی مہاجرین کی ہے۔ وہ فلسطین اسرائیل تنازعہ کو زیادہ قریب سے دیکھ رہی تھیں۔ اس تنازعہ کی صورت حال کے جو اثرات فلسطینیوں کی زندگیوں پر ہو رہے ہیں۔ وہ انہیں بھی سمجھتی تھیں۔ انہیں اس تنازعہ پر اپنے تاثرات اس کمیشن کی رپورٹ میں بیان کرنے کا حق تھا۔ اور یہ Free speech تھا۔ ٹرمپ انتظامیہ کو ایک عرب مسلم سفارت کار خاتون کی اس رپورٹ کو Freedom اور Free speech کی اعلی امریکی روایت کے مطابق فراغ دلی سے قبول کرنا چاہیے تھا۔ لیکن ٹرمپ انتظامیہ نے اس رپورٹ کو Suppress کر کے عرب دنیا میں لوگوں کو غلط پیغام دیا ہے۔ اور اسرائیل کے Guilt کو Defend کرنے کا تاثر دیا ہے۔
    فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے Apartheid سلوک پر یہ پہلی رپورٹ نہیں تھی۔ اس سے پہلے بھی اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹیں آئی ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹیں آئی ہیں۔ ان سب میں فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی سلوک پر سخت لفظوں میں تنقید کی گئی تھی۔ یورپی یونین کی اپنی رپورٹیں ہیں۔ جن میں نہ صرف تنقید کی گئی تھی بلکہ اسرائیلی پالیسیوں کی مذمت بھی کی گئی تھی۔ 2006 میں اسی موضوع پر صدر جمی  کارٹر کی کتاب Palestine Peace Not Apartheid   شائع ہوئی تھی۔ جس میں فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی حکومت کی پالیسیوں کا Apartheid سے موازنہ کیا گیا تھا۔ اس وقت اسرائیلی حکومت نے اس پر کوئی احتجاج کیا تھا اور نہ ہی امریکی حکومت نے اس کتاب کی فروخت کو روکا تھا۔ صدر کارٹر کی اس کتاب کو 11 سال ہو گیے ہیں۔ لیکن ان 11 سالوں میں فلسطینیوں کی زندگیوں میں کیا تبدیلی آئی ہے؟ اسرائیل کی پالیسیاں بدستور جارحانہ ہیں۔
    2014 کی غازہ جنگ کے دوران جنگی جرائم ہونے کے بارے میں اقوام متحدہ کے ایک Independent Commission کی رپورٹ میں اسرائیل اور حماس دونوں کو جنگی جرائم کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے اپنی میں رپورٹ میں اسرائیل کی اعلی درجہ پر سیاسی قیادت کو جو پالیسیاں بناتی تھی۔ انہیں جنگی جرائم کرنے کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق غازہ میں جنگ کے نتیجہ میں اتنی زیادہ تباہی ہوئی تھی اور لوگ یہاں جن تکلیفوں میں تھے اس کی نظیر نہیں ملتی تھی۔ اور آنے والی نسلوں پر اس کے گہرے اثرات ہوں گے۔ نیویارک سپریم کورٹ کی جج Mary McGowan Davis اس کمیشن کی سربراہ تھیں۔ رپورٹ میں اسرائیل پر شدید تنقید کی گئی تھی۔ اسرائیلی حکام نے اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوۓ اسے تعصب پر مبنی قرار دیا تھا۔ 29 جولائی 2009 میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی ایک رپورٹ میں غازہ میں اسرائیل کے جنگی جرائم  کے بارے میں ٹھوس ثبوت دئیے تھے۔ 135 شہری اس جنگ میں مارے گیے تھے۔
    جنوری 2009 میں غازہ جنگ کے دوران فلسطینی مقبوضہ علاقوں میں عالمی انسانی حقوق اور عالمی Humanitarian قانون کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات اور حقائق جمع کرنے کے لئے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل (UNHRC) نے ایک ٹیم تشکیل دی تھی۔ جس کے سربراہ رچرڈ گولڈ اسٹون  Richard Goldstone تھے۔ جو ایک یہودی تھے۔ گولڈ اسٹون کی تحقیقاتی ٹیم نے اپنی رپورٹ میں اسرائیل کی ڈیفنس فورسز اور فلسطینی انتہا پسندوں‎ کو غازہ میں جنگی جرائم کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔ رپورٹ میں دونوں کو اپنے کردار کی خود تحقیقات کرنے کا مشورہ دیا گیا تھا۔ اور ان الزامات کو عالمی Criminal کورٹ میں لے جایا جاۓ۔ اسرائیلی حکومت نے رپورٹ کو Bias کہہ کر مسترد کر دیا تھا۔ اور یہ الزام بھی مسترد کر دیا تھا کہ شہریوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنانے کی اسرائیلی پالیسی تھی۔ حماس نے ابتدا میں رپورٹ کے بعض حقائق تسلیم نہیں کیے تھے۔ لیکن پھر بعد میں عالمی طاقتوں سے اسے تسلیم کرنے  کا کہا تھا۔ گولڈ اسٹون رپورٹ میں اسرائیل کی پالیسیوں کی سخت لفظوں میں تنقید کی گئی تھی۔ ایک یہودی کے قلم سے یہودی ریاست پر تنقید سے اسرائیل برہم تھا۔
Mary Robinson آئرلینڈ کی سابق صدر تھیں۔ 1997 میں انہیں اقوام متحدہ کا کمشنر براۓ انسانی حقوق نامزد کیا گیا تھا۔ اور یہ بھی فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید کرتی رہتی تھیں۔                               

Wednesday, March 22, 2017

Saudi King’s East Asia Visit

Saudi King’s East Asia Visit   

China’s Investment In The Saudi’s “Vision 2030” And Saudi Arabia’s Hundred Billion Dollar
Investment In The World's Military Industrial Complex  

How Will This Vision Work?

مجیب خان
Saudi King and Japan Prime Minister Shinzo Abe

President Xi Jinping and Saudi Arabia's King 

Chinese Prime Minister Li Keqiang and Saudi King Salman

One-fifth of Saudi's live in poverty  

    سعودی شاہ سلمان کے دورہ چین سے قبل چین کے وزیر خارجہ Wang Yi نے پارلیمنٹ کے سالانہ اجلاس کے وقفہ کے  دوران پریس کانفرنس میں کہا " ہمیں امید ہے کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان جو مسائل پیدا ہو گیے ہیں۔ انہیں برابری اور افہام و تفہیم سے حل کیا جاۓ۔ چین سعودی عرب اور ایران دونوں کا دوست ہے۔ اگر انہیں ہماری ضرورت ہو گی چین اپنا اہم رول ادا کرنے کے لئے تیار ہے۔" چین کے وزیر خارجہ کا سعودی عرب کو یہ مشورہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے۔ اور اسلام  بھی مسلمانوں کے درمیان اختلاف پیدا ہو جانے کی صورت میں انہیں باہمی مفاہمت سے حل کرنے کا درس دیتا ہے۔ چین کی تاریخ اسلام کی آمد سے تقریباً  تین ہزار سال پرانی ہے۔ اور شاید اسی لئے رسول اللہ صلعم نے مسلمانوں سے یہ کہا تھا کہ اگر انہیں تعلیم حاصل کرنے کے لئے چین جانا پڑے تو وہ ضرور چین جائیں۔ شاہ سلمان نے اپنے دورہ چین میں بہت کچھ دیکھا ہو گا۔ بہت کچھ سیکھا بھی ہو گا کہ قومیں کس طرح ترقی کرتی ہیں۔ اور قوموں کے درمیان کس طرح اپنا مقام بلند کر تی ہیں۔ چین کے رہنماؤں نے سعودی عرب کے ارد گرد کے حالات پر بھی اظہار خیال کیا ہو گا۔ شام، عراق، لیبیا، یمن، ایران پر بھی گفتگو ہو ئی ہو گی۔ چین شام میں بشر السد حکومت کی حمایت کرتا ہے۔ چین نے سلامتی کونسل میں روس کے ساتھ شام کے مسئلہ پر امریکہ کی چار قراردادوں کو ویٹو کیا تھا۔ سعودی عرب نے شام میں حکومت کے خلاف باغیوں کی حمایت کی تھی۔ اور امریکہ کے ساتھ اس اتحاد میں شامل تھا جو باغیوں کی پشت پنا ہی کر رہے تھے۔ اور انہیں اسلحہ اور تربیت دے رہے تھے۔ یہ پالیسی مشرق وسطی میں جیسے تیل پر ماچس کی تیلیاں پھینک رہی تھی۔ چین روس ایران لبنان اور مصر شام میں امریکہ کی سرپرستی میں باغیوں کی دہشت گردی کے ذریعہ حکومت تبدیل کرنے کے خلاف تھے۔ سعودی عرب کو اپنے ہمسایہ میں اسے مثال نہیں بنانا چاہیے تھا۔ سعودی عرب مشرق وسطی کے تنازعوں میں ہمیشہ غلط فیصلوں کی تاریخ کے ساتھ رہا ہے۔
    سعودی عرب کو اس خطہ بلکہ اسلامی دنیا کی قیادت کرنے کے موقعہ دئیے گیے تھے۔ لیکن سعودی رہنماؤں نے قیادت کا یہ اعزاز امریکہ کو سونپ دیا تھا۔ اور تین دہائیوں سے مشرق وسطی کی اور چھ دہائیوں سے اسلامی دنیا کی قیادت امریکہ کر رہا ہے۔ سعودی اور خلیج کے رہنماؤں نے اس خطہ کے حالات کے بارے میں امریکہ کی کبھی رہنمائی نہیں کی تھی۔ بلکہ امریکہ ان کے خطہ کے حالات کے بارے میں اپنے مفادات میں عرب رہنماؤں کی رہنمائی کرتا تھا۔ یہ اس قیادت اور رہنمائی کے نتائج ہیں کہ مشرق وسطی ہر طرف سے جنگوں کے شعلوں میں ہیں۔ اور اب صدر ٹرمپ کا "اپنی مدد آپ کرو" پیغام سن کر ان کی آنکھیں کھل رہی ہیں۔ اور انہیں سابق صدر اوبامہ پر غصہ ہے کہ انہوں نے ان کی کمر میں چھرا گھونپا ہے۔ اور شام میں انہیں شکست ہوئی ہے۔ ادھر مشرق وسطی میں ایران کا اثر و رسوخ بڑھ گیا ہے۔ یہ سوال انہیں اپنے آپ سے کرنا چاہیے۔
    ایران کا اثر و رسوخ 1997 میں کیوں نہیں بڑھا تھا۔ جب تہران میں اسلامی سربراہ کانفرنس ہوئی تھی۔ جس میں 55 اسلامی ملکوں کے سربراہوں نے شرکت کی تھی۔ ایران نے عراق کو بھی اس کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی تھی۔ عراق ایران جنگ کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان یہ پہلا رابطہ تھا۔ ایک اعلی عراقی وفد اسلامی سربراہ کانفرنس میں شرکت کرنے تہران آیا تھا۔ تہران میں یہ اسلامی یکجہتی اور اتحاد کا مظاہرہ تھا۔ اس وقت شیعہ سنی سعودی عرب اور خلیج کی ریاستوں میں تنازعہ نہیں تھا۔ 1997 سے 2007 تک مشرق وسطی میں ایران کا اثر و رسوخ کسی کا موضوع نہیں تھا۔ اس وقت صرف امریکہ کا اثر و رسوخ تھا۔ اور امریکہ پر اسرائیل کا اثر و رسوخ تھا۔ مشرق وسطی میں امریکہ کے Preemptive attack اورRegime change اس خطہ کو عدم استحکام کر رہے تھے۔ اور سعودی عرب اور خلیج کی حکومتوں کو جو امریکہ کے قریبی اتحادی تھے انہیں کمزور کیا جا رہا تھا۔ Regime change کے نتیجہ میں جو سیاسی خلا پیدا ہو رہا تھا۔ بادشاہوں نے خود کو اس سے دور رکھا تھا۔ اور امریکہ کو مشرق وسطی کے سیاسی خلا میں دھنس کر بیٹھنے کا موقعہ دے دیا تھا۔ سیاسی خلا میں دھنس کر بیٹھنے سے امریکہ کی مشرق وسطی میں سیاسی اور سفارتی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی تھی۔ عرب حکمران اتنے احمق تھے کہ عراق میں Regime change کے خوفناک نتائج ان کے سامنے تھے اور وہ شام میں Regime change کے مطالبے کرنے لگے تھے۔ ان کے اس مطالبہ نے مشرق وسطی میں سیاسی خلا کو اور زیادہ خطرناک بنا دیا تھا۔
    روس اور ایران مشرق وسطی کو اس سیاسی خلا سے آزاد کرانے آ گے آ ۓ ہیں۔ مشرق وسطی میں ایران کی سیاسی ساکھ ہے۔ فلسطین اسرائیل تنازعہ میں ایران کا ایک مثبت رول تھا۔ لبنان کو استحکام دینے میں بھی ایران کا انتہائی اہم رول تھا۔ ایران کا اگر عراق میں کوئی اثر و رسوخ ہوتا تو عراق میں بھی لبنان کی طرح ضرور استحکام آ جاتا۔ عراق میں بھی شیعہ سنی اور عیسائی تھے۔ اور یہ مل جل کر ایک قوم بن جاتے۔ لیکن عراق میں شیعہ سنی انتشار اسرائیل امریکہ کے اسٹرٹیجک مقاصد تھے۔ اور سنی عرب حکمران بھی ان کے ساتھ شامل ہو گیے تھے۔ ترکی کی قیادت نے عراق پر اینگلو امریکہ کے حملہ کی مخالفت کی تھی۔ اس لئے مشرق وسطی میں ترکی کی ساکھ تھی۔ لیکن پھر صدر طیب اردو گان کے دور میں ترکی نے سعودی عرب امریکہ کے ساتھ شام میں Regime change کی حمایت شروع کر دی تھی۔ جو ترکی کے عراق موقف کے بالکل برعکس تھا۔ ترکی نے سعودی عرب کے ساتھ شام کی داخلی خانہ جنگی میں ملوث ہو کر اپنی ساکھ کو زبردست نقصان پہنچایا تھا۔ ترکی دہشت گردوں کے دھماکوں کی لپیٹ میں آ گیا تھا۔ شام کی خانہ جنگی ترکی کو عدم استحکام کر رہی تھی۔ ایران نے ترکی کی صورت حال سے کوئی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی تھی۔ نہ ہی عراق میں سیاسی عدم استحکام سے فائدہ اٹھایا تھا۔ سعودی عرب اور اسرائیل کو مشرق وسطی میں ایران کا جو اثر و رسوخ نظر آ رہا تھا وہ دراصل مشرق وسطی کو عدم استحکام سے نکالنے کی ایرانی کوششیں تھیں۔ ایران کے بارے میں سعودی عرب کا Judgement غلط تھا۔ عراق میں صد ام حسین کے بارے میں امریکہ اور اسرائیل کا یہ Judgement بھی غلط تھا کہ صد ام حسین مشرق وسطی پر اپنا کنٹرول قائم کرنا چاہتے تھے۔ یمن کی جنگ سعودی عرب نے خود اپنے اوپر مسلط کی ہے۔ ایران کا اس جنگ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ نائن الیون کے بعد امریکہ یمن میں گیارہ سال سے القا عدہ کے خلاف فوجی آپریشن کر رہا تھا۔ صدر علی عبداللہ صالح دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کے قریبی اتحادی تھے۔ عرب اسپرنگ کی تحریک میں صدر صالح کا اقتدار چلا گیا تھا۔ اور امریکہ کو بھی القا عدہ کے خلاف اپنے فوجی آپریشن چھوڑ کر یمن سے جانا پڑا تھا۔ یمن میں ان سیاسی تبدیلیوں میں ایران کہیں بھی پکچر میں نہیں تھا۔ سعودی عرب نے یمن میں اپنی پسند کی حکومت قائم کرنے کے لئے مداخلت کی تھی۔ یہ جنگ اب سعودی عرب کے گلے میں آ گئی ہے۔ اور اس جنگ کا الزام ایران کے سر آ گیا ہے۔
    مشرق وسطی عدم استحکام کا شکار ہے اور سعودی عرب ہر طرف سے جنگوں میں گھرا ہوا ہے۔ اس صورت حال میں سعودی عرب 70 بلین ڈالر کا اسلحہ امریکہ سے خرید رہا ہے۔ اس کے علاوہ فرانس اور برطانیہ بھی تقریباً  30 بلین ڈالر کا اسلحہ سعودی عرب کو فروخت کر رہے ہیں۔ اس طرح سعودی عرب عالمی ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس میں 100 بلین ڈالر انویسٹ کر رہا ہے۔ جبکہ شاہ سلمان کے چین کے حالیہ دورے میں چین نے سعودی عرب کے ساتھ 65 بلین ڈالر کے ترقیاتی پروجیکٹ کے معاہدے کیے ہیں۔ جاپان سے بھی سعودی عرب میں انویسٹ کرنے کے لئے کہا ہے۔  سعودی شاہ سلمان کا مشرقی ایشیا کے ملکوں کا دورہ “Vision 2030”  کے سلسلے میں تھا۔ 2030 تک  سعودی عرب کو جدید صنعتوں اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں ترقی یافتہ بنایا جاۓ گا۔
    خطہ میں جنگوں انتشار اور عدم استحکام کے حالات میں سعودی عرب کو صنعتی ترقی دینے کا یہ منصوبہ اسرائیلی صنعتی ترقی کا ماڈل ہے۔ اسرائیل 65 سال سے جنگوں کے حالات میں ہے۔ اس کے اطراف ہر طرف دشمن ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اسرائیل نے صنعتی اور ٹیکنالوجی میں حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ سعودی عرب کا “Vision 2030” بھی مشرق وسطی میں انتشار کے حالات میں فروغ دیا جاۓ گا۔ سعودی حکومت  “Vision 2030” کو خصوصی اہمیت دے رہی ہے۔ شاہ سلمان نے مشرقی ایشیا کے تین ہفتہ کے دورے میں انڈونشیا ملیشیا جاپان اور چین سے سعودی عرب میں انویسٹ کرنے اور صنعتیں لگانے کے معاہدے کیے ہیں۔ اس سے قبل گزشتہ سال ڈپٹی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے امریکہ کے دورے میں کمپیوٹر کی ٹیکنالوجی میں بڑی کمپنیوں کے اعلی حکام سے ملاقاتیں کی تھیں اور انہیں سعودی عرب میں انویسٹ کرنے کی پیشکش کی تھی۔ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے فرانس اور جرمنی کے دورے بھی کیے تھے۔
    اسرائیل اور سعودی عرب دو مختلف مذہبی اور ثقافتی ملک ہیں۔ اسرائیل کے اطراف میں جنگ کے حالات تھے۔ لیکن امریکہ اور یورپ اسرائیل کے لئے قریبی ہمسایہ تھے۔ اس لئے اسرائیل نے جنگوں کے حالات میں اقتصادی اور ٹیکنالوجی میں حیرت انگیز ترقی کر لی تھی۔ لیکن سعودی عرب کے لئے شاید یہ مشکل ہو گا۔ سعودی عرب کو “Vision 2030” میں اپنے خطہ کے تمام ہمسايوں کو شامل کرنا ہو گا۔ اور اپنے خطہ میں استحکام لانا ہوگا۔                            










Friday, March 17, 2017

Rise of A New India

Rise of A New India

End of Nehru’s Secularism And Rise of Modi’s Extreme Hinduism

مجیب خان
Prime Minister Narendra Modi, Leader of BJP Party

Indian Christians, Muslims, and Sikhs are under attack by the extremist Hindu parties

Protests in India 
       بھارت کی چار ریاستوں اتر پردیش، اترا کھنڈ، گوا (Goa) اور منی پور کے انتخابات میں جنتا پارٹی کی غالب اکثریت سے کامیابی نے وزیر اعظم نر یندر مودی کو مرکز میں نئی توانا ‏ئی دی ہے۔ جبکہ ان ریاستوں کے انتخابات میں کانگرس کا جیسے بالکل صفایا ہو گیا ہے۔ کانگرس صرف پنجاب میں کامیاب ہوئی ہے۔ ان ریاستوں کے انتخابات میں ہندو انتہا پسند سیوا سینگ اور ہندو قوم پرست جنتا پارٹی ایک دوسرے کے قریب آ گیے ہیں۔ بھارت کے سیکولر جمہوری نظام کے لئے ہندو قوم پرست اور ہندو انتہا پسند ایک بڑا خطرہ بن رہے ہیں۔ اتر پردیش بھارت کی ایک بڑی ریاست ہے۔ ریاست کی اسمبلی کی 403 نشستوں میں سے 312 نشستیں جنتا پارٹی نے حاصل کی ہیں۔ اتر پردیش کی 220 ملین کی آبادی ہے جس میں 40 ملین مسلمان ہیں۔ بھارت میں سب سے زیادہ مسلمان اس ریاست میں صدیوں سے آباد ہیں۔ لیکن مودی کی جنتا پارٹی نے اتر پردیش میں ایک مسلمان بھی اسمبلی کی نشست کے لئے نامزد نہیں کیا تھا۔ بھارت میں مسلمانوں کے مستقبل کے بارے میں مودی کی جنتا پارٹی کا یہ فیصلہ کیا پیغام دیتا ہے؟ ریاست کی اسمبلی کی نشستوں کے لئے ان ہندوؤں کو کھڑا کیا تھا جو سیوا سینگ کے کٹر ہندو نظریات سے اتفاق کرتے تھے اور یا جنتا پارٹی کے ہندو قوم پرست تھے۔ بھارت کی مشرقی ریاست منی پور میں قوم پرست ہندوؤں کو اسمبلی کی نشست پر کبھی کامیابی نہیں ہوئی تھی۔ لیکن اب منی پور میں پہلی مرتبہ جنتا پارٹی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے ان ریاستوں کے انتخابات میں جنتا پارٹی کی غالب اکثریت سے کامیابی پر Tweet میں کہا ہے کہ "ایک نیا بھارت ابھر رہا ہے۔"
    اور یہ نیا بھارت Rashtriya Swayamsevak Sangh انتہا پسند ہندوؤں کا بھارت ہے۔ جس کے ساتھ وزیر اعظم نریندر مودی کی کئی دہائیوں سے وابستگی تھی۔ ان کا بھارت کو کٹر انتہا پسند ہندوؤں کا ملک بنانے کا جو خواب تھا۔ آزادی کے 70 سال بعد اب یہ پورا ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اس لئے نریندر مودی بھارت کے ہندوؤں میں بہت مقبول ہیں۔ گزشتہ نومبر میں وزیر اعظم مودی کے ایک ہزار اور پانچ سو روپے کے نوٹ منسوخ کرنے کے فیصلے سے عام لوگ اور تاجر برادری بالکل خوش نہیں تھے۔ اور وزیر اعظم مودی کی مخالفت بڑھ رہی تھی۔ جس سے یہ تاثر پیدا ہو رہا تھا کہ ان چار ریاستوں کے انتخابات میں لوگ بھاری اکثریت سے مودی کی پارٹی کے خلاف فیصلہ دیں گے۔ لیکن وزیر اعظم مودی نے ان ریاستوں کے انتخابات میں ہندو انتہا پسندوں اور ہندو قوم پرستوں کے کارڈ بڑی خوبصورتی سے استعمال کیے ہیں۔ اور شاید یہ ہی وجہ تھی کہ اتر پردیش میں جنتا پارٹی نے کسی مسلمان کو اپنا امیدوار نامزد نہیں کیا تھا۔ حالانکہ اتر پردیش میں آبادی کے لحاظ سے مسلمان ریاست کے اندر ریاست کا درجہ رکھتے تھے۔ بہرحال یہ نریندر مودی کا نیا بھارت ہے۔ جواہر لال نہرو کا سکیولر بھارت اب بھارتی سیاست کی تاریخ کی کتابوں میں ملے گا۔
    یہ جواہر لال نہرو کی قیادت میں جمہوری سکیولر نظام تھا۔ جس نے دنیا میں بھارت کو ایک نمایاں مقام دیا تھا۔ نہرو نے قدیم ہندو روایتی قانون کی جگہ بھارت کے دستور میں جدید مغربی قوانین شامل کیے تھے۔  نہرو نے سامراجی اور نوآبادیاتی طاقتوں کی عالمی محاذ آرا ئیوں سے بھارت کو دور رکھا تھا۔ اور بھارت غیرجانبدار ملکوں کے بلاک میں شامل ہو گیا تھا۔ لیکن وزیر اعظم مودی نے اقتدار میں آنے کے بعد پہلے ہی سال میں بھارت کی اس روایتی خارجہ پالیسی کو بدل دیا ہے۔ اور اب مودی کی قیادت میں بھارت کی امریکہ کے ساتھ فوجی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں۔ اور اسے بھارت کا امریکہ کے ساتھ چین کے خلاف محاذ بنتا دیکھا جا رہا ہے۔ اور یہ مودی کی قیادت میں ہمسایہ ملکوں کے خلاف بھارت کا نیا رول ہے۔ یہ ہندو انتہا پسندی بھارت کے خار جی امور میں بھی بڑھتی جا رہی ہے۔
    جبکہ داخلی امور میں اقلیتی عقیدتوں کے ساتھ ہندو انتہا پسندوں کا رویہ خاصہ جارحانہ ہے۔ اور مودی کے دور میں یہ اور زیادہ بڑھ گیا ہے۔ امریکہ کے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی سالانہ رپورٹ میں بھی بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ سلوک پر شدید تنقید کی گئی تھی۔ لیکن اس کے باوجود وزیر اعظم مودی کے دور حکومت میں اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔ کشمیری مسلمانوں کو جس طرح کچلا جا رہا ہے۔ یہ بھی ہندو انتہا پسندی ہے۔ جبکہ عیسائوں کو ہراس کرنے اور ان کے گرجے آگ  لانے کی رپورٹیں بھی ہیں۔ کرسچین مشنری کے چند امریکی گزشتہ ماہ بھارت کے تین ہفتہ کے دورے سے واپس آۓ ہیں۔ مغربی بنگال اور شمالی بھارت گیے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت میں غربت حد سے زیادہ ہے۔ فوجی اخراجات پر بھارت بہت زیادہ خرچ کر رہا ہے۔ ہندو انتہا پسندی بڑھتی جا رہی ہے۔ عیسائوں کو مارتے ہیں۔ گرجوں کو آگ لگا دیتے ہیں۔ اپنے ہر مسئلہ کا الزام پاکستان کو دینے لگتے ہیں۔ اگر انہیں پانی نہیں ملتا ہے تو اس کا الزام بھی پاکستان کو دیتے ہیں۔ بجلی نہیں ہوتی ہے تو اس کا الزام بھی پاکستان کو دینے لگتے ہیں کہ پاکستان ان کے پاور پلانٹ سبوتاژ کر رہا ہے۔ یہ انہیں واشنگٹن میں اپنی حکومت کو بتانا چاہیے جو بھارت کو عالمی قیادت کا درجہ دینا چاہتے ہیں اور بھارت کو اقوام متحدہ میں ایک اہم کرسی پر بیٹھنا چاہتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بھارت کی چار ریاستوں میں ہندو انتہا پسندوں اور ہندو قوم پرست جنتا پارٹی کی بھاری اکثریت سے کامیابی کا مقبوضہ کشمیر میں محصور مسلمانوں پر جو حقوق اور آزادی مانگ رہے ہیں ان کی تحریک پر اس کے کیا اثرات ہوں گے؟
    بھارت کی ریاستوں میں انتخابات سے صرف چار روز قبل مودی حکومت نے ہندو انتہا پسندوں کو خوش کرنے کے لئے سب سے بڑی Christian Charity تنظیموں کے بھارت میں مشن بند کرنے کا حکم دیا تھا۔ بھارتی حکومت کے اس فیصلہ کا سانحہ Colorado based Christian Charity تھا۔ جو بھارت میں ایک بڑا خیراتی ادارہ تھا۔ اور 48 سال سے بھارت میں کام کر رہا تھا۔ اور اب 48 سال بعد حکومت نے اسے بھارت میں اپنے  دروازے بند کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہ ادارہ ہر سال تقریباً 45 ملین ڈالر خیرات تقسیم کرتا تھا۔ ایک اخباری اطلاع کے مطابق مودی حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد تقریباً گیارہ سو سے زیادہ غیر سرکاری تنظیموں کے غیرملکی فنڈ وصول کرنے کے لائیسنس منسوخ کیے ہیں۔ مودی حکومت کے یہ فیصلے دراصل ہندو انتہا پسندوں کے مفاد میں ہیں۔
    15 سال پہلے امریکہ کو یہ تشویش تھی کہ پاکستان کے نیو کلیر ہتھیار اسلامی انتہا پسندوں کے ہاتھوں میں آ جائیں گے۔ لیکن ان 15 سالوں میں پاکستان میں اسلامی انتہا پسندی کو کمزور کر دیا گیا ہے۔ اور آنے والے سالوں میں پاکستان کو ان سے نجات مل جاۓ گی۔ لیکن دنیا کو اب بھارت میں جس تیزی سے ہندو انتہا پسندی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ اس کی فکر کرنا چاہیے۔ ہندو انتہا پسندی اسلامی انتہا پسندی سے کسی طرح کم خطرناک نہیں ہے۔ امریکہ کو اب بھارت کے لئے اپنی نیو کلیر ایٹمی ٹیکنالوجی فراہم کرنے کی پالیسی کا جائزہ لینا چاہیے۔ بالخصوص بھارت کی سیاست میں جس طرح کی تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ ہندو انتہا پسندوں کی بھارت کے جمہوری اداروں پر گرفت بڑھتی جا رہی ہے۔ بھارت کا سکیولرازم ختم ہوتا جا رہا ہے۔ ایک نیو کلیر بھارت میں ہندو انتہا پسندی کا فروغ بھی دنیا کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔