Wednesday, May 31, 2017

RT Is Changing America And Europe, As CNN Had A Roll In Changing The Soviet Union And East Europe In The Eighties

Is A New Cold War Necessary? Or, Is Cold War A Luxury For Foreign Policy Establishment? 

RT Is Changing America And Europe, As CNN Had A Roll In Changing The Soviet Union And East Europe In The Eighties

مجیب خان
Bush - Putin Kennebunkport July 4th, 2007

US Secretary of State Condoleezza Rice greets Russian President Vladimir Putin

US president Barack Obama and Russian President Vladimir Putin

German Chancellor Angela Merkel and Russian President Vladimir Putin
     صدارتی انتخاب میں روس کی مداخلت کو، جس کے ٹھوس ثبوت کی تلاش ابھی تک جاری ہے، بنیاد بنا کر امریکہ نے روس کے ساتھ ایک نئی سرد جنگ کا آغاز کر دیا ہے۔ اور روس پر امریکہ کا نمبر ون دشمن ہونے کا ریڈ نشان لگا دیا ہے۔ تاہم امریکی عوام اس سارے ڈرامہ سے Fed up ہو گیے ہیں۔ امریکی میڈیا میں روس کی مداخلت کے  بارے میں روزانہ نئے انکشاف ہوتے ہیں۔ لیکن امریکی عوام انہیں زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیتے ہیں۔ صدر ٹرمپ کی طرح وہ بھی اسے Fake news سمجھتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم ٹیم کے بعض لوگوں کے واشنگٹن میں روس کے سفیر سے رابطہ اور ملاقاتوں کے بارے میں بڑا شور ہے۔ لیکن ابھی تک یہ تعین نہیں ہو سکا ہے کہ یہ خصوصی ملاقاتیں کس طرح صدارتی انتخاب میں مداخلت کا سبب بن رہی تھیں۔ یا یہ انتخاب میں مداخلت کے بجاۓ صرف کاروباری نوعیت کی ملاقاتیں تھیں۔ سفارت کار اکثر سوسائٹی کی با اثر شخصیتوں اور راۓ عامہ بنانے والے دانشوروں سے ملتے ہیں۔ امریکی کانگرس اور سینٹ کے اراکین بھی غیر ملکی سفیروں سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ ڈنر بھی کھاتے ہیں۔ اسی طرح ماسکو میں امریکی سفیر بھی روس کے اپوزیشن رہنماؤں اور بزنس کمیونٹی  سے ملتے ہوں گے۔ لیکن صدر پو تن کے لئے ہلری کلنٹن کے ہارنے یا ڈونلڈ ٹرمپ کے جیتنے سے کیا فرق پڑے گا؟ جبکہ صدر پو تن یہ دیکھ رہے تھے کہ صدر اوبامہ کا ایران کے ایٹمی پروگرام پر سمجھوتہ کرنے کے باوجود کانگرس اس سمجھوتہ کو قبول نہیں کر رہی تھی۔ اور اس سمجھوتہ کے مطابق ایران پر سے اقتصادی پابندیاں ہٹانے کے لئے تیار نہیں تھی۔ لہذا ایسی صورت میں صدر ٹرمپ روس کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں کیا کر سکتے تھے؟ صدر پو تن کی ڈونلڈ ٹرمپ میں صرف یہ دلچسپی ہو سکتی تھی کہ ہلری کلنٹن کے مقابلے میں ٹرمپ ذرا Soft تھے اور ہلری کلنٹن بہت زیادہ Hawkish تھیں۔ صدر پو تن مڈل ایسٹ میں جنگیں ختم کرنا چاہتے تھے۔ اور شام میں امن کی حمایت میں تھے۔ اور یہ بہت ممکن ہے کہ ڈائریکٹر ایف بی آئی بھی ان خیالات سے اتفاق کرتے ہوں گے جب ہی انہوں نے ہلری کلنٹن کو Extremely Irresponsible کہا تھا۔ اور امریکی ووٹروں کو یہ عندیہ دیا تھا کہ وہ صدارت کے عہدہ کی اہل نہیں ہیں۔
    ایف بی آئی کے ڈائریکٹر جیمس کومی نے صدارتی انتخاب سے صرف 11 روز قبل ہلری کلنٹن کے ای میل اسکینڈل سے متعلق کچھ نئی ای میل سامنے آنے کے بارے میں جو اعلان کیا تھا۔ اور جس کے نتیجہ میں ہلری کلنٹن انتخاب ہار گئی تھیں۔ اب یہ انکشاف ہوا ہے کہ یہ Fake معلومات تھیں۔ اور اسے بھی روس کے کھاتے میں ڈال دیا ہے کہ  یہ Fake معلومات روس نے دی تھی۔ کیا ڈائریکٹر جیمس کومی کی یہ ذمہ داری نہیں تھی کہ اسے عوام میں لے جانے سے پہلے اس معلومات کی اچھی طرح چھان بین کرتے۔ اور دوسرے اداروں سے بھی اس پر صلاح مشورہ کرتے۔ صدارتی انتخابی عمل کو شاید غیر ملکی Hacking سے اتنا نقصان نہیں پہنچا ہے۔ کہ جتنا داخلی Intrigue سے جمہوری نظام ہل گیا ہے۔ عراق میں WMD کے بارے میں بھی سی آئی اے کے ڈائریکٹر کے واچ میں Fake رپورٹیں دنیا کو دی گئی تھیں۔ جس کے نتیجہ میں عراق میں انسانیت تہس نہس ہو گئی ہے۔ 7 ہزار امریکی فوجی بھی مارے گیے ہیں۔ لیکن اس کا کوئی احتساب نہیں ہے۔ روس کے سفیر سے ملاقات کرنے والوں کا احتساب اس وقت زیادہ اہم مسئلہ بن گیا ہے۔ امریکہ کا سارا کاروبار اس وقت اس تحقیقات کا قیدی بنا ہوا ہے کہ روس کے سفیر سے کون کیوں ملا تھا۔ اور انتخابی نتائج تبدیل کرنے میں روس کا کیا رول تھا؟
    بہرحال روس کو اب امریکہ کا نمبر ون دشمن قرار دیا جا رہا ہے۔ اور مڈل ایسٹ میں گرم جنگیں ختم کرنے کے بعد امریکہ کا روس کے ساتھ ایک نئی سرد جنگ شروع کرنے کا منصوبہ ہے۔ اس لئے امریکہ نے روس کے خلاف سرد جنگ دور کی پرانی بندشیں ختم نہیں کی تھیں بلکہ ان میں نئی بندشوں کا اضافہ کر دیا ہے۔ روس کے ساتھ امریکہ کی بڑھتی ہو ئی کشیدگی کا سبب کیا ہے؟ دنیا میں امریکہ کے تقریباً 800 فوجی اڈے ہیں۔ اور روس نے اس کے مقابلے میں کہیں اپنے فوجی اڈے نہیں بناۓ ہیں۔ امریکہ اپنی جنگوں میں خود دھنستا گیا ہے۔ روس کا ان جنگوں میں امریکہ کو پھنسانے کا کوئی رول نہیں ہے۔ وار سا پیکٹ ہمیشہ کے لئے دفن کر کے روس میں Cold war mentality بھی ختم ہو گئی تھی۔ یوکرین کا مسئلہ روس کے لئے Manufacture کیا گیا ہے۔ صدر پو تن تنازعوں کی سیاست میں روس کا وقت برباد کرنا نہیں چاہتے ہیں۔ شام کے تنازعہ میں صدر پو تن صرف انسانیت کو بچانے کی غرض سے آۓ ہیں۔ جسے واشنگٹن میں سرد جنگ ذہنیت سے دیکھا گیا تھا۔ صدر اوبامہ نے کہا تھا کہ روس اب شام میں دھنس جاۓ گا۔ حالانکہ شام کی خانہ جنگی میں صدر اوبامہ سب کو لے کر ڈوب رہے تھے۔ دنیا کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کون کس سے لڑ رہا تھا۔ صدر پو تن نے شام میں امریکہ کے ساتھ مل کر دہشت گردی ختم کرنے اور شام میں امن کے لئے کام کرنے کا اظہار کیا تھا۔ اور شام میں امریکی فوج کے ساتھ تعاون کیا تھا۔
    امریکہ میں روسیوں کا کھربوں ڈالر کا Investment  ہے۔ سوویت ایمپائر کا خاتمہ ہونے کے بعد ریاست کے اثاثوں کی بڑے پیمانے پر لوٹ مار ہوئی تھی۔ خاصی تعداد میں روسیوں نے ان اثاثوں کو اونے پونے خریدا تھا۔ اور پھر اس سے کھربوں ڈالر بنا لئے تھے۔ آئل اور گیس کی صنعت میں کمپنیوں کے مالک بن گیے تھے۔ روس میں ایک نیا Oligarch طبقہ ابھر آیا تھا۔ پھر یہ اپنی دولت لے کر امریکہ اور لندن آ گیے تھے۔ امریکہ میں انہوں نے بڑے کاروبار اور کمپنیاں خرید لی تھیں۔ Real estates خریدنے لگے تھے۔ اور ارب پتی اور لکھ پتی ہو گیے تھے۔ نیویارک، نیو جرسی، فلوریڈا میامی میں روسیوں کی بہت بڑی آ بادی ہے۔ میامی میں یہ بڑی بڑی Real estates کے مالک بن گیے ہیں۔ رائٹر نیوز ایجنسی کی ایک رپورٹ کے مطابق تقریباً 63 روسیوں نے 98.4 ملین ڈالر کی مالیت کے 7 ٹرمپ لگژری ٹاور جنوبی فلوریڈا میں خریدے تھے۔ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق یہ ماسکو کی ایک اسٹیٹ کنسٹریکشن فرم کے سابق ایگزیکٹو تھے۔ جو ملٹری اور انٹیلی جینس Facilities پر کام کرتی تھی۔ اور اب یہ St. Petersburg انویسمینٹ بنک کے بانی اور بنکنگ، پراپرٹی اور الیکٹرونک کمپنیوں کے ایک گروپ کے معاون بانی تھے۔ جن کی ان شعبوں میں خصوصی دلچسپی تھی۔
    روس کی فیڈرل کسٹم سروس کے مطابق 2014 میں امریکہ روس کے درمیان دو طرفہ تجارت 29.2بلین ڈالر تھی۔ جس میں 2013 کے مقابلہ میں 7.2 فیصد اضافہ ہوا تھا۔ روس کی امریکہ برآمدات 18.5بلین ڈالر تھیں۔ جبکہ امریکہ کی روس برآمدات 10.7بلین ڈالر تھیں۔ گزشتہ سال جون تک امریکہ کے Treasuries میں روس کی Holdings 90.9بلین ڈالر پر پہنچ گئی تھیں۔ جبکہ 2015 میں امریکہ کے Treasuries میں روس کی Holdings 72بلین ڈالر تھیں۔ اور ایک سال کے عرصہ میں امریکہ کی معیشت میں روس کی انویسمینٹ میں 26 فیصد اضافہ ہوا تھا۔ اس وقت جو ممالک امریکہ کا Debt hold کرتے ہیں ان میں روس 16ویں نمبر پر ہے۔ چین جاپان اور آئرلینڈ بالترتیب پہلے دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔ امریکہ روس انویسٹمینٹ فنڈ جو امریکہ نے 1995 میں قائم تھا۔ اس فنڈ کے تحت روس کی معیشت میں نجی سرمایہ کاری کو فروغ دیا گیا تھا۔ 2005 تک روس کی 44 کمپنیوں میں تقریباً 300 ملین ڈالر انویسٹ کیے تھے۔
    یہ صدر پو تن کی انتھک محنت اور ان کی حکومت کی کارکردگی تھی۔ جس کے نتیجے میں روس کی معیشت مستحکم تھی اور حیرت انگیز طور پر ترقی کی تھی۔ آئل اور گیس کی برآمدات میں زبردست اضافہ ہوا تھا۔ اور روس آئل برآمد کرنے والے ملکوں میں سعودی عرب کے مقابلہ پر آ گیا تھا۔ روس کے پاس خاصا سونا تھا اور زر مبادلہ کے ذخائر 400بلین ڈالر پر پہنچ گیے تھے۔ اور زر مبادلہ کے ذخائر کو 400بلین ڈالر سے 500بلین ڈالر پر لے جانے کا منصوبہ تھا۔ روس نے صدر پو تن کی قیادت میں ترقی ایسے مشکل حالات میں کی تھی کہ جب نیٹو ملکوں کا فوجی اتحاد روس کے گرد اپنا حلقہ تنگ کر رہا تھا۔ اور روس پر فوجی اخراجات میں اضافہ کرنے کا دباؤ پڑ رہا ہے۔ یوکرین کا تنازعہ روس نے خود اپنے لئے پیدا نہیں کیا ہے۔ بلکہ یہ امریکہ نے Manufacture کیا ہے۔ یوکرین کے تنازعہ کی آ ڑ میں امریکہ اور یورپی ملکوں نے روس پر اقتصادی بندشیں لگا کر روس کی تیزی سے ترقی کرتی معیشت پر Brake لگائیں ہیں۔ یہ یورپی ملک خود ایک شدید اقتصادی بحران کا سامنا کر رہے تھے۔ اٹلی اسپین یونان دیوالیہ ہو رہے تھے۔ اور دیوالیہ ہونے کی وبا تیزی سے یورپ میں پھیل رہی تھی۔ نیٹو ملکوں میں جنگوں میں امریکہ کی مسلسل ناکامیوں سے امریکہ کی ساکھ  خراب ہو رہی تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارتی انتخاب میں کامیابی نے امریکہ کی قدیم پالیسیوں کا نقشہ بدل دیا ہے۔ توڑ پھوڑ کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ دونوں پارٹیوں بالخصوص ری پبلیکن پارٹی میں جو روس کے ساتھ ایک نئی سرد جنگ شروع کرنا چاہتے تھے۔ وہ اب کمزور ہو رہے ہیں۔ امریکہ کے صدارتی انتخاب میں روس کی مداخلت کے ابھی تک کوئی ثبوت سامنے نہیں آۓ ہیں۔ تاہم تحقیقات جاری ہے۔
    روس کا RT ٹی وی امریکہ اور یورپ کی سیاست تبدیل کرنے میں زبردست کردار ادا کر رہا ہے۔ اور یہ دیکھ کر امریکہ اور یورپ کے سیاسی اسٹبلشمینٹ میں خاصی کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ RT ٹی وی امریکہ اور یورپ کو اسی طرح تبدیل کر رہا ہے کہ جس طرح 80 کے عشرہ میں CNN نے مشرقی یورپ اور سوویت یونین کو تبدیل کرنے میں اہم رول ادا کیا تھا۔۔ جسے وہ دوسروں کو تبدیل کرنے میں پسند کرتے تھے۔ اب وہ انہیں تبدیل کرنے میں پسند نہیں ہے۔                                                              

Thursday, May 25, 2017

Weapons Are The Mother of All Evil

Weapons Are The Mother of All Evil 

Perhaps, Allah Has Sent Donald Trump To Saudi Arabia To Unite The Islamic World, But How Can This Lucrative Arms Sale Agreement With Saudi Arabia Unite The Islamic World And Bring Peace In The Region? 

The Custodian of Islam’s Two Holiest Places Can Unite The Western World Against Saddam Hussein, Against Muammar Qaddafi, Against Syria, Against Yemen, Against Iran, But They Can’t Unite The Islamic World



مجیب خان
President Donald Trump addressing to the Arab Islamic American Summit in Riyadh, Saudi Arabia 

Arab Islamic American Summit in Saudi Arabia
    صدر ڈونالڈ ٹرمپ اسلام کی انتہائی مقدس سرزمین پر پیغمبر بن کر اسلامی دنیا کو اتحاد کا پیغام دینے اور دنیا میں امن سے رہنے کی ہدایت کرنے آۓ تھے۔ حرمین شریفین سعودی شاہ اسلامی دنیا کو متحد کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ اللہ نے صدر ٹرمپ کو شاید یہ ہدایت کی تھی۔ صدر ٹرمپ کے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں سخت برے خیالات بھی اللہ نے بدل دئیے تھے۔ مسلمانوں نے اللہ سے ڈونالڈ ٹرمپ کے ان کے بارے میں اور ان کے مذہب کے بارے میں خیالات تبدیل کرنے کے لئے دعائیں نہیں مانگی تھیں۔ صدر ٹرمپ نے اپنے پہلے غیر ملکی دورے کا آغاز اسلام کی انتہائی مقدس سرزمین پر قدم رکھنے سے کیا ہے۔ ریاض میں 50 اسلامی ملکوں کے سربراہوں سے خطاب کے آغاز میں صدر ٹرمپ نے یہ واضح کر دیا تھا کہ وہ انہیں لیکچر دینے نہیں آۓ ہیں۔ وہ انہیں امن اور انسانیت کا راستہ دکھانے آۓ ہیں۔ اس لئے یہ لیکچر نہیں Sermon تھا۔ صدر ٹرمپ نے اسلام کے بارے میں اچھی باتیں کی تھیں۔ مڈل ایسٹ کے بچوں کے ایک بہتر مستقبل کی بات کی تھی۔ 21 ویں صدی کی پہلی دو دہائیوں میں مڈل ایسٹ میں جس پیمانے پر خون خرابہ ہو رہا ہے۔ اسے ختم کرنے پر زور دیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنے Sermon میں اسلامی ملکوں کے سربراہوں پر دہشت گردی ختم کرنے کے لئے خصوصی طور پر زور دیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے کہا "یہ لڑائی مختلف عقائد، مختلف فرقوں اور مختلف ثقافتوں کے درمیان لوگوں میں نہیں ہے۔ لیکن یہ لڑائی اچھائی اور بدی کے درمیان ہے۔ امریکہ اس لڑائی میں ان کی حمایت جاری ر کھے گا۔ مڈل ایسٹ کو انتہا پسندی سے لڑائی میں زیادہ سرگرمی سے رول ادا کرنا چاہیے۔"

“Drive them out. Drive them out of your places of worship. Drive them out of your holy land. Drive them out of this 
Earth.” Said President Donald Trump. 
      
 General Abdel Fattah el-Sisi came in Power in Egypt to Drive them out from Egypt. But President Obama drove them in Libya, drove them in Syria, drove them in training camps in Jordan.
America’s moral values, democratic principal, and rule of Law are no longer organic
  
    صدر ٹرمپ نے انتہا پسندی کو good or evil کے درمیان لڑائی بتایا ہے۔ لیکن good کے ساتھ المیہ یہ ہوا کہ امریکہ کی دو سابقہ انتظامیہ نے evil کے ساتھ مل کر good کو ختم کر دیا ہے۔ اور اس لڑائی میں ہر طرف اب evil نظرآ رہے ہیں۔ اور good کا کہیں نام و نشان نہیں ہے۔ مڈل ایسٹ کے لوگوں نے یہ جنگیں اپنے اوپر خود مسلط نہیں کی ہیں۔ بلکہ امریکہ اور مغربی طاقتوں نے اپنے مڈل ایسٹ کے اتحادیوں کے تعاون سے اس خطہ کے لوگوں پران جنگوں کو مسلط کیا ہے۔ اور یہاں کے لوگوں کی زندگیاں miserable بنا دی ہیں۔ Miserable ہونا بھی انتہا پسندی کی ایک قسم ہے۔ صدر ٹرمپ نے اسلامی ملکوں کے رہنماؤں کو صرف ان کی ذمہ دار یوں کا احساس دلایا ہے۔ لیکن مڈل ایسٹ میں امریکہ کی دو سابقہ انتظامیہ کی غیر ذمہ دارا نہ Hit and Run پالیسیوں کے نتائج کا ذکر نہیں کیا تھا۔ مڈل ایسٹ کے اصل اور بنیادی حقائق کو یہ سمجھ کر distort کر دیا کہ لوگوں کی یاد داشت ان کے مسائل میں گھرے رہنے کی وجہ سے کمزور ہوتی ہے۔ اور وہ بہت جلد سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ صدر ٹرمپ اگر اصل حقائق اور بنیادی اسباب کو مد ںظر رکھ کر sermon  دیتے تو یہ دلیل تسلیم کرنا ذرا آسان ہو جاتا کہ یہ لڑائی مختلف عقائد، مختلف فرقوں اور مختلف ثقافتوں کے درمیان نہیں ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنے sermon میں عراق کی قدیم تاریخ اور ثقافت کا ذکر کیا تھا۔ عراق ایک تجارتی مرکز تھا۔ انتہائی خوبصورت ملک تھا۔ لیکن مارچ 2003 سے قبل عراق کے کیا حالات تھے؟ اور آج عراق کے کیا حالات ہیں؟ عراق کو ان حالات میں پہنچانے کا ذمہ دار کون ہے؟ عراق پر حملہ نے مڈل  ایسٹ کو evils دئیے ہیں۔ عراق پر حملہ کے نتائج کے بارے میں صد ام حسین کا ہر لفظ بالکل درست ثابت ہوا ہے۔ عراق کی سرزمین دریا اور فضائیں بھی اس کی گواہی دے رہے ہیں۔ Tigris اور Euphrates انسانی خون سے سرخ ہو گیے ہیں۔ اور صد ام حسین نے یہ ہی کہا تھا۔ مڈل ایسٹ میں صد ام حسین کے دور میں شیعہ سنی فرقہ پرستی کھبی اتنا بڑا مسئلہ نہیں تھا۔ سب عرب پہلے تھے اور شیعہ سنی عیسائی بعد میں تھے۔ عراقی شیعہ صد ام حسین کی فوج میں تھے۔ اور انہوں نے ایران سے 8 سال جنگ لڑی تھی۔ اور خلیج کی سنی حکومتیں اس جنگ میں صد ام حسین کی مدد کر رہی تھیں۔ لیکن اس کے باوجود شیعہ سنی فرقہ پرستی نے عراق ایران جنگ کا نقشہ تبدیل نہیں کیا تھا۔ خلیج کی پہلی جنگ میں جارج ایچ بش نے عراق پر no fly zone کا نفاذ کیا تھا۔ لیکن شیعاؤں کے اکثریتی عراقی علاقوں کو اس پابندی سے مستثنی رکھا تھا۔ تاکہ شیعہ صد ام حسین کے خلاف بغاوت کریں گے۔ اس وقت سعودی عرب اور خلیج کے حکمرانوں نے اپنے منہ بند ر کھے تھے۔ پھر 10 سال کے بعد جارج ڈ بلو بش نے عراق پر حملہ کیا تھا۔ اور صد ام حسین کا اقتدار ختم کر دیا تھا۔ سنی عرب حکومتوں نے اس حملہ میں امریکہ سے تعاون کیا تھا۔ اس حملہ کے لئے اپنی سرزمین دی تھی۔ پھر جارج بش نے سنی عرب رہنماؤں کی طرف منہ کر کے ان سے کہا تھا کہ عراق میں ایک ہزار سال کے بعد شیعاؤں کو حکومت ملی ہے۔ جن کی عراق میں اکثریت تھی۔ سنی عرب رہنماؤں نے صدر بش سے اپنی کسی تشویش کا اظہار تک نہیں کیا تھا۔ اور اسے ہضم کر لیا تھا۔ سنی عرب حکمران صدر بش کے ساتھ ناچ رہے تھے۔
    عراق پر حملہ اس evil سوچ سے کیا گیا تھا کہ اس خطہ میں شیعہ سنی ایک نیا Crusade شروع ہو جاۓ گا جو اسلام کے دونوں فرقوں کو 1400 سال قبل کی دنیا میں لے جاۓ گا۔ اس لئے بش انتظامیہ نے صد ام حسین کے ساتھ ساری حکومت کو پھانسی دے دی تھی۔ وزارتوں فوج بیوروکریسی سے تمام عراقیوں کو نکال دیا تھا۔ امریکی راج قائم کر دیا تھا۔ بعث پارٹی سوشلسٹ اور سیکولر تھی۔ اس میں شیعہ سنی اور عیسائی سب شامل تھے۔ اس پارٹی کو اگر برقرار رکھا جاتا تو یہ پارٹی عراق میں انتخاب کے ذریعے اقتدار میں آسکتی تھی۔ اور اگر اقتدار میں نہیں بھی آتی تب بھی یہ پارٹی عراق کو مذہبی فرقہ پرستی میں تقسیم نہیں ہونے دیتی۔ امریکہ نے عراق کو tremendous نقصان پہنچا یا ہے۔ اور سنی عرب حکمران سائڈ لائن پر کھڑے یہ تماشا دیکھ رہے تھے۔ حالانکہ ایران آج بھی اسی مقام پر کھڑا ہے جہاں 20 سال پہلے تھا۔ لیکن یہ اسرائیلی پراپگنڈہ  ہے جو انہیں ایران سے نفسیاتی obsess کر رہا ہے۔
    ار دن کے شاہ عبداللہ نے یہ درست کہا ہے کہ امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ "وہ مشرق وسطی کے بارے میں بہت کچھ جانتا ہے۔"  امریکہ کو مشرق وسطی میں کوئی کامیابی نہیں ہونے کا مطلب ہے کہ وہ مشرق وسطی کے بارے میں کچھ نہیں جانتا ہے۔ لبنان کی حکومت حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم نہیں سمجھتی ہے۔ حزب اللہ لبنان کے لئے فرنٹ لائن سیکورٹی ملیشیا ہے۔ جس نے اسرائیل کے قبضہ سے لبنان کے علاقہ آزاد کراۓ ہیں۔ اور لبنانی عیسا ئیوں اور سنیوں کے لئے حزب اللہ کی قربانیاں ہیں۔ حزب اللہ عیسا ئیوں اور سنیوں کے ساتھ حکومت میں شامل ہے۔ اور لبنان میں امن اور استحکام رکھنے میں یہ ایک اہم رول ادا کر رہی ہے۔ کیونکہ حزب اللہ نے تنہا اسرائیل سے جنگ لڑی تھی اور اسے لبنان سے نکالا تھا۔ اس لئے اسرائیل حزب اللہ کو دہشت گرد قرار دیتا ہے۔ اور اسرائیل کے دباؤ میں اب امریکہ نے بھی حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا ہے۔ سعودی عرب نے اسرائیل کو خوش کرنے کے لئے حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم تسلیم کر لیا ہے۔ پھر اسرائیل نے سعودی عرب کو خوش رکھنے کے لئے امریکہ سے کہہ کر یمن میں شہریوں کو ہلاک کرنے کے بارے  میں  تحقیقات رکو ادی ہے۔ یمن میں سعودی بمباری کے نتیجہ میں دو سو سے زیادہ بے گناہ شہری ہلاک ہوۓ تھے۔
    شام کو تباہ کرنے کا الزام اب ایران اور روس کو دیا جا رہا ہے۔ ریاض کانفرنس میں سعودی شاہ، سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر اور صدر ٹرمپ نے شام میں ایران اور حزب اللہ کی مداخلت کو شام تباہ ہونے کا سبب بتایا ہے۔ انہوں نے یہ کہہ کر ISIS کی شام میں دہشت گردی اور بے گناہ شہریوں کا قتل عام کرنے کی سرگرمیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ جھوٹ اور hypocrisy شام کو تباہ کرنے کی تاریخ  نہیں بدل سکتے ہیں۔ 2011 سے 2015 تک شام کی خانہ جنگی صدر اوبامہ اور خلیج کے حکمرانوں کی سرپرستی میں ہو رہی تھی۔ سی آئی اے کے تربیتی کیمپ ار دن میں نام نہاد باغیوں کو تربیت دے رہے تھے۔ جن میں خاصی تعداد میں انتہا پسند اسلامی تنظیموں کے دہشت گرد بھی اسد حکومت کے باغی بن کر تربیت لے رہے تھے۔ سعودی عرب اور خلیج کی حکومتیں شام کی خانہ جنگی میں فنڈنگ کر رہے تھے۔ اور یہ Facts ہیں۔ ایران اور حزب اللہ  اسد حکومت کو بچانے میں مدد کر رہے تھے۔ روس شام میں 2015 کے خزاں میں آیا تھا۔ اس وقت تک شام میں 4 لاکھ لوگ ہلاک ہو چکے تھے۔ شام کھنڈرات بن چکا تھا۔ دو ملین شامی دنیا میں پناہ کے لئے در بدر گھوم رہے تھے۔ شامی بچوں اور عورتوں کی لاشیں بحر روم میں تیر رہی تھیں۔ یہ خانہ جنگی ڈکٹیٹر کے خلاف ایک انتہائی ظالمانہ بربریت تھی۔ ایک ڈکٹیٹر کو اقتدار سے ہٹانے سے پہلے اس بربریت کا خاتمہ انسانی فریضہ تھا۔
    ریاض کانفرنس میں یمن کی جنگ کے حقائق کے بارے میں بھی جھوٹ بولا گیا ہے۔ یمن میں علی عبداللہ صالح کی حکومت نائن الیون کے بعد القا عدہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کے انتہائی قریبی اتحادی تھی۔ امریکی فوج اور سی آئی اے 2001 سے 2011 تک یمن میں القا عدہ کے خلاف آپریشن کر رہے تھے۔ امریکہ کے اس آپریشن میں القا عدہ کے کئی سر کردہ رہنما مارے گیے تھے۔ پھرعرب اسپرنگ یمن پہنچ گیا تھا۔ علی عبداللہ صالح کی حکومت کے خلاف عوام سڑکوں پر آ گیے تھے۔ حکومت کے خلاف مظاہروں کے دوران یمن میں ایرانی مداخلت کے کوئی ثبوت نہیں تھے۔ اوبامہ انتظامیہ نے علی عبداللہ صالح حکومت کے آخری دنوں میں یمن کو 500 ملین ڈالر کے ہتھیار دئیے تھے۔ اس وقت صدر صالح حکومت ختم ہونے کا سی آئی اے کو ضرور ہو گیا ہو گا۔ صدر صالح حکومت کا جلد زوال ہو گیا تھا۔ صدر صالح نے اپنے خاندان کے ساتھ سعودی عرب میں پناہ لے لی تھی۔ صدر علی عبداللہ صالح زیدی  Zaydi) ( شیعہ تھے۔ اس دوران امریکی میڈیا میں یمن میں 500 ملین ڈالر کے ہتھیار غائب ہو جانے کی خبر آئی تھی۔ اگر یمن میں اس وقت ایران کا کوئی اثر و رسوخ ہوتا تو اوبامہ انتظامیہ ان ہتھیاروں کے غائب ہونے کا شبہ ایران پر کرتی۔ یہ ہتھیار ہوتیوں کے ہاتھوں میں تھے جن سے وہ سعودی عرب کے خلاف لڑ رہے تھے۔ جبکہ صدر اوبامہ نے سعودی عرب کو یمن میں ہوتیوں کے خلاف جنگ میں تقریباً 70 بلین ڈالر کے ہتھیار فروخت کیے تھے۔ ان جنگوں میں کس کا فائدہ ہے اور کس کا نقصان ہے۔ ایران نے 80 کے عشرہ میں 8 سال جنگ لڑی تھی۔ اور ایران کو جنگ کے نقصانات کا تجربہ ہو چکا ہے۔ اور ایران جنگوں کی سیاست میں کبھی نہیں جاۓ گا۔ اسرائیل سعودی عرب اس خطہ میں ایک نئی جنگ شروع کرنا چاہتے ہیں۔ اور امریکہ کی ہتھیاروں کی صنعت کو روشن دیکھنا چاہتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے ریاض میں عرب اسلامی امریکہ کانفرنس کے دوران سائڈ لائن پر سعودی عرب کو 350 بلین ڈالر کے ہتھیار فروخت کرنے کا معاہدہ کیا ہے۔ اور یہ اس کانفرنس کی سب سے بڑی کامیابی تھی۔                                                                               

Sunday, May 21, 2017

Mr. President, Do Not Destroy The Infrastructure of American Foreign Policy Establishment

Transformation of America From Inventions To Investigations 

Mr. President, Do Not Destroy The Infrastructure of American Foreign Policy Establishment

مجیب خان
Prime Minister Netanyahu with Russian President Vladimir Putin, getting intelligence briefing   about Syria and ISIS

President Trump and Israeli Prime Minister Netanyahu, discussed Syria and exchange intelligence on ISIS 

U.S. President Donald Trump and Russian Foreign Minister Sergey Lavrov meet in The White House
     امریکہ کی سیاست میں 2016 کے انتخابات ایک زلزلہ کی طرح تھے۔ جس کے aftershock ابھی تک امریکہ کی سیاست میں دیکھے جا رہے ہیں۔ ایک نئی انتظامیہ اقتدار میں آ گئی ہے۔ لیکن کاروبار سیاست ابھی تک معمول کے مطابق نہیں آیا ہے۔ نئی انتظامیہ کے روزانہ  نئے اسکنڈل میڈیا کی سرخیاں ہوتے ہیں۔ اور ان اسکنڈل پر پھر سابق فوجی، سابق سی آئی اے اور ایف بی آئی ایجنٹ، اور Political opinion makers سارا دن تبصرے اور تجزیے کرتے ہیں۔ اور صدر ٹرمپ کو Tweet کرنے کی  شہ دیتے ہیں۔ اور پھر صدر کی Tweet پر تبصرے ہونے لگتے ہیں۔ جبکہ دونوں پارٹیوں کے لئے انتخابات میں روس کی مداخلت ایک بڑا موضوع ہے۔ اور اب دونوں پارٹیاں اس کی تہہ میں پہنچ کر یہ دیکھنا چاہتی ہیں کہ امریکہ میں کن لوگوں کا اس میں کیا رول تھا؟ کانگرس اور سینیٹ کی کمیٹیاں اس کی تحقیقات کر رہی ہیں۔ ایف بی آئی علیحدہ تحقیقات کر رہی ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کی ٹیم کے کچھ لوگوں کے روس کے ساتھ رابطوں کے بارے میں علیحدہ تحقیقات ہو رہی ہے۔ گزشتہ ہفتہ صدر ٹرمپ نے اٹارنی جنرل اور ڈپٹی اٹارنی جنرل کی ایک رپورٹ پر جس میں صدر سے ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کو برطرف کرنے کے لئے کہا گیا تھا۔ صدر ٹرمپ نے ان کی رپورٹ پر ایف بی آئی کے ڈائریکٹر جیمس کومی کو برطرف کر دیا۔ اس فیصلے پر ری پبلیکن اور ڈیمو کریٹس سینٹروں اور کانگرس مین کی طرف سے شدید رد عمل ہونے لگا۔ اور ایف بی آئی کی تحقیقات کے دوران ایجنسی کے ڈائریکٹر کی برطرفی کو مشکوک عزائم سمجھا گیا ہے۔ گزشتہ سال جولائی میں ایف بی آئی کے ڈائریکٹر جیمس کومی نے ہلری کلنٹن کے ای میل اسکنڈل کی تحقیقات کے بعد جب ہلری کلنٹن پر کوئی فرد جرم عائد نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ تو ری پبلیکن پارٹی نے ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کے اس فیصلہ کی شدید مذمت کی تھی۔ اور انہیں برطرف کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ لیکن پھر صدارتی انتخاب سے صرف 11 دن قبل ڈائریکٹر جیمس کومی نے ہلری کلنٹن کی نئی ای میل دریافت ہونے کا انکشاف کر کے ایک دھماکہ کر دیا تھا۔ اس انکشاف کے بعد ہلری کلنٹن کی انتخابی مہم کے عروج پر جیسے چاروں ٹا‏ئروں سے ہوا نکل گئی تھی۔ اور ہلری کلنٹن انتخاب ہار گئی تھیں۔ صدر اوبامہ نے صدارتی انتخاب سے صرف چند روز قبل  ایف بی آئی ڈائریکٹر جیمس کومی کے اس فیصلے پر شدید تنقید کی تھی۔ لیکن انہیں برطرف نہیں کیا تھا۔ حالانکہ ان کی پارٹی نے ایف بی آئی ڈائریکٹر کو برطرف کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے اس وقت ایف بی آئی ڈائریکٹر جیمس کومی کے اس فیصلے کی تعریف کی تھی۔
    گزشتہ کئی ماہ سے ری پبلیکن پارٹی کے حلقوں میں ڈائریکٹر ایف بی آئی پر عدم اعتماد کی آوازیں اٹھ رہی تھیں۔ دونوں پارٹیوں کی طرف سے ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کی برطرفی کی آوازیں سن کر صدر ٹرمپ نے ڈائریکٹر کو اب برطرف کر دیا ہے۔ لیکن اب دونوں پارٹیاں صدر ٹرمپ کے ڈائریکٹر جیمس کومی کو برطرف کرنے کے فیصلے سے اتفاق نہیں کر رہی ہیں۔ کیونکہ ایف بی آئی امریکہ کے صدارتی انتخاب میں روس کی مداخلت کے بارے میں تحقیقات کر رہی ہے۔ اور اس کے ساتھ صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم ٹیم کے کچھ لوگوں کی بھی تحقیقات کر رہی ہے جن کے روس کے ساتھ رابطہ تھے۔ ایک موقعہ پر صدر ٹرمپ نے ڈائریکٹر جیمس کومی سے پوچھا تھا کہ کیا وہ ان کی تحقیقات بھی کر رہے ہیں۔ جس پر ڈائریکٹر نے کہا کہ وہ ان کی تحقیقات نہیں کر رہے ہیں۔ لیکن پھر کانگرس کمیٹی کے سامنے اس تحقیقات کے بارے میں سوالوں کے دوران ڈائریکٹر جیمس کومی نے کانگرس سے مزید وسائل کے لئے درخواست کی تھی۔ اس پر صدر ٹرمپ کو یہ شبہ ہو گیا کہ اب اس تحقیقات میں انہیں بھی شامل کیا جا رہا تھا۔ اور ڈائریکٹر نے ان سے جھوٹ بولا تھا۔ اب اس پس منظر میں صدر ٹرمپ کے ڈائریکٹر جیمس کومی کو برطرف کرنے کے فیصلے کو Obstruction of Justice کہا جا رہا ہے۔ اور صدر ٹرمپ کے اس ایکشن کا واٹر گیٹ اسکنڈل سے موازنہ کیا جا رہا ہے۔ تاہم آئین میں صدر کو ایف بی آئی ڈائریکٹر کو برطرف کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ اور صدر کو تحقیقات ختم کرنے کا اختیار بھی ہے۔ اور اب امریکی میڈیا میں ایف بی آئی ڈائریکٹر جیمس کومی کے ایک ممیو کا ذکر ہو رہا ہے۔ جس میں صدر ٹرمپ نے ایف بی آئی کے ڈائریکٹر سے اس توقع کا اظہار کیا تھا کہ وہ جنرل Michael Flynn کے خلاف تحقیقات جلد ختم کر دیں گے۔ ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کے اس ممیو کو بھی Obstruction of Justice قرار دیا جا رہا ہے۔ اور دونوں پارٹیاں اسے ایک واضح Impeachment کیس بتا رہی ہیں۔ اور اب اس ممیو کی صداقت کے بارے میں تحقیقات کا مطالبہ ہو رہا ہے۔ لیکن صدر ٹرمپ نے ایف بی آئی کے ڈائریکٹر سے ایسی کسی گفتگو کی تر دید کی ہے۔ ری پبلیکن پارٹی بھی اس ایشو پر تقسیم ہے۔
    مئی 10 کو صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں روس کے وزیر خارجہ Sergey Lavrov اور واشنگٹن میں روس کے سفیر Sergey Kislyak سے ملاقات کی تھی۔ امریکی پریس کو اس ملاقات کو Cover کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ صرف روسی پریس کو وائٹ ہاؤس میں اسے Cover کرنے کی اجازت دی تھی۔ اور روسی پریس نے اس ملاقات کی تصویریں امریکی میڈیا کو جاری کی تھیں۔ صدر ٹرمپ نے روس کے وزیر خارجہ اور روس کے سفیر سے تنہائی میں ملاقات کی تھی۔ وائٹ ہاؤس کے پریس ریلیز کے مطابق اس ملاقات میں شام کی صورت حال، ISIS کے خلاف فوجی آپریشن، شمالی کوریا، فلسطین اسرائیل تنازعہ، مشرق وسطی میں امن اور استحکام، اور یوکرین کے مسئلہ پر گفتگو ہوئی تھی۔ صدر ٹرمپ نے روس کے وزیر خارجہ اور روسی سفیر کے ساتھ اپنی ملاقات کو بہت مفید بتایا تھا۔ مئی 19 کو صدر ٹرمپ کے بیرونی دورے پر روانہ ہونے سے صرف چند روز قبل یہ بریکنگ نیوز آئی کہ صدر ٹرمپ نے ایک انتہائی حساس اور اہم انٹیلی جینس روس کے وزیر خارجہ اور روسی سفیر سے ملاقات میں انہیں دی تھی۔ یہ انٹیلی جینس مشرق وسطی میں امریکہ کے ایک انتہائی قریبی اور با اعتماد اتحادی نے امریکہ کو دی تھی۔ جو اسلامی ریاست کے ایک منصوبہ کے بارے میں تھی۔ یہ انتہائی حساس انٹیلی جینس روس کو دینے پر میڈیا میں ایک تہلکہ مچ گیا تھا۔ سی آئی اے، ایف بی آئی اور فوج کے سابق ماہرین ٹی وی چینلز پر صدر ٹرمپ کے اس اقدام کو انتہائی خطرناک قرار دینے لگے۔ انہیں خدشہ یہ تھا کہ روس سے یہ انٹیلی جینس اب ایران کو مل جاۓ گی اور ایران سے پھر حزب اللہ کو مل جاۓ گی۔ اور جس ملک کی انٹیلی جینس نے یہ امریکہ کو دی ہے اس کے انٹیلی جینس ایجنٹ کی زندگی خطرے میں آ جاۓ گی۔ اور جو ملک دہشت گردی کے خلاف  جنگ میں امریکہ سے انٹیلی جینس کا تبادلہ کرتے ہیں۔ وہ اب محتاط رہیں گے۔ یہ خبر واشنگٹن پوسٹ نے دی تھی۔ اور پھر بعد میں اس ملک کا نام بتا دیا تھا جس نے یہ انتہائی حساس انٹیلی جینس امریکہ کو دی تھی۔ اور یہ اسرائیل تھا۔ یہ ظاہر ہونے کے بعد واشنگٹن میں اسرائیل کے سفیر نے ایک بیان میں کہا امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات بہت مضبوط ہیں۔ اور اسرائیل اور امریکہ کے درمیان اہم انٹیلی جینس  کا تبادلہ جاری رہے گا۔
    اس انتہائی حساس انٹیلی جینس کی داستان یہ تھی کہ یہ انٹیلی جینس صدر پو تن نے اسرائیل کے وزیر اعظم نتھن یا ہو کو دی تھی۔ وزیر اعظم نتھن یا ہو نے پچھلے سال امریکہ کے صدارتی انتخاب کی مہم کے دوران ماسکو کے 6 دورے کیے تھے۔ اور ان ملاقاتوں میں شام کی صورت حال پر صدر پو تن سے اپنی پریشانی کا اظہار کرتے تھے۔ داعش اور دوسرے اسلامی دہشت گرد اسرائیل کی سلامتی کے لئے خطرہ تھے۔ ان ملاقاتوں میں صدر پو تن نے شام میں داعش اور دوسرے دہشت گرد اسلامی گروپوں کے بارے میں انٹیلی جینس وزیر اعظم نھتن یا ہو کو دیں تھیں۔ اور وزیر اعظم نھتن یا ہو بھی اپنی انٹیلی جینس صدر پو تن کو دیتے تھے۔ صدر اوبامہ کے ساتھ نھتن یا ہو حکومت کے تعلقات زیادہ اچھے نہیں تھے۔ ٹرمپ  انتظامیہ میں نھتن یا ہو حکومت کا اعتماد بحال ہوا ہے۔ وزیر اعظم نھتن یا ہو جب وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ سے ملے تھے۔ اس ملاقات میں شام کی صورت حال، داعش اور دوسرے اسلامی دہشت گروپوں کی شام میں سرگرمیوں پر بات ہوئی تھی۔ اور اس ملاقات میں وزیر اعظم نتھن یا ہو نے داعش کے بارے میں انٹلی جینس  صدر ٹرمپ کی دی تھیں۔ اور یہ انٹیلی جینس صدر پو تن نے انہیں دی تھی۔۔ صدر ٹرمپ جب روس کے وزیر خارجہ اور روس کے سفیر سے وائٹ ہاؤس میں ملے تھے۔ اور شام کی صورت حال اور داعش کے خلاف جنگ پر گفتگو کے دوران صدر ٹرمپ نے یہ انٹیلی جینس روس کے وزیر خارجہ کو دے دی تھی۔ صدر ٹرمپ کے خیال میں یہ انٹیلی جینس روس کے لئے مدد گار ہو سکتی تھی۔ جو شام میں داعش اور دوسرے اسلامی دہشت گرد گروپوں کا خاتمہ کرنے کی کوششیں کر رہا تھا۔ لیکن امریکی میڈیا نے اسے انٹیلی جینس Leak کا کیس بنا دیا تھا۔ اور سیکورٹی اسٹبلشمینٹ کو ہلا دیا تھا۔
    یہ ساری ہنگامہ آ رائی اور تحقیقات کا سنسنی خیز ڈرامہ دراصل ٹرمپ انتظامیہ پر امریکہ کی خارجہ پالیسی کو تبدیل کرنے سے روکنے کے لئے ڈالا جا رہا ہے۔ صدر ٹرمپ نے پینٹ گان فوج کے حوالے کر دیا ہے۔ اور انہیں امریکہ کے ڈیفنس اور سیکورٹی کی ذمہ داریاں دے دی ہیں۔ Finance اور Treasury وال اسٹریٹ کے Billionaires کو دے دیا ہے۔  لیکن خارجہ پالیسی کے فیصلے صدر ٹرمپ خود کر رہے ہیں۔ اور خارجہ پالیسی   اسٹبلشمینٹ میں انقلابی تبدیلیاں کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پرانی سوچ کو Flush کر کے ایک نئی سوچ Inject کرنا چاہتے ہیں۔ اب میڈیا کے ذریعے اس کے خلاف مزاحمت ہو رہی ہے۔ اور Impeachment کی تلوار نکل آئی ہے۔ ڈرامہ سنسنی خیز ہوتا جا رہا ہے۔ دنیا کی بڑی طاقت کے اندر اب طاقت آزمائی ہو رہی ہے۔                            

Wednesday, May 17, 2017

Afghanistan’s Military Solution Has Failed, The Trump Administration Must Adopt A New Afghan Policy, And First Will Have to Target Corruption, Powerful Drug Mafia, Warlords' War for Power, And Surge A Political Solution


Afghanistan’s Military Solution Has Failed, The Trump Administration Must Adopt A New Afghan Policy, And First Will Have to Target Corruption, Powerful Drug Mafia, Warlords' War for Power, And Surge A Political Solution

مجیب خان

No to War- Afghan Peace Volunteers 

Afghan Protests

Afghan Children

Afghan Pashto Dance Show

Concert for Afghan women to mark Peace day in Kabul, Afghan singer Farhad Darya

Afghanistan 2014 Election, Afghan People's participation in Political Process
  
     17 سال میں ٹرمپ انتظامیہ تیسری انتظامیہ ہے جس میں ایک نئی افغان حکمت عملی پر غور ہو رہا ہے۔ پینٹ گان نے افغانستان میں Surge کی تجویز دی ہے۔ اور 3 ہزار مزید فوجیں افغانستان بھیجنے کی درخواست کی ہے۔ اس سے قبل افغانستان میں امریکی کمانڈر جنرل جان نکولسن نے بھی مزید فوجیں بھیجنے کی درخواست کی تھی۔ اور اب کمانڈر انچیف صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو یہ فیصلہ کرنا ہے۔ اس وقت افغانستان میں8500 امریکی فوجیں ہیں۔ اور تقریباً 5 ہزار نیٹو فوجیں ہیں۔ امریکہ کے ساتھ نیٹو بھی مزید فوجیں بھیجنے پر غور کر رہا ہے۔ یہ امریکہ کی تیسری انتظامیہ میں تیسرا Surge ہو گا۔ بش اور اوبامہ انتظامیہ میں Surge کے نتائج ناکامی تھے۔ بے گناہ شہریوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہوا تھا۔ اور افغان اور امریکی فوجی بھی خاصی تعداد میں مارے گیے تھے۔ طالبان کی سرگرمیوں میں بھی کمی نہیں ہوئی تھی۔ افغانستان کے حالات جوں کے توں تھے۔ Surge کے ذریعے طالبان کی سرگرمیاں ختم نہیں کی جا سکی ہیں۔ اسے آزمایا جا چکا ہے۔ پینٹ گان میں حکمت عملی کے ماہرین کو اب Surge کا متبادل ڈھونڈنا ہو گا۔ Exterminate صورت حال کا حل نہیں ہے۔ Reality کو تسلیم کرنے میں صورت حال کا دانشمندانہ حل نکل سکتا ہے۔ صدر بش نے یہ بڑا احمقانہ فیصلہ کیا تھا کہ طالبان کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد انہیں افغان معاشرے کا حصہ ہونے کی Reality  تسلیم نہیں کیا تھا۔ بلکہ ان کا Exterminate کرنے کا فوجی عمل شروع کر دیا تھا۔ صدر بش Extermination کے عمل کو افغانستان میں جہاں چھوڑ کر گیے تھے۔ صدر اوبامہ اسے لے کر آگے بڑھے تھے۔ اور یہ   اوبامہ انتظامیہ کی بھی پالیسی بن گئی تھی۔ یہ سمجھ سے باہر تھا کہ ایک ایسی پالیسی جو افغانستان میں فیل ہو گئی تھی۔ اسے  جاری رکھنے کا مقصد کیا تھا؟ لیکن پھر اوبامہ انتظامیہ کی اقتدار کے آخری برس میں افغانستان میں دلچسپی تقریباً ختم ہو گئی تھی۔ اور شام کی خانہ جنگی پر اوبامہ انتظامیہ کا فوکس بڑھ گیا تھا۔
    صدر حامد کرزئی کے دور اقتدار میں طالبان کے خلاف امریکہ اور نیٹو کی جنگ تھی۔ لیکن اب صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے درمیان اختیارات کی محاذ آ رائی ہو رہی ہے۔ اوبامہ انتظامیہ کو افغان حکومت میں اس بدنظمی سے مایوسی ہوئی تھی۔ دوسری طرف افغان فوج اور سیکورٹی فورسز کو طالبان اور وار لارڈ کی ملیشیا کی شدید مزاحمت کا سامنا تھا۔ افغانستان کے بعض صوبوں اور قصبوں میں افغان فوجی طالبان کے آگے ہتھیار پھینک کر بھاگ گیے تھے۔ پیشتر فوجیوں اور سیکورٹی فورسز کے اہل کاروں کو حکومت نے تنخواہیں بھی نہیں دی تھیں۔ اور یہ طالبان کے ساتھ لڑائی میں اپنی جانیں دینے کے لئے تیار نہیں تھے۔ تقریباً تین چار ہزار افغان فوجی اور سیکورٹی فورسز کے لوگ طالبان کا خاتمہ کرنے کی لڑائی میں اب تک مارے جا چکے ہیں۔ افغانستان میں جب یہ حالات ہیں تو اس صورت حال کا حل پھر کیا ہے؟ ٹرمپ انتظامیہ کی اس صورت حال میں اسٹرٹیجی کیا ہو سکتی ہے؟ افغان حکومت Politically incompetent اور Administratively weak or corrupt ہے۔ ملا عمر کی طالبان تحریک ختم ہو گئی ہے۔ اور اب جو نام نہاد  طالبان ہیں۔ وہ وار لارڈ کے پراکسی ہیں۔ منشیات مافیا کے پراکسی ہیں۔ کچھ طالبان خلیج کی حکومتوں کے پراکسی ہیں۔ ازبک اور تاجک وار لارڈ کی ملیشیا بن گیے ہیں اور یہ بھارت کے پراکسی ہیں۔ اور یہ سب اپنے پراکسی کی لڑائیوں کو Finance کرتے ہیں۔ اور نام نہاد طالبان کو اپنے مقاصد میں استعمال کرتے ہیں۔ اور یہ پیشہ ور طالبان ہیں۔ تاہم ملا عمرکی تحریک کے مٹھی بھر طالبان ہیں۔ جن کے ساتھ ماسکو میں مذاکرات ہو رہے ہیں۔ لیکن ان کا افغانستان میں بہت محدود اثر و رسوخ ہے۔ اس لئے اب ISIS کو ایک بڑی فورس بنا کر افغانستان میں آگے لایا جا رہا ہے۔
    پاکستان کو افغانستان کا اتنا زیادہ تلخ تجربہ ہوا ہے کہ اب اگر کوئی  بلین ڈالر کی پیشکش پاکستان کو کرے کہ وہ افغانستان کو بچانے کی لڑائی لڑے تو پاکستان شکریہ  کے  ساتھ  انکار کر کے اپنا دروازہ بند کر دے گا۔ پاکستان کو اب طالبان سے کوئی ہمدردی ہے اور نہ ہی کابل حکومت میں کوئی مفاد ہے۔ سوویت یونین کے خلاف افغانوں کی جنگ کو پاکستان نے اپنی جنگ بنا لیا تھا۔ اور افغانوں کی مدد کی تھی۔ انہیں اپنے گھر میں پناہ دی تھی۔ پاکستان آج ان کی وجہ سے دنیا میں بدنام ہوا ہے۔ دہشت گردوں کی حمایت کرنے کا لیبل آج پاکستان پر لگ رہا ہے۔ اور اب افغان فوجیں پاکستان پر حملہ کر رہی ہیں۔ دوسری طرف بھارت کی فوجیں پاکستان پر گولہ باری کر رہی ہیں۔ ایران کی حکومت بھی پاکستان کو دھمکیاں دے رہی ہے۔ خلیج کی اسلامی حکومتیں بھی پاکستان کے خلاف سازشیں کر رہی ہیں۔ ایسے حالات میں پاکستان یا تو خود کشی کر لے یا افغانوں سے دور بھاگے۔ لہذا اس صورت حال میں امریکہ کا افغانستان میں مدد کے لئے پاکستان کی طرف دیکھنا بے مقصد ہو گا۔ پاکستان کے پاس افغانستان میں امریکہ کی غلط پالیسیوں کے نتائج کا علاج نہیں ہے۔
    بش انتظامیہ نے افغانستان میں پہلی غلطی کی تھی۔ اور پھر اس غلطی کو دوسری غلطی سے درست کرنے کی کوشش کی تھی۔ اور اس وقت سے افغانستان میں غلطیوں کو غلطی سے درست کرنے کا جوا کھیلا جا رہا ہے۔ اوبامہ انتظامیہ نے بھی 8 سال تک افغانستان میں بش انتظامیہ کی غلطیوں کو جاری رکھا تھا۔ صدر ٹرمپ کو اب سابقہ دو انتظامیہ کی غلط اور ناکام پالیسیوں کو تبدیل کرنا ہو گا۔ طالبان کے بجاۓ پہلے افغان وار لارڈ، طاقتور منشیات مافیا، اور کرپشن کو فوکس کرنا ہو گا۔ افغان وار لارڈ پر سخت اقتصادی بندشیں لگانا ہوں گی ۔ منشیات مافیا کا خاتمہ کرنا ہو گا۔ انتہائی کرپٹ وار لارڈ کو اقوام متحدہ کے ذریعے بلیک لسٹ کرنا ہو گا۔ وار لارڈ کی ملیشیا ختم کرنا ہوں گی۔ اور افغان نیشنل آرمی اور سیکورٹی فورسز کو زیادہ منظم اور موثر بنانا ہو گا۔ انہیں پابندی سے اچھی تنخواہیں دی جائیں۔ اور انہیں افغانستان کے اندر امن اور استحکام کے لئے فرنٹ لائن بنایا جاۓ۔ طالبان کی داخلی اور غیر ملکی Finance سختی سے بند کی جاۓ۔ جو افراد اور حکومتیں طالبان کو فنڈ فراہم کریں انہیں بھی طالبان قرار دیا جاۓ اور ان کے خلاف بھی کاروائی کی جاۓ۔ صدر بش نے افغانستان میں طالبان حکومت کے خلاف فوجی کاروائی صرف اس لئے کی تھی کہ طالبان نے القا عدہ کے دہشت گردوں کو اپنے ملک میں پناہ دی تھی۔ اور اب اس اصول کے تحت ان حکومتوں کے خلاف بھی کاروائی کی جاۓ جو طالبان کو فنڈ فراہم کر رہے ہیں۔ افغانستان میں Elders کو جو امن اور استحکام کے شدت سے حامی ہیں۔ انہیں سپورٹ کیا جاۓ۔ اور انہیں آ گے لایا جاۓ۔ یہ کرپشن بھی ختم کر سکتے ہیں۔
    حکمت یار گلبدین ایک عرصہ سے روپوش تھے۔ ان کی حزب اسلامی جماعت کو بھی انتہا پسند قرار دیا گیا تھا۔ ملا عمر کے ساتھ حکمت یار گلبدین کو دریافت کرنے کے لئے لاکھوں ڈالر کا انعام دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔ با لا آخر حکمت یار گلبدین نے انتہا پسندی ترک کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اور اب افغان حکومت کے ساتھ سیاسی سمجھوتہ کر لیا ہے۔ اور افغانستان کے سیاسی عمل میں شامل ہو گیے ہیں۔ طالبان کو سیاسی عمل کا حصہ بنانے کا  صرف یہ راستہ ہے۔ 17 سال میں امریکہ نے ایک دن بھی افغانستان میں سیاسی کوششوں کو اہمیت نہیں دی ہے۔ حالانکہ افغانستان کو ایک سیاسی حکومت دی ہے۔ انتخابات کا سیاسی عمل شروع کیا ہے۔ پارلیمنٹ بنائی ہے۔ قانون بنائیں ہیں۔ لیکن افغانستان میں سیاسی عمل فوجی آپریشن کے ماتحت رکھا ہے۔ فوجی آپریشن فروغ دئیے ہیں۔ اور افغان فوج اور سیکورٹی فورسز کو بھی صرف افغانوں سے لڑتے رہنے کی تربیت دی ہے۔ اور نتائج بھی اس تربیت کے مطابق سامنے آ رہے ہیں۔
    صدر ٹرمپ افغانستان میں امن اور استحکام کے لئے اگر واقعی سنجیدہ ہیں۔ تو صدر ٹرمپ کو افغانستان میں فوجی Surge کی بجاۓ Political surge کا آغاز کرنا ہو گا۔ امریکہ کو طالبان سے براہ راست مذاکرات کرنا ہوں گے۔ افغانستان میں امریکی کمانڈروں کو طالبان سے رابطہ بحال کرنا ہوں گے۔ ان کے ساتھ ملوث ہونا ہو گا۔ اور انہیں افغانستان کے سیاسی عمل میں شامل ہونے کی ترغیب دی جاۓ۔ 17 سال سے امریکہ اور نیٹو کے فوجی آپریشن نے افغانستان کو سول سوسائٹی نہیں بنا یا ہے۔ لیکن  ایک سیاسی عمل افغانستان کو شاید سول سوسائٹی بننے میں مدد کر سکتا ہے۔