Friday, June 30, 2017

The Rise of Tribalism In Saudi Arabia’s Defense Policy

The Rise of Tribalism In Saudi Arabia’s Defense Policy  

Do Not Expect Good Results From The Bad Decisions

مجیب خان   
Emir Qatar Sheikh Tamim, President Trump and King Salman

Emir of Qatar and President Vladimir Putin

President Donald Trump and Prince Mohammed

Deputy Crown Prince Mohammed and President Obama
    سعودی عرب، بحرین اور متحدہ عرب امارات کا قطر کے ساتھ سلوک کچھ ایسا ہے کہ جیسے یہ ان کا renegade صوبہ ہے۔ اس نے اپنی آزاد پالیسیاں اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ لیکن قطر ایک خود مختار ملک ہے۔ قطر نے دوسرے خلیجی ملکوں کے مقابلے میں مختلف اور آزاد پالیسیاں اختیار کی ہیں۔ جن کی وجہ سے یہ چھوٹا ملک دنیا کے نقشہ پر بڑا نظر آ رہا ہے۔ اس کے گیس کے وسیع ذخائر ہیں اور الجزیرہ ٹی وی کی دور دراز ملکوں تک نشریات نے اس کا امیج بنایا ہے۔ مڈل ایسٹ میں سیاسی بیداری پھیلانے میں الجزیرہ ٹی وی کی نشریات کا ایک بڑا اور اہم رول ہے۔ اس خطہ کے لوگ الجزیرہ کی نشریات سے خاصہ متاثر ہیں۔ سعودی عرب اور خلیجی حکومتیں الجزیرہ کی نشریات سے خوش نہیں ہیں۔ انہوں نے اپنے ملکوں میں الجزیرہ پر پابندی لگا دی تھی۔ لیکن یہ چینل عرب عوام میں اتنا زیادہ مقبول تھا کہ لوگ اپنے گھروں میں مختلف ذریعہ سے اسے دیکھتے تھے۔ عرب عوام میں سیاسی بیداری کی سو نامی عرب اسپرنگ میں دیکھی گئی تھی۔ جس نے اس خطہ میں رائج آمرانہ نظام کو جڑوں سے ہلا دیا تھا۔ فاشسٹ عرب حکم رانوں، fake اسرائیلی ڈیموکریسی اور دوغلی امریکی قدروں نے مل کر عرب اسپرنگ کو سبوتاژ کر دیا تھا۔ عرب عوام کو اس کی قیمت اپنے حکم رانوں کی جیلوں میں موت کی صورت میں دینا پڑی تھی۔ امریکہ نے عرب اسپرنگ سے عرب حکم رانوں کو بچانے کی قیمت کھربوں میں وصول کی تھی۔ اسرائیل کو خوفزدہ عرب حکم رانوں کے ہاتھ تھامنے کے تعلقات قائم کرنے کا سنہرا موقعہ مل گیا تھا۔ عرب عوام دہشت گرد ہیں۔ یا عرب صحراؤں میں camel اور donkey ہیں۔
    قطر کے ساتھ کشیدگی ختم کرنے کے لئے سعودی عرب کی قیادت میں خلیجی ملکوں نے 13 نکات قطر کی حکومت کو دئیے ہیں۔ اور قطر کو ان نکات کے جواب دینے کے لئے 10   دن دئیے ہیں۔ ان نکات میں پہلا مطالبہ قطر سے الجزیرہ ٹی وی بند کرنے کے لئے کہا گیا ہے۔ اس کے بعد قطر سے ترکی کی فوجوں کو نکالنے کے لئے کہا ہے۔ ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کرنے اور Muslim Brotherhood سے رابطہ ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ قطر سے چار خلیجی ملکوں کے شہریوں کی قطری شہریت منسوخ کرنے اور انہیں قطر سے نکالنے کا کہا ہے۔ جسے یہ خلیجی ملک ان کے داخلی معاملات میں قطر کی مداخلت سمجھتے ہیں۔ قطر سے ان تمام لوگوں کو جو چار خلیجی ملکوں کو دہشت گردی کے الزام میں مطلوب ہیں انہیں فوری طور پر ان کے حوالے کرنے کا کہا گیا ہے۔ اور قطر سے کہا گیا ہے کہ امریکہ نے جنہیں دہشت گرد گروپوں میں شمار کیا ہے ان کی فنڈنگ بند کی جاۓ۔ ان شخصیتوں کے بارے میں تفصیلی فہرست فراہم کی جاۓ جنہیں قطر نے فنڈ دئیے ہیں۔ یہ مطالبے کچھ ایسے ہیں کہ جیسے چور تھانیدار سے مطالبہ کر رہا ہے کہ چوری کا مال کس میں تقسیم کیا ہے ان کے نام بتاۓ جائیں۔ حالانکہ جنہیں سعودی حکومت نے فنڈ دینا بند کر دئیے تھے۔ پھر قطر نے انہیں فنڈ فراہم کرنا شروع کر دئیے تھے۔ اس لئے سعودی حکومت بھی ان ناموں سے ضرور واقف ہو گی۔ سعودی عرب، بحرین، قطر اور متحدہ عرب امارات نہ صرف شام کے داخلی معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں بلکہ دہشت گردوں کی فنڈنگ بھی کر رہے ہیں۔ اور اب ایک دوسرے کو دہشت گردوں کی فنڈنگ کرنے کے الزام بھی دے رہے ہیں۔
    اکیسویں صدی میں اظہار نشریات پر تالے ڈالنے کا مطالبہ انتہائی نا معقول ہے۔ سعودی عرب کے مغربی اتحادی بھی یہ مطالبہ تسلیم کرنے کے لئے قطر پر دباؤ نہیں ڈالیں گے۔ کیونکہ یہ ان کی جمہوری اور آزادی کی قدروں کے خلاف ہو گا۔ بلکہ یہ ملک سعودی عرب کو الجزیرہ ٹی وی کے مقابلے پر اپنا ٹی وی چینل شروع کرنے کا مشورہ دیں گے۔ سعودی عرب نے قطر سے ترکی کی فوجوں کو نکالنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ یہ حیرت کی بات ہے کہ سعودی عرب کی قیادت میں خلیجی ملکوں نے قطر سے امریکہ برطانیہ اور فرانس کی فوجیں نکالنے کا مطالبہ نہیں کیا ہے۔ لیکن ایک اسلامی ملک ترکی کی فوجیں قطر سے نکالنے کا مطالبہ کیا ہے۔ سعودی عرب نے 40 اسلامی ملکوں کی فوج  بنائی ہے۔ اس کا  ہیڈ کوارٹر سعودی عرب میں ہے۔ اب اگر قطر سے امریکہ برطانیہ اور فرانس کی فوجیں نکالنے اور ان کی جگہ 40 اسلامی ملکوں کی فوج یہاں تعین کرنے کا مطالبہ کیا جاتا تو شاید 40 اسلامی ملک بھی اس کی حمایت کرتے۔ سعودی عرب نے امریکہ سے 400بلین ڈالر کا اسلحہ خریدنے کے جو معاہدے کیے وہ کس مقصد کے لئے ہیں۔
    با ظاہر یہ نظر آ رہا ہے کہ سعودی حکومت میں فیصلے کرنے میں ذہنی استحکام نہیں ہے۔ شاہ سلمان فیصلے کرتے ہیں اور انہیں بدل دیتے ہیں۔ یہ کہنا غلط ہے کہ صدر اوبامہ کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات میں تناؤ تھا۔ اور صدر ٹرمپ کے ساتھ  سعودی عرب کے اچھے تعلقات ہیں۔ حالانکہ صدر اوبامہ کے ساتھ بھی سعودی عرب کے تعلقات اتنے ہی اچھے تھے۔ مرحوم شاہ عبداللہ نے صدر اوبامہ کی بھی بڑی خاطر تواضع  کی تھی۔ انہیں بھی سعودی اعزاز سے نوازا تھا۔ یمن کے خلاف سعودی عرب کی جنگ میں صدر اوبامہ شاہ سلمان کے ساتھ کھڑے تھے۔ لہذا یہ کہنا غلط ہے کہ صدر اوبامہ کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات میں تناؤ پیدا ہو گیا تھا۔ سعودی عرب ایک قبائلی معاشرہ ہے۔ اور یہ بہت قدامت پسند معاشرہ ہے۔ سعودی عرب کی دفاعی اور خارجہ پالیسی میں اس کی قبائلی ذہنیت بہت واضح نظر آتی ہے۔ قطر کے ساتھ سعودی عرب کی محاذ رائی قبائلی نوعیت کی ہے۔ یمن کے ساتھ جنگ میں سعودی عرب نے چار سال میں تقریباً 500 ملین ڈالر خرچ کیے ہیں۔ اور 500 ملین ڈالر خرچ کر کے سعودی عرب نے یمن میں صرف بیماریاں پھیلائی ہیں۔ جن میں Cholera بھی شامل ہے۔ اور اب اس بیماری کے علاج کے لئے سعودی حکومت نے 66 ملین ڈالر یمن کو دینے کا اعلان کیا ہے۔ یہ احمقانہ قبائلی مہم جوئیاں ہیں۔ جن سے ناکامیوں کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا ہے۔
    سعودی حکومت کا یہ فیصلہ کیسا تھا کہ مصر میں فوجی ڈکٹیٹر کا اقتدار قبول کرنے کے بعد شام میں ڈکٹیٹر کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے جنگ شروع کر دی تھی۔ اور یہ جنگ بھی اسلامی دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے ساتھ لڑی جا رہی تھی۔ سعودی عرب الجزیرہ ٹی وی کو بند کرانا چاہتا ہے لیکن اس کی نشریات کے ذریعہ شام کے لوگوں کو آزادی دلانے کی حمایت کی جا رہی تھی۔ دنیا میں جنگیں امریکہ کا ایک کاروبار ہے۔ جنگوں سے امریکہ کی معیشت اچھی ہو جاتی ہے۔ لہذا امریکہ نے خلیج کے ڈکٹیٹروں کے ساتھ اتحاد بنا کر شام کے ڈکٹیٹر کو اقتدار سے ہٹانے کی جنگ شروع کر دی۔ 7 سال ہو گیے ہیں لیکن ابھی تک یہ کچھ حاصل نہیں کر سکے ہیں۔ البتہ شام انہوں نے تباہ کر دیا ہے۔ خاندان برباد کر دئیے ہیں۔ لاکھوں لوگوں کے گھر اجڑ گیے ہیں۔ بچوں کا مستقبل انہوں نے تاریک بنا دیا ہے۔ دو ملین لوگ مارے گیے ہیں۔ تین ملین لوگ بے گھر ہو گیے ہیں۔ خطہ میں نفرتیں، دشمنیاں اور تقسیم بڑھ گئی ہے۔ سعودی عرب کے واچ میں مسلمانوں نے مسلمانوں کا قتل عام کیا ہے۔ نسلیں اس تاریخ کو ہمیشہ یاد ر کھے گی۔
    تاریخ کے اس اہم موڑ پر سعودی عرب میں قیادت اب عبدالعزیز السعود کی تیسری نسل کو منتقل ہونے جا رہی ہے۔ شاہ سلمان نے ولی عہد شہزادہ محمد بن نائف کو ولی عہد سے برطرف کر دیا اور اپنے 31 سالہ بیٹے محمد بن سلمان کو ولی عہد نامزد کیا ہے۔ شاہ سلمان نے اپنے دوسرے بیٹے  خالد بن سلمان کو جو 20s کی عمر میں ہے واشنگٹن میں سعودی عرب کا سفیر نامزد کیا ہے۔ جبکہ وزیر داخلہ شاہ نے اپنے 33 سالہ بھانجے عبدالعزیز بن سعود بن نائف کو بنایا ہے۔ صدر ٹرمپ نے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو فون کر کے ولی عہد بننے کی مبارک باد دی ہے۔ ولی عہد شہزادہ محمد Hawkish  ہیں۔ وزیر دفاع  بننے کے بعد شہزادہ محمد نے یمن کے خلاف جنگ کی ابتدا کی تھی۔  گزشتہ ماہ ولی عہد شہزادہ محمد نے ایران کو دھمکی دی تھی کہ وہ جنگ ایران کی سرزمین پر لے جائیں گے۔ اسرائیل اور امریکہ ولی عہد شہزادہ محمد کے ان خیالات سے بہت متاثر ہوۓ ہوں گے۔ سعودی عرب نے ایک نئی محاذ رائی قطر کے ساتھ شروع کر دی ہے۔ سعودی حکومت خود اپنے فیصلوں سے مسائل کے بھنور میں گھرتی جا رہی ہے۔ عبدالعزیز السعود کی پہلی اور تیسری نسل نے تقریباً  70 سال سعودی عرب پر حکمرانی کی ہے۔ اور اب السعود خاندان کی تیسری نسل کے لئے آزمائش کا کٹھن وقت آ گیا ہے۔ Kingdom کی بقا اب اس نسل کے ہاتھ میں ہے۔ اگر اس نسل نے سعودی عرب کو اسی راستہ پر رکھا تو Kingdom کا مستقبل سوالیہ رہے گا۔ آئندہ پانچ دس سال میں Kingdom کو آئینی اور پارلیمانی بنانے کے لئے آوازیں اٹھیں گی۔ جیسے برطانیہ جاپان اور یورپ میں آئینی بادشاہتیں ہیں۔ حکومت کا نظام عوام چلاتے ہیں۔ اور یہ بہت کامیاب تجربہ ہے۔ مڈل ایسٹ میں حکومتیں تبدیل کرنے سے سیاسی حالات نہیں بدلے ہیں۔ لیکن اس خطہ کے سیاسی نظام کو بدلنے سے سیاسی حالات میں بھی تبدیلیاں آئیں گی۔ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان 31 سال کے ہیں اور وہ 50 سال تک سعودی عرب کے شاہ ہوں گے۔  
Deputy Crown Prince Mohammed Bin Salman


King Salman
                

Tuesday, June 27, 2017

“I Just Don’t Want A Poor Person In My Cabinet”

         
“I Just Don’t Want A Poor Person In My Cabinet”

Is Underneath The War On Terror A Real War of The Rich And Poor?

مجیب خان
Poverty in Saudi Arabia

Poor Family in Saudi Arabia

Saudi King meets with other Arab leaders

US President Donald Trump and Saudi Arabia's King Salman at the Saudi Royal Court

    امریکہ میں یہ سوال اٹھ رہے تھے کہ صدر ٹرمپ کی کابینہ میں تقریباً سب millionaire and billionaire ہیں۔ کسی نے کہا معیشت کا انچارج بھی millionaire  کو بنایا گیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے گزشتہ ہفتہ Iowa میں اپنے حامیوں کی ایک ریلی سے خطاب میں اس سوال کے جواب میں کہا "کیونکہ ہمیں ایسی سوچ رکھنے والے چاہیں۔ کیونکہ وہ ملک کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ انہیں دولت نہیں چاہیے۔"
                          
“These are people that are great, brilliant business 
minds, and that’s what we need, that’s what we have to have so the world doesn’t take advantages of us. We can’t have the world taking advantage of us anymore. And I love all people, rich or poor, but in those particular positions I just don’t want a poor person. Does that make sense? Does that make sense? If you insist, I’ll do it, but I like it better this way.” (Cedar Rap ids, Iowa presidential rally remarks about his cabinet, June 21, 2017)

ویسے تو امریکہ کے انتخابات میں صرف وہ ہی حصہ لیتے ہیں جو filthy rich ہوتے ہیں۔ لیکن کبھی کبار ایسے امیدوار بھی  منتخب ہو جاتے ہیں جو صرف rich ہوتے ہیں۔ اور filthy rich کو شکست دے دیتے ہیں۔ یہ شاید پہلا موقعہ ہے کہ filthy rich امریکہ میں اقتدار میں آۓ ہیں۔ اور انتظامیہ پر ان کا کنٹرول ہو گیا ہے۔  صدر ٹرمپ نے اپنی کابینہ میں filthy rich نامزد کیے ہیں۔ اور عوام سے یہ کہا ہے کہ وہ ان کے اقتصادی حالات بہتر بنائیں گے۔ عوام کو صدر ٹرمپ پر اعتماد ہے۔ اور وہ صدر ٹرمپ کے ساتھ ہیں۔ تاہم قابل ذکر یہ ہے کہ خلفہ راشدین کے دور کے بعد ایک غیر اسلامی ملک میں سربراہ مملکت سے یہ سوال کیا گیا ہے کہ آخر کوئی غریب کابینہ میں کیوں شامل نہیں ہے؟ کابینہ میں سارے امیر ترین کیوں ہیں؟ لوگوں نے صدر ٹرمپ کا جواب سن لیا ہے۔ اور خاموش ہو گیے ہیں۔ اب انہیں بھی آزمانے کے لئے وقت دے رہے ہیں۔
    انتخابات کا جب موسم آتا ہے دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں کے امیدوار صرف عوام کے لئے کام کرنے کی باتیں کرتے ہیں۔ اور پھر منتخب ہونے کے بعد یہ “Deep State” کے مفاد میں کام کرنے لگتے ہیں۔ صدر جارج بش اور صدر اوبامہ دونوں کو عوام نے دو مرتبہ منتخب کیا تھا۔ اور دونوں مرتبہ منتخب ہونے کے بعد یہ “Deep State” کی سیاست کرتے رہے۔ جنہوں نے انہیں منتخب کیا تھا۔ ان کے لئے کچھ نہیں کیا تھا۔ صدر بش کے اٹھ سال دور اقتدار کے اختتام پر لوگ انتہائی بدترین معاشی حالات میں تھے۔ بیروزگاری 10 فیصد تھی۔ امیر اور غریب کے درمیان فرق بہت بڑھ گیا تھا۔ مڈل کلاس تقریباً غائب ہو گئی تھی۔ صدر بش عوام کو خوشحالی دینے کے وعدہ کے ساتھ آۓ تھے۔ لیکن انہیں جنگیں اور غربت دے کر گیے تھے۔ پھر صدر اوبامہ کو جنہوں نے ووٹ دئیے تھے۔ ان کی زندگیاں صدر اوبامہ کے آٹھ سال دور اقتدار کے بعد جیسے منجمد ہو گئی تھیں۔ یہ آگے بڑھ سکے تھے۔ اور نہ ہی پیچھے گیے تھے بلکہ جہاں تھے وہیں رہے گیے تھے۔ امریکہ میں آج بھی غربت اتنی زیادہ  ہے کہ 40 ملین لوگ حکومت کی مدد کے سہارے پر زندہ ہیں۔
    نائن الیون ڈرامہ کے اصل victims غریب ملک اور غریب عوام ہیں۔ اور اس ڈرامہ کے beneficial مالدار ملک ان کی کمپنیاں، کارپوریشن اور دولت مند طبقہ ہے۔ ان 17 سالوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کی یہ سب سے بڑی کامیابی ہے کہ امیر اور غریب کے درمیان وسیع فرق آیا ہے۔ اور یہ فرق افغانستان میں بھی آیا ہے۔ جہاں وار لارڈ زیادہ مالدار اور طاقتور ہو گیے ہیں۔ اور غریب افغان غریب دہشت گردوں کا خاتمہ کرنے کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ جبکہ امریکہ اور یورپ میں لوگ امیر اور غریب کے درمیان اس وسیع فرق سے سرکش اور انارکسٹ ہو رہے ہیں۔ اس لئے امیر اور غریب کے درمیان جنگ کے حالات کو روکنے کے لئے لوگوں کی توجہ اسلامی دہشت گردی پر مرکوز کی جا رہی ۔ صدر ٹرمپ نے مسلمانوں پر امریکہ میں داخلے پر پابندی کا ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا تھا۔ لیکن جن millionaires اور billionaires عرب حکم رانوں  کے ساتھ صدر ٹرمپ ان کے محلوں میں ضیافتیں کھا رہے تھے۔ انہوں نے اپنے عوام کو دہشت گردی کا راستہ دکھایا تھا۔ صدر ٹرمپ نے صرف بادشاہوں، شہزادوں، اور عبدالفتح سی سی سے  ملاقاتیں کی ہیں۔ اور وہ کیا چاہتے ہیں انہیں سنا ہے۔ لیکن ان کے غریب عوام کس حال میں ہیں۔ ان پر کیا گزر رہی ہے۔ آزادی نہ ہونے سے ان کا دم گھٹ رہا ہے۔ افلاس اور بھوک کا پھندا ان کے گلے میں پڑا ہے۔ ان کے لئے یہ دہشت گردی کی layers ہیں جس میں وہ اپنے آپ کو زندہ ر کھے ہوۓ ہیں۔ ایک طرف ریاست کے اداروں کے خوف و ہراس دہشت گردی ہے۔ دوسری طرف اسلامی انتہا پسندوں کی دہشت گردی ہے۔ تیسری طرف غربت اور بیروزگاری انتہا پر ہے۔ تھینک ٹینک اور دوسرے عالمی اداروں کی رپورٹوں میں دہشت گردی کے اسباب میں غربت کو ایک بڑا سبب بتایا گیا ہے۔ اور یہ خصوصی طور پر نوٹ بھی کیا جا رہا ہے کہ نام نہاد دہشت گردی کی جنگ سے غربت پھیلائی جا رہی ہے۔ جو سب سے زیادہ غریب ملک ہیں وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے سب سے بڑے محاذ بنے ہوۓ ہیں۔ افغانستان، عراق، صومالیہ، مالی، یمن، شام اور لیبیا کو دہشت گردی کی جنگ  کے محاذ بنا کر انہیں غریب کر دیا ہے۔ عراق اور لیبیا دولت مند ملک تھے۔ شام ایک موڈ ریٹ معاشرہ تھا۔ ان ملکوں کو تباہ کر کے انسانیت کے خلاف crime of the century  ہیں۔
    صدر براک اوبامہ امریکہ کے پہلے بلیک صدر تھے۔ لیکن صدر اوبامہ نے اپنی پالیسیوں اور فیصلوں میں افریقہ کو وہ مقام نہیں دیا تھا جو ڈاکٹر مارٹن لو تھر کنگ نے انہیں یہ مقام دیا تھا۔ لیبیا افریقہ کا ایک اہم ملک تھا۔ قدافی حکومت افریقہ کی ترقی کو خصوصی اہمیت دیتی تھی۔ اس حکومت نے عیسائی افریقہ اور مسلم افریقہ میں کبھی تفریق نہیں کی تھی۔ اس لئے افریقہ کے رہنما صدر نیلسن منڈیلا کی قیادت میں لیبیا پر فضائی بندش کی خلاف کر کے طرابلس آۓ تھے۔ لیبیا کے ہمسایہ ملکوں سے ہزاروں کی تعداد میں بیروزگار نوجوان لیبیا کی پیٹروکیمیکل صنعت میں کام کرنے آتے تھے۔ اور اپنے ملکوں میں اپنی فیملی کو پالتے تھے۔ اس کے علاوہ قدافی حکومت افریقہ میں تعلیم اور انفرا اسٹکچر میں بھی انویسٹ کر رہی تھی۔ لیکن یہ لیبیا کو اسلامی دہشت گردوں کے حوالے کرنے کا premeditated plan تھا۔ صدر اوبامہ نے افریقہ کے کسی سربراہ سے صدر قدافی کو اقتدار سے ہٹانے کے بارے میں مشورہ نہیں کیا تھا۔ صرف یورپی ملکوں برطانیہ اور فرانس سے مشورہ کیا تھا۔ اور سعودی عرب اور خلیج کے حکم رانوں کو فیصلے سے آگاہ کر دیا تھا۔ قدافی کی صدارت پر امریکہ کی قیادت میں نیٹو کی بمباری افریقہ کے ملکوں بالخصوص لیبیا کے قریبی ہمسائیوں کے لئے بالکل ایسا تھا جیسے امریکہ پر نائن الیون کا حملہ تھا۔ اس حملہ کے نتیجہ میں لاکھوں افریقی خاندانوں کی زندگی بدل دی تھی۔ لیبیا کی پیٹرو انڈسٹری جن کی پرورش کر رہی تھی۔ قدافی حکومت کا خاتمہ ہونے کے بعد ان کے گھروں میں فاقہ پڑنے لگے تھے۔ دنیا کی امیر ترین قوموں نے دنیا کے انتہائی غریب ترین قوموں کے ساتھ یہ ظلم کیا تھا۔ حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ امریکہ کے پہلے بلیک پریذیڈنٹ کا اس میں مرکزی رول تھا۔ اس horrific blunder کے نتیجہ میں لیبیا کے ہمسایہ میں افریقی پیٹرو انڈسٹری سے یہ دہشت گردی کی انڈسٹری میں بھرتی ہو گیے تھے۔ اس ایک مہلک فیصلہ کے نتیجہ میں لیبیا میں نئی دہشت گرد تنظیمیں، مالی اور نائجر میں نئے دہشت گرد گروپوں کا قیام اور پھر دہشت گردی کا فروغ ہوا تھا۔ بلاشبہ ڈالروں کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ان گروپوں کی پرورش کون کر رہا تھا۔ یہ راز کی بات ہے۔ اگر یہ study کی جاۓ کہ عراق پر حملہ کرنے کے لئے 20 سال اور 30 سال کے نوجوانوں کو فوج اور بالخصوص  بلیک واٹر میں کس طرح بھرتی کیا گیا تھا۔ جو زیادہ تر ہائی اسکول dropout تھے۔ اور بیروزگار تھے۔ اور ISIS کس طرح اسی عمروں کے مسلمان نوجوانوں کو بھرتی کرتی ہے۔ تو اس میں بڑی مماثلت دکھائی دے گی۔  
Poverty in Egypt


Poverty in Yemen

Poverty and War in Yemen
                        

Wednesday, June 21, 2017

The Politics of Economic Sanctions Is A Weapon To Destroy The Country’s Economy

The Politics of Economic Sanctions Is A Weapon To Destroy The Country’s Economy  

مجیب خان
Economic impact of western sanctions on Iran's economy

U.S and EU sanctions are punishing  ordinary Syrians

Iranian man selling bananas to make money

A sick baby in a Baghdad hospital - September 1999

    دنیا میں امریکہ شاید واحد ملک ہے جس کی Two-tier خارجہ پالیسی ہے۔ ایک کانگرس کی خارجہ پالیسی ہے۔ اور دوسری انتظامیہ کی خارجہ پالیسی ہے۔ کانگرس ایک با اثر ادارہ ہے۔ لہذا اسے انتظامیہ کے خارجہ امور میں فیصلوں کو مسترد کرنے یا غیر موثر کرنے کا اختیار ہے۔ تاہم پریذیڈنٹ بھی کانگرس کے فیصلہ کو ویٹو کر سکتا ہے۔ خارجہ امور میں کانگرس کے “Activism” سے انتظامیہ خارجہ امور میں اہم فیصلے کرنے میں اکثر Impotent ہو جاتی ہے۔ بعض اوقات انتظامیہ عالمی تعلقات میں اپنے جن فیصلوں کو قومی مفاد میں دیکھتی ہے۔ کانگرس انہیں داخلی سیاست میں یا لابیوں کے مفادات کی سیاست میں اس کے برخلاف دیکھتی ہے۔ یہ اوبامہ انتظامیہ میں دیکھا گیا تھا۔ اور اب یہ ٹرمپ انتظامیہ میں بھی دیکھا جا رہا ہے۔ حالانکہ کانگرس میں ری پبلیکن کی اکثریت ہے۔ لیکن اس کے باوجود کانگرس خارجہ امور کو جیسے کنٹرول کر رہی ہے۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ صدر ٹرمپ امریکہ کی خارجہ پالیسی میں حیرت انگیز تبدیلیاں چاہتے ہیں۔ سیکورٹی امور میں پھنسی خارجہ پالیسی کو کمرشل مفادات میں ٹرانسفر کرنا چاہتے ہیں۔ ایران کے ایٹمی پروگرام پر عالمی سمجھوتہ میں اوبامہ انتظامیہ کی شمولیت پر کانگرس کی مخالفت اور ایران کے خلاف اقتصادی بندشوں کو برقرار رکھنے کا فیصلہ صرف مخصوص ملکوں کے مفاد کی حمایت میں ہے۔ حالانکہ یہ سمجھوتہ امریکہ کی سیکورٹی کے مفاد میں تھا۔ امریکہ کے یورپی اور نیٹو اتحادیوں نے ایران کے ایٹمی پروگرام پر سمجھوتہ کی حمایت کی تھی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایران پر عائد پابندیاں ختم کر دی ہیں۔ یورپی یونین نے بھی ایران پر سے بندشیں ختم کر دی ہیں۔ صدر اوبامہ نے ایران پر سے کچھ ایگزیکٹو پابندیاں ہٹا لی تھیں۔ لیکن کانگرس نے ایران پر نئی اقتصادی بندشیں لگانے کا فیصلہ کیا تھا۔ ایک ملک کے خلاف مختلف ملکوں کے مفادات کی لابیوں کے نتیجہ میں کتنی طرف سے بندشیں لگائی جاتی ہیں۔ ایران پر سیکورٹی کونسل کی اقتصادی بندشیں تھیں۔ پھر پریذیڈنٹ امریکہ کی ایگزیکٹو آ ڈر بندشیں تھیں۔ اس کے بعد کانگرس کا ایران پر بندشوں کا علیحدہ ایک قانون تھا۔ جبکہ ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد امریکی سفارت کاروں کو یرغمالی بنانے کے بعد 1980s میں جو اقتصادی بندشیں لگائی گئی تھیں وہ بھی ابھی تک لگی ہوئی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صدر کلنٹن کی انتظامیہ میں صدر محمد خاطمی کے دور حکومت میں ایران کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ سیکرٹیری آف اسٹیٹ میڈیلین البرائٹ نے ایرانی قوم سے 1953 میں ڈاکٹر محمد مصدق کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے میں سی آئی اے کے رول پر معافی مانگی تھی۔ اور سیکرٹیری البرائٹ تہران بھی گئی تھیں۔ لیکن ایران پر 1980s سے امریکہ کی جو اقتصادی بندشیں لگی ہوئی تھیں انہیں ہٹا کر ایرانیوں کے ساتھ خیرسگالی کا اظہار نہیں کیا تھا۔ حالانکہ ایرانیوں پر اقتصادی بندشوں کا ظلم بھی ایسا ہی تھا کہ جیسے ان پر شاہ کی آمریت مسلط کی گئی تھی۔
    سرد جنگ کو ختم ہوۓ 28 برس ہو گیے ہیں۔ لیکن امریکہ نے سوویت یونین پر اس وقت جو اقتصادی بندشیں لگائی تھیں وہ ابھی تک لگی ہو ئی ہیں۔ اور ان بندشوں میں اصلاحات روس پر نئی بندشیں لگا کر کی گئی ہیں۔ 1990s میں صدر بورس یلسن کی حکومت کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بہت اچھے تھے۔ اس وقت روس کے اندرونی سیاسی اور اقتصادی حالات شدید انتشار میں تھے۔ روس میں انارکی پھیلی ہوئی تھی۔ لوگوں کے پاس روز گار تھا اور نہ کھانے کے لئے پیسے تھے۔ سرکاری ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لئے خزانہ میں پیسے نہیں تھے۔ صدر بل کلنٹن امریکہ کے صدر تھے۔ لیکن روس کو ان برے حالات میں دیکھ کر بھی امریکہ نے روس پر سے سرد جنگ دور کی اقتصادی بندشیں ختم نہیں کی تھیں۔ بلکہ روس کو آئی ایم ایف  اور ور لڈ بنک کے قرضوں سے تیسری دنیا کے درجہ کا ملک بنا دیا تھا۔ لیکن پھر دلچسپ بات یہ تھی کہ روس کو صنعتی ترقی یافتہ ملکوں کے G-7 کلب میں شامل کر لیا تھا۔ اور یہ G-8 کلب بن گیا تھا۔ نہ صرف یہ بلکہ روس کو نیٹو ہیڈ کوارٹر میں مستقل Observer کی نشست دے دی تھی۔ لیکن امریکہ نے سرد جنگ دور کی اپنی اقتصادی بندشیں پھر بھی نہیں ہٹائی تھیں۔ روس کی قیادت نے بھی ان بندشوں کو ہٹانے پر زیادہ زور نہیں دیا تھا۔ اور امریکہ کو سرد جنگ دور کی سوچوں میں چھوڑ دیا تھا۔ نائن الیون کو دہشت گردوں کے امریکہ پر حملہ کے بعد صدر پو تن پہلے عالمی رہنما تھے جنہوں نے صدر بش کو فون کیا تھا۔ اور ان سے ہمدردی کا اظہار کیا تھا۔ اور اس موقعہ پر صدر بش کو روس کے مکمل تعاون کا یقین دلایا تھا۔ صدر بش کے ذہن میں عراق تھا۔ صد ام حسین کو اقتدار سے ہٹانے کی انہوں نے قسم کھائی تھی۔ صدر پو تن کو مڈل ایسٹ میں حکومتیں تبدیل کرنے کی جنگوں میں کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی۔ صدر پو تن کے ذہن میں یورپ میں آئل اور گیس کی پائپ لائنوں کے جال بچھانے کے منصوبے تھے۔ صدر بش کو عراق کے تیل پر قبضہ کرنے کا موقعہ مل گیا تھا۔ اور صدر پو تن کو یورپ بھر کو آئل اور گیس کی فراہمی کے سنہرے موقعہ مل گیے تھے۔
   امریکہ مڈل ایسٹ اور افغانستان میں مصروف تھا۔ اور روس یورپ میں آئل اور گیس کے تجارتی تعلقات فروغ دینے میں مصروف تھا۔ یورپ میں آئل کی مارکیٹ کے ایک بڑے حصہ پر روس قابض ہو گیا تھا۔ اور اسی طرح گیس کی فراہمی  میں بھی روس آگے آ گیا تھا۔ جرمنی میں سوشل ڈیمو کریٹک پارٹی اقتدار میں تھی۔ اور Gerhard Schroeder چانسلر تھے۔ اور صدر پو تن کے چانسلر Schroeder سے بہت قریبی اور ذاتی تعلقات تھے۔ صدر پو تن ان سے جرمنی میں بات کرتے تھے۔ دسمبر 2005 میں چانسلر Schroeder سیاست سے رٹائرڈ ہو گیے تھے۔ اور روس جرمن گیس پائپ لائن بورڈ کے چیرمین ہو گیے تھے۔ سابق چانسلر Gerhard Schroeder روس کی سب سے بڑی قدرتی گیس کمپنی کے بورڈ کے رکن ہو گیے تھے۔ اور ایک اندازے کے مطابق 2022 تک جرمنی کا روس کے آئل اور گیس پر انحصار بہت بڑھ جاۓ گا۔ ایڈورڈ سنو ڈن نے سی آئی اے کی جو خفیہ دستاویز جاری کی تھیں۔ ان میں جرمن چانسلر انجیلا مرکل کے آفس اور ان کے فون ٹیپ کرنے کے بارے میں بھی انکشاف ہوۓ تھے۔ اس کے ساتھ جرمن وزارتوں کے بھی فون ٹیپ کیے جا رہے تھے۔ یہ اوبامہ انتظامیہ میں امریکہ کے ایک انتہائی قریبی اتحادی کے ساتھ ہو رہا تھا۔ جرمن حکومت کے خفیہ طور پر فون ٹیپ کرنے اور جاسوسی اور عراق پر Preemptive حملہ کے در پردہ آئل اور گیس کی پائپ لائنوں کی سیاست پوشیدہ تھی۔ اور روس کے خلاف  اب اقتصادی بندشوں کے ذریعہ یورپ میں پائپ لائنوں سے آئل اور گیس نکلنے میں رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں۔
   آئل اور گیس کی صنعت میں زبردست فروغ سے روس کے ریونیو بڑی تیزی سے دو گنے سے تین گنا ہو گیے تھے۔ روس کی معیشت میں Boom آ رہا تھا۔ یورپ میں جرمنی روس کا سب سے بڑا ٹریڈ نگ  پارٹنر تھا۔ دوسرے یورپی ملکوں کے ساتھ بھی روس کے تجارتی تعلقات میں فروغ ہو رہا تھا۔ روس اقتصادی ترقی کے مضبوط ستونوں پر کھڑا ہو رہا تھا۔ جبکہ جنگوں نے امریکہ کے اقتصادی ترقی کے ستونوں کو کھوکھلا کر دیا تھا۔ 2008 میں امریکہ میں بڑے مالیاتی ادارے دیوالیہ ہو رہے تھے۔ صنعتی اداروں میں تالے پڑ رہے تھے۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگ بیروزگار ہو رہے تھے۔ امریکہ کو جب اقتصادی حالات خراب ہونے کا احساس ہوا تو روس کے ساتھ امریکہ کے تعلقات میں تناؤ آنے لگا تھا۔ اوبامہ انتظامیہ میں یہ تعلقات سرد جنگ دور سے زیادہ خراب بتاۓ جا رہے تھے۔ روس کی تیزی سے ترقی کرتی معیشت پر اوبامہ انتظامیہ نے اقتصادی بندشوں سے بریک لگانا شروع کر دئیے تھے۔ ٹرمپ انتظامیہ روس کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتی ہے۔ اور روس کے ساتھ امریکہ کے جو اختلاف ہیں  انہیں بات چیت سے حل کرنے کی حمایت کرتی ہے۔ لیکن امریکی سینٹ نے گزشتہ ہفتہ روس کے اہم معاشی شعبوں اور شخصیتوں پر 2016 کے امریکہ کی انتخابی مہم میں مداخلت کرنے اور شام اور یوکرین میں روس کی جارحیت پر نئی بندشیں لگانے کی قرار داد اکثریت سے منظور کی ہے۔ اور کانگرس سے بھی اسے منظور کرنے کا کہا ہے۔ شام میں روس کی مداخلت کا الزام اصل حقائق کا Distortion ہے۔ دنیا 6 سال سے یہ دیکھ رہی ہے کہ شام کو کس کے ہتھیاروں اور کن کی دولت سے تباہ کیا جا رہا تھا۔ کس نے کہاں مداخلت کی ہے یہ ایک لمبی بحث ہے۔
   Unilateral Economic Sanctions انسانی حقوق اور فری مارکیٹ اکنامی کی خلاف ورزی ہے۔ بالخصوص سیاسی مقاصد میں ان کا نفاذ ایک خطرناک ہتھیار کی طرح ہے۔ دنیا نے ان بندشوں کے خوفناک نتائج عراق میں دیکھے تھے۔ جہاں 5 لاکھ معصوم بچے پیدائش کے بعد چند ہفتوں میں مر جاتے تھے۔ ایک طرف امریکہ اور یورپ ان کے سیاسی مفاد سے اختلاف کرنے والے ملکوں کے اقتصادی بندشوں کے ذریعہ اپنے مارکیٹ کے دروازے بند کر دیتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف چین اور بھارت جنہوں نے اپنے اوپر “Self-Economic Sanctions” لگائی ہیں۔ اور غیرملکی کمپنیوں کے لئے اپنی مارکیٹ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی ہے ۔ ان سے یہ بندشیں ختم کرنے کا کہا جاتا ہے۔                  

Friday, June 16, 2017

A Region of Permanent Wars, Conflicts, Conflagration, And Turmoil

  A Region of Permanent Wars, Conflicts, Conflagration, And Turmoil

    In The Middle East, Out of Six Trillion Dollars, Only Five Hundred Million Dollars, America Had
 Spent Wisely On The Projects of Democracy, Freedom, And Women Rights, While Rest General Peter Has Spent On General Paul

مجیب خان
Two US-made Israeli super sherman tanks patrolling in East Jerusalem, June1967, 6 day war 

Israeli troops guard captured Egyptian troops and Palestinians at the start of of 6 day war. June 5, 1967 

First Gulf war U.S. marines on patrol, a destroyed Iraqi tank and a charred corpse with burning oil 

War of Iraq and human destruction

    اگر Moses اور Jesus امریکہ کے صدر بن جائیں تو شاید وہ بھی یہ ہی کریں گے جو صدر بش، صدر اوبامہ کر رہے تھے اور ان سے پہلے جو کر رہے تھے۔ اور صدر ٹرمپ بھی اب اسی طرف آ رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں سابق صدر کی مڈل ایسٹ پالیسی پر سخت تنقید کی تھی۔ اور ان کی پالیسیوں کو تباہی بتایا تھا۔ صدر ٹرمپ نے مڈل ایسٹ کی جنگوں سے امریکہ کو دور رکھنے کا کہا تھا۔ فلسطین اسرائیل تنازعہ میں غیر جانبدار رہنے کا کہا تھا۔ تاہم اس تنازعہ کو حل کرنے کی بات بھی کی تھی۔ لیکن پھر وائٹ ہاؤس کے Climate میں صدر ٹرمپ کو دنیا صدارتی انتخابی مہم کے Climate سے بہت مختلف نظر آئی تھی۔ صدر بش اور صدر اوبامہ نے مڈل ایسٹ کو جہاں چھوڑا تھا۔ صدر ٹرمپ نے اپنی مڈل ایسٹ  پالیسی کا آغاز بھی وہیں سے کیا ہے۔ فلسطین اسرائیل مڈل ایسٹ کا ایک بزرگ تنازعہ ہے۔ لہذا امریکہ کا ہر صدر سب سے پہلے اسرائیلی اور فلسطینی رہنماؤں سے ملاقات کرتا ہے۔ اور اس تنازعہ کے حل کو اپنی انتظامیہ کی پہلی ترجیح بیان کرتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک خصوصی مڈل ایسٹ  Envoy نامزد کیا جاتا ہے۔ صدر ٹرمپ نے بھی اس روایت کو برقرار رکھا ہے۔ اور سب سے پہلے اسرائیل اور فلسطین کے رہنماؤں سے وائٹ ہاؤس میں ملاقاتیں کی ہیں۔ لیکن ان ملاقاتوں کے کوئی خاص نتائج سامنے نہیں آۓ ہیں۔
    لیکن جو نتائج سامنے آۓ ہیں۔ وہ سعودی عرب ریاض میں صدر ٹرمپ کی GCC ملکوں کے رہنماؤں سے ملاقات کے بعد سعودی عرب کا قطر کے ساتھ تمام تعلقات ختم کرنے کا اعلامیہ ہے۔ اور اس اعلامیہ کے ساتھ سعودی حکومت نے قطر کی ناکہ بندی کر دی ہے۔ GCC اور شمالی افریقہ کے بعض ملک بھی God Father کے فیصلے کے تابعداری کر رہے ہیں۔ سعودی حکومت نے قطر کے خلاف اس فیصلہ کا سبب قطر کے حما س، اخوان المسلمون اور ایران کے ساتھ تعلقات بتاۓ ہیں۔ مڈل ایسٹ پہلے ہی خوفناک بحرانوں میں گھیرا ہوا ہے۔ اور اب ایک نئے بحران کا اس میں اور اضافہ ہو گیا ہے۔  یہ سلسلہ مڈل ایسٹ میں 60 سال سے جاری ہے۔ جب نئی امریکی انتظامیہ نے مڈل ایسٹ کے پرانے تنازعوں کو حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کوششوں کے نتائج ہمیشہ نئے تنازعہ پیدا ہونے کی صورت میں سامنے آۓ ہیں۔ اس سال 1967 کی عرب اسرائیل جنگ کے 50 سال ہو گیے ہیں۔ اور جو فلسطینی بچے اس وقت فلسطینی مہاجر کیمپوں میں پیدا ہوۓ تھے۔ وہ ان مہاجر کیمپوں میں اس سال 50  برس کے ہو گیے ہیں۔ اس سال اسرائیل اور مصر میں کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کو 39 سال ہو گیے ہیں۔ اس سال خلیج کی پہلی جنگ کو 26 سال ہو گیے ہیں۔ اس سال فلسطین اسرائیل اوسلو امن معاہدہ کو 24 سال (1993-2017 ) ہو گیے ہیں۔ اس سال عراق پر اینگلو امریکہ فوجی حملہ اور صد ام حسین کے اقتدار کے خاتمہ کے 14 سال ہو گیے ہیں۔ اس سال معمر قدافی کے اقتدار کا خاتمہ ہونے کے 6 سال ہو گیے ہیں۔ اس سال شام کی حکومت کے خلاف خانہ جنگی کو 7 سال ہو گیے ہیں۔ مڈل ایسٹ کے سیاسی حالات Shape دینے میں ہر امریکی انتظامیہ کی پالیسیوں اور فوجی کاروائیوں کا ایک رول ہے۔ مڈل ایسٹ کے دو ملکوں عراق اور لیبیا میں ڈکٹیٹروں کی حکومتیں فوجی حملوں کے نتیجہ میں ختم ہوئی تھیں۔ جبکہ شام میں ڈکٹیٹر کے خلاف باغیوں کی دہشت گردی کی حمایت کی ہے۔ لیکن پھر مصر میں فوجی ڈکٹیٹر کی حکومت قبول کر لی تھی۔ اسرائیل کے نظریاتی رجعت پسندوں نے وزیر اعظم Yitzhak Rabin کو قتل کر دیا تھا۔ یہ وزیر اعظم رابن کا قتل نہیں تھا یہ امن کا قتل تھا۔ کیونکہ وزیر اعظم رابن نے فلسطینیوں کے ساتھ امن کا سمجھوتہ کیا تھا۔ وزیر اعظم رابن کے قتل کو 24 سال ہو گیے ہیں۔ اور 24 سال سے ہر امریکی انتظامیہ فلسطینیوں سے وزیر اعظم رابن کے قاتلوں سے امن مذاکرات کرنے کا اصرار کر رہی ہے۔
    مڈل ایسٹ میں مسلسل Turmoil میں امریکہ کی ہر انتظامیہ کی پالیسی کے “Finger Print” ہیں۔ مڈل ایسٹ میں کبھی ایسے حالات پیدا نہیں کیے تھے کہ جیسے دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ کی تعمیر نو کے لئے یورپ میں حالات بناۓ گیے تھے۔ 1945 میں جنگ ختم ہوئی تھی اور 1960s میں یورپ دوبارہ ترقی یافتہ ہو گیا تھا۔ عراق کو تباہ کرنے کے بعد ابھی تک عراق کی تعمیر نو نہیں ہو سکی ہے۔ 14 سال ہو گیے ہیں اور عراق تباہ حال ہے۔ عراق کے ساتھ یہ صد ام حسین کے ظلم سے زیادہ بڑا ظلم ہے۔ مڈل ایسٹ کی تعمیر نو نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ امریکہ اور یورپ کی مڈل ایسٹ کو ہتھیار فروخت کرنے کی پالیسی کے ساتھ  مڈل ایسٹ کی تعمیر نو کبھی نہیں ہو سکتی ہے۔ اس لئے جرمنی اور جاپان پر ہتھیار رکھنے  اور فوجی مہم جوئیوں کی سیاست میں حصہ لینے کو ممنوع قرار دیا گیا تھا۔ لیکن عراق کی تعمیر نو کرنے کے بجاۓ امریکہ نے عراق کی نئی حکومت کے ساتھ سب سے پہلے کھربوں ڈالر کے ہتھیار فروخت کرنے کے سمجھوتہ کیے تھے۔ بش اور اوبامہ انتظامیہ نے عراقی حکومت سے یہ نہیں کہا تھا کہ جو عراقی خاندان ہماری جنگ کے نتیجہ میں تباہ ہو گیے ہیں پہلے ان کے گھروں کو تعمیر کیا جاۓ۔ امریکہ کی اس پالیسی نے داعش کو جنم دیا ہے۔ اور عراقی حکومت کو کھربوں ڈالر کے ہتھیار اس  سے لڑنے کے لئے فروخت کیے جا رہے ہیں۔
    اس خطہ میں جب تک دولت کے بے پناہ وسائل ہیں۔ اس وقت تک اس خطہ کے لوگوں کو امن نہیں ملے گا۔ سعودی عوام کی یہ بد قسمتی ہے کہ حکمران دوسروں کے Proxy بن گیے ہیں۔ اور ان کے لئے جنگوں کو فروغ دے رہے ہیں۔ جو کھربوں ڈالر انہیں ان پر خرچ کرنا چاہیے تھے وہ ہتھیاروں پر خرچ کر رہے ہیں۔ شاہ ایران نے بھی کھربوں ڈالر ہتھیاروں پر خرچ کیے تھے۔ لیکن یہ ہتھیار شاہ ایران کو نہیں بچا سکے تھے۔ صد ام حسین اور معمر قدافی کو بھی ہتھیار نہیں بچا سکے تھے۔ یہ صرف عوام ہیں جو اپنے رہنماؤں کے آ گے فرنٹ لائن بن جاتے ہیں اور انہیں بچاتے ہیں۔ قطر اور سعودی عرب دونوں امریکہ کے قریبی اتحادی ہیں۔ قطر نے ایک بلین ڈالر خرچ کر کے امریکہ کو اپنی سر زمین پر ایشیا میں سب سے بڑا بحری اڈہ بنا کر دیا ہے۔ جہاں سے امریکہ افغانستان شام صومالیہ لیبیا اور دوسرے مقامات  پر القا عدہ اور داعش کے خلاف آپریشن کرتا ہے۔ 10 ہزار امریکی فوجی اس بیس پر مقیم ہیں۔ صدر ٹرمپ نے اپنے پہلے بیرونی دورے کا آغاز سعودی عرب سے کیا تھا۔ اس موقعہ پر سعودی حکومت نے ریاض میں اسلامی سربراہوں کو جمع کیا تھا۔ صدر ٹرمپ نے انہیں تاریخی خطبہ دیا تھا۔ یہ امریکہ اسلامی ملکوں کی کانفرنس تھی۔ لیکن صدر ٹرمپ سعودی حکومت کو دراصل ہتھیار بیچنے آۓ تھے۔ شاہ سلمان نے آئندہ دس سال میں امریکہ سے تقریباً 400بلین ڈالر کے ہتھیار خریدنے کا معاہدہ کیا ہے۔۔ اس معاہدہ کے نتیجہ میں امریکہ میں 18 ہزار نئی Job create ہوں گی۔ اس کے علاوہ سعودی عرب امریکہ میں انفراسٹیکچر پر 40بلین ڈالر انویسٹ کرے گا۔ صدر ٹرمپ ان سعودی سمجھوتوں کے بھرے بریف کیس کے ساتھ  امریکہ واپس آۓ تھے۔ وائٹ ہاؤس میں ابھی یہ بریف کیس کھولا بھی نہیں تھا کہ سعودی عرب نے خلیج میں قطر کے ساتھ ایک نیا تنازعہ پیدا کر کے ٹرمپ انتظامیہ کا امتحان لینا شروع کر دیا کہ یہ اس تنازعہ میں کس کے ساتھ ہو گی۔ سیکرٹیری آف اسٹیٹ Rex Tillerson نے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں پریس کے سامنے بیان دیتے ہوۓ سعودی عرب سے قطر کی ناکہ بندی ختم کرنے کا کہا تھا۔ انہوں نے کہا یہ رمضان کا مہینہ ہے لوگوں کو کھانے پینے کی اشیا کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھر امریکہ کے 10 ہزار فوجی بھی قطر میں ہیں۔ سعودی بات چیت سے قطر کے ساتھ اپنے تنازعہ کو حل کریں۔ سیکرٹیری آف اسٹیٹ کے اس بیان کے بعد صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں پریس کے سامنے بیان میں پر زور لہجہ میں قطر سے دہشت گردوں کی حمایت کرنے اور ان کی فنڈنگ فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کیا۔ قطر کی حکومت کو صدر ٹرمپ کے بیان پر بڑی حیرت ہوئی تھی۔ قطر کے وزیر خارجہ ماسکو چلے گیے۔ ادھر پینٹ گان کو پریشانی یہ تھی کہ اس کے 10 ہزار فوجی قطر میں تھے۔ اور وہ بھی ناکہ بندی سے متاثر ہو رہے تھے۔ سعودی عرب کی واشنگٹن میں اپنی ایک لابی ہے جس پر یہ 60 ملین ڈالر خرچ کر رہا تھا۔ جبکہ اسرائیلی لابی بھی سعودی عرب کی پشت پر تھی۔ لہذا 600 پونڈ گوریلا لابی کے آگے صدر ٹرمپ کو جکھنا ہی تھا۔ یہ دیکھ کر قطر نے بش انتظامیہ میں اٹا رنی جنرل John Ashcroft کو hire کر لیا ہے۔ جنہوں نے نائن الیون کے بعد بش انتظامیہ میں دہشت گردی کی جنگ میں تمام کاروائیوں کی قانون کے دائرے میں رکھنے کی نگرانی کی تھی۔ John Ashcroft لا فرم پہلے 90 دن میں 2.5 ملین ڈالر Flat Fee وصول کرے گی۔ جو پہلے 90 دن کے اخراجات کے لئے ہوں گے۔ قطر کی لابی کرنے کے لئے John Ashcroft نے جسٹس ڈیپارٹمنٹ میں جو درخواست دی ہے اس میں اعلی سابق ایف بی آئی، امریکی انٹیلی جینس، وزارت خزانہ، ھوم لینڈ سیکورٹی حکام کو شامل کرنے کے لئے نام دئیے ہیں۔
    سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر واشنگٹن آۓ تھے۔ اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں سیکرٹیری آف اسٹیٹ Rex Tillerson سے ملاقات کی تھی۔ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں صحافیوں کے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ" قطرکی ناکہ بندی نہیں ہے۔ سعودی عرب کو اپنے فضائی حدود پر قانونی اختیار ہے۔ قطر کے لئے خشکی اور بحری راستے کھلے ہوۓ ہیں۔ اور وہ اپنے حدود سے آ اور جا سکتا ہے۔ اور اب یہ خبر آئی ہے کہ قطر نے امریکہ سے ایف35 طیارے خریدنے کا 12بلین ڈالر کا معاہدہ کیا ہے۔ جس کے بعد سعودی قطر تنازعہ سے گرما گرمی نکل گئی ہے۔  یہ مڈل ایسٹ کا المیہ ہے۔            
Iraq's 2nd war 2003


Destruction of American back regime change war in Syria

Syrian war

American-Saudi war against Yemen  

Yemen Victim of rich countries aggression

Poor Yemenies