Friday, July 28, 2017

Rigged Election Of 2000: Was The Result of Hacking Ballot Boxes In Broward County, Florida, Where A Big Russian Community Lives?

Rigged Election Of 2000: Was The Result of Hacking Ballot Boxes In Broward County, Florida,
Where A Large Russian Community Lives?   

Was There Any Collusion Between Governor Jeb Bush And Russian Oligarchs?

مجیب خان
Looking Hanging Chad and Dimple chad

President Bush and President Putin close family relations

President Bush  and President Putin

President George H Bush With President Putin and President Bush

Bush and Putin went fishing together

      2016 کے صدارتی انتخاب کو اب 8 ماہ ہو گیے ہیں۔ اور ٹرمپ انتظامیہ کے اقتدار کو اب 6 ماہ ہو گیے۔ لیکن صدارتی انتخاب میں روس کی نام نہا د meddling کے ابھی تک کوئی واضح ثبوت سامنے نہیں آۓ ہیں۔ جبکہ ٹرمپ انتظامیہ روس کی meddling کا الزام قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ دوسری طرف کانگرس میں دونوں پارٹیوں ڈیموکریٹ اور ریپبلیکن کا روس کی meddling کے خلاف جیسے ایک محاذ بن گیا ہے۔ اور دونوں پارٹیاں روس کی meddling ثابت کرنے کا تہیہ کیے ہوۓ ہیں۔ تیسری طرف نیوز میڈیا ہے۔ جہاں سیاسی پنڈت ہیں۔ جو ٹی وی اور اخبارات میں اس موضوع پر خبروں اور انکشاف پر روزانہ اپنے مشاہدوں اور تبصروں سے روس کی صدارتی انتخاب میں meddling ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ اٹھارہ ماہ کی صدارتی مہم کے دوران کوئی خصوصی طور پر روس سے امریکہ نہیں آیا تھا۔ اور ٹرمپ انتخابی ٹیم کا کوئی رکن روس نہیں گیا تھا۔ صدارتی انتخاب کے بعد اوبامہ انتظامیہ کے پاس نئی انتظامیہ کو اقتدار منتقل کرنے سے پہلے 80 دن تھے۔ لیکن اوبامہ انتظامیہ 80 دن میں روس کی meddling  کے کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکی تھی۔ صرف دعوی بہت تھے۔ امریکہ کی دس پندرہ ایجنسیوں میں سے ایک ایجنسی نے بھی اس کے ثبوت نہیں دئیے تھے۔ لہذا اب 8 ماہ گزر نے کے بعد یہ الزامات مشکوک نظر آتے ہیں۔ اور الزامات کا حقائق سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا ہے۔ تاہم داخلی meddling میں ضرور کچھ حقیقت ہے۔ ری پبلیکن پارٹی کا یہ فیصلہ تھا جس میں کانگرس اور سینٹ کے لیڈر بھی شامل تھے کہ ہلری کلنٹن کو کسی صورت میں پریذیڈنٹ نہیں بننے دیا جاۓ گا۔ جب ری پبلیکن پارٹی نے یہ فیصلہ کر لیا تھا۔ تو پھر meddling کے دروازے بھی کھل گیے تھے۔ اور یہ داخلی meddling تھی جس کے نتیجہ میں ہلری کلنٹن کو ہرایا گیا ہے۔
    صدارتی انتخاب کے انعقاد  سے گیارہ روز قبل ڈائریکٹر ایف بی آئی James Comey نے یہ سنسنی خیز meddling کی تھی کہ انہیں ہلری کلنٹن کی نئی ای میل ملی تھیں۔ اور وہ ان کا جائزہ لے رہے تھے کہ آیا ان ای میل میں ہلری کلنٹن کے جرم کے ثبوت تھے؟ ڈائریکٹر ایف بی آئی کی یہ meddling جیسے ہلری کلنٹن کی انتخابی کامیابی پر بجلی گر گئی تھی۔ روس کے سفیر سے ملاقاتیں یا بعض دوسرے روسیوں سے ٹرمپ کی انتخابی ٹیم کے بعض شخصیتوں سے رابطہ انتخاب میں meddling  نہیں تھے کہ جس سے صدارتی انتخاب کے نتائج سیکنڈ میں بدل گیے تھے۔ یہ ڈائریکٹر ایف بی آئی Comey کی meddling تھی جس کے نتیجہ میں ہلری کلنٹن کے Polls نیچے آ گیے تھے۔ اور ڈونالڈ ٹرمپ کو ہلری کلنٹن پر برتری مل گئی تھی۔ ڈائریکٹر Comey خود بھی ری پبلیکن تھے۔ اور انہوں نے دراصل ری پبلیکن پارٹی کی قیادت کے فیصلہ کی تکمیل کی تھی کہ "ہلری کلنٹن کو پریذیڈنٹ نہیں بننے دیا جاۓ گا۔" ری پبلیکن پارٹی اپنے مشن میں کامیاب ہو گئی ہے۔ لیکن جو صدر منتخب ہوا ہے وہ ری پبلیکن پارٹی کی اسٹبلیشمنٹ کا نہیں ہے۔ اور صدر پو تن کو اسی طرح ایک اچھا انسان سمجھتا ہے کہ جس طرح صدر جارج ڈبلیو بش سمجھتے تھے۔ صدارتی انتخاب میں داخلی meddling پر پردہ ڈالنے کے لئے اسے امریکہ کے انتخاب میں روس کی meddling قرار دیا  جا رہا ہے۔ حالانکہ امریکی عوام یہ قبول نہیں کر رہے ہیں۔
     تاہم اس میں شبہ نہیں ہے کہ 2000 کے صدارتی انتخاب میں فلوریڈا میں Rigging دراصل meddling تھی۔ یہاں بیلٹ با کس Hacks ہوۓ تھے۔ اور بیلٹ با کس سے Hanging Chad اورDimpled Chad ووٹ نکلے تھے۔ Jeb Bush فلوریڈا کے گورنر تھے۔ اور سب سے زیادہ انتخابی دھاندلی Broward کاؤ نٹی میں ہوئی تھی۔ جہاں ایک بہت بڑی آبادی دوہری شہریت کے روسیوں کی تھی۔ اور ان میں Oligarch روسی بھی تھے۔ لیکن اس وقت یہ کسی کے ریڈار پر نہیں تھا کہ Oligarch روسیوں کے ساتھ  گورنر Jeb Bush کا کیا Collusion  تھا؟ اور Broward کاؤ نٹی میں انتخابی دھاندلیوں میں ان کا کیا رول تھا؟ ووٹنگ فراڈ کی تحقیقات کرانے کا کسی نے مطالبہ نہیں کیا تھا۔ اور جنہوں نے الیکشن rigged کیے تھے۔ سپریم کورٹ نے ان کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔ امریکہ کی تاریخ میں یہ شاید پہلے rigged الیکشن تھے۔ جس نے دنیا میں امریکہ کا نقشہ بدل دیا تھا۔ صدر جارج ڈبلیو بش امریکہ کے 43 صدر بن گیے تھے۔ صدر بش نے فروری 2001 میں صدارت سنبھالی تھی۔ اور جون میں بش پو تن پہلی ملاقات Slovenia میں ABM معاہدہ پر مذاکرات کے دوران ہوئی تھی۔ اور اس ملاقات کے بعد صدر بش اور صدر پو تن کے درمیان ذاتی تعلقات ہو گیے تھے۔

President Bush praised President Vladimir Putin for his 
truthfulness and frankness, “Here’s the thing, when you are dealing with a World leader you wonder whether or not if he’s telling the truth. I’ve never had to worry about that with Vladimir Putin. Sometimes he says things I don’t want to hear, but I know he’s always telling the truth.

صدر بش نے ایک اور موقعہ پر صدر پو تن کے خلوص اور دیانت دار ہونے کا اعتراف کرتے ہوۓ کہا

“I looked the man in the eyes I found him to be very straight forward and trustworthy----I was able to get a sense of his soul.”

     بش انتظامیہ میں امریکہ اور روس کے تعلقات کا یہ بہترین دور تھا۔ دونوں ملکوں کے رہنماؤں میں گہری ہم آہنگی تھی۔ روس اور جور جیا کے درمیان جنگ میں بش انتظامیہ کا رد عمل خاصا نرم تھا۔ بش انتظامیہ نے دونوں ملکوں سے جنگ کو بھڑکانے سے گریز کرنے اور تنازع کو بات چیت سے حل کرنے پر زور دیا تھا۔ جور جیا کے  Abkhazia اور South Ossetia علاقوں میں علیحدگی کی شورش کے مسئلہ پر روس اور جور جیا میں جنگ شروع ہو گئی تھی۔ سیکریٹری آف اسٹیٹ کانڈا لیزا رائس نے واشنگٹن پوسٹ میں لکھا تھا کہ"2008 میں جور جیا پر روس کے حملہ کے بعد امریکہ نے Black Sea میں بحری جہاز عراق سے جور جیا کے فوجیوں کو واپس ان کے ملک میں لے جانے کے لئے بھیجے تھے۔ جو 2003 میں عراق کے خلاف جنگ میں اتحادی فوج میں شامل تھے۔" جور جیا کی جنگ میں صرف اس حد تک مدد کی تھی۔ اور روس کے خلاف سخت موقف اختیار کرنے سے گریز کیا تھا۔ صدر بش اور صدر پو تن کے درمیان ذاتی تعلقات کے آٹھ سال مکمل ہو رہے تھے۔ امریکہ میں صدارتی انتخابی مہم زوروں پر تھی۔ صدر اوبامہ کے دور میں روس کے ساتھ تعلقات میں Reset کے غلط Button اوپر نیچے ہوتے رہے۔
     صدر ٹرمپ صدر پو تن کے ساتھ یہ ذاتی تعلقات وہاں سے شروع کرنا چاہتے ہیں صدر بش جہاں یہ تعلقات چھوڑ کر گیے تھے۔ لیکن 2016 کے صدارتی انتخاب میں پو تن حکومت کو Hacking اور روس کو Meddling کے بے بنیاد الزامات کی مہم دونوں ملکوں کے معمول کے تعلقات خراب کر رہی ہے۔ بلکہ یورپ میں امریکہ کے قریبی اتحادی بھی پریشان ہیں کہ 2016 کے صدارتی انتخاب میں Meddling کی بھاری قیمت انہیں کیوں ادا کرنا پڑ رہی ہے؟ روس پر امریکہ کی بندشیں یورپ کو ان کا پابند کیوں بنا رہی ہیں؟ یہ امریکہ کا داخلی مسئلہ ہے۔ جبکہ Hacking کے کوئی واضح ثبوت نہیں ہیں۔ اور اصل Meddling داخلی ہوئی ہے۔ 2016 کے صدارتی انتخاب کو دنیا کے لئے مسئلہ نہیں بنایا جاۓ۔   
Governor Jeb Bush
  

    

                                                                                                          

Sunday, July 23, 2017

Palestine And Kashmir: The World’s Half Century Old Conflicts, And New Relations Between India And Israel

      
Palestine And Kashmir: The World’s Half Century Old Conflicts, And New Relations Between India And Israel

مجیب خان

Prime Minister Benjamin Netanyahu and Prime Minister Narendra Modi

Heavy Indian Army's Presence in Kashmir

Kashmiri Youths fighting with Indian troops

Israeli Soldiers kidnap Palestinian woman in Jerusalem

Israeli Soldiers attacking a protester
    نریندر مودی کو اگر بھارت کا ایریل شرون کہا جاۓ تو یہ شاید مبالغہ آ رائی نہیں ہو گی۔ نریندر مودی بھارت کے پہلے وزیر اعظم ہیں۔ جنہوں نے اسرائیل کا دورہ کیا ہے۔ اور ایریل شرون اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم تھے جنہوں نے  2003 میں بھارت کا دورہ کیا تھا۔ وزیر اعظم شرون ایک انتہائی قدامت پسند لیکوڈ پارٹی کے رکن تھے۔ فلسطینیوں کے کٹر دشمن تھے۔ وزیر اعظم بننے سے پہلے اسرائیلی فوج میں جنرل تھے۔ فلسطینیوں کی نسلیں صابرہ اور شتیلہ فلسطینی مہاجر کیمپ کبھی نہیں بھولیں گی۔ جن پر جنرل ایریل شرون نے بلڈوزر چلاۓ تھے۔ فلسطینی مہاجر کیمپ گراؤنڈ زیرو ہو گیے تھے۔ ہر طرف انسانوں کا ملبہ بکھرا ہوا تھا۔ اور جنرل شرون اپنے اس پس منظر کے ساتھ بھارت کے دورے پر آۓ تھے۔ جو کسی اسرائیلی وزیر اعظم کا پہلا دورہ بھارت تھا۔ بھارت میں جنتا پارٹی کی حکومت تھی۔ اٹل بہاری با جپائی بھارت کے وزیر اعظم تھے۔ نریندرا مودی گجرات کے وزیر اعلی تھے۔ امریکہ میں جارج بش انتظامیہ دنیا میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کا اسٹیج سیٹ کرنے میں مصروف تھی۔ کشمیر پر بھارتی فوجی قبضہ کے خلاف کشمیریوں کی تحریک اور فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی فوجی قبضہ کے خلاف فلسطینیوں کی تحریک امریکہ پر نائن الیون کے حملے کے وقت تقریباً 50 برس کی ہو چکی تھیں۔ جنہیں مغربی طاقتوں نے 50 برس صرف اپنے سیاسی مقاصد اور علاقائی سیاست میں انتشار کے حالات برقرار رکھنے کے لئے زندہ رکھا تھا۔ کشمیریوں اور فلسطینیوں کی حق خود مختاری کی جد و جہد عالمی قانون کے مطابق تھیں۔ اور اقوام متحدہ کے چارٹر میں غیر ملکی فوجی تسلط میں محکوم لوگوں کی مسلح جد و جہد کو تسلیم کیا گیا ہے۔  لیکن امریکہ پر دہشت گردوں کا حملہ جیسے اسی مقصد میں تھا کہ فلسطینیوں کی جد و جہد کو دہشت گردی قرار دے  دیا جاۓ گا۔ اور فلسطین کا تنازعہ پھر کبھی حل نہیں ہو سکے  گا۔ فلسطینی جب بھی اسرائیل کے خلاف سڑکوں پر آئیں گے انہیں دہشت گرد سمجھا جاۓ گا۔ لہذا ان حالات میں فلسطین کے تنازعہ کا حل ممکن نہیں تھا۔ دہشت گردی کی جنگ کو اتنا زیادہ پھیلا دیا تھا کہ اسے ختم کرنے میں 17 سال گزر گیے ہیں۔ اسرائیل کی اس حکمت عملی سے متاثر ہو کر بھارتی حکومت نے بھی کشمیریوں کی جد و جہد کو دہشت گردی کہنا شروع کر دیا۔ حالانکہ 2002 میں وزیر اعلی نریندرا مودی کے واچ میں گجرات میں انتہا پسند ہندوؤں کے مسلمانوں کے خلاف فسادات کو دہشت گردی نہیں کہا گیا تھا جس میں ایک ہزار مسلمان مارے گیے تھے۔ ان کی املاک اور کاروبار تباہ کر دئیے تھے۔ گجرات میں یہ فسادات غازہ میں اسرائیلی فوج کے خلاف فسادات سے مختلف نہیں تھے۔
    وزیر اعظم شرون کے دورہ بھارت کے بعد بھارتی حکومت کی پالیسی میں تبدیلی آئی تھی۔ دوسری طرف بش انتظامیہ کی بھارت پالیسی میں بھی نمایاں تبدیلی آئی تھی۔ افغانستان اور بھارت میں دہشت گردی کے واقعات پر بش انتظامیہ بھارت کے اعلامیوں سے اتفاق کرنے لگی تھی۔ بھارتی حکومت جب پاکستان کو بھارت میں دہشت گردی کرانے کے الزام دیتی تھی۔ اور پھر  بش انتظامیہ بھارت میں دہشت گردوں کو جانے سے روکنے  کے لئے پاکستان سے اصرار کرنے لگتی تھی۔ پاکستان نے طالبان کی انتہا پسندی کے خلاف 180 ڈگری سے یو ٹرن  لیا تھا۔ لیکن امریکہ 180 ڈگری یو ٹرن سے بھارت کے قریب ہو گیا تھا۔ واشنگٹن میں اسرائیلی لابی کا اس میں ایک رول تھا۔ حالانکہ افغانستان میں بھارت کو امریکہ کے مفاد کی پرواہ نہیں تھی۔ بھارت صرف اپنا مفاد دیکھ رہا تھا۔ افغانستان میں تاجک اور ازبک کو بھارت پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا تھا۔ پاکستان نے طالبان کی حمایت کی تھی۔ طالبان پشتون تھے۔ اور پشتون افغانستان میں اکثریت میں تھے۔ اور جنگ کی حکمت عملی یہ تھی کہ پشتونوں سے کوئی بات نہیں کی جاۓ گی جو طالبان تھے۔ صرف حامد کرزئی سے جو پشتون تھے اور افغانستان کے صدر تھے ان سے تعلقات ر کھے جائیں گے یا پشتون وار لارڈ سے بات کی جاۓ گی۔ جو افغانستان میں زیر زمین معیشت فروغ دے رہے تھے۔ امریکہ کی یہ افغان حکمت عملی بھارت کو suit کرتی تھی۔ جو افغانستان میں پاکستان کو شکست دے سکتی تھی۔ امریکہ اور نیٹو کو افغانستان میں بھارت کے مفادات کی تکمیل تک پھنسا کر رکھ سکتی تھی۔ دوسری طرف اسرائیلی کنٹرول میں امریکی میڈیا کے ذریعہ پاکستان کو طالبان کی حمایت کرنے کا پراپگنڈہ جاری تھا۔ بش اور اوبامہ انتظامیہ اگر بھارت کو افغانستان کی اندرونی سیاست سے دور رکھتے تو شاید افغان جنگ کبھی اتنی طویل نہیں ہوتی۔ اور ویت نام جنگ کے بعد امریکہ کو ایک اور غریب ترین ملک میں ایسی شرمناک شکست کا سامنا کبھی نہیں ہوتا۔ امریکہ کو سب نے اپنے میں استعمال کیا ہے۔ لیکن پاکستان امریکہ کے مفاد میں ہمیشہ تباہ ہوا ہے۔ امریکی کانگرس نے پاکستان پر بندشیں لگائی ہیں۔ پاکستان کو نقصان پہنچایا ہے۔
    وزیر اعظم ایریل شرون کے دورہ بھارت کے بعد وزیر داخلہ ایل کے ایڈ وانی نے اسرائیل کا دورہ کیا تھا۔ اور پھر وزیر خارجہ جسونت سنگھ اسرائیل گیے تھے۔ جبکہ واشنگٹن میں بھارت کی قومی سلامتی امور کے مشیر بر جیش میسرا صدر بش کی قومی سلامتی امور کے مشیر اسٹیفن ہیڈ لے کے ساتھ امریکہ بھارت اسٹرٹیجک تعلقات کی بنیادیں رکھنے میں مصروف تھے۔ امریکہ اسرائیل بھارت ایک نیا Axis of Powers بن رہا تھا۔ جنوبی اور مغربی ایشیا کے مسائل میں یہ ایک نیا اضافہ ہو رہا تھا۔ بھارت کی فلسطین تنازعہ پر پالیسی تبدیل ہو رہی تھی۔ اور دوسری طرف مقبوضہ کشمیر کو بھارت نے 'غازہ' بنا دیا تھا۔ بھارت دنیا کی اور اسرائیل عرب دنیا کی بڑی جمہو رتیں تھیں۔ لیکن ان ملکوں میں انسانیت کے ساتھ بدترین سلوک ہو رہا تھا۔ ہر تیسرے کشمیری کو دہشت گرد ثابت کیا جا رہا تھا۔ جن کی پشت پنا ہی کرنے کا الزام پاکستان کو دیا جاتا تھا۔ دوسری طرف فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی بھی یہ ہی پالیسی تھی۔
    اسرائیل کو فلسطین کے مسئلہ پر اقوام متحدہ میں اس کے خلاف قرار دادوں میں بھارت کی حمایت چاہیے۔ اور مودی حکومت میں بھارت نے اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف تقریباً چھ قرار دادوں پر ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا ہے۔ جس میں جولائی 2015 میں جنیوا میں اسرائیل کے خلاف اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل میں 2014 میں غازہ کی جنگ میں اسرائیل اور حما س کے جنگی جرائم کی تحقیقات کی قرارداد پر بھارت نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا تھا۔ اور اب بھارت بھی کشمیر کے مسئلہ پر اسرائیل سے favor چاہتا ہے۔ وزیر اعظم مودی مختلف ideas کے ساتھ پہلی مرتبہ اسرائیل کے دورے پر آۓ تھے۔ وزیر اعظم مودی کے ذہن پر CPEC  کشمیر اور پاکستان سوار ہے کہ کس طرح پاکستان میں عوام کے ذریعہ CPEC کو discredit کیا جاۓ۔ بھارت کے لئے کشمیر نہیں پاکستان مسئلہ ہے۔ جبکہ پاکستان کے لئے بھارت نہیں کشمیر مسئلہ ہے۔ اس لئے پاکستان نے بھارت کو MFN کا درجہ بھی دیا تھا۔ بھارت کا خوف یہ ہے کہ CPEC منصوبہ مکمل ہونے سے بھارت کہیں بھو ٹان یا نیپال نہ بن جاۓ۔ بھارتی قیادت کے یہ نفسیاتی خدشات ہیں۔ جن کا علاج دیکھنے وزیر اعظم مودی اسرائیل آۓ تھے۔ جبکہ اسرائیل کی پاکستان سے تعلقات قائم کرنے کی خواہش ہے۔ اور اسرائیل کی بھی CPEC میں شامل ہونے کی خواہش ہو گی۔ دنیا تاریخ کے اہم موڑ پر کھڑی ہے۔ لیکن بھارت Dead End پر کھڑا ہے۔

                            

Monday, July 17, 2017

Coup d’état Against Prime Minister Nawaz Sharif Brought By Sons And Daughter

Coup d’état Against Prime Minister Nawaz Sharif Brought By Sons And Daughter

مجیب خان

Prime Minister Nawaz Sharif and sons and daughter   
    اس مرتبہ وزیر اعظم میاں نواز شریف اپنے خلاف خود Coup d’état لا رہے ہیں۔ ان کے خلاف کوئی اندرونی سازش ہے اور نہ بیرونی سازش ہے۔ بلکہ میاں نواز شریف نے اپنے خاندان کے ساتھ مل کر خود اپنے خلاف سازش کی ہے۔ خدا کا شکر ہے اس میں فوج کا کوئی  رول نہیں ہے۔ صرف میاں نواز شریف کا اپنا رول ہے۔ خدا نے دو سال قبل انتخاب میں دھاندلیاں ہونے کے خلاف دھرنے سے میاں نواز شریف کو شاید یہ دن دکھانے کے لئے بچا لیا تھا۔ اسلام آباد میں ایک ماہ تک جنہوں نے دھرنا دیا تھا۔ اور انہیں پھر خالی ہاتھ دھرنا چھوڑ کر جانا پڑا تھا۔ خدا نے ان کے ہاتھوں میں پا نا مہ پیپر جیسے تحفہ دے دیا ہے۔ جن میں انتخابی دھاندلیوں سے زیادہ بڑی بدعنوانیاں ہیں۔ منی لانڈرنگ کی تفصیل ہے۔ کاروبار میں اعداد و شمار خرد برد کرنے کا طریقہ ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف نے پا نا مہ پیپرز بھی اسی طرح مسترد کر دئیے تھے کہ جس طرح JIT کی رپورٹ مسترد کر دی ہے۔ لیکن پھر پا نا مہ پیپرز میں میاں نواز شریف خاندان کے کرپشن منی، لانڈرنگ، کاروبار خریدنے اور فروخت میں لاکھوں ڈالروں کی ہیرا پھیری کی صفائی میں بیان دینے وزیر اعظم نواز شریف قومی اسمبلی میں آۓ تھے۔ اور پا نا مہ پیپرز میں انکشاف کی وضاحت کی تھی۔ اراکین قومی اسمبلی کو انہوں نے بتایا کہ لندن میں پراپرٹی کیسے خریدی گئی تھیں۔ انہیں خریدنے کے لئے دولت کہاں سے آئی تھی۔ نئی کمپنیاں کیسے خریدی گئی تھیں اور کیسے فروخت کی تھیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ اور پھر وزیر اعظم نے بڑے اعتماد سے پرزور اور جذباتی لہجے میں کہا تھا کہ  وہ ان تمام الزامات کی تحقیقات کے لئے کمیشن قائم کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اور کمیشن کا جو فیصلہ ہو گا اسے قبول کریں گے۔ سیاست اور کاروبار میں اگر پہلا فیصلہ درست ہو گا تو پھر بعد کے فیصلے بھی درست ہوتے جائیں گے۔ میاں نواز شریف نے کاروبار میں شاید پہلا فیصلہ درست کیا ہے اس لئے کاروبار چمک رہے ہیں۔ لیکن سیاست میں پہلا فیصلہ کیونکہ جنرل ضیا الحق کے ساتھ کیا تھا۔ اس لئے میاں نواز شریف کا ہر سیاسی فیصلہ غلط ہو رہا ہے۔ اور ان کا سیاسی مستقبل تاریک ہونے لگتا ہے۔
    JIT کی 8 ہزار صفحات پر مشتمل تحقیقاتی رپورٹ کو garbage کہنے کا مطلب یہ ہے کہ تلخ حقائق قبول کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ حالانکہ JIT کی رپورٹ سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کے کمیشن کی رپورٹ کا continuation ہے۔ یہ رپورٹ اپریل میں کئی ماہ کی تحقیقات کے بعد آئی تھی۔ جس میں سپریم کورٹ کے دو ججوں نے نواز شریف کے خلاف فیصلہ دیا تھا۔ ان ججوں نے وزیر اعظم نواز شریف کو نااہل قرار دیا تھا۔ اور اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ " نواز شریف وزیر اعظم کے عہدے کے قابل نہیں ہیں۔" جبکہ تین ججوں نے ان دو ججوں کے فیصلے سے اختلاف نہیں کیا تھا۔ ان ججوں نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا " وزیر اعظم نے جو ثبوت فراہم کیے ہیں وہ ناکا فی ہیں۔ نواز شریف اور ان کے خاندان کے بیانات میں سنجیدہ تضاد ات پاۓ جاتے ہیں۔ لندن کی 4 جائیدادوں سے متعلق بیان میں تضاد بے ایمانی ظاہر کرتی ہے۔ لندن میں جائیدادیں حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں بتایا ہے۔" فیصلہ میں لکھا ہے کہ " یہ نہیں بتایا ہے کہ جدہ فیکٹری فروخت کر کے بیٹوں نے کاروبار شروع کیا، لندن کی جائیداد خریدیں، قطر میں کسی سرمایہ کاری کا اشارہ یا جائیداد کے تبادلے کا بھی نہیں بتایا ہے۔ دونوں بیٹوں کے کاروبار کے لئے جدہ فیکٹری کی فروخت کو فنڈز کا ذریعہ بتایا ہے۔ لندن کے فیلٹس سے متعلق وزیر اعظم کا بیان ان کے بچوں کے بیان سے متضاد ہے۔" سپریم کورٹ کے ان تین ججوں نے پا نا مہ کیس سے متعلق معاملے کی مزید تحقیقات کے لئے کہا تھا۔ ان ججوں نے وزیر اعظم کو ایک موقعہ اور دیتے ہوۓ 12 سوالوں کے جواب مانگے تھے۔ اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے ایک تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کے لئے کہا تھا۔ چیف جسٹس نے ان پانچ ججوں کی سفارش پر JIT تشکیل دیا تھا۔ اور 60 دن میں اپنی تحقیقات مکمل کر کے اس کی رپورٹ سپریم کورٹ کو دینے کا کہا تھا۔ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق JIT نے 60 دن میں اپنی تحقیقات مکمل کرنے کے بعد اپنی رپورٹ سپریم کورٹ کے حوالے کر دی ہے۔
    JIT کی رپورٹ کا لب لباب بھی سپریم کورٹ کے پانچ ججوں پر مشتمل کمیشن کی رپورٹ اور فیصلے سے مطابقت رکھتا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف اپنے اور خاندان کے اوپر کرپشن اور منی لانڈرنگ کے الزامات میں صفائی پیش کرنے اور ثبوت فراہم کرنے میں ناکام ہو گیے ہیں۔ بلکہ کچھ نئے انکشاف بھی سامنے آۓ ہیں کہ وزیر اعظم نواز شریف دوبئی میں اپنے بیٹے کی کمپنی کے pay roll پر تھے۔ اور 10 ہزار ریال ماہانہ وصول کرتے تھے۔ اور اس بارے میں وزیر اعظم نے کسی کو نہیں بتایا تھا۔ اپنی اس آمدنی کو وزارت خزانہ اور ریونیو ڈیپارٹمنٹ سے چھپایا تھا۔ وزیر اعظم پاکستان میں عوام کے payroll پر تھے اور دوبئی میں بیٹے کی کمپنی کے payroll پر تھے۔ کسی بھی جمہوری ملک میں جہاں اخلاقی اور قانونی قدروں کا بلند معیار ہوتا ہے۔ یہ انکشاف ہونے پر وزیر اعظم کو استعفا دینا پڑتا۔
    سپریم کورٹ کے پانچ ججوں پر مشتمل کمیشن اور JIT کی رپورٹیں اب سپریم کورٹ کے سامنے ہیں۔ اس کیس میں ایک صاف ستھرے جمہوری عمل کے لئے سپریم کورٹ کے کردار کا تعین ہو گا۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ برسراقتدار وزیر اعظم اور ان کا خاندان کرپشن، منی لانڈرنگ اور کاروبار کے بارے میں نمبروں کا فراڈ کرنے میں ملوث ہونے کا کیس سپریم کورٹ میں آیا ہے۔ اس کیس میں پانچ جج پہلے ہی اپنا فیصلہ دے چکے ہیں۔ اس کیس میں سپریم کورٹ کے دوسرے جج اپنے ساتھی ججوں کے فیصلے کو نظر انداز یا مسترد  نہیں کریں گے۔ یہ سپریم کورٹ ایک اعلی ادارہ کی ساکھ کا سوال ہے۔ ملک کو صاف ستھرا معاشرہ اب فوج نہیں قانون کی بالا دستی قائم کرنے والے اداروں کی ذمہ داری بن گئی ہے۔
    جمہوریت کسی سیاسی خاندان کی ہوتی ہے۔ اور نہ ہی سیاسی خاندان جمہوری ادارے ہوتے ہیں۔ یہ سیاسی پارٹیاں ہوتی ہیں جو جمہوری عمل میں سیاسی اداروں کا درجہ رکھتی ہیں۔ سیاسی خاندان سے وابستہ شخصیتیں آتی ہیں اور چلی جاتی ہیں لیکن پارٹی کا وجود رہتا ہے۔ پا نا مہ کیس کا مسلم لیگ ن سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ ان کے خاندان کی کرپشن کا ذاتی کیس ہے۔ جس میں حقائق کو جھوٹ سے غلط ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ لیکن یہ Google کی دنیا ہے۔ جس میں جھوٹ حقائق پر غالب نہیں آ سکتا ہے۔ مسلم لیگ ن کے اراکین کو خوش آمدانہ مشورے دینے کے بجاۓ حقیقت پسندانہ ہونا چاہیے۔ اور قانون جمہوریت کے تقاضے پورے کرنا چاہیے۔ یہ سیاسی شخصیتوں کا کرپشن ہے جس نے جمہوریت کو ہمیشہ نقصان پہنچا یا ہے اور فوج بعد میں آئی ہے۔ لیکن فوج کو جمہوریت کو نقصان پہنچانے کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ شاید اس مرتبہ فوج یہ الزام لینے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اور ملک کے اعلی ترین قانون کی حکمرانی کے ادارے کو جمہوریت سے کرپشن ختم کرنے کی ذمہ داری دی گئی ہے۔
     ٹونی بلیر برطانوی عوام کے انتہائی مقبول وزیر اعظم تھے۔ عوام نے انہیں تین مرتبہ منتخب کیا تھا۔ لیکن عراق میں مہلک ہتھیاروں کے بارے میں وزیر اعظم ٹونی بلیر نے صدر بش کے ساتھ مل کر جھوٹ بولا تھا۔ اور برطانیہ کو عراق کے خلاف جنگ میں لے گیے تھے۔ وزیر اعظم ٹونی بلیر نے پارلیمنٹ کو گمراہ کیا تھا۔ برطانوی عوام سے غلط بیانی کی تھی۔ لیکن پھر عراق پر حملہ کے بعد جو حقائق سامنے آۓ تھے۔ اس میں صدر بش اور ٹونی بلیر کا جھوٹا پراپگنڈہ دنیا کے سامنے آ گیا تھا۔ عراق میں مہلک ہتھیار نام کے ہتھیار کہیں نہیں تھے۔ لیبر پارٹی نے وزیر اعظم بلیر سے پارلیمنٹ میں ان کی عراق پالیسی پر سخت سوال کرنا شروع کر دئیے تھے۔ عراق پر حملے کو غیر قانونی کہا جا رہا تھا۔ عراق میں مہلک ہتھیاروں کے بارے میں وزیر اعظم بلیر کے رول کی تحقیقات کے لئے کمیشن قائم کرنے کے مطالبے ہونے لگے تھے۔ برطانیہ میں نئے انتخاب بھی قریب آ رہے تھے۔ وزیر اعظم بلیر تیسری مرتبہ امیدوار تھے۔ تاہم لیبر پارٹی نے انتخاب جیتنے کے لئے ٹونی بلیر کی مخالفت نہیں کی تھی۔ اور عوام میں ان کی مقبولیت سے فائدہ اٹھا تے ہوۓ لیبر پارٹی نے تیسری مرتبہ بھاری اکثریت سے یہ انتخاب جیت لیا تھا۔ ٹونی بلیر تیسری مرتبہ وزیر اعظم بن گیے تھے۔ لیکن عراق جنگ کے سیاہ بادل ان کی حکومت پر چھاۓ ہوۓ تھے۔ لیبر پارٹی کے اراکین وزیر اعظم بلیر سے استعفا دینے کا مطالبہ کرنے لگے تھے۔ وزیر اعظم بلیر اپنی معیاد پوری کرنا چاہتے تھے۔ لیکن لیبر پارٹی کے مسلسل دباؤ کے نتیجے میں انہیں استعفا دینا پڑا اور حکومت گورڈن براؤن کے حوالے کر دی۔ حالانکہ وزیر اعظم بلیر کے ابھی تین سال باقی تھے۔ اس مسئلہ پر پارٹی تقسیم نہیں ہوئی تھی۔ ٹونی بلیر گروپ نہیں بنا تھا۔ یہ جمہوریت ہے۔ جس میں  پارٹی اپنے رہنما کا احتساب کرتی ہے۔ سیاسی پارٹیاں جمہوری اداروں کا درجہ رکھتی ہیں۔                         

Thursday, July 13, 2017

The Pro-NATO Warmongers Brought The World Back To The 1980s, Then, US-Soviet Relations Were Bad On Soviet Meddling In Afghanistan

The Pro-NATO Warmongers Brought The World Back To The 1980s, Then, US-Soviet Relations Were Bad On Soviet Meddling In Afghanistan  

Now US-Russia Relations Are Bad On Russian Meddling In 2016 American Elections

مجیب خان
President Trump and President Putin

President Reagan and Soviet President Gorbachev


    صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور صدر ویلا دیمیر پو تن کی ہمبرگ جرمنی میں ملاقات کی فضا کچھ ایسی تھی کہ جیسے سرد جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ یا یہ سرد جنگ کا part two تھا۔ سوویت یونین ختم ہو گیا تھا۔ لیکن روس کو ابھی تک سرد جنگ کی عینک سے دیکھا جاتا ہے۔ امریکہ ابھی تک سرد جنگ کی سوچوں میں ہے ۔ اور ان امریکی سوچوں میں صدر ریگن نے سوویت یونین کے ساتھ جن اختلافات کو جہاں چھوڑا تھا۔ ان کے خیال میں صدر ٹرمپ کو صدر پو تن سے ملاقات میں گفتگو کا آغاز وہاں سے کرنا چاہیے۔ اور افغانستان میں طالبان کے ساتھ روس کے تعلقات پر بات کی جاۓ۔ اور جس طرح 1980s میں امریکہ اور سوویت یونین کے رہنماؤں کی ملاقاتوں میں نکارا گواۓ، انگولا اور افغانستان میں سوویت یونین کی مداخلت اہم ایشو ہوتے تھے۔ اسی طرح اب صدر ٹرمپ اور صدر پو تن کی ملاقات میں امریکہ کے جمہوری عمل میں روس کی مداخلت، شام، یوکرین اور افغانستان اہم ایشو تھے۔ امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں نے سرد جنگ ختم نہیں کی تھی۔ سرد جنگ صرف سوویت یونین نے ختم کی تھی۔ اور مشرقی یورپی ملک وا رسا  پیکٹ سے نیٹو میں merge ہو گیے تھے۔ سرد جنگ اس حد تک ختم ہوئی تھی۔ سرد جنگ ذہنیت اپنی جگہ پر تھی۔ اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ سرد جنگ دور کے فوجی مفادات بھی برقرار تھے۔ نیٹو فوجی معاہدہ برقرار رکھنے کا فیصلہ در اصل ذہنوں میں سرد جنگ کو زندہ رکھنا تھا۔ مشرقی یورپ کے ملکوں کی نیٹو میں بھرتی ایسے ہو رہی تھی۔ جیسے جنگ شروع کرنے سے پہلے فوج میں بھرتی کی جاتی ہے۔ سوویت یونین ختم ہونے کے بعد امریکہ کے مقابلہ پر کوئی دوسری طاقت نہیں تھی۔ اور نہ ہی مغربی سرمایہ دارا نہ نظام خطرے میں تھا۔ لیکن اس کے باوجود امریکہ کے فوجی بجٹ میں اضافہ ہو رہا تھا۔ اس وقت روس سیاسی عدم استحکام کے حالات کا سامنا کر رہا تھا۔ روس کی معیشت تباہ ہو چکی تھی۔ روس کے دفاعی بجٹ کے لئے خزانہ میں فنڈ نہیں تھے۔ روس کے فوجی ادارے انتشار میں تھے۔ فوجیوں کو تنخواہیں دینے کے لئے خزانہ میں فنڈ نہیں تھے۔ روس سیاسی، اقتصادی اور فوجی طور پر اس قدر برے حالات میں تھا۔ لیکن امریکہ نیٹو کو وسعت دے رہا تھا۔
    نائن الیون کے بارے میں جب یہ کہا جاتا ہے کہ یہ “inside job” تھا۔ اس میں کچھ حقیقت نائن الیون کے بعد دنیا کے موجودہ سیاسی حالات میں نظر آتی ہے۔ دہشت گردی کےpretext  میں دنیا کو militarize کیا گیا ہے۔ دنیا میں فوجی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں۔ نیٹو کا رول یورپ سے ایشیا میں آ گیا ہے۔ اور اب آسڑیلیا اور نیوزی لینڈ  کو بھی نیٹو میں شامل کرنے کا منصوبہ ہے۔ نیٹو کو فروغ دینے کے ساتھ امریکہ نے دنیا بھر میں اپنے فوجی اڈوں کا علیحدہ ایک جال بچھا دیا ہے۔ اور اس وقت امریکہ کے دنیا میں تقریباً 800 فوجی اڈے ہیں۔ جو زیادہ تر ایشیا اور افریقہ میں ہیں۔ نائن الیون کے بعد دنیا کے مختلف حصوں میں کچھ جنگیں دہشت گردی کے نام پر شروع کی گئی تھیں۔ کچھ جنگیں مہلک ہتھیاروں کا خاتمہ کرنے کے لئے شروع کی گئی تھیں۔ کچھ جنگیں انسانیت کو ظالم ڈکٹیٹروں سے بچانے کے لئے شروع کی گئی تھیں۔ کچھ جنگیں Regime Change کرنے کے لئے شروع کی تھیں۔ اور کچھ جنگیں لوگوں کو فریڈم اور ڈیموکریسی دینے کے لئے شروع کی تھیں۔ پھر یہ جنگیں شروع کرنے کے بعد افغان حکومت کو طالبان کا خاتمہ کرنے کے لئے جنگ دے دی تھی۔ پاکستان کی حکومت کو افغانستان بھارت اور پاکستان میں انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کا خاتمہ کرنے کی Do more جنگ دی گئی تھی۔ عراق میں Regime Change کرنے کے بعد نئی عراقی حکومت کو سنی ISIS کا خاتمہ کرنے کے لئے جنگ دے دی تھی۔ ایک جنگ سعودی حکومت اور خلیج کے حکمرانوں کو یمن میں ہوتیوں کا خاتمہ کرنے کے لئے دے دی تھی۔ ایک جنگ ترکی کو بھی مل گئی تھی کہ دہشت گردوں سے لڑو۔ افریقہ میں مالی، نائجیریا، لیبیا اور مصر میں اسلامی انتہا پسندوں سے جنگ جاری ہے۔ ان جنگوں کو امریکہ Supervise اور نیٹو Manage کر رہے ہیں۔ امریکہ میں نائن الیون کی دہشت گردی میں 3 ہزار لوگ مارے گیے تھے۔ جبکہ پاکستان میں دہشت گردی میں 50 ہزار لوگ مارے گیے تھے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ دراصل دہشت گردی کو فروغ دے رہی تھی۔ دہشت گردی ختم نہیں ہو رہی تھی۔  افغان جنگ ابھی تک جاری ہے اور 17 سال ہو گیے ہیں۔ عراق میں بھی  جنگ جاری ہے۔ اور14 سال ہو گیے ہیں۔ جو جنگیں صدر بش نے شروع کی تھیں انہیں صدر اوبامہ ختم نہیں کر سکے تھے۔ بلکہ صدر اوبامہ نے اپنی نئی جنگوں سے ان میں اور اضافہ کر دیا تھا۔ South China Sea میں امریکہ کی فوجی سرگرمیاں بہت بڑھ گئی ہیں۔ ایک نیا فوجی الائینس بن رہا ہے۔ امریکہ جاپان اور بھارت کی مشترکہ فوجی مشقیں ہو رہی ہیں۔ امریکہ کی امن میں دلچسپی نہیں ہے۔ اور جنگوں میں دلچسپی بڑھ گئی ہے۔ گزشتہ 17 سال کے حقائق دنیا کے سامنے ہیں۔ لوگ ان کا جائزہ لے کر خود یہ فیصلہ کر سکتے ہیں۔ جنگوں اور ہتھیاروں نے دنیا کو صد ام حسین کے مہلک ہتھیاروں کے دعووں سے زیادہ خطرناک بنا دیا ہے۔
    یو کر ین کا بحران پیدا کرنے کا مقصد کیا تھا؟ امریکہ نے یو کر ین میں meddling کی تھی۔ جس کے نتیجہ میں President Viktor Yanukovych کی حکومت کا خاتمہ ہوا تھا۔ روس کی سرحد پر یہ “Casualty of Peace” تھا۔ یوکرین Cold War  ذہنیت کا بحران تھا۔ جسے اسسٹنٹ سیکریٹری آف اسٹیٹ وکٹوریا نیو لینڈ نے ایجاد کیا تھا۔ اور پھر یو کر ین کے مسئلہ کی pretext میں روس کو اقتصادی بندشوں میں گھیر لیا ہے۔ ان اقتصادی بندشوں کا مقصد روس کی معیشت کو نقصان پہنچانا ہے۔ روس کی اقتصادی ترقی میں رکاوٹیں کھڑی کرنا ہے۔ روس میں تیز تر اقتصادی ترقی کے بہت potentials ہیں۔ آئل اور گیس کے وسائل سے مالا مال ہے۔ روس جرمنی کے مقابلہ پر یورپ کی ایک بڑی اقتصادی طاقت ہو گا۔ یورپ میں فرانس برطانیہ اٹلی اور دوسرے یورپی ملکوں کی معیشت انحطاط کا شکار ہیں۔ امریکہ کی معیشت کو جنگیں آکسیجن فراہم کر رہی ہیں۔ اس لئے بھی جنگیں امریکہ کی ضرورت بن گئی ہیں۔ سرد جنگ ختم کرنے کے بعد روس نے دنیا میں کسی ملک کو Bully نہیں کیا ہے۔ نیٹو روس کی سرحدوں کے اطراف پہنچ گیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود روس کا رد عمل پرامن ہے۔ اور امن میں اپنے دفاع کو اہمیت دی ہے۔
    صدر اوبامہ روس کے ساتھ امریکہ کے تعلقات 1980s کی دنیا میں چھوڑ کر گیے ہیں۔ جرمنی میں G-20 کانفرنس کے دوران سائڈ لائن پر صدر ٹرمپ اور صدر پو تن کے درمیان دو گھنٹے پندرہ منٹ کی ملاقات میں  2016 کے انتخابات میں روس کی meddling  کے مسئلہ کو اس طرح اٹھایا گیا تھا کہ جیسے 1980 میں صدر ریگن اور صدر گارباچوف کے درمیان ملاقات میں افغانستان میں سوویت یونین کی meddling کا مسئلہ اٹھایا گیا تھا۔ ٹرمپ- پو تن ملاقات کا دوسرا موضوع شام تھا۔ حالانکہ شام میں امریکہ اور اس کے عرب اتحادیوں نے جہادیوں اور دہشت گردوں کے ذریعہ meddling کی تھی۔ یہ شام کا داخلی معاملہ تھا۔ اور مداخلت عالمی قوانین کی ننگی جارحیت تھی۔ شام میں خانہ جنگی War against Humanity تھی۔ ایک ملین بے گناہ شامی اس جنگ میں مارے گیے تھے۔ تقریباً 3 ملین شامی بے گھر ہو گیے ہیں۔ شام Ground Zero ہو گیا ہے۔ 6 سال میں خانہ جنگی نے شام کو یہ حالات دئیے تھے۔ اور روس نے ان حالات کو دیکھ کر شام میں مداخلت کی تھی۔ اس لئے روس کی یہ مداخلت سرد جنگ میں سوویت یونین کی افغانستان میں مداخلت سے بہت مختلف تھی۔ روس کی بر وقت مداخلت نے شام کو بچایا ہے۔ اور انسانیت کو بچایا ہے۔ اور روس کے بارے میں یہ اصل حقائق ہیں۔ جنہیں Distort نہیں کیا جا سکتا ہے۔ دنیا میں جنگیں کس نے پھیلائی ہیں؟  یہ بھی دنیا دیکھ رہی ہے۔