Friday, September 29, 2017

In Pakistan Islamist Terrorists Are Weakening, While In India Hindu Extremism Is Strengthening And Becoming Category Five

In Pakistan Islamist Terrorists Are Weakening, While In India Hindu Extremism Is Strengthening And Becoming Category Five

مجیب خان
Indian Foreign Minister Sushma Swaraj, addressing UN General Asembly"today India is a recognized IT superpower in the world, and Pakistan is recognized only as the pre-eminent export  factory for terror   

Hindu extremists are strengthening in India

We are in the 21st century and yet there is still no dignity for women as they have to go out in the open to defecate and they have to wait for darkness to fall." P.M Modi 15 Aug 2014
   اسے بھارت کی روایت سمجھا جاۓ یا اسے بھارتی رہنماؤں کی عادت کہا جاۓ کہ یہ ہر سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ سیشن میں آتے ہیں۔ اور پاکستان کو برا بھلا کہتے ہیں۔ اور بھارت کے اندر دہلی سے آزادی حاصل کرنے کی جو شورش ہے اس کا الزام پاکستان پر لگاتے ہیں۔ پاکستان کو خوب برا بھلا کہتے ہیں۔ دنیا کے سامنے پاکستان کو گرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سال بھی اقوام متحدہ کے 72ویں سالانہ سیشن میں وزیر خارجہ سشما سوراج نے جنرل اسمبلی کے Podium سے پاکستان کو برا بھلا کہنے اور الزامات دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ 21ویں صدی کا اقوام متحدہ کا یہ 16واں سیشن تھا۔ صرف 21ویں صدی کے آغاز سے 56ویں سیشن سے 2017 میں 72ویں سیشن تک ہر بھارتی حکومت کے وزیر اعظم یا وزیر خارجہ جنرل اسمبلی کے سیشن میں پاکستان کے خلاف الزامات سے بھرے تھیلے لاتے تھے۔ اور پھر Podium سے ان میں الزامات سے بھرا کچرا پاکستان پر پھینکتے تھے۔ یہ سلسلہ تقریباً 20ویں صدی کے نصف میں جنرل اسمبلی کے 47ویں سیشن سے جاری ہے۔ اس وقت بھارتی رہنما تنازعہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے خلاف تقریر کرتے تھے۔ اور پاکستان کو جنوبی ایشیا کو بڑی طاقتوں کی سرد جنگ کا محاذ بنانے کا الزام بھی دیتے تھے۔ اس وقت سے ایشیا، افریقہ، لا طین امریکہ اور یورپ کے جو سفارت کار بھارتی رہنماؤں کو جنرل اسمبلی کے سالانہ سیشن میں سن رہے ہیں۔ جنرل اسمبلی سے خطاب میں بھارتی رہنما جب پاکستان سے آغاز کرتے ہیں تو یہ سفارت کار کہتے ہوں گے “Here you go again” ہر سال پاکستان کے بارے میں صرف پرانی شکایتیں Recycle کی جاتی ہیں۔ جنرل اسمبلی کے موجودہ سیشن سے خطاب میں وزیر خارجہ سشما سوراج نے کہا دنیا پاکستان کو “Pre-eminent export factory for terror” سمجھتی ہے۔ لیکن دنیا بھارتی رہنماؤں سے جب یہ سنتی ہو گی تو ضرور یہ سوچتی ہو گی کہ بھارتی حکومت کیا کر رہی ہے؟ آخر بھارتی حکومت اپنے خطہ سے دہشت گردی ختم کرنے میں پاکستان کے ساتھ مل کر کام کیوں نہیں کرتی ہے؟ بھارت کے بعد پاکستان جنوبی ایشیا کا بڑا ملک ہے۔ اور یہ دونوں ملک اس خطہ کو بدل سکتے ہیں۔ اس خطہ کو جنگوں سے نکال سکتے ہیں۔ بھارتی رہنما شکایتیں بہت کرتے ہیں۔ لیکن ان کی شکایتوں کے جو اسباب ہیں۔ ان کا ازالہ کرنے میں مشکل فیصلے کرنے سے ڈرتے ہیں۔ حالانکہ مشکل فیصلوں میں ان کی شکایتوں کا علاج ہے۔ اب یہ اپنا علاج خود کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی ان کا علاج کروانا چاہتے ہیں۔ صرف شکایتوں کے اسباب پر دھرنا دئیے بھیٹے ہیں۔ اور ہر عالمی پلیٹ فارم کے Podium سے صرف شکایتیں کر تے رہتے ہیں۔ ایک ایسی دنیا میں جہاں ہر تنازعہ کو حل کرنے میں ہتھیاروں کو تیار دیکھا جا رہا ہے۔ اس صورت میں امن میں لوگوں کا اعتماد ختم ہوتا جا رہا ہے۔ بھارت اور پاکستان جو نیو کلیر طاقتیں ہیں اگر اپنے تنازعوں کے ایک پرامن سیاسی حل میں پیش رفت سے دنیا میں لوگوں کا امن میں اعتماد بحال کر سکتے ہیں۔
    بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے جنرل اسمبلی سے خطاب میں کہا “We are completely engaged in fighting Poverty, Alas our neighbor Pakistan seems only engaged in fighting us.” وزیر خارجہ نے یہ بیان دے کر عالمی برادری کو گمراہ کیا ہے۔ وزیر خارجہ سوراج جنرل اسمبلی میں جس وقت خطاب کر رہی تھیں۔ اس وقت امریکہ کے وزیر دفاع جیمس Mattis دہلی میں تھے۔ اور بھارت کو فا ئٹر طیارے اور ڈرون فروخت کرنے کا معاہدہ ہو رہا تھا۔ اس کے علاوہ بھارت کی نیوی کو جدید ہتھیاروں سے مسلح کرنے کی باتیں ہو رہی تھیں۔ جبکہ بھارت کے دفاعی بجٹ میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم مودی کے حالیہ واشنگٹن کے دورے میں صدر ٹرمپ سے ملاقات میں بھارت کو کھربوں ڈالر کا فوجی سامان فروخت کرنے کا معاہدہ ہوا تھا۔ اس کے بعد وزیر اعظم مودی کے اسرائیل کے دورے میں اسرائیلی حکومت نے بھی بھارت کو کھربوں ڈالر کا اسلحہ فروخت کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اب کیا بھارت ان ہتھیاروں کو غربت کے خلاف لڑائی میں استعمال کرے گا؟ یا بھارت کا ان ہتھیاروں سے اپنے ملک کی غربت پاکستان میں دھکیلنے کا منصوبہ ہے؟ پھر بھارت کی اتنے بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کو خریدنے میں دلچسپی سے چین کی بھی جنوبی ایشیا میں دلچسپی بڑھے گی۔ پھر چین بھارت کے ہتھیاروں پر اپنے امن کی پالیسیوں کا غلبہ ر کھے گا۔ اور اس صورت میں پاکستان بھی چین سے تعاون کرے گا۔ کیونکہ غربت کا خاتمہ امن کی پالیسیوں میں ہے۔ غریبوں کے ملک کو دنیا بھر کے ہتھیاروں کا warehouse بنانے سے غربت ختم نہیں کی جاتی ہے۔ جنوبی ایشیا کے دوسرے ملکوں کو غربت میں چھوڑ کر صرف بھارت سے غربت ختم کرنے کا منصوبہ خود غرض مفاد پرستی ہو گی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد مغربی اور مشرقی یورپ کے ملکوں نے جو اس جنگ میں بالکل تباہ ہو گیے تھے۔ تعمیر نو collective concept کے تحت کی تھی۔ اور پھر یورپ میں collective security کے تحت امن اور استحکام بھی رکھا تھا۔ اقتصادی تعمیر نو میں مغربی یورپ نے مشرقی کو پیچھے نہیں رکھا تھا۔ بھارت security چاہتا ہے لیکن پاکستان کے ساتھ collective security میں یقین نہیں رکھتا ہے۔ پاکستان تنہا one billion بھارتیوں اور 22 ملین افغانوں کو security فراہم نہیں کر سکتا ہے۔ اور وہ بھی ان حالات میں کہ جب بھارت اور افغانستان پاکستان کو security کے مسئلوں میں گھیرے ہوۓ ہیں۔
   بھارت کے داخلی سیاسی حالات انتشار کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ہندو انتہا پسندی خطرناک بنتی جا رہی ہے۔ اور بھارت کی موجودہ حکومت میں ہندو انتہا پسندی ایک طاقتور فورس بن رہی ہے۔ مسلمانوں کو گاۓ ذبحہ کرنے پر ہندو انتہا پسند مسلمانوں کو ذبحہ کر رہے ہیں۔ ہندو انتہا پسندوں کے نظریات سے جو اختلاف کرتے ہیں انہیں دھمکیاں ملنے لگتی ہیں۔ اور ہراس کیا جاتا ہے۔ آزادی صحافت پر ہندو انتہا پسندوں نے حملے کرنا شروع کر دئیے ہیں۔ لبرل اور سیکولر صحافیوں کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ اس ماہ تری پورہ میں ٹیلی ویژن نیوز رپورٹر کو قتل کیا ہے۔ اس واقعہ سے چند روز قبل کیرا لہ میں ٹیلی ویژن آفس پر حملہ ہوا تھا۔ گزشتہ ماہ Bengaluru میں ایک نامور خاتون صحافی  Gauri Lankesh کو ان کی رہائش گاہ کے باہر قتل کر دیا تھا۔ بھارت میں یہ داخلی دہشت گردی ہے۔ جو مودی حکومت میں ابھر کر بھارت کی سیاست میں داخل ہو رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں وزیر خارجہ سشما سوراج یہ تاثر دے رہی تھیں کہ جیسے بھارت میں بہت اچھا ہو رہا ہے۔ اور یہ پاکستان  ہے جہاں سب کچھ برا ہو رہا ہے۔ اس لئے بھارت کو دنیا میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی سپر پاور تسلیم کیا جاتا ہے۔ اور پاکستان کو صرف دہشت گردی ایکسپورٹ کرنے کی فیکٹری کہا جاتا ہے۔ عالمی اسٹیج پر کھڑے ہو کر یہ صرف پاکستان کو بدنام کرنے کی گری ہوئی ذہنیت ہے۔ وزیر خارجہ کی ان باتوں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ بھارت کو پاکستان کے خلاف سخت موقف اختیار نہ کرنے پر تکلیف پہنچی ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنی نئی افغان پالیسی میں کہا کہ بھارت کے ساتھ تجارت میں امریکہ کو تقریباً  30 بلین ڈالر کا خسارہ ہوا ہے اور بھارت کو اس تجارت میں منافع سے افغانستان میں خرچ کرنا چاہیے۔ اور افغانستان میں امن کے لئے رول ادا کرنا چاہیے۔ بھارت کو شاید یہ قبول نہیں ہے۔ افغانستان کے ریڈار پر بھارت پاکستان کو رکھنا چاہتا ہے۔
   وزیر خارجہ سشما سوراج نے بڑے فخر سے بھارت کو  دنیا میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی سپر پاور تسلیم کرنے کا ذکر کیا ہے۔ لیکن 2010 میں اقوام متحدہ کی بھارت میں Toilet کے نظام پر رپورٹ کے بارے میں جس میں کہا گیا تھا کہ یہ تصور کرنا ایک المیہ ہے کہ بھارت میں جو اب خاصا دولت مند ملک ہو گیا ہے جس میں تقریباً  آبادی کے نصف لوگوں کے پاس موبائل فون ہیں۔ لیکن تقریباً  نصف آبادی Toilet کے مرتبہ اور بنیادی ضرورت سے محروم ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں 563.73 ملین موبائل فون ہیں۔ جو آبادی کے تقریباً 41 فیصد کو خوش رکھتے ہیں۔ لیکن تقریباً 366 ملین لوگوں کو یا آبادی کے صرف 31 فیصد کو 2008 میں sanitation کی بہتر رسائی حاصل تھی۔ اقوام متحدہ کی یہ رپورٹ 2010 میں آئی تھی۔ لیکن ان سات سالوں میں بھارت میں Toilet کا نظام ابھی تک sanitation کے عالمی معیار کے مطابق نہیں ہے۔ اس عرصہ میں بھارت کے دفاعی اخراجات  2010 میں 38.17 بلین سے 2016 میں 50.7 بلین ہو گیے ہیں۔ لیکن sanitation کے نظام میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے۔ عورتوں کو Toilet جانے کے لئے رات کی تاریکی کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ بھارت میں طلاقیں صرف اس وجہ سے ہو رہی ہیں کہ شوہر اپنی بیویوں کو Toilet فراہم نہیں کر سکتے تھے۔
   دنیا میں بھارت کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کی سپر پاور تسلیم کیا جاتا ہے جیسا کہ وزیر خارجہ سشما سوراج نے جنرل اسمبلی سے خطاب میں کہا ہے۔ لیکن بھارت کے sanitation نظام کو دنیا ابھی تک تیسری دنیا کا بدترین نظام سمجھتی ہے۔ بھارت کے خراب sanitation نظام کا بھی پاکستان کے ساتھ  تعلقات میں ایک رول ہے۔ بھارتی رہنماؤں کے ذہن  آلودہ  ہو گیے ہیں۔ اور وہ دنیا میں جہاں بھی جاتے ہیں پاکستان کے خلاف زہر اگلنے لگتے ہیں۔ 21ویں صدی کے پہلے 16 سال صرف پاکستان کو گرانے اور جھکانے میں گزر گیے ہیں۔ اور بھارت اس میں کامیاب نہیں ہوا ہے۔ Hegemony کا تصور اب ختم ہو گیا ہے۔ کیونکہ جب خطہ کے دو ملک ایٹمی طاقت بن جاتے ہیں تو پھر خطہ میں Balance of Power آ جاتا ہے۔ شاید اس لئے اسرائیل ایران کو مکمل طور پر تباہ کرنا چاہتا ہے۔ اسرائیل کے پاس 200 کے قریب نیو کلیر بم ہیں۔ مڈل ایسٹ کے تمام ملک امریکہ اور نیٹو کی مدد سے تباہ کر دئیے گیے ہیں۔ خطہ میں اسرائیل کی Hegemony کے روشن امکان ہیں؟ لیکن بھارت کی Hegemony کی تمام تدبیریں الٹی ہو رہی ہیں۔ اور بھارت کو چین اور پاکستان کی Hegemony اس کی طرف بڑھتی نظر آ رہی ہے۔ اس لئے بھی بھارت امریکہ کے قریب تر ہو رہا ہے۔ اور اپنے Sanitation نظام کو بہتر بنانے کے بجاۓ ہتھیاروں پر زیادہ خرچ کر رہا ہے۔         

Public Urinal in Mumbai

                       

Sunday, September 24, 2017

“The Iran Deal Is [Not] An Embarrassment To The United States”

“The Iran Deal Is [Not] An Embarrassment To The United States”

 President Trump, The Embarrassment To The United States Is, Sixty-Five Years Palestinians’ Are Living Under Brutal Israeli Military Occupation And There Is No Deal

مجیب خان
 The "Iranian government masks a corrupt dictatorship behind the false guise of a democracy it is time for the entire World to join us in demanding that Iran's government end its pursuit of death and  destruction, Iran's government must stop supporting terrorists and respect the sovereign rights of its neighbors." President Trump; first address to the UN General Assembly Sept 19, 2017   

Iraq as a dictatorship had great Power to destabilize the Middle East; Iraq as a democracy will have great Power to inspire the Middle East. President George W. Bush; Address to the UN General Assembly Sept 23. 2003

Israel's Prime Minister Netanyahu point to a redline on the graphic of a bomb used to represent Iran's nuclear program. UN General Assembly. Sept 27, 2012 
This Israeli Occupation is the Embarrassment for civilize World

Palestinian man stands in front of Israeli Defense Forces

Israeli Defense Forces


    اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس سے صدر ٹرمپ کے پہلے خطاب کو جو لوگ ایک زبردست خطاب کہہ رہے ہیں۔ وہ امریکہ کے خیر خواہ نہیں ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے صدر جارج بش کی “Axis of Evil” تقریر کو ایک زبردست خطاب کہا تھا۔ لیکن اس خطاب کے امریکہ کے لئے تباہ کن نتائج ہوۓ تھے۔ امریکہ کا عالمی امیج، امریکہ کی عالمی طاقت، امریکہ کے معاشی حالات پر بڑے خراب  اثرات  ہوۓ تھے۔ افغانستان اور عراق جنگ میں امریکہ کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ افغان اور عراق جنگ میں امریکہ کے 8 ہزار فوجی مارے گیے تھے۔ جن میں بڑی اکثریت 20 کی عمروں کے امریکی فوجیوں کی تھی۔ جبکہ 30 ہزار امریکی فوجی عمر بھر کے لئے مفلوج ہو گیے تھے۔ افغان اور عراق جنگ پر ایک ٹیریلین ڈالر خرچ ہوۓ تھے۔ ان جنگوں کے نتیجہ میں امریکہ کا قرضہ ٹیریلین میں پہنچ گیا تھا۔ لیکن جن لوگوں نے صدر بش کے اس خطاب پر سوگ کا اظہار کیا تھا وہ امریکہ کے خیر خواہ تھے۔ جس نے صدر بش کو یہ تقریر لکھ کر دی تھی جس میں عراق ایران اور شمالی کوریا کو “Axis of Evil” کہا گیا تھا۔ اور ان ملکوں کی حکومتوں کا خاتمہ کرنے کا کہا تھا۔ عراق میں حکومت تبدیل کر کے اس ملک کا جو حشر کیا گیا ہے۔ تاریخ بھی اس فیصلہ کی ضرور مذمت کرے گی۔ لیکن امریکہ کی عظیم قدریں ان ملکوں کے معیار پر آ گئی ہیں جن کی کوئی قدریں نہیں ہیں۔ اور اب صدر ٹرمپ نے بھی اقوام متحدہ سے اپنے پہلے خطاب میں صدر بش کا لب و لہجہ اختیار کیا ہے۔ اور جس نے بھی صدر ٹرمپ کی تقریر لکھی ہے اس نے صدر بش کا  Axis of Evil کے Unfinish work کو صدر ٹرمپ کی تقریر میں مکمل کرنے کا پیغام دیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنے خطاب میں شمالی کوریا کے 25 ملین کی آبادی کے ملک کو بالکل ختم کرنے کا کہا ہے۔ یہ سن کر شمالی کوریا کے لوگ ضرور دہل گیے ہوں گے۔ ان کی نگاہوں کے سامنے ہیرو شما اور ناگا ساکی کے خوفناک مناظر آ گیے ہوں گے۔ جب امریکہ نے اپنے پہلے ایٹمی ہتھیاروں کا تجربہ کیا تھا۔ ایسی دھمکی اگر مسٹر پو تن دیتے تو مغربی دارالحکومتوں میں طوفان آ جاتا۔ لیکن یہ خصوصی طور پر نوٹ کیا جا رہا ہے کہ نائن الیون کے بعد سے ہر امریکی صدر دھمکیوں سے بھر پور مار دھاڑ کی باتیں کر رہا ہے۔ ڈپلومیسی کا مہذب زمانہ جیسے اب ختم ہو گیا ہے۔
    شمالی کوریا انتہائی کمزور اور چھوٹا ملک ہے۔ جس کے اطراف میں طاقتور دشمن شمالی کوریا کا شکار کرنے کے انتظار میں بیٹھے ہوۓ ہیں۔ امریکہ اسرائیل کی سلامتی کے خطروں کو بہت اچھی طرح سمجھتا ہے لیکن شمالی کوریا کی سلامتی کے خطرے امریکہ کی سمجھ میں نہیں آتے ہیں۔ اگر امریکہ کو دوسرے ملکوں کی سلامتی کے خطروں کا ذرا بھی احساس ہوتا تو صدر ٹرمپ اس طرح کی دھمکیاں نہیں دیتے اور 25 ملین کی آبادی کے ملک کو بالکل ختم کرنے کی بات نہیں کرتے۔ شمالی کوریا کو امریکہ سے جن خطروں کا سامنا ہے اس کی بات کرتے اور امریکہ کو شمالی کوریا سے جن خطروں کا سامنا ہے۔ اس سلسلے میں کچھ give and take کی تجویز دیتے۔ شمالی کوریا کی حکومت کو اس کی سرحدوں کے قریب امریکہ کی فوجوں میں کمی کرنے اور دوسری فوجی سرگرمیاں منجمد کرنے کی پیشکش کرتے۔ اور پھر اس کے جواب میں شمالی کوریا سے میزائلوں کے تجربے ختم کرنے کے لئے کہا جاتا۔ لیکن ٹرمپ انتظامیہ نے امریکہ کی سلامتی سب سے پہلے اور شمالی کوریا سے کہا you go to hell ۔ 25 ملین لوگوں کی اقتصادی زندگیاں miserable بنا کر اس تنازعہ کو حل کیا جاۓ گا۔ دنیا میں کب لوگوں کی زندگیوں کو miserable  نہیں بنایا ہے اور تنازعہ کو حل کر لیا گیا ہے۔ عراق، لیبیا، یمن، شام ان ملکوں کے لوگوں کے ساتھ Civilize World نے حقیقت میں ظلم کیا ہے۔ Artificial  مسئلوں کو بھر پور طاقت کے استعمال سے حل کیا ہے۔ اور نتائج کا الزام دوسروں کو دیا ہے۔ تاریخ میں ایسی انسانی تباہی کبھی نہیں ہوئی ہے۔
    امریکی میڈیا صدر ٹرمپ کے خلاف انتہائی Hostile ہے۔ اور صدر ٹرمپ اسے Fake News کہتے ہیں۔ لیکن ٹرمپ انتظامیہ اور کانگرس ایران کے خلاف بہت Hostile ہے۔ اور اس Hostility میں ایران کے بارے میں Distortion بہت زیادہ ہے۔ اور حقائق سے بالکل لاعلمی ہے۔ ایران کے خلاف حقائق Distorted کرنے کی مہم کے در پردہ اسرائیل اور سعودی عرب ہیں۔ صدر ٹرمپ کی America First پالیسی میں Israel and Saudi Arabia are First ۔ صدر ٹرمپ نے اقوام متحدہ کے 190 ملکوں کا بتایا کہ ایران انتہائی کر پٹ ہے۔ ایران مڈل ایسٹ میں مداخلت کر رہا ہے۔ ایران مڈل ایسٹ میں دہشت گردوں کی مدد کر رہا ہے۔ ایران یمن اور شام میں مداخلت کر رہا ہے۔ وغیرہ وغیرہ ۔ اور یہ ایران کے بارے میں Distortion ہے۔ اول تو آیت آللہ ؤں کی حکومت کرپٹ نہیں ہو سکتی ہے۔ ورنہ  آیت اللہ ؤں کی ساکھ ایرانی عوام میں ختم ہو جاۓ گی۔ دوم یہ کہ ایران 5 ہزار سال سے مڈل ایسٹ کا حصہ ہے۔ ایران کی قیادت اتنی احمق نہیں ہے کہ وہ اپنے خطہ کو عدم استحکام کرے گی۔ اور ایران میں استحکام رہے گا۔ یہ احمقانہ حرکتیں عرب بادشاہوں کی ہیں جو امریکہ کے اتحادی بن کر اپنے ہمسائیوں کو تباہ کر رہے ہیں۔ ایران نے عراق پر حملہ کر کے صد ام حسین کو اقتدار سے نہیں ہٹایا تھا۔ اور عراق میں دہشت گردوں کے لئے راستہ نہیں بنایا تھا۔ ایران نے لیبیا پر حملہ کر کے کرنل قدافی کو اقتدار سے نہیں ہٹایا تھا۔ قدافی حکومت جو اوبامہ انتظامیہ فرانس اور برطانیہ کو یہ بتا رہی تھی کہ القا عدہ انہیں اقتدار سے ہٹانے کی مہم کے در پردہ ہے۔ جو لیبیا میں اسلامی ریاست قائم کرنا چاہتی ہے۔ اگر اوبامہ انتظامیہ فرانس اور برطانیہ نے صدر قدافی کے دعووں کو کوئی اہمیت نہیں دی تھی جو بعد میں بالکل درست ثابت ہوۓ  تھے۔ تو اس کا مطلب یہ تھا کہ اوبامہ انتظامیہ فرانس اور برطانیہ نے اسلامی ریاست کی حمایت کی تھی۔ سعودی عرب اور اسرائیل بھی ان کے ساتھ شریک تھے۔ لیکن پھر یہ الزام انہوں نے ایران کو دینا شروع کر دیا تھا۔ سعودی عرب اور خلیج کے حکمران اسلامی دہشت گردوں کی بھی مدد کر رہے تھے اور امریکہ کو بھی کھربوں ڈالر اسلامی دہشت گردوں سے لڑنے کے لئے دے رہے تھے۔ ایران نے  شام میں نام نہا د باغیوں کی شام کو کھنڈرات بنانے میں مدد نہیں کی تھی۔ جس کا الزام ٹرمپ انتظامیہ اب ایران کو دے رہی ہے۔ یہ سازش ایران نے نہیں کی تھی کہ ہو تیوں  کو سعودی عرب پر حملہ کرنے کی شہ دی تھی۔ یہ اوبامہ انتظامیہ تھی جس نے  یمن میں علی عبداللہ صالح حکومت کو 500 ملین ڈالر کے ہتھیار فروخت کیے تھے۔ صالح حکومت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کے قریبی اتحادی تھے۔ اور یمن میں القا عدہ کے خلاف جنگ میں امریکہ کی مدد کر رہے تھے۔ لیکن عرب اسپرنگ کی لپیٹ میں صالح حکومت بھی آ گئی تھی۔ صدر صالح کو اقتدار چھوڑنا پڑا تھا۔ پھر اس دوران 500 ملین ڈالر کا اسلحہ غائب ہو جانے کی خبر آئی تھی۔ یہ اسلحہ ہو تیوں کے پاس پہنچ گیا تھا۔ جنہیں وہ سعود یوں کے خلاف استعمال کر رہے تھے۔ اور Fake News  یہ تھی کہ ایران ہو تیوں کو اسلحہ دے رہا تھا۔ اس جنگ کو پلان اوبامہ انتظامیہ نے کیا تھا اور سعودی عرب کو یمن کے ساتھ ایک ایسی جنگ میں پھنسا دیا ہے کہ اس سے نکلنے میں سعودی عرب کو ایک عرصہ لگ جاۓ گا۔ بالکل اسی  طرح بش انتظامیہ پاکستان کے لئے تین طرف سے جنگ کو پلان کر کے گئی ہے۔ افغانستان سے بھی پاکستان پر حملے ہو رہے ہیں۔ دہشت گردوں سے بھی پاکستان پر حملے کراۓ جا رہے ہیں۔ اور بھارت بھی پاکستان پر حملے کر رہا ہے۔ جبکہ امریکہ کی طرف سے پاکستان پر Verbal حملے جاری ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ہیں اور پاکستان ان کا خاتمہ کرے۔ پاکستان کو ان حالات میں 13 سال ہو گیے ہیں۔ یمن کے ساتھ سعودی عرب کی جنگ کے حالات بھی اسی رخ میں جا رہے ہیں۔
    شیعہ سنی کا فساد بش انتظامیہ نے پھیلایا ہے۔ عراق میں مہلک ہتھیاروں کا مسئلہ تھا۔ جو صدر بش نے عراق پر حملہ کر کے حل کیا تھا۔ لیکن پھر جمہوریت کو شیعاؤں کے لئے بنا کر صدر بش نے سنیوں کو شیعاؤں سے لڑتے رہنے کی جنگ دے دی تھی۔ عراق میں شیعاؤں کو جمہوریت دینے کے بارے میں سلامتی کونسل نے قرارداد منظور کی تھی۔ اور نہ ہی مذہبی فرقہ پرستی کی بنیاد پر جمہوریت کا ایسا کوئی سیاسی نظریہ تھا۔ عراق میں شیعہ سنی لڑائی کے نتیجے میں ISIS ابھری ہے۔ یہ سب سنی تھے۔ سعودی عرب شیعاؤں کو سنیوں کے خلاف اکسانے کا الزام ایران کو دے رہا ہے۔ لیکن ایران امریکہ اور سنی ملکوں کے ساتھ عراق اور شام میں ISIS کے خلاف لڑ رہا تھا۔ اور صدر ٹرمپ نے اقوام متحدہ میں اپنے خطاب میں کہا ہے کہ ایران مڈل ایسٹ میں دہشت گردوں کی مدد کر رہا ہے اور مڈل ایسٹ کو عدم استحکام کر رہا ہے۔ یہ صورت حال سے لاعلمی ہے۔ یا حقائق کا Distortion ہے۔ ایران کا مڈل ایسٹ کو عدم استحکام کرنے میں کیا مفاد ہے؟             

Tuesday, September 19, 2017

Are Israeli Zionist Policies Nurturing Anti-Israelism And Neo-Nazism?

    
Are Israeli Zionist Policies Nurturing Anti-Israelism And Neo-Nazism?

مجیب خان

Neo Nazis

Neo Nazism is on the rise

Anti -Israelism 

Protestors endorsing the boycotting of Israel


    ناز یوں کی شکست اور ان کا خاتمہ ہونے کو 70 سال ہو گیے ہیں۔ لیکن Nazism آج بھی زندہ ہے۔ جن قوموں نے ناز یوں کو شکست دی تھی اور ان کا خاتمہ کیا تھا۔ آج ان ہی ملکوں میں Nazism کا ارتقا ہو رہا ہے۔ نازی آج بھی دنیا کی سیاست کا موضوع ہیں۔ 70 سال گزرنے کے باوجود لفظ نازی آج بھی خاصا مقبول ہے۔ یورپ اور امریکہ میں نوجوان Neo-Nazi Movement سے متاثر ہو رہے ہیں۔ اور اس تحریک کا حصہ بن رہے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ کسی اسلامی ملک میں اسلامی نازی تحریک  کا کوئی وجود ہے اور نہ ہی لبرل اور قوم پرست نازی ہیں۔ حما س  اور حزب اللہ جیسی اسرائیل مخالف تنظیموں کے Neo-Nazis سے کوئی رابطے ہیں اور نہ ہی ان کے ساتھ کوئی سیاسی اتحاد ہے۔ اسلامی ملکوں میں Anti-Semitism نہیں ہے۔ لیکن Anti-Israelism ہے۔ اور اس کا سبب عربوں کے ساتھ اسرائیل کی جارحیت ہے۔ عرب اسرائیل جنگیں اور فلسطین اسرائیل تنازعہ ہے۔ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کا ظلم اور بربریت ہے۔ فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے گھر کر کے نئی یہودی بستیاں آباد کرنا ہے۔ اسرائیل کی یہ پالیسیاں ہیں جنہوں نے ذہنوں میں ناز یوں کی تاریخ کو زندہ رکھا ہے۔ اسرائیل کی ان  پالیسیوں کے نتیجے میں نازی ا زم کو فروغ مل رہا ہے۔ فلسطین اسرائیل تنازعہ اگر 60s میں حل ہو جاتا تو اسرائیل کے لئے سیاسی حالات آج بہت مختلف ہوتے۔ لیکن اسرائیل نے جارحانہ پالیسیوں کو فروغ دینے  میں اپنا مفاد دیکھا تھا۔ ان کے دور رس نتائج کے بارے میں کبھی غور نہیں کیا تھا۔ Neo Nazis کا فروغ ان نتائج میں سے ایک ہے۔
   جبکہ عرب اسلامی ملکوں میں Anti-Israelism فلسطین اسرائیل تنازعہ کی وجہ ہے۔ لیکن اس صورت حال کا ازالہ کرنے کے بجاۓ اسرائیل نے امریکہ اور یورپ میں اسے اپنی طاقت بڑھانے میں استحصال کیا تھا۔ تقریباً 68 سال سے یہ اسرائیلی پالیسی تھی۔ اسرائیل نے اقوام متحدہ میں ایشیا افریقہ اور لا طین امریکہ کے غیر اسلامی ملکوں کی بھی پرواہ نہیں کی تھی۔ جن کی ایک بڑی اکثریت فلسطینیوں کے کا ز  کی حمایت کرتی تھی۔ اسرائیل نے اپنے آپ کو اقوام متحدہ کے Elite ملکوں میں محدود کر لیا تھا۔ جو اقوام متحدہ میں اسرائیل کے مفاد کا دفاع کرتے تھے۔ اس لئے اسرائیل اقوام متحدہ میں ایشیا افریقہ اور لا طین امریکہ  کے ملکوں میں Isolate ہو گیا تھا۔ اور اب یہ کہا جاتا ہے کہ اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف ایک محاذ بنا ہوا ہے۔ لیکن اس محاذ کے باوجود Elite ملکوں نے اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہونے دی تھی۔ سلامتی کونسل کی قراردادوں پر ابھی تک اسرائیل سے عملدرامد نہیں کرایا جا سکا ہے۔ عربوں کے جن علاقوں پر اسرائیل نے 50 سال قبل قبضہ کیا تھا۔ وہ علاقہ ابھی تک اسرائیل کے قبضہ میں ہیں۔ اسرائیلی حکومتوں نے مقامی عرب آبادی کے ساتھ جو سلوک کر رہا ہے وہ نازی جرمنی میں یہودیوں کے ساتھ ناز یوں کے بر تاؤ کی یاد دلاتا ہے۔۔ اسرائیلی رہنماؤں نے اپنی حکومت کی غلط پالیسیوں کو کبھی درست کرنا ضروری نہیں سمجھا تھا۔ اور نہ ہی Anti-Israel بڑھتے ہوۓ رجحانات کو روکنے کے لئے کوئی اقدام کیے تھے۔ Neo-Nazism کا سد باب کرنے کا کام Elite حکومتوں کے قانون ساز اداروں پر چھوڑ دیا تھا۔ اسرائیل نے Anti-Israelism اور Neo-Nazism کے فروغ میں اپنی پالیسیوں کے رول کا کبھی اعتراف نہیں کیا تھا۔
   عرب دنیا میں اسرائیل کے خلاف لوگوں کو اکسانے کا الزام صد ام حسین کو دیا جاتا تھا۔ اور صد ام حسین کے اقتدار میں رہنے کو اسرائیل کی سلامتی کے لئے خطرہ قرار دیا تھا۔ اس کے ساتھ یہ کہا گیا تھا کہ جب تک  صد ام حسین عراق میں اقتدار میں ہیں۔ فلسطین اسرائیل تنازعہ حل نہیں ہو سکتا ہے۔ پھر بش انتظامیہ نے اپنی فوجیں صد ام حسین کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے عراق بھیجی تھیں۔ صد ام حسین کا اقتدار ختم ہو گیا تھا۔ لیکن مڈل ایسٹ کے حالات اور زیادہ خراب ہو گیے تھے۔ Anti-Israelism مڈل ایسٹ کی ہر گلی میں دیکھا جا سکتا تھا۔ صد ام حسین کے بعد پھر لیبیا میں صدر کرنل قدافی کو اسرائیل کی سلامتی  کے لئے خطرہ کہا جانے لگا۔ امریکہ فرانس اور برطانیہ نے فوجی آپریشن کر کے صدر قدافی کو بھی اقتدار سے ہٹا دیا۔ اسرائیل کی 6 ملین کی آبادی کی سلامتی کے لئے 7ملین لیبیا کے اور 38 ملین عراق کے لوگوں کی سلامتی کو خطرہ میں ڈال دیا تھا۔ لیکن صد ام حسین اور کرنل قدافی کے جانے سے Anti-Israelism میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ پھر اسرائیل کی سرحد پر شام کو عدم استحکام کرنے کی کھدائی شروع  ہو گئی تھی۔ دنیا بھر کے اسلامی دہشت گردوں کو اس کھدائی میں حصہ لینے کے دعوت نامہ جا رہے تھے۔ لیکن اسرائیل نے صدر اوبامہ کو شام کو عدم استحکام کرنے سے نہیں روکا تھا۔ نہ ہی اسرائیل کی سرحد کے قریب اسلامی دہشت گردوں کی سرگرمیوں کو اسرائیل کی سلامتی کے لئے خطرہ  سمجھا تھا۔ بلاشبہ شام کے عدم استحکام ہونے سے لبنان کے 6 ملین اور ایران کے 80 ملین لوگوں کی سلامتی خطرے میں آ رہی تھی۔ امریکہ کے لوگوں کی سلامتی کے لئے صدر بش 8 ہزار میل دور اپنی فوج لے کرعراق گیے تھے۔ لیکن ایران اپنے عوام کی سلامتی میں 800 میل پر شام کو عدم استحکام سے بچانے گیا تھا۔ جہاں داعش کی پشت پنا ہی زیادہ نظر آ رہی تھی۔ لیکن اس کے خلاف صرف شور بہت تھا۔ جبکہ شام میں عدم استحکام لبنان میں حزب اللہ کے دروازہ پر تھا۔ اور اب نتھن یاہو حکومت واویلا کر رہی ہے کہ شام میں ایران کا فوجی اڈہ قائم ہو گیا ہے۔ کیا عراق میں امریکہ کا فوجی اڈہ نہیں ہے؟ ایران کے لئے اس کی سرحد کے قریب امریکہ یا اسرائیل کا فوجی اڈہ ہونے میں کوئی فرق نہیں ہے۔ وزیر اعظم نتھن یاہو کے حکم پر ٹرمپ انتظامیہ ایران کو بھی عدم استحکام کرنے پر کام کر رہی ہے؟
   ہنری کیسنگر امریکی خارجہ پالیسی کے فادر سمجھے جاتے ہیں۔ ہنری کیسنگر تقریباً دو دہائیوں 60s اور 70s میں امریکہ کی خارجہ پالیسی پر چھاۓ ہوۓ تھے۔ مڈل ایسٹ میں امریکہ کے اتحادیوں اور امریکہ کے دشمنوں کا سیاسی نقشہ بھی ہنری کیسنگر نے تشکیل دیا تھا۔ ہنری کیسنگر کے مڈل ایسٹ پیس پروسس کا چرچا بہت تھا۔ اس سلسلے میں ہنری کیسنگر عرب ملکوں کے دورے کرتے تھے۔ عرب حکمرانوں سے مڈل ایسٹ پیس پروسس پر تبادلہ خیال کرتے تھے اور ان کے خیالات اپنے بریف کیس میں بھر کر واپس آ جاتے تھے۔ لیکن مڈل ایسٹ میں ہنری کیسنگر کے پیس پروسس مشن کے Zero نتائج ہوتے تھے۔ اسرائیلی عوام کو امن دیا تھا اور نہ ہی عرب عوام کو اسرائیلی فوجی قبضہ سے نجات ملی تھی۔ ہنری کیسنگر کے پیس پروسس مشن پر امریکی عوام کے ٹیکس ڈالر خرچ ہوتے تھے۔ انہیں بھی ہنری کیسنگر پیس مشن کے کوئی مثبت نتائج نظر نہیں آۓ تھے۔ Anti-Israelism کے پھیلتے ہوۓ رجحانات کو بالکل نظر انداز کر دیا تھا۔ جبکہ دوسری طرف Neo-Nazism کے فروغ کو بھی کوئی اہمیت نہیں دی تھی۔ Anti-Israelism اور Neo-Nazism اسرائیلی عوام کے لئے اصل خطرہ تھے۔ لیکن اسرائیلی حکومت کے لئے صد ام حسین، کرنل قدافی، ایران، حما س اور حزب اللہ زیادہ بڑا خطرہ تھے۔ اسرائیلی حکومت نے چھوٹے خطروں کو بہت بڑے خطرے بنا دئیے تھے۔ اور اسرائیلی عوام کے لئے جو بڑے خطرے تھے اسرائیلی حکومت نے ان سے منہ موڑ لیا تھا۔ ہنری کیسنگر کے مڈل ایسٹ امن مشن صرف مشن تھے۔ ہنری کیسنگر اب 90 سال کے ہو گیے اور مڈل ایسٹ کو جنگوں کے ذریعے امن دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔۔ تاہم Zionist  مضبوط ہو گیے ہیں۔  اور مڈل ایسٹ اب ان کے منصوبوں کے مطابق تبدیل ہو رہا ہے۔  

               

Tuesday, September 12, 2017

He Is [Brat] Begging For War

He Is [Brat] Begging For War

مجیب خان
   

We should always let every country know, whether it's North Korea,Iran or anyone else, that we will always look out for our interests, our security, and make sure that it's working for us, not making sure that it works for
everyone else. -Nikki Haley US ambassador to the UN

Kim Jong-Un Leader Of North Korea
    اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر Nikki Haley نے سلامتی کونسل کو بتایا ہے کہ شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان begging for war انہوں نے سلامتی کونسل سے پینگ یونگ کے ایٹمی پروگرام کو روکنے کے لئے اس پر سخت ترین بندشیں لگانے پر زور دیا ہے۔ امریکی سفیر Nikki Haley نے کہا "امریکہ جنگ نہیں چاہتا ہے۔ لیکن شمالی کوریا جب دھمکیاں دے رہا ہے۔ اور اس کے میزائلوں کا رخ امریکہ کی طرف ہے۔ تو امریکہ اپنا دفاع کرے گا۔" امریکہ کے موقف میں یہ ایک بڑی تبدیلی ہے۔ شمالی کوریا کے رہنما begging for war اور امریکہ جنگ سے بھاگ رہا ہے۔ 14 سال قبل اسی سلامتی کونسل میں صدر بش کے سیکرٹیری آف اسٹیٹ عراق کے خلاف begging for war اور عالمی برادری عراق میں مہلک ہتھیاروں کا مسئلہ جنگ سے حل کرنے کی مخالفت کر رہی تھی۔ صدر بش نے ستمبر 2002 میں اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس میں جنرل اسمبلی سے خطاب میں کہا تھا کہ" اگر عالمی برادری عراق میں مہلک ہتھیاروں کا خاتمہ نہیں کر سکتی ہے تو پھر امریکہ کرے گا۔" اس وقت صد ام حسین ان کے وزیر خارجہ اور اقوام متحدہ میں عراق کے سفیر یہ سچ بول رہے تھے کہ عراق میں مہلک ہتھیاروں کا کوئی وجود نہیں تھا۔ اور انہیں بہت پہلے تباہ کر دیا گیا تھا۔ اور یہ دیکھنے کے لئے صدر صد ام حسین نے امریکی فوجی وفد کو عراق آنے کی پیشکش بھی کی تھی۔ لیکن صدر بش نے اس پیشکش کو مسترد کر دیا تھا۔ اور صرف جنگ کا راستہ اختیار کیا تھا۔ فرانس جرمنی روس چین جنوبی افریقہ بھارت پاکستان انڈونیشیا ملیشیا اور عالمی برادری کی ایک بہت بڑی تعداد عراق پر حملہ کے خلاف تھی۔ امریکہ کے عراق پر حملہ کو ایک سیاہ دن کہا گیا تھا۔ اور اب شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان عالمی برادری کی مخالفت کے باوجود ایٹمی میزائلوں کے تجربے کر رہے ہیں۔ اور اس فیصلے کو اپنے ملک کی قومی سلامتی میں اہم سمجھتے ہیں۔ شمالی کوریا کی قیادت کو یہ خطرہ ہے کہ ایک دن امریکہ ان کے ملک پر حملہ کرے گا۔ جاپان اور جنوبی کوریا میں امریکی فوجیں صرف اس انتظار میں بیٹھی ہوئی ہیں۔     شمالی کوریا کی قیادت کا امریکہ سے خطرے کے بارے میں mind set ہے۔ اور صرف اس خطرے کی وجہ سے شمالی کوریا اپنے ایٹمی ہتھیاروں کی پالیسی سے کبھی دستبردار نہیں ہو گا۔ شمالی کوریا کے لئے قومی سلامتی زندگی اور موت کا سوال ہے۔ اور عراق شام اور لیبیا کی مثالوں نے شمالی کوریا کے موقف کو اور زیادہ پختہ کیا ہے۔ عراق شام اور لیبیا کو کسی نے نہیں بچایا تھا۔ ان کے بھی دوست تھے۔ سلامتی کونسل بھی جارحیت کے سامنے بالکل بے بس ہو گئی تھی۔ عالمی قانون کو ٹینک اور فوجی بوٹس روندتے چلے گیے تھے۔ شمالی کوریا کی قیادت نے اس صورت حال سے سبق سیکھا ہے۔ اور شاید اس لئے بھی شمالی کوریا اپنے ایٹمی ہتھیاروں کے سوا کسی کو قابل بھرو سہ نہیں سمجھ رہا ہے۔ یہ سوچ پیدا کرنے میں امریکہ کی پالیسیوں کا ایک بڑا رول ہے۔ Power پر اگر Wisdom کو فوقیت دی جاتی تو آج شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام کا تنازعہ حل کرنے میں ان مشکلات کا سامنا نہیں ہوتا اور امریکہ اسے  خود حل کر سکتا تھا۔ لیکن Wisdom پر Power کو فوقیت دینے کا یہ نتیجہ ہے کہ ہر تنازعہ کے حل میں ناکامی شکست بن رہی ہے۔
    امریکہ کی 20 سال کی پالیسیوں کا جائزہ لیا جاۓ تو یہ نظر آتا ہے کہ حالات کو کشیدہ بنانے میں ہتھیاروں کی صنعت کا خاصا بڑا contribution  ہے۔ غیر ضروری جنگیں ہتھیاروں کی صنعت کو زندہ رکھنے کے لئے create کی گئی ہیں۔ اور اس مقصد سے ایسے خطوں کو ٹارگٹ کیا گیا ہے کہ جہاں دولت کے کثیر وسائل تھے۔ اور حکمرانوں کو آسانی سے manipulate کیا جا سکتا تھا۔ عرب خطہ پہلے ہی عرب اسرائیل تنازعہ کی وجہ سے کشیدگی کے حالات کا قیدی بنا ہوا تھا۔ اور ان حالات میں عربوں کی عربوں سے جنگ اور عربوں میں ایران کا خوف پیدا کر کے سعودی عرب، کویت، بحرین، قطر، متحدہ عرب امارات  کو ہتھیاروں کی شاپنگ مال بنا دیا ہے۔ یہ ملک اب برسوں اپنا تیل بیچیں گے اور ہتھیار خریدتے رہیں گے۔ ایک طرف انہیں اندرونی کشیدگی سے خوفزدہ رکھا جاۓ گا اور دوسری طرف انہیں عرب خطہ میں ایران کے اثر و رسوخ سے ہراس کیا جاۓ گا۔ حالانکہ ایران کی حکومت نے متعدد بار اس سارے خطہ کو مہلک ہتھیاروں سے صاف خطہ رکھنے کا مطالبہ کیا ہے۔ لیکن یہ امریکہ اور اسرائیل کے مفاد میں نہیں ہے۔ آج کا ایران 70 کے عشر ے سے بہت بہتر ایران ہے کہ جب امریکہ نے شاہ ایران کو خلیج میں اپنا پولیس مین بنا کر عربوں کو ایران کے ماتحت رکھا تھا۔ اور نہ صرف یہ بلکہ امریکہ نے ایران کو 4 نیو کلیر پاور پلانٹ بھی فروخت کیے تھے۔ ایران کی اسلامی حکومت کا ایٹمی پروگرام دراصل شاہ ایران کے دور کا ہے۔ ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد آیت اللہ خمینی نے نیو کلیر پاور پلانٹ میں تالے ڈالنے کا حکم دیا تھا۔ لیکن پھر ہتھیاروں کی صنعت کی لابی اور ہتھیار فروخت کرنے والوں نے خلیج کے عرب حکمرانوں کے ساتھ مل کر ایران کے اسلامی انقلاب کو سبوتاژ کرنے سازش کی اور صد ام حسین کو ایران پر حملہ کرنے کی شہ دی۔ سعودی عرب، کویت، بحرین متحدہ عرب امارات نے اس جنگ میں کھربوں ڈالر انویسٹ کیے تھے۔ جس سے ہتھیار خرید کر صد ام حسین کی فوج کو دئیے جاتے تھے۔  یہ جنگ تقریباً 9 سال تک جاری رہی تھی۔ ایک ملین ایرانی اور عراقی اس جنگ میں مارے گیے تھے۔ اس جنگ کے بعد ایرانی ملاؤں کو اپنی سلامتی کے مفاد میں ایٹمی پاور پلانٹ کے تالے توڑنا پڑے تھے۔ ایٹمی پروگرام کو فروغ دینے میں ایرانی ملاؤں نے ایران کی بقا دیکھی تھی۔ جن ملکوں کو ہر طرف سے خطروں کا سامنا ہے۔ ان کی سلامتی اورsovereignty کی کوئی قانونی ضمانت نہیں ہے۔ وہ ایٹمی ہتھیاروں پر انحصار کرنے پر مجبور ہوتے جائیں گے۔ جس دن عراق اور لیبیا نے ایٹمی ہتھیاروں پر انحصار ختم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ عراق اور لیبیا کی سلامتی اور sovereignty کے خلاف سازش تیار ہو گئی تھی اور امریکہ اور نیٹو طاقتوں نے ان ملکوں پر حملہ کر کے انہیں کھنڈرات بنا دیا۔
    ایران کی اسلامی حکومت ایٹمی ہتھیار بنانے اور رکھنے کو مذہبی طور پر ممنوع سمجھتی ہے۔ اس لئے ایران نے اپنے ایٹمی پروگرام کو ختم کرنے پر سمجھوتہ کیا ہے۔ اور اپنی تمام ایٹمی سرگرمیاں معطل کر دی ہیں۔ لیکن امریکی کانگرس نے اس سمجھوتے کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ اور سمجھوتے کے مطابق ایران پر سے اقتصادی بندشیں ختم کرنے کے بجاۓ نئی بندشیں عائد کر دی ہیں۔ جبکہ ٹرمپ انتظامیہ اس سمجھوتے کو ختم کرنے کا راستہ ڈھونڈ رہی ہے۔ اور ایران میں حکومت تبدیل کرنا بھی اس کے ایجنڈے میں شامل ہے۔ امریکہ کی جب یہ سیاست بن گئی ہے کہ سابقہ انتظامیہ نے جو سمجھوتہ کیا تھا اس کے برقرار رہنے کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی ہے۔ نئی انتظامیہ انہیں ختم کر دیتی ہے یا برقرار رکھتی ہے۔ جبکہ ایسے سمجھوتوں میں کانگرس کی اپنی ایک علیحدہ سیاست ہوتی ہے۔ اگر کانگرس سمجھوتے کی حمایت میں نہیں ہوتی ہے تو یہ سمجھوتہ صرف انتظامیہ کے آکسیجن پر ہوتے ہیں۔
    ایسی صورت میں شمالی کوریا کی قیادت اپنے ایٹمی پروگرام پر کیوں سمجھوتہ کرے گی؟ جبکہ سمجھوتہ کو برقرار رکھنے کی کوئی ضمانت نہیں ہو گی۔ ٹرمپ انتظامیہ سے شمالی کوریا کی قیادت اگر ایٹمی پروگرام پر عملدرامد ختم کرنے کا سمجھوتہ کرتی ہے تو اس کی کیا ضمانت ہو گی کہ نئی انتظامیہ بھی اسے جاری ر کھے گی۔ اور کانگرس کو بھی یہ سمجھوتہ قبول ہو گا۔ شمالی کوریا پر سے بندشیں ختم ہوں گی یا برقرار رہیں گی؟ ہتھیاروں کی صنعت کا مفاد اس میں ہے کہ شمالی کوریا سے خطرے کی فضا برقرار رہے اور اس خوف سے جنوبی کوریا اور جاپان کھربوں ڈالر ہتھیاروں کو خریدنے پر خرچ کرتے رہیں۔ دنیا میں امن اور انسانیت کے سب سے بڑے دشمن ہتھیاروں کی صنعتیں اور اس کی تجارت ہے۔