Tuesday, October 31, 2017

First Time In Seventy Years A Saudi King Has Seen The Middle Easts' Geopolitics From Moscow

First Time In Seventy Years A Saudi King Has Seen The Middle Easts' Geopolitics From Moscow

مجیب خان
Saudi Arabia's king Salman and Russian President Vladimir Putin in Kremlin, Moscow

Saudi Arabia's King Salman and Iraqi Prime Minister Haider al-Abadi in Riyadh, Saudi Arabia

Devestation in Raqqa
    سعودی عرب کی تاریخ میں شاہ سلمان پہلے سعودی بادشاہ ہیں جنہوں نے روس کا دورہ کیا ہے۔ اور سعودی عرب اور روس کے درمیان تعلقات کی ایک نئی تاریخ کا آغاز کیا ہے۔ روس کے ساتھ تعلقات سے سعودی شاہ کو ایک مختلف angle سے دنیا کو دیکھنے اور سمجھنے کا موقعہ ملا ہو گا۔ 70 سال سے ہر سعودی بادشاہ  مڈل ایسٹ صرف واشنگٹن اور لندن سے دیکھا کرتے تھے۔ اور پھر ان کے ذہن کی تمام کھڑکیاں بند ہو جاتی تھیں۔ اب پہلی مرتبہ کسی سعودی بادشاہ نے مڈل ایسٹ کو ماسکو سے دیکھا ہے۔ شاہ سلمان کے ذہن کی بند کھڑیاں بھی کھل گئی ہوں گی۔ اندھیروں سے نکل کر مڈل ایسٹ کو دیکھا ہے۔ پہلی مرتبہ مڈل ایسٹ میں انسانیت کے احوال دیکھے ہیں۔ شیعہ سنی انسانیت کے لباس میں نظر آۓ ہوں گے۔ انسانیت جسے خدا نے ایجاد کیا ہے۔ انسانیت جو خدا کی مخلوق ہے۔ اور خدا اس کا خالق ہے۔ لیکن اس خدا کی مخلوق کو مڈل ایسٹ میں فساد، انتشار، داخلی لڑائیوں اور بیرونی جنگوں، غربت اور افلاس میں گھیرا دیکھا ہے۔ مڈل ایسٹ کو خدا نے بے پناہ دولت دی ہے۔ لیکن مڈل ایسٹ میں ہر طرف غربت کیوں ہے؟ یہ سوال بھی شاہ کے ذہن میں ماسکو میں آیا ہو گا۔ مڈل ایسٹ کو ماسکو سے اور واشنگٹن اور لندن سے دیکھنے میں یہ فرق تھا۔ جب ذہن کھلتا ہے تو حالات سدھارنے کے بارے میں نئے خیالات بھی ذہن میں آتے ہیں۔ ماسکو سے واپس آنے کے بعد اس کھلے ذہن سے شاہ سلمان نے عراق کے وزیر اعظم حیدر العبادی کا ریاض میں خیر مقدم کیا تھا۔ عراق میں 40 سال ایک سنی حکومت تھی۔ لیکن ایسے حالات کبھی نہیں تھے۔ شیعہ سنی میں کوئی فرق نہیں تھا۔ سب کی عربی زبان تھی اور عرب کلچر تھا۔ لیکن غیر ملکیوں کے حملہ نے عراق کو شیعہ سنی فرقہ پرستی کی لڑائی میں تقسیم کر دیا تھا۔ یہ ایک ایسی لڑائی تھی کہ جس میں کسی کی جیت تھی اور نہ ہی کسی شکست تھی۔ پھر اس لڑائی کو یہ رنگ دے دیا کہ مڈل ایسٹ میں ایران کا اثر و رسوخ بڑھ رہا تھا۔ ایران  عراق اور شام کا ایک اتحاد بن رہا ہے۔ اور یمن بھی اس اتحاد میں شامل ہو رہا ہے۔ سنیوں کے خلاف یہ شیعاؤں کا اتحاد ہے۔ مڈل ایسٹ میں لڑائیوں کے اندر نئی لڑائی پیدا کی جا رہی تھی۔
   یہ لڑائیاں مڈل ایسٹ میں ان قوموں کے مفاد میں تھیں جن کے ہتھیاروں کی صنعت کا انحصار مڈل ایسٹ کی جنگوں پر تھا۔ جیسے سرد جنگ کے دور میں مغربی ملکوں کی صنعتی خوشحالی کا انحصار مڈل ایسٹ کے تیل پر تھا۔ اس لئے مڈل ایسٹ کا استحکام اور امن اس وقت ان کے مفاد کی ترجیحات میں تھا۔ لیکن اب صورت حال اس کے بر خلاف ہے۔ مفادات اب بدل گیے ہیں اور ترجیحات تبدیل ہو گئی ہیں۔ سعود یوں کے ذہن کی کھڑکیاں کیونکہ بند تھیں اور وہ مڈل ایسٹ کو صرف واشنگٹن اور لندن سے دیکھنے کے عادی تھے۔ اس لئے انہوں نے اپنا ذہن کبھی استعمال نہیں کیا تھا۔ ان سے جو کہا جاتا تھا وہ کرنے لگتے تھے۔ انہیں جو بتایا جاتا تھا اس پر یقین کرنے لگتے تھے۔ ان کے اس کردار سے مڈل ایسٹ میں خلا آ گیا تھا۔ اور ایران اس خلا کو پر کرنے آ گے آیا تھا۔ کیونکہ ایران سے جو کہا جاتا تھا وہ کرتا نہیں تھا۔ اور ایران کو جو بتایا جاتا تھا وہ اس پر یقین نہیں کرتا تھا۔ ایران نے ابھی تک یہ تسلیم نہیں کیا ہے کہ مڈل ایسٹ میں شیعہ سنی تقسیم بھی ایک بڑی لڑائی تھی۔ ایران مڈل ایسٹ کو اس فرقہ پرستی کے راستے پر لے جانا نہیں چاہتا تھا۔ جبکہ سعودی عرب نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ پیشتر عرب ملکوں میں شیعہ ایک بڑی تعداد میں ہیں۔ اور یہ عرب ہیں۔ ان کی زبان اور ثقافت عرب ہے۔ لیکن شیعہ سنی کی تقسیم سے عرب نژاد شیعاؤں کو ایران کے قریب ہونے کی شہ دی جا رہی ہے۔ سعودی عرب کی قیادت میں عرب ان کا خطرناک سیاسی کھیل کھیل رہے ہیں۔ اور مڈل ایسٹ میں شیعہ سنی کی تقسیم قبول کر رہے ہیں۔ لیکن اس کے دور رس  نتائج کے بارے میں سوچ نہیں رہے ہیں۔
   شام میں ناکامی سے خلیج کے حکم رانوں کو بڑی رسوائی کا سامنا ہوا ہے۔ مڈل ایسٹ میں ان کی پوزیشن بھی کمزور ہوئی ہے۔ پھر ایران کے ایٹمی سمجھوتہ کے خلاف سعودی عرب کی قیادت میں خلیج کے ملک امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ تنہا رہے گیے ہیں۔ جبکہ عالمی برادری، یورپی یونین، جرمنی فرانس برطانیہ روس چین ایران کے ایٹمی سمجھوتہ کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ اور یہ ایران کے ساتھ کھڑے ہیں۔ یہ دیکھ کر سعودی عرب نے اپنا سیاسی قبلہ تبدیل کیا ہے۔ اور شاہ سلمان ماسکو پہنچ گیے تھے۔ شاہ سلمان کے ماسکو کے دورے کے بعد مڈل ایسٹ میں یہ اچانک تبدیلی تھی کہ عراق کے وزیر اعظم حیدر العبادی سعودی عرب پہنچ گیے تھے۔ اور ریاض میں وزیر اعظم حیدر العبادی نے  شاہ سلمان سے ملاقات میں عراق اور سعودی عرب میں اقتصادی، سیکورٹی اور سفارتی تعلقات کے فروغ اور خطہ میں امن اور استحکام کے لئے دونوں ملکوں میں قریبی تعاون کا اعادہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم العبادی کی سعودی عرب اور ایران کے درمیان اختلاف اور غلط فہمیاں دور کرنے میں بھی کوشش ہو گی۔ جن کا مڈل ایسٹ میں ایران کے خلاف اپنا ایک ایجنڈا تھا۔ وہ شاہ سلمان اور وزیر اعظم العبادی ملاقات میں دونوں ملکوں کے درمیان قریبی تعاون کی باتوں سے بوکھلا گیے تھے۔ اس ملاقات پر امریکہ کی طرف سے یہ بیان آیا تھا کہ عراق اور سعودی عرب مل کر مڈل ایسٹ میں ایران کے اثر و رسوخ کو روک سکتے ہیں۔ حالانکہ صرف 48 گھنٹے قبل ایران کا عراق شام اور یمن میں بڑھتے ہوۓ اثر و رسوخ کی باتیں ہو رہی تھیں۔ پھر مڈل ایسٹ میں ایران کو شیعہ سنی محاذ آرا ئی فروغ دینے کا الزام دیا جا رہا تھا۔ ایران اور عراق Axis کا مقصد بتایا جا رہا تھا۔ مڈل ایسٹ میں ایران کو کار نر کرنے کوششیں ہو رہی تھیں۔ اور اب عراق اور سعودی عرب سے مل کر ایران کا عراق شام اور یمن میں اثر و رسوخ ختم کرنے کا کہا جا رہا تھا۔ مڈل ایسٹ میں ایک درجن سے زیادہ جنگوں میں سب بھٹک گۓ ہیں۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ ان جنگوں سے کیسے نکلا جاۓ۔ کبھی ایسا نظر آتا ہے کہ ان جنگوں سے نکلنے کے لئے بھی نئی جنگ کا راستہ دیکھا جا رہا ہے۔
   اسلامی انقلاب ایران کے 38 سالوں میں عرب سنی حکومتیں یہ ثبوت نہیں دے سکتی ہیں کہ ایران نے ان کے ملکوں میں اسلامی انقلاب پھیلانے کی مداخلت کی تھی۔ عرب سنی ملکوں میں عرب شیعاؤں کو حکومتوں کے خلاف اکسایا تھا۔ جس طرح 1991 میں امریکہ نے عراقی شیعاؤں کو صد ام حسین کی سنی حکومت کے خلاف بغاوت پر اکسایا تھا۔ اس وقت کسی سنی عرب حکومت نے امریکہ کی اس شرارت کا نوٹس نہیں لیا تھا۔ لیکن امریکہ کی عراق میں سنی حکومت کے خلاف شیعاؤں کی حمایت کرنے کے باوجود ایران نے امریکہ سے تعلقات بحال کرنا مناسب نہیں سمجھا تھا۔ لیکن یہ سنی عرب حکمران ہیں جنہوں نے صرف اسرائیل کی ایران سے دشمنی میں ایران سے تعلقات خراب کرنے کو اہمیت دی ہے۔ اس خطہ کے دو ملکوں کو صرف اسرائیل کے مفاد میں تباہ کیا گیا ہے۔ عربوں میں لڑائیوں کا beneficiary اسرائیل ہے۔ جو اس خطہ کی ایٹمی طاقت ہے۔ اور اس کو چیلنج کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ عربوں کی امریکہ کو اپنی گود میں بیٹھا کر اس خطہ میں توازن طاقت رکھنے کی سوچ ایک غلط فہمی ہے۔
   اس وقت مڈل ایسٹ کا جو نقشہ ہے۔ یہ نقشہ راتوں رات نہیں بنا ہے۔ اس کی تیاری 90 کی دہائی سے ہو رہی تھی۔ اسلامی انقلاب ایران کے بعد  پہلی مرتبہ 1997  میں تہران میں اسلامی ملکوں کی سربراہ کانفرنس کا انعقاد ہوا تھا۔ ایران نے اس کانفرنس میں اسلامی اتحاد اور یکجہتی فروغ دینے کی کوشش کی تھی۔ صد ام حسین کو بھی تہران کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی تھی۔ عراق پر اس وقت انسانی تاریخ کی بد ترین بندشیں لگی ہوئی تھیں۔ عراق کو جیسے انسانیت سے خارج کر دیا گیا تھا۔ صدر کلنٹن امریکہ کے صدر تھے۔ ان کے قومی سلامتی امور کے مشیر سینڈ ی بر گر تھے۔ ایران اور عراق دونوں امریکہ کی good book میں نہیں تھے۔ اسلامی سربراہوں کی تہران کانفرنس امریکہ کی سلامتی کے لئے خطرہ بن رہی تھی۔ تہران کو اسلامی ملکوں کی قیادت دی جا رہی تھی۔ اور تہران عراق کو قوموں کی برادری میں لا رہا تھا۔ قومی سلامتی امور کے مشیر سینڈ ی بر گر یہ دیکھ کر بڑے پریشان ہو رہے تھے۔ امریکہ کی good book میں جو اسلامی ملک تھے ان کے ذریعہ تہران کانفرنس میں اسلامی اتحاد اور یکجہتی کو ناکام بنانے کی کوشش بھی کی گئی تھی۔ وائٹ ہاؤس میں پریس بریفنگ میں قومی سلامتی امور کے مشیر سینڈ ی بر گر نے کہا کہ وہ تہران میں اسلامی سربراہ کانفرنس کو قریب سے واچ کر رہے تھے۔ میں نے یہ پریس بریفنگ دیکھی تھی۔ اور میں تہران اسلامی سربراہ کانفرنس کے بارے میں ان کی پریشانی کبھی نہیں بھولوں گا۔
   تہران کی اسلامی سربراہ کانفرنس کے 4 سال بعد نائن الیون کا واقعہ ہوا تھا۔ اور یہ واقعہ اسلامی ملکوں کے لئے Hell بن گیا ہے۔ اسلامی ملکوں کا اسلامی ملکوں کے خلاف Crusade ہو رہا ہے۔ سنیوں کا شیعاؤں کے خلاف Crusade ہو رہا ہے۔ کردوں  کا عراق ترکی اور شام کے خلاف Crusade ہو رہا ہے۔ سرد جنگ کے دور میں مڈل ایسٹ کے تیل پر مغرب کی اقتصادی خوشحالی اور ترقی کا انحصار تھا۔ اس لئے مڈل ایسٹ میں امن اور استحکام مغرب کی سلامتی کے مفاد میں تھا۔ نائن الیون کے بعد سے مڈل ایسٹ کے تیل پر مغرب کا انحصار ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اور مڈل ایسٹ میں انتشار عدم استحکام اور جنگوں پر مغرب کی ہتھیاروں کی صنعت کا انحصار بڑھتا جا رہا ہے۔ اور یہ صورت حال ہتھیاروں کی صنعتوں ک مفاد میں ہے۔ دہشت گردوں کو بھی ہتھیار فراہم کیے جا رہے ہیں۔ اور دہشت گردوں کے خلاف لڑنے والوں کو بھی ہتھیار فروخت کیے جا رہے ہیں۔ منافع کی جنگوں میں انسانی ہلاکتوں پر آنسو نہیں بہاۓ جاتے ہیں۔ صرف افسوس کیا جاتا ہے۔ اور لوگوں سے کہا جاتا ہے یہ جنگ ہے اور جنگ میں لوگ مرتے ہیں۔                                                                                                                                                                                                                                              

Tuesday, October 24, 2017

“Russia’s Gravest Error In The Past Fifteen Years, Placing Moscow’s Trust In The West” -President Vladimir Putin

“Russia’s Gravest Error In The Past Fifteen Years, Placing Moscow’s Trust In The West” -President Vladimir Putin

مجیب خان
 
President Vladimir Putin
   صدر پو تن نے سوچی روس میں Valdai Discussion Club کے مذاکرے میں کہا کہ "انہوں نے مغرب پر بھرو سہ  کرنے میں جلد بازی کی تھی۔ جس کی انہیں مغرب سے یہ شکایت ہے کہ اس نے ماسکو کے ساتھ اپنے تعلقات کو اپنے مفادات فروغ دینے میں استعمال کیا تھا۔" صدر پو تن نے کہا " ہماری سب سے بڑی غلطی تھی کہ ہم نے تم پر بھرو سہ کیا تھا۔ تم نے ہمارے بھرو سہ کا مطلب ہماری کمزوری سمجھا تھا۔ اور تم نے اسے استحصال کیا تھا۔" صدر پو تن نے کہا "بد قسمتی سے ہمارے مغربی پارٹنر ز کو سوویت یونین کی Geopolitical تاریخ تقسیم کرتے ہوۓ اپنے پارسا ہونے میں اتنا زیادہ پختہ یقین تھا کہ خود سرد جنگ کا فاتح ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔" صدر پو تن نے کہا "اور پھر مغرب کے جمہوریت برآمد کرنے کی اہمیت کا سوویت یونین کے کمیونسٹ پھیلانے کے عزائم سے موازنہ کرنے لگے تھے۔" صدر پو تن کو مغرب سے جو شکایتیں ہیں۔ اس میں کوئی مبالغہ آرا ئی نہیں ہے۔ اور یہ بہت Genuine شکایتیں ہیں۔ سرد جنگ ختم کر کے مغرب نے دنیا میں گرم جنگوں کے  دروازے کھول دئیے ہیں۔ اور یہ گرم جنگیں مغرب کے مفادات میں ہیں۔ دنیا کی اکثریت کا ان جنگوں میں کوئی مفاد نہیں ہے۔ یہ جنگیں دنیا کے امن اور استحکام کے لئے مسلسل خطرے پیدا کرنے کی مشین بن گئی ہیں۔ صدر پو تن نے Valdai Discussion Club کے مذاکرے میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ" روس کی سرحدوں کے قریب نیٹو فوجیں تعینات ہونے کا جواب دینے کے لئے ماسکو کے منصوبہ کے باوجود ہر چیز کنٹرول میں ہے۔" صدر پو تن نے مڈل ایسٹ میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو یہ جانتے بوجھتے کہ یہاں پہلے ہی عدم استحکام کے حالات تھے۔ انہیں اور بدتر بنانے کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ صدر پو تن نے مذاکرے میں موجودہ عالمی صورت حال کے بارے میں بڑی اہم سوال اٹھاۓ ہیں۔ صدر پو تن کو اس پر خاصا ملال ہے کہ روس نے امریکہ پر بھرو سہ کیا تھا۔ اور اس سے ناجائز فائدہ اٹھایا گیا ہے۔
   سوویت یونین کے صدر میکائیل گار با چو ف سے صدر جارج ایچ بش نے یہ عہد کیا تھا اور صدر گار با چو ف نے ان پراعتماد کیا تھا کہ نیٹو کو روس کی سرحدوں کے قریب نہیں پھیلایا جا ۓ گا۔ صدر بش کے سیکرٹیری آف اسٹیٹ جم بیکر نے بھی سو ویت یونین کے رہنماؤں کو یہ یقین دلایا تھا کہ نیٹو روس کی سرحدوں کے قریب نہیں آۓ گا۔ لیکن پھر سرد جنگ ختم ہونے کے صرف چند سالوں میں امریکہ نے نیٹو کو روس کی سرحدوں کے قریب پھیلانے کا ایک گرینڈ منصوبہ پیش کر دیا تھا۔  سوویت یونین کے زیر اثر سابق مشرقی یورپ کی ریاستوں کو نیٹو کی رکنیت دینے کا اعلان کیا تھا۔ اور پھر دیکھتے ہی دکھتے نیٹو نے روس کا گھراؤ کر لیا تھا۔ سوویت ایمپائر ٹوٹنے کے بعد روس شدید سیاسی انتشار میں آگیا تھا۔ روس کی معیشت تباہ ہو گئی تھی۔ عجیب افراتفری کے حالات کا روس کو سامنا تھا۔ بورس یلسن روس کے صدر تھے۔ حکومت انتہائی کمزور اور غیر موثر تھی۔ روس کی شمالی Caucasus میں علیحدگی کی تحریکوں نے خوفناک دہشت گردی کی صورت اختیار کر لی تھی۔ ماسکو دہشت گردوں کے حملوں کی زد میں آگیا تھا۔ روس کو ان حالات میں دیکھ کر امریکہ میں عام تاثر یہ تھا کہ روس اب تقریباً ختم ہو گیا ہے۔ اور اسے ان حالات سے نکلنے میں ایک بڑا عرصہ لگے گا۔ لہذا امریکہ اور نیٹو اس سوچ کے تحت دنیا کو Militarize کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ روس نے اس صورت حال کا بڑے تحمل سے سامنا کیا تھا۔ صدر پو تن کی قیادت میں روس نے اپنے تمام داخلی مسائل پر قابو پا لیا تھا۔ اور روس دوبارہ عالمی سیاست کے اکھاڑے میں آ گیا تھا۔ تاہم صدر پو تن نے روس کی سرحدوں کے قریب نیٹو کی موجودگی کے مسئلہ پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ لیکن مغرب کے ساتھ ایک نئی سرد جنگ شروع کرنے سے گریز کیا تھا۔ امریکہ کے ساتھ روس کے اختلافات تھے۔ لیکن امریکہ سے تصادم اور محاذ آرا ئی کی پالیسی اختیار نہیں کی تھی۔ اگر روس چاہتا تو امریکہ کے لئے مسائل پیدا کر سکتا تھا۔ لیکن اس کے باوجود صدر پو تن نے امریکہ سے تعاون کیا تھا۔
  عراق کے خلاف اینگلو امریکہ کی Preemptive جنگ کی روس نے حمایت نہیں کی تھی۔ اور سائڈ لائن پر کھڑے ہو کر اس جنگ کے نتائج دیکھنے کا انتظار کیا تھا۔ لیبیا کے خلاف امریکہ کی قیادت میں فوجی مداخلت اور صدر قد ا فی کو اقتدار سے ہٹانے کے فیصلہ کی روس نے مخالفت کی تھی۔ لیکن اسے بھی مغرب کے ساتھ تصادم کا پوائنٹ  نہیں بنایا تھا۔ امریکہ کی قیادت میں مغرب کی جارحیت اور عالمی قوانین کی خلاف ورزیاں مسلسل پھیلتی جا رہی تھیں۔ با سنیا میں انسانیت کے خلاف کرائم کے بعد جس میں تقریباً ایک ملین لوگ مارے گیے تھے۔ شام کی خانہ جنگی میں با سنیا سے زیادہ انسانیت کے خلاف کرائم کیے گیے ہیں۔ ایک انتہائی خوب صورت ملک کی ہزار سال کی تاریخ کو مٹانے کی کوشش کی گئی تھی۔ اور سارے ملک کو کھنڈرات بنا دیا ہے۔ یہ شام کے لوگوں کے لئے 911 ہے۔ عراق لیبیا شام یمن خانہ جنگی دہشت گردی  مڈل ایسٹ کو ایک خوفناک تباہی کی طرف لے جا رہے تھے۔ روس نے مداخلت کر کے مڈل ایسٹ کو اس تباہی سے بچایا ہے۔
   جس طرح صدر پو تن نے امریکہ پر بھرو سہ کرنے میں جلد بازی کی تھی۔ اسی طرح صدر کرنل قد ا ‌فی نے عراق کے خلاف امریکہ کی فوجی کاروائی سے خوفزدہ ہو کر اپنے سلامتی کے تمام ہتھیار امریکہ کے حوالے کرنے میں جلد بازی کی تھی۔ اور اپنے اقتدار کی سلامتی میں امریکہ پر بھرو سہ کر لیا تھا۔ اور صدر جارج بش نے انہیں یہ یقین دلایا تھا کہ ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہو گی اور وہ اقتدار میں رہ سکتے ہیں۔ قد ا فی حکومت کے ساتھ مہلک ہتھیاروں کے بارے میں بش انتظامیہ کا یہ سمجھوتہ ایسا تھا کہ جیسے اوبامہ انتظامیہ کا ایران کے ایٹمی پروگرام پر معاہدہ تھا۔ لیکن فرق صرف یہ تھا کہ یہ ایک عالمی معاہدہ تھا۔ اور سلامتی کونسل نے اس معاہدے کو ایک قانونی درجہ دیا ہے۔ اگر یہ سمجھوتہ اوبامہ انتظامیہ اور ایران میں ہوتا تو صدر ٹرمپ اس سمجھوتہ کو بہت پہلے منسوخ کر چکے ہوتے۔ اور لیبیا کی طرح ایران میں بھی حکومت تبدیل کرنے کا منصوبہ بن جاتا۔
  ان حالات کو دیکھ کر دنیا کے ملکوں کا امریکہ پر اعتماد ختم ہوتا جا رہا ہے۔ امریکہ کی ساکھ خراب ہو رہی ہے۔ اور اس میں امریکہ کی داخلی سیاست کا ایک بڑا رول ہے۔ جو دراصل داخلی سیاست سے زیادہ مختلف ملکوں کے مفادات کی نمائندہ لابیوں کا سیاسی رول ہے۔ جن کا امریکی کانگرس پر گہرا اثر و رسوخ ہے۔ اور کانگرس پھر ان کے مفادات میں قانون منظور کرتی ہے۔ دنیا یہ با خوبی سمجھتی ہے کہ ایران کے خلاف کانگرس نے جو قانون منظور کیے ہیں وہ کس کے مفاد میں ہیں؟ انتظامیہ جو سمجھوتہ کرتی ہے اور جنہوں نے انتظامیہ پر بھرو سہ کیا ہے کانگرس ان کا کوئی احترام نہیں کرتی ہے۔ جیسے صدر بش کی ری پبلیکن انتظامیہ نے صدر قد افی سے مہلک ہتھیاروں سے دستبردار ہونے کے بعد انہیں جو یقین دہانیاں کرائی تھیں اور ان سے جو عہد کیا تھا۔ اور پھر صدر قد ا فی  نے امریکہ پر بھرو سہ کیا تھا۔ لیکن پھر ڈیمو کریٹ کی انتظامیہ نے سابقہ انتظامیہ کے اس عہد اور یقین دہانیوں کی کوئی پرواہ نہیں کی تھی۔ اور ری پبلیکن اراکین کانگرس نے بھی اس سے منہ موڑ لیا تھا۔ اس سے امریکہ کی ساکھ خراب ہوتی جا رہی ہے۔ جیسے صد ام حسین نے کویت میں اپنی فوجیں بھیجنے سے پہلے بش سینیئر کی انتظامیہ سے یہ پوچھا تھا کہ امریکہ کا اس پر کیا رد عمل ہو گا؟ صدر صد ام حسین نے ایک دیانتدارانہ جواب کے لئے امریکہ پر بھرو سہ کیا تھا۔ جس پر بش سینیئر کی انتظامیہ نے بغداد میں امریکہ کی سفیرApril Glaspie  کے ذریعے صد ام  حسین کو یہ جواب دیا تھا کہ ‘[We] have no opinion on the Arab-Arab conflicts, like your border disagreement with Kuwait.’ The U.S. State Department had earlier told Saddam That Washington had ‘no special defense or security commitments to Kuwait.’
صدر صد ام حسین نے اسے امریکہ کی طرف سے گرین لائٹ سمجھا تھا اور اپنی فوجوں کو کویت پر قبضہ کرنے کا حکم دے دیا تھا۔ عراقی فوجوں نے کویت پر قبضہ کر لیا تھا۔ اور بش سینیئر انتظامیہ نے کہا “gotcha” صد ام حسین امریکہ کے عزائم میں پھنس گیے تھے۔
   پاکستان نے بھی بش انتظامیہ پر بھرو سہ کرنے میں جلد بازی کی تھی۔ حالانکہ ماضی میں پاکستان کو امریکہ پر بھرو سہ کرنے کا تلخ تجربہ تھا۔ لیکن بش انتظامیہ نے پاکستان کو یہ یقین دلایا تھا کہ ماضی میں عہد اور یقین دہانیوں کی جو خلاف ورزیاں ہوئی تھیں انہیں اب نہیں دہرایا جاۓ گا۔ اور اس یقین دہانی کے بعد پاکستان نے امریکہ پر بھرو سہ کرتے ہوۓ دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی عالمی جنگ میں 80 فیصد حصص قبول کر لئے تھے۔ پاکستان کو طالبان کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن پر کھڑا کر کے طالبان کو شکست دینے کے مشورے بھارت سے کیے جاتے تھے۔ افغانستان میں بھارت کا مفاد امریکہ کے مفاد سے بہت مختلف تھا۔ اس لئے افغانستان میں بھارت کامیاب ہے۔ اور امریکہ اور پاکستان ناکام ہیں۔ بش انتظامیہ نے پاکستان سے بھارت کے ساتھ  مشرقی سرحدوں سے اپنی فوجیں ہٹا کر شمال مغرب میں افغانستان کے ساتھ سرحدوں پر لگانے کا کہا تھا۔ تاکہ پاکستانی فوجیں افغانستان سے بھاگ کر آنے والے دہشت گردوں کا مقابلہ کریں۔ بش انتظامیہ کی اس تجویز پر پاکستان نے اپنے اس خدشہ کا اظہار کیا تھا کہ بھارت اس صورت سے فائدہ اٹھا کر پاکستان پر حملہ کر دے گا۔ اس لئے پاکستان مشرقی سرحدوں سے اپنی فوجیں نہیں ہٹا سکتا ہے۔ صدر بش کی اس یقین دہانی کے بعد کہ بھارت پاکستان پر حملہ نہیں کرے گا۔ وہ  اس کی ضمانت دیتے ہیں۔ پاکستان نے مشرقی سرحدوں سے 70 ہزار فوجیں ہٹا کر شمال مغرب میں افغان سرحد پر لگا دی تھیں۔ صدر بش کے دور میں بھارت نے مشرقی سرحدوں پر چھیڑ چھاڑ کی تھی۔ لیکن اوبامہ انتظامیہ میں یہ چھیڑ چھاڑ بھارتی گولہ باری میں بدل گئی تھی۔ بھارتی فوجیں روزانہ پاکستانی علاقوں پر گولہ باری کر رہی تھیں۔ پاکستانی فوجی بھی اس بھارتی گولہ باری سے ہلاک ہوۓ تھے۔ اور پاکستان کی سرحد میں دیہات اور قصبوں کے لوگ بھی ہلاک ہو رہے تھے۔ لیکن اوبامہ انتظامیہ نے سابقہ انتظامیہ کی اس یقین دہانی کو پورا نہیں کیا تھا کہ پاکستان جب تک دہشت گردوں کے خلاف لڑ رہا ہے بھارت مشرقی سرحدوں پر امن ر کھے گا۔ لیکن بھارت نے مشرقی سرحدوں سے خود بھی حملے کیے تھے اور تخریب کاروں کو بھی ان سرحدوں سے پاکستان کے اندر حملے کرنے کے لئے بھیجا جاتا تھا۔ لہذا اب امریکہ پر کون بھرو سہ کرے گا؟                   

Thursday, October 19, 2017

President Trump’s Message To The Nation Of Iran: We Hate You, You Hate Us

President Trump’s Message To The Nation Of Iran: We Hate You, You Hate Us    

Has The Law Of Hate Justified The Preemptive War?

مجیب خان
President Trump's address on Iran Nuclear deal

No one country could terminate the deal.This deal is not a bilateral agreement...The international community, and the European Union with it, has clearly indicated the deal is, and will, continue to be in Place. Federica Mogherini  

    صدر ٹرمپ کی نئی ایران پالیسی  تقریر جس نے لکھی ہے۔ اسے ایران کی تاریخ، ثقافت اور اسلامی حکومت کے بارے میں کوئی علم تھا۔ اور نہ ہی وہ مڈل ایسٹ کے بارے میں کچھ جانتا تھا۔ تقریر میں Factual Errors ہیں۔ صدر ٹرمپ کی نئی ایران پالیسی اور 15 سال قبل صدر بش کی عراق پالیسی پر Axis of evil تقریر میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ صدر بش کی تقریر میں عراق سے اور صدر ٹرمپ کی تقریر میں ایران سے سخت نفرت کا اظہار بہت نمایاں تھا۔ جب ذہن میں نفرت بھری ہوتی ہے تو زبان پر سچ کبھی نہیں آتا ہے۔ نفرت پھر Fabrication کو فروغ دیتی ہے۔ جیسا کہ یہ عراق کے ساتھ ہوا تھا۔ عراق کے مسئلہ پر تقریروں میں جھوٹ بولا جاتا تھا اور غلط بیانی کی جاتی تھی۔ اصل حقائق توڑ موڑ کر بیان کیے جاتے تھے۔ صد ام حسین سے صرف نفرت کی بنیاد پر جنگ کی فضا بنائی گئی تھی۔ اور پھر عراق پر Preemptive حملہ کیا گیا تھا۔ اور اب صدر ٹرمپ نے بھی ایران کے خلاف نفرت کا راستہ اختیار کیا ہے۔ اور ایران کے بارے میں زبردست غلط بیانی کی ہے۔  اصل حقائق سے منہ موڑ لیا ہے۔ اور مڈل ایسٹ میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے اس کا ذمہ دار ایران کو ٹھہرایا ہے۔ صد ام حسین کے بارے میں یہ کہا گیا تھا کہ القا عدہ  کے ساتھ صد ام حسین کے رابطے  تھے۔ اور اب ایران کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ ایران نے القا عدہ کے لوگوں کو تربیت دی تھی۔ اور پھر یہ عراق میں امریکی فوج پر حملے کرتے تھے۔ 20 سال قبل مڈل ایسٹ، کینیا اور تنزانیہ میں امریکی سفارت خانوں پر دہشت گردوں کے حملوں کو بھی ایران کے سر تھوپا ہے۔ حالانکہ اس وقت کلنٹن انتظامیہ نے اسامہ بن لادن اور القا عدہ کو ان حملوں کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ اسی طرح 25 جون 1996 میں دھرن سعودی عرب میں Khobar Towers barrack میں بم کے دھماکہ جس میں 19 امریکی فوجی ہلاک ہوۓ تھے۔ اس کی ذمہ داری القا عدہ نے قبول کی تھی۔ بن لادن نے سعودی عرب سے امریکی فوج کو نکالنے کے لئے جہاد کا اعلان کیا تھا۔ لیکن صدر ٹرمپ نے اس دہشت گردی کا الزام بھی ایران کو دیا ہے۔ اور افغانستان میں ایران کو طالبان کی مدد کرنے کا الزام دیا ہے جو سنی طالبان ہیں۔ لیکن عراق اور شام میں ایران کو شیعہ ملیشیا کی سنیوں کے خلاف لڑائی میں مدد کرنے کا دعوی کیا ہے۔ حالانکہ یہ شیعہ ملیشیا عراق پر امریکہ کے فوجی قبضہ کے دوران القا عدہ کے حملوں کا مقابلہ کرنے کے لئے وجود میں لاۓ گیے تھے۔ انہیں امریکہ نے مسلح کیا تھا۔ جنگ کی فضا بنانے کے لئے جھوٹے الزامات گڑھے جاتے ہیں۔ جن سے پھر نفرت ہونے لگتی ہے۔ نفرتیں پھر جنگ کو بھڑکا دیتی ہیں۔ عراق اور شام میں ایران نے داعش کے خلاف لڑائی میں اپنے فوجی بھیجے تھے۔ ایران کے بہت سے فوجی اس لڑائی میں مارے گیے تھے۔ اور صدر ٹرمپ نے اپنی تقریر میں اسے عراق اور شام میں ایران کی مداخلت کہا ہے۔ اور یہ بھی کہا کہ ایران مشرق وسطی کو عدم استحکام کر رہا ہے۔ جس کشتی میں عربوں کے ساتھ ایران بھی سوار ہے۔ اس کشتی میں ایران سوراخ کیوں کرے گا؟ امریکہ نے ہزاروں میل دور سے جا کر عراق میں سوراخ کر دئیے ہیں۔ اور اب عرب اور ایران شیعہ اور سنی سب غرق ہو رہے ہیں۔     
   21ویں صدی کی پہلی دو دہائیوں میں جو جنگیں ہو رہی ہیں۔ وہ صرف نفرت کے نتیجہ میں ہو رہی ہیں۔ اور جب تک نفرت کا سد باب نہیں ہو گا۔ جنگیں ختم نہیں ہوں گی۔ افغانستان میں جس جنگ کی ابتدا طالبان سے نفرت کے نتیجہ میں ہوا تھا۔ وہ جنگ افغانستان میں اب علاقائی ثقافتوں کے درمیان نفرتوں میں بدل گئی ہے۔ اسی طرح عراق میں صد ام حسین سے نفرت کے نتیجہ میں جنگ اب شیعاؤں اور سنیوں میں نفرت بن گئی ہے۔ اور اب سارا مشرق وسطی اس نفرت کے تصادم کی لپیٹ میں آ گیا ہے۔ اور سعودی عرب نے اس نفرت کو یہ کہہ کر اور بھڑکا دیا ہے کہ سنیوں کی شیعاؤں کے خلاف 14 سو سال سے جنگ جاری ہے۔ سعودی اس نفرت میں ابھی تک 14 سو سال سے نہیں نکلے ہیں۔ شام میں اوبامہ انتظامیہ نے حکومت سے مٹھی بھر لوگوں کی نفرت کی آگ کو شعلوں میں بدل دیا تھا۔ صدر بشر ا لا اسد سے نفرت کو اس قدر بھڑکایا گیا کہ شام اب کھنڈرات بن گیا ہے۔  سعود یوں کو ہوتیوں سے نفرت ہو گئی ہے۔ اور اس نفرت میں سعود یوں نے یمن تباہ کر دیا ہے۔ اور امریکہ نفرت کی اس جنگ میں سعود یوں کی مدد کر رہا ہے۔ لیکن یہ الزام ایران کو دیا جا رہا ہے کہ ایران یمن میں مداخلت کر رہا ہے۔ لیبیا میں کرنل  قدافی کو بھی صرف  نفرت کے نتیجہ میں اقتدار سے ہٹایا گیا تھا۔ اور اب لیبیا بن غازی اور ترپیو لی میں تقسیم ہو گیا ہے۔ اسرائیل کو 50 سال سے فلسطینیوں سے نفرت ہے اور فلسطینیوں کو اسرائیل سے نفرت ہے۔ لیکن اسرائیل کے لئے یہ نفرت بہت اچھی ثابت ہوئی ہے۔ 50 سال سے اسرائیل بڑی کامیابی سے حالت جنگ میں ہے۔ اسرائیل اقتصادی طور پر خوشحال ہے۔ فوجی طور پر بہت طاقتور ہے۔ اسرائیل کا عربوں کے علاقوں پر ابھی تک قبضہ ہے۔ اور اسرائیل Expand ہو رہا ہے۔ اسرائیل کی 50 سال سے فلسطینیوں سے نفرت کا یہ کامیاب تجربہ اب مشرق وسطی میں آزمایا جا رہا ہے۔ اور امریکہ کی خارجہ پالیسی میں اسرائیل کے اس کامیاب ماڈل کو اختیار کر لیا ہے۔
    صدر ٹرمپ نے ایران کو اسرائیل کے خلاف حما س اور حزب اللہ کی حمایت کرنے کا الزام دیا ہے۔ جنہیں اسرائیل اور سعودی عرب دہشت گرد تنظیمیں قرار دیتے ہیں۔ حما س اور حزب اللہ کو القا عدہ یا داعش کا درجہ نہیں دیا جا سکتا ہے۔ یہ اسرائیلی فوجی قبضہ سے آزادی کے لئے اسی طرح مزاحمت کر رہے ہیں کہ جیسے شام میں حکومت کے باغی لڑ رہے تھے۔ اور امریکہ سعودی عرب خلیج کے حکمران اور اسرائیل ان باغیوں کی حمایت اور ہتھیاروں سے ان کی مدد کر رہے تھے۔ یہ بڑی نا انصافی ہے کہ جن کی حمایت کرنے کا اسرائیل سارٹیفیکٹ دے گا۔ دنیا انہیں دہشت گرد نہیں کہے گی انہیں باغی کہا جاۓ گا۔ یا وہ Freedom Fighters ہیں۔ سعودی عرب اور اسرائیل نے قطر کی حکومت پر حما س دہشت گرد تنظیم کی مدد کرنے کا الزام لگایا ہے۔ غازہ میں تقریباً دو ملین فلسطینی گوتانوموبے نظر بندی کیمپ کی طرح رہتے ہیں۔ جن میں ایک بڑی اکثریت حما س کی ہے۔ 2014 میں غازہ کی جنگ میں اسرائیل نے اندھا دھند بمباری کر کے غازہ میں ہسپتال اسکول گھروں غرض کہ سب کچھ تباہ کر دیا تھا۔ پھر یہ قطر تھا جس نے غازہ میں فلسطینیوں کی مدد کی تھی۔ اور غازہ کو دوبارہ  تعمیر کیا ہے۔ ہسپتال اور اسکول تعمیر کیے ہیں۔ ایپارٹمنٹ کمپلیکس تعمیر کیے ہیں اور فلسطینیوں کو ان میں آباد کیا ہے۔ اسرائیل اور سعودی عرب اسے دہشت گردوں کی مدد کہتے ہیں۔ قطر کے خلاف لڑائی میں سعود یوں کا  ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ قطر حما س کی مدد کرنا بند کرے۔ اب ایران اور حزب اللہ کے تعلقات کا سوال ہے۔ اسرائیل اور امریکہ حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔ حزب اللہ کی حمایت کرنے کا الزام ایران کو دینے سے پہلے یہ مطالبہ لبنان کی حکومت سے کرنا چاہیے۔ حزب اللہ لبنان کی ایک بڑی سیاسی تنظیم ہے۔ حزب اللہ لبنان کی حکومت میں عیسائوں اور سنیوں کے ساتھ شریک ہے۔ اور یہ لبنان میں شیعاؤں کی نمائیندگی کرتی ہے۔ لبنان کی پارلیمنٹ میں حزب اللہ کے منتخب نمائندے ہیں۔ اور لبنان کی حکومت حزب اللہ کو ھوم لینڈ سیکورٹی کے لئے ایک ادرہ سمجھتی ہے۔ جس نے جنوبی لبنان کو اسرائیلی فوجی قبضہ سے آزاد کرایا تھا۔ اور حزب اللہ  لبنان کے خلاف اسرائیلی جارحیت کا دفاع کرتی ہے۔
   
President Trump on Iran: “In 1996, the regime directed another bombing of American military housing in Saudi Arabia murdering 19 American in cold blood. Iranian proxies provided training to operatives who were later involved in al Qaeda’s bombing of the American embassies in Kenya, Tanzania and two years later, killing 224 people, and wounding more than 4000 others.”
 Secretary of State Madeleine Albright; in Iran April 1, 2000 “Well, our two countries have been in conflict for many many years. As you may know, President Khatami and President Clinton have expressed a desire to improve relations. And it’s been my pleasure to come to Iran to personally extend a hand of friendship on behalf of the American people to the good people of this ancient and important country. I’ve had very constructive meetings with President Khatami and Foreign minister Kharrazi. We discussed ways to move Iran-U.S. relations forward. One of the things we agreed was to resume diplomatic relations in early 2001.”
President George W. Bush, March 6,2003 “Iraq is a part of the war on terror. Iraq is a country that has got terrorist ties. It’s a country with wealth. It’s country that could arm terrorist. There’s a lot of facts which make it clear to me and many others that Saddam (Hussein) is a threat.”
        President Donald Trump, October 13,2017 “The regime remains the World’s leading State sponsor of terrorism and provides assistance to al-Qaeda, the Taliban, Hezbollah, Hamas and other terrorist networks.”
 President George W. Bush, March 16, 2003 “The dictator of Iraq and his weapons of mass destruction are a threat to the security of free nations. He is a danger to his neighbors. He’s a sponsor of terrorism. He’s an obstacle to progress in the Middle East. For decades he has been the cruel, cruel oppressor of the Iraq people.”
President Donald Trump, October 13, 2017 “History has shown the longer we ignore a threat, the more dangerous that threat becomes. For this reason, upon taking office, I have order a complete strategic review of our policy toward the rogue regime in Iran, that review is now complete. Our policy is based on a clear-eyed assessment of the Iranian dictatorship, and its continuing aggression in the Middle East and all around the World.”                                                                                                           

Sunday, October 15, 2017

Mr. President, When America Is Playing India’s Card Against Pakistan And India Is Playing Afghan's Card Against Pakistan, Then What Role Does Pakistan Have To Play?

Mr. President, When America Is Playing India’s Card Against Pakistan And India Is Playing Afghan's Card Against Pakistan, Then What Role Does Pakistan Have To Play? 

مجیب خان
Defense Secretary James Mattis and Prime Minister Modi 

Bombing and civilian deaths
 in Afghanistan
     سیکرٹیری دفاع James Mattis گزشتہ ماہ دہلی میں تھے۔ جہاں انہوں نے بھارتی وزیر دفاع اور وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی تھی۔ اور ٹرمپ انتظامیہ کی افغان پالیسی اور افغانستان میں بھارت کے رول پر تبادلہ خیال کیا تھا۔ بھارت نے اس خطہ کی صورت حال پر اپنے تحفظات پر بات کی تھی۔ بھارت کو افغانستان میں رول دینے کے جواب میں بھارت نے بھی امریکہ کو ایک رول دیا ہے کہ کسی طرح چین اور پاکستان کے درمیان CPAC معاہدہ پر عمل درامد کو روکا جاۓ۔ اور اس مقصد میں یہ گراؤنڈ دیا ہے کہ One Belt One Road شاہراہ متنازعہ علاقہ سے گزر کر جاتی ہے۔ سیکرٹیری دفاع اس بھارتی بریفنگ کے ساتھ واپس آۓ تھے۔ اور پھر سینٹ اور کانگرس کی آرمڈ سروسس کمیٹی کو سیکرٹیری دفاع James Mattis نے بتایا کہ "امریکہ One Belt One Road  کے اصولی طور پر خلاف ہے۔ کیونکہ ایک گلوبلائز ورلڈ میں پہلے ہی بہت Belts اور Roads ہیں۔ اور ایک ملک کو اپنا One Belt One Road نہیں بنانا چاہیے اور اس کے خلاف ہیں۔ جو پاکستان سے گزر رہی ہے۔ کیونکہ یہ ایک متنازعہ علاقہ سے گزرتی ہے۔" بھارت کے وزیر دفاع نے اس پروجیکٹ کو ختم کرانے کا assignment امریکہ کے سیکرٹیری دفاع کو دیا ہے۔ سیکرٹیری دفاع James Mattis کے بیان پر بھارت کا کوئی رد عمل نہیں تھا۔ پاکستان نے سیکرٹیری دفاع کے بیان سے اختلاف کیا تھا۔ جبکہ چین نے سیکرٹیری دفاع کے بیان کو مسترد کر دیا تھا۔ سینٹ اور کانگرس کی آرمڈ سروسس کمیٹی کے سامنے سیکرٹیری دفاع نے جس متنازعہ علاقہ کی بات کی ہے یہ کشمیر کا علاقہ ہے۔ جہاں کشمیری بھارت سے خود مختاری مانگ رہے ہیں۔ اور یہ بھارت میں رہنا نہیں چاہتے ہیں۔ کشمیر کا جو حصہ پاکستان میں ہے اور کشمیر کا کچھ حصہ چین میں ہے وہاں کشمیریوں کی خود مختاری کی ایسی کوئی تحریک نہیں ہے۔ کیونکہ CPAC کو بھارت اپنے مفاد کے خلاف سمجھتا ہے۔ اس لئے بھارت نے سیکرٹیری دفاع کے بیان پر کوئی احتجاج نہیں کیا ہے۔ کشمیر کو متنازعہ علاقہ تسلیم کر لیا ہے۔ اور اس تنازعہ میں امریکہ کو ایک پارٹی بھی بنا لیا ہے۔ لیکن پاکستان نے جب بھی اقوام متحدہ میں کشمیر کے تنازعہ کی بات کی ہے یا امریکہ سے کشمیر کا تنازعہ حل کرانے میں مدد کرنے کا کہا ہے۔ بھارتی حکومت نے ہمیشہ اس کی مخالفت کی ہے۔ اور شملہ معاہدہ کا حوالہ دیا ہے کہ جس میں کشمیر کے تنازعہ کو دونوں ملکوں میں مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا کہا گیا تھا۔ اور اب بھارت نے امریکہ کی مدد حاصل کر لی ہے۔ اور امریکہ کو کشمیر کے تنازعہ کو صرف شاہراہ کی تعمیر تک محدود نہیں رکھنا چاہیے بلکہ اس شاہراہ کے راستہ میں کشمیر بھی ایک تنازعہ ہے اور اس کی بات کرنا چاہیے۔
    سیکرٹیری دفاع James Mattis نے دنیا میں جس Belt اور Road کی بات کی ہے وہ ہتھیاروں سے بھرے فوجی ٹرکوں کے استعمال کے لئے تھے۔ ٹیریلین ڈالر کا اسلحہ یہاں سے گزرتا تھا۔  یہ لوگوں کی زندگیوں میں اقتصادی ترقی اور خوشحالی لانے کے لئے نہیں تھے۔ دنیا میں یہ Belt اور Road خود اس کی گواہی دیتے ہیں۔ چین جس One Belt One Road کی تعمیر پر ٹیریلین ڈالر خرچ کر رہا ہے۔ یہ دنیا کے لاکھوں اور کروڑوں لوگوں کی زندگیوں کو تبدیل کرنے میں انویسٹمینٹ ہے۔ پاکستان پچھلی نصف صدی سے امریکہ کے لئے اور امریکہ کے ساتھ صرف لڑائیاں لڑتا رہا ہے۔ بیسویں صدی کی آخری لڑائی جو افغانستان میں لڑی گئی تھی۔ یہ لڑائی اکیسویں صدی کی پہلی دو دہائیوں میں بھی پاکستان کا پیچھا کر رہی ہے۔ اور پاکستان کو افغان جنگ سے نجات نہیں مل رہی ہے۔ افغانستان میں بش انتظامیہ کے احمقانہ فیصلوں کی سزا پاکستان بھگت رہا ہے۔ امریکہ نے جنگ جیتنے کے بعد ہاری ہے۔ طالبان کا اقتدار ختم ہو گیا تھا۔ اور افغانوں نے اس پر خوشی کا اظہار کیا تھا۔ افغانستان کی ہزار سال کی تاریخ میں پہلی مرتبہ افغان سرزمین پر غیر ملکی فوجوں کا خیر مقدم کیا گیا تھا۔ یہ دیکھ کر بش انتظامیہ کے حوصلے اتنے زیادہ بلند ہو گیے تھے کہ عراق میں صد ام حسین کو اقتدار سے ہٹانے کی تیاری شروع کر دی تھی۔ عراق کے چکر میں بش انتظامیہ افغانستان میں کامیابی کو استحکام دینے میں لا پرواہ ہو گئی تھی۔ جس دن امریکہ نے عراق پر حملہ کیا تھا۔ اسی دن افغانستان میں امریکہ کی کامیابی شکست میں بدل گئی تھی۔ پاکستان ایک awkward پوزیشن میں آ گیا تھا۔ امریکہ عراق جنگ میں دھنس گیا تھا۔ اور افغانستان میں طالبان نے امریکہ کو گھیر لیا تھا۔ کچھ عناصر تھے جو امریکہ کو افغانستان میں پھنسا کر رکھنا چاہتے تھے۔ اور کچھ عناصر افغانستان کے حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوۓ پاکستان کو تباہ کرنا چاہتے تھے۔ 2008 کے بعد پاکستان کو انتہائی خطرناک حالات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ پاکستان کی بقا اور سلامتی خطرے میں آ گئی تھی۔ امریکہ اور نیٹو سائیڈ لائن پر کھڑے تھے اور پاکستانی ریاست کو سو ویت یونین بننے کا انتظار کر رہے تھے۔ پاکستان کی فوج اور سیکورٹی کے اداروں نے بڑی قربانیوں اور انتھک کوششوں کے بعد پاکستان کو ان خطرناک حالات سے نکالا تھا۔ لیکن یہ کوششیں ابھی جاری ہیں۔ تاہم اس صورت حال کے باوجود پاکستان نے افغانستان میں ایک سیاسی حل کے لئے اپنی کوششیں جاری رکھی تھیں۔ طالبان کو سیاسی مذاکرات کے لئے آمادہ کر لیا تھا۔ لیکن پھر امریکہ نے ڈرون حملہ میں طالبان کے بعض رہنما مار دئیے تھے۔ اور پاکستان جو طالبان کو مذاکرات کے لئے تیار کر رہا تھا۔ ڈرون حملوں نے ان کوششوں کو سبوتاژ کر دیا تھا۔ کئی مرتبہ یہ ہو چکا تھا۔ پاکستان نے جب بھی طالبان کو مذاکرات کی ٹیبل پر لانے کی کوشش کی امریکہ اور نیٹو کا فوجی آپریشن ہو جاتا تھا۔ جس میں افغان شہری مار دئیے جاتے تھے۔ اور ماحول پھر طالبان کے حملوں کے لئے بن جاتا تھا۔ اس سے پاکستان کی پوزیشن خراب ہوئی تھی۔ 17 سال میں یہ تیسری امریکی انتظامیہ ہے لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ امریکہ طالبان کا مکمل خاتمہ چاہتا ہے یا طالبان کے مسئلہ کا سیاسی حل چاہتا ہے۔ بش انتظامیہ کی پالیسی یہ تھی کہ طالبان سے کوئی بات نہیں ہو گی اور ان کا مکمل خاتمہ ہونے تک جنگ جاری رہے گی۔ بش انتظامیہ میں یا تو چوٹی کے احمق تھے یا افغان اور پاکستان کے رہنما احمق تھے۔ امریکہ ویت نام میں کمیونسٹوں کا خاتمہ ہونے تک جنگ جاری نہیں رکھ سکا تھا۔ طالبان کا خاتمہ کرنے کا مطلب پشتون آبادی کا خاتمہ کرنا تھا۔ جو ممکن نہیں تھا۔ پھر اوبامہ انتظامیہ کی پالیسی یہ تھی کہ پاکستان طالبان کو مذاکرات کی ٹیبل پر لاۓ لیکن طالبان کے خلاف ڈرون حملے بھی جاری رہیں گے۔ اس کے ساتھ افغان سیکورٹی فورس سے بھی طالبان کے خلاف آپریشن کرنے کا کام لیا جا رہا تھا۔ افغانوں کی افغانوں سے جنگ ہو رہی تھی۔ اس صورت میں جب افغان حکومت کچھ نہیں کر سکتی تھی تو پاکستان کیا کر سکتا تھا۔ اور اب ٹرمپ انتظامیہ  افغانستان میں اپنی پالیسی لے کر آئی ہے۔ اور پاکستان کو یہ دھمکی دی ہے کہ "یہ پاکستان کے لئے ایک آخری موقعہ ہے"  پاکستان حقانی نیٹ ورک اور دہشت گرد گروپوں کا خاتمہ کرے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے افغانستان میں پانچ ہزار مزید فوجی بھیجے ہیں۔ اور افغانستان میں امریکی کمانڈروں کو آپریشن کے مکمل اختیارات دے دئیے ہیں۔ ایک اخباری خبر کے مطابق صرف ستمبر میں افغانستان میں 751 بم گراۓ گیے ہیں۔ جن میں شہریوں کی ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں۔ اور جب بے گناہ لوگ مارے جاتے ہیں تو شہریوں میں اشتعال پیدا ہوتا ہے۔ اور وہ انتہا پسند ہو جاتے ہیں۔ اور پھر حکومت، سیکورٹی فورس اور غیرملکی فوجوں کے خلاف انتہا پسندی کرنے لگتے ہیں۔ 17 سال سے افغانستان میں یہ سلسلہ جاری ہے۔  اس صورت حال سے طالبان فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ افغان حکومت، سیکورٹی فورس اور غیر ملکی فوجی کمانڈر اس صورت حال سے Frustrate ہو کر پاکستان کو الزام دینے لگتے ہیں۔
   امریکہ اور اس کے Allies جس طرح افغانستان میں 16 سال سے جنگ لڑ رہے ہیں۔ اگر امریکہ اور یہ Allies نازی جرمنی کے خلاف اس طرح لڑتے تو شاید نازیوں کو بھی کبھی شکست نہیں ہوتی۔ نازیوں کے خلاف جنگ میں امریکہ اور اتحادیوں کا صرف ایک مشن تھا کہ نازیوں کو شکست دی جاۓ۔ امریکہ نے نازیوں کے ساتھ روس میں اسٹالن کے خلاف کاروائی کرنے کا منصوبہ نہیں بنایا تھا۔ سارے اتحادیوں کا صرف ایک مشن تھا کہ نازیوں کو شکست دی جاۓ۔ لیکن افغانستان میں طالبان کے خلاف جنگ میں ایسا نہیں ہے۔ افغان جنگ میں امریکہ کے جو اتحادی ہیں ان سب کا ایجنڈا مختلف ہے۔ بلکہ خود امریکہ کا ایجنڈا بھی بدلتا رہا ہے۔ امریکہ نے افغان جنگ کو AFPAK بنا دیا تھا۔ اور اس جنگ کو پھر پاکستان میں پہنچا دیا تھا۔ پاکستان اس جنگ میں امریکہ کا اتحادی تھا اور اسے فرنٹ لائن پر رکھا گیا تھا۔ لیکن یہ اتحادی پاکستان کو عدم استحکام کر رہے تھے۔  بھارت بھی امریکہ کا اتحادی بن گیا تھا۔ لیکن افغانستان میں بھارت کا مشن کچھ اور تھا۔ افغانستان کی سرزمین سے بھارت کا مشن پاکستان میں انتشار پھیلانا تھا۔ اور بھارت اپنے اس ایجنڈے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ کچھ اتحادی افغانستان میں نیٹو کی بری طرح شکست دیکھنا چاہتے تھے۔ تاکہ نیٹو کے پھر اس طرح ٹکڑے ہو جائیں جیسے افغانستان میں سو ویت یونین کی شکست کے بعد اس کے ٹکڑے ہو گیے تھے۔ امریکہ کے عرب اتحادی افغانستان کے ذریعہ وسط ایشیا کو عدم استحکام کرنا چاہتے تھے۔ اس لئے وہ بھی طالبان کا مکمل خاتمہ نہیں چاہتے تھے۔ خود امریکہ میں بعض افغانستان میں طالبان کی اسلامی انتہا پسندی کے اثرات چین کے صوبہ سنکیانگ میں پھیلتا دیکھنا چاہتے تھے۔ جہاں ایک بڑی مسلم آبادی تھی۔ افغان جنگ میں اتحادیوں کو صرف ایک ایجنڈے پر رکھنے کی ذمہ داری امریکہ کی تھی۔ بش انتظامیہ نے انتہائی لا پرواہی اور غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا تھا۔ اور اس جنگ میں ہر اتحادی کو اپنا ایجنڈہ فروغ دینے کا موقعہ ملا تھا۔ اس لیے افغانستان میں سب اپنے ایجنڈے میں کامیاب ہو گیے ہیں لیکن ناکامی صرف یہ ہے کہ افغانستان کے 40 فیصد علاقہ پر طالبان کا کنٹرول ہے۔ اور امریکی فوجی ابھی تک اپنے ایجنڈہ کو حاصل کرنے کے لئے لڑ رہے ہیں۔                                                                                                                    

         

Tuesday, October 10, 2017

Terror In America: From The Twenty-Two Year Ago Bombing In Oklahoma City To The Mandalay Bay Hotel Shooting In Las Vegas

Terror In America: From The Twenty-Two Year Ago Bombing In Oklahoma City To The Mandalay Bay Hotel Shooting In Las Vegas          
The Fight President Bush Took To The Terrorists Abroad, So We Don't
Have To Face Them Here At Home; Now President Trump Has To Fight Over Here And Over There  

مجیب خان
Shooting in Las Vegas Hotel Mandalay Bay

Shooting in Las Vegas
    لاس ویگس میں  Mandalay bay  ہوٹل شوٹنگ امریکہ کی تاریخ میں داخلی دہشت گردی کا دوسرا بڑا واقعہ ہے۔ جس میں 58 لوگ مارے گیے ہیں۔ 29 لوگوں کی حالت ابھی خطرے میں بتائی جا رہی ہے۔ جبکہ 512 لوگ زخمی ہوۓ ہیں۔ 22 سال قبل 1995 میں اوکولوہوما سٹی میں فیڈرل بلڈنگ میں بم کے دھماکے ہوۓ تھے۔ جس میں 168 لوگ مارے گیے تھے۔ جن میں ایک بڑی تعداد بچوں کی تھی۔ فیڈرل بلڈنگ کے ایک فلور پر بچوں کا Day care تھا۔ اوکولوہوما سٹی میں اس دہشت گردی کا منصوبہ 29 سالہ Timothy McVeigh نے بنایا تھا۔ جو 1991 میں پہلی عراق جنگ کا ایک فوجی تھا۔ 2001 میں اسے پھانسی ہو گئی تھی۔ لاس ویگس میں Mandalay bay ہوٹل اور Casino کی 32ویں منزل کے 132 روم سے 500 یارڈ پر لوک موسیقی کے شائقین پر گولیوں کی بو چھار کر دی تھی۔ لوک موسیقی کے 25 ہزار شائقین یہاں جمع تھے۔ جو دوسری ریاستوں اور شہروں سے لوک موسیقی فنکار کو سننے یہاں آۓ تھے۔ گن مین ایک رٹائرڈ 64 سال کا Stephen Paddock تھا۔ بہت مالدار اور خوشحال تھا۔ پولیس کے اس کے کمرے تک پہنچنے سے پہلے اس نے خود کو گولی مار کر ہلاک کر لیا تھا۔ اس دہشت گردی کے پیچھے اس کے کیا عزائم تھے۔ یہ ابھی تک ایک معمہ ہے۔ گزشتہ جون میں ایلگزینڈریا ورجینیا میں کانگریشنل بیس بال گیم جو خیرات جمع کرنے کے مقصد سے ہوتا ہے اور جس میں دونوں پارٹیوں کے سینیٹر اور کانگرس مین حصہ لیتے ہیں۔ اس کی پریکٹس کے دوران ایک 60 سالہ شخص نے یہاں اندھا دھند فائرنگ کی تھی۔ جس میں کئی کانگرس مین اور ان کے اسٹاف کے کچھ لوگ زخمی ہو گیے تھے۔ ایک کانگرس مین بہت بری طرح زخمی ہوۓ تھے۔ گن مین پولیس کی فائرنگ میں مارا گیا تھا۔ امریکہ میں داخلی دہشت گردی کے یہ نئے واقعات نہیں ہیں۔ جن کا مشرق وسطی کے اسلامی دہشت گردوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ امریکہ میں داخلی دہشت گردی کے داخلی اسباب ہیں۔ جنہیں امریکی حکومتوں نے ہمیشہ نظر انداز کیا ہے۔ اور اپنے ریڈار پر صرف عالمی اسلامی دہشت گردی کو فوکس کیا ہے۔
    Timothy McVeigh کو پھانسی دے دی تھی۔ لیکن واشنگٹن میں دونوں پارٹیوں کے سیاستدانوں نے ان اسباب کا کبھی تدارک نہیں کیا تھا کہ اس نے اوکولوہوما سٹی میں یہ دہشت گردی کیوں کی تھی؟ Timothy جب امریکی فوج میں بھرتی ہوا تھا 21 سال کا تھا اور ایک محب وطن امریکی تھا۔ اس نے عراق کے خلاف پہلی جنگ لڑی تھی۔ اس جنگ میں عراقیوں کے ساتھ امریکی فوج نے بڑا برا بر تاؤ کیا تھا۔ ہزاروں عراقی اس جنگ میں مار دئیے تھے۔ Timothy اس سے خوش نہیں تھا اور اس کے ذہن میں یہ سوال تھا کہ ہم ان عراقیوں کو کیوں مار رہے تھے؟ انہوں نے ہمارے ساتھ کیا کیا تھا؟ جو ہم انہیں مار رہے تھے۔ عراق جنگ کے سین اس کے ذہن میں تھے۔ خلیج کی جنگ کے 3 سال بعد Waco Texas میں Branch Davidian کا واقعہ ہوا تھا۔ 1993 میں وفاقی اور ریاست ٹیکساس کے قانون نافذ  کرنے والوں اور امریکی فوج نے 28 فروری سے 19 اپریل تک Branch Davidian Compound  کا محاصرہ کر لیا تھا جس میں David Kuresh  کے پیروکار جمع تھے۔ ان میں بڑی تعداد میں عورتیں اور بچے بھی تھے۔ کمپاؤنڈ کو خالی کرانے کی کوششوں میں ناکامی ہونے کے بعد کمپاؤنڈ پر حملہ کیا گیا تھا۔ دونوں طرف سے شدید فائرنگ ہونے لگی تھی۔ دونوں طرف کچھ لوگ اس فائرنگ میں مارے گیے تھے۔ اور پھر کمپاؤنڈ کو آگ لگا دی تھی۔ Timothy نے  یہ سارے مناظر دیکھے تھے ۔ آگ کے شعلوں میں چیخ و پکار کی آوازیں سنی تھیں۔ اور اسے حکومت کے ان اداروں پر سخت غصہ تھا۔ عراق میں لوگوں کی ہلاکتوں کے منظر بھی اس کی نگاہوں کے سامنے تھے۔ اوکولوہوما سٹی میں دہشت گردی کے یہ اسباب تھے۔ کمپاؤنڈ کو آگ لگانے پر بہت سے لوگوں کو حکومت کے اس اقدام پر سخت غصہ تھا۔ لیکن پھر اوکولوہوما سٹی میں دہشت گردی سے لوگوں کا یہ غصہ حکومت سے ہمدردی میں بدل گیا تھا۔ لیکن یہ بہت واضح تھا کہ اکثر حکومت اپنی پالیسیوں یا فیصلوں سے بھی لوگوں کو مشتعل کرتی ہے۔
   

Chelsea Manning اور Edward Snowden بھی بالترتیب 22 اور 29 سال کے تھے۔ ایڈ ورڈ سنو ڈ ن  کمپیوٹر پروفیشنل اور سی آئی اے میں تیکنیکل اسسٹنٹ تھا۔ Chelsea Manning امریکی فوج میں تھی اور عراق میں تھی۔ ایڈ ورڈ سنو ڈ ن کی سی آئی اے اور نیشنل سیکورٹی ایجنسی میں انتہائی اہم فائلوں تک پہنچ تھی۔ امریکی جاسوسی پروگرام این ایس اے Surveillance کے بارے میں اسے تمام معلومات تھیں۔ ایڈ ورڈ سنو ڈ ن نے جب یہ دیکھا کہ امریکی انٹیلی جینس بڑے پیمانے پر انٹرنیٹ اور ٹیلی فون Surveillance کر رہی تھی۔ این ایس اے لاکھوں امریکیوں کا ٹیلی فون ریکارڈ جمع کر رہی تھی۔ ایڈ ورڈ کے مطابق این ایس اے نے دنیا بھر میں 61,000 سے زیادہ hacking آپریشن کیے تھے۔ اور کس طرح غیرملکی حکومتوں کی جاسوسی کی جاتی تھی۔ ان کے آفس میں فون ٹیپ کرنے کے خفیہ آلات نصب کیے گیے تھے۔ ان غیر ملکی حکومتوں میں جرمن چانسلر بھی شامل تھیں۔ براز یل کی صدر، ارجنٹائن، فرانس کی بھی جاسوسی کی جا رہی تھی۔ امریکی حکومت کی ان خفیہ کاروائیوں کے بارے میں دستاویز کے ساتھ ایڈ ورڈ سنو ڈ ن ہانگ  کانگ چلا گیا تھا۔ جہاں اس نے امریکی حکومت کے Un-American  اقدامات دنیا کے سامنے کھول کر رکھ دئیے تھے۔ ایڈ ورڈ سنو ڈ ن نے 350 ملین امریکیوں کی آزادی اور حقوق کو بچایا تھا۔ لیکن امریکی حکومت کی پالیسیوں کی خاصی Casualties ہوئی تھیں۔ خارجہ پالیسی اور سیکورٹی اسٹبلشمینٹ کو ان انکشاف سے زبردست دھچکا پہنچا تھا۔
    22 سالہ Chelsea Manning آرمی میں انٹیلی جینس analyst تھی۔ اس نے جن خفیہ معلومات کا انکشاف کیا تھا۔ وہ محاذ جنگ کے بارے میں نچلی سطح کی رپورٹوں پر تھیں۔ اور عراق اور افغانستان کی صورت حال پر تھیں۔ ان رپورٹوں میں عراق اور افغانستان میں شہریوں کی ہلاکتوں، گو تا نو مو بے کیمپ میں قیدیوں کے حالات اور سفارتی خط و کتابت تھی۔ جو ملٹری دستاویز Chelsea نے لیکس کی تھیں ان میں مختلف ذرائع سے موصول ہونے والی معلومات تھیں۔ جن میں زیادہ تر اموات، تباہی اور انارکی بیان کی گئی تھی۔ Chelsea نے تقریباً  700,000 حکومت کی دستاویز ویکی لیکس کو دی تھیں۔ ان میں وڈیو بھی تھے۔ حکومت کے خفیہ دستاویز لیک کرنے کے الزام میں Chelsea Manning کا کورٹ مارشل ہوا تھا۔ اور اسے 35 سال کی سزا دے کر جیل بھیج دیا تھا۔ فوج میں یہ مرد بھرتی ہوا تھا۔ اور اس کا نام Bradley Manning تھا۔ لیکن جیل میں اس نے اپنی جنس بدلنے کی درخواست کی تھی۔ جس کے بعد یہ Chelsea Manning بن گئی تھی۔ صدر اوبامہ نے اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں Chelsea Manning کو صدارتی معافی دے دی تھی۔ اور اب یہ ایک آزاد شہری ہے۔
   دہشت گردی کے خلاف نائن الیون کے بعد جس جنگ کا آغاز ہوا تھا 16 سال بعد اس جنگ کے نتائج دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ جنگ دنیا بھر میں ایک سال کی عمر کے بچوں سے لے کر 20 اور 30 سال کی عمروں کے نوجوانوں کا مستقبل Bleak کرنے میں ثابت ہوئی ہے۔ اور انہیں اس جنگ نے تباہ کیا ہے۔ 20 سے 30 سال کی عمروں کے امریکی فوجیوں کی ایک بڑی تعداد عراق اور افغانستان میں ماری گئی ہے۔ یا اس جنگ میں وہ عمر بھر کے لئے آپاہج ہو گیے ہیں۔ لیکن یہ جنگ ابھی تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی ہے۔ اس جنگ کے ابتدا میں صدر بش نے کہا تھا “We’re taking the fight to the terrorists abroad, so we don’t have to face them here at home.” George Bush
 یہ جنگ اب گھر میں پہنچ گئی ہے۔ لاس ویگس میں 58 لوگ مارے گیے ہیں۔ اور 522 لوگ زخمی ہوۓ ہیں۔ اس کے علاوہ بھی امریکہ میں دہشت گردی کے کئی واقعات ہو چکے ہیں۔ لوگ اب امریکہ میں انتہا پسند ہوتے جا رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ انہیں حکومت اور دنیا کی قیادت کرنے کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ لیکن صدر بش اور ان کی ٹیم کی دنیا کے بارے میں کوئی معلومات نہیں تھیں۔ ایک گلوبلائز ور لڈ میں جس کی سرحدیں سکیڑتی جا رہی تھیں۔ جس میں رابطوں کے فاصلے ختم ہو رہے تھے۔ اس میں دہشت گردی کی جنگ ان کی سرزمین پر لے جانے کی باتیں انتہائی نا معقول تھیں۔ اور اب 45 ویں پریذیڈنٹ کو یہ جنگ وہاں اور یہاں دونوں جگہ لڑنا پڑ رہی ہے۔ صدر بش اور ان کی وار کابینہ اگر 1944 میں امریکہ میں اقتدار میں ہوتے تو شاید ناز یوں کو کبھی شکست نہیں ہوتی۔