America Has Nationalized The Korean Crisis, Now United Nations Would Have To Play A Role To Denationalize
It
مجیب خان
President Trump with leaders of South Korea and Japan |
United Nations Secretary General Antonio Guterres |
President of North Korea Kim Jong Un |
شمالی
کوریا کو اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی دہشت گرد ملکوں کی فہرست میں دوسری مرتبہ پھر شامل کر
دیا ہے۔ اس فیصلے کا اعلان صدر ٹرمپ نے امریکہ میں نیوز ٹی وی چینلز پر ایک مختصر
خطاب میں کیا ہے۔ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی فہرست میں سوڈان شام اور ایران پہلے سے شامل
ہیں۔ جبکہ عراق اور لیبیا بھی ان ملکوں کی فہرست میں شامل تھے۔ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے
ان ملکوں کی نشاندہی کی ہے جو عالمی دہشت گردی کی معاونت کرتے ہیں۔ صد ام حسین کے
دور میں عراق اور کرنل قدافی کے دور میں لیبا دہشت گرد ملکوں میں شامل تھے۔ اب
عراق میں صد ام حسین ہیں اور نہ ہی لیبیا میں کرنل قدافی ہیں۔ لیکن عراق اور لیبیا
اب خوفناک دہشت گردی میں گھیرے ہوۓ ہیں۔ لیکن امریکہ کو ابھی تک یہ معلوم نہیں ہے
کہ عراق اور لیبیا میں دہشت گردوں کی معاونت کون سے ملک کر رہے ہیں۔ یہ ISIS کس
کی ایجاد ہے؟ کس نے ان کو منظم کیا ہے؟ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی دہشت گرد ملکوں میں
لوگوں اور ملکوں کو بھی شامل کیا جاۓ جو ISIS کی معاونت کر رہے ہیں۔
شمالی کوریا کئی سالوں سے سخت اقتصادی بندشوں کی وجہ سے دنیا کے امور سے بالکل کٹ
گیا ہے۔ شمالی کوریا کے لئے اپنے عوام کو زندہ رکھنا پہلی اہمیت ہے۔ ان حالات میں
شمالی کوریا دہشت گردوں کی کیا معاونت کرے گا۔ شمالی کوریا کو دہشت گرد ملکوں میں
شامل کرنے کی صدر ٹرمپ کی منطق صرف یہ ہے کہ اس طرح ایک rogue قوم
پر ایٹمی ہتھیاروں کو حاصل کرنے سے روکنے کے لئے دباؤ بڑھے گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ
کون سا دباؤ بڑھے گا؟ جبکہ شمالی کوریا پر دنیا کی کوئی ایسی بندش نہیں ہے جو اس
پر نہیں لگی ہے۔
صدر
ٹرمپ شمالی کوریا کے مسئلہ پر جاپان جنوبی کوریا اور چین میں تفصیلی مذاکرات کے
بعد انتہائی کامیاب دورے سے ابھی واپس آۓ تھے۔ اور ان ملکوں نے صدر ٹرمپ سے اس پر
مکمل اتفاق کیا تھا کہ شمالی کوریا کے پاس ایٹمی ہتھیار نہیں ہونا چاہیں۔ چین کی
انتھک کوششوں کے نتیجہ میں شمالی کوریا نے
دو ماہ سے زیادہ ہو گیے ہیں۔ اور ابھی تک ایٹمی میزائل کا کوئی نیا تجربہ نہیں کیا
ہے۔ چین کی اس کامیابی کو دیکھ کر صدر ٹرمپ نے شمالی کوریا کو دہشت گرد ملکوں میں
شامل کر دیا۔ تاکہ صدر Kim
Jong Un مشتعل ہو کر پھر ایٹمی میزائل کا
تجربہ کریں گے۔ اور امریکہ کو شمالی کوریا کے خلاف فوجی کاروائی کرنے کا موقعہ ملے
گا۔ نہ صرف یہ بلکہ صدر ٹرمپ نے چین کی 13 کمپنیوں پر بھی بندشیں لگائی ہیں۔ جن
میں شپنگ اور ٹرانسپورٹیشن کمپنیاں ہیں۔ جو شمالی کوریا کی لاکھوں ڈالر کی تجارت
میں سہولتیں فراہم کر رہی تھیں۔ جبکہ چین کی ایک دوسری کمپنی شمالی کوریا کو ساز و
سامان اور پارٹ فراہم کر رہی تھی جو نیو کلیر بم اور بلاسٹک میزائل سے تعلق رکھتے
تھے۔ صدر ٹرمپ نے چین کے دورے میں صدر شی سے شمالی کوریا کے مسئلہ پر گفتگو کو
انتہائی مفید اور مثبت کہا تھا۔ اور اس تنازعہ کے حل میں صدر شی کی کوششوں کو
سراہا یا تھا۔ لیکن اس دورے سے واپس آنے کے بعد چین کی 13 کمپنیوں پر شمالی کوریا
پر عائد بندشوں کی خلاف ورزی کرنے پر پا پندیاں لگانے کا اعلان کیا تھا۔ یہ امریکہ
کی اپنی بندشیں تھیں۔ جو ایک Sovereign ملک
کی کمپنیوں پر لگائی گئی تھیں۔ چین نے ٹرمپ انتظامیہ کے اس فیصلے پر شدید رد عمل
کا اظہار کیا ہے۔ چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ عالمی بندشوں پر عملدرامد
کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اور یہ بندشیں سرگرمی کے ساتھ نافذ کی جا رہی ہیں۔ امریکہ کے
ساتھ یہ بڑا مسئلہ ہے کہ تنازعہ میں شریک اپنے اتحادیوں سے مشورہ کے بغیر اپنے
یکطرفہ فیصلے ان پر تھوپ دئیے جاتے ہیں۔ اور پھر ان سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ
انہیں حل کریں۔ چین شمالی کوریا کے تنازعہ کے حل میں ایک اہم پارٹی ہے۔ جیسا کہ
امریکہ میں یہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن حقیقت میں اس تنازعہ کو حل کرنے کی چابی امریکہ
کے پاس ہے۔
امریکی انتظامیہ کے اس طرح فیصلے کرنے سے جو ملک اور ادارے تنازعہ کے حل
میں پر امن سفارتی کوششیں کرتے ہیں۔ وہ confuse ہونے لگتے ہیں کہ ان کی کوششوں
میں کیا امریکہ واقعی سنجیدہ ہے یا وہ اپنا وقت برباد کر رہے ہیں۔ اور آخر میں
طاقت کے بھر پور استعمال سے تنازعہ کو حل کرنے میں امریکہ کی دلچسپی ہے۔ کئی عالمی
تنازعوں میں ایسی مثالیں ہیں کہ جب بعض ملکوں کی بھر پور کوششوں کے نتیجہ میں
تنازعہ کا حل یقینی ہوگیا تھا کہ امریکہ نے اسی وقت بھر پور فوجی طاقت استعمال
کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ 2001 میں امریکہ پر دہشت گردوں کے حملہ کا الزام بش
انتظامیہ نے افغانستان میں ا سا مہ بن لادن کو دیا تھا۔ جسے طالبان حکومت نے پناہ
دی تھی۔ بش انتظامیہ نے طالبان حکومت سے بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے کا
مطالبہ کیا تھا۔ اور بن لادن کو امریکہ کے حوالے نہ کرنے کی صورت میں بش انتظامیہ
نے افغانستان پر حملہ کر کے طالبان کی
حکومت کا خاتمہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ پاکستان نے طالبان رہنما ملا عمر کے ساتھ
بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے کے سلسلے میں مذاکرات کیے تھے۔ جبکہ امریکہ کی
افغانستان پر حملہ کی دھمکیوں سلسلہ جاری تھا۔ بلا آخر پاکستان نے ملا عمر کو
آمادہ کر لیا تھا۔ اور ملا عمر ا سا مہ بن لادن کو کسی تیسرے ملک کے حوالے کرنے کے
لئے تیار ہو گیے تھے۔ لیکن صدر بش نے افغانستان میں طالبان کے خلاف فوجی کاروائی
کرنے حکم دے دیا تھا۔
1991
میں کویت پر صد ام حسین کی فوجوں کا قبضہ ختم کرانے میں متعدد ملکوں نے سفارتی
کوششیں کی تھیں۔ سو ویت یونین کے صدر میکائیل
گارباچوف نے اپنے وزیر خارجہ کو
ایک خصوصی پیغام کے ساتھ بغداد بھیجا تھا۔ سو ویت وزیر خارجہ نے بغداد میں صدر صد
ام حسین سے ملاقات میں صدر گار با چو ف کا پیغام انہیں دیا تھا۔ جس کے بعد صدر صد
ام حسین نے کویت سے اپنی فوجوں کے انخلا کا اعلان کیا تھا۔ لیکن بڑے بش نے عراق پر
حملہ کا حکم دے دیا تھا۔ 2003 میں چھوٹے بش نے بھی یہ ہی کیا تھا۔ انٹرنیشنل ایٹامک
انرجی ایجنسی کے ڈائریکٹر Mohmed
El Baradei نے ایجنسی کی 3 ماہ کے intrusive inspections کے
بعد سلامتی کونسل کو یہ رپورٹ دی تھی کہ عراق میں نیوکلیر ہتھیاروں کا کوئی وجود
نہیں تھا۔ 1990 سے عراق نے یورینیم درآمد نہیں کیا تھا۔ اور centrifuge enrichment میں
استعمال کے لئے aluminium
tubes بھی درآمد نہیں کی تھیں۔ اسی اثنا
میں اقوام متحدہ کے Hans Blix کی
رپورٹ بھی آنے والی تھی جو عراق میں مہلک ہتھیاروں کے بارے میں تھی۔ بش انتظامیہ کو اس رپورٹ کی تفصیلات کا علم ہو گیا تھا۔ اور چھوٹے بش نے عراق پر
حملہ کا حکم دے دیا تھا۔ صدر کلنٹن اور وزیر اعظم ٹونی بلیر نے 90 کی دہائی میں
صدر صد ام حسین کے سلامتی کونسل کی قرار دادوں پر عملدرامد نہ کرنے پر عراق پر
بمباری کی تھی۔ لیکن صدر بش نے بھی سلامتی کونسل کی قرارداد کی خلاف ورزی کی تھی۔
کیونکہ قرارداد میں صد ام حسین کو اقتدار سے ہٹانے کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ اور عراق
پر امریکہ کا حملہ بھی غیر قانونی تھا۔ جیسا کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹیری جنرل کوفی
عنان نے کہا تھا۔
تنازعوں کے پرامن حل کی کوششوں کے یہ تلخ تجربے دیکھنے کے بعد شمالی کوریا
کے تنازعہ کا پرامن حل ایک سوال ہے۔ یہ بھی ایک عجیب بات ہے کہ کوریا کو دو حصوں
میں امریکہ نے تقسیم کیا ہے۔ 50 کی دہائی میں امریکہ نے کوریا پر حملہ کیا تھا۔
ایک ملین سے زیادہ لوگ اس جنگ میں مارے گیے تھے۔ کوریا کی جنگ امریکہ کی سلامتی
میں لڑی گئی تھی۔ کوریا کو امریکہ کی سلامتی کے مفاد میں تقسیم کیا گیا تھا۔ کوریا
کے ایک حصہ میں امریکہ کی سلامتی کا مفاد ہے۔ جبکہ کوریا کا دوسرا حصہ امریکہ کی
سلامتی کے لئے ایک بڑا خطرہ قرار دیا گیا ہے۔ 60 سال سے امریکہ نے آدھے کوریا کو
اپنا دشمن بنا کر رکھا ہے اور آدھے کوریا کو اپنا دوست اور اتحادی بنایا ہے۔ اور
اس طرح ایک ختم ہونے والی جنگ کو نہ ختم ہونی والی جنگ بنا دیا ہے۔
کوریا
کا تنازعہ صرف کوریا کی حکومتیں اور عوام حل کر سکتے ہیں۔ ایک خاندان جو حصوں میں
تقسیم ہو گیا۔ یہ اس خاندان کے درمیان ایک تنازعہ ہے۔ جس کو بیرونی طاقتیں اپنے
مفاد میں استحصال کر رہی ہیں۔ اور اس کے حل میں رکاوٹیں بنی ہوئی ہیں۔ جنوبی اور
شمالی کوریا کے عوام تعلقات بحال کرنا چاہتے ہیں۔ تقسیم خاندان دوبارہ ایک خاندان
بننا چاہتے ہیں۔ کوریا کے تنازع کا بہترین حل Peoples to Peoples
تعلقات میں ہے۔ دونوں طرف لوگوں کو سفر کی سہولتیں دی جائیں۔ لوگوں کو تجارت کے
موقع دئیے جائیں۔ دونوں حصوں کے لوگ جب مل کر بھٹیں گے ایک دوسرے کو سنیں گے تو
پھر حکومتوں میں کشیدگی پگلے گی۔ جنوبی اور شمالی کوریا کے لوگوں کو ایک دوسرے کے
قریب لانے میں اقوام متحدہ ایک اہم اور مثبت رول ادا کر سکتا ہے۔ عالمی امن، قوموں
کی سلامتی اور تنازعوں کا پر امن حل اقوام متحدہ کے قیام کا اہم سبب تھا۔ اور
اقوام متحدہ کو اپنی یہ ذمہ داریاں پوری
کرنے کے لئے سرگرم ہونے کی ضرورت ہے۔ کوریا کے تنازعہ کو حل کرنے کے لئے اقوام
متحدہ ایک خصوصی سفیر نامزد کرے۔ جنوبی اور شمالی کوریا کے عوام اور حکومتوں کو
ایک دوسرے کے قریب لانے میں Facilitate
کرے۔