First Year Of Trump’s
Presidency
Donald Trump Entered In Washington As A Non-Politician Emigrant, Both Parties Have Built A Wall Of Investigation Around The Trump Presidency
President Trump’s
De-Obamanization Is Also Obama’s Legacy
مجیب خان
بڑے
عرصہ بعد 2017 پہلا سال ہے جس میں امریکہ کی سیاست پر صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی داخلی
سیاست چھائی ہوئی تھی۔ گزشتہ دو سابق انتظامیہ میں 2001 سے 2016 تک صرف نائن الیون
کی سیاست چھائی ہوئی تھی۔ جس میں پہلے طالبان اور ا سا مہ بن لادن، پھر القا عدہ اور
صد ام حسین، پھر عراق میں مہلک ہتھیار اور عراق جنگ، پھر اسلامی انتہا پسندی کا چرچہ
اور ISIS کا
پراپگنڈہ، پھر شام میں انسانی تباہی اور عرب دنیا میں روس کی آمد امریکہ کی داخلی سیاست
پر چھاۓ ہوۓ تھے۔ لیکن ڈونالڈ ٹرمپ کی 2016 کے صدارتی انتخاب میں بھاری اکثریت سے
کامیابی کے بعد امریکی عوام کو نائن االیون کی اس سیاست سے بھی نجات ملی ہے۔ تاہم
صدر ٹرمپ کے لئے صدارت کا پہلا سال بہت مشکل رہا ہے۔ صدارتی انتخاب کے نتائج سب نے
قبول کر لئے تھے۔ لیکن صدارتی انتخاب میں روس کی مداخلت کے انکشاف سے ایسا تاثر
پیدا کیا جا رہا تھا کہ ڈونالڈ ٹرمپ روس کی مداخلت کے نتیجہ میں کامیاب ہوۓ تھے۔
اور اس میں میڈیا کے انکشاف کا ایک بڑا رول تھا۔ تاہم اب تک کی تحقیقات میں روس کی
مداخلت کے واضح ثبوت نہیں ملے ہیں۔ کانگرس اور سینٹ میں دونوں پارٹیوں کے اراکین
پر مشتمل کمیٹیاں اس کی تحقیقات کر رہی ہیں۔ جسٹس ڈیپارٹمنٹ کا ایک خصوصی کمیشن
بھی اس کی تحقیقات کر رہا ہے۔ صدر ٹرمپ کا اصرار ہے کہ یہ تحقیقات اب جلد ختم ہونا
چاہیے۔
ری
پبلیکن اور ڈیموکریٹ دونوں پارٹیوں کے لئے واشنگٹن میں ان کی سیاسی دنیا میں
ڈونالڈ ٹرمپ ایک غیر سیاسی شخصیت تھے۔ اور صدر ٹرمپ جو باتیں کر رہے تھے وہ ان کے
سروں سے گزر جاتی تھیں۔ واشنگٹن کے سیاسی ماحول میں صدر ٹرمپ جیسے ایک غیر سیاسی
امیگرینٹ تھے۔ اور سیاست کرنے کے لئے دونوں پارٹیوں سے ویزا مانگ رہے تھے۔ اور
دونوں پارٹیاں ڈونالڈ ٹرمپ کو پہلے واشنگٹن کی سیاست سیکھانا چاہتی تھیں۔ صدر ٹرمپ
دن میں کئی مرتبہ Tweet
کرتے تھے۔ واشنگٹن میں سیاست کرنے والوں کو یہ پسند نہیں تھا۔ اس پر خاصا اعتراض
ہو رہا تھا کہ صدر ٹرمپ کے Tweet
کرنے کی عادت ایک مسئلہ بن گیا تھا۔ حالانکہ Tweet عوام کو رابطہ
میں رکھنے کا ایک نیا میڈیا تھا۔ اور عوام بھی اہم ایشو ز پر اپنے لیڈر کے خیالات
سے آگاہ رہتے تھے۔ لیکن واشنگٹن میں Transparent سیاست کی روایت نہیں ہے۔ یہاں اہم
ایشو ز پر بند کمروں میں تبادلہ خیال کیا جاتا ہے۔ اور ضرورت کے مطابق عوام کو اس
سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ صدر ٹرمپ نے Tweet کرنے کی اپنی عادت ترک نہیں کی
تھی۔ اور اب سینیٹر اور کانگرس مین بھی Tweet کرنے لگے ہیں۔
اس سال
20 جنوری کو صدارتی حلف کی تقریب کے بعد صدر ٹرمپ جب وائٹ ہاؤس میں آۓ تھے تو سب
سے پہلے سابق صدر بارک اوبامہ کے کئی ایگزیکٹو آرڈر کو صدر ٹرمپ نے اپنے ایگزیکٹو
آرڈر سے ختم کر دیا تھا۔ امریکہ کے شاید کسی صدر نے وائٹ ہاؤس میں داخل ہونے کے
بعد پہلے ہی دن چند گھنٹوں قبل سابق ہونے والے صدر کے ایگزیکٹو آرڈر کبھی اس طرح
ختم نہیں کیے تھے۔ لیکن صدر ٹرمپ نے سابق اوبامہ انتظامیہ کے فیصلوں اور پالیسیوں
کو سب سے پہلے -Obamanization De کرنے سے اپنی انتظامیہ کے فیصلوں
کی ابتدا کی تھی۔ اور چھ ماہ میں صدر ٹرمپ نے تقریباً صدر اوبامہ کے پیشتر فیصلوں اور پالیسیوں کو بدل
دیا تھا۔ صدر اوبامہ نے کیوبا کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کیے تھے۔ اور کیوبا پر
سے اقتصادی بندشیں ختم کر دی تھیں۔ صدر ٹرمپ نے اپنے ایگزیکٹو آرڈر سے کیوبا پر
دوبارہ اقتصادی بندشیں لگا دیں۔ اور کیوبا کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی ختم کر دئیے۔
اس کی وجہ یہ بتائی تھی کہ کیوبا ایک کمیونسٹ ملک تھا۔ اور کیوبا میں لوگوں کو سیاسی
آزادی نہیں تھی۔ جبکہ ایسٹ ایشیا میں ویت نام، کمبوڈیا اور لاؤس کے ساتھ امریکہ کے
سفارتی اور تجارتی تعلقات ہیں۔ اور یہ کمیونسٹ ملک ہیں۔ ان ملکوں میں سیاسی
آزادیوں کی صورت حال کیوبا سے مختلف نہیں ہے۔ ہر امریکی انتظامیہ اپنی سیاست میں
امریکہ کے مفادات کو دیکھتی ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنے پہلے کمیونسٹ ویت نام کے دورے
میں ویت نام کی شاندار اقتصادی ترقی کو زبردست سراہا یا تھا۔ ویت نام کے ساتھ
امریکہ کے preferential تجارتی تعلقات کے بارے میں صدر ٹرمپ نے کچھ نہیں کہا تھا۔ ویت نام میں سیاسی
آزادیوں کی کوئی بات نہیں کی تھی۔
جنوبی
کوریا کے ساتھ امریکہ کا فری ٹریڈ معاہدہ صدر ٹرمپ نے برقرار رکھا تھا ۔ تاہم اس معاہدہ
سے جنوبی کوریا کو شمالی کوریا کے مسئلہ پر امریکہ کی پالیسی کے ساتھ رہنے پر
مجبور کیا جا رہا ہے۔ جنوبی کوریا کی نئی لبرل حکومت کے صدر Moon Jae-in نے اپنی انتخابی مہم میں شمالی کوریا کے ساتھ براہ راست مذاکرات کرنے اور
اس کے ساتھ پرامن تعلقات کو فروغ دینے کا اعلان کیا تھا۔ برسراقتدار آنے کے بعد
صدر مون نے شمالی کوریا کا دورہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن شمالی کوریا کی حکومت
کے میزائلوں کے تجربے کرنے کی وجہ سے امریکہ اور شمالی کوریا میں کشیدگی بہت بڑھ
گئی تھی۔ صدر ٹرمپ نے جنوبی کوریا کے صدر مون کے شمالی کوریا جانے پر کہا کہ "امریکہ جنوبی
کوریا کے ساتھ فری ٹریڈ معاہدے کا جائزہ لے گا" یہ سن کر صدر Moon Jae-in نے
شمالی کوریا جانے کا ارادہ ملتوی کر دیا اور صدر ٹرمپ کے ساتھ کھڑے ہو گیے تھے۔
اور اب اس خبر پر کہ چین شمالی کوری کو تیل فراہم کر رہا ہے۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ
وہ چین کے ساتھ ٹریڈ ایشو ز پر بہت نرم تھے۔ اور وہ اس سے خوش نہیں ہیں کہ چین
شمالی کوریا کو تیل فراہم کر رہا ہے۔ شمالی
کوریا کے مسئلہ پر صدر ٹرمپ کی پالیسی ابھی واضح نہیں ہے کہ ان کے پاس اس کا کیا
حل ہے۔ آیا وہ اس مسئلہ کا پرامن حل چاہتے ہیں یا اس مسئلہ کا حل بھی جنگ ہو گا؟
صدر
ٹرمپHawkish Businessman ہیں لیکن Belligerent Politician
نہیں ہیں۔ اس لئے تمام تر زور جنگوں کی آگ بجھانے پر ہے۔ جبکہ بالخصوص عرب اسلامی
ملکوں اور بالعموم افریقہ اور لاطین امریکہ کے ملکوں میں امریکہ کی غیر ضروری
مداخلت میں کمی آئی ہے۔ گزشتہ سالوں کے مقابلے میں اس سال دہشت گردی کے واقعات کم
ہوۓ ہیں۔ افغانستان مں اس سال صرف 17 امریکی فوجی مارے گیے ہیں۔ جو گزشتہ 16 سالوں
میں بہت کم تعداد ہے۔ افغانستان کے حالات اتنے تسلی بخش نہیں ہیں۔ لیکن گزشتہ
سالوں کے مقابلے میں قدرے بہتر ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ بش انتظامیہ افغانستان میں
منشیات کی پیداوار کو اگر resurge
ہونے کے موقعہ فراہم نہیں کرتی اور اوبامہ انتظامیہ صرف پاکستان سے do more
کرنے کے بجاۓ اپنے فوجی کمانڈروں سے افغان وار لارڈ اور طالبان کی منشیات کی معیشت
کو تباہ کرنے کے لئے do more
کرتی تو ٹرمپ انتظامیہ کو آج پاکستان کو دھمکیاں دینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اور
افغان مسئلہ کا حل بھی آسان ہو جاتا۔ ٹرمپ انتظامیہ نے اب طالبان، ISIS ،
اور دوسرے دہشت گروپوں کے معاشی وسائل پر چھری رکھی ہے۔ دہشت گردی دم توڑتی نظر آ
رہی ہے۔ تاہم ISIS کے
بارے میں ٹرمپ انتظامیہ بھی transparent نہیں ہے۔ اس نے ابھی تک یہ نہیں بتایا ہے کہ ISIS کو کس ملک کی
سرزمین پر کس نے منظم کیا تھا؟ اور اس کو فنڈ ز کون فراہم کر رہا تھا؟ ISIS کا
آئین کس نے لکھا تھا؟ اور اسے دنیا بھر میں کن ملکوں کی خارجہ پالیسی کے عزائم میں
پھیلایا جا رہا ہے؟
صدر ٹرمپ نے اپنے پہلے سال میں 70 فیصد وقت
امریکہ کے اندرونی امور کو سدھارنے پر دیا ہے۔ اور صرف 30 فیصد وقت خارجہ امور پر
نظر رکھنے کے لئے مخصوص کیا ہے۔ جبکہ سابقہ انتظامیہ میں بیرونی دنیا کو سیدھے
راستہ پر رکھنے اور انہیں جمہوریت اور قانون کی حکمرانی پر لیکچر دینے پر 70 فیصد
وقت دیا جاتا تھا۔ اور صرف 30 فیصد وقت امریکہ کے اندرونی امور پر دیا جاتا تھا۔
اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب دنیا کا infrastructure اور امریکہ میں
infrastructure ہر
طرف تباہ حال ہے۔ شاید یہ دیکھ کر صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکہ اب Sovereign
ملکوں کے امور میں مداخلت نہیں کرے گا۔ اس لئے 70 فیصد وقت کی جو بچت ہوئی ہے اسے
صدر ٹرمپ امریکہ کے اندرونی امور میں دے رہے ہیں۔ امریکی عوام بھی اس تبدیلی سے
خوش ہیں۔ لوگوں کی قوت خرید میں اعتماد آیا ہے۔ اسٹاک مارکیٹ اس سال ریکارڈ بریک رہا
ہے۔ بیروزگاری میں کمی ہوئی ہے۔ بعض اشیا کی قیمتوں میں کمی آ رہی ہے۔ صدر ٹرمپ کے
ٹیکس ریفارم سے امریکی عوام کو با ظاہر ٹیکس میں چھوٹ ملی ہے۔ کمپنیوں اور کارپوریشن
کے ٹیکسوں میں کمی کر کے 21 فیصد کر دیا ہے۔ تاکہ کمپنیاں اور کارپوریشن اپنا
سرمایہ واپس امریکہ میں لائیں۔ اور امریکہ میں انویسٹ کریں۔ لوگوں کو بہتر اجرتیں
دیں۔ امریکہ کو دنیا کی اول درجہ کی معاشی طاقت بنایا جاۓ۔ لیکن اہم سوال جس کا
صدر ٹرمپ کے ٹیکس ریفارم میں کوئی ذکر نہیں ہے کہ امریکہ پر 22 ٹیریلین ڈالر کا جو
قرضہ ہے اسے کیسے ادا کیا جاۓ گا؟ اور اس میں جو مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اسے
کیسے روکا جاۓ گا۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق صدر ٹرمپ کے ٹیکس ریفارم سے آنے والے
سالوں میں قرضہ میں 1.5 ٹیریلین ڈالر کا اضافہ ہو گا۔
2018
صدر ٹرمپ کے لئے کتنا آسان اور کتنا مشکل ہو گا؟ یہ آئندہ چند ماہ میں واضح ہو گا۔
2018 کانگرس اور سینٹ کے مڈ ٹرم انتخاب کا سال ہے۔ ڈیموکریٹ اور ری پبلیکن دونوں
کی کانگرس اور سینٹ کو کنٹرول کرنے کی کوشش ہو گی۔ 2016 کے صدارتی انتخاب میں روس
کی مداخلت اور ٹرمپ انتخابی ٹیم کے ساتھ روس کے Collusion کی
تحقیقات کی رپورٹ بھی آئی گی۔ یہ رپورٹ صدر ٹرمپ کے لئے سو نامی ہو گی۔ یا وہ اس بحران
سے نکل جائیں گے۔ جبکہ شمالی کوریا اور مڈل ایسٹ بڑے مسئلہ رہیں گے۔ صدر ٹرمپ کو
ان challenges کا
سامنا رہے گا۔