Friday, December 28, 2018

America, Allies, Alliance, And Coalition

America, Allies, Alliance, And Coalition 

?Who Has Bullied Who

مجیب خان
President Bush Hosts Presidents of Pakistan and Afghanistan at the White House

President Obama, with Saudi Arabia's King Salman, last days of his Presidency, "regional allies to take more responsibility for their own security 

U.S Army in Saudi Arabia heads toward the Kuwait border in 1991, to drive the Iraqi military out of Kuwait. Since then The U.S military has been involved in Iraq for more than two decades 

Islamic State militants convoy in Tel Abyad, Northeast Syria 

 
  امریکہ اب Alliance سے دور ہو رہا ہے۔ Allies امریکہ سے فاصلے رکھ رہے ہیں۔ اور Coalition ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ 70 سال امریکہ نے Alliance, Allies, Coalition کو اپنی خارجہ پالیسی کا کار نر اسٹون  بنایا تھا۔ اور ان کے ذریعے اپنی خارجہ پالیسی کے مقاصد فروغ دئیے تھے۔ مغربی یورپ کے ساتھ امریکہ کا ہمیشہ ایک مضبوط  Alliance تھا۔ ایشیا، افریقہ اور لا طین امریکہ میں امریکہ کے Allies تھے۔ جبکہ عرب اسلامی دنیا میں امریکہ کا ایک Coalition تھا۔ امریکہ کے یہ مضبوط Alliance, Allies, Coalition تھے جنہوں نے سرد جنگ جیت کر چاندی کی طشتری میں امریکہ کو دی تھی۔ امریکہ نے سرد جنگ میں ایک گولی بھی نہیں چلائی تھی۔ اور امریکہ سرد جنگ جیت گیا تھا۔ پھر 90s میں امریکہ نے Coalition کی قیادت کی تھی۔ جس نے صد ام حسین کی فوجوں سے کویت آزاد کرایا تھا۔ یہ اتنی بڑی کامیابی تھی کہ Coalition نے امریکہ کو دنیا کی واحد طاقت تسلیم کیا تھا۔ پھر 9/11 کے بعد Alliance, Allies, Coalition سب ایک ہو گیے تھے اور امریکہ سے یکجہتی میں اس کی قیادت کے پیچھے کھڑے ہو گیے تھے۔ اور یہ قیادت جارج ڈبیلو بش تھے۔ 9/11 سے امریکہ کو ایک نئی طاقت ملی تھی۔ اور اس طاقت نے امریکہ کے لئے دنیا بھر میں فوجی مہم جوئیوں کے گیٹ کھول دئیے تھے۔ امریکہ کی قیادت میں طاقت کا گھمنڈ آ گیا تھا۔ عالمی قانون امریکہ کی طاقت کے ماتحت آ گیا تھا۔ قانون جب طاقت کے ماتحت آ جاتا ہے۔ تو پھر Abuse اور Bully بنانے کی سیاست ہونے لگتی ہے۔
  افغانستان دنیا میں امریکہ کی ایک واحد سپر پاور ہونے کے لئے ایک پہلا بڑا امتحان تھا۔ 9/11 کا امریکہ پر حملہ افغانستان سے نہیں ہوا تھا۔ افغانستان سے غیر ملکی جہادیوں کو نکالنے کے دوسرے طریقے بھی ہو سکتے تھے۔ ایک تباہ حال ملک میں جانا Suicidal ثابت ہوا ہے۔ ملا عمر بن لادن کو جب کسی تیسرے ملک کے حوالے کرنے کے لئے تیار ہو گیا تھا۔ صدر بش  ملا عمر کی اس پیشکش کو قبول کر لیتے۔ اور اس کے بعد پھر طالبان حکومت کی مذہبی جنو نیت کا سوال کرتے۔ افغانستان سے تمام غیر ملکی جہادیوں کی صفائی کرنے کا کام بھی طالبان سے لیا جا سکتا تھا۔ طالبان سے افغان معاشرے کو متحد کرنے اور Reconciliation کا کام بھی لیا جا سکتا تھا۔ پاکستان سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے طالبان حکومت کو تسلیم کیا تھا اور یہ ملک طالبان کو تا جک  ازبک اور ہزا رہ اقلیتوں کے ساتھ مفاہمت کرانے میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کر سکتے تھے۔ طالبان سوویت یونین کے خلاف جنگ میں امریکہ کے Allies تھے۔ CIA سے انہوں نے جہاد کی تربیت لی تھی۔ صدر ریگن اور نائب صدر جارج ایچ بش نے انہیں یہ کہہ کر جہاد کے لئے بیدار کیا تھا کہ 'کمیونسٹ فوجیں ان کا مذہب تباہ کر رہی تھیں۔ ان کی مسجدیں تباہ کی جا رہی تھیں۔ افغانستان کو کمیونسٹ ملک بنایا جا رہا تھا۔ افغان جہاد حق پر تھا۔ اور خدا تمہارے ساتھ تھا ۔' اور یہ ان کے جہاد کا بنیادی کا ز تھا۔ جبکہ امریکہ کا اصل کا ز افغانستان کو سوویت یونین کا ویت نام بنانا تھا۔ اور کمیونسٹ فوجوں کو افغانوں سے شکست دلانا تھا۔ امریکہ اپنے اس مشن میں کامیاب ہوا تھا۔ افغانوں نے اپنا مذہب بچانے کے لئے اپنا خون دیا تھا۔
  طالبان کی حکومت نے دو بڑے اور اچھے کام یہ کیے تھے کہ افغانستان سے وار لارڈ ز کا نظام ختم کر دیا تھا۔ اور افیون کی پیداوار جڑ سے اکھاڑ دی تھی۔ اقوام متحدہ نے بھی اس کا اعتراف کیا تھا۔ اس مسئلہ پر طالبان صدر بش اور ان کی قومی سلامتی کے ماہرین سے زیادہ عقلمند تھے۔ طالبان نے یہ دیکھا تھا کہ اگر وار لارڈ ز مضبوط ہو گیے تو وہ افغانستان میں ایک بڑا مسئلہ بن جائیں گے۔ اور افیون کی پیداوار بھی اسی لئے ختم کی تھی کہ وار لارڈ ز کی زیر زمین معیشت بن جاتی اور پھر اپنی اس معیشت سے وہ ان کی حکومت کو عدم استحکام کرنے لگتے۔ لیکن صدر بش اور ان کی ٹیم امریکہ کی یہ Typical   سوچ رکھتی  تھی کہ صرف Iron fist hands طالبان کا خاتمہ کر سکتے تھے۔ اس سوچ سے بش انتظامیہ نے طالبان کا اقتدار ختم کر کے وار لارڈ ز کو بحال کر دیا تھا۔ اور ان سے طالبان کا مکمل خاتمہ کرنے کا کام لیا تھا۔ اور اس کے ساتھ افیون کی پیداوار بھی شروع ہو گئی تھی۔ اور یہ وار لارڈ ز کی زیر زمین معیشت بن گئی تھی۔ جو کابل حکومت کی معیشت سے زیادہ بڑی معیشت تھی۔ بش انتظامیہ میں کسی نے اس پر غور تک نہیں کیا تھا کہ بہرحال وار لارڈ ز، طالبان اور افیون کی کاشت افغانستان میں رہیں گے۔
  پاکستان نے طالبان حکومت کے خلاف 180 ڈگری سے یو ٹرن لیا تھا۔ صدر بش نے پاکستان کو Non-NATO Ally کا درجہ دیا تھا۔ اور افغان جنگ میں پاکستان کو امریکہ کا ایک اہم Ally بتایا تھا۔ لیکن افغانستان میں ایک سیاسی حل کے لئے طالبان سے ڈائیلاگ کی پاکستان کی تجویز کو بش انتظامیہ ویٹو کر دیتی تھی۔ اور پاکستان کو صرف یہ پیغام دیا جاتا تھا کہ طالبان سے کوئی بات نہیں ہو گی۔ طالبان کا مکمل خاتمہ کیا جاۓ گا۔ حالانکہ طالبان اس وقت بہت کمزور تھے۔ ان کی طاقت کا شیرازہ بکھر چکا تھا۔ اور ان سے مذاکرات میں اپنے مقاصد  تسلیم کرواۓ جا سکتے تھے۔ وہ ایک سنہری موقعہ تھا۔ جسے صدر بش نے کھو دیا تھا۔ امریکہ کے فوجی آپریشن سے طالبان  زیادہ  مضبوط ہو گیے تھے۔ اوبامہ انتظامیہ نے بھی طالبان سے مذاکرات کی ہر کوشش کو سبوتاژ کیا تھا۔ اور پاکستان سے طالبان کے خلاف صرف Do More کی پالیسی پر عمل کرنے کا کہا جاتا تھا۔ امریکہ کی دو انتظامیہ نے افغانستان کے ایک فوجی حل میں 16 سال گزار دئیے تھے۔  لیکن اس میں امریکہ کو ایک انچ بھی کامیابی نہیں ہوئی تھی۔ پاکستان جو امریکہ کا Ally تھا۔ امریکہ کی جنگوں میں پاکستان کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑی تھی۔ پاکستان میں 50ہزار لوگ دہشت گردی کی جنگ میں مارے گیے تھے۔ اور پاکستان کا 100بلین ڈالر کا اقتصادی نقصان ہوا تھا۔ 17سال سے پاکستان امریکہ سے طالبان کے ساتھ سنجیدہ سیاسی ڈائیلاگ کرنے پر زور دیتا رہا ہے۔ لیکن 17سال بعد امریکہ کی تیسری انتظامیہ یہ اعتراف کر رہی ہے کہ افغانستان کے مسئلہ کا فوجی حل نہیں ہے۔ اور پاکستان سے طالبان کے ساتھ امریکہ کے مذاکرات کرانے پر زور دیا جا رہا ہے۔
  بش انتظامیہ اور اوبامہ انتظامیہ کا افغان جنگ سے جنوبی اور وسط ایشیا کو عدم استحکام کرنا مقصد تھا۔ جس طرح عراق جنگ سے  مڈل ایسٹ کو عدم استحکام کیا گیا ہے۔ امریکہ کے ایشیائی، افریقی، لا طین امریکہ اور بعض یورپی Allies نے بش انتظامیہ کو عراق پر Preemptive حملے کے خوفناک نتائج سے آ گاہ کیا تھا۔ لیکن صدر بش نے عراق پر حملے کی Coalition کو Allies کی مخالفت پر ترجیح دی تھی۔ عراق میں جب تک ایک مضبوط حکومت تھی۔ اس خطہ میں استحکام تھا۔ اور دہشت گرد بھی ادھر کا رخ نہیں کرتے تھے۔ لیکن صدر بش کی قیادت میں Coalition کے عراق پر حملہ سے دہشت گردوں کو آزادی مل گئی تھی۔ اس خطہ میں ایسی خوفناک دہشت گردی کبھی نہیں دیکھی گئی تھی۔ جو امریکہ کی فوجی موجودگی میں دہشت گردی دیکھی گئی تھی۔ 2008 کے صدارتی انتخابات میں امریکی عوام نے با ر اک او بامہ کو اتنی ہی بھاری اکثریت سے ووٹ دئیے تھے۔ جیسے 2016 کے صدارتی انتخابات میں عوام نے ڈونالڈ ٹرمپ کو ووٹ دئیے تھے۔ لیکن با ر اک اوبامہ نے صدر بننے کے بعد عوام سے جنگیں ختم کرنے کے اپنے وعدہ کی سنگین خلاف ورزی کی تھی۔ افغانستان اور عراق میں سیاسی استحکام کے لئے کوششوں پر توجہ دینے کے بجاۓ صدر اوبامہ نے لیبیا میں غیر قانونی مداخلت Regime change کرنے کے لئے کی تھی اور اس ملک پر حملہ کیا تھا۔ صدر اوبامہ نے لیبیا پر حملہ کو Justified کرنے کے لئے Alliance کو استعمال کیا تھا۔ صدر بش کے بعد اوبامہ انتظامیہ بھی مڈل ایسٹ کو عدم استحکام کرنے کے مشن پر تھی۔ حالانکہ صدر معمر قد ا فی ان کے وزرا، لیبیا کی انٹیلی جینس کے اعلی حکام صدر اوبامہ اور Alliance میں شامل ملکوں کو یہ بتا رہے تھے کہ اسلامی انتہا پسند ان کی حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں اور یہ  لیبیا میں اپنی اسلامی ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں۔ قد ا فی حکومت کے حکام نے یہ ایک مرتبہ نہیں کہا تھا بلکہ یہ اپیلیں خطہ کو اس خطرے سے بچانے کے لئے کر رہے تھے۔ لیکن امریکہ کی قیادت  طاقت  اور Regime change میں Intoxicated تھی۔ اوبامہ انتظامیہ نے لیبیا کو Destabilize کیا اور پھر Allies سے کہا کہ اب وہ لیبیا میں ISIS سے لڑیں۔ پھر شام کو Destabilize کیا اور Allies سے کہا کہ امریکی فوج کے ساتھ وہ ISIS سے لڑتے رہیں۔
  بش انتظامیہ اور پھر اوبامہ انتظامیہ نے افغانستان، عراق، لیبیا، شام میں Regime change کرنے کے بعد کی صورت حال پر دنیا کو جو بتایا تھا وہ سب غلط ثابت ہوا تھا۔ حالات زیادہ خطرناک ہو گیے تھے۔ دہشت گردی اور بڑھ گئی تھی۔ القا عدہ سے زیادہ خوفناک دہشت گرد گروپ وجود میں آ گیے تھے۔ جن میں ISIS سر فہرست تھا۔ امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ سے دہشت گردی ختم ہونے کے بجاۓ فروغ کر رہی تھی۔ اور ISIS اس کا ثبوت ہے۔ صد ام حسین اور کرنل معمر قد ا فی نے ان کی حکومتیں ختم ہونے کے بعد مڈل ایسٹ کے سیاسی حالات کا جو نقشہ بیان کیا تھا وہ لفظ بہ لفظ درست ثابت ہوا ہے۔ امریکہ کی مڈل ایسٹ کو Destabilize کرنے کی پالیسیوں کا اسلامی انتہا پسندوں اور اسرائیل کو فائدہ ہوا تھا۔ اسرائیل کو فلسطینی کے علاقوں میں پھیلنے کا موقعہ ملا تھا۔ جبکہ ISIS کو عراق اور شام میں پھیلنے کا موقعہ ملا تھا۔ ا                                                                                                                                       

Monday, December 24, 2018

"From Assad "Has To Go", To Assad "Has To Stay


"From Assad "Has To Go", To Assad "Has To Stay

This Is A Great Victory For The Syrian Military To Protect The Motherland From Domestic And Foreign Enemies. The Best Army In The Arab World

مجیب خان
President Assad visits Syrian army in E. Ghouta

Syrian President Bashar al-Assad in an iftar dinner with troops in the Eastern Ghout of Damascus, on Feb26, 2016

President Assad meets with former hostages released in a prisoner exchange with rebels, Damascus on February 9th, 2017  


  ابھی تک دنیا کو یہ بتایا جا رہا تھا کہ ایران مڈل ایسٹ کو عدم استحکام کر رہا ہے۔ یمن اور شام میں ایران کی مداخلت ہو رہی ہے۔ عراق، شام، یمن ایران کے حلقہ اثر میں آ گیے ہیں۔ ایران کے صدر حسن روحانی کا حالیہ دورہ ترکی  بہت کامیاب تھا۔ ترکی کے صدر طیب ارد و گان نے ایران کے ساتھ قریبی تعلقات کی اہمیت کا اعتراف کیا ہے۔ اور ایران کے ساتھ تجارت کو 30بلین ڈالر  پر لے جانے کا کہا ہے۔ عراق میں امریکی تجربہ کے خوفناک نتائج دیکھنے کے بعد ایران کی شام میں بر وقت مداخلت سے د مشق حکومت اور ریاست گرنے سے بچ گئی ہے۔ ورنہ اس خطہ کے حالات ایٹم بم کے استعمال سے کم بدتر نہیں ہوتے۔ یہ علاقائی سیاست میں ایران کی کامیابیوں کے ثبوت ہیں۔ امریکہ کی قیادت میں نام نہاد الائنس  افغانستان میں بری طرح ناکام ہوا ہے۔ یہ عراق میں ناکام ہوا۔ اسے یمن میں ناکامی ہو رہی ہے۔ لیبیا  کو صرف انتشار دینے میں کامیابی ہوئی ہے۔ الائنس کے پاس امریکہ جیسی طاقت کی قیادت میں ان مسلسل ناکامیوں پر کچھ کہنے کے لئے نہیں ہے تو انہوں نے ایران پر الزامات کی بھر مار کر دی ہے کہ یہ ایران ہے جو مڈل ایسٹ کو عدم استحکام کر رہا ہے۔ یہ ایران کی مداخلت ہے جو یمن میں جنگ کو طول دے رہی ہے۔ یہ ایران کی مداخلت ہے جس کی وجہ سے عراق میں امن نہیں ہے۔ اور یہ ایران کی مداخلت ہے جو شام میں انسانی تباہی کا سبب بننی ہے۔ اسرائیل اور سعودی عرب نے بھی ایران کے خلاف اسی پراپگنڈہ لائن کو اختیار کیا ہے۔ القا عدہ امریکہ کے ریڈار سے بالکل غائب ہے۔ کیونکہ القا عدہ  یمن میں ہو تیوں کے خلاف جنگ میں سعودی عرب کے ساتھ لڑ رہا ہے۔ ISIS کو Low profile  میں رکھا تھا۔ اور صرف ایران کو ٹارگٹ کیا جا رہا تھا۔ لیکن پھر 20 دسمبر 2018 کو جب یہ بریکنگ نیوز آئی تھی کہ صدر ٹرمپ نے شام سے تمام امریکی فوجوں کا فوری طور پر انخلا کا حکم دیا ہے۔ اور افغانستان سے بھی 7ہزار فوجیں واپس بلانے کا کہا ہے۔ میڈیا میں اس خبر کو اس طرح لیا گیا تھا کہ جیسے شمالی کوریا نے ایٹم بم گرا دیا تھا۔
   میڈیا میں پنڈت مڈل ایسٹ میں ایران کے رول کو بھول گیے تھے۔ ISIS ان کی گفتگو کا موضع بن گیا تھا کہ شام سے امریکی فوجی انخلا کے نتیجہ میں ISIS کو عراق اور شام میں ابھرنے کا موقع ملے گا۔ ISIS کا ابھی مکمل خاتمہ نہیں ہوا ہے۔ افغانستان سے 7ہزار فوجیں واپس بلانے پر یہ کہا جا رہا ہے کہ دنیا بھر سے جہادی پھر افغانستان پہنچ جائیں گے۔ اور پھر ایک نیا 9/11 ہو گا۔ لوگوں کو خوفزدہ کیا جا رہا ہے۔ حقائق کو Distort کر کے پیش کیا جا رہا ہے۔ قابل ذکر بات یہ تھی کہ جس وقت صدر ٹرمپ نے شام سے امریکی فوجوں کے انخلا کا اعلان کیا تھا۔ ایران کے صدر حسن روحانی اس وقت انقرہ کا دورہ کر رہے تھے۔ اور انقرہ میں دونوں ملکوں کے رہنماؤں کے درمیان ملاقات میں شام کی صورت حال پر بھی بات ہوئی تھی۔ دونوں ملکوں نے شام کے استحکام اور اس کی تعمیر نو میں مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ دہشت گردی کے خلاف مہم میں تعاون کرنے کا اعادہ کیا تھا۔ یمن کی جنگ بندی کے لئے اقوام متحدہ کی کوششوں کی حمایت کی تھی۔ اس کے علاوہ خطہ کی صورت حال پر بھی دونوں ملکوں کے رہنماؤں میں بات ہوئی تھی۔ اور خطہ میں انسانی ترقی کے لئے امن اور استحکام ضروری قرار دیا تھا۔ اور اس کے لئے مل کر کام کرنے کا کہا تھا۔ صدر حسن روحانی کے دورہ انقرہ کے دوران صدر ارد و گان، ان کی کابینہ کے وزیروں اور تر کش میڈیا کو ایسے شواہد نظر نہیں آۓ تھے کہ جس سے ایران کا مڈل ایسٹ کو عدم استحکام کرنے، یمن شام اور عراق کو انتشار کے حالات میں رکھنے کا مقصد تھا۔ دنیا میں شاید احمق ہوں گے جو اپنے اطراف ہمسایہ میں انتشار اور عدم استحکام میں اپنے ملک کا مفاد دیکھتے ہوں گے۔ شام میں امریکہ اور اس کے عرب اتحادیوں کی مداخلت کا کوئی قانونی جواز نہیں تھا۔ شام میں خانہ جنگی میں ہزاروں غیر ملکی جہادی حصہ لے رہے تھے۔ سی آئی اے انہیں ایسے تربیت اور ہتھیار دے رہی تھی جیسے یہ افغانستان میں کمیونسٹ فوجوں کے خلاف دنیا بھر سے آنے والوں جہادیوں کو منظم کرتی تھی۔ شام ایک Sovereign ملک ہے۔ لیکن اس ملک کے اندر حکومت کے نام نہاد باغیوں کی Syrian Democratic Force بنائی تھی۔ اور اس کو فوجی تربیت دی جا رہی تھی۔ کیا امریکہ کو یہ قبول ہو گا اگر روس KKK کے انارکسٹ کی فوج بنا دے اور انہیں پھر فوجی تربیت دینے لگے؟ Kurds جو شام کے شہری تھے اور یا ترکی کے شہری تھے۔ انہیں بھی امریکہ نے فوجی تربیت دینا شروع کر دی تھی۔  شام کے Kurdish گروپ کو ترکی  کرد ستان ور کر ز پارٹی (PKK) کی طرح سمجھتا تھا۔ جو دہشت گرد تھے۔ اور امریکہ انہیں بھی فوجی تربیت دے رہا تھا۔ ترکی کے شدید اعتراض پر امریکہ نے کہا کہ شام کے Kurdish گروپ سے تعلقات عارضی اور ISIS سے لڑائی کی حکمت عملی میں ہیں۔ PKK کے کرد دہشت گردوں نے استنبول میں بموں کے کئی دھماکے کیے تھے۔ جس میں 100 سے زیادہ لوگ مارے گیے تھے۔ جس پر صدر ارد و گان نے کہا کہ امریکہ نے ہماری پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے۔ اور کرد دہشت گردوں کو ہمارے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ اوبامہ انتظامیہ نے شام کی خانہ جنگی کو اس طرح ار گنائز کیا تھا کہ کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کون کس سے لڑ رہا تھا۔ القا عدہ بھی یہاں تھی جس سے  ISIS سے لڑنے کا کہا جا رہا تھا۔ کرد و ں کو ISIS سے لڑنے کی تربیت دی جا رہی تھی۔ لیکن وہ اس لڑائی میں اپنی ایک آزاد ریاست دیکھ رہے تھے۔ اور ترکی کرد و ں پر حملے کر رہا تھا۔
  لیکن امریکہ کی انٹیلی جینس نے ابھی تک دینا کو یہ بتایا ہے کہ کس ملک کی سر زمین پر ISIS وجود میں آئی تھی؟ کس نے 30ہزار کے اس لشکر کو منظم کیا تھا؟ کس نے انہیں فنڈ ز فراہم کیے تھے؟ فوجی ٹرک اور اسلحہ کس نے دیا تھا؟ نہ صرف یہ بلکہ امریکہ کی فوجی اور انٹیلی جینس کی موجودگی میں ISIS نے عراق اور شام کے بڑے علاقہ پر قبضہ کر لیا تھا۔ اور وہاں اپنی ایک اسلامی ریاست بھی بنا لی تھی۔ پھر ISIS نے اپنی ریاست کے اخراجات  پورے کرنے کے لئے شام کا تیل چوری کر کے اسے فروخت کرنا شروع کر دیا تھا۔ ISIS کے ٹرک شام سے تیل لے ترکی کے راستہ جاتے تھے۔ امریکی فوجی ISIS سے لڑ رہے تھے۔ لیکن حیرت کی بات تھی امریکی انٹیلی جینس کو ISIS کے تیل کے کاروبار کا علم نہیں تھا۔ شام میں روسی فوجوں نے ISIS کے تیل کے کاروبار کا انکشاف کیا تھا۔ اور ترکی کی حکومت سے اسے فوری طور پر روکنے کا کہا تھا۔ شام اور عراق سے ISIS کا خاتمہ کرنے میں ایران اور روس کا ایک بڑا رول ہے۔ روس اور ایران کو شام میں آنے کی ضرورت نہیں تھی۔ شام میں ان کے بڑی تعداد میں لوگ بھی مارے گیے تھے۔ پھر ان کے خزانے پر بھی شام میں فوجی آپریشن کے اخراجات کا بوجھ پڑا ہے۔ اس صورت حال میں ایران کو شام مداخلت کرنے یا مڈل ایسٹ کو عدم استحکام کرنے کا الزام انتہائی نا معقول ہے۔
  صدر ٹرمپ نے شام سے امریکی فوجیں بلانے کا فیصلہ بہت درست کیا ہے۔ اور افغانستان میں بھی فوجوں میں کمی کرنے کا کہا ہے۔ طالبان بھی افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کا انخلا چاہتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے اعلان کر کے انہیں یہ عندیہ دے دیا ہے۔ امید ہے طالبان کے ساتھ امریکہ کے مذاکرات میں ضرور پیش رفت ہو گی۔ شام کی فوج نے بڑی بہادری سے انتہائی مشکل حالات میں اپنی Mother land کا دفاع کیا ہے۔ اپنے ملک کی سلامتی بقا اور اقتدار اعلی کا تحفظ کیا ہے۔ شام کی فوج نے امریکہ کی سرپرستی میں 68 ملکوں کا مقابلہ کیا ہے۔ القا عدہ کو شکست دی ہے۔ ISIS کو شکست دی ہے۔ و ہا بیوں اور سلافسٹ کو شکست دی ہے۔ اپنی سرحدوں سے اسلامی انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کو نکالا ہے۔ صدر ٹرمپ کے شام سے امریکی فوجیں واپس بلانے کے فیصلہ کا موا ز ا نہ صدر اوبامہ کے عراق سے امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال سے کر ر ہے ہیں کہ اس خلا کو پھر ISIS نے پر، کیا تھا۔ ان کا یہ موا زا نہ بالکل غلط ہے۔ شام میں ایک مضبوط حکومت ہے۔ تمام وزارتیں کام کر رہی ہیں۔ فوج ہے اور بہترین انٹیلی جینس ہے۔ صدر بش نے عراق میں صد ام  حکومت ختم کرنے کے بعد یہ ایک انتہائی Ignorant فیصلہ کیا تھا کہ عراقی حکومت کے تمام محکمے اور وزارتیں ختم کر دئیے تھے۔ عراقیوں کو بیروزگار کر دیا تھا۔ اور بغداد میں امریکیوں کی حکومت بنا دی تھی۔ عراقیوں کی زندگیوں میں بش انتظامیہ کے اس فیصلے نے خلا پیدا کر دیا تھا۔ جس سے فائدہ اٹھانے بہت سے انتہا پسند گروپ اپنے ایجنڈا کے ساتھ عراق میں آ گیے تھے۔ اور انہوں نے بش انتظامیہ کو خاصا مصروف رکھا تھا۔ اور اس کے بعد اوبامہ انتظامیہ کو بھی مصروف رکھا تھا۔ انتظامیہ اتنی Naive تھی کہ اس نے شام میں ان گروپوں کے لئے نئے مواقع فراہم کیے تھے۔ اور امریکہ کو بھی مصروف رکھا تھا۔ اس Alliance میں جو شامل تھے۔ وہ نہ تو قانون کی حکمرانی جانتے تھے۔ اور نہ ہی انسانیت کے خلاف کرائم کو کرائم سمجھتے تھے۔ اوبامہ انتظامیہ میں صدر بشار السدد کو Butcher کہا جا رہا تھا۔ جبکہ بش انتظامیہ میں 9/11 کے بعد اسلامی دہشت گردوں کو اسد حکومت سے تحقیقات کرنے اور انہیں اذیتیں دینے کے لئے شام کے حوالے کیا جاتا تھا۔ امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دو انتظامیہ کے درمیان یہ بہت بڑا خلا تھا؟
  اس لئے امریکی میڈیا میں یہ سوال نہیں کیے جا رہے ہیں کہ سابقہ انتظامیہ میں کیا غلطیاں کی گئی تھیں کہ افغان جنگ کو 17 سال ہو گیے ہیں، عراق جنگ کو 15 سال ہو گیے ہیں، دہشت گردی کے خلاف جنگ کو 18 سال ہو گیے ہیں، شام کے خلاف جنگ کو 7 سال ہو گیے ہیں، لیبیا میں حکومت کا تختہ الٹنے کی جنگ کو 7 سال ہو گیے ہیں، یمن جنگ کو 5سال ہو گیے ہیں۔ اور اگر اس میں اسرائیل کی فلسطینیوں کے خلاف جنگ کو بھی شامل کر لیا جاۓ جو 70 سال سے جاری ہے۔ ان جنگوں میں امریکہ کی قیادت میں نام نہاد الائنس کیوں ناکام ہے؟                                                                                                                                                              

Thursday, December 20, 2018

“Saudi Arabia’s Counterterrorism Cooperation And Its Stand With The U.S. In Confronting Iran” Is This America And Israel’s Plan To Keep Middle East In A Permanent Chaos, Turmoil And Wars?


 “Saudi Arabia’s Counterterrorism Cooperation And Its Stand With The U.S. In Confronting Iran” Is This America And Israel’s Plan To Keep Middle East In A Permanent Chaos, Turmoil And Wars?  

مجیب خان
American military power and the Middle East in turmoil

Destruction of a country, Syria

This is worst then 9/11

Armed Syrian rebels completing their training in Daraa
war in Yemen


Saudi Crown Prince Mohammed bin Salman


   بلا آخر امریکی سینٹ نے سعودی عرب کے بارے میں دو قرار دادیں منظور کی ہیں۔ پہلی قرارداد میں امریکہ سے سعودی عرب کی سربراہی میں یمن جنگ کی حمایت سے دستبردار ہونے اور سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فراہمی بند کرنے کا کہا گیا ہے۔ جبکہ جمال کشوگی کے بہیمانہ قتل پر قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اس میں ملوث ہیں۔ سینٹ میں یہ قراردادیں دونوں پارٹیوں نے متفقہ طور پر منظور کی ہیں۔ اور اب آئندہ سال جنوری میں اس قرارداد کو دوبارہ سینٹ میں ایک وسیع بل کی صورت میں پیش کیا جاۓ گا۔ آئندہ سال ایوان نمائندگان میں ڈیمو کریٹس کی اکثریت ہو گی۔ اور Nancy Pelosi اسپیکر ہوں گی۔ انہوں نے کہا ہے کہ ایوان نمائندگان میں بھی سینٹ کی طرح ایک ایسی ہی قرارداد پیش کی جاۓ گی۔ جس میں سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فروخت بند کرنے کا کہا جاۓ گا۔ اور امریکہ سے سعودی عرب کی قیادت میں یمن جنگ کی حمایت سے فوری طور پر دستبردار ہونے کا کہا جاۓ گا۔ ایوان نمائندگان میں یہ قرارداد منظور ہونے کے بعد سینٹ ایک مرتبہ پھر اپنی قرارداد منظور کرے گی۔ اب صدر ٹرمپ کانگریس کی قرارداد پر دستخط کرتے ہیں یا اسے ویٹو کریں گے۔ فی الحال یہ ایک سوال ہے۔ تاہم کانگریس صدر ٹرمپ کے ویٹو کو Over turn بھی کر سکتی ہے۔
  اس میں کوئی شبہ نہیں تھا کہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو ان کے خلاف جمال کشوگی کی تنقید اور مخالفت برداشت نہیں تھی۔ اور وہ کشوگی کو راستہ سے ہٹانے کی سازش سے پوری طرح باخبر تھے۔ جیسا کہ سینٹ کی فارن ریلیشنز کمیٹی کے چیرمین سینیٹر Bob Corker  نے کشو گی کے بہیمانہ قتل پر سی آئی اے کی ڈائریکٹر کی بریفنگ کے بعد کہا ہے کہ 'اگر یہ شواہد جیوری کے سامنے ر کھے جائیں تو جیوری 30منٹ میں ولی عہد کو مجرم قرار دے دے گی۔' جن اعلی سعودی حکام نے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے حکم پر سینیئر سعودی شہزادوں کو نظر بند کیا تھا۔ اور پھر ان پر کرپشن کے الزامات میں جرمانے کی صورت میں ان سے کھربوں ڈالر وصول کیے تھے۔ پھر لبنان کے وزیر اعظم Saad Hariri کو بھی ان ہی حکام نے ولی عہد کے حکم پر نظر بند کیا تھا۔ جب یہ تمام احکامات ولی عہد محمد بن سلمان دے رہے تھے۔ اور ان کے معاونین اس پر عملدرامد کر رہے تھے۔ تو پھر یہ یقین کیوں نہ کیا جاۓ کہ 17 سعودی  خصوصی طور پر شاہی خاندان میں کسی کے حکم پر تمام اوز ا رو ں کے ساتھ استنبول آۓ تھے۔ اور ائرپورٹ سے سیدھے استنبول میں سعودی کونسلیٹ گیے تھے۔ جمال کشو گی کو زندہ سعودی عرب لے جانے میں ناکام ہونے کے بعد اسے مر دہ اپنے ساتھ لے جانے میں کامیاب ہو گیے تھے۔ کشو گی کے قتل کو اب 71 روز ہو گیے ہیں۔ لیکن سعودی حکومت کی تحقیقات میں ابھی تک کوئی نمایاں پیش رفت نظر نہیں آ رہی ہے۔ حالانکہ سعودی عرب میں 75 روز میں قتل کے مجرم کو سزا دے دی جاتی ہے۔ لیکن کشو گی کے قتل میں 75 روز میں 17 افراد کو حکومت میں صرف ان کے عہدوں سے ہٹایا گیا ہے۔ اور چند ولی عہد کے قریبی سیکورٹی افراد حراست میں لیے گیے ہیں۔ لیکن ابھی تک کسی پر فرد جرم عائد نہیں کیا گیا ہے۔ سعودی حکومت ابھی تک کشو گی کے بہیمانہ قتل کی تحقیقات کر رہی ہے۔ اور شاید یہ 2019 میں بھی جاری رہے گی؟ لیکن عالمی جیوری کا فیصلہ سینیٹر Bob Corker نے جو کہا کہ جیوری 30منٹ میں ولی عہد کو مجرم قرار دے دے گی۔
  
Russia If You Listening, Find The Peace In The Middle East
  
   سعودی عرب نے امریکی سینٹ کی قرارداد جو دونوں پارٹیوں نے متفقہ طور پر منظور کی ہے اور جس میں جمال کشو گی کے قتل کی سازش میں ولی عہد کو الزام دیا ہے، سخت لفظوں میں مستر د کیا ہے۔ اور اسے سعودی عربیہ کے داخلی معاملات میں مداخلت کہا ہے۔ سعودی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری ہونے والے ایک طویل بیان میں کہا گیا ہے کہ" سینٹ کی قرارداد کسی وجہ کے بغیر Kingdom کے داخلی معاملات میں مداخلتوں پر مشتمل ہے۔ جو اس کے علاقائی اور عالمی کردار کو کمزور کرتی ہے۔ قرارداد غیر مصدقہ دعووں اور الزامات پر مبنی ہے۔" بیان میں کہا ہے کہ " Kingdom اس کے اندرونی معاملات میں کسی بھی مداخلت کو قطعی طور پر مستر د کرتی ہے۔ تمام الزامات کسی بھی طرح جو اس کی قیادت کو رسوا کرتے ہیں۔ اور اس کے اقتدار اعلی کو کمزور کرنے یا اس کی برتری کو گرانے کی ہر کوشش کو Kingdom مستر د کرتی ہے۔ تاہم سعودی حکومت کی تحقیقات اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے معاونین نے کشو گی کو با زور طاقت سعودی عرب لانے کا منصوبہ بنایا تھا۔ لیکن جاۓ موقعہ پر موجود ایجنٹوں نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا تھا۔ اور اسے مار دیا تھا۔" سعودی بیان میں کہا گیا ہے کہ " سینٹ کی پوزیشن خطہ میں Kingdom کے نمایاں کردار پر اثر انداز نہیں ہو گی۔" ولی عہد کے معاونین نے بھر پور طاقت استعمال کی تھی۔ لیکن سعودی حکومت کشو گی کے قتل پر ہر مرتبہ دنیا کو ایک نئی کہانی  سناتی تھی۔ ان بدلتی کہانیوں کو سن کر صدر ٹرمپ کو یہ کہنا پڑا تھا کہ "سعودی Cover up کی دنیا کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی ہے۔ ادھر صدر ٹرمپ بھی کشو گی کے قتل میں ولی عہد شہزادہ MBS کے ملوث ہونے پر اپنے بیانات تبدیل کرتے رہیں ہیں۔ ولی عہد نے ذاتی طور پر صدر ٹرمپ کو فون بھی کیے تھے۔ پھر صدر ٹرمپ کے داماد Jared Kushner کے بھی ولی عہد سے رابطہ تھے۔ اور اسرائیل کے Jared Kushner سے قریبی رابطہ تھے۔ لہذا آخر میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ “May be he did it or he didn’t” لیکن سعودی عرب کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بہت اہم ہیں۔ اور امریکہ یہ تعلقات خراب کرنا نہیں چاہتا ہے۔ سعودی عرب ایران کے خلاف ہمارے ساتھ کھڑا ہے۔' اور یہ امریکہ کی اعلی قدروں کا Criteria ہے۔ کیونکہ سعودی عرب ایران کے خلاف امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔ ا سا مہ بن لادن بھی بہت اچھا تھا جب وہ روسی کمیونسٹوں کے خلاف امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ کھڑا تھا۔ طالبان بھی بہت اچھے تھے وائٹ ہاؤس کے دروازے ان کے لئے کھلے ہوتے تھے۔ جب وہ روسی کمیونسٹوں کے خلاف امریکہ کے ساتھ کھڑے تھے۔ صد ا م حسین کے لئے بھی یہ کہا جا سکتا تھا کہ “May be he did it or didn’t Saudi Regime کیا Saddam Regime سے مختلف ہے؟ عرب دنیا میں ہر طرف کیا جیلیں سیاسی قیدیوں سے نہیں بھری ہوئی ہیں؟ امریکہ کا Middle East کے حالات پر کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ لیکن اسرائیل کا امریکہ پر کنٹرول ہے۔ اسرائیل فلسطینیوں کو امن دے یا ان کے خلاف جنگ جاری ر کھے۔ لیکن ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں۔ سعودی عرب امریکہ میں 400بلین ڈالر انویسٹ کر رہا ہے لیکن مرحوم شاہ عبدالہ نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لئے عرب لیگ کے اجلاس میں جو منصوبہ دیا تھا۔ سعودی عرب اس پر امریکہ سے عملدرامد نہیں کرا سکتا ہے۔ لیکن سعودی عرب امریکہ اور اسرائیل کے لئے ایران کے خلاف فرنٹ لائن پر کھڑا ہو گیا ہے۔ سعودی عرب نے ایران کے خلاف کشیدگی پیدا کرنے کا رول قبول کر لیا ہے۔ مڈل ایسٹ بلکہ اسلامک ورلڈ  سنی شیعہ کی فرقہ پرستی میں تقسیم کر دی ہے۔ ایران اور سعودی عرب دو مذہبی بلاک بن گیے ہیں۔ جو سنی ملک ایران کی حمایت کریں گے اس کے ساتھ کاروبار کریں گے امریکہ ان کے خلاف اپنی بندشوں کا ہتھیار استعمال کرے گا۔ ان پر ڈالر کو استعمال کرنے کی پابندی ہو گی۔ یہ اسرائیل کا امریکہ کے ساتھ مڈل ایسٹ کو آئندہ 40 اور 50سال تک Permanent Choas, turmoil or Wars میں رکھنے کا منصوبہ ہے۔ 70 سال میں مڈل ایسٹ کے امن میں اسرائیل کا کیا  Contribution ہے؟ امن اسرائیل نے صرف اپنی سرحدوں کے اندر رکھا ہے۔ اور اپنے اطراف اونچی دیواریں کھڑی کر دی ہیں۔ تاکہ امن سے محروم ان کے شہریوں کا امن تباہ نہیں کریں۔ Likud Party جو اسرائیل میں 12سال سے اقتدار میں ہے۔ اس نے لیبر پارٹی کے وزیر اعظم Yitzhak Rabon کو فلسطینیوں کے ساتھ امن سمجھوتہ کرنے پر قتل کرایا تھا۔ وزیر اعظم Rabin نے فلسطینیوں کی آزاد ریاست اور ان کے حقوق تسلیم کیے تھے۔ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے جمال کشو گی کو صرف اس لئے قتل کرایا ہے۔ کیونکہ جمال کشو گی ولی عہد کی  سیاسی مخالفین کے ساتھ جبر و تشدد کی پالیسی کے خلاف تھے۔ اور پریس کی آزادی  اور سیاسی حقوق کی حمایت کرتے تھے۔ سعودی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرتے تھے۔ اب جو وزیر اعظم Rabin اور جمال کشو گی کے قتل کے ذمہ دار ہیں ان کے ساتھ امریکہ کے بہت اہم تعلقات ہیں۔