Wednesday, January 31, 2018

Afghanistan: War In A Landlocked Country

Afghanistan: War In A Landlocked Country

“We are still in a stalemate,” said Gen. John Nicholson, Top U.S. Military Commander in Afghanistan

مجیب خان
Intercontinental Hotel in Kabul, 15-hour standoff with security forces. 22 people were killed

Bombing in Kabul
    کابل میں صرف چند روز کے وقفہ سے بموں کے دو خوفناک دھماکوں کے بعد سیکورٹی پھر Square One مسئلہ بن گیا ہے۔ 17 سال میں کھربوں ڈالر افغانستان میں سیکورٹی کو بہتر بنانے پر خرچ کیے گیے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود سیکورٹی کا مسئلہ تشویشناک ہے۔ گزشتہ ہفتہ کابل میں ا نٹر کانٹینینٹل ہوٹل کا تخریب کاروں نے 15 گھنٹہ گھراؤ کیا تھا۔ جس میں 22 بے گناہ لوگ مارے گیے تھے۔ جن میں 14 غیرملکی شہری تھے۔ ان میں 4 ونیزویلا کے اور 6 یوکرین کے شہری تھے۔ 4 امریکی شہری تھے۔ ونیزویلا اور یوکرین کے یہ شہری ایک افغان نجی ایرلائن Kam Air کا فلائٹ Crew تھے۔ Kam Air کی داخلی پروازیں تھیں۔ دکھ اور تکلیف کی بات یہ تھی کہ ونيزویلا اور یوکرین کے یہ شہری افغانستان میں ائر لائن میں ملازمت کرنے آۓ تھے۔ ان کے اپنے ملکوں میں سیاسی اور اقتصادی حالات بھی خراب تھے۔ بیروزگاری بہت زیادہ تھی۔ افغان نجی ائرلائن میں انہیں ملازمت کی پیشکش ہوئی تھی۔ اور یہ ہزاروں میل سے ایک ایسے ملک آۓ تھے جس کے حالات ان کے ملک کے حالات سے زیادہ بدتر تھے۔ طیاروں سے یہ افغانوں کو ایک صوبے سے دوسرے صوبہ اور ایک شہر سے دوسرے شہر لاتے اور لے جاتے تھے۔ افغانستان میں سیکورٹی کے حالات کی وجہ سے بسوں اور کاروں سے سفر کرنا محفوظ نہیں تھا۔ لہذا افغان نجی ائرلائن سے سفر کرنے لگے تھے۔ ا نٹر کانٹینینٹل ہوٹل پر حملہ کے بعد غیر ملکی افغانستان سے بھاگ رہے ہیں۔ افغانوں کے لئے اپنی جانیں دینے کے لئے اب کوئی تیار نہیں ہے۔
   انٹر کانٹینینٹل ہوٹل میں انسانی خون ابھی خشک نہیں ہوا تھا کہ کابل کے ایک مصروف ترین علاقہ میں طالبان نے بارود سے بھری ایمبولینس کو زور دار دھماکہ سے اڑا دیا تھا۔ جس میں تقریباً 105 لوگ ہلاک ہو گیے تھے۔ اور 2سو لوگ زخمی ہوۓ تھے۔ زخمیوں سے ہسپتال بھر گیا تھا۔ اور لوگ مردہ خانوں میں مرنے والوں کی شناخت کر رہے تھے۔ افغانستان میں سیکورٹی کے صورت حال میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں آئی ہے۔ امریکہ نے افغانستان میں فوجوں میں اضافہ کیا پھر کمی کی اور پھر اضافہ کیا لیکن حالات میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے اپنی نئی افغان حکمت عملی گزشتہ سال واضح کی ہے۔ اور اس حکمت عملی کے تحت سات ہزار مزید فوجیں افغانستان بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ صدر ٹرمپ کی افغان حکمت عملی بھی سابقہ دو انتظامیہ کی حکمت عملی سے مختلف نہیں ہے۔ اور یہ بھی Doom to Fail ہو گی۔ افغانستان کو دوبارہ ایک ملک بنانے میں بہت سے ملکوں اور حکومتوں نے کوششیں کی ہیں۔ افغانستان کے ہمسایہ ملکوں کی بھی یہ حسرت ہے کہ افغانستان ایک پر امن ملک کب ہو گا؟ لیکن یہ ایک ایسا خواب ہے کہ جس کی کوئی تعبیر نہیں ہے۔ امریکہ نے افغانستان میں بڑی Blunders کی ہیں۔ اور بے شمار ملک اس کے نتائج بھگت رہے ہیں۔ افغانستان میں Rural insurgency ہے جو Urban insurgency سے بہت مختلف اور زیادہ خطرناک ہے ۔ 80 کے عشرہ میں سوویت یونین کے خلاف امریکہ نے Rural insurgency کو ابھارا تھا۔ سی آئی اے نے انہیں تربیت دی تھی۔ اور یہ lethal insurgents ثابت ہوۓ تھے۔ بش انتظامیہ نے ان Lethal insurgents کو امریکہ کا Certified Enemy قرار دیا تھا۔ حالانکہ صدر بش نے افغانستان میں غیرملکیوں کے خلاف فوجی کاروائی کرنے کا کہا تھا۔ جنہوں نے صدر بش کے مطابق ستمبر 11 کو امریکہ پر حملہ کیا تھا۔ تاہم طالبان حکومت میں ظلم اور بربریت کے نتیجہ میں ان کی حکومت ختم کی گئی تھی۔ لیکن بش انتظامیہ کا طالبان کا مکمل خاتمہ کرنے تک جنگ جاری رکھنے کا فیصلہ غلط تھا۔
   افغانستان کے حالات اب ایک ایسے مقام پر آ گیے ہیں کہ جس کا ‏علاج نہیں ہے۔ طالبان کی نشاندہی کرنا بھی اب مشکل ہو گیا ہے کہ طالبان کون ہیں؟ طالبان کا خوف ہر طرف پھیلا ہوا ہے۔ طالبان خود طالبان سے خوفزدہ ہیں۔ جو طالبان سیاسی حل چاہتے تھے امریکہ کے ڈر ون نے انہیں ٹارگٹ کیا تھا۔ اور ان طالبان کو مضبوط کیا تھا جو بموں کے دھماکوں سے افغانستان کا مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں۔ کئی ملکوں نے طالبان سے ایک سیاسی حل کے لئے مذاکرات کیے ہیں۔ چین اور روس نے بھی افغانستان میں امن کے لئے کوششیں کی ہیں۔ طالبان سے رابطہ کیے ہیں۔ ترکی نے بھی طالبان سے مذاکرات کیے ہیں۔ پاکستان نے متعدد بار طالبان سے افغانستان کے مسئلہ کا سیاسی حل کی کوششیں کی ہیں۔ لیکن کبھی امریکہ نے پاکستان کی کوششوں کو ویٹو کر دیا تھا۔ اور کبھی امریکہ کے ڈر ون حملوں نے ان طالبان رہنماؤں کو ہلاک کر دیا تھا۔ جو ایک سیاسی حل کی طرف آ رہے تھے۔ پاکستان نے ایک مرتبہ پھر اس ماہ یہ کوشش کی تھی۔ اور طالبان رہنماؤں سے اسلام آباد میں افغانستان میں امن کے لئے مذاکرات کیے تھے۔ چین کے مندوب بھی اس موقع پر موجود تھے۔ طالبان نے پاکستان کے نقطہ نظر کو سنا تھا۔ اور یہ کہہ کر  گیے تھے کہ وہ ان مذاکرات کی رپورٹ اپنے رہنماؤں کو پیش کریں گے۔
   یہ مذاکرات ابھی کسی نتیجہ پر نہیں پہنچے تھے کہ کابل میں طالبان نے دو بڑے دھماکہ کر دئیے جن میں 128 لوگ مارے گیے تھے۔ اور دوسو سے زیادہ لوگ زخمی ہو گیے تھے۔ اس جنگ کو جتنا زیادہ طول دیا گیا ہے۔ اتنی ہی زیادہ اس میں پیچیدگیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ اب ایک طالبان وہ ہیں جو مذاکرات کے ذریعہ سیاسی حل چاہتے ہیں۔ اور ایک طالبان وہ ہیں جو بموں کے دھماکہ کر کے سیاسی حل کی کوششوں کو سبوتاژ کر تے ہیں۔ اور ایک طالبان وہ ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ افغانستان کے 59 فیصد  حصہ پر ان کا کنٹرول ہے۔ لیکن 59 فیصد افغانستان کے جس حصہ پر طالبان کا کنٹرول ہے۔ وہاں امن کی صورت حال افغانستان کے 41 فیصد حصہ سے مختلف نہیں ہے۔ افغانستان کے جو علاقہ  طالبان کے کنٹرول میں ہیں سیکورٹی ان کا مسئلہ بھی ہے اور جو علاقہ کابل حکومت کے کنٹرول میں ہیں۔ وہاں بھی سیکورٹی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ امریکہ نے تقریباً  4 لاکھ افغان سیکورٹی فورس کو تربیت دی ہے۔ لیکن ان کی سرگرمیاں طالبان کا خاتمہ کرنے کے مشن تک محدود ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2017 میں 10 ہزار افغان سیکورٹی فورس کے لوگ مارے گیے تھے۔ جبکہ 15 ہزار سے زیادہ زخمی ہوۓ تھے۔ رپورٹ کے مطابق اتنی ہی تعداد میں طالبان ہلاک اور زخمی ہوۓ تھے۔ دونوں طرف ہلاکتوں اور زخمیوں کے اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ افغانستان میں مقابلہ انتہائی سخت ہے۔ حکومت کی سیکورٹی فورس طالبان کو زیر نہیں کر پا رہی ہے۔ اور طالبان حکومت پر قبضہ نہیں کر سکتے ہیں۔ افغان جنگ اب 18ویں سال میں داخل ہو رہی ہے۔ صدر ٹرمپ کی نئی افغان حکمت عملی کی کامیابی کے امکان بھی بہت مدھم ہیں۔
   امریکہ اور نیٹو افغانستان میں ایک ایسے mind set دشمن سے جنگ لڑ رہے ہیں۔ جو یہ سمجھتے ہیں کہ خدا نے افغانستان کو جنگیں لڑنے کے لئے ایک بہترین ملک بنایا ہے۔ اور افغان مرنے کے لئے پیدا ہوۓ ہیں۔ امریکہ اور نیٹو کی اعلی تربیت یافتہ فوجیں یہ سوچ رکھنے والے افغانوں سے جنگ لڑ رہی ہیں۔ اور انہیں شکست دینے کی ہر مرتبہ نئی حکمت عملی بنائی جاتی ہے۔ جو فیل ہو جاتی ہے۔ 17 سال قبل بش انتظامیہ کو افغانستان میں جنگ جیتنے کا ایک سنہری موقعہ ملا تھا۔ جسے بش انتظامیہ نے Blunders   کر کے کھو دیا تھا۔ بش کے بعد اوبامہ انتظامیہ نے بھی ان Blunders کو نظر انداز کر دیا تھا۔ اس پر کبھی غور نہیں کیا تھا کہ طالبان امریکہ کی سی آئی اے کے تربیت یافتہ مجاہدین تھے۔ جنہیں سو ویت یونین کو افغانستان میں شکست دینے کے لئے سی آئی اے نے تربیت دی تھی۔ اور امریکہ اب اپنے ہی تربیت یافتہ تخریب کاروں سے لڑ رہا تھا۔ امریکہ کے لئے انہیں شکست دینا مشکل ہو گیا ہے۔ لیکن سی آئی اے کے تربیت یافتہ افغان طالبان کے لئے امریکہ اور نیٹو کو ناکام بنانا اتنا مشکل نہیں ہے۔ طالبان سے مسلسل محاذ آ رائی کے بجاۓ امریکہ کو مصالحت کا راستہ اختیار کرنا چاہیے تھا۔ سی آئی اے کے پاس افغانستان میں اپنے تربیت یافتہ تخریب کاروں کے Ware about  کا علم تھا۔ ان میں سر کردہ جلال الد ین حقانی کا نیٹ ورک بھی شامل تھا۔ جلال الد ین حقانی وائٹ ہاؤس میں صدر ریگن سے ملے تھے۔ اور سو ویت یونین کے خلاف جنگ میں امریکہ کے قریبی اتحادی تھے۔ 2015 میں جلال الد ین حقانی کا انتقال ہو گیا تھا۔ اور ان کے صاحبزادے سراج الد ین حقانی اب حقانی نیٹ ورک کے بانی ہیں۔
    حزب اسلامی کے حکمت یار گلبدین بھی سی آئی اے کے انتہائی قریبی حلقہ میں تھے۔ 80 کے عشرہ میں سو ویت یونین کے خلاف جنگ میں امریکہ کے اتحادی تھے۔ لیکن حقانی نیٹ ورک کی طرح گلبدین بھی امریکہ کے خلاف ہو گیے تھے۔ گلبدین کا نام اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی دہشت گردوں کی فہرست میں تھا۔ اور اقوام متحدہ نے بھی گلبدین کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا تھا۔ حکمت یار گلبدین کا کابل حکومت سے سمجھوتہ ہو گیا ہے۔ گلبدین نے ہتھیار ڈال دئیے ہیں۔ گلبدین کی حزب اسلامی کا افغانستان کی سیاست میں مقام بحال ہو گیا ہے۔ اقوام متحدہ اور امریکہ نے دہشت گردوں کی فہرست سے گلبدین کا نام نکال دیا ہے۔ اسی طرح حقانیوں کو بھی افغانستان کے سیاسی عمل میں لایا جا سکتا تھا۔ حقانی امریکہ کے پرانے اتحادی تھے۔ ان کے ساتھ سیاسی ڈائیلاگ ہو سکتے تھے۔ ان کے ساتھ اختلافات کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی۔ اور ان کا ازالہ کیا جاتا۔ امریکہ نے 17 سال میں ایک مرتبہ بھی افغان مسئلہ کے سیاسی حل کی کوشش نہیں کی تھی۔ جنگ میں ایک یقینی شکست سے بچنے کا راستہ سیاسی ڈائیلاگ سے جنگ جیتنا ہوتا ہے۔ صدر ٹرمپ ایک کامیاب  Deal maker  اور بزنس مین ہیں۔ افغانستان صدر ٹرمپ کی کاروباری صلاحیتوں کے لئے ایک چیلنج اور آزمائش ہے۔                

Friday, January 26, 2018

Mr. President, Respect Your Predecessor’s Iran Nuclear Deal

Mr. President, Respect Your Predecessor’s Iran Nuclear Deal

This Is Not “Obama Care” “Repeal” and “Replace”. The Iran Nuclear Deal Is An International Agreement, Two-Hundred American Nuclear Experts Have Supported The Iran Nuclear Deal. IAEA Has Certified That Iran Is Complying With Nuclear Accord. Then What Is the Problem?

مجیب خان
Iran Nuclear deal between Iran, and six World powers- the US, UK, Russia, France, China, and Germany 

US, Israel Secret deal to derail Iran Nuclear deal

    صدر ٹرمپ نے ایران نیو کلیر سمجھوتہ کی 120 دن کے لئے توثیق کر دی ہے۔ اور اس سمجھوتہ کے تحت ایران پر سے اقتصادی بندشیں بھی ہٹا لی ہیں۔ تاہم صدر ٹرمپ نے بڑے دو ٹوک لفظوں میں یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ اس سمجھوتہ کی آئندہ توثیق نہیں کریں گے۔ کانگرس اور اتحادیوں کو ایران نیو کلیر سمجھوتہ میں زیادہ سخت تبدیلیاں کرنا ہوں گی۔ معاہدہ میں نمایاں خامیاں ہیں۔ امریکہ اس معاہدے میں شامل رہنے کے لئے ایران پر سے بندشیں دوبارہ ترک نہیں کرے گا۔ یہ سمجھوتہ امریکہ کی سرگرم کوششوں کے نتیجہ میں عمل میں آیا تھا۔ سابق اوبامہ انتظامیہ کے اعلی حکام نے اس سمجھوتہ کی تیاری میں بھر پور ذمہ داری سے حصہ لیا تھا۔ ایران کے نیوکلیر پروگرام کو روکنے کے لئے تمام شرائط کا بغور جائزہ لیا گیا تھا۔ سمجھوتہ کے ڈرافٹ میں کئی مرتبہ رد و بدل کیا گیا تھا۔ اس سمجھوتہ میں ایسی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی گئی تھی کہ جس سے ایران کو نیو کلیر پروگرام جاری رکھنے کا موقعہ مل سکتا تھا۔ اس سمجھوتہ سے مکمل طور پر مطمئین ہونے کے بعد صدر اوبامہ نے اس سمجھوتہ پر دستخط کیے تھے۔ لیکن ایران کا نیو کلیر سمجھوتہ “Obama Care” نہیں ہے جسے صدر ٹرمپ Repeal اور Replace کرنا چاہتے ہیں۔ ایران کا نیو کلیر سمجھوتہ ایک عالمی معاہدہ ہے۔ اس معاہدے کی اکثریت نے حمایت کی ہے۔ صدر ٹرمپ، اسرائیلی وزیر اعظم نتھن یا ہو اور سعودی عرب اس معاہدہ کے خلاف ہیں۔ صدر ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران نیویارک میں اسرائیل کے Die hard حامیوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ صدر منتخب ہونے کے بعد ایران نیو کلیر سمجھوتہ ختم کر دیں گے۔ اور اب ایک سال سے اس معاہدہ کو ختم کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ اس معاہدہ کی جگہ ایک ایسا معاہدہ لانے چاہتے ہیں جس میں امریکہ کے لئے ایران میں Regime Change کے دروازے ہوں اور جو عراق سے مہلک ہتھیاروں کو ختم کرنے کا کاربن کاپی ہو۔ ایران ایسا معاہدہ قبول کرے گا اور شاید عالمی برادری بھی ایسے معاہدہ کی تائید نہیں کرے گی۔
   ایران کے خلاف مڈل ایسٹ میں نام نہاد مداخلت کرنے کا پراپگنڈہ ٹرمپ انتظامیہ اسرائیلی اور سعودی حکومت کی طرف سے جاری ہے۔ جو صد ام حسین کی اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کے انتفا دہ کی حمایت کرنے اور ان کی مالی معاونت کرنے کا الزام اور مداخلت سے مختلف نہیں ہے۔ اس وقت امریکہ اور اسرائیل نے دنیا سے یہ کہا تھا کہ جب تک صد ام حسین عراق میں اقتدار میں ہیں۔ اس وقت تک فلسطین کا تنازعہ حل نہیں ہو سکتا ہے۔ صد ام حسین کا اقتدار ختم ہوۓ 15 سال ہو گیے ہیں۔ لیکن فلسطینیوں کے ساتھ تنازعہ میں ایک انچ کی پرو گریس نہیں ہوئی ہے۔ لیکن مڈل ایسٹ میں ایران کے Behavior اور مداخلت کو تمام مسائل کا سبب ثابت کیا جا رہا ہے۔ ایران یمن میں ہوتیوں کو ہتھیار فراہم کر رہا ہے۔ ایران شام میں مداخلت کر رہا ہے۔ یمن اور شام میں انسانیت کو بچانے کے لئے مداخلت انسانی بنیادوں پر کی گئی ہے۔ اور اسے جارحیت نہیں کہا جا سکتا ہے۔ سعودی عرب اور خلیج کی حکومتوں کا اتحاد اوبامہ انتظامیہ کے ساتھ شام میں حکومت کا خاتمہ کرنے کی جنگ میں کھربوں ڈالر انویسٹ کر رہے تھے۔ ایک خود مختار ملک کے اندرونی معاملات میں یہ غیر ملکی مداخلت جارحیت  تھی۔ اور عالمی قانون کی خلاف ورزی تھی۔ جبکہ اسرائیل شام کی تباہی سے خوشیاں منا رہا تھا۔ انہوں نے اس وقت صورت حال کو پھیلنے سے روکا کیوں نہیں تھا۔ سعودی حکومت مڈل ایسٹ کے ملکوں کو عدم استحکام کرنے کی امریکی پالیسی کو فروغ دینے میں مدد کر رہی تھی۔ اسرائیل جو مڈل ایسٹ میں ایران کے اثر و رسوخ سے عربوں کو خوفزدہ کر رہا ہے۔ اسرائیل نے ہر صورت حال کو اپنے مفاد میں Exploit کیا ہے۔ مڈل ایسٹ کے امن میں اسرائیل کو خطرے ںظر آتے ہیں۔ اس لئے مڈل ایسٹ میں جنگیں فروغ دینے کی حکمت عملی اختیار کی گئی ہے۔
   عراق کے نیو کلیر ہتھیاروں کے خلاف عالمی سمجھوتوں کے نتائج  اور تجربے کے بعد ایران کے نیو کلیر ہتھیاروں کے معاہدہ کو سیاست سے علیحدہ رکھا گیا ہے۔ اور اسے نیو کلیر سائنس کی حدود میں رہتے ہوۓ حل کیا ہے۔ علاقائی سیاست میں ایران کے کردار کو اس سمجھوتہ میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ جس کی اسرائیل اور سعودی عرب کو خاصی پریشانی ہے۔ اور صدر ٹرمپ اس لئے ایران نیو کلیر معاہدہ کو ختم کر کے ایک نیا معاہدہ چاہتے ہیں۔ جس میں نیو کلیر ہتھیاروں کو مکمل طور پر منجمد کیا جاۓ اور ایران کے علاقائی سیاست میں کردار کو محدود رکھا جاۓ۔ ایران نیو کلیر ہتھیاروں سے دستبردار ہو جاۓ گا۔ لیکن علاقائی سیاست میں ایران اپنا کردار برقرار ر کھے گا۔ جبکہ ایران کے اس خطہ کے کسی ملک کے خلاف کوئی جارحانہ عزائم نہیں ہیں۔ مظلوم انسانیت کی حمایت اور مدد بھی ایک عبادت ہے۔ یمنی دنیا کی انتہائی غریب ترین قوم ہے۔ مالدار قوموں کی یمن کے خلاف جارحیت کی مذمت کی جاۓ گی۔ ان ملکوں نے اپنی دولت کی طاقت سے یمن کے داخلی معاملات میں مداخلت کی ہے۔ لہذا اس مداخلت کے خلاف ہوتیوں کی حمایت کوئی جرم نہیں ہے۔ ایران کو اس کے علاقائی رول سے کوئی محروم نہیں کر سکتا ہے۔ ایران کی 80 ملین کی آبادی ہے۔ جبکہ سعودی عرب اور اسرائیل کی آبادی تقریباً 30 ملین ہے۔ بڑی آبادی کے ملکوں کے سلامتی اور استحکام کے مسائل بھی زیادہ ہیں۔ با لخصوص ایران کو نقصان پہنچانے کے انتظار میں دشمن تیار بیٹھے ہیں۔ دنیا نے اس کی ایک جھلک ایران میں حالیہ مظاہروں کے دوران دیکھی ہے۔ کہ کتنی جلدی صدر ٹرمپ نے ایرانی حکومت کے خلاف مظاہرین کی حمایت میں بیانات دئیے تھے۔ اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر نے عالمی پلیٹ فارم کو ایران میں حکومت تبدیل کرنے کے مقصد سے استعمال کیا تھا۔ یہ اقوام متحدہ کے Law of Sovereignty کی خلاف ورزی تھی۔ پھر ایرانی حکومت کے خلاف مظاہرین کے بارے میں جب اصل صورت حال واضح ہوئی کہ یہ اعتدال پسند ایرانی حکومت کے خلاف سخت گیر انتہا پسندوں کے درمیان طاقت آزمائی کا مظاہرہ تھا۔ مظاہرین میں اس پر اتفاق تھا کہ وہ ایران کو عراق اور شام بنانا نہیں چاہتے ہیں۔ اعتدال پسند حکومت کے خلاف سخت گیر انتہا پسندوں میں سابق صدر احمدی نژاد بھی شامل تھے۔ جنہیں حکومت نے حراست میں لے لیا تھا۔ ایران میں حکومت کے خلاف مظاہرین کی پشت پنا ہی کرنے والے اصل چہرے سامنے آنے کے بعد ٹرمپ انتظامیہ کے لئے  یہ بڑی رسوائی کا باعث تھا۔ اگر ISIS ایران میں حکومت کے خلاف کاروائیاں کرنے لگے گی تو امریکہ اور اسرائیل ISIS کی حمایت کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔ لیبیا میں قد ا فی حکومت اپیلیں کر رہی تھی کہ القا عدہ ان کی حکومت کا خاتمہ کرنا چاہتی ہے اور لیبیا میں اسلامی ریاست قائم کرنا چاہتی ہے۔ لیکن قد ا فی سے نفرت میں اوبامہ انتظامیہ القا عدہ کے ساتھ کھڑی تھی۔ لیکن پھر بن غازی میں القا عدہ نے امریکی کانسلیٹ پر حملہ کر کے امریکی سفیر اور چار دوسرے امریکیوں کو ہلاک کر دیا۔ اس کے بعد دنیا کو یہ کہا گیا کہ لیبیا میں القا عدہ اور ISIS اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتے تھے۔ عراق اور شام کے علاقوں کو ISIS سے آزاد کرانے کی لڑائی میں ایران نے عراق اور شام کی مدد کی ہے۔ لیکن امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب اسے شام اور عراق میں ایران کی مداخلت کہتے ہیں؟ امریکہ اور اسرائیل نے اس خطہ میں جنگوں سے تباہیاں پھیلائی ہیں بلکہ اس خطہ کے ملکوں کے تعلقات میں پیچیدگیاں پیدا کی ہیں۔ اس خطہ کو شیعہ، سنی اور عیسائوں میں تقسیم کیا ہے۔ اور امریکہ 70 سال سے صرف اسرائیلی ایجنڈے کو فروغ دیتا رہا ہے۔ 300 ملین آبادی کے خطہ پر 6 ملین کی آبادی کا تسلط ہے۔ اس خطہ میں امریکہ کی Respect ناانصافیوں میں دھنس گئی ہے۔ امریکہ کی ساکھ صرف بادشاہوں کے محلوں میں نظر آتی ہے۔ عرب دنیا کی سڑکوں پر تباہ حال انسانیت اور جنگوں کا ملبہ نظر آتا ہے۔ ایرانی قوم بلاشبہ اس عرب دنیا کا حصہ بننا پسند نہیں کرے گی۔

                     

Sunday, January 21, 2018

How Will They Rebuild War Torn Countries Of The Middle East?

How Will They Rebuild War Torn Countries Of The Middle East?

World Can’t Expect From Those, Who Help In Human Destruction
OPEC Should Have Price Of Oil At $100 Dollars Per Barrel, $10
 Dollars Per Barrel, OPEC Gave To UNRWA, Who’s Funding U.S. Has Cut. While $20 Dollars Per Barrel Should Be Given To Rebuild The War Torn Countries. These Funds Should Be Managed By The U.N. Commission For Reconstruction Of War Torn Countries.

مجیب خان

Can anybody see where is Iranian influence in this Ruble, Syria  

Forces of Human Destruction, Syria

War destruction in Yemen

Iraq, Mosul
   عالمی برادری کے سامنے اس وقت دو بڑے اور اہم ایشو ہیں۔ اقوام متحدہ کی فنڈنگ کس طرح کی جاۓ؟ اور مڈل ایسٹ میں جس طرح تباہی پھیلائی گئی ہے اور بے گناہ ملکوں کو کھنڈرات بنایا گیا ہے۔ ان ملکوں کو تعمیر کرنے کے لئے فنڈ کیسے جمع کیے جائیں؟ اقوام متحدہ کے ممبر ملکوں نے یروشلم اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے فیصلے کو جس طرح مسترد کیا ہے۔ اس پر ٹرمپ انتظامیہ نے اقوام متحدہ کو فنڈ کی فراہمی میں کٹوتی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ جبکہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے فیصلہ پر فلسطینیوں نے امن مذاکرات کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ جس پر ٹرمپ انتظامیہ نے فلسطینیوں کی 120 ملین ڈالر کی امداد آدھی کر دی ہے۔ اور 65 ملین ڈالر فلسطینیوں کی ٹرمپ انتظامیہ کی مذمت کرنے پر انہیں سزا دینے کے لئے روک لئے ہیں۔ یہ امریکی امداد مہاجر کیمپوں میں فلسطینیوں کو غذا فراہم کرنے کے لئے اقوام متحدہ کے ذریعہ دی جاتی تھی۔ ٹرمپ انتظامیہ نے اس فیصلہ سے افلاس اور بھوک سے دم توڑتی انسانیت کو بلیک میل کیا ہے۔ جبکہ اسرائیل نے  فلسطینیوں کا پانی بند کیا ہے۔ مقبوضہ فلسطینی علاقوں کی بجلی کاٹ دی ہے۔ اور انہیں بنیادی انسانی ضرورتوں سے محروم کر دیا ہے۔ ان کا یہ رویہ قابل مذمت اور باعث شرم ہے۔ وہ امن کیسا ہو گا جو بلیک میل سے اسرائیل کے لئے خریدا جا رہا ہے۔ جس طرح اسرائیل کے ساتھ مصر کا سمجھوتہ خریدا گیا تھا۔ امریکہ تل ابیب میں مصر کا سفارت خانہ کھلا رکھنے اور مصری سفیر کو سفارت خانہ میں بیٹھا نے کے لئے 3 بلین ڈالر سالانہ امداد 1980 سے ادا کر رہا ہے۔ اس سے زیادہ اس سمجھوتہ کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اس سمجھوتہ کے 32 سال بعد مصر میں جب جمہوری منتخب حکومت اقتدار میں آئی تو اسرائیلی خوفزدہ ہو گیے تھے کہ Islamist اسرائیل کے گرد حلقہ تنگ کر رہے تھے۔  1994 میں ارد ن نے جب اسرائیل کو تسلیم کر لیا اور اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے تھے۔ اس کے بعد سے امریکہ ارد ن کو 150 ملین ڈالر سالانہ امداد دیتا ہے۔ مغربی کنارے میں محمود عباس کی قیادت میں فلسطینی حکومت کو بھی امریکہ  سالانہ مالی امداد دیتا ہے۔ اور جب بھی فلسطینی اسرائیل کے خلاف سڑکوں پر آتے ہیں۔ امریکہ نے فلسطینی حکومت کی امداد بند کرنے کی دھمکی دی ہے۔ اور اب ٹرمپ انتظامیہ فلسطینیوں کو اسرائیل کی شرائط پر امن سمجھوتہ کرنے کے لئے بلیک میل کر رہی ہے۔ حالانکہ صدر ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران یہ کہا تھا کہ وہ فلسطین اسرائیل تنازعہ میں Neutral رہیں گے۔ طرفدار بننے سے یہ تنازعہ کبھی حل نہیں ہو گا۔ لیکن یروشلم اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر کے اور فلسطینیوں کی امداد روک کر صدر ٹرمپ سو فیصد اسرائیل کے طرفدار ہو گیے ہیں۔ اور یہ تنازعہ اب حل نہیں ہو گا۔
   دوسرا بڑا مسئلہ جن ملکوں کو غیر قانونی جنگو ں نے کھنڈرات بنایا ہے۔ ان کی تعمیر نو ہے۔ با لخصوص شام کی تعمیر نو کو اہم ترجیح دی جاۓ۔ تاکہ 20 ملین شامی مہاجرین واپس آئیں۔ ٹرمپ انتظامیہ نے شام کی تعمیر نو کرنے کی ابھی تک کوئی بات نہیں کی ہے۔ یورپی یونین نے بھی اس سلسلے میں کوئی منصوبہ نہیں دیا ہے۔ سیکرٹیری آف اسٹیٹ ریکس ٹلر سن نے کہا ہے کہ امریکی فوجیں شام کے شمال میں ایران اور حزب اللہ کے اثر و رسوخ کی وجہ سے غیر معینہ مدت تک رہیں گی۔ ان کی سمجھ میں شاید یہ نہیں آ رہا ہے کہ جب 20 ملین شامی واپس آئیں گے تو ایران اور حزب اللہ کا اثر و رسوخ  شام سے غائب ہو جاۓ گا۔ ایران کا اثر و رسوخ دراصل Zionist hype ہے۔ جس طرح صد ام حسین کے بارے میں یہ پراپگنڈہ کیا گیا تھا کہ وہ مڈل ایسٹ کے تیل کی سپلائی کو کنٹرول کرنا چاہتے تھے۔ حالانکہ مڈل ایسٹ کا تیل اوپیک کنٹرول کرتی تھی۔ اور ہر ملک کے لئے اوپیک نے تیل کا کوٹہ مقرر کیا تھا۔ اور عراق  اوپیک میں شامل تھا۔ صد ام حسین دنیا کی نظروں میں کتنا ہی برا انسان تھا۔ لیکن اس میں اتنی انسانیت ضرور تھی کہ صد ام حسین نے کویت کو شام کی طرح کھنڈرات نہیں بنایا تھا۔ عالمی برادری نے کویت پر عراقی قبضہ کی جس قانون کے تحت مخالفت کی تھی۔ اسی قانون کے تحت عالمی برادری کو شام کے شمالی علاقہ پر امریکی قبضہ کی مخالفت کرنا چاہیے۔ اور شام کی آزادی اور Sovereignty کو بحال کیا جاۓ۔
   اہم سوال اب یہ ہے کہ شام کی تعمیر نو کے لئے فنڈ کون دے گا؟ اور یمن عراق اور لیبیا کی تعمیر نو کے اخراجات کون دے گا؟  ٹرمپ انتظامیہ نے اقوام کے فلسطینی مہاجروں کے لئے غذائی اشیا کی فراہمی کے لئے فنڈ میں کمی کر دی ہے۔ اور اقوام متحدہ  فلسطینیوں کو غذا فراہم کے لئے عالمی برادری سے  فنڈ ز دینے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ کویت نے آئندہ ماہ عراق کی تعمیر نو کے لئے فنڈ جمع کرنے کے لئے Donor ملکوں کا اجلاس بلایا ہے۔ یاد رہے کہ یہ وہ ہی عراق ہے جس کے پہلی خلیج جنگ کے بعد تیل کی آمدنی جنیوا میں اقوام متحدہ کے  Compensation Commission میں جمع ہوتے تھے۔ اور عراق کے کویت پر حملہ سے جن ملکوں کا نقصان ہوا تھا۔ انہیں اس کی ادائیگی کی جاتی تھی۔ صد ام حسین کا کویت پر سات ماہ کے دوران جو لوٹ مار ہوئی تھی اور نقصان پہنچا تھا اس کی ادائیگی کے لئے عراق نے 50 بلین ڈالر اقوام متحدہ فنڈ میں دئیے تھے۔ اس کے علاوہ کویت کے تیل کی پیداوار اور فروخت کا جو نقصان ہوا تھا۔ UNCC نے 14.7 بلین ڈالر کویت پیٹرولیم کو ادا کیے تھے۔ اور اب بالکل اسی طرز پر اقوام متحدہ کا عراق، شام، یمن، اور لیبیا کی تعمیر نو کرنے کے لئے کمیشن قائم کیا جاۓ۔ عالمی مارکیٹ میں تیل 100 ڈالر فی بیرل ہونا چاہیے۔ اس میں سے 10 ڈالر فی بیرل کے حساب سے اقوام متحدہ کے Refugee Agency کو دئیے جائیں جو فاقہ کش فلسطینیوں کو Feed کرتا ہے۔ جس کی ٹرمپ انتظامیہ نے سیاسی بنیاد پر امداد کاٹ دی ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ یہ ادارہ War Torn ملکوں کے لاکھوں لا وارثوں کی دیکھ بھال بھی کرتا ہے۔ جو منافع خور ملکوں کے ہتھیاروں کے Victim ہیں۔ جبکہ 30 ڈالر فی بیرل کے حساب سے War Torn ملکوں کی تعمیر نو فنڈ میں جمع کیے جائیں۔ اور یہ فنڈ اقوام متحدہ Manage کرے اس کی بیلنس شیٹ ہر سال رکن ممالک کو فراہم کی جاۓ۔
   بش انتظامیہ میں تیل کا بیرل 130 اور 140 ڈالر تک پہنچ گیا تھا۔ اور اس کی وجہ یہ تھی کہ عالمی آئل کمپنیاں وسط ایشیا سے تیل کی پائپ لائنیں یورپ لے جانے پر کھربوں ڈالر کے اخراجات تیل کی قیمتوں میں اضافہ سے پورے کر رہی تھیں۔ ہتھیاروں کی صنعت نے لوگوں کی زندگیاں برباد کر کے کھربوں ڈالر منافع کمایا ہے۔ ہتھیاروں کی صنعت کی یہ بربریت جوزف اسٹالن کے ظلم سے مختلف نہیں ہے۔ اور اب OPEC ملکوں کو اپنے تیل کی قیمتوں میں اضافہ کر کے ان تباہ حال لوگوں کو نئی زندگی دینا ہے۔         

Tuesday, January 16, 2018

Why Are These "S---t Hole Countries"?

Why Are These "S---t Hole Countries"?

This is the question that we should debate. People of these countries did not make their own country a shit hole country. Actually, they are victim of this shit hole system which was imposed on them by imperial and colonial powers. These people are like American people. They all want a good life for their families and a prosperous country. Everywhere people have this expectation from their rulers, But the dilemma is their rulers were on imposed on the country by the imperial and colonial masters. The rulers and their master, both were corrupt. They had plundered their wealth, exploited their natural resources, and they had left behind poverty, hunger, the unemployment and a shit hole country. Removal of Libya’s President Qaddafi with full force by the British, France, and America was a racist act. They not consulted the African leaders. They did not ask the Libyan neighboring countries. Several thousand people comes from neighboring countries to work in Libya’s oil industry. President of Libya, a Muslim leader had invested billions and billions dollar in Africa’s infrastructure, education, and health. Qaddafi had tried to lift the Africa up from the “shit hole countries”, but the powerful countries overthrew his Government on this assumption that his forces were going to genocide in Benghazi, and they had protected humanity. But then, we were witnessing genocide of the century in Syria. Under the watch of America, Britain, and France. Where one million innocent people have been killed. Their country becomes rubble. Families have been destroyed. Syrian children’s future have been dark. Five million Syrians are in miserable condition in refugee camps. 

Now, Britain, France, and America are backing Saudi Arabia’s killing in Yemen where ten thousand Yemenis have been killed. Saudi bombardment has destroyed Yemen’s infrastructure, hospitals, schools, and economy. This is the hypocrisy and injustices of world power. One interesting note, Israeli Government kicking out forty-thousand black Jews from Israel, but the Israeli Government telling the European Jews that Israel is your home. 

مجیب خان
Unemployed Africans


Syrian refugees

Syrian and Libyan refugees heading to Europe


Born without a future

   امریکہ کی تاریخ میں کسی پریذیڈنٹ کو وائٹ ہاؤس میں اس کے پہلے سال میں میڈیا نے شاید اتنا سخت وقت نہیں دیا ہو گا کہ جس کا صدر ٹرمپ کو سامنا ہے۔ تحقیقات در تحقیقات کا نا ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ واشنگٹن کی سیاست میں wheeling dealing کرنے والے ایوانوں میں impeachment کی آوازیں بھی سنائی دے رہی ہیں۔ ایک اچھے خاصے ذہن کے صدر ٹرمپ کا ذہنی توازن درست نہ ہونے کے بارے میں سوال ہو رہے ہیں۔ ایسی صورت میں کانگرس کے اراکین صدر کو اقتدار سے ہٹانے کا آئینی اختیار رکھتے ہیں۔ لیکن ان تمام نفسیاتی دباؤ اور تلخ بحث کے باوجود صدر ٹرمپ نے اپنے اقتدار کے پہلے سال میں جتنے انتخابی وعدے پورے کیے ہیں۔ اور جو زبردست کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ وہ امریکہ کے کسی صدر نے اقتدار کے چار سال میں بھی شاید حاصل نہیں کی ہوں گی۔ یہ کامیابیاں دیکھ کر سینٹ اور کانگرس میں ری پبلیکن پارٹی کے جو اراکین صدر ٹرمپ پر سخت تنقید کرتے تھے۔ اور صدارتی انتخاب روس کی مداخلت اور صدر ٹرمپ کی انتخابی ٹیم کے ساتھ collusion کی تحقیقات کر رہے تھے۔ وہ اب اس تحقیقات کو ختم کرنے کی باتیں کر رہے ہیں۔ اور صدر ٹرمپ کے پیچھے کھڑے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کی جڑیں کیونکہ بہت مضبوط ہیں۔ لہذا اس کی مزاحمت کی چنگاریاں ابھی بجھی نہیں ہیں۔ امریکی عوام کی ایک بڑی اکثریت صدارتی انتخاب میں روس کی مداخلت قبول نہیں کرتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کو انہوں نے ووٹ دئیے ہیں۔ روس نے بیلٹ با کس تبدیل نہیں کیے ہیں۔ اس سال نومبر میں کانگرس اور سینٹ کے مڈ ٹرم انتخاب ہوں گے۔ اس   لئے کسی سنسنی خیز ڈرامہ کا امکان بہت کم ہے۔ تاہم چھوٹی باتوں کو اسٹیبلشمنٹ نے بڑا ایشو بنا دیا ہے۔
   حالانکہ اکتوبر 2001 میں صدر جارج بش انتظامیہ نے افغانستان پر فوجی حملہ سے قبل ان روسی جنرلوں اور کمانڈروں سے جو افغانستان میں مجاہدین کے خلاف لڑے تھے۔ ان کے تجربات معلوم کیے تھے۔ اور افغان جنگ کی ناکامی میں انہوں نے کیا غلطیاں کی تھیں اسے جاننے کی کوشش کی تھی۔ افغانستان میں ان کی شکست روسی جنرلوں کے ذہنوں میں ابھی تازہ تھی۔ اور وہ ان کی شکست میں امریکہ کے رول کو بھی نہیں بھولے تھے۔ روسی فوج 9 سال بعد افغانستان سے تھک ہار کر چلی گئی تھی۔ لیکن امریکی فوج کو افغانستان میں کامیابی کے انتظار میں 17 سال ہو گیے ہیں۔ اور ابھی افغانستان سے اس کے جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ لیکن سابق روسی جنرلوں اور کمانڈروں سے افغانستان پر امریکی حملہ سے قبل ان سے مشورہ کرنا کیا collusion نہیں تھا؟ یا افغانستان پر امریکہ کے حملہ میں سابق روسی جنرلوں کے مشورے meddling کی تعریف میں نہیں آتے ہیں؟ اب اگر روسی کاروباری دوستوں نے صدر ٹرمپ کی انتخابی کمیٹی  کے بعض رکن سے ملاقات میں انہیں انتخاب جیتنے میں کوئی مشورہ دیا ہے۔ تو اس سے امریکہ کا دو سو سال کا جمہوری نظام کیسے خطرے میں آ سکتا ہے؟ یہ دو سابقہ انتظامیہ کے پیدا کردہ سیاسی حالات کا اتفاق تھا کہ صدر ٹرمپ یہ انتخاب جیت گیے تھے۔ اس میں بیرونی انفلوئنس سے زیادہ اندرونی المیوں کا بڑا تعلق تھا۔ 16 سال میں دو انتظامیہ میں جتنی جنگیں شروع ہوئی تھیں ان کا خاتمہ ہو رہا تھا اور نہ ہی ان میں کامیابی ہو رہی تھی۔ Collusion اور Meddling کا سوال یہاں ختم ہو جاتا ہے۔
   صدر ٹرمپ کے ذہنی طور پر Unstable ہونے کے بارے میں بھی سوال کیے جا رہے ہیں۔ ذہنی امراض کے ماہرین ٹی وی پر Mentally Unstable ہونے کی علامتیں بیان کر رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ کو ان علامتوں میں Fit کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ ایک اچھے خاصے انسان کو جسے 63 ملین امریکیوں نے ووٹ دے کر صدر منتخب کیا ہے۔ اسے 24 گھنٹے نیوز چینلز ذہنی مریض ثابت کر رہے ہیں۔ حالانکہ صدر جارج بش کے بارے میں اکثر یہ یقین سے کہا جاتا تھا کہ وہ ذہنی طور پر Unstable تھے۔ صدر بش ایسی باتیں بھی کرتے تھے جن سے ان کے ذہنی Unstable ہونے کی علامتیں بھی نظر آتی تھیں۔ جیسے عراق پر حملہ کے بارے میں صدر بش نے کہا کہ "خدا نے ان سے کہا ہے کہ وہ صد ام حسین کو اقتدار سے ہٹا دیں۔" اگر ملا عمر یہ کہتا کہ اللہ نے کہا ہے کہ بن لادن نے تمہارے ملک کی آزادی کے لئے جہاد کیا ہے۔ اسے اپنے ملک میں ر کھو اسے کسی کے حوالے مت کرنا۔ تو شاید یہ سمجھ میں آتا کیونکہ وہ ملا عمر تھا۔ لیکن صدر بش امریکہ کے صدر تھے۔ جس کی کئی پروازیں چاند کو چھو کر واپس آئی تھیں۔ عراق پر حملہ سے قبل صدر بش سے پوچھا گیا تھا کہ انہوں نے اپنے Father سے بھی کوئی مشورہ کیا ہے۔ صدر بش کا جواب تھا کہ میں نے ان سے بھی بڑے Father سے مشورہ کیا ہے۔ لیکن صدر بش کی ان باتوں سے میڈیا میں کسی نے ان کے ذہنی طور پر Unstable ہونے کا سوال نہیں کیا تھا۔ جبکہ صدر بش نیو کلیر ہتھیار استعمال کرنے کی باتيں بھی کرتے تھے۔ لیکن کسی کو اس پر کوئی تشویش نہیں ہوئی تھی۔ جبکہ صدر ٹرمپ کا شمالی کوریا کے خلاف نیو کلیر ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی پر سب کو خدشہ ہے۔ کیونکہ ان کے خیال میں صدر ٹرمپ ذہنی طور پر Unstable ہیں۔ لیکن جنہوں نے صدر ٹرمپ کو ووٹ دئیے ہیں انہیں خدشہ یہ ہے کہ میڈیا پر پنڈتوں کی باتیں سن کر صدر ٹرمپ کہیں دیوانے نہ ہو جائیں۔         

Tuesday, January 9, 2018

“The New Role of The Pakistani Army Is The Security And Implementation of CPEC”

“The New Role of The Pakistani Army Is The Security And Implementation of CPEC”

   Pakistan has wasted thirty-seven years in Afghanistan. Two million Afghan refugees are still in Pakistan. The people of Pakistan have given tremendous sacrifices for Afghanistan. What has Afghanistan given to Pakistan? Blame, disparaging, humiliation on Pakistan? Asking for the cooperation of Pakistan but working against Pakistan? Under these circumstances, Pakistan has only one option; to disassociate from Afghanistan’s internal insurgency. Close the border, enough is enough.

مجیب خان
   









    پاکستان میں چین کے 65 بلین ڈالر کے Infrastructures پروجیکٹ CPEC کا آغاز ہونے کے بعد پاکستان کی فوج کا رول بدل گیا ہے۔ CPEC پروجیکٹ کی تکمیل اور سیکورٹی اب فوج کا نیا رول ہے۔ اس کے ساتھ بیرونی فوجی الائنس میں شامل ہونے اور ان کے لئے فوجی مہم جوئیاں کرنے کا پاکستان کی فوج کا رول بھی بدل گیا ہے۔ لہذا پاکستان کے لئے اب امریکہ کے ساتھ فوجی مہم جوئیوں میں شامل رہنے کے لئے 255 ملین ڈالر فوجی امداد زیادہ اہمیت نہیں رکھتی ہے۔ ویسے بھی پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے۔ اور ایٹمی طاقت بیرونی فوجی امداد پر انحصار نہیں کرتی ہیں۔ ایٹمی طاقتیں امن اور استحکام کو فروغ دینے میں تعاون کرتی ہیں۔ پاکستان کو ایک ایسی جنگ میں گھسیٹا گیا تھا جس میں پاکستان افغانستان سے بڑا محاذ بن گیا تھا۔ اور اس کی پاکستان نے ایک بہت بھاری قیمت ادا کی ہے۔ پاکستان نے 37 سال افغانستان میں برباد کیے ہیں۔ اور افغان آج پاکستان کو اپنے حالات کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ اور امریکہ اس سے اتفاق کرتا ہے۔ اور یہ امریکہ کے ساتھ فوجی مہم جوئیوں میں اتحادی بننے کا المیہ ہے۔
   صدر ٹرمپ نے پاکستان کی صرف امداد معطل کی ہے۔ 90 کی دہائی میں افغان جنگ ختم ہونے کے بعد امریکی کانگرس نے پاکستان کے خلاف اقتصادی اور فوجی بندشیں لگانے کا قانون منظور کیا تھا۔ جو سینیٹر Larry Pressler نے لکھا تھا۔ اور پھر صدر جارج ایچ بش نے اس پر دستخط کیے تھے۔ یہ بندشیں پاکستان کے ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے کی کوششوں کے نتیجہ میں لگائی گئی تھیں۔ پاکستان پر تقریباً 90 کی دہائی ان بندشوں میں گزری تھی۔ لیکن پاکستان نے ان بندشوں میں 1998 میں ایٹمی دھماکہ کیے تھے۔ ان دھماکوں کے بعد صدر کلنٹن نے پاکستان پر نئی بندشیں لگائی تھیں۔ تاہم امریکہ کی ان بندشوں کا پاکستان کو فائدہ ہوا تھا۔ پاکستان نے غیر ملکی امداد کے بغیر زندہ رہنا سیکھا تھا۔ پاکستان فوجی ہتھیار بنانے لگا تھا۔ فوجی ہتھیاروں کی صنعت کا فروغ ہوا تھا۔ پاکستان دوسرے ملکوں کو ہتھیار فروخت کرنے لگا تھا۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان کی سلامتی میں ایٹمی ہتھیار ایک موثر دفاع تھے۔ پاکستان کی ان حیرت انگیز کامیابیوں کو دیکھ کر امریکہ کو پاکستان پر بندشیں لگانے کی غلطی کا احساس ہوا تھا۔ اور ملال یہ تھا کہ پاکستان کو تنہا نہیں چھوڑنا چاہیے تھا۔ پاکستان میں ملوث رہنا چاہیے تھا۔ نائن الیون کمیشن رپورٹ میں بھی بڑی تفصیل سے پاکستان اور سعودی عرب میں امریکہ کے ملوث رہنے پر زور دیا گیا تھا۔ جبکہ اس مقصد میں بعض پیراگراف سنسر کیے گیے تھے۔ اگر نائن الیون نہیں ہوتا تو پاکستان کے بارے میں امریکہ کی پالیسی شاید تبدیل نہیں ہوتی۔ امریکی کانگرس کی بندشیں پاکستان پر لگی رہتی۔ صدر ٹرمپ نے سابق صدر اوبامہ کی پیشتر پالیسیاں بدل دی ہیں۔ لیکن صدر اوبامہ کی پاکستان سے حقانی نیٹ ورک اور پاکستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ختم کرنے کے دباؤ کی پالیسی کو صدر ٹرمپ نے اپنی انتظامیہ کی پالیسی بنایا ہے۔ حالانکہ سابقہ دو انتظامیہ نے دنیا میں دہشت گرد پیدا کیے ہیں۔ جبکہ پاکستان میں اس پورے عرصہ میں حقیقی معنوں میں دہشت گردوں گا خاتمہ کیا گیا ہے۔ ان کے ٹھکانے تباہ کیے ہیں۔ شمالی اور جنوبی وزیر ستان سے مقامی اور غیر ملکی دہشت گردوں کا مکمل صفایا کیا گیا ہے۔ وادی سوات سے دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ختم کی گئی ہیں۔ اگر پاکستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانے تھے۔ تو ان ٹھکانوں سے شام میں ISIS کے ساتھ لڑنے کیوں نہیں گیے تھے۔ شام میں امریکہ اور یورپ سے ISIS میں شامل ہونے آۓ تھے۔ لیکن پاکستان سے کوئی نہیں گیا تھا۔ دہشت گردی میں  پاکستان میں اتنے زیادہ لوگ مارے گیے ہیں کہ  ہر گلی اور ہر گھر میں ان سے نفرت کرنے والے ملیں گے۔
   صدر ٹرمپ نے امداد بند کی ہے اور اس سے قبل صدر اوبامہ نے بھی 800 ملین ڈالر کی امداد معطل کی تھی۔ یہ امداد اس طرح معطل کی ہے کہ جیسے پاکستان کا “Court Martial” کیا جا رہا ہے کہ پاکستان افغانستان میں “not doing enough” ۔ صدر اوبامہ نے یہ امداد ایسے موقع پر معطل کی تھی کہ جب خونخوار دہشت گرد ہر طرف سے پاکستان پر حملہ کر رہے تھے۔ پاکستان کی فوج سرحدی علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کر رہی تھی۔ دہشت گرد سیکورٹی کے حساس اداروں اور تنصیبات پر حملے کر رہے تھے۔ اس وقت یہ نظر آ رہا تھا کہ جیسے دہشت گردوں کو پاکستان پر حملہ کرنے کی آزادی دی گئی تھی۔ امریکہ اور نیٹو افغانستان میں سو ویت ایمپائر کے خلاف لڑنے کی سزا پاکستان  دے رہے تھے۔ سو ویت یونین کی افغانستان میں شکست بعد امریکہ کانگرس نے پاکستان کے خلاف بندشیں لگانے کا قانون بھی منظور کیا تھا۔ اور صدر جارج ایچ بش نے اس قانون پر دستخط کیے تھے۔ 37 سال سے پاکستان کی افغان پالیسی غلط تھی۔ پاکستان نے افغانستان کو بچانے کے لئے اپنی سلامتی کو ہر طرف سے خطروں میں ڈالا ہے۔ اور اب امریکہ کی دھونس دھمکیاں ان خطروں میں ایک نیا اضافہ ہے۔
  37 سال قبل پاکستان نے جو غلط فیصلے کیے تھے۔ 37 سال سے پاکستان ان کی ایک بھاری قیمت ادا کر رہا ہے۔ اس وقت  پاکستان اگر کابل میں ماسکو نواز حکومت کو تسلیم کر لیتا اور اس کے ساتھ تمام تنازعہ طے کر لیتا تو پاکستان بہت بہتر حالات میں ہوتا۔ ماسکو سے پاکستان کی سلامتی کے مفاد کی ضمانت بھی مل جاتی۔ افغانستان میں بھارت کے اثر و رسوخ سے سویت یونین کا اثر و رسوخ پھر بھی بہتر ہوتا۔ لیکن پاکستان نے صرف مغربی طاقتوں کے مفاد میں افغانستان میں سو ویت یونین کے خلاف یوٹرن لیا تھا۔ اور اب ان ہی مغربی طاقتوں نے افغانستان میں پاکستان کے خلاف یو ٹرن لیا ہے۔ حالانکہ جن امریکی فوجیوں نے افغانستان میں وقت گزارا ہے۔ ان میں بعض نے افغانستان کے حالات پر مضمون لکھے ہیں۔ اور انہوں نے افغانستان کا مسئلہ داخلی بتایا ہے۔ وار لارڈ ز میں طاقت کی ر سہ کشی، افیون مافیا اور حکومت میں کرپشن علاقائی ملیشیا  خانہ جنگی کا سبب ہیں۔ دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں وار لارڈ ز کے علاقوں میں ہیں۔ وار لارڈ ز انہیں کبھی کابل حکومت کے خلاف اور کبھی صوبہ کی حکومتوں کے خلاف استعمال کرتے رہتے ہیں۔ افغانستان کے داخلی حقائق اور امریکہ کے علاقائی مفادات میں افغانستان کے بارے میں حقائق میں بڑا تضاد نظر آتا ہے۔ اس ہفتہ 5 جنوری کے New York Times کے صفحہ پانچ پر کابل میں افغان مارکیٹ پر خود کش بم دھماکہ کی سرخی تھی
            ISIS Suicide Bomber Kills 20, Including Members of Security, at an Afghan Market
اسی روز ڈیفنس سیکرٹیری Jim Mattis کا یہ بیان بھی شائع ہوا تھا کہ
           “Islamabad is not doing enough to target Afghan Taliban and Haqqani group bases.”
17 سال سے افغانستان میں امریکہ اور نیٹو فوجوں کے آپریشن کا نتیجہ اب Rise of ISIS in Afghanistan  میں سامنے آیا ہے۔ اور پاکستان سے کہا جا رہا کہ وہ اب طالبان اور حقانی نیٹ ورک کو ISIS سے لڑنے کے لئے تیار کرے؟ What is the Game Plan? Who is transporting ISIS from Iraq and Syria to Afghanistan?
پاکستان کو اس خطرناک گیم سے ہر قیمت پر دور رکھنا ہو گا۔