European, American, And Canadian Jury Verdict: Mr. Putin Is Guilty
Jury Has Found Britain’s Accusations Are Credible
مجیب خان
Britain's Prime Minister Theresa May addressed the House of Common about Russian's nerve gas attack. |
President Trump with NATO and European Union Leaders |
ایک
انتھک جد و جہد اور گراں قدر قربانیوں کے بعد دنیا کو نظریاتی تقسیم اور محاذ آ
رائی کی سیاست سے نجات ملی تھی۔ یہ جد و جہد اور قربانیاں ایشیا افریقہ اور لاطین
امریکہ کے ترقی پذیر ملکوں نے دی تھیں۔ اور مغربی ملکوں کو نظریاتی جنگ سے آزاد
کرایا تھا۔ ایشیا افریقہ اور لاطین امریکہ کے عوام کو جنہوں نے سرد جنگ میں سب سے
زیادہ قربانیاں دیں تھیں۔ انہیں امید تھی کہ مغربی ممالک روس کے ساتھ اب امن اور
دوستی کے ساتھ رہیں گے۔ روس کے خلاف مغربی ملکوں کی زبان پر لفظ "دشمن"
کبھی نہیں آۓ گا۔ دنیا میں صرف قانون اور انسانی حقوق کی بالا دستی ہو گی۔ امریکہ
کے ذہن میں “Imperial
Power” ہونے اور برطانیہ اور فرانس اور
دوسرے یورپی ملکوں کے ذہنوں میں “Colonial
Powers” ہونے کا Resurrection
نہیں ہو گا۔ مغربی طاقتیں دنیا کے ملکوں کو اپنے کارخانے اور فیکٹریاں نہیں سمجھیں
گی۔ اور ان پر اپنا تسلط قائم کرنے کی جنگیں نہیں کی جائیں گی۔ طاقتور قومیں اپنے
عزائم میں کمزور قوموں کو Bully
نہیں کریں گی۔ ان کا سیاسی اور اقتصادی استحصال نہیں کیا جاۓ گا۔ قانون اور انسانی
حقوق کا اطلاق سب پر یکساں ہو گا۔ اور اسے Pick and Choose کی سیاست نہیں
بنایا جاۓ گا۔ ایشیا افریقہ اور لاطین امریکہ نے اپنے ملکوں میں فوجی حکومتوں کا
راج ختم کر دیا ہے۔ اور عوام کی منتخب حکومت کا نظام قائم کیا ہے۔ لیکن امریکہ اور
مغربی طاقتوں نے دنیا میں اپنا فوجی راج قائم کر دیا ہے۔ فوجی سرگرمیاں بڑھتی جا
رہی ہیں۔ فوجی ساز و سامان اس طرح فروخت کیا جا رہا ہے کہ جیسے یہ بنیادی انسانی
ضرورت ہے۔ دنیا میں فوجی اڈے اس طرح پھیل رہے ہیں کہ جیسے مقبوضہ عرب علاقوں میں
جگہ جگہ اسرائیلی فوجی اڈے ہیں۔ NATO جو مغربی ملکوں کے مفادات کی فوجی
تنظیم ہے۔ اسے دنیا پر مسلط کیا جا رہا ہے۔ جن ملکوں نے فوجی حکومتوں کا نظام ختم
کیا ہے۔ وہ NATO کو
کیسے قبول کریں گے۔ اگر سرد جنگ ختم نہیں ہوتی تو آج عراق شام لیبیا یمن انسانی
تباہی سے محفوظ ہوتے۔ دنیا کے بے شمار ملکوں کے لئے سرد جنگ کا خاتمہ Hell بنا ہے۔ مغربی طاقتوں نے انتہائی غیر ذمہ دار ہونے کا ثبوت دیا ہے۔
مغربی
دنیا میں ڈونالڈ ٹرمپ امریکہ کے پہلے صدر ہیں جنہوں نے یہ اعتراف کیا ہے کہ “We are not innocent” یہ اعتراف
کرنا بڑی اچھی بات ہے۔ مغربی طاقتیں بالخصوص امریکہ اگر دوسروں کے داخلی معاملات
میں مداخلت نہیں کرے تو دوسرے بھی ان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے۔
لیکن یہاں تو مداخلت بھاری ملٹری Infantry سے ہو رہی ہے۔ دوسرے ملکوں میں Regime change کس
کا قانون ہے۔ شام کو کس قانون کے تحت مداخلت کر کے Ground Zero
بنایا گیا ہے۔ روس تو بالکل آخر میں بچی کھچی
انسانیت کے بچے کھچے ملک کو بچانے آیا تھا۔ امریکہ اور مغربی ملکوں نے اسے شام میں
روس کی مداخلت کہنا شروع کر دیا تھا۔ لیکن 5سال سے امریکہ برطانیہ فرانس اور ان کے
عرب اتحادی شام میں کیا کر رہے تھے؟ روس کو شام میں مداخلت کرنے کا الزام دینے سے
پہلے اپنی مداخلت کا الزام بھی اپنے آپ کو دینا چاہیے تھا۔ حالانکہ روس کی شام میں
مداخلت کا ایشیا اور افریقہ کے ملکوں نے خیر مقدم کیا تھا۔ انہیں امید تھی کہ
قوموں کو تباہ کرنے کا یہ سلسلہ اب بند ہونا چاہیے۔ شام میں روس کی مداخلت کی
حمایت دیکھ کر امریکہ اور یورپ بالخصوص برطانیہ کو حیرت ہوئی تھی۔ ان کے ڈیفنس اور
خارجہ پالیسی اسٹبیلشمنٹ بوکھلا گیے تھے۔
16 سال
سے کہیں بھی جنگوں میں کامیابی نہیں ہونے کی صورت میں Status quo کو Dismantle
کرنے کی آوازیں اٹھنے لگتی ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے انتخابی مہم اسٹبیلشمنٹ کے خلاف
چلائی تھی۔ جبکہ دونوں پارٹیوں کو اسٹبیلشمنٹ کی حمایت حاصل تھی۔ ڈونالڈ ٹرمپ کا
ان دونوں پارٹیوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ واشنگٹن کی سیاست سے بھی کوئی تعلق نہیں تھا۔
اس لئے امریکی عوام نے انہیں ووٹ دئیے تھے۔ صدر ٹرمپ نے America First اپنی ڈیفنس اور خارجہ پالیسی کا کارنر اسٹون بنایا تھا۔ نیٹو فوجی الائنس
میں صدر ٹرمپ کو زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔ نیٹو رکن ملکوں پر صدر ٹرمپ نے دو ٹوک
لفظوں میں یہ واضح کر دیا تھا کہ انہیں نیٹو کے اخراجات میں اپنا حصہ ادا کرنا ہو
گا۔ امریکہ اب اپنے اخراجات سے انہیں سیکورٹی فراہم نہیں کر سکتا ہے۔ یورپ میں
امریکہ کے روایتی اتحادیوں سے صدر ٹرمپ دور ہوتے جا رہے تھے۔ صدر ٹرمپ نے ابھی تک برطانیہ
کا دورہ نہیں کیا ہے۔ ویسے تو برطانیہ اور
امریکہ کے قدیم روایتی تعلقات میں عراق جنگ کے نتیجہ میں دڑاڑیں پڑ چکی تھیں۔ تاہم
روس کے ساتھ صدر ٹرمپ تعلقات کو خصوصی
اہمیت دینا چاہتے تھے۔ صدر ٹرمپ برطانیہ سے شاید اس قدر متاثر نہیں تھے کہ جتنا
روس سے متاثر تھے۔ اور ان کا اقتدار میں آنے کے پہلے دن سے جھکاؤ روس کی طرف تھا۔ تیسری
دنیا کے ملکوں میں جب بھی ایسی حکومتیں آئی تھیں جنہوں نے سوویت یونین سے قریبی
تعلقات قائم کرنے کو اہمیت دی تھی۔ ایسی حکومتوں کے پیچھے پھر سی آئی اے لگ جاتی
تھی۔ ان کے عوام میں ان لیڈروں کی مقبولیت کو Tarnish کرنے کا پراپگنڈہ
مہم شروع ہو جاتی تھی۔ ان کی کردار کشی ہونے لگتی تھی۔ پریس کو ان کے خلاف مضامین
لکھنے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔ اور اس وقت امریکہ صدر ٹرمپ کے ساتھ بالکل
ایسا ہی سلوک ہو رہا ہے۔ صدر ٹرمپ کے خلاف ایک نہیں بلکہ کئی تحقیقات ہو رہی ہیں۔ ہر
سکینڈل کے اندر ایک نیا سکینڈل نکل رہا ہے۔
اسٹبیلشمنٹ اپنی بھر پور طاقت کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ صدر ٹرمپ اگر آج اسٹبلیشمنٹ سے
سمجھوتہ کر لیں اور اسٹبلیشمنٹ کے صدر بن جائیں۔ اسی وقت ان کی زندگی میں امن آ جاۓ
گا۔
15ماہ
سے 2016 کے انتخاب میں روس کی meddling کی تحقیقات ہو رہی ہے۔ لیکن ابھی
سے نومبر میں 2018 کے مڈ ٹرم اور 2020 کے صدارتی انتخاب میں روس کی meddling کو
انٹیلی جنس حکام یقینی بتا رہے ہیں۔ آج امریکہ کے روس کے ساتھ تعلقات خروشیف دور سے
زیادہ خراب ہیں۔ روس کی نام نہاد meddling جیسے Cuban Missile Crisis بن
گیا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کی قومی سلامتی امور کے مشیر اور خارجہ پالیسی اسٹبلیشمنٹ
کے حکام نے صدر ٹرمپ کو صدر پو تن کی انتخاب میں کامیابی پر انہیں مبارک باد نہیں
دینے کی ہدایت کی تھی۔ لیکن صدر ٹرمپ نے ان کی ہدایت در گزر کرتے ہوۓ صدر پو تن کو
فون کیا اور انہیں انتخاب میں کامیابی کی مبارک باد دی اور ان سے مستقبل قریب میں
ملنے کا کہا۔ صدر ٹرمپ اور خارجہ پالیسی اسٹبلیشمنٹ میں یہ زبردست Tussle
جاری ہے۔ نظام میں تبدیلیاں انقلاب سے آتی ہیں۔ لیکن امریکہ جیسے مضبوط جمہوری
نظام میں پالیسیاں تبدیل کرنے کا انقلاب سیاسی عمل سے آتا ہے۔ امریکی عوام نے دنیا
بھرمیں امریکہ کی بڑھتی ہوئی فوجی مہم جوئیاں ختم کرنے اور واشنگٹن میں انقلابی
تبدیلیاں لانے کے لئے Donald J
Trump کو صدر منتخب کیا تھا۔ عوام کے اس
فیصلہ کے خلاف Forces بھر
پور مزاحمت کر رہی ہیں۔ اور با ظاہر اب یہ نظر آ رہا ہے کہ برطانیہ کی خارجہ
پالیسی اسٹبلیشمنٹ بھی اس مزاحمت میں امریکہ کی اسٹبلیشمنٹ کے ساتھ ہے۔ اس لئے صدر
ٹرمپ کے صدر پو تن کو فون کرنے اور ان سے جلد ملاقات کرنے کی خواہش کے فوری بعد
لندن نے صدر پو تن کو سابق روسی انٹیلی جنس افسر اور اس کی صاحبزادی کو زہر دینے کا
مجرم قرار نہیں دیا بلکہ ثابت کر دیا تھا۔ جس پارلیمنٹ کے سامنے وزیر اعظم Theresa May نے
صدر پو تن کو لندن کی سرزمین پر روسی کو زہر دینے کا مجرم قرار دیا تھا۔ اسی
پارلیمنٹ کے سامنے 15 سال قبل ایک دوسرے وزیر اعظم Tony Blair نے
یہ کہا تھا کہ صد ام چند سیکنڈ میں اپنے ایٹمی ہتھیار assemble کر کے لندن کو
تباہ کر سکتا ہے۔ وزیر اعظم David
Cameron نے قد ا فی کو اپنے مخالفین کا
قتل عام کر نے کا الزام دیا تھا اور لیبیا پر ایک غیر قانونی حملہ کیا تھا۔ صدر
ٹرمپ نے یہ بالکل درست کہا ہے کہ “We are not innocent”
برطانیہ یورپی یونین سے علیحدہ ہو رہا ہے۔ یورپ میں برطانیہ کے رول کا کیا
مستقبل ہو گا۔ برطانیہ کے سامنے یہ لیڈر شپ کا سوال ہے۔ جرمنی اور فرانس یورپ میں
برطانیہ کو کتنا حصہ دیں گے۔ اس کے لئے ان کے درمیان مذاکرات جاری ہیں۔ اس کے
علاوہ برطانیہ عالمی اسٹیج پر اپنا ایک رول بھی دیکھ رہا ہے۔ پونڈ کو عالمی کرنسی
بنانے کا منصوبہ ہے۔ لندن کا عالمی ٹریڈ سینٹر کا مقام بحال کرنے کا منصوبہ ہے۔ لہذا
ان عزائم کے پس منظر میں وزیر اعظم Theresa May نے ڈرامہ اسٹیج کیا اور صدر پو تن
کو مجرم بنا دیا۔ یورپ امریکہ اور کینیڈا برطانیہ کی قیادت کے پیچھے متحد ہو گیے
ہیں۔
روس
نے برطانیہ کے الزامات مسترد کر دئیے ہیں۔ اور تحقیقات میں مکمل تعاون کرنے کی پیشکش
کی ہے۔ ماسکو کی زہریلے samples
فراہم کرنے کی درخواست کو جو سابق روسی انٹیلی جنس افسر میں ملے تھے۔ برطانوی
حکومت نے مسترد کر دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تحقیقات مکمل ہونے سے پہلے وزیر اعظم May نے
صدر پو تن کو مجرم بنا دیا ہے۔