Saturday, March 31, 2018

European, American, And Canadian Jury Verdict: Mr. Putin Is Guilty


European, American, And Canadian Jury Verdict: Mr. Putin Is Guilty   

Jury Has Found Britain’s Accusations Are Credible

مجیب خان
Britain's Prime Minister Theresa May addressed the House of Common about Russian's nerve gas attack.

President Trump with NATO and European Union Leaders  


   ایک انتھک جد و جہد اور گراں قدر قربانیوں کے بعد دنیا کو نظریاتی تقسیم اور محاذ آ رائی کی سیاست سے نجات ملی تھی۔ یہ جد و جہد اور قربانیاں ایشیا افریقہ اور لاطین امریکہ کے ترقی پذیر ملکوں نے دی تھیں۔ اور مغربی ملکوں کو نظریاتی جنگ سے آزاد کرایا تھا۔ ایشیا افریقہ اور لاطین امریکہ کے عوام کو جنہوں نے سرد جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں دیں تھیں۔ انہیں امید تھی کہ مغربی ممالک روس کے ساتھ اب امن اور دوستی کے ساتھ رہیں گے۔ روس کے خلاف مغربی ملکوں کی زبان پر لفظ "دشمن" کبھی نہیں آۓ گا۔ دنیا میں صرف قانون اور انسانی حقوق کی بالا دستی ہو گی۔ امریکہ کے ذہن میں “Imperial Power” ہونے اور برطانیہ اور فرانس اور دوسرے یورپی ملکوں کے ذہنوں میں “Colonial Powers” ہونے کا Resurrection نہیں ہو گا۔ مغربی طاقتیں دنیا کے ملکوں کو اپنے کارخانے اور فیکٹریاں نہیں سمجھیں گی۔ اور ان پر اپنا تسلط قائم کرنے کی جنگیں نہیں کی جائیں گی۔ طاقتور قومیں اپنے عزائم میں کمزور قوموں کو Bully نہیں کریں گی۔ ان کا سیاسی اور اقتصادی استحصال نہیں کیا جاۓ گا۔ قانون اور انسانی حقوق کا اطلاق سب پر یکساں ہو گا۔ اور اسے Pick and Choose کی سیاست نہیں بنایا جاۓ گا۔ ایشیا افریقہ اور لاطین امریکہ نے اپنے ملکوں میں فوجی حکومتوں کا راج ختم کر دیا ہے۔ اور عوام کی منتخب حکومت کا نظام قائم کیا ہے۔ لیکن امریکہ اور مغربی طاقتوں نے دنیا میں اپنا فوجی راج قائم کر دیا ہے۔ فوجی سرگرمیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ فوجی ساز و سامان اس طرح فروخت کیا جا رہا ہے کہ جیسے یہ بنیادی انسانی ضرورت ہے۔ دنیا میں فوجی اڈے اس طرح پھیل رہے ہیں کہ جیسے مقبوضہ عرب علاقوں میں جگہ جگہ اسرائیلی فوجی اڈے ہیں۔ NATO جو مغربی ملکوں کے مفادات کی فوجی تنظیم ہے۔ اسے دنیا پر مسلط کیا جا رہا ہے۔ جن ملکوں نے فوجی حکومتوں کا نظام ختم کیا ہے۔ وہ NATO کو کیسے قبول کریں گے۔ اگر سرد جنگ ختم نہیں ہوتی تو آج عراق شام لیبیا یمن انسانی تباہی سے محفوظ ہوتے۔ دنیا کے بے شمار ملکوں کے لئے سرد جنگ کا خاتمہ Hell بنا ہے۔ مغربی طاقتوں نے انتہائی غیر ذمہ دار ہونے کا ثبوت دیا ہے۔
   مغربی دنیا میں ڈونالڈ ٹرمپ امریکہ کے پہلے صدر ہیں جنہوں نے یہ اعتراف کیا ہے کہ “We are not innocent” یہ اعتراف کرنا بڑی اچھی بات ہے۔ مغربی طاقتیں بالخصوص امریکہ اگر دوسروں کے داخلی معاملات میں مداخلت نہیں کرے تو دوسرے بھی ان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے۔ لیکن یہاں تو مداخلت بھاری ملٹری Infantry سے ہو رہی ہے۔ دوسرے ملکوں میں Regime change کس کا قانون ہے۔ شام کو کس قانون کے تحت مداخلت کر کے Ground Zero بنایا گیا ہے۔ روس  تو بالکل آخر میں بچی کھچی انسانیت کے بچے کھچے ملک کو بچانے آیا تھا۔ امریکہ اور مغربی ملکوں نے اسے شام میں روس کی مداخلت کہنا شروع کر دیا تھا۔ لیکن 5سال سے امریکہ برطانیہ فرانس اور ان کے عرب اتحادی شام میں کیا کر رہے تھے؟ روس کو شام میں مداخلت کرنے کا الزام دینے سے پہلے اپنی مداخلت کا الزام بھی اپنے آپ کو دینا چاہیے تھا۔ حالانکہ روس کی شام میں مداخلت کا ایشیا اور افریقہ کے ملکوں نے خیر مقدم کیا تھا۔ انہیں امید تھی کہ قوموں کو تباہ کرنے کا یہ سلسلہ اب بند ہونا چاہیے۔ شام میں روس کی مداخلت کی حمایت دیکھ کر امریکہ اور یورپ بالخصوص برطانیہ کو حیرت ہوئی تھی۔ ان کے ڈیفنس اور خارجہ پالیسی اسٹبیلشمنٹ بوکھلا گیے تھے۔
  16 سال سے کہیں بھی جنگوں میں کامیابی نہیں ہونے کی صورت میں Status quo کو Dismantle کرنے کی آوازیں اٹھنے لگتی ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے انتخابی مہم اسٹبیلشمنٹ کے خلاف چلائی تھی۔ جبکہ دونوں پارٹیوں کو اسٹبیلشمنٹ کی حمایت حاصل تھی۔ ڈونالڈ ٹرمپ کا ان دونوں پارٹیوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ واشنگٹن کی سیاست سے بھی کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس لئے امریکی عوام نے انہیں ووٹ دئیے تھے۔ صدر ٹرمپ نے America First اپنی ڈیفنس اور خارجہ پالیسی کا کارنر اسٹون بنایا تھا۔ نیٹو فوجی الائنس میں صدر ٹرمپ کو زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔ نیٹو رکن ملکوں پر صدر ٹرمپ نے دو ٹوک لفظوں میں یہ واضح کر دیا تھا کہ انہیں نیٹو کے اخراجات میں اپنا حصہ ادا کرنا ہو گا۔ امریکہ اب اپنے اخراجات سے انہیں سیکورٹی فراہم نہیں کر سکتا ہے۔ یورپ میں امریکہ کے روایتی اتحادیوں سے صدر ٹرمپ دور ہوتے جا رہے تھے۔ صدر ٹرمپ نے ابھی تک برطانیہ کا  دورہ نہیں کیا ہے۔ ویسے تو برطانیہ اور امریکہ کے قدیم روایتی تعلقات میں عراق جنگ کے نتیجہ میں دڑاڑیں پڑ چکی تھیں۔ تاہم روس کے ساتھ  صدر ٹرمپ تعلقات کو خصوصی اہمیت دینا چاہتے تھے۔ صدر ٹرمپ برطانیہ سے شاید اس قدر متاثر نہیں تھے کہ جتنا روس سے متاثر تھے۔ اور ان کا اقتدار میں آنے کے پہلے دن سے جھکاؤ روس کی طرف تھا۔ تیسری دنیا کے ملکوں میں جب بھی ایسی حکومتیں آئی تھیں جنہوں نے سوویت یونین سے قریبی تعلقات قائم کرنے کو اہمیت دی تھی۔ ایسی حکومتوں کے پیچھے پھر سی آئی اے لگ جاتی تھی۔ ان کے عوام میں ان لیڈروں کی مقبولیت کو Tarnish کرنے کا پراپگنڈہ مہم شروع ہو جاتی تھی۔ ان کی کردار کشی ہونے لگتی تھی۔ پریس کو ان کے خلاف مضامین لکھنے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔ اور اس وقت امریکہ صدر ٹرمپ کے ساتھ بالکل ایسا ہی سلوک ہو رہا ہے۔ صدر ٹرمپ کے خلاف ایک نہیں بلکہ کئی تحقیقات ہو رہی ہیں۔ ہر سکینڈل کے اندر ایک  نیا سکینڈل نکل رہا ہے۔ اسٹبیلشمنٹ اپنی بھر پور طاقت کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ صدر ٹرمپ اگر آج اسٹبلیشمنٹ سے سمجھوتہ کر لیں اور اسٹبلیشمنٹ کے صدر بن جائیں۔ اسی وقت ان کی زندگی میں امن آ جاۓ گا۔
  15ماہ سے 2016 کے انتخاب میں روس کی meddling کی تحقیقات ہو رہی ہے۔ لیکن ابھی سے نومبر میں 2018 کے مڈ ٹرم اور 2020 کے صدارتی انتخاب میں روس کی meddling کو انٹیلی جنس حکام یقینی بتا رہے ہیں۔ آج امریکہ کے روس کے ساتھ تعلقات خروشیف دور سے زیادہ خراب ہیں۔ روس کی نام نہاد meddling جیسے Cuban Missile Crisis بن گیا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کی قومی سلامتی امور کے مشیر اور خارجہ پالیسی اسٹبلیشمنٹ کے حکام نے صدر ٹرمپ کو صدر پو تن کی انتخاب میں کامیابی پر انہیں مبارک باد نہیں دینے کی ہدایت کی تھی۔ لیکن صدر ٹرمپ نے ان کی ہدایت در گزر کرتے ہوۓ صدر پو تن کو فون کیا اور انہیں انتخاب میں کامیابی کی مبارک باد دی اور ان سے مستقبل قریب میں ملنے کا کہا۔ صدر ٹرمپ اور خارجہ پالیسی اسٹبلیشمنٹ میں یہ زبردست Tussle جاری ہے۔ نظام میں تبدیلیاں انقلاب سے آتی ہیں۔ لیکن امریکہ جیسے مضبوط جمہوری نظام میں پالیسیاں تبدیل کرنے کا انقلاب سیاسی عمل سے آتا ہے۔ امریکی عوام نے دنیا بھرمیں امریکہ کی بڑھتی ہوئی فوجی مہم جوئیاں ختم کرنے اور واشنگٹن میں انقلابی تبدیلیاں لانے کے لئے Donald J Trump کو صدر منتخب کیا تھا۔ عوام کے اس فیصلہ کے خلاف Forces بھر پور مزاحمت کر رہی ہیں۔ اور با ظاہر اب یہ نظر آ رہا ہے کہ برطانیہ کی خارجہ پالیسی اسٹبلیشمنٹ بھی اس مزاحمت میں امریکہ کی اسٹبلیشمنٹ کے ساتھ ہے۔ اس لئے صدر ٹرمپ کے صدر پو تن کو فون کرنے اور ان سے جلد ملاقات کرنے کی خواہش کے فوری بعد لندن نے صدر پو تن کو سابق روسی انٹیلی جنس افسر اور اس کی صاحبزادی کو زہر دینے کا مجرم قرار نہیں دیا بلکہ ثابت کر دیا تھا۔ جس پارلیمنٹ کے سامنے وزیر اعظم Theresa May نے صدر پو تن کو لندن کی سرزمین پر روسی کو زہر دینے کا مجرم قرار دیا تھا۔ اسی پارلیمنٹ کے سامنے 15 سال قبل ایک دوسرے وزیر اعظم Tony Blair نے یہ کہا تھا کہ صد ام چند سیکنڈ میں اپنے ایٹمی ہتھیار assemble کر کے لندن کو تباہ کر سکتا ہے۔ وزیر اعظم David Cameron نے قد ا فی کو اپنے مخالفین کا قتل عام کر نے کا الزام دیا تھا اور لیبیا پر ایک غیر قانونی حملہ کیا تھا۔ صدر ٹرمپ نے یہ بالکل درست کہا ہے کہ  “We are not innocent”
  برطانیہ یورپی یونین سے علیحدہ ہو رہا ہے۔ یورپ میں برطانیہ کے رول کا کیا مستقبل ہو گا۔ برطانیہ کے سامنے یہ لیڈر شپ کا سوال ہے۔ جرمنی اور فرانس یورپ میں برطانیہ کو کتنا حصہ دیں گے۔ اس کے لئے ان کے درمیان مذاکرات جاری ہیں۔ اس کے علاوہ برطانیہ عالمی اسٹیج پر اپنا ایک رول بھی دیکھ رہا ہے۔ پونڈ کو عالمی کرنسی بنانے کا منصوبہ ہے۔ لندن کا عالمی ٹریڈ سینٹر کا مقام بحال کرنے کا منصوبہ ہے۔ لہذا ان عزائم کے پس منظر میں وزیر اعظم Theresa May نے ڈرامہ اسٹیج کیا اور صدر پو تن کو مجرم بنا دیا۔ یورپ امریکہ اور کینیڈا برطانیہ کی قیادت کے پیچھے متحد ہو گیے ہیں۔
   روس نے برطانیہ کے الزامات مسترد کر دئیے ہیں۔ اور تحقیقات میں مکمل تعاون کرنے کی پیشکش کی ہے۔ ماسکو کی زہریلے samples فراہم کرنے کی درخواست کو جو سابق روسی انٹیلی جنس افسر میں ملے تھے۔ برطانوی حکومت نے مسترد کر دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تحقیقات مکمل ہونے سے پہلے وزیر اعظم May نے صدر پو تن کو مجرم بنا دیا ہے۔
 
                                                   


Tuesday, March 27, 2018

Young Saudi Leader Is Fully Loaded With Weapons And Vengeance Ideas


Young Saudi Leader Is Fully Loaded With Weapons And Vengeance Ideas

مجیب خان
President Donald Trump and Crown Prince Mohammed Bin Salman

President Trump Meets With Saudi Crowned Prince

President Donald Trump holds a chart of military hardware sales to Saudi Arabia's
    سعودی شاہی خاندان میں کبھی کوئی Statesman نہیں تھا۔ کوئی ایسی شخصیت نہیں آئی تھی جس میں Charismatic Leader کی خصوصیات تھیں۔ ایسا کوئی Intellect Diplomate نہیں آیا تھا جس نے عالمی اسٹیج پر اسلامی دنیا کا ایک متحرک بلاک بنانے اور اسے دنیا سے تسلیم کرنے میں کوئی رول ادا کیا تھا۔ سعودی شاہی خاندان میں ایسی قیادت نہیں تھی جس کا اسلامی دنیا کے بارے میں کوئی Vision تھا نہ ہی عرب دنیا کے بارے میں کوئی قابل قدر سوچ تھی۔ سعودی عرب کی قیادت نے اسلامی دنیا کو امریکہ اور مغربی طاقتوں کا محتاج بنا دیا تھا۔ سرد جنگ کی سیاست کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اسلامی ملکوں کو سرد جنگ کی سیا ست میں ملوث نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اسلامی ملکوں کے لئے سرد جنگ میں مغربی طاقتوں کے ساتھ شامل ہونے کے اتنے فائدے نہیں تھے کہ جتنے نقصانات تھے۔ اسلامی دنیا نے سعودی قیادت کو حرمین شر فین تسلیم کیا تھا۔ اس لئے یہ اس کی تقلید کرتے تھے۔ حالانکہ سرد جنگ مغرب کے سرمایہ دارا نہ نظام اور مشرق کے اشتراکی نظام میں تھی۔ شرعی نظام کے حامیوں نے ان کی جنگ میں اپنی ٹانگ صرف سعودی قیادت کے کہنے پر اڑائی تھی۔ سرد جنگ ختم ہونے سے انہیں کیا ملا تھا۔ اور سرد جنگ جاری رہنے سے ان کا کیا نقصان تھا۔ سعودی قیادت ساری اسلامی دنیا کو تباہی کی کھائی کے کنارے پر لے آئی ہے۔ مڈل ایسٹ بے گناہ لوگوں کے خون میں ڈوبا ہوا ہے۔ عرب اسرائیل تنازعہ حل کرنے اور عربوں کے مقبوضہ علاقہ آزاد کرانے کے بجاۓ۔ شاہی خاندان کے مغربی اتحادیوں نے اسلامی دنیا میں 100 نئے تنازعہ اور مسائل پیدا کر دئیے ہیں۔ تقریباً ہر اسلامی ملک اس وقت کسی نہ کسی جنگ کا سامنا کر رہا ہے۔ اسلامی دنیا کے لئے یہ سعودی قیادت کی ناکامی کے ثبوت ہیں۔
   اب شہزادوں کی جس نئی نوجوان قیادت کو آگے لایا جا رہا ہے۔ وہ پرانی عمر رسیدہ قیادت سے زیادہ مختلف نظر نہیں آ رہی ہے۔ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ابھی تک ایسی کوئی نئی باتیں نہیں کی ہیں کہ جن سے ان میں Statesman ہونے کی صلاحیتیں نظر آتی ہیں۔ پریس کی آزادی کے بغیر عورتوں کی آزادی یا سعودی لڑکیوں اور لڑکوں کے لئے موسیقی کے Concerts کا انعقاد ہونے کی آزادی کوئی آزادی نہیں ہے۔ اظہار خیال اور پریس کی آزادی کو آزادی کہا جاتا ہے۔ اور اس آزادی کو فروغ دینے سے لیڈر میں Statesman ہونے کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا جاتا ہے۔ سعودی حکومت نے سینما ہال کھول دئیے ہیں۔ لیکن ٹیلی ویژن بند ر کھے ہیں۔ ولی عہد شہزادہ محمد 32 سال کے ہیں۔ ان کی نسل کے مستقبل کے بارے میں ولی عہد کا کیا Vision ہے۔ وہ اس نسل کو آئندہ 50سال میں کدھر لے جائیں گے۔ بادشاہوں نے گزشتہ 50سال میں تین نسلوں کو جہادی بنا کر تباہ کیا تھا۔ اس میں اسلامی دنیا کی نسلیں بھی شامل تھیں۔
    ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے عرب اسلامی دنیا کے اتحاد اور یکجہتی کے بارے میں ابھی تک کوئی بیان نہیں دیا ہے۔ عرب اسلامی دنیا اس وقت جس انتشار اور خطروں میں ہے اس پر بھی ولی عہد شہزادہ محمد نے اظہار خیال نہیں کیا ہے۔ لیکن سنی شیعہ میں عرب اسلامی دنیا کو تقسیم کرنے کی ولی عہد محمد نے امریکہ کے دورے میں بات کی ہے۔ لندن کے دورے میں بات کی ہے۔ مصر کے دورے میں بات کی ہے۔ سعودی عرب میں بیٹھ کر شیعاؤں کے خلاف نفرت کی باتیں کی ہیں۔ ولی عہد شہزادہ محمد کی شیعاؤں اور ایران کے خلاف باتوں سے اسرائیل ضرور خوش ہوتا ہو گا۔ لیکن عرب اسلامی دنیا کو ولی عہد کی ان باتوں سے ضرور اختلاف ہو گا۔ بھارت کی ہندو حکومت بھی ولی عہد کے ان بیانات سے اختلاف کرتی ہو گی۔ کیونکہ بھارت میں بھی شیعاؤں کی ایک بہت بڑی آبادی ہے۔ ولی عہد نے اب تک جو بیانات دئیے ہیں وہ صرف جنگ، لڑائیوں اور نفرت پر تھے۔ قطر جو ایک سنی ریاست ہے۔ اس کے ساتھ بھی سعودی عرب کی جنگ جاری ہے۔ یمن کے ساتھ سعودی عرب کی جنگ کو تین سال ہو گیے ہیں۔ اس جنگ میں سعودی عرب نے اب تک 100بلین ڈالر کا اسلحہ پھونک دیا ہے لیکن اسے ایک انچ کی کامیابی نہیں ہوئی ہے۔ یہ جنگ ولی عہد بننے سے پہلے شہزادہ محمد نے شروع کی تھی۔ اور اس جنگ کو تین سال ہو گیے ہیں۔ ولی عہد کے حالیہ دورہ امریکہ میں امریکی سیکرٹیری دفاع James Mittis نے یمن جنگ فوری طور پر ختم کرنے پر زور دیا ہے۔ لندن کے دورے  میں ولی عہد شہزادہ محمد کے خلاف یمن میں بے گناہ شہریوں کی ہلاکتوں پر مظاہرے ہوۓ تھے۔ ایک امریکی ٹی وی چینل سے انٹرویو میں ولی عہد شہزادہ محمد سے جب قطر کی ناکہ بندی ختم کرنے کے بارے میں سوال کیا گیا تو ولی عہد شہزادہ محمد کا جواب یہ تھا کہ "امریکہ نے 60سال سے کیوبا کی ناکہ بندی کی ہوئی ہے۔ قطر کی ناکہ بندی بھی 60سال تک ہو سکتی ہے۔" گزشتہ ماہ مصر کے دورے میں ولی عہد شہزادہ محمد نے ترکی، ایران اور اسلامی انتہا پسند گروپوں کو “Triangle of Evil” کہا تھا۔ ولی عہد شہزادہ محمد نے ترکی کو اسلامی خلافت بحال کرنے کی کوششوں کا الزام دیا تھا۔ اس سے پہلے سعودی ولی عہد نے سو سال قبل سلطنت عثمانیہ میں عربوں کا قتل عام کرنے کا الزام دیا تھا۔ اس کے جواب میں پھر ترکی کا پنڈ و رہ با کس بھی کھل سکتا ہے کہ سعود قبیلے نے انگریزوں کے ساتھ  سلطنت عثمانیہ کے خلاف جنگ کی تھی۔ اور ہزاروں ترکوں کو قتل کیا تھا۔ ولی عہد شہزادہ محمد میں یہ سیاسی شعور نہیں ہے کہ کیا بات کر نے کی ہے اور کیا بات نہیں کرنے کی ہے۔ 100سال یا 1400 سال پرانی باتیں کر کے ولی عہد شہزادہ محمد سعودی عرب کو 21ویں صدی کی ترقی یافتہ ریاست بنانے کی طرف نہیں لے جائیں گے۔ بلکہ ماضی کی تاریخ کا قیدی بنا دیں گے۔ سعودی عرب نے 50سال اسلامی انتہا پسندوں کی پرورش عرب سیکولر قوم پرستوں سے جو ماسکو نواز تھے، لڑنے کے لئے دی تھی۔ پھر مغربی ملکوں نے بھی انہیں اپنے مفاد میں استعمال کیا تھا۔ تاریخ کبھی آدھا گلاس نہیں ہوتی ہے۔ اس آدھے گلاس میں مغربی طاقتیں بے گناہ ہیں اور نہ سعودی معصوم ہیں۔ بہرحال ولی عہد کو یہ نفرت کی باتیں نہیں کرنا چاہیے تھیں۔ وہ سعودی عرب کو ایک جدید اور ترقی یافتہ ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ اپنے اس مشن کی تکمیل کے لئے ولی عہد شہزادہ محمد کو دشمنوں کو بھی دوست بنانا ہو گا اور انہیں بھی اپنے ساتھ لے کر چلنا ہو گا۔ برطانیہ جرمنی کے بغیر اور جرمنی فرانس کے بغیر کبھی اتنی ترقی یافتہ قومیں نہیں ہو سکتے تھے۔ بلکہ یورپ میں ترقی ایک دوسرے کی ترقی کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ ولی عہد شہزادہ محمد کو 100سال پرانی تاریخ میں جانے کے بجاۓ ذرا یورپ کے ملکوں کی ترقی کی تاریخ کو دیکھنا چاہیے۔
    سعودی ولی عہد شہزادہ محمد کے دورہ واشنگٹن سے پہلے اسرائیل کے وزیر اعظم نتھن یا ہو امریکہ آۓ تھے۔ وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ سے ملے تھے۔ صدر ٹرمپ سے ملاقات کے بعد وزیر اعظم نتھن یا ہو سے اس ملاقات میں گفتگو کے موضوع پر سوال کیا گیا تھا۔ جس پر وزیر اعظم نتھن یا ہو کا جواب تھا "ایران ایران ایران" اس سے آ گے  انہوں نے کچھ نہیں کہا تھا۔ سعودی ولی عہد محمد کے چھوٹے بھائی 28سالہ شہزادہ خالد بن سلمان السعود  واشنگٹن میں سعودی عرب کے سفیر ہیں۔ ولی عہد کے دورہ امریکہ سے ایک روز قبل شہزادہ خالد واشنگٹن میں سعودی سفیر سی این این کے ایک پروگرام میں آۓ تھے۔ ان سے یمن میں بے گناہ شہریوں کی مسلسل ہلاکتوں کے بارے میں سوال کیا گیا تھا۔  جس کے جواب میں شہزادہ خالد نے ایران کا تقریباً دس مرتبہ نام لیا تھا۔ یمن میں شہریوں کی ہلاکتوں کا الزام ایران کو دیا تھا۔ یہ سیاست صدر جارج بش کی تھی کہ اپنی پالیسیوں کی ناکامی، اپنے جنگوں کے فیصلہ کا الزام، اپنے فوجی ہتھیاروں سے بے گناہ لوگوں کی ہلاکتوں کا الزام اور ذمہ دار دوسروں کو ٹھہراتے تھے۔ یہاں تک کہ عراق پر حملہ کا الزام بھی صد ام حسین کو دیا تھا کہ انہوں نے یہ کیوں نہیں بتایا تھا کہ ان کے پاس مہلک ہتھیار نہیں تھے۔ پھر اس کا جواب بھی بش انتظامیہ نے یہ دیا تھا کہ وہ ایران کو یہ تاثر دینا چاہتے تھے کہ عراق کے پاس ایٹمی ہتھیار تھے۔
   اب سعودی عرب اور اسرائیل کی سوچ یہ ہے کہ اگر ایران کا خاتمہ ہو جاۓ تو مڈل ایسٹ کے تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔ مڈل ایسٹ امن کی جنت بن جاۓ گا۔ یہ non sense لوگوں کی انتہائی mean سوچ ہے۔ جن کے ذہن نفرتوں سے بھرے ہوتے ہیں ان کی سوچ کبھی مثبت نہیں ہوتی ہے۔ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے مڈل ایسٹ میں امن اور استحکام کی ابھی تک کوئی بات نہیں کی ہے۔ مڈل ایسٹ سے جنگوں کا خاتمہ کرنے کے بارے میں ان کے پاس جیسے کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ سعودی عرب جتنا زیادہ ہتھیاروں پر خرچ کر رہا ہے اتنا ہی زیادہ سعودی عرب جنگوں میں دھنستا جا رہا ہے۔ امریکہ برطانیہ اور فرانس نے مڈل ایسٹ کو جنگوں کا گھڑ صرف اپنے ہتھیاروں کی صنعت کو پالنے کے لئے بنایا ہے۔ صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں ولی عہد شہزادہ محمد سے کہا کہ "سعودی عرب دنیا کا مالدار ملک ہے اور ہم سے دولت share کرو۔ ہم سے ہتھیار خریدو۔"
   آج کی خطرناک دنیا میں امریکہ کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کہ اس کے مفادات کس طرح بدل جاتے ہیں۔ اس کی پالیسیوں میں رنگ کب بدلتے ہیں۔ یہ 100سال پرانی تاریخ نہیں ہے۔ یہ صرف 16سال قبل کی بات ہے کہ امریکہ کو اس پر سخت پریشانی تھی کہ پاکستان سعودی عرب کو ایٹمی ہتھیار فروخت کرے گا۔ پاکستان سعودی عرب کو ایٹمی ٹیکنالوجی فراہم کرے گا۔ سعودی شاہ عبداللہ نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ اور پاکستان میں انہیں ایٹمی پلانٹ دکھاۓ گیے تھے۔ جس پر بش انتظامیہ میں کھلبلی پھیل گئی تھی۔ اور پاکستان پر کڑی نظر رکھنے کی آوازیں اٹھنے لگی تھیں۔ 16سال بعد وائٹ ہاؤس میں جو انتظامیہ آئی ہے۔ وہ سعودی عرب کو ایٹمی پلانٹ ‌فروخت کر ہی ہے۔ یہ فیصلہ صرف ایٹمی پلانٹ بنانے والی کمپنیوں کے مفاد میں کیا جا رہا ہے۔ پھر کچھ عرصہ بعد جب کوئی نئی انتظامیہ آئی گی وہ یہ فیصلہ کرے گی کہ سعودی عرب میں ایٹمی پاور پلانٹ امریکہ کی سلامتی کے مفاد کے لئے خطرہ ہیں؟ صد ام حسین کے پاس ایٹمی ٹیکنالوجی آسمان سے نہیں آئی تھی۔ یہ مغربی ملکوں نے عراق کو فروخت کی تھی۔ اور ان کی کمپنیوں نے کھربوں ڈالر بناۓ تھے۔ عراق میں ایٹمی پلانٹ لگنے کے بعد پھر اسرائیل کو یہ اشارہ کر دیا کہ وہ عراق کے ایٹمی پلانٹ اب تباہ کر دے۔ مڈل ایسٹ دنیا کا ایک ایسا خطہ ہے جہاں تمام فیصلہ اور کام غیر قانونی ہوتے ہیں۔ اسرائیل نے غیر قانونی طور پر عراق پر حملہ کر کے اس کے ایٹمی پلانٹ تباہ کر دئیے تھے۔ اسی طرح لیبیا کے ساتھ بھی ہوا تھا۔ اسے بھی ایٹمی ٹیکنالوجی، Biological اور خطرناک Chemical ہتھیار فروخت کیے گیے تھے۔ مغربی کمپنیوں نے کھربوں ڈالر منافع بنایا تھا۔ پھر امریکہ نے لیبیا پر اقتصادی بندشیں لگا دی تھیں۔ اور مہلک ہتھیاروں کو تباہ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ لیکن امریکہ اور مغربی حکومتوں نے اپنی کمپنیوں پر یہ بندش کبھی نہیں لگائی تھی کہ مڈل ایسٹ میں کسی بھی ملک کو مہلک ہتھیار فروخت نہیں کیے جائیں۔ سعودی عرب نے اس سے کیا سبق سیکھا ہے؟ لاکھوں اور کھربوں ڈالر ہتھیاروں پر خرچ  کر کے اپنے آپ کو ہتھیاروں میں دفن کرنا ہے۔                                                     

Thursday, March 22, 2018

Back At Square One: Restoration Of The Cold War


 Back At Square One: Restoration Of The Cold War
     
First British women Prime Minister Margaret Thatcher 'We can do Business with Mikhail Gorbachev

'Second British women Prime Minister Theresa May 'Relations can not be normal with Mr. Putin


Mr. Putin is not Stalin and nor is Brezhnev, he is a Nationalist Orthodox Christian. Mr. Putin has intervened to defend the Syria and to protect the roots of Orthodox Christianity in the Middle East. Propaganda against him based on accusations is a trash Politics.     

  مجیب خان
    
   35سال قبل برطانیہ کی پہلی خاتون وزیر اعظم مارگی تھیچر نے سوویت یونین کے رہنما میکائیل گار با چو ف سے لندن میں ملاقات کے بعد مغرب کو یہ پیغام دیا تھا کہ "ہم میکائیل گار با چو ف کے ساتھ کاروبار کر سکتے ہیں۔" وزیر اعظم تھیچر کا کاروبار سے مطلب گار با چو ف کے ساتھ سیاسی معاملات طے کیے جا سکتے ہیں۔ اور سوویت یونین کے رہنما میکائیل گار با چو ف نے مغرب کے ساتھ تمام سیاسی معاملات پر سمجھوتہ کر لیا تھا۔ جسے صدر پو تن نے 20ویں صدی کی ایک بڑی غلطی کہا ہے۔ سوویت ایمپائر کے گرنے سے دنیا کی بنیادیں جیسے ہل گئی تھیں۔ دنیا کی بنیادیں آج اتنی مضبوط نہیں ہیں کہ جیتنی یہ سرد جنگ کے دور میں تھیں۔ سوویت ایمپائر گرنے سے مغرب نے سب کچھ حاصل کر لیا تھا۔ لیکن ان قوموں کو کچھ نہیں ملا تھا جنہوں نے سرد جنگ لڑی تھی اور قربانیاں دی تھیں۔ اور انہیں سہا نے خواب دکھاۓ گیے تھے۔ دنیا کا امن ایمپائر کے ملبے  میں دبا ہوا ہے۔ سرد جنگ ختم ہونے کے بعد دنیا میں Imperial اور Colonial طاقتوں کا Resurgence ہو گیا تھا۔ صدر پو تن نے دنیا کا یہ نقشہ دیکھ کر سوویت یونین کے زوال کو 20صدی کی ایک بڑی غلطی کہا تھا۔ اور یہ اس غلطی کا شاید اعتراف ہے کہ امریکہ برطانیہ اور مغرب روس کے ساتھ اب سرد جنگ کو Restore کر رہے ہیں۔
   اور اب برطانیہ کی ایک دوسری خاتون وزیر اعظم Theresa May نے کہا ہے کہ صدر ولا دیمر پو تن کے ساتھ تعلقات معمول کے نہیں ہو سکتے ہیں۔ وزیر اعظم Theresa May نے برطانیہ کی سرزمین پر ایک سابق روسی جاسوس کو Poison دینے کے خلاف سخت رد عمل کیا ہے۔ 23 روسی سفارت کاروں کو برطانیہ سے نکال دیا ہے۔ روس کے وزیر خارجہ Sergey Lavrov کو برطانیہ آنے سے روک دیا ہے۔ روسی نیوز چینل RT کا لائیسنس منسوخ کرنے کا کہا ہے۔ روس نے برطانیہ کے تمام الزامات مسترد کرتے ہوۓ کہا ہے کہ حکومت برطانیہ کو سنجیدگی سے اس کی تحقیقات کرانا چاہیے۔ الزام دینے سے پہلے اس کے ثبوت سامنے لانا چاہیے۔ ماسکو نے بھی برطانیہ کے 23 سفارت کاروں کو روس چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔ اور برٹش کونسل کو بند کر دیا ہے۔ برطانیہ میں سرد جنگ کے پارٹ ٹو کی سنگ بنیاد رکھ دی گئی ہے۔
   اوبامہ انتظامیہ نے 2016میں 35 روسی سفارت کاروں کو کسی سابق روسی جاسوس کو زہر دینے پر نہیں بلکہ امریکہ کے انتخاب میں زہریلی آلودگی پھیلانے کے الزام میں امریکہ سے نکال دیا تھا۔ 2016 کے صدارتی انتخاب میں روس کی مداخلت کو September the Eleven کے حملہ سے بڑا امریکہ کے جمہوری نظام پر حملہ کہا جا رہا تھا۔ حالانکہ امریکی ووٹرز کا کہنا یہ تھا کہ 2016 کے صدارتی انتخاب کا فیصلہ ہمارے ووٹوں سے ہوا تھا۔ صدارتی انتخاب کو پندرہ ماہ ہو گیے ہیں۔ لیکن روس کی مداخلت کے کوئی ٹھوس ثبوت ابھی تک عوام کے سامنے نہیں لاۓ گیے ہیں۔ تاہم یہ الزامات روس کے ساتھ تعلقات سرد جنگ سے زیادہ خطرناک سطح پر لے آۓ ہیں۔ لیکن امریکہ کے ادارے تاہم تمام خطروں سے محفوظ ہیں اور مستحکم ہیں۔ امریکی عوام کو یہ معلوم نہیں ہے کہ مداخلت کیا ہوتی ہے؟ یہ جاننے کے لئے انہیں ایشیا افریقہ اور لاطین امریکہ کے ملکوں میں مداخلت کی تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ جہاں امریکہ برطانیہ اور فرانس کی مداخلت کے زخموں سے ملک ابھی تک پوری طرح صحت یاب نہیں ہو سکے ہیں۔ ان ملکوں میں حکومتوں کے تختہ الٹے گیے تھے۔ فوجی ڈکٹیٹروں کو عوام پر مسلط کیا گیا تھا۔ پھر عوام کی مرضی کے خلاف ان ڈکٹیٹروں سے اپنے مفاد کے کام کرواۓ گیے تھے۔ عوام کے انسانی حقوق پامال کیے گیے تھے۔ انہیں جمہوریت سے محروم رکھا تھا۔ یہ امریکہ اور برطانیہ کی ایران میں مداخلت تھی جس نےایرانیوں کی منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹا تھا۔ اور شاہ ایران کی آمریت ان پر مسلط کی تھی۔ مڈل ایسٹ میں سارے حکمران امریکہ برطانیہ اور فرانس کے مفاد میں عوام پر مسلط ہیں۔ ان کے عوام کا ان حکم رانوں میں کوئی مفاد نہیں ہے۔ مڈل ایسٹ میں مسلسل انتشار اور انتہا پسندی کے یہ  المناک اسباب ہیں۔
    سرد جنگ ختم ہونے کے یہ مداخلت خطرناک حد تک بہت بڑھ گئی تھی۔ صدر جارج ایچ بش نے سب سے پہلے امریکی فوجیں ایک Sovereign ملک پا نا مہ میں بھیجی تھیں۔ اور یہ فوجیں صدر Manual Noriega کو اس کے صدارتی محل سے گرفتار کر کے اور ہتھکڑیاں لگا کر فلوریڈا لائی تھیں۔ نہ صرف یہ بلکہ Noriega کے خلاف عدالتی کاروائی کو خفیہ رکھا گیا تھا۔ Noriega نے اپنی صفائی میں کیا کہا تھا اسے دنیا کے سامنے نہیں آنے دیا تھا۔ Noriega پا نا مہ کے1983 سے صدر تھے۔ امریکہ کی انٹیلی جنس ایجنسیوں سے ان کے تعلقات تھے۔ لاطین امریکہ میں دائیں اور بائیں بازو کی لڑائیوں میں Noriega کے ذریعہ دائیں بازو کی پارٹیوں کو ہتھیار اور ڈالر فراہم کیے جاتے تھے۔  Noriegaسے منی لانڈرنگ کا کام بھی  لیا جاتا تھا۔ اور منی لانڈرنگ سے  دائیں بازو کی تنظیموں کو سپورٹ کیا جاتا تھا۔ سرد جنگ ختم ہونے کے بعد Noriega امریکہ کے خلاف ہو گیا تھا۔ صدر بش سینیئر نے1990 میں اقتدار میں آنے کے بعد پہلی کاروائی Noriega کے خلاف کی تھی۔ اس کے بعد سے قوموں کی Sovereignty کو روندنا ایک نیا قانون بن گیا تھا۔ صدر بش سینیئر 70s میں سی آئی اے کے ڈائریکٹر تھے۔
    ویلادیمیر پو تن کا کے جی بی سے تعلق تھا۔ مغربی جرمنی میں کے جی بی کے اسٹیشن چیف تھے۔ لیکن سرد ختم ہونے کے بعد بالخصوص صدر پو تن کے اقتدار میں آنے کے بعد روس نے کسی ملک کے اندرونی معاملات میں کبھی مداخلت نہیں کی تھی۔ کسی ملک کے خلاف جارحیت نہیں کی تھی۔ کسی ملک کے خلاف Preemptive حملہ نہیں کیا تھا۔ جس طرح پا نا مہ میں صدر Noriega کے ساتھ کیا گیا تھا اگر یہ روس کرتا تو سرد جنگ ختم ہونے کے 6ماہ بعد دوبارہ شروع ہو جاتی۔ برطانوی وزیر اعظم Theresa May کو اب قانون کی بالا دستی کا خیال آیا ہے۔ انسانی حقوق اور شہری حقوق بھی یاد آ گیے ہیں۔ گزشتہ 20سال میں کون قانون کی بالا دستی کی دھجیاں بکھیر رہا ہے؟ کون انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیاں کر رہا ہے؟ کون چھوٹے اور کمزور ملکوں کو تباہ کر رہا ہے؟ کون سیاسی قیدیوں کو اذیتیں دے رہا تھا؟ گوتاموبے نظر بندی کیمپ کس کی سرزمین پر ہے؟ عراق، شام، لیبیا، یمن کس کی جارحیت کا شکار بنے ہیں؟ ان ملکوں میں انسانیت کے خلاف جرائم کون کر رہا ہے؟ روس کو اب شام میں مداخلت کرنے کا الزام دیا جا رہا ہے۔ ایران کو عراق اور یمن میں مداخلت کرنے کا الزام دیا جا رہا ہے۔  شام میں بے گناہ شہریوں کی ہلاکتوں کا ذمہ دار صدر پو تن کو قرار دیا جا رہا ہے۔ جبکہ دنیا حقائق سے با خوبی واقف ہے۔ شام میں روس کی آمد سے قبل 5سال سے جاری خانہ جنگی میں ایک ملین شامی ہلاک ہو چکے تھے۔ روس شام کی خانہ جنگی میں ستمبر 2015 میں داخل ہوا تھا۔ جبکہ امریکہ اور اس کے عرب اتحادی 2011 سے شام کی خانہ جنگی میں ملوث تھے۔ ان چار سالوں میں ایک ملین شامی اس وقت تک ہلاک ہو چکے تھے۔ اور دو ملین سے زیادہ شامی بے گھر ہو گیے تھے۔ ہزاروں شامی پناہ لینے یورپ کی طرف بھاگ رہے تھے۔ بحر روم میں ان کی کشتیاں الٹ رہی تھیں۔ ان کی لاشیں سمندر کی موجیں ساحل کے قریب لا رہی تھیں۔ جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے۔ اس خانہ جنگی میں جو دہشت گردوں کی پشت پنا ہی کر رہے تھے۔ ان کے دل پتھر کے تھے۔ اگر ان میں انسانی رحم ہوتا وہ یہ خوفناک مناظر دیکھ کر خانہ جنگی کو روک دیتے۔ لیکن یہ انسانی تباہی امریکہ برطانیہ اور فرانس کے واچ میں ہو رہی تھی۔ سعودی عرب اور اسرائیل کے ایجنڈے کی تکمیل کی جا رہی تھی۔ روس نے عراق میں تو کوئی مداخلت نہیں کی وہاں دو لاکھ عراقیوں کی ہلاکت کا کون ذمہ دار تھا؟ فلوجہ اور رما دی میں بے گناہ شہریوں کے ساتھ کیا ہوا تھا؟ اس کا ذمہ دار کون تھا۔ افغانستان میں نیٹو امریکہ اور برطانیہ کے فوجی آپریشن میں ہزاروں بے گناہ شہری ہلاک ہوۓ تھے۔ جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے۔ صدر بش نے شہریوں کی ہلاکتوں پر کہا تھا کہ" یہ جنگ ہے اور جنگ میں لوگ مارے جاتے ہیں" امریکہ برطانیہ اور فرانس کو شہریوں کا اتنا خیال تھا۔ تو وہ شام میں دہشت گرد باغیوں کو ہتھیار کیوں دے رہے تھے۔ شام کے اندرونی معاملہ کو وہ ہتھیاروں اور حکومت پر حملہ کرنے سے حل کرنے کی ترغیب دے رہے تھے۔ لیکن فلسطینیوں کو 70 سال سے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات سے تنازعہ کو حل کرنے پر زور دے رہے تھے۔ اور اسرائیلی حکومت کے خلاف مسلح حملوں کی مخالفت بڑی سختی سے کرتے تھے۔ یہ Hypocrisy ہے۔ جس میں کوئی اخلاقی قدریں نہیں ہیں۔
   سرد جنگ کے بعد یہ خصوصی طور پر نوٹ کیا جا رہا کہ اپنے غیر ذمہ دارانہ فیصلوں کا دوسروں کو الزام دینے کی سیاست ایک عادت بن گئی ہے۔ کیونکہ یہ برطانیہ نے کہا ہے کہ مسٹر پو تن نے لندن میں ایک سابق روسی جاسوس کو زہر دیا ہے۔ اس لئے ساری دنیا کو اس کی مذمت کرنا چاہیے۔ اور تسلیم کرنا چاہیے کہ برطانیہ نے جو کہا ہے وہ 100 فیصد درست ہے۔ اس کے ثبوت مانگنے کی ضرورت نہیں ہے۔ حالانکہ Transparency International کی ایک رپورٹ میں، جو کرپشن کے خلاف تحقیقاتی گروپ ہے، بتایا ہے کہ برطانیہ میں 6بلین سے زیادہ جو Real Estate خریدی گئی ہے وہ کرپشن کی دولت سے خریدی گئی ہے۔ اور اس میں one-fifth حصہ روسیوں کا ہے۔ لندن میں روسی مافیا بہت سرگرم ہے۔ لکھ پتی اور کھرب پتی روسی Oligarchs نے لندن میں پناہ لی ہے۔ یہ روس سے غیر قانونی اور کرپشن کی دولت لے کر برطانیہ آ گیے تھے۔ اور یہ دولت  انہوں نے برطانیہ کے بنکوں میں جمع کرائی تھی۔ ان کر پٹ Oligarchs کی فہرست روس کی حکومت نے برطانیہ کو دی تھی۔ برطانیہ سے انہیں روس کے حوالے کرنے کی درخواست کی تھی۔ لندن میں روسی Oligarchs کے درمیان بزنس اور سیاسی کشیدگی بھی پائی جاتی تھی۔ صدر پو تن اپنے شہریوں کو زندہ رکھنے کی فکر میں ہیں۔ یورپ اور امریکہ  ان کے ملک کے خلاف اقتصادی بندشوں پر بندشیں لگانے کی سیاست کر رہے ہیں۔ کوئی صدر پو تن کو ان کے انتخابات میں meddling کرنے کا الزام دے رہا ہے۔ کوئی صدر پو تن کو ان کے راز hacking کرنے کا الزام دے رہا ہے۔ کوئی صدر پو تن کو cyber war شروع کرنے کا الزام دے رہا ہے۔ اور برطانیہ کی وزیر اعظم نے صدر پو تن پر لندن میں ایک سابق روسی جاسوس کو poison دینے کا الزام لگایا ہے۔ اور دنیا سے کہا کہ وہ اس کی مذمت کرے۔
   سابق سوویت صدر Mikhail Gorbachev جنہوں نے سرد جنگ ختم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ کبھی یہ سوچا بھی نہیں ہو گا کہ سرد جنگ ان کی زندگی میں دوبارہ شروع ہو جاۓ گی۔ اور جنہوں نے مغرب کے ساتھ 50برس سرد جنگ لڑی تھی وہ بھی اپنے سر کھجا رہے ہوں گے اور یہ سوال کر رہے ہوں گے کہ انہوں نے مغربی طاقتوں کے لئے اپنا وقت کیوں برباد کیا تھا۔                       




Saturday, March 17, 2018

When North Korea’s Leader Meets The American President, Trust But Verify


When North Korea’s Leader Meets The American President, Trust But Verify  

مجیب خان
President Moon Jae-in  and North Korean Leader Kim Jong-un

President Donald Trump and Kim Jong-un
   جنوبی کوریا میں winter Olympic بہت کامیاب تھے۔ اولمپک گیم ز اس لئے بھی بہت کامیاب تھے کہ یہ جنوبی کوریا کو شمالی کوریا کے قریب لے آۓ تھے۔ اولمپک گیم ز کی وجہ سے دونوں ملکوں میں امن کے لئے دروازے کھول گیے تھے۔ اولمپک گیم ز نے شمالی کوریا کے Kim Jong un کا ذہن بلا سٹک میزائلوں کے تجربے کرنے سے اولمپک کھیلوں میں دلچسپی لینے میں کر دیا تھا۔ شمالی کوریا کے خلاف اقتصادی بندشوں، دباؤ اور دھمکیوں سے بڑا اولمپک گیم ز نے یہ رول ادا کیا ہے۔ امریکہ میں پنڈتوں کے تجزیہ تھے کہ اولمپک گیم ز کے بعد شمالی کوریا بلا سٹک میزائلوں کے تجربے کرے گا۔ اور ٹرمپ انتظامیہ نے بھر پور طاقت سے اس کا جواب دینے کا تہیہ کر لیا تھا۔۔ اس صورت میں بڑے پیمانے پر انسانی تباہی ہونے کا خوف خطہ میں بڑھ رہا تھا۔ لیکن اس مرتبہ خدا نے 34 سالہ کمیونسٹ ڈکٹیٹر کو انسانیت کی بقا اور سلامتی میں درست فیصلہ کرنے کی ہدایت کی تھی۔ جنوبی کوریا میں اولمپک گیم ز کے انعقاد نے Kim Jong un کو یہ فیصلہ کرنے کا موقعہ فراہم کیا تھا۔ جنوبی کوریا کے صدر نے شمالی کوریا کی قیادت کی سوچ میں اس تبدیلی کا خیر مقدم کیا تھا۔ اولمپک کھیلوں نے دونوں ملکوں میں خیرسگالی کی فضا بحال کر دی تھی۔ اور دونوں ملکوں نے اولمپک کھیلوں کے بعد بھی اس فضا کو بحال رکھنے کا عزم کیا تھا۔ جنوبی کوریا میں اولمپک گیم ز میں دنیا بھر سے کھلاڑی شرکت کرنے آۓ تھے۔ اولمپک کے شائقین کی بڑی تعداد بھی آئی تھی۔ جنوبی کوریا میں اس گہما گہمی اور اولمپک گیم ز کی رنگا رنگ افتتاحی اور اختتامی تقریب سے بھی Kim Jong un ضرور متاثر ہوۓ ہوں گے۔ شمالی کوریا کی تنہائی کا احساس ہوا گا۔ Kim کی خواہش ہو گی کہ ایک دن اولمپک گیم ز شمالی کوریا میں ہوں۔ شمالی کوریا کی قیادت نے اب شاید یو ٹرن لیا ہے۔
   جنوبی کوریا نے بھی اس نئی development کو آ گے بڑھانے میں تاخیر نہیں کی تھی۔ اولمپک گیم ز ختم ہونے کے بعد جنوبی کوریا نے ایک اعلی وفد شمالی کوریا بھیجا تھا۔ Kim Jong un نے وفد کو بتایا کہ وہ اپنے ایٹمی ہتھیاروں کو ختم کرنے کے لئے تیار ہیں۔ جنوبی کوریا کے وفد سے دو روز مذاکرات کے بعد شمالی کوریا کے ایک اعلامیہ میں  denuclearize پر اپنی رضامندی ظاہر کی تھی۔ اعلامیہ میں کہا گیا تھا اگر شمالی کوریا کو فوجی خطرہ کا سامنا ختم ہو جاتا ہے اور اس کی سلامتی کی ضمانت دے دی جاتی ہے تو پھر ایٹمی ہتھیاروں کو رکھنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ اعلامیہ میں اپنی اس خواہش کو واضح کیا تھا کہ یہ امریکہ کے ساتھ خلوص سے denuclearization کے مسئلہ اور تعلقات نارمل کرنے پر مذاکرات کے لئے تیار ہے۔ مذاکرات کے دوران ایٹمی اور بلا سٹک میزائلوں کے تجربے نہیں کیے جائیں گے۔'  Pyongyang میں شمالی کوریا کے رہنما Kim Jong un سے ملاقات کے بعد جنوبی کوریا کا یہ وفد Kim Jong un کا صدر ٹرمپ کے لئے خصوصی پیغام لے کر واشنگٹن میں صدر ٹرمپ سے ملنے آیا تھا۔ وفد نے صدر ٹرمپ کو Kim Jong un سے مذاکرات کی رپورٹ دی تھی۔ اور شمالی کوریا کے رہنما کا خصوصی خط دیا تھا۔ جس میں شمالی کوریا کے رہنما نے صدر ٹرمپ سے ملاقات کے لئے کہا تھا۔ جسے صدر ٹرمپ نے قبول کر لیا۔ اور مئی میں ملاقات کرنے کا کہا ہے۔
   واشنگٹن میں جو یہ توقع کر رہے تھے کہ شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام کو صرف جنگ سے حل کیا جاۓ گا۔ اور اس کی تیاری کر رہے تھے۔ انہیں شمالی کوریا کے رہنما کے ایٹمی پروگرام پر سمجھوتہ کرنے اور بلا سٹک میزائلوں کے تجربے بند کرنے کے  اس اچانک فیصلہ سے حیرت ہوئی تھی۔ ان کا کہنا تھا صدر ٹرمپ کو ملاقات کرنے میں جلدی نہیں کرنا چاہیے۔ اس ملاقات کے لئے پہلے تیاری کی جاۓ۔ شمالی کوریا کے رہنما نے اپنے روئیے میں خاصی لچک دکھائی ہے۔ اور اب امریکہ کو بھی اپنے سخت روئیے میں نرمی لانا ہو گی۔ شمالی کوریا کی قیادت میں security کا اعتماد بحال کرنا ہو گا۔ اس کے لئے جنوبی کوریا اور شمالی کوریا میں خیرسگالی کے تعلقات کا فروغ ضروری ہے۔ اس سارے process  میں جنوبی کوریا کو آگے رکھا جاۓ۔ People to People تعلقات کو خصوصی اہمیت دی جاۓ۔ بلاشبہ یہ process افغانستان میں طالبان کے ساتھ امریکہ کی 17سال کی جنگ کے مقابلے میں اتنا طویل نہیں ہو گا۔ امریکہ کو شمالی کوریا کے خدشات کو اہمیت دینا چاہیے۔ دھونس اور دھمکوں اور بہت زیادہ بڑا بننے کے بجاۓ Realistic موقف کے ساتھ مذاکرات کی ٹیبل پر آنا چاہیے۔ جبکہ شمالی کوریا کی قیادت کے سامنے عراق لیبیا اور شام خوفناک مثالیں ہیں۔ امریکہ میں ایسے militant ذہن ہیں جو شمالی کوریا کو بھی عراق اور لیبیا بنانے کا منصوبہ لے کر لابیوں کے آگے گھوم رہے ہیں۔ پہلے ہی عراق لیبیا اور شام کے حالات کی وجہ سے امریکہ کی credibility بہت خراب ہے۔ عراق کے مسئلہ پر امریکہ نے متعدد بار عالمی برادری کو یہ یقین دلایا تھا کہ عراق میں حکومت تبدیل کرنے کا امریکہ کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ امریکہ عراق میں صرف مہلک ہتھیاروں کا مکمل خاتمہ چاہتا ہے۔ لیکن پھر امریکہ کو جب یہ رپورٹیں مل گئی تھیں کہ عراق میں اب مہلک ہتھیار نہیں تھے۔ امریکی فوجیں اسی گھنٹے عراق میں گھستی چلی گئی تھیں۔ عراق میں حکومت تبدیل کرنے کا اپنا اصل منصوبہ مکمل کیا تھا۔ پھر صدر قد ا فی نے اپنے تمام مہلک ہتھیار امریکہ کے حوالے کر دئیے تھے۔ جس کے بعد صدر قد ا فی کو یہ یقین دلایا گیا تھا کہ امریکہ ان کی حکومت کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرے گا۔ لیکن پھر امریکہ نے قد ا فی  حکومت کے مخالفین اسلامی انتہا پسندوں کے ساتھ مل کر قد ا فی کو اقتدار سے ہٹا دیا تھا۔ شمالی کوریا کی قیادت نے طرا بلس کی سڑک پر قد ا فی کو جس طرح اسلامی انتہا پسندوں نے قتل کیا تھا وہ خوفناک منظر بھی دیکھا تھا۔ امریکہ کی اس credibility کے پس منظر کو دیکھ کر شمالی کوریا کی قیادت نے پہلے جنوبی کوریا کے ساتھ  تعلقات استوار کرنے کو اہمیت دی ہے۔ جنوبی کوریا کی قیادت پر شمالی کوریا کو زیادہ اعتماد ہے۔ اس لئے جنوبی کوریا کے صدر Moon Jae-in نے انٹیلی جنس اور security کے اعلی حکام پر مشتمل وفد کو شمالی کوریا بھیجا تھا۔ جس کے ساتھ شمالی کوریا کے رہنما Kim Jong un سے تقریباً چار گھنٹے ملاقات کی تھی۔ جنوبی کوریا کا وفد اس ملاقات سے بہت مطمئن واپس آیا تھا۔
  20سال قبل Kim Jong Il نے بھی ایک ایسی ہی کوشش امریکہ کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی تھی۔ اور صدر کلنٹن کو ملاقات کے لئے دعوت دی تھی۔ لیکن صدر کلنٹن نے سیکرٹیری آف اسٹیٹ میڈیلین البرائٹ کو شمالی کوریا بھیجا تھا۔ Kim Jong Il father of Kim Jong un بھی امریکہ کے ساتھ تمام تنازعوں کو حل کرنے میں بہت سنجیدہ تھے۔ شمالی کوریا اور امریکہ میں یہ پہلا براہ راست رابطہ تھا۔ جس کی پہل شمالی کوریا نے کی تھی۔ اس ملاقات میں دونوں نے اپنا موقف ایک دوسرے کے سامنے رکھا تھا۔ مذاکرات کا یہ پہلا راؤنڈ تھا۔ اور یہ بہت ممکن تھا کہ شمالی کوریا اور امریکہ میں مذاکرات کا دوسرا راؤنڈ بھی ہوتا۔ لیکن امریکہ میں Facts کو ہمیشہ اپنے مفاد میں Distort کر کے پیش کیا جاتا ہے۔ جبکہ حقیقت میں یہ شمالی کوریا نہیں تھا جس نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات منقطع کیے تھے۔ بلکہ اصل حقیقت یہ تھی کہ امریکہ میں جارج ڈبلیو بش اقتدار میں آ گیے تھے۔ جن کی انتظامیہ میں Militants بھرے ہوۓ تھے جو دنیا کا ہر مسئلہ بھر پور طاقت سے حل کرنا چاہتے تھے۔ جنہوں نے دنیا میں Axis of Evil بش انتظامیہ کی پالیسی کا کار نر اسٹون قرار دیا تھا۔ صدر بش نے عراق شمالی کوریا اور ایران کو Axis of Evil کہا تھا۔ امریکہ سے اس اعلامیہ کے بعد شمالی کوریا اور ایران نے اپنی سلامتی اور بقا میں نیو کلیر پروگرام پر انحصار ضروری سمجھا تھا۔ ایک انتظامیہ قوموں کو خوفزدہ کرتی ہے اور انہیں مہلک ہتھیار حاصل کرنے کی طرف دھکیلتی ہے۔ پھر دوسری انتظامیہ آتی ہے وہ ان سے مہلک ہتھیار چھیننے کے لئے انہیں دھونس دھمکیاں دیتی ہے۔ ان پر بندشیں لگاتی ہے۔ ان کے خلاف کاروائی کرنے کی فوجی تیاریاں کرتی ہے۔ لیکن امریکہ کبھی غلط نہیں ہے۔ اس کے تمام Facts ہمیشہ درست ہوتے ہیں۔