The Peace And Stability Is A Necessity In The Korean Peninsula, While Chaos And Wars Are A Luxury In The Arabian Peninsula
Kim Jong-Un Dismantling His Dangerous Weapons, While In The Middle East Dangerous Weapons Dismantling Countries One By One
مجیب خان
South Korean President Moon Jae-in with North Korean Leader Kim Jong-un during their meeting on May 26, 2018, in Panmunjom, North Korea |
South Korean President Moon Jae-in met President Donald Trump in White House, Washington, May 21, 2018 |
جنوبی کوریا کے صدر Moon Jae-in نے اپنی انتخابی مہم میں شمالی کوریا سے تعلقات استوار کر نے کا وعدہ کیا تھا۔ اور Donald Trump نے اپنی انتخابی مہم میں شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام کا مسئلہ حل کرنے کا عہد کیا تھا۔ شمالی کوریا کے مسئلہ پر دونوں کی کیمسٹری ایک تھی۔ صدر Moon نے اقتدار میں آنے کے بعد شمالی کوریا پر توجہ مرکوز کی تھی۔ موسم سرما کے Olympic Games نے دونوں ملکوں میں بات چیت کے دروازے کھولے تھے۔ صدر Moon کو شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام کو حل کرنے کا موقعہ ملا تھا۔ Korean Peninsula میں امن اور استحکام سب کے لئے ایک Necessity ہے۔ یہ مڈل ایسٹ نہیں ہے۔ جہاں Chaos اور Destabilization سب کے لئے ایک Luxury ہے۔ صدر مو ن نے شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان کو پہلی ملاقات میں Denuclearize پر آمادہ کر لیا تھا۔ صدر مو ن نے Trump-Kim ملاقات کے لئے گراؤنڈ ہموار کر دیا تھا۔ کم جونگ ان نے اپنے فیصلے میں سنجیدہ ہونے کا ثبوت دیتے ہوۓ Sides Nuclear Test تباہ کرنا شروع کر دئیے تھے۔ نیو کلیر پروگرام پہلے ہی Freeze کر دیا تھا۔ تین امریکی شہری بھی رہا کر دئیے تھے۔ جو ایک عرصہ سے شمالی کوریا کی جیل میں تھے۔ یہ تمام معاملات جنوبی کوریا کے صدر مو ن اور شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان کے درمیان پہلی ملاقات کے بعد سامنے آۓ تھے۔
شمالی کوریا کے ساتھ حیرت انگیز پرو گریس کے بعد صدر مو ن گزشتہ ہفتہ واشنگٹن آۓ تھے۔ وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ سے صدر مو ن نے تقریباً دو گھنٹے ملاقات میں کم جونگ ان سے اپنی ملاقات کی تفصیل بتائی تھی۔ صدر ٹرمپ کو بتایا تھا کہ کم جونگ Denuclearize میں بہت سنجیدہ ہیں۔ صدر مو ن نے صدر ٹرمپ کو سنگاپور میں 12 جون کو کم جونگ سے ملاقات کے سلسلے میں بریفنگ دی تھی۔ ٹرمپ-کم ملاقات پروگرام کے مطابق بالکل یقینی نظر آ رہی تھی۔ صدر مو ن امریکہ سے ابھی واپس Seoul پہنچے تھے کہ انہیں صدر ٹرمپ کے کم جونگ ان سے 12 جون کو سنگاپور میں ملاقات منسوخ کرنے کی خبر دی گئی۔ صدر مو ن اور ان کی کابینہ کے اراکین کو اس خبر سے حیرت ہوئی تھی۔ اور مایوسی بھی ہوئی تھی۔ صدر مو ن نے امریکہ اور شمالی کوریا میں تعلقات بحال کرانے اور Korean Peninsula کو Denuclearize کرنے میں اپنا وقت اور پولیٹیکل کیپیٹل انویسٹ کیا تھا۔ صدر مو ن اسے ڈوبتا دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔ صدر ٹرمپ نے کم جونگ ان سے اپنی ملاقات منسوخ کر نے کی وجہ یہ بتائی تھی کہ شمالی کوریا کے دفتر خارجہ کے ایک اہل کار نے نائب صدر Mike Pence کے اس بیان پر کہ "اگر ٹرمپ-کم ملاقات میں Denuclearize پر اگر کوئی سمجھتا نہیں ہوتا ہے تو پھر لیبیا ماڈل پر عمل درآمد ہو سکتا ہے۔" نائب صدر کو Political Dummy کہا تھا۔ جس پر صدر ٹرمپ نے اس ملاقات کو منسوخ کر دیا تھا کہ شمالی کوریا نے نائب صدر کی توہین کی تھی۔ لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ چند ہفتہ قبل کم جونگ ان نے صدر ٹرمپ کو “Dotard” کہا تھا۔ لیکن پھر دونوں ملکوں میں گرما گرمی کم ہونے کے بعد صدر ٹرمپ نے کم جونگ ان کو Honorable شخصیت کہا تھا۔ صدر ٹرمپ کا عجلت میں یہ فیصلہ کرنے کی وجہ کچھ اور تھی۔ جنوبی کوریا، شمالی کوریا، جاپان اور چین کو صدر ٹرمپ کے اچانک فیصلہ پر بڑی حیرت ہوئی تھی۔ شمالی کوریا کہ جس اعلی افسر نے نائب صدر کو Political Dummy کہا تھا اس کے ذہن میں امریکہ کا Free Speech تھا اور صدر ٹرمپ خود اکثر Hillary Clinton کے بارے میں ایسے لفظ استعمال کرتے رہتے تھے۔ بہرحال صدر ٹرمپ کے اس فیصلے سے ایسٹ ایشیا میں یہ تاثر لیا جا رہا تھا کہ صدر ٹرمپ ایران ایٹمی سمجھوتہ کی طرح اب شمالی کوریا کے پرامن طریقہ سے Denuclearization فیصلہ سے بھی Walkaway کر رہے ہیں۔ اور خوفناک فوجی طاقت کے ذریعہ اس کو حل کرنے کے عزائم رکھتے ہیں۔ جس کا صدر ٹرمپ نے کم جونگ ان کے نام اپنے خط میں حوالہ بھی دیا تھا۔
جنوبی کوریا کے صدر Moon Jae-in شمالی کوریا کے اس مسئلے کا ایک Permanent حل چاہتے تھے۔ ان کی سیاسی Credibility stake پر تھی۔ صدر مو ن شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان کو Korean Peninsula کو Denuclearize کرنے پر لے آۓ تھے۔ جس طرح یورپی یونین نے امریکہ کے بغیر ایران ایٹمی سمجھوتہ پر عملدرامد جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسی طرح جنوبی کوریا، چین، جاپان امریکہ کے بغیر شمالی کوریا کے ساتھ Denuclearization کا سمجھوتہ کرنے جا رہے تھے۔ جس میں روس بھی شامل ہوتا۔ اور پھر امریکہ سے کہا جاتا کہ وہ اس سمجھوتہ کو قبول کرے یا ایسٹ ایشیا میں Isolate ہونے کی تیاری کرے۔ اس صورت کو دیکھ کر ٹرمپ انتظامیہ نے 48 گھنٹے کے اندر اپنا فیصلہ تبدیل کر دیا اور شمالی کوریا کے صدر کم جونگ ان سے صدر ٹرمپ کی سنگاپور میں 12 جون کی ملاقات پروگرام کے مطابق ہونے کا اعلان کیا۔ ٹرمپ-کم ملاقات کو ممکن بنانے میں صدر مو ن کی کوششوں کا ایک بڑا رول ہے۔ شمالی کوریا کو Denuclearize کرنے کے سلسلے میں Ground work جنوبی کوریا کے صدر مو ن نے کیا ہے۔ صدر مو ن آ بناۓ کوریا کو ایٹمی ہتھیاروں اور جنگوں سے نجات دلانے میں بہت پختہ عزم رکھتے ہیں۔ جنوبی کوریا کی اقتصادی ترقی اور خوشحالی میں صدر مو ن شمالی کوریا کو بھی شامل کرنا چاہتے ہیں۔ صدر ٹرمپ کی دھمکیوں کا شاید کم جونگ ان پر اتنا اثر نہیں ہوا ہے کہ جتنا صدر مو ن کی شمالی کوریا کو اقتصادی ترقی دینے کی باتوں اور منصوبوں کا کم جونگ ان کی سوچ پر اثر ہوا ہے۔ آ بناۓ کوریا میں امن اور استحکام جنوبی اور شمالی کوریا کی ضرورت ہے۔ اس سوچ کے ساتھ شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان نے ہتھیاروں کی دوڑ کا راستہ چھوڑ کر اقتصادی ترقی کے راستہ پر صدر مو ن کے ساتھ چلنے کو اہمیت دی ہے۔
سمجھوتے کے اہم معاملات جنوبی اور شمالی کوریا کے درمیان طے ہو چکے ہیں۔ 25 فیصد معاملات امریکہ اور شمالی کوریا کو طے کرنا ہیں۔ جس میں آ بناۓ کوریا میں امریکہ کی فوجی موجودگی اور اس کی بڑھتی ہوئی فوجی سرگرمیاں ہیں۔ جنہیں اب Demilitarize کرنا ہو گا۔ جنوبی اور شمالی کوریا کو اس سمجھوتہ میں یہ بھی شامل کرنا چاہیے کہ امریکہ جاپان کو مہلک ہتھیاروں سے مسلح نہیں کرے گا۔ اور جاپان اور چین بلکہ خطہ کے کسی دوسرے ملک کے درمیان بھی امریکہ ہتھیاروں کی دوڑ شروع نہیں کرے گا۔ سمجھوتوں کی خلاف ورزیاں کرنے میں امریکہ کا کریڈٹ خراب ہے۔ امریکہ نے بہت سے ملکوں کو اقتصادی ترقی اور خوشحالی کے سہا نے خواب دیکھا کر جارحانہ جنگوں میں انہیں اتحادی بنایا تھا۔ لیکن یہ اتحادی بھی ان جنگوں سے اتنے ہی بری طرح متاثر ہوۓ تھے کہ جتنا جس ملک کے خلاف فوجی کاروائی سے وہ ملک متاثر ہوا تھا۔ امریکہ نے 70 سال میں تقریباً 60 ہزار مرتبہ فلسطینیوں کو ان کی آزاد ریاست کے قیام میں صبر اور پرامن رہنے کی تلقین کی تھی۔ لیکن کسی امریکی انتظامیہ نے صبر کا پھل فلسطینیوں کو نہیں دیا تھا۔ 1999 میں کیمپ ڈیوڈ میں صدر کلنٹن کی انتھک کوششوں کے نتیجہ میں چیرمین یا سر عرفات اور وزیر اعظم یہود بارک سمجھوتہ کے بہت قریب تھے۔ لیکن پھر جارج ڈبلیو بش کی صدارتی انتخابی مہم کے ایڈوائزر یا سر عرفات اور یہود بارک سے یہ اپیلیں کرنے لگے تھے کہ وہ انتظار کریں بش اقتدار میں آنے کے بعد انہیں بہتر ڈیل دیں گے۔ پھر صدر بش جب اقتدار میں آ گئے تو یہ کہا گیا کہ پہلے صد ام حسین کا مسئلہ حل کیا جاۓ گا جو اسرائیل فلسطین تنازعہ کے حل میں ایک بڑی رکاوٹ بننے ہوۓ ہیں۔ صد ام حسین کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد 120 نتائج اسرائیل فلسطین تنازعہ کے حل میں نئی رکاوٹ بن گیے ہیں۔ اس تنازعہ کو حل نہیں کرنے کی وجوہات کی ایک لمبی فہرست ہے۔ لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ مڈل ایسٹ میں Chaos اور Wars سب کے لئے Luxury ہے۔ اگر مڈل ایسٹ میں Peace اور Stability ایک Necessity ہوتا تو اس تنازعہ کو بھی اسی طرح حل کیا جاتا کہ جیسے شمالی کوریا کے ایٹمی ہتھیاروں کا مسئلہ حل کیا جا رہا ہے۔