Tuesday, July 31, 2018

Elections 2018: The Landslide Defeat of Islamic Parties In Pakistan


Elections 2018: The Landslide Defeat of Islamic Parties In Pakistan

People Rejected The Role of Religion In Politics

مجیب خان
Muttahida Majlis Amal- an alliance of religious parties, rejecting election result

The leader of MMA Maulana Fazlur Rehman addressing a press conference in Islamabad

Pakistan National Alliance-an alliance of 9 parties who opposed Bhutto's government, PNA accused PPP rigged the Election in her favor. 1977{Father of Maulana Fazlur Rehman, Maulana Mufti Mehmood was the leader of PNA}-a   

   یہ ہے جمہوری عمل جو پاکستان میں 2018 کے انتخابات میں دیکھا جا رہا ہے۔ بڑے بڑے سیاسی خاندان جمہوری عمل کی موجوں میں بہہ گیے۔ اور کوئی انہیں ان موجوں سے بچا نہیں سکا تھا۔ ملتان میں پیپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی اور ان کے صاحبزادے بری طرح الیکشن ہا ر گیے۔ بڑی بڑی مذہبی شخصیتیں اور ان کی اسلامی جماعتوں کا بالکل صفایا ہو گیا ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور جنرل سیکریٹری لیاقت بلوچ بلکہ جماعت اسلامی کی ساری اعلی قیادت کا الیکشن میں صفایا ہو گیا ہے۔ جمعیت علماۓ اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن جنہیں ایک نامور پشتون فلم اسٹار مسرت شاہین نے کئی مرتبہ مولانا کے مقابلے پر امیدوار بن کر انہیں انتخاب میں ہرانے کی کوشش کی تھی۔ عمران خان نے بھی گزشتہ انتخاب میں ان کے مقابلے میں اپنا امیدوار کھڑا کیا تھا۔ لیکن مولانا شکست سے بال بال بچ گیے تھے۔ اس مرتبہ ایسا نظر آتا ہے کہ اللہ نے مسرت شاہین کا مشن پورا کر دیا ہے۔ اور عمران خان کی مولانا کو شکست دینے کی حسرت بھی پوری ہو گئی ہے۔ اور مولانا فضل الرحمن تقریباً 4دہائیوں کے بعد پہلی مرتبہ الیکشن ہارے ہیں۔ اور یہ جمہوریت کے صحت مند اور انتخاب کے صاف ستھرا ہونے کی علامت ہیں۔ 4دہائیوں سے مسلسل انتخاب جیتنے سے بھی لوگوں میں انتخاب میں دھاندلیاں ہونے کے شک و شبہات پیدا ہونے لگتے تھے۔ مولانا کی سیاسی دنیا میں تمام چراغ بجھ گیے ہیں۔ مولانا کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ اب یہ چراغ روشن ہوں گے بھی یا نہیں۔ اور  سیاست کے بغیر اب وہ زندہ کیسے رہیں گے۔ ہمارے خیال میں پاکستان میں اسلامی جماعتوں کی انتخابات میں شکست کا سعودی عرب میں عورتوں کو ڈرائیونگ لائیسنس ملنے سے بھی ہے۔ جسے پاکستان میں عورتوں نے اسلامی جماعتوں کے خلاف ووٹ دینے کا لائیسنس سمجھا تھا۔ سعودی عرب میں اصلاحات پاکستان کی سیاست میں اسلامی جماعتوں کا سیاسی رول ختم ہونے کی اصلاحات ہوں گی۔ دوسری طرف سیکولر اور نام نہاد قوم پرست لیڈر اور ان کی سیاسی جماعتیں بھی الیکشن بری طرح ہار گئی ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندر یار ولی بھی الیکشن ہار گیے ہیں۔ صوبائی اور قومی سیاست میں ان کا سیاسی  وجود تقریباً  ختم ہو گیا ہے۔ بلوچستان میں پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی کے چیرمین محمود خان اچکزئی بھی الیکشن ہار گیے ہیں۔ کئی دہائیوں کی ان کی سیاست اب تاریخ بن گئی ہے۔ یہ وہ لیڈر ہیں جنہیں اب مل کر اپنی Political Obituary لکھنا چاہیے۔ جمہوریت کی یہ خوبی ہے کہ اس کا جمہوری عمل سیاست اور حکومت کے نظام کی صفائی کرتا رہتا ہے۔ پاکستان کے تیسرے انتخاب میں اس جمہوری عمل کے نتائج یہ ثبوت دے رہے ہیں۔ کیونکہ سیاست پر برسوں سے کرپشن کی چربی چڑھی ہوئی ہے۔ اس لئے انتخاب میں جنہیں شکست ہوئی ہے انہیں اس میں دھاندلی کا رول نظر آ رہا ہے۔ لیکن ان کا سیاست میں کرپشن کا رول عوام دیکھ رہے تھے۔ لوگوں کو عمران خان کے جیتنے کی جتنی خوشی ہے اتنی ہی خوشی لوگوں کو مولانا فضل الرحمن، امیر جماعت اسلامی سراج الحق، جنرل سیکرٹیری لیاقت بلوچ، اسفندر یار ولی اور محمود خان اچکزئی کے الیکشن ہارنے پر خوشی ہوئی ہے۔ ان کے منتخب ہونے سے جمہوریت کے لئے خطرے زیادہ ہوتے تھے۔ عوام کی صحت ان کے منتخب ہونے سے خراب رہتی تھی۔ یہ منتخب ہونے کے بعد عوام کو غریب رکھنے کی سیاست کرتے تھے۔ مولانا فضل الرحمن 30 سال سے منتخب ہو رہے تھے۔ لیکن 30سال میں انہوں نے اپنے حلقے کے کتنے لوگوں کو غربت سے نکالنے کے کام کیے تھے؟ مولانا انتخاب جیتنے کے بعد سیاسی عیاشیاں کرتے تھے۔ ان کا 30 سال کا ریکارڈ کوئی مثبت کام کرنے کے ثبوت فراہم نہیں کرتا ہے۔
  یہ لوگ جو انتخاب ہار گیے ہیں۔ یہ سیاسی فسادی ہیں۔ جنہوں نے ہارنے کے بعد ہمیشہ فساد پھیلانے کی سیاست کی ہے۔ لوگوں کو تشدد پر اکسایا ہے۔ مولانا فضل الرحمن جو متحدہ مجلس عمل کے رہنما ہیں، ان کے مرحوم والد مولانا مفتی محمود 1977 میں ایک ایسے ہی اتحاد PNA کے رہنما تھے۔ انہوں نے اس وقت الیکشن میں دھاندلیوں کا الزام لگایا تھا۔ جو وہ اپنی زندگی میں کبھی ثابت نہیں کر سکے تھے۔ لیکن سارا جمہوری نظام تباہ کر کے چلے گیے تھے۔ مولانا فضل الرحمن بھی انتخاب ہارنے کے بعد کہتے ہیں کہ عوام ہمارے ساتھ ہیں۔ اور ہم نے جمہوریت کے لئے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ ہم جمہوریت کو یرغمال نہیں بننے دیں گے۔ وغیرہ وغیرہ۔ سوال یہ ہے کہ اگر عوام ان کے ساتھ تھے تو وہ الیکشن کیوں ہار گیے تھے؟ اور جمہوریت کے لئے ان کی کیا قربانیاں ہیں؟ انہوں نے لوگوں کی قربانیوں کو جمہوریت میں کیش کیا ہے۔ مولانا کو جمہوریت یرغمال ہونے کی پریشانی ہے۔ لیکن اسلامی انتہا پسندوں نے اسلام کو یرغمالی بنا لیا ہے مولانا کو اس پر کوئی پریشانی نہیں ہے۔ اللہ کے اسلام کو دہشت گردوں اور تخریب کاروں سے جو اللہ کی بے گناہ انسانیت کا قتل کر رہے تھے۔ لیکن مولانا اور دوسرے اسلامی رہنماؤں نے مصلحت پسندی کا ثبوت دیا تھا۔ آخر اللہ کے اسلام کو بچانے ان کے خلاف سر سے کفن باندھ کر کیوں نہیں نکلے تھے؟ انتخاب میں اسلامی جماعتوں اور ان کے قائدین کی شکست میں شاید اللہ کی مرضی کا بھی دخل ہے۔
  یہ پاکستان کی تاریخ کے پہلے انتخاب ہیں جس میں لوگوں کا سیاسی شعور بلندی پر ہے۔ اور انہوں نے ووٹ دینے میں اپنا سیاسی شعور استعمال کیا ہے۔ لیاری کے لوگوں نے اسے اہمیت نہیں دی تھی کہ بلاول زر داری بھٹو ذوالفقار علی بھٹو کا نواسہ تھا۔ یا بے نظیر بھٹو شہید کا بیٹا تھا۔ انہوں نے یہ دیکھا تھا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے لیاری کے لئے کیا کیا تھا۔ اس لئے لیاری کے لوگوں نے بلاول زر داری کو ووٹ نہیں دیا تھا۔ یہ پاکستان میں بہت بڑی نئی تبدیلی ہے۔ لوگوں کی سوچ میں یہ تبدیلی پاکستان کا سیاسی کلچر تبدیل کرے گا۔ اندرون سندھ لوگوں کی سوچ میں تبدیلی آنے میں ابھی کچھ وقت لگے گا۔ سندھ کے لوگوں میں جب سیاسی تعلیم آۓ گی جیسے یہ لیاری کے لوگوں میں آئی ہے۔ انہوں نے سب سے پہلے پیپلز پارٹی کو الیکشن میں ہرایا ہے۔ اور لیاری کے لوگوں کے لئے یہ ایک بڑا سیاسی اعزاز ہے۔ آصف علی زر داری اپنی Charismatic Political Personality کی وجہ سے منتخب نہیں ہوۓ ہیں۔ لوگوں  نے انہیں اس لئے ووٹ دئیے تھے کہ وہ بے نظیر بھٹو کے شوہر تھے۔ اور Widower ہیں۔ اس الیکشن میں بھی پیپلز پارٹی کی Performance زیادہ اچھی نہیں تھی۔ پیپلز پارٹی دوسرے نمبر سے تیسرے نمبر آ گئی ہے۔ کراچی میں سندھ حکومت کا  Secretariat ہے۔ لیکن پاکستان تحریک انصاف نے کراچی میں 14 نشستوں پر انتخاب جیتا ہے۔ اور آئندہ انتخاب میں یہ سندھ میں 50 نشستیں حاصل کر سکتی ہے۔
  عمران خان نے راتوں رات اقتدار میں آنے کا نہیں سوچا تھا۔ اور نہ ہی وزارتوں کے ایوانوں میں بیٹھ کر سیاست میں اپنا مقام بنایا ہے۔ عمران خان کی 22سال کی Grass Roots جد و جہد ہے جو اب انہیں اقتدار میں لائی ہے۔ یہ حکومت Gross Rootsکے لئے اچھے نتائج بھی Produce کرے گی۔ پیپلز پارٹی کی قیادت اقتدار کے ایوانوں کو Gross Roots سمجھتی ہے۔ اس لئے باپ اور بیٹا دونوں قومی اسمبلی میں بیٹھ گیے ہیں۔ جو اقتدار کے ایوانوں سے قریب ہے۔ اور ان کا خیال یہ ہے کہ اگر وہ قومی اسمبلی میں Gross Roots کام کریں گے تو ان میں سے ایک باپ یا بیٹا اقتدار میں ہو گا۔ یا دونوں بھی اقتدار میں ہو سکتے ہیں۔ بلاول زر داری کو سندھ حکومت میں ہونا چاہیے تھا۔ تاکہ وہ سندھ میں پارٹی کو Gross Roots سے منظم کرنے کا کام کرتے۔ سندھ میں جو لوگ پارٹی چھوڑ کر چلے گیے ہیں۔ انہیں پیپلز پارٹی میں واپس لانے کی کوشش کرتے۔ لوگوں کی جن شکایتوں کی وجہ سے پیپلز پارٹی  کو انتخابات میں شکست پہ شکست ہو رہی ہے۔ ان کا ازالہ کیا جاتا۔ لیکن یہ کام باپ اور بیٹے کے قومی اسمبلی میں بیٹھنے سے نہیں ہوں گے۔ پاکستان کی سیاست تبدیل کرنے کا Credit بہرحال  عمران خان کی جد و جہد کو دیا جاۓ گا۔        

Friday, July 27, 2018

News Of The Century: In The Seventy Year History, For The First Time America Didn’t Meddle In Pakistan’s Elections--- Good News


 News Of The Century: In The Seventy Year History, For The First Time America Didn’t Meddle In Pakistan’s Elections--- Good News   

THANK YOU, MR. PUTIN

مجیب خان
Imran Khan after victory in election

Supporters of Imran Khan

PTI Supporters

PTI Supporters


   عوام کا فیصلہ آ گیا ہے۔ عوام نے قیادت تبدیل کرنے کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔ پانچ سال پہلے عوام نے تیسری اننگ کے بعد پیپلز پارٹی کو گھر بھیج دیا تھا۔ اور اس مرتبہ عوام نے مسلم لیگ ن کو تیسری اننگ میں سیاست سے آ ؤ ٹ کر دیا ہے۔ ان کے ضمیر نے مسلم لیگ ن کو چوتھی اننگ کھیلنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ اور یہ عوام میں سیاسی شعور آنے کی علامت ہے۔ عوام نااہل، کر پٹ اور نام نہاد سیاستدانوں سے پاکستان کا پیچھا چھوڑ انا چاہتے ہیں۔ اور اسے انتخابی عمل کہتے ہیں۔ اب Political Losers کی ذمہ داری ہے کہ وہ جمہوری عمل کا احترام کریں۔ اور جمہوریت کو اپنی جڑیں پھیلانے کا موقعہ دیں۔ جمہوریت سے اگر انہیں واقعی عقیدت ہے تو عوام کے فیصلے کو کھلے دل سے قبول کریں۔ جمہوری عمل کو Derail کرنے کی کوشش مت کریں۔ پاکستان کو 1977 میں مت لے جائیں۔ انتخابات میں شکست کے دوسرے دن جب نیا سورج طلوع ہو تو اس سورج کی روشنی میں اپنی شکست کی وجوہات دیکھیں۔ ان وجوہات کا ازالہ کریں اور پھر 2023 میں چوتھے الیکشن کے لئے ابھی سے تیاری کریں۔
   پاکستان کے لوگوں کے لئے News of the Century یہ ہے کہ 70سال کی تاریخ میں پہلی مرتبہ امریکہ نے پاکستان کے الیکشن میں Meddling نہیں کی ہے۔ اور یہ الیکشن کی بڑی Headline ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ، اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور پینٹاگان کی طرف سے پاکستان میں الیکشن پر کوئی تبصرہ کرنے سے گریز کیا گیا تھا۔ اور نہ ہی فوج کی نگرانی میں الیکشن ہونے پر کسی طرف سے کوئی رد عمل ہوا تھا۔ امریکی میڈ یا نے بھی پاکستان میں الیکشن کی سیاست میں سنسنی خیز ی پھیلانے سے گریز کیا تھا۔ تاہم اخبارات میں رائٹر اور AP کی پاکستان میں انتخابی مہم پر کچھ رپورٹیں شائع ہوئی تھیں۔ جن میں بھارتی angle  نظر آتا تھا۔ پاکستان کی فوج کو یہ کہہ کر ٹارگٹ کیا گیا تھا کہ فوج انتخابات میں اپنی پسند کے امیدوار کو آگے لا رہی ہے۔ اور عمران خان فوج کے امیدوار ہیں۔ کبھی یہ لکھا گیا کہ فوج یہ دیکھنا نہیں چاہتی ہے کہ قومی  اسمبلی میں کسی ایک پارٹی کو اکثریت حاصل ہو جاۓ اور پھر ایک مضبوط حکومت بن جاۓ۔ پھر یہ کہا گیا کہ اگر قومی اسمبلی میں کسی پارٹی کی اکثریت نہیں ہو گی تو اس صورت میں ایک کمزور مخلوط حکومت بننے گی اور فوج کے لئے ایک ایسی حکومت کو اپنے انفلوئنس میں رکھنا آسان ہو گا۔ لیکن ان رپورٹوں میں کبھی یہ سوال نہیں کیے تھے کہ آخر سیاسی لیڈروں میں فوج کو اپنے انفلوئنس میں رکھنے کی صلاحیت اور قابلیت کیوں نہیں تھی۔ جنرل وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے پیچھے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے تھے۔ انہوں نے کبھی وزیر اعظم بھٹو کی خارجہ پالیسی میں مداخلت کی تھی اور نہ ہی ان کی ڈیفنس پالیسی سے اختلاف کیا تھا۔ فوج کو بھٹو کی ذہانت اور قابلیت پر مکمل اعتماد تھا۔ جنرل سکون سے سوتے تھے کہ ملک محفوظ ہاتھوں میں تھا۔
   یہ اخباری رپورٹیں one sided تھیں ان میں نواز شریف کی حکومت میں کرپشن اور ان کے خلاف کرپشن کیس میں عدالتوں کے فیصلوں کا ذکر نہیں تھا۔ عوام میں زر داری کی پیپلز پارٹی اور نواز شریف کی مسلم لیگ کی کارکردگی اور Credibility کے بارے میں کیا راۓ عامہ تھی۔ اس کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ دونوں پارٹیوں نے کس حد تک عوام کو در پیش مسائل سے نکالا تھا۔ بے روز گاری، امن و امان اور کرائم ز کی صورت حال کے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا۔ ان رپورٹوں کو حکومت کے پانچ سال دور کو فوکس کیا جاتا۔ لیکن یہ خصوصیت سے نوٹ کیا جاتا ہے کہ ایسی رپورٹیں کسی ایجنڈہ  کے مطابق ہوتی ہیں۔ ایسی حکومتیں جن میں بد انتظامی زیادہ ہوتی ہے۔ کرپشن ہوتا ہے۔ جو ملک میں Chaos  رکھنے کی سیاست کرتی ہیں۔ ان کو زیادہ فوکس نہیں کیا جاتا ہے۔ بلکہ ان کے مقابلہ پر جو سیاسی جماعتیں Good Governance کی بات کرتی ہیں انہیں ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔ اس لئے امریکی میڈیا میں رپورٹیں نواز شریف حکومت کے بارے میں ذرا Favorable  تھیں۔
   پاکستان میں 1977 کے انتخابات میں امریکہ کی Meddling  نے جمہوری عمل کو Derail کیا تھا۔ جمہوریت تباہ ہو گئی تھی۔ آئین پامال ہو گیا تھا۔ پاکستان کی آزادی کے صرف 30سال میں تیسری مرتبہ فوج اقتدار میں آئی تھی۔ اور امریکہ میں یہ لکھا جاتا ہے کہ پاکستان کی آزادی کے نصف سے زیادہ دور فوجی حکومتوں کا تھا۔ حالانکہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد فوج کا اقتدار پر قبضہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ اس لئے آئین اور قانون کی حکمرانی قائم کی گئی تھی۔ اور آئین کی خلاف ورزی کی سزا موت تجویز کی گئی تھی۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے صرف 7سال بعد انتخابات میں دھاندلیوں کے نام پر ملک کو جنگ کا محاذ بنا دیا تھا۔ جن پارٹیوں کا محاذ انتخابات کے نتائج تسلیم نہیں کرتا تھا وہ سب Losers تھے۔ سیاست میں شکست ان کا مقدر تھا۔ جو نام نہاد قوم پرست، ترقی پسند، کرپٹ اور موقعہ پرست مذہبی عناصر تھے۔ جو بھاری اکثریت سے الیکشن کبھی جیت نہیں سکتے تھے۔ مذہبی جماعتیں ساڑھے تین نشستوں سے زیادہ حاصل نہیں کر سکتی تھیں۔ Chaos پھیلانا ان کا Political DNA تھا۔ امریکہ نے ان کے لئے پاکستان میں Meddling  کی تھی۔ پاکستان میں Chaos پھیلایا تھا۔ ایک منتخب آئینی اور جمہوری حکومت کے خلاف ان کی تحریک میں ہزاروں اور لاکھوں ڈالر انویسٹ کیے تھے۔ پاکستان کی معیشت کو تباہ کرنے کے لئے پہیہ جام ہڑتالیں کرائی تھیں۔ یہ صرف اس لئے کرایا جا رہا تھا کہ امریکہ کو ری پروسسنگ پلانٹ کے مسئلہ پر وزیر اعظم ذوالفقار علی  بھٹو کی حکومت سے شدید اختلاف ہو گیے تھے۔ تیسری دنیا میں جب بھی امریکہ کو حکومت کی پالیسیوں سے اختلاف ہو جاتا تھا۔ وہاں سی آئی اے کے ذریعہ Meddling کی جاتی تھی۔ اور حکومت کا خاتمہ کر دیا جاتا تھا۔ اس کے نتائج کی امریکہ نے کبھی پرواہ نہیں کی تھی۔ 1977 کے انتخابات سے چند ماہ قبل ہنری کسنگر ری پروسسنگ پلانٹ کے مسئلہ پر بات کرنے پاکستان آۓ تھے۔ لاہور میں وزیر اعظم بھٹو سے اس مسئلہ پر بات چیت میں کوئی کامیابی نہیں ہونے پر Kissinger threatened Bhutto “that if you (Bhutto) do not cancel, modify or postpone the Reprocessing Plant Agreement (with France), we will make a horrible example of you.”      
The meeting was ended by Bhutto as he replied: “For my country’s sake, for the sake of the people of Pakistan, I did not succumb to the blackmailing and threats.”
Bhutto and his cabinet walked away and left Kissinger and his delegation alone in the room.
    4 جولائی 1977 کو اسلام آباد میں امریکہ کے سفارت خانہ میں امریکہ کی یوم آزادی کا جشن منایا جا رہا تھا۔ وزیر اعظم بھٹو، اپوزیشن سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل ضیا الحق نے اس تقریب میں شرکت کی تھی۔ امریکی سفیر Art Hummel نے چند روز قبل اپنا سفارتی عہدہ سنبھالا تھا۔ ان کی اسلام آباد آمد سے قبل Peter Constable ڈپٹی چیف آف مشن پاکستان کی اندرونی صورت حال سے واشنگٹن کو آگاہ رکھتے تھے۔ وزیر اعظم بھٹو نے کوٹ لکھ پت جیل سے اپنے ایک مضمون میں 4 جولائی کو امریکی سفارت خانہ میں امریکی سفیر Art Hummel سے اپنی ملاقات کے بارے میں بتایا تھا کہ امریکی سفیر نے ان سے کہا کہ “Mr. Prime Minister Party is over” اور پارٹی واقعی 4 اور 5 جولائی کی درمیانی رات ایک اور دو بجے کے درمیان over ہو گئی تھی۔ جنرل ضیا الحق امریکی سفارت خانہ میں جشن آزادی کی تقریب میں شرکت کرنے کے بعد اپنے ساتھی جنرلوں کے ساتھ شاید سیدھے پرائم منسٹر ہاؤ س گیے تھے۔ وزیر اعظم بھٹو  اور ان کی کابینہ کے وزرا کو حراست میں لے لیا تھا۔ جمہوریت کی عمارت dismantled کر دی تھی۔ یہ Meddling تھی جو بعد میں پاکستان اور خطہ میں تمام مسائل کی ماں ثابت ہوئی تھی۔ 17 سال سے امریکہ  افغانستان میں ہے جو اس Meddling کے اثرات کا نتیجہ ہے۔ 1977 کے انتخابات میں Losers  کی دھاندلیوں کے الزام کی حمایت کر کے امریکہ آج افغانستان پاکستان اور اس خطہ میں Loser نظر آ رہا ہے۔
   اگر 1977 میں پاکستان میں Meddling نہیں کی جاتی اور جمہوری عمل کو جاری رکھنے میں پاکستان کی مدد اور تعاون کیا جاتا تو آج پاکستان اور یہ خطہ ضرور بہت مختلف ہوتا۔ ری پروسسنگ پلانٹ کے مسئلہ پر وزیر اعظم بھٹو سے مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھا جاتا۔ پاکستان شاید ایٹمی ہتھیار بھی نہیں بنا تا اگر امریکہ کشمیر کا تنازعہ حل کرانے میں اپنی سرگرمی دکھاتا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے تنازع پر تین جنگیں ہو چکی تھیں۔ اس تنازعہ کی وجہ سے پاکستان کو اپنی سلامتی کے مفاد میں ایٹمی ہتھیاروں پر انحصار کرنا پڑا تھا۔ 1971 میں بھارت نے پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت اور پھر جارحیت کر کے پاکستان کے ٹکڑے کر دئیے تھے۔ کسی نے بھارت کو اس جارحیت سے نہیں روکا تھا۔ ہنری کسنگر پاکستان کی اس پوزیشن کو سمجھنے کے بجاۓ لاہور میں وزیر اعظم بھٹو کو دھونس اور دھمکیاں دینے لگے تھے۔ وزیر اعظم بھٹو کی پالیسی دور اندیشی کی تھی۔ کشمیر کا تنازعہ اگر حل نہیں ہو گا تو بھارت پاکستان کے خلاف جارحیت بھی نہیں کرے گا۔ 1977 میں صرف ایک غلط فیصلہ کے نتیجہ میں امریکہ کو اس خطہ میں کتنی ناکامیوں کا سامنا ہوا ہے۔              

Monday, July 23, 2018

Democracy And Rule Of Law Are National Security Issues


Democracy And Rule Of Law Are National Security Issues

These Are New Borders of National Security, The Army Has To Protect And Defend It

مجیب خان

Prime Minister Nawaz Sharif meets with Army General Raheel Sharif

President Asif Ali Zardari and Army Chief General Ashfaq Pervez Kayani

Imran Khan 

Pakistan Tehreek- e - Insaf's Election Rally in Mian Walli

    'جمہوریت اور قانون کی حکمرانی' اب قومی سلامتی کے ایشو ز ہیں۔ پاکستان میں سب اس پر اتفاق کرتے ہیں۔ اور فوج نے بھی یہ قبول کرتے ہوۓ اپنے ایک نئے رول کا تعین کیا ہے۔ فوج اب ملک میں جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کا اسی طرح تحفظ کرے گی جیسے یہ ملک کی سرحدوں کا دفاع کرتی ہے۔ لیکن جو پرانی دنیا میں ہیں اور ان کے Mind set ہیں وہ فوج کے اس نئے رول کو سیاست میں فوج کی مداخلت دیکھیں گے۔ فوج پرانے رول میں اب واپس جانا نہیں چاہتی ہے۔ اور سیاستدان اپنے پرانے رول سے نکل کر ایک نیا رول اختیار کرنا نہیں چاہتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف دنیا میں یہ تاثر پیدا کیا جا رہا ہے کہ فوج انتخابات میں مداخلت کر رہی ہے۔ اور ایک ایسی حکومت اقتدار میں لانا چاہتی ہے جو کمزور ہو اور فوج کے اشاروں پر چلے۔ یہ ایک Nonsense تاثر ہے۔ کمزور حکومت وہ ہوتی ہے جس پر کرپشن کے داغ ہوتے ہیں۔ اور اس میں Guilty ہونے کا خوف ہوتا ہے۔ اور اس خوف سے وہ کمزور حکومت ہوتی ہے۔ لیکن جس حکومت پر کرپشن کے داغ دھبے نہیں ہوتے ہیں۔ وہ کسی خوف کے بغیر مضبوط حکومت ہوتی ہے۔ چیف جسٹس چوہدری افتخار محمد نے 4سال تک صدر زر داری کو کرپشن کے کیس میں خوفزدہ کر کے رکھا تھا۔ اور بش انتظامیہ نے ایک خوفزدہ اور کمزور زر داری حکومت کو manipulate کیا تھا۔ لیکن جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اس  سے اتفاق کیا تھا کہ ملک میں جمہوری عمل کو جاری رکھا جاۓ اور قانون کی حکمرانی قائم کی جاۓ۔ 2008 میں زر داری کے صدر بننے پر اسلام آباد میں نیویارک ٹائمز کی نمائندہ سے گفتگو میں جنرل کیانی نے کہا کہ "ہم زر داری کو پسند نہیں کرتے ہیں اور نواز شریف پر ہمیں بھر و سہ نہیں ہے۔" لیکن فوج میں زر داری اور نواز شریف کے بارے میں اس تاثر کے باوجود دونوں کو اقتدار میں آنے کا موقع دیا گیا تھا۔ اور دونوں نے اپنے اقتدار کی میعاد پوری کی تھی۔ نواز شریف کو کسی نے کرپشن کے کیس میں setup نہیں کیا ہے۔ نواز شریف نے خود اپنے آپ کو ان cases میں setup کیا ہے۔ نواز شریف کی وزیر اعظم کے عہدے سے بر طرفی کے بعد ان کی پارٹی نے اقتدار کی میعاد پوری کی ہے۔ جمہوری عمل جاری رکھا گیا تھا۔ اور اس میں کسی طرف سے کوئی دخل اندازی نہیں کی گئی تھی۔ اور یہ جمہوریت اور قانون کی بالادستی کی ایک بڑی کامیابی تھی۔
   2008 میں پاکستان کے ارد گرد کے حالات انتہائی خطرناک تھے۔ پاکستان کی بقا ان حالات کی زد میں تھی۔ افغانستان میں طالبان کے خلاف امریکہ اور نیٹو کی جنگ ہو رہی تھی۔ قبائلی علاقہ اسلامی دہشت گردوں کے گٹھ بنے ہوۓ تھے۔ یہاں سے یہ پاکستان کے سرحدی علاقوں میں دہشت گردی کرتے تھے۔ پاکستان کے اندر اسلامی دہشت گرد تنظیمیں مختلف عقیدوں اور فرقوں پر حملہ کر رہی تھیں۔ فوج ایک طرف بھارت کے ساتھ سرحدوں پر اور دوسری طرف افغانستان کے ساتھ پاکستان کی سرحدوں پر مصروف تھی۔ ان حالات میں پاکستان میں انتخابات ہوۓ تھے۔ جنرل پرویز مشرف کا دس سال کا دور اقتدار ختم ہوا تھا۔ اور حکومت کا نظام سیاسی جماعتوں کے حوالے کیا گیا تھا۔ جمہوریت جب بھی بحال ہوئی ہے یہ سیاسی المیہ رہا ہے کہ جنرل ضیا الحق حکومت کے دس سال بعد سیاستدان سیدھے نہیں ہوۓ تھے۔ اور  جنرل پرویز مشرف حکومت کے دس سال بعد بھی سیاستدان سیدھے نہیں ہوۓ تھے۔ تاریخ میں جنرل ضیا الحق کی فوجی حکومت کے بعد صدر آصف علی زر داری کی جمہوری حکومت کو بد ترین دور دیکھا جاۓ گا۔ الزامات کی سیاست کرنا سب سے آسان ہے۔ لیکن اپنے آپ کو الزام دینا سب سے مشکل ہے۔ حکومت میں اور اپوزیشن میں ان کے Behaviors سے جمہوریت کو ہمیشہ نقصان پہنچا ہے۔ اور یہ Facts ہیں۔
   حکومت میں آنے کے بعد صدر زر داری اور وزیر اعظم گیلانی کی پہلی ذمہ داری یہ تھی کہ پاکستان کو افغان جنگ کے اثرات سے بچانے اور پاکستان کے اندر اسلامی انتہا پسندی کے خلاف ایک سیاسی حکمت عملی تیار کی جاتی۔ اس میں تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو شامل کیا جاتا۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف مشترکہ سیاسی کوششیں کی جاتی۔ دہشت گردی کو جنگ کی صورت بننے سے روکا جاتا۔ اسے جنگ قرار دے کر فوج کو سیاست میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کا موقعہ نہیں دیا جاتا۔ بے نظیر بھٹو شاید ایک ایسی ہی حکمت عملی کو اہمیت دیتیں۔ لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ دراصل بش انتظامیہ کا setup تھا۔ جس میں پاکستان کو fit کیا جا رہا تھا۔ اور صدر زر داری اس میں fit ہونے کے لئے تیار تھے۔ بش انتظامیہ کے مشورے پر صدر زر داری نے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کا ٹھیکہ فوج کو دے دیا تھا۔ ان سے یہ کہا گیا تھا کہ آپ حکومت کرو گے اور فوج دہشت گردوں کے خلاف جنگ لڑے گی۔ جیسے 1960s میں فوج بلوچوں کے خلاف کاروائیوں میں مصروف رہتی تھی اور پنجاب پاکستان پر حکومت کرتا تھا۔ 21ویں صدی کی دوسری دہائی کے آغاز پر امریکہ کی یہ تجویز پیپلز پارٹی کی حکومت بلکہ مسلم لیگ ن اور دوسری سیاسی جماعتوں کو بھی بہت پسند آئی تھی۔ پاکستان میں جمہوریت کا یہ بھی المیہ ہے کہ سیاستدانوں نے کبھی دور اندیش ہونے کا ثبوت نہیں دیا ہے۔ انہوں نے اس پر غور تک نہیں کیا تھا کہ ان کے لئے دہشت گردی کے خلاف اس جنگ کا End game کیا ہو گا۔ یہ جنگ کتنی طویل ہو گی؟ اور وہ اس جنگ میں کہاں تک گھسیٹے جائیں گے؟ اس جنگ کے اثرات پاکستان پر کیا ہوں گے؟ آصف علی زر داری کی ذہنی نشو و نما بمبینو سینما کی دھکم پیل دنیا میں ہوئی تھی۔ لہذا یہ سوال ان کی سوچ سے باہر تھے۔ صدر زر داری نے ان سوالوں کے جواب تلاش کرنے کے لئے کہا کہ " میں نے جنرل اشفاق پرویز کیانی کو یہ مکمل اختیار دے دیا ہے کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف جہاں چاہیں اور جب چاہیں کاروائی کریں۔" اپنے اس فیصلے سے ایک طرح سے انہوں نے اپنی آدھی حکومت جنرل کیانی کو دے دی تھی۔ اور شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کا ٹھیکہ اپنے Bull Shit وزیر داخلہ رحمان ملک کو دے دیا تھا۔ فوج کو مصروف رکھنے اور قوم کو دہشت گردوں کے عذاب میں رکھنے کے لئے زر داری، گیلانی، رحمان ملک نے پاکستان کی تمام سرحدیں کھول دی تھیں۔ واہاگہ کے راستے بھارت سے لاہور بس سروس میں اضافہ کر دیا تھا۔ سندھ میں اٹاری کے راستہ بھارت سے ٹرینوں کی آمد رفت بحال کر دی تھی۔ ملک میں اندھیرا کر دیا تھا۔ پاکستانی ویزے کے بغیر غیر ملکی ایجنسیوں کے لوگوں کی اسلام آباد ایرپورٹ پر بمبینو سینما والی دھکم پیل ہونے لگی تھی۔ صدر زر داری کے حکم پر Bull Shit وزیر داخلہ رحمان ملک نے انہیں بلیک میں ویزے دئیے تھے۔ پاکستان ہر طرف سے حملوں کی زد میں تھا۔ اور عوام نے جنہیں منتخب کیا تھا۔ یہ ان کے احمقانہ فیصلے تھے۔ امریکہ میں نائن الیون کے بعد تمام ائر پورٹ فوری طور پر بند کر دئیے گیے تھے۔ سرحدوں کی سخت نگرانی کا حکم  دیا گیا تھا۔ انڈونیشیا بالی میں خوفناک دہشت گردی کے واقعہ کے بعد جب حکومت کو یہ پتہ چلا کہ دہشت گرد انڈونیشیا کے شہری تھے۔ جنہوں نے پاکستان میں مدرسوں میں تعلیم حاصل کی تھی اور یہ وہاں انتہا پسند ہو گیے تھے۔ انڈونیشیا کی حکومت نے پاکستان کے مدرسوں سے اپنے تمام طالب علموں کو واپس بلا لیا اور پاکستان سے انڈونیشیا آنے والوں کو ویزے دینے میں سختی کر دی تھی۔ جو ویزے کے لئے درخواست دیتے تھے ان کی پہلے جانچ پڑتال ہوتی تھی۔ اس میں 4 سے 6 ہفتہ لگ جاتے تھے۔ پہلے یہ ویزے تین چار دن میں دے دئیے جاتے تھے۔ ہر حکومت اپنے ملک کے امن اور شہریوں کی سلامتی اور حفاظت کے لئے اقدامات کرتی ہے۔ اور حکومت  ایسے حالات کو بڑی سنجیدگی سے لیتی ہے۔ لیکن پاکستان میں سیاستدانوں نے ایسے حالات کو سنجیدگی سے لینے کی ذمہ داری فوج کو دے دی تھی۔ اور خود Sidelines پر کھڑے ہو گیے تھے۔ دنیا ہنستی ہے کہ پاکستان ایک بڑا اسلامی ملک ہے اور اس ملک میں مسلمانوں نے مسلمان کے خلاف سب سے زیادہ دہشت گردی کی ہے۔ یہ سیاسی لیڈروں کا المیہ ہے کہ وہ حالات کو سنبھالنے اور انہیں قابو میں رکھنے کی صلاحیتیں نہیں رکھتے ہیں۔ ہمیشہ فوج کی طرف مدد کے لئے دیکھتے ہیں۔ اور پھر فوج کو سیاست میں مداخلت کرنے کا الزام بھی دیتے ہیں۔ یہ مشکل ترین سیاستدان ہیں جن کی وجہ سے ایک تہائ مشکلات کا پاکستان کو سامنا ہے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی تین مرتبہ اقتدار میں آئی ہیں۔ لیکن انہوں نے ابھی تک Good Governance کی مثال قائم نہیں کی ہے۔ تینوں مرتبہ انہیں ‘F’ ملا ہے اور حکومت کرنے میں فیل ہوۓ ہیں۔

Definition of good governance, ‘Good Governance is the process whereby public institutions conduct public affairs, manage public resources and guarantee the realization of human rights in a manner essentially free of abuse and corruption, and with due regard for the rule of Law.’                                                                 



Wednesday, July 18, 2018

Vote Against Corruption


Vote Against Corruption 

مجیب خان
 
Nawaz Sharif's Palace in Rai wind Lahore


Nawaz Sharif's Palace 

A large number of People Live below the poverty line in Southern and Western Punjab

Asif Ali Zardari's Palace

Children's school in Zardari's hometown- Sindh

Government school in Badin Sindh
  
   میکسیکو بھی پاکستان کی طرح ایک ترقی پذیر ملک ہے۔ جس طرح ہر ترقی پذیر ملک جمہوری معاشرہ بننے کی جد و جہد کر رہا ہے۔ اسی طرح میکسیکو بھی ایسی ہی جد و جہد سے گزر رہا ہے۔ تاہم میکسیکو کی 1.4ٹریلین ڈالر کی معیشت ہے۔ شمالی امریکہ میں امریکہ اور کینیڈا کے بعد میکسیکو کی تیسری بڑی معیشت ہے۔ میکسیکو تیل پیدا کرنے والے ملکوں میں ساتویں نمبر پر ہے۔ کینیڈا کے بعد امریکہ میں میکسیکو سے تیل آتا ہے۔ میں نے Mexicans سے پوچھا کہ میکسیکو کی 1.4ٹریلین ڈالر کی معیشت ہے۔ لیکن میکسیکو میں اتنی غربت کیوں ہے؟ ان کی زبان پر جو پہلا لفظ آیا وہ کرپشن تھا۔ انہوں نے کہا میکسیکو کے لیڈر اور حکومت کرپٹ ہیں۔ میکسیکو میں اس ماہ نئے انتخابات ہوۓ ہیں۔ میکسیکو کے لوگوں نے جسے صدر منتخب کیا ہے۔ وہ ایک Leftist ہے۔ 20سال قبل وہ میکسیکو کے ایک شہر کا میئر تھا۔ اور اس نے شہر کے لوگوں کے لئے بہت اچھے کام کیے تھے۔ ان کے شہر کو بنایا تھا۔ لوگ بھی اس سے بہت خوش تھے۔ میئر کی مدت پوری ہونے کے بعد وہ نجی زندگی میں مصروف ہو گیا تھا۔ اب 20 سال بعد اس نے انتخاب میں صدارتی امیدوار بننے کا فیصلہ کیا۔ میکسیکو کے لوگ اسے بھولے نہیں تھے۔ اور انہوں نے اب اسے میکسیکو کا صدر منتخب کیا ہے۔ نو منتخب صدر Andres Manuel Lopez Obrador نے میکسیکو کے عوام سے یہ عہد کیا ہے کہ وہ کرپشن کے خلاف لڑے گا۔ اور میکسیکو سے غربت کو جڑسے ختم کیا جائے گا۔ میکسیکو کے لوگ نو منتخب صدر سے خوش ہیں۔ اور انہیں اس کی انکساری دیانتداری اور اس کے صاف ستھر ے کردار پر فخر ہے۔
   کرپشن صرف پاکستان میں مسئلہ نہیں ہے۔ یہ دنیا کے بے شمار ملکوں میں ایک Chronic مسئلہ ہے۔ پاکستان میں جمہوریت اور سیاسی ادارے اتنے مضبوط نہیں ہیں کہ جتنی کرپشن کی جڑیں گہری اور مضبوط ہیں۔ کرپشن کی ان جڑوں پر جمہوری اور سیاسی ادارے تعمیر کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ پاکستان میں اب تیسرے انتخاب ہونے جا رہے ہیں۔ لیکن لوگ  فیصلہ کرنے میں ابھی تک سیاسی با شعور نہیں ہیں۔ لوگ جنہیں ووٹ دینے جا رہے ہیں۔ ان کے سیاسی ریکارڈ کو دیکھ کر انہیں ووٹ دینے کا فیصلہ نہیں کرتے ہیں۔ 1990s سے ان ہی پارٹیوں اور لیڈروں کو ووٹ دے رہے ہیں۔ صوبہ پنجاب  میں مسلم لیگ ن دس سال سے حکومت کر رہی ہے۔ جبکہ پیپلز پارٹی دس سال سے صوبہ سندھ میں حکومت کر رہی ہے۔ سندھ اور پنجاب کے لوگوں کے سامنے ان حکومتوں کی کارکردگی کا دس سال کا ریکارڈ ہے۔ صوبوں میں Law and Order اور Crimes کی صورت حال بھی ان کے سامنے ہے۔ جمہوریت Political Names Brand’ سے نہیں ہوتی ہے۔ پنجاب اور سندھ میں دو پارٹیوں نے ‘Political Names Brand’ نعرے لوگوں کو دے دئیے ہیں۔ اور یہ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اور اپنے آپ کو ان نعروں سے منتخب کر ا لیتے ہیں۔ میاں نواز شریف اب اگر اقتدار میں نہیں  ہیں تو جمہوریت خطرے میں ہے۔ اور لوگ اگر پیپلز پارٹی کو ووٹ نہیں دیں گے تو الیکشن منصفانہ نہیں تھے۔ ان باتوں سے لیڈروں میں Guilt ہونے کا تاثر پیدا ہوتا ہے۔ انتخابات کا مقصد اپنے آپ کو لوگوں کے سامنے احتساب کے لئے پیش کرنا ہوتا ہے۔ اگر پارٹی اقتدار میں ہوتی ہے تو یہ اپنے  اقتدار کا حساب کتاب عوام کے سامنے پیش کرتی ہے۔ عوام کو بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے عوام کے لئے کیا کام کیے ہیں۔ لیکن یہ وہ لیڈر ہیں جو احتساب سے ہمیشہ بھاگتے ہیں۔ یہ اپنے انتخابی حلقوں میں لوگوں کا سامنا بھی نہیں کر سکتے ہیں۔ لوگ ان سے صرف یہ سوال کر رہے ہیں کہ 5سال سے کہاں تھے۔ 10سال سے تم حکومت میں ہو لیکن ہمارے لیے کیا کیا ہے؟ یہ لوگوں کے اتنے آسان سوالوں کے جواب بھی نہیں سکتے ہیں اور بھاگ جاتے ہیں۔
  اب حیرت کی بات ہے کہ یہ پارٹیاں جو تین مرتبہ اقتدار میں آئی ہیں۔ دس سال سے سندھ اور پنجاب  میں  ان کی حکومتیں تھیں۔ یہ عوام میں اپنی گرتی حمایت دیکھ کر level playing field کی بات کر رہے ہیں۔ میڈیا میں جو سیاسی تجزیہ نگار ہیں یا جو سیاسی پروگرام Anchors ہیں۔ وہ بھی اس کی حمایت کر رہے ہیں۔ حالانکہ انہیں ان لیڈروں کو ذرا Educate کرنا چاہیے تھا کہ جناب آپ حضرات کی پارٹیاں تین مرتبہ اقتدار میں آئی ہیں۔ 2008 کے الیکشن کے بعد پیپلز پارٹی نے 5سال حکومت کی ہے۔ اور اس کے بعد 2013 کے الیکشن کے بعد مسلم لیگ ن نے 5 سال حکومت کی ہے۔ پھر پنجاب میں ن لیگ اور سندھ میں پیپلز پارٹی 10سال سے حکومت میں ہیں۔ لیکن عمران خان کبھی اقتدار میں نہیں تھے۔ 20سال سے تحریک انصاف پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی کرپٹ حکومتوں کے خلاف جد و جہد کر رہے ہیں۔ ان پارٹیوں کے لیڈروں کے  فراڈ، غبن، دھاندلیوں کو بے نقاب کرتے رہے ہیں۔ اور پاکستان کو کرپشن سے پاک معاشرہ بنانے کی 20سال سے عمران خان تحریک چلا رہے تھے۔ لوگوں نے پہلے پیپلز پارٹی کے 5سال اور اب مسلم لیگ ن کے 5سال اقتدار کے دیکھے ہیں۔ اور اب عمران خان کی باتیں ان کی سمجھ میں آ رہی ہیں۔ ان لیڈروں اور پارٹیوں کے پاس عوام کے لئے کام کرنے کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ پاکستان کے لوگوں کی اکثریت بنیادی انسانی ضرورتوں سے محروم ہے۔ زر داری نے بلاول بھٹو زر داری کو یہ کہنے کے لئے سیاست کے میدان میں اتار دیا ہے کہ 'ہم جب اقتدار میں آئیں گے تو غربت کا خاتمہ کریں گے۔' اس سے بڑا مذاق غریبوں کے ساتھ اور کیا ہو گا۔ جب دونوں پارٹیوں کے پاس بدعنوانیاں کرنے کے ریکارڈ کے سوا کچھ اور نہیں ہے تو یہ Level playing field’ کا مطالبہ کرنے لگی ہیں۔ 3 مرتبہ انہوں نے حکومت کی ہے۔ اور چوتھی بار انہیں منتخب کرنے سے پہلے ان کا احتساب واجب ہو گیا ہے۔
   ملائشیا میں دو ماہ قبل انتخابات میں لوگوں نے وزیر اعظم نجیب رزاق کے خلاف ووٹ دئیے تھے۔ اور انہیں اقتدار سے ہٹا دیا تھا۔ نجیب رزاق پر کرپشن کے سنگین الزامات تھے۔ ان کے خلاف ایک عرصہ سے کرپشن کی تحقیقات ہو رہی تھی۔ اس ماہ Anti- corruption حکام نے نجیب رزاق کو گرفتار کیا ہے۔ تحقیقات کے دوران انہیں کھربوں ڈالر اسٹیٹ انویسمینٹ فنڈ سے خرد برد کرنے میں ملوث پا یا گیا تھا۔ نیویارک ٹائمز کی خبر کے مطابق نجیب رزاق اور ان کے اتحادیوں نے ایک عرصہ تک کرپشن کو چھپانے کے لئے اپنا سیاسی اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوۓ کیش تقسیم کیا تھا۔ اور میڈیا میں ان کے خلاف کرپشن کی خبروں کو دبایا تھا۔ لیکن ملائشیا کے لوگوں کو انویسمینٹ فنڈ سکینڈل پر غصہ تھا۔ اور انہوں نے گزشتہ مئی میں انتخابات میں وزیر اعظم نجیب کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کو ووٹ دئیے تھے۔ یہ اتحاد صرف وزیر اعظم نجیب کے خلاف بنایا گیا تھا۔ ملائشیا کے لوگوں نے متہاہر محمد کو وزیر اعظم منتخب کیا ہے۔ جنہوں نے نجیب رزاق کو انصاف کی عدالت کے سامنے لانے کے لئے انتخابی مہم چلائی تھی۔ 92 سالہ متہاہر محمد پہلے بھی وزیر اعظم رہے چکے تھے۔ سیاست سے رٹائرڈ ہونے کے 15 سال بعد متہاہر محمد دوسری مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہوۓ ہیں۔ پہلی مرتبہ وزیر اعظم متہاہر محمد نے ملائشیا میں اقتصادی اصلاحات کی تھیں۔ ان کے دور میں ملائشیا نے شاندار اقتصادی ترقی کی تھی۔ اور انہیں Father of Modernization کہا جاتا تھا۔ ملائشیا کے لوگ ایک بار پھر متہاہر محمد کو اقتدار میں لاۓ ہیں۔ متہار محمد کے وزیر اعظم بننے کے بعد حکام نے نجیب رزاق اور ان کی اہلیہ کے بیرون ملک جانے پر پابندی لگا دی ہے۔ نجیب رزاق پر money Laundering کا الزام بھی تھا۔ انہوں نے اسٹیٹ انویسٹمینٹ فنڈ سے 731 ملین ڈالر اپنے نجی اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کیے تھے۔ اور پھر اس سے اپنے اور اپنی اہلیہ کے لئے انتہائی قیمتی اشیا خریدی تھیں۔ مرحوم سعودی شاہ عبداللہ نے وزیر اعظم نجیب کے بنک اکاؤنٹ میں 600 ملین ڈالر جمع کراۓ تھے۔ جس کے بعد وزیر اعظم نجیب نے ملائشیا کی فوج سعودی عرب بھیجنے کا اعلان کیا تھا۔ اس سکینڈل کی ملائشیا کے اٹارنی جنرل نے تحقیقات کی تھی۔ ملائشیا کی پولیس نے بتایا کہ انہوں نے نجیب کی رہائش گاہوں سے کیش، جیولری، قیمتی Purses اور 273ملین ڈالر ضبط کیے ہیں۔ پولیس نے جو قیمتی اشیا ضبط کی ہیں ان میں 567 ہینڈ بیگ، 2200 انگوٹھیاں، اور 14Tiaras تھے۔ سابق وزیر اعظم نجیب نے فرانس سے Submarines خریدنے کی ڈیل میں Kickbacks سے 130ملین ڈالر بناۓ تھے۔ فرانس کے حکام نے بھی اس کی تحقیقات کی تھی۔ متہاہر محمد نے نیویارک ٹائمز سے انٹرویو میں بتایا کہ 2015 میں ایک نجی گفتگو میں نجیب نے ان سے کہا کہ Cash is King’ ملائشیا میں دولت سیاسیات ایک با اختیار ہے۔ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ ‘Cash is King’ متہاہر محمد نے کہا 'نجیب کا مطلب تھا ‘Corruption is O.K.’
  پاکستان میں بھی سیاستدان ‘Corruption is O.K.’ اپنا ایک سیاسی حق سمجھتے ہیں۔ ان کے لئے سیاست ‘Cash is King’ ہے۔ یہ الیکشن میں لاکھوں خرچ کرتے ہیں۔ اور پھر نئے الیکشن سے پہلے یہ کروڑوں بنا لیتے ہیں۔ 1990s میں آصف علی زر داری نے بھی فرانس سے Submarines خریدنے کی ڈیل میں Kickbacks سے لاکھوں ڈالر بناۓ تھے۔ آصف زر داری اس وقت وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی کابینہ میں وزیر تجارت تھے۔ 1980s میں میاں نواز شریف صوبہ پنجاب میں وزیر خزانہ تھے۔ اور انہوں نے دونوں ہاتھوں سے Kickbacks پنجاب سے سیکھا تھا۔ یہ لوگ اتنے بڑے سیاسی دانش ور نہیں ہیں کہ جتنے Corrupt Professional ہیں۔ اس لئے سیاست میں جو خلا ہے فوج اور عدالت کو اپنے قدم رکھنا پڑتے ہیں۔ ملائشیا میں وزیر اعظم  نجیب رزاق Corruption کرنے کے بعد صرف ایک ہی میعاد پوری کر سکے تھے۔ ملائشیا کے لوگوں نے نئے انتخابات میں انہیں اقتدار سے ہٹا دیا تھا۔ اور دنیا کو یہ بتایا تھا کہ قوم Corrupt نہیں ہے۔ پاکستان میں لوگ جمہوریت چاہتے ہیں۔ لیکن جمہوریت کو کرپشن سے صاف کرنے کا ان میں سیاسی شعور نظر نہیں آتا ہے۔ Corrupt لوگوں کو بار بار منتخب کر کے انہیں Corruption کے مواقع دیتے ہیں۔ اس انتخاب میں انہیں یہ سلسلہ بند کرنا ہو گا۔ اور انہیں بھی دنیا کو یہ بتانا ہو گا کہ پاکستانی قوم Corrupt نہیں ہے۔