Elections 2018: The Landslide Defeat of Islamic Parties In Pakistan
People Rejected The Role of Religion In Politics
مجیب خان
Muttahida Majlis Amal- an alliance of religious parties, rejecting election result |
The leader of MMA Maulana Fazlur Rehman addressing a press conference in Islamabad |
یہ ہے جمہوری عمل جو پاکستان میں 2018 کے انتخابات میں دیکھا جا رہا ہے۔ بڑے بڑے سیاسی خاندان جمہوری عمل کی موجوں میں بہہ گیے۔ اور کوئی انہیں ان موجوں سے بچا نہیں سکا تھا۔ ملتان میں پیپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی اور ان کے صاحبزادے بری طرح الیکشن ہا ر گیے۔ بڑی بڑی مذہبی شخصیتیں اور ان کی اسلامی جماعتوں کا بالکل صفایا ہو گیا ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور جنرل سیکریٹری لیاقت بلوچ بلکہ جماعت اسلامی کی ساری اعلی قیادت کا الیکشن میں صفایا ہو گیا ہے۔ جمعیت علماۓ اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن جنہیں ایک نامور پشتون فلم اسٹار مسرت شاہین نے کئی مرتبہ مولانا کے مقابلے پر امیدوار بن کر انہیں انتخاب میں ہرانے کی کوشش کی تھی۔ عمران خان نے بھی گزشتہ انتخاب میں ان کے مقابلے میں اپنا امیدوار کھڑا کیا تھا۔ لیکن مولانا شکست سے بال بال بچ گیے تھے۔ اس مرتبہ ایسا نظر آتا ہے کہ اللہ نے مسرت شاہین کا مشن پورا کر دیا ہے۔ اور عمران خان کی مولانا کو شکست دینے کی حسرت بھی پوری ہو گئی ہے۔ اور مولانا فضل الرحمن تقریباً 4دہائیوں کے بعد پہلی مرتبہ الیکشن ہارے ہیں۔ اور یہ جمہوریت کے صحت مند اور انتخاب کے صاف ستھرا ہونے کی علامت ہیں۔ 4دہائیوں سے مسلسل انتخاب جیتنے سے بھی لوگوں میں انتخاب میں دھاندلیاں ہونے کے شک و شبہات پیدا ہونے لگتے تھے۔ مولانا کی سیاسی دنیا میں تمام چراغ بجھ گیے ہیں۔ مولانا کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ اب یہ چراغ روشن ہوں گے بھی یا نہیں۔ اور سیاست کے بغیر اب وہ زندہ کیسے رہیں گے۔ ہمارے خیال میں پاکستان میں اسلامی جماعتوں کی انتخابات میں شکست کا سعودی عرب میں عورتوں کو ڈرائیونگ لائیسنس ملنے سے بھی ہے۔ جسے پاکستان میں عورتوں نے اسلامی جماعتوں کے خلاف ووٹ دینے کا لائیسنس سمجھا تھا۔ سعودی عرب میں اصلاحات پاکستان کی سیاست میں اسلامی جماعتوں کا سیاسی رول ختم ہونے کی اصلاحات ہوں گی۔ دوسری طرف سیکولر اور نام نہاد قوم پرست لیڈر اور ان کی سیاسی جماعتیں بھی الیکشن بری طرح ہار گئی ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندر یار ولی بھی الیکشن ہار گیے ہیں۔ صوبائی اور قومی سیاست میں ان کا سیاسی وجود تقریباً ختم ہو گیا ہے۔ بلوچستان میں پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی کے چیرمین محمود خان اچکزئی بھی الیکشن ہار گیے ہیں۔ کئی دہائیوں کی ان کی سیاست اب تاریخ بن گئی ہے۔ یہ وہ لیڈر ہیں جنہیں اب مل کر اپنی Political Obituary لکھنا چاہیے۔ جمہوریت کی یہ خوبی ہے کہ اس کا جمہوری عمل سیاست اور حکومت کے نظام کی صفائی کرتا رہتا ہے۔ پاکستان کے تیسرے انتخاب میں اس جمہوری عمل کے نتائج یہ ثبوت دے رہے ہیں۔ کیونکہ سیاست پر برسوں سے کرپشن کی چربی چڑھی ہوئی ہے۔ اس لئے انتخاب میں جنہیں شکست ہوئی ہے انہیں اس میں دھاندلی کا رول نظر آ رہا ہے۔ لیکن ان کا سیاست میں کرپشن کا رول عوام دیکھ رہے تھے۔ لوگوں کو عمران خان کے جیتنے کی جتنی خوشی ہے اتنی ہی خوشی لوگوں کو مولانا فضل الرحمن، امیر جماعت اسلامی سراج الحق، جنرل سیکرٹیری لیاقت بلوچ، اسفندر یار ولی اور محمود خان اچکزئی کے الیکشن ہارنے پر خوشی ہوئی ہے۔ ان کے منتخب ہونے سے جمہوریت کے لئے خطرے زیادہ ہوتے تھے۔ عوام کی صحت ان کے منتخب ہونے سے خراب رہتی تھی۔ یہ منتخب ہونے کے بعد عوام کو غریب رکھنے کی سیاست کرتے تھے۔ مولانا فضل الرحمن 30 سال سے منتخب ہو رہے تھے۔ لیکن 30سال میں انہوں نے اپنے حلقے کے کتنے لوگوں کو غربت سے نکالنے کے کام کیے تھے؟ مولانا انتخاب جیتنے کے بعد سیاسی عیاشیاں کرتے تھے۔ ان کا 30 سال کا ریکارڈ کوئی مثبت کام کرنے کے ثبوت فراہم نہیں کرتا ہے۔
یہ لوگ جو انتخاب ہار گیے ہیں۔ یہ سیاسی فسادی ہیں۔ جنہوں نے ہارنے کے بعد ہمیشہ فساد پھیلانے کی سیاست کی ہے۔ لوگوں کو تشدد پر اکسایا ہے۔ مولانا فضل الرحمن جو متحدہ مجلس عمل کے رہنما ہیں، ان کے مرحوم والد مولانا مفتی محمود 1977 میں ایک ایسے ہی اتحاد PNA کے رہنما تھے۔ انہوں نے اس وقت الیکشن میں دھاندلیوں کا الزام لگایا تھا۔ جو وہ اپنی زندگی میں کبھی ثابت نہیں کر سکے تھے۔ لیکن سارا جمہوری نظام تباہ کر کے چلے گیے تھے۔ مولانا فضل الرحمن بھی انتخاب ہارنے کے بعد کہتے ہیں کہ عوام ہمارے ساتھ ہیں۔ اور ہم نے جمہوریت کے لئے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ ہم جمہوریت کو یرغمال نہیں بننے دیں گے۔ وغیرہ وغیرہ۔ سوال یہ ہے کہ اگر عوام ان کے ساتھ تھے تو وہ الیکشن کیوں ہار گیے تھے؟ اور جمہوریت کے لئے ان کی کیا قربانیاں ہیں؟ انہوں نے لوگوں کی قربانیوں کو جمہوریت میں کیش کیا ہے۔ مولانا کو جمہوریت یرغمال ہونے کی پریشانی ہے۔ لیکن اسلامی انتہا پسندوں نے اسلام کو یرغمالی بنا لیا ہے مولانا کو اس پر کوئی پریشانی نہیں ہے۔ اللہ کے اسلام کو دہشت گردوں اور تخریب کاروں سے جو اللہ کی بے گناہ انسانیت کا قتل کر رہے تھے۔ لیکن مولانا اور دوسرے اسلامی رہنماؤں نے مصلحت پسندی کا ثبوت دیا تھا۔ آخر اللہ کے اسلام کو بچانے ان کے خلاف سر سے کفن باندھ کر کیوں نہیں نکلے تھے؟ انتخاب میں اسلامی جماعتوں اور ان کے قائدین کی شکست میں شاید اللہ کی مرضی کا بھی دخل ہے۔
یہ پاکستان کی تاریخ کے پہلے انتخاب ہیں جس میں لوگوں کا سیاسی شعور بلندی پر ہے۔ اور انہوں نے ووٹ دینے میں اپنا سیاسی شعور استعمال کیا ہے۔ لیاری کے لوگوں نے اسے اہمیت نہیں دی تھی کہ بلاول زر داری بھٹو ذوالفقار علی بھٹو کا نواسہ تھا۔ یا بے نظیر بھٹو شہید کا بیٹا تھا۔ انہوں نے یہ دیکھا تھا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے لیاری کے لئے کیا کیا تھا۔ اس لئے لیاری کے لوگوں نے بلاول زر داری کو ووٹ نہیں دیا تھا۔ یہ پاکستان میں بہت بڑی نئی تبدیلی ہے۔ لوگوں کی سوچ میں یہ تبدیلی پاکستان کا سیاسی کلچر تبدیل کرے گا۔ اندرون سندھ لوگوں کی سوچ میں تبدیلی آنے میں ابھی کچھ وقت لگے گا۔ سندھ کے لوگوں میں جب سیاسی تعلیم آۓ گی جیسے یہ لیاری کے لوگوں میں آئی ہے۔ انہوں نے سب سے پہلے پیپلز پارٹی کو الیکشن میں ہرایا ہے۔ اور لیاری کے لوگوں کے لئے یہ ایک بڑا سیاسی اعزاز ہے۔ آصف علی زر داری اپنی Charismatic Political Personality کی وجہ سے منتخب نہیں ہوۓ ہیں۔ لوگوں نے انہیں اس لئے ووٹ دئیے تھے کہ وہ بے نظیر بھٹو کے شوہر تھے۔ اور Widower ہیں۔ اس الیکشن میں بھی پیپلز پارٹی کی Performance زیادہ اچھی نہیں تھی۔ پیپلز پارٹی دوسرے نمبر سے تیسرے نمبر آ گئی ہے۔ کراچی میں سندھ حکومت کا Secretariat ہے۔ لیکن پاکستان تحریک انصاف نے کراچی میں 14 نشستوں پر انتخاب جیتا ہے۔ اور آئندہ انتخاب میں یہ سندھ میں 50 نشستیں حاصل کر سکتی ہے۔
عمران خان نے راتوں رات اقتدار میں آنے کا نہیں سوچا تھا۔ اور نہ ہی وزارتوں کے ایوانوں میں بیٹھ کر سیاست میں اپنا مقام بنایا ہے۔ عمران خان کی 22سال کی Grass Roots جد و جہد ہے جو اب انہیں اقتدار میں لائی ہے۔ یہ حکومت Gross Rootsکے لئے اچھے نتائج بھی Produce کرے گی۔ پیپلز پارٹی کی قیادت اقتدار کے ایوانوں کو Gross Roots سمجھتی ہے۔ اس لئے باپ اور بیٹا دونوں قومی اسمبلی میں بیٹھ گیے ہیں۔ جو اقتدار کے ایوانوں سے قریب ہے۔ اور ان کا خیال یہ ہے کہ اگر وہ قومی اسمبلی میں Gross Roots کام کریں گے تو ان میں سے ایک باپ یا بیٹا اقتدار میں ہو گا۔ یا دونوں بھی اقتدار میں ہو سکتے ہیں۔ بلاول زر داری کو سندھ حکومت میں ہونا چاہیے تھا۔ تاکہ وہ سندھ میں پارٹی کو Gross Roots سے منظم کرنے کا کام کرتے۔ سندھ میں جو لوگ پارٹی چھوڑ کر چلے گیے ہیں۔ انہیں پیپلز پارٹی میں واپس لانے کی کوشش کرتے۔ لوگوں کی جن شکایتوں کی وجہ سے پیپلز پارٹی کو انتخابات میں شکست پہ شکست ہو رہی ہے۔ ان کا ازالہ کیا جاتا۔ لیکن یہ کام باپ اور بیٹے کے قومی اسمبلی میں بیٹھنے سے نہیں ہوں گے۔ پاکستان کی سیاست تبدیل کرنے کا Credit بہرحال عمران خان کی جد و جہد کو دیا جاۓ گا۔