Thursday, August 30, 2018

Senator John McCain Was An Icon In Congressional Politics, But He Left Behind A Very Messy World For Children And Grand Children‎


Senator John McCain Was An Icon In Congressional Politics, But He Left Behind A Very Messy World For Children And Grand Children

مجیب خان
senator John McCain visits rebels in Syria

Senator John McCain with anti-Assad terrorists in Syria

Rebel fighters fire weapons in Benghazi, Libya

Libyan followers of Ansar al-Shariah Brigades


Senator John McCain



   سینیٹر جان مکین کی Military Service اور Patriotism قابل تحسین ہیں۔ سینیٹر مکین Congressional Politics کے Icon تھے۔ ان کی اس شخصیت سے کسی کو کوئی اختلاف نہیں ہے۔ لیکن سینیٹر مکین کی شخصیت کا ایک دوسرا رخ بھی۔ جس میں ان کی شخصیت بہت مختلف نظر آتی ہے۔ اور یہ ایک سینیٹر کی حیثیت سے ان کی شخصیت ہے۔ وہ 6 مرتبہ سینیٹر منتخب ہوۓ تھے۔ اور ہر مرتبہ ان کی سوچ اور کردار ایک ہی طرح کا ہوتا تھا۔ سینیٹر جان مکین امریکہ کی سیکورٹی، ڈیفنس اور خارجہ پالیسی کے بارے میں بہت زیادہ Hawkish تھے۔ اور ان کی یہ سوچ  کبھی تبدیل نہیں ہوئی تھی۔ دنیا کے ہر تنازعہ کو وہ اپنے Hawkish نظریہ سے دیکھتے تھے۔ دوسرے ملکوں کے اندرونی تنازعوں میں مداخلت اور طاقت کے استعمال پر زور دیتے تھے۔ اور جو Hawkish ہوتے ہیں۔ وہ تنازعوں کو پرامن طریقوں سے حل کرنے میں یقین نہیں رکھتے ہیں۔ اور ہر تنازعہ کا حل طاقت کے استعمال میں دیکھتے ہیں۔ دنیا میں امن فروغ دینے میں سینیٹر مکین کا اتنا زیادہ رول نہیں تھا کہ جتنا بڑا رول دنیا میں امریکہ کی جنگیں Shape دینے میں تھا۔ سینیٹر مکین نے امریکی انتظامیہ کو پرامن سفارتی طریقوں سے تنازعوں کے حل کے لئے تجویزیں نہیں دی تھیں۔ 2008 کے صدارتی انتخاب کی مہم میں سینیٹر مکین ایران کے ایٹمی پروگرام کے مسئلہ کا حل بم  بم  بم کرنے لگے تھے۔ سینیٹر مکین عراق سے امریکی فوجوں کے انخلا کے خلاف تھے۔ سینیٹر مکین افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے خلاف تھے۔ ان کے خیال میں افغانستان میں امریکہ کی غیر معینہ مدت تک فوجی موجودگی افغان جنگ کی کامیابی تھی۔ سینیٹر مکین سینٹ کی آ ر مڈ سر و سس کمیٹی کے چیرمین تھے۔ لیکن افغانستان میں جلد امن اور عراق میں فوری استحکام کے لیے سینیٹر مکین نے کوئی پلان یا تجویزیں نہیں دی تھیں۔ امریکی فوجوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کی تجویزیں دراصل جنگ ایک طویل عرصہ جاری رکھنا تھا۔ افغان جنگ کو 17 سال ہو گیے ہیں۔ اور سینیٹر مکین افغان جنگ امریکی عوام کے لیے چھوڑ گیے ہیں۔ 50 ہزار امریکی فوجی افغانستان میں ہیں۔ ان کے واپس آنے کا ابھی کوئی امکان نہیں ہے۔ اور نظر یہ آ رہا ہے کہ یہ 2020 کے صدارتی انتخاب میں بھی اپنے ووٹ کابل ہی سے ڈالیں گے۔ عراق جنگ ابھی تک Debacle Mode میں ہے۔ عراق میں استحکام کا فاصلہ اتنا ہی دور ہے کہ جتنا زمین سے امریکہ کے خلائی اسٹیشن کا فاصلہ ہے۔ عراق جنگ کو بھی اب 15 سال ہو گیے ہیں۔ لیکن امریکی فوجیں یہاں بھی ابھی تک ہیں۔ جو امریکی فوجی عراق میں 18 یا22 سال کی عمروں میں یہاں آۓ تھے۔ وہ اب 33 اور 37 برس کے ہو گیے ہیں۔ سینیٹر مکین نے افغان اور عراق جنگوں کے آغاز میں بڑی سرگرمی دکھائی تھی۔ لیکن ان جنگوں کو ختم کرانے میں سینیٹر مکین کو جیسے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ افغانستان اور عراق میں جنگیں دنیا کے امن پسند لوگوں کے لئے سر درد بنی ہوئی تھیں۔ کہ لیبیا کے داخلی معاملات میں سینیٹر مکین کی مداخلت نے خانہ جنگی بنا دیا تھا۔ سینیٹر مکین نے اوبامہ انتظامیہ سے قد ا فی حکومت کے مخالفین کو ہتھیار فراہم کرنے کی  اپیلیں کی تھیں۔ ان کے ساتھ دو اور سینیٹر لنڈ زی گر ہیم اور جو ز ف لیبر مین بھی شامل تھے۔ جنگوں کے شو‍‍ق نے انہیں Blind کر دیا تھا کہ یہ کسی کی سننے کو تیار نہیں تھے۔ حالانکہ صدر قد ا فی ان کے وزیر اور ان کے انٹیلی جنس کے حکام امریکہ کو بتا رہے تھے کہ یہ القا عدہ اور اسلامی انتہا پسند ہیں جو ان کی حکومت ختم کر کے لیبیا کو اسلامی ریاست بننا چاہتے تھے۔ لیکن قد ا فی کے بیانات اور ان کی انٹیلی جنس کے حکام کی رپورٹوں کو صدر اوبامہ نے اہمیت دی تھی اور نہ ہی امریکہ کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اعلی حکام نے کوئی توجہ دی تھی۔ اوبامہ انتظامیہ صرف سینیٹر مکین کی اپیلوں کو اہمیت دے رہی تھی۔ اسلامی انتہا پسندوں کو ہتھیاروں سے مسلح کر کے صدر اوبامہ اور سینیٹر مکین نے لیبیا کا استحکام اور امن تہس نہس کر دیا تھا۔ لیبیا کے عدم استحکام ہونے سے سارے افریقہ کا امن خطرے میں آ گیا تھا۔ یہ صورت حال پیدا کر کے پھر یورپ کو Immigrants سو نامی کی صورت میں دی گئی تھی۔ یہ مسئلہ یورپ کی سیکیورٹی کے لئے سر درد بن گیا تھا۔ یورپ کے لوگوں میں امریکہ کے خلاف غصہ تھا کہ امریکہ مڈل ایسٹ میں یہ کس کا کھیل کھیل رہا تھا؟
   سینیٹر مکین نے عراق سے سبق تھا۔ نہ لیبیا سے سیکھا تھا۔ بلکہ مسلسل عدم استحکام پھیلانے کی جنگیں فروغ  دیتے رہے تھے۔ یہ عدم استحکام اور جنگیں انتہا پسندی اور دہشت گردی پھیلا رہی تھیں۔ بن غازی میں ان ہی لوگوں نے جن کے ساتھ چند ماہ پہلے سینیٹر مکین سینیٹر لنڈ ز ی گر ہیم کھڑے تھے، امریکی سفیر اور چار دوسرے امریکیوں کو بن غازی میں امریکی کو نسلیٹ پر حملہ میں مار دیا تھا۔ اس کے باوجود انہوں نے شام میں تخریب کاروں، دہشت گردوں، اسلامی انتہا پسندوں کی جو افغانستان میں طالبان سے زیادہ خطرناک تھے ان کی حمایت کی تھی انہیں ہتھیار دئیے تھے۔ انہیں تربیت بھی دی جا رہی تھی۔ شام میں خانہ جنگی کو 7 سال ہو گیے ہیں۔ عراق جنگ کو 15 سال ہو گیے ہیں۔ لیبیا میں 7 سال سے مختلف گروپوں میں لڑائی جاری ہے۔  افغان جنگ کو 17 سال ہو گیے ہیں۔ سینیٹر مکین اتنے Influential سینیٹر تھے کہ ان کے کہنے پر انتظامیہ حالات کو جنگ کی طرف لے جاتی تھی۔ لیکن سینیٹر مکین جنگیں ختم کر کے حالات کو امن کی طرف لانے میں اتنے Influential سینیٹر نہیں تھے۔ ان کی زندگی میں جو جنگیں شروع ہوئی تھیں۔ انہوں نے ان جنگوں کو اپنی زندگی میں ختم کرنے کی کبھی بات نہیں کی تھی۔ سینیٹر مکین نے فلسطین اسرائیل تنازعہ کے حل کی کبھی بات نہیں کی تھی۔ فلسطینیوں کی آزادی کی اس طرح حمایت نہیں کی تھی کہ جس طرح سینیٹر مکین نے لیبیا اور شام کے لوگوں کی آزادی کی مسلح جد و جہد کی حمایت کی تھی۔ امریکہ نے حما س کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا۔ لیکن ان کے Cousins کی لیبیا اور شام میں دہشت گردی کی حمایت کی تھی۔ اسرائیل اور سعودی عرب انہیں Support کرتے تھے۔ تاریخ نے انسانیت کے ساتھ ایسا مذاق نہیں دیکھا ہو گا۔
   یہ جان مکین کی خوش قسمتی تھی کہ انہیں ویت نام جنگ کے بعد 60 سال دنیا دیکھنے کا موقعہ ملا تھا۔ ان کے ویت نام جنگ کے زخم بھی بھر گیے تھے۔ لیکن عراق جنگ میں 18 سال کی عمر کے جو فوجی مر گیے تھے۔ انہیں 60سال کے بعد کی دنیا میں عراق دیکھنا نصیب نہیں ہو سکا۔ اور جو امریکی فوجی 20 یا 25 برس کے تھے۔ اور عراق یا افغانستان میں جنگ میں ساری زندگی کے لئے آ پاہج ہو گیے ہیں۔ آئندہ 60 سال تک وہ اپنے زخموں کو دیکھتے رہیں گے۔ اور ان زخموں کے ساتھ اپنے آپ کو زندہ رکھیں گے۔  امن جیسے جان مکین کا DNA نہیں تھا۔ ان کی ساری زندگی جنگوں میں گزری تھی۔ سرد جنگ، گرم جنگ، ویت نام جنگ، عراق جنگ، افغان جنگ، شام میں جنگ، یمن جنگ، دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ، ISIS کے خلاف جنگ اور یہ جنگیں اب امریکہ کے اسکولوں میں پہنچ گئی ہیں۔ جہاں سینکڑوں بچے اسکولوں میں شوٹنگ سے مر گیے ہیں۔ سینیٹر مکین عراق، لیبیا اور شام میں لوگوں کو آزادی دلانے کی خونی جنگوں میں مدد کر رہے تھے۔ لیکن امریکہ میں اسکولوں میں بچوں کی آزادی ختم ہو گئی ہے۔ سینیٹر مکین نے ان بچوں کی اسکولوں میں آزادی کے لئے کچھ نہیں کیا تھا۔
                   

Saturday, August 25, 2018

President Trump’s New Sanctions On China And Russia, Selling Liquor And Tobacco To Under Age Little Rocket Man Of North Korea


      
  President Trump’s New Sanctions On China And Russia, Selling Liquor And Tobacco To Under Age Little Rocket Man Of North Korea

مجیب خان

President Donald Trump and North Korea's Leader Kim Jong Un

Kim Jong-un Visits Kumsong Tractor Factory

Kim Jong-un visits Pyongyang Kim Jong Suk silk mill 

Preparation for a Trade war with America
  
   امریکہ 60 ملکوں سے تنہا جنگ نہیں جیت سکا ہے۔ لیکن صدر ٹرمپ اب یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ امریکہ 60ملکوں سے ٹریڈ وار یا Economic war ضرور جیت سکتا ہے۔ اور اس عزم کے ساتھ صدر ٹرمپ نے دنیا میں Trade war شروع کر دی ہے۔ 17 سال سے جنگوں میں امریکہ نے اپنے تمام ہتھیار استعمال کر  لئے ہیں۔ 3ٹریلین ڈالر بھی خرچ کیے ہیں۔ لیکن کسی ایک جنگ میں بھی پائدار کامیابی نہیں ہو سکی تھی۔ تاہم صدر ٹرمپ کو Economic war جیتنے کی روشنی  نظر آ رہی ہے۔ چین دنیا کی ابھرتی Economic Power ہے۔ اس لئے صدر ٹرمپ نے اپنی Economic war کا حملہ چین پر کیا ہے۔ اور اس میں جو ہتھیار استعمال کیا ہے وہ Tariff ہے۔ اور دوسرا ہتھیار Economic sanction ہیں۔ یہ Sanctions سیاسی نوعیت کی ہیں۔ جبکہ ان میں کچھ Sanctions شمالی کوریا پر عائد Sanctions کی خلاف ورزیاں کرنے اور شمالی کوریا کے ساتھ تجارت جاری رکھنے کی وجہ سے چین پر Sanctions  لگائی گئی ہیں۔ روس پر Economic sanctions سرد جنگ کے دور سے لگی ہوئی ہیں۔ سرد جنگ ختم ہونے کے بعد امریکہ کی سوچ میں کیونکہ کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ امریکہ نے اپنی سوچ میں سرد جنگ کا Status quo برقرار رکھا تھا۔ اس لئے روس پر سے یہ Sanctions بھی نہیں ہٹائی گئی تھیں۔ بلکہ Artificial Reasons کی بنیاد پر روس پر نئی Sanctions لگا دی جاتی تھیں۔ روس پر یو کر ین کے مسئلہ پر نئی Economic sanctions  لگائی گئی ہیں۔ پھر مڈل ایسٹ میں امریکہ کی جنگوں میں روس کے ٹانگ اڑانے پر Sanctions لگی ہیں۔ اور اب 2016  کے  انتخاب میں روس کی مداخلت ہونے پر کانگریس نے روس پر Sanctions  کے قانون منظور کیے ہیں۔ جن پر ٹرمپ انتظامیہ سے عملدرامد کر وایا جا رہا ہے۔ ایران پر امریکہ کی Sanctions اسلامی انقلاب کے بعد امریکی سفارت کاروں کو یرغمالی بنانے پر لگائی گئی تھیں۔ جو امریکی سفارت کار اس وقت 40برس کے تھے وہ اب 80برس کے ہو گیے ہیں لیکن ایران پر وہ Sanctions ابھی تک لگی ہوئی ہیں۔ ایران کے ساتھ پھر ظلم یہ ہے کہ پرانی Sanctions  جو بالکل Obsolete ہو چکی ہیں اور انہیں لگانے کا کوئی مقصد بھی نہیں ہے۔ لیکن انہیں صرف ایرانی عوام پر مسلط رکھنا مقصد ہے۔ پھر ایران کے ایٹمی پروگرام کے مسئلہ پر نئی Sanctions لگائی گئی ہیں۔ ان کے علاوہ اسرائیل اور سعودی عرب کے ان مسلسل مطالبوں پر کہ ایران مڈل ایسٹ چھوڑ کر کہیں اور چلا جاۓ، امریکہ نے اس پر مجبور کرنے کے لئے ایران کو Sanctions  میں دبا دیا ہے۔ 40 سال میں امریکہ کی سلامتی کے لئے ایران سے خطرہ ہونے کے کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہیں۔ ایرانی دنیا میں دہشت گردی بھی نہیں کر رہے ہیں۔ بلکہ دہشت گردی کے خلاف انہوں نے امریکہ سے تعاون بھی کیا تھا۔ اسرائیل کا یہ واویلا ہے کہ شام میں ایران کی موجودگی سے اس کی سلامتی کو خطرہ ہے۔ جبکہ ایران کے ہمسایہ میں خلیج میں امریکہ کے بحری بیڑے اور فوجی اڈے ہیں جو ایران کی سلامتی اور استحکام کے لئے خطرہ ہیں۔ ایران کے سلسلے میں امریکہ کا بہت Hostile behavior ہے۔ جبکہ شام میں اسرائیل کی سرحد کے قریب ایران کے ملیشیا داعش سے لڑ رہے ہیں۔ اور شام کی خانہ جنگی میں د مشق حکومت کی مدد کر رہے ہیں۔ جیسے اوبامہ انتظامیہ د مشق حکومت کے خلاف دہشت گردوں کی مدد کر رہی تھی۔ اسرائیلی حکومت جو محکوم فلسطینیوں کی آزادی اور حقوق کی تحریک بھر پور فوجی مشین سے کچل رہی ہے۔ لیکن اپنے ہمسایہ میں د مشق حکومت کے خلاف دہشت گردوں کی تحریک کی حمایت کر رہی تھی۔ اسرائیل نے امریکہ کو شام میں تباہی  پھیلانے سے روکا کیوں نہیں تھا۔ بلاشبہ اس کے Consequences بھی تھے۔ جن کا اسرائیل کو اب سامنا کرنا چاہیے۔ انہیں ایران تباہ کرنے کے مقصد میں استعمال نہیں کیا جاۓ۔ مڈل ایسٹ میں دنیا کے لئے پیشتر بیماریاں 70سال کی اسرائیلی پالیسیوں کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں۔
  ٹرمپ انتظامیہ کی Economic war میں ترکی ایک نیا ایڈیشن ہے۔ ترکی نیٹو کا رکن ہے۔ ایک نیٹو رکن کے خلاف دوسرے نیٹو رکن کی Economic war فوجی الائنس کا End Game ہے۔ ویسے تو ترکی کو عدم استحکام کرنے اور اس کے مفادات کے خلاف کام کرنے کی ابتدا اوبامہ انتظامیہ میں ہو گئی تھی۔ ترکی کے باغی کرد و ں کو داعش سے لڑنے کی آ ڑ میں تربیت دی جا رہی تھی۔ اور انہیں ہتھیار بھی فراہم کیے جا رہے تھے۔ باغی کرد و ں نے ترکی کے اندر حملہ شروع کر دئیے تھے۔ استنبول میں بموں کے دھماکے ہونے لگے تھے۔ سینکڑوں بے گناہ ترک شہری ان دھماکوں میں مارے گیے تھے۔ باغی کرد و ں کی دہشت گردی ترکی کو عدم استحکام کر رہی تھی۔ جس پر صدر اردو گان نے یہ بیان دیا تھا کہ امریکہ نے ان کی پشت میں چھرا گھونپا تھا۔ ترکی کے اندرونی اور اس کے ارد گرد کے حالات ترکی کی معیشت کو Drain کر رہے تھے۔ اور اب ٹرمپ انتظامیہ کی ترکی پر Economic Sanctions کے نتیجہ میں ترکی کی کرنسی تقریباً 45  فیصد گر گئی ہے۔ ترکی پر یہ اقتصادی بندشیں صدر ٹرمپ نے ایک امریکی پادری Andrew Brunson کو ار دو گان حکومت نے رہا کرنے سے انکار کرنے پر لگائی ہیں۔ امریکی پادری کو دہشت گردی کے الزام میں ترکی کی عدالت نے سزا سنائی ہے۔ صدر ارد گان کا کہنا ہے کہ امریکی پادری ان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش میں ملوث تھا۔ اس کی رہائی کے سلسلے میں کئی اپیلیں مستر د ہو چکی ہیں۔ امریکی پادری اب گھر میں نظر بند ہے۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ امریکی پادری جب تک رہا نہیں کیا جاۓ گا ترکی پر سے اقتصادی بندشیں نہیں ہٹائی جائیں گی۔ بلکہ ترکی پر نئی بندشیں بھی لگ سکتی ہیں۔ ایک شخص کی رہائی کے لئے جسے ترکی کی عدالت نے سزا سنائی ہے۔ اسے رہا کرانے کے لئے 80ملین ترک عوام کو اقتصادی بندشوں کا یرغمالی بنانے کے بجاۓ صدر ٹرمپ کو کوئی تیسرا راستہ اختیار کرنا چاہیے تھا۔ ایسے طریقے اکثر انتہا پسند تنظیمیں استعمال کرتی ہیں۔ طالبان افغانستان میں مغربی شہری اور صحافی یرغمالی بنا لیتے تھے اور پھر انہیں رہا کرنے کے لئے اپنے مطالبے تسلیم کرواتے تھے۔
    صدر ٹرمپ نے اس ماہ چین اور روس پر شمالی کوریا کو Liquor اور Tobacco فروخت کرنے پر نئی اقتصادی بندشیں لگا کر یہ سزا دی ہے کہ انہوں نے ایک کم عمر Little Rocket man کو Liquor اور Tobacco کیوں فروخت کیا تھا۔ جو امریکی قانون کی خلاف ورزی تھی۔ Minor کو Liquor اور Tobacco فروخت کرنا ممنوع ہے۔ صدر ٹرمپ اسلامی ملکوں میں اگر یہ فیصلہ کرتے تو ان ملکوں کے سارے مذہبی رہنما انہیں اپنا پیر بنا لیتے۔ بہرحال اس سال جون میں Trump-Kim ملاقات کے بعد آ بناۓ کوریا کے Status quo میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں آئی ہے۔ تاہم شمالی کوریا کے رہنما Kim Jong un نے خود یکطرفہ فیصلے کیے ہیں اور اپنی جنگجو نہ سوچ تبدیل کر لی ہے۔ ایٹمی ہتھیار بنانے اور میزائلوں کے تجربے کرنا بند کر دئیے ہیں۔ لیکن صدر ٹرمپ کی شمالی کوریا کے خلاف سخت اقتصادی بندشیں لگانے کی سوچ میں نرمی نہیں آئی ہے۔ صدر ٹرمپ نے شمالی کوریا کے رہنما Kim Jong un کے اس مطالبہ کا کہ آ بناۓ کوریا میں 60سال سے جاری جنگ کو اب ختم کرنے کا اعلان کیا جاۓ، اس کا بھی کوئی مثبت جواب نہیں دیا ہے۔ شمالی کوریا کے رہنما نے جب یہ دیکھا کہ اس کے ہمسایہ میں چین کے ساتھ امریکہ نے ایک نئی جنگ “Trade War” کے نام سے شروع کر دی ہے۔ تو شمالی کوریا کے رہنما نے اس جنگ میں چین کی حمایت کے لئے اپنی ایک نئی Economic Strategy  بنائی ہے۔ اور ایٹمی ہتھیاروں پر توجہ دینے کے بجاۓ اقتصادی – صنعتی ترقیاتی منصوبوں پر زیادہ توجہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاکہ شمالی کوریا کو امریکہ کے ساتھ Trade War کے لئے تیار کیا جاۓ۔ امریکہ لفظ War سے بڑی محبت کرتا ہے اور شمالی کوریا کے عوام لفظ War کو بڑی سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ شمالی کوریا نے 60سال امریکہ کی اقتصادی بندشوں میں اپنی قوم کو زندہ رکھا ہے۔ اقتصادی بندشوں کے باوجود اپنے دفاع کو مضبوط بنایا ہے۔ اور ایٹمی ہتھیار بناۓ ہیں۔ اور اب ان اقتصادی بندشوں میں شمالی کوریا اقتصادی اور صنعتی طاقت بھی بن سکتا ہے۔ قوم میں چیلنج قبول کرنے کا Potential ہے۔              

Monday, August 20, 2018

Shahbaz Sharif, As A Leader Of The Opposition Restore Civility And Decency In The Democratic Politic


Shahbaz Sharif, As A Leader Of The Opposition Restore Civility And Decency In The Democratic Politic 

مجیب خان
Imran Khan takes Oath as member Parliament

Shahbaz Sharif, leader of Opposition in the Parliament 

   وزیر اعظم کو منتخب کرنے کے لئے پارلیمنٹ کے اجلاس میں شکست خوردہ، نعرہ باز اور بازاری زبان میں سیاست کے عادی لیڈروں کا رویہ پارلیمانی آداب سے بہت گرا ہوا تھا۔ مسلم لیگ ن کے شہباز شریف جو قائد حزب اختلاف ہوں گے۔ پارلیمنٹ کے آداب سے بالکل باہر جیسے لوہاری گیٹ پر خطاب کر رہے تھے۔ ان کے لفظوں میں اس کا غصہ تھا کہ عمران خان نے ان کے وزیر اعظم بننے کا خواب پاش پاش  کر دیا تھا۔ 2013 کی انتخابی مہم میں شہباز شریف کی وہ تاریخی تقریر لوگوں کے ذہنوں میں ہو گی جس میں وہ اپنے سینے پر ہاتھ مار کر کہتے تھے کہ "زر داری تمہیں  لاہور کی سڑکوں پر گھسیٹوں گا میرا نام شہباز شریف نہیں ہو گا۔" پارلیمنٹ کے اجلاس سے شہباز شریف کے پہلے خطاب کا بالکل یہ لہجہ تھا۔ ان کی جماعت کے اراکین جو ان کے پیچھے بیٹھے ہوۓ تھے۔ شہباز شریف کی تقریر کے دوران نعرے بازی کر رہے تھے۔ کہ ووٹ چراۓ ہیں۔ یہ وہ جماعت ہے جسے ووٹروں کا احترام ہے نہ پارلیمنٹ کا احترام ہے۔ نہ سپریم کورٹ کا احترام ہے۔ یہ صرف ایک ایسی جمہوریت چاہتے ہیں جس میں By hook or By crook ووٹ ڈلواۓ جاتے ہیں۔ اور پھر الیکشن میں جیت ہونے کے دعوی کیے جاتے ہیں۔ لوگ خود ذرا غور کریں کہ پانچ سال پارٹی کے اقتدار کی کار کر دگی C-Grade میں ہے۔ لیکن انتخابات کے نتائج میں پارٹی A-Grade مانگ رہی ہے۔ اس صورت میں انتخابات میں A-Grade صرف دھاندلیوں سے مل سکتا تھا۔ ہارنے والی جماعتوں کو یہ Nonsense بند کرنا چاہیے کہ ووٹ چراۓ ہیں۔ یا فوج نے اپنے پسندیدہ امیدوار کو کامیاب کرایا ہے۔ حقائق ان کے دعووں کی بالکل حمایت نہیں کرتے ہیں۔ ہارنے والی جماعتوں کو دراصل ان اسباب پر توجہ دینا چاہیے جو ان کی شکست کا سبب ہیں۔
  2008 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے صوبہ پنجاب میں قومی اسمبلی کی تقریباً 60 نشستیں حاصل کی تھیں۔ جبکہ مسلم لیگ ن نے تقریباً 50 نشستیں حاصل کی تھیں۔ لیکن 2013 کے انتخابات میں صوبہ پنجاب سے پیپلز پارٹی کا بالکل صفایا ہو گیا تھا۔ پیپلز پارٹی کی پیشتر نشستیں مسلم لیگ ن کے پاس آ گئی تھیں۔ پیپلز پارٹی یہ انتخاب بری طرح ہار گئی تھی۔ پیپلز پارٹی صرف ایک مرتبہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کو کیش کر سکی تھی۔ دوسری مرتبہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کو کیش کرنے کی پیپلز پارٹی کی کوشش کو لوگوں نے ناکام بنا دیا تھا۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی کی قیادت اپنی دوکان بند کر کے اپنے گھروں کو چلے گیے تھے۔ اب 2018 کے انتخابات میں تحریک انصاف کے پاس قومی اسمبلی کی 152 نشستیں ہیں۔ جبکہ مسلم لیگ ن کے پاس 81 نشستیں ہیں۔ پیپلز پارٹی کے پاس 54 نشستیں ہیں۔ صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ ن کی پیشتر نشستیں تحریک انصاف کے پاس آ گئی ہیں۔ اور یا آزاد امیدواروں نے لے لی ہیں۔ صوبہ پنجاب میں قومی اسمبلی کی جن نشستوں پر مسلم لیگ ن کو شکست ہوئی ہے ان پر تحریک انصاف کے امیدوار  یا آزاد امیدوار کامیاب ہوۓ ہیں۔ اس Election Demography میں ووٹ چوری کرنے کے ثبوت نظر نہیں آتے ہیں۔ مسلم لیگ ن 2013 میں جتنی زیادہ نشستوں سے انتخاب جیت کر اقتدار میں آئی تھی۔ 2018 کے انتخاب میں تقریباً اتنی ہی نشستوں پر انتخاب ہار کر اقتدار کے ایوان سے باہر ہوگئی ہے۔ جمہوری نظام میں حکومت کی Performance انتخابات کے نتائج کا تعین کرتے ہیں۔ پاکستان میں گزشتہ دو انتخاب اس کی تائید کرتے ہیں۔ جہاں تک اسلامی جماعتوں کی انتخابات میں شکست پر واویلا ہے۔ گزشتہ 50 سال سے انہوں نے واویلا ہی میں اپنی طاقت دکھائی ہے۔ پاکستان میں اب تک جتنے انتخابات ہوۓ ہیں۔ ان سب میں اسلامی جماعتوں نے اپنی بری طرح شکست کو دھاندلی کہا ہے۔ اور پھر سڑکوں پر واویلا کی طاقت سے دنیا کو یہ دکھایا تھا کہ طاقت اور اکثریت ان کی تھی۔
   1969 میں جنرل Yahya Khan کی فوجی حکومت میں الیکشن کو کسی پارٹی نے دھاندلی ہونے کا الزام نہیں دیا تھا۔ سب نے اسے انتہائی صاف ستھر ے الیکشن کہا تھا۔ اس انتخاب میں جمعیت علماۓ اسلام قومی اسمبلی کی 10 نشستیں حاصل نہیں کر سکی تھی۔ جماعت اسلامی نے قومی اسمبلی میں 7 نشستیں حاصل کی تھیں۔ جمعیت علماۓ اہل سنت نے بھی تقریباً 8 نشستیں حاصل کی تھیں۔ یہ پاکستان میں اسلامی جماعتوں کا انتخاب جیتنے کا ریکارڈ ہے۔ جماعت اسلامی نے جنرل ضیا الحق کی فوجی کابینہ میں 10 وزارتیں حاصل کر لی تھیں۔ لیکن جماعت اسلامی انتخابات میں قومی اسمبلی کی 10 نشستیں حاصل کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکی تھی۔ ان کی منافقانہ سیاست اور اسلام کے نام پر غیر اسلامی رویہ کی وجہ سے ان جماعتوں کا انتخاب جیتنے کا گراف بھی گرتا گیا ہے۔ کرپشن کی سیاست میں اسلامی جماعتوں کے رہنما بھی ایک ہی صف میں کھڑے ہیں۔ بلکہ ان کے اس رول سے مذہب میں بھی کرپشن آ گیا ہے۔ اسلامی انتہا پسندی اور دہشت گردی نے اسلامی جماعتوں کی ساکھ اور زیادہ خراب کر دی ہے۔ معاشرہ میں مذہبی رہنماؤں کا جو رتبہ تھا وہ Depreciate ہو گیا ہے۔ مذہب اور سیاست کے درمیان کھڑے ہو کر سیاست کرنے سے دنیا کی برائیوں سے ان کے دامن بھی داغدار ہیں۔ ان الزامات کا انتخاب خود انہوں نے اپنے لئے کیا ہے۔ یہ اس کے ذمہ دار ہیں۔
  شیطان بھی آج اللہ کے سامنے کھڑا ہو گا اور رو رہا ہو گا کہ اے اللہ میں نے تجھ سے صرف یہ کہا تھا کہ میں تیرے بندوں کو گمراہ کرتا رہوں گا۔ میں نے کبھی یہ نہیں کہا تھا کہ میں تیرے بندوں کے گلے کاٹوں گا۔ انہیں خود کش بموں کے لئے استعمال کروں گا۔ اے اللہ میں (شیطان) نے مسجدوں میں خود کش بم کا حملہ کرنے والے بھیجنے کا نہیں کہا تھا۔ میں نے صرف یہ کہا تھا کہ میں تیرے بندوں کو تیرے بارے میں گمراہ کرتا رہوں گا۔ اے اللہ تیرے دین کے جنہوں نے ٹکڑے کیے ہیں اور اسے مختلف فرقوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ اے اللہ میں نے انہیں ایسا کرنے کے لیے گمراہ نہیں کیا تھا۔ وہ دنیا کی سیاست میں بھٹک گیے ہیں اور انہوں نے تیرے دین کے ٹکڑے کر دئیے ہیں۔ اے اللہ میں (شیطان) تیرے بندوں کو صرف گمراہ کرتا تھا۔ جیسے تیرے بندے نماز کے ارادے سے گھر سے نکلتے تھے اور میں انہیں زر داری کے سینما کا راستہ دیکھتا تھا۔ بلاشبہ پاکستان میں شاید شیطان نے اللہ کے بندوں کو اتنا گمراہ نہیں کیا ہو گا کہ جتنا مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں نے قوم کو گمراہ کیا ہے۔ مذہبی جماعتوں کی سیاست میں بھی اب اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔    
      

Wednesday, August 15, 2018

Pakistan: America’s Relations With A Nation Just Turned 71


Pakistan: America’s Relations With A Nation Just Turned 71

مجیب خان
Pakistanis celebrating Pakistan Independence Day

Celebrating Pakistan Independence Day

   امریکہ کی دفاعی اور خارجہ پالیسی طاقتور لابیوں کے مشورے سے بنتی اور تبدیل ہوتی ہیں۔ ری پبلیکن اور ڈیمو کر یٹک دونوں انتظامیہ میں اس لیے دفاعی اور خارجہ پالیسی میں نمایاں فرق نہیں ہوتا ہے۔ اور یہ Bi-partisan پالیسیاں ہوتی ہیں۔ تاہم امریکہ کی مڈل ایسٹ پالیسی طاقتور اسرائیلی لابی کی تجویز سے بنتی ہے۔ اگر یہ امریکہ کی اپنی پالیسی ہوتی تو شاید عرب اسرائیل 70 سال تک کبھی تنازعہ نہیں ہوتا۔ اور مشرق وسطی 70 سال سے جنگ کی آگ میں نہیں ہوتا۔ یہ ایک المیہ ہے کہ لابیاں مخصوص مفادات کے لیے پالیسیوں کا تعین کرتی ہیں۔ لیکن ان کے نتائج کا امریکی عوام سامنا کرتے ہیں۔ اور اب چند برسوں میں بھارتی نژاد امریکی بھی ایک طاقتور لابی بن گیے ہیں۔ جو امریکہ کے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہے ہیں۔ پہلے بش انتظامیہ پھر اوبامہ انتظامیہ اور اب ٹرمپ انتظامیہ میں بھارتی نژاد امریکی قومی سلامتی امور، خارجہ امور اور دفاعی پلانگ اداروں میں اہم عہدوں پر آ گیے ہیں۔ اور یہ امریکہ کی بالخصوص جنوبی ایشیا سے متعلق پالیسی میں اہم رول ادا کر رہے ہیں۔ پاکستان کے بارے میں واشنگٹن سے آنے والے بیانات، اعلامیہ اور فیصلے پر پاکستان میں تبصرہ نگاروں اور پالیسی ساز کو اس پہلو کو ضرور مد نظر رکھنا چاہیے۔ بہرحال امریکہ پاکستان تعلقات کی 70سال کی شادی ہے۔ اس میں متعدد بار اتار چڑھاؤ آیا ہے۔ امریکہ کی بندشوں کے نتیجہ میں کچھ عرصہ کی علیحدگی بھی ہوئی تھی۔ لیکن پاکستان کو Divorce دینے کے لیے امریکہ کو عرصہ تک غور کرنا پڑتا تھا۔ لیکن امریکہ پاکستان کے ساتھ 70 سال کے تعلقات کو Divorce بھی دینا نہیں چاہتا ہے۔ پھر بھارت امریکہ سے کئی گنا بڑا ملک ہے۔ امریکہ کا بھارت کی آبادی سے بھی کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ بھارت ایشیا میں امریکہ کے لیے Subsidiary بن کررہنا پسند نہیں کرے گا۔ ایشیا کی بڑی طاقت بننے کے لیۓ بھارت کو ایشیائی ملکوں کے ایشو ز پر Non-align پوزیشن لینا ہو گی۔ امریکہ کے بھارت سے Strategic تعلقات بھارت کو یہ پوزیشن لینے کی اجازت دیں گے یا نہیں؟ اس وقت تک امریکہ کی تین انتظامیہ امریکی کمپنیوں کے لیے اپنی مارکیٹ کھولنے پر بھارت کو آمادہ نہیں کر سکی ہیں۔ تاہم بھارت نے بعض selective شعبوں میں امریکی کمپنیوں کو اپنی مارکیٹ میں کاروبار کرنے کی اجازت دی ہے۔ لیکن بھارت چین کی طرح امریکی کمپنیوں کے لیے اپنے دروازے کھولنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ صدر ٹرمپ نے بھارت کو بھی یہ دھمکی دی ہے کہ امریکی کمپنیوں کے لیے بھارت اپنی مارکیٹ کھولے ورنہ بھارت کی اشیا پر Tariff لگائی جائیں گی۔ صدر ٹرمپ آئندہ چند ہفتوں میں وزیر اعظم مودی سے ملاقات  میں ان تمام امور پر بات کریں گے۔
   پاکستان میں یہ تاثر ہے کہ امریکہ پاکستان میں چین کے 60بلین ڈالر سے CPEC منصوبہ پر عملدرامد ہونے سے خوش نہیں ہے۔ کیونکہ اب امریکہ کو بھی پاکستان سے تعلقات میں چین کے 60بلین ڈالر سے Match کرنا ہو گا۔ جبکہ امریکہ نے افغان جنگ میں پاکستان سے 60بلین ڈالر سے تین گنا زیادہ خرچ کرواۓ ہیں اور انہیں ابھی تک Reimburse نہیں کیا ہے۔ امریکہ کا پاکستان کے ساتھ تعلقات میں تناؤ پیدا ہونے کا یہ بھی ایک سبب ہے۔ امریکہ کو افغانستان میں کوئی کامیابی نہیں ہو رہی ہے۔ لیکن چین نے افغانستان میں قدرتی وسائل اور معدنیات کی دریافت کے تمام Contracts حاصل کر لیے ہیں۔ امریکہ نے ابھی یہ نہیں کہا ہے کہ افغانستان میں ہمارے فوجی آپریشن پر پاکستان نے جو اخراجات کیے ہیں۔ وہ پاکستان چین سے مانگے۔ ادھر بھارت میں بھی یہ ایک تاثر ہے کہ امریکہ کو چین اور روس کے ساتھ  بھارت کا Brick Block میں شامل ہونا پسند نہیں ہے۔ بھارت کو اس بلاک سے دور رکھنے کے لیے امریکہ نے Pacific کی نئی حد بندی کی ہے اور بھارت کو اس میں شامل کرنے کے لیے اسے Indo- Pacific کا نام دیا ہے۔ اور یہاں بھارت کو Brick Block سے زیادہ بڑا رول دیا جا رہا ہے۔ لیکن بھارت نے Indian Ocean چھوڑ کر Indo-Pacific کی طرف کوچ کرنے میں دلچسپی نہیں دکھائی ہے۔ امریکہ بھارت Strategic تعلقات کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ امریکہ بھارت کو چین کے مقابلے پر کھڑا کرنا چاہتا ہے۔ اس میں شاید مبالغہ آ رائی زیادہ ہے۔ ایران پر سخت اقتصادی بندشوں پر عملدرامد کرانے کے لیے صدر ٹرمپ نے بھارت پر ایران سے تیل کی درآمد بند کرنے اور Chabahar Port کی تعمیر میں انویسٹ کرنے سے روکنے کے لیے دباؤ ڈالا تھا۔ اور بھارت کو دھمکی دی تھی کہ اگر بھارت  ایران سے  تجارت جاری ر کھے گا تو اس کے بنکوں پر بندشیں لگ سکتی ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کے اس دباؤ میں مودی حکومت نے ایران سے تیل کی درآمد نصف کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اور Chabahar Port کی تعمیر روک دی ہے۔ جبکہ چین نے ایران کے خلاف امریکہ کی بندشوں کا تابعدار بننے سے انکار کر دیا ہے۔  ایران کے تنازعہ پر بھارت چین کے مقابلہ کی طاقت نظر نہیں آ رہا ہے۔ حالانکہ بھارت کی وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ بھارت صرف اقوام متحدہ کے تحت بندشوں پر عمل کرے گا۔ کسی ایک ملک کی بندشوں پر بھارت عمل نہیں کرے گا۔
  90 کا عشرہ پاکستان امریکہ تعلقات کا ایک بہترین عشرہ تھا۔ جب سینیٹر Larry Pressler ایکٹ کے تحت صدر جارج ایچ بش نے پاکستان پر بندشیں لگائی تھیں۔ صدر بش نے دراصل یہ بندشیں لگا کر پہلی بار پاکستان کا امریکہ پر انحصار ختم کیا تھا۔ پاکستان کو جیسے برطانیہ کی Subsidiary سے آزادی ملی تھی۔ 90 کے عشرہ میں پاکستان نے اپنے آپ کو زندہ رکھنا سیکھا تھا۔ اپنی سلامتی اور دفاع کے خود انتظامات کیے تھے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی آزاد ہو گئی تھی۔ پاکستان کا ڈیفنس  مضبوط ہوا تھا۔ پاکستان میں ٹینک، توپیں، ملٹری ٹرک وغیرہ بننے لگے تھے۔ اور پھر 90 کے عشرہ کے اختتام پر پاکستان نے ایٹمی دھماکہ کر دئیے تھے۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ پہلا عشرہ تھا جس میں سیاسی پارٹیوں کی حکومتیں تھیں۔ پھر نائن الیون واقعہ کے بعد امریکہ کی خارجہ پالیسی اسٹبلیشمنٹ کو یہ احساس ہوا تھا کہ سینیٹر Pressler ایکٹ غلط تھا۔ امریکہ کو پاکستان کے ساتھ ملوث رہنا چاہیے تھا۔ اسے تنہا نہیں چھوڑنا چاہیے تھا۔ صدر جارج ڈبلو بش نے پاکستان کے ساتھ نئے تعلقات کا آغاز کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اور پاکستان کو یہ یقین دلایا تھا کہ اس کے ساتھ اب ایسا نہیں ہو گا جن سے پاکستان میں شکایتیں پیدا ہوئی تھیں۔ صدر بش نے پاکستان کی اقتصادی ترقی میں مدد کرنے کا وعدہ بھی کیا تھا۔ پاکستان نے صدر بش کی ان یقین دہانیوں پر اعتماد کیا تھا۔ اور امریکہ کے ساتھ نئے تعلقات میں خلوص کا ثبوت دیتے ہوۓ صدر جنرل پرویز مشرف نے پاکستان کی افغان پالیسی میں 180ڈگری سے یو ٹرن لیا تھا۔ طالبان کو اقتدار سے ہٹانے میں بش انتظامیہ کے فوجی آپریشن کی حمایت کی تھی۔ لیکن یہ نئے امریکہ پاکستان تعلقات آ گے بڑھنے کے بجاۓ افغانستان میں اٹک گیے تھے۔ بعض بیرونی عناصر نے پاکستان کے ساتھ امریکہ کے نئے تعلقات کو پرانے تعلقات سے بھی زیادہ مشکوک بنا دیا تھا۔ جنگ افغانستان میں طالبان کے خلاف ہو رہی تھی۔ لیکن پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں پر قبضہ افغان جنگ کا جیسے  اصل Theme تھا۔ پاکستان براہ راست جنگ کی زد میں تھا۔ نیٹو اور امریکہ نے دہشت گردوں کا تعاقب کرنے کی آ ڑ میں پاکستان کے اندر حملہ کرنا شروع کر دئیے تھے۔ جس پر چین اور روس نے پاکستان کے اقتدار اعلی کی خلاف ورزی کرنے سے باز رہنے کا کہا تھا۔ صدر اوبامہ کے دور میں پاکستان کے اندرونی حالات اس مقام پر آ گیے تھے کہ یہ نظر آ رہا تھا ریاست پاکستان جلد Collapse ہونے والی تھی۔ پاکستان میں فوج اور سیکورٹی اداروں اور حساس تنصیبات پر حملے ہو رہے تھے۔ پاکستان کو ان خوفناک حالات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ دوسو ملین کی آبادی کے ملک پاکستان کا Collapse اس خطہ کی تباہی کا سبب بن سکتا تھا جو سو نامی ہوتا۔ امریکہ نے ایسی صورت میں پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کو قبضہ میں لینے کے لیے Contingency plan تیار کر لیا تھا۔ پاکستان کے حالات سے پیدا ہونے والے خطرات کو بیجنگ ماسکو دہلی میں تشویش سے دیکھا جا رہا تھا۔ بھارت کا استحکام براہ راست ان حالات کی زد میں تھا۔ چین اور روس کی کوششوں سے پاکستان Collapse ہونے سے بچ گیا تھا۔ جس کے بعد برطانیہ کے وزیر اعظم ڈ یوڈ کمیرن نے یہ بیان دیا تھا کہ "پاکستان کی بقا برطانیہ کی بقا ہے۔ پاکستان پر حملہ برطانیہ پر حملہ سمجھا جاۓ گا۔"  اس پالیسی کے نتیجہ میں امریکہ نے پاکستان کھو دیا تھا۔ اور افغانستان میں جنگ بھی ہار گیا تھا۔ افغانستان میں امریکہ اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار خود ہے۔ پاکستان کے 180 ڈگری یو ٹرن سے امریکہ افغانستان میں جنگ جیت گیا تھا۔ طالبان کابل چھوڑ کر بھاگ گیے تھے۔ لیکن پھر پاکستان کو AF-PAK بنانے کی پالیسی طالبان کو کابل میں لے آئی تھی۔ اور اس امریکی پالیسی نے طالبان کو Formidable force بنایا تھا۔
   اور اب چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات خراب کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ یہ شوشہ چھوڑے جا رہے ہیں کہ CPEC معاہدہ سے پاکستان کی خود مختاری چین کے حوالے ہو جاۓ گی۔ اور چین پاکستان کو قرضوں میں جکڑ رہا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ چین اور پاکستان کے 65 سال کے تعلقات ہیں۔ اور دونوں ملک ایک دوسرے کو بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ اچھے اور برے وقتوں میں دونوں ملکوں نے مضبوطی سے ہاتھ تھام کر سامنا کیا ہے۔ گمراہ کرنے والی آوازیں پاکستان اور چین کا راستہ تبدیل نہیں کر سکتی ہیں۔ پاکستان نے اگر یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ اسے چین کے ہمسایہ میں کینیڈا بن کر رہنا ہے۔ تو CPEC کے تمام منصوبے پورے ہوں گے۔ قرضہ اچھے بھی ہو سکتے ہیں۔ اور قرضہ برے بھی ہو سکتے ہیں۔ ان کا انحصار اس پر ہوتا ہے کہ یہ کس لیے حاصل کیے جا رہے ہیں۔ اور انہیں کن مقاصد میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ قرضہ اگر معاشی سرگرمیوں کی رفتار بڑھانے میں استعمال ہو رہے ہیں تو یہ بلاشبہ اچھے قرضہ ہیں۔ قرضوں کو اگر کرپشن کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے تو یہ برے قرضہ ہیں۔ ان سے قوم کی نسلوں کو مقروض بنایا جا رہا ہے۔ چین کے قرضوں سے پاکستان میں جب سڑکیں اور پل بننے گے۔ بندر گاہ تعمیر ہو گی۔ ریلوے کا نظام بہتر ہو گا۔ تو پاکستان میں اقتصادی سرگرمیوں کا فروغ ہو گا۔ بندر گاہ پر ہزاروں نوکریاں پیدا ہوں گی۔ پاکستان کے وسائل آمدن میں اضافہ ہو گا تو چین کے قرضہ بھی ادا ہو جائیں گے۔ پاکستان میں بندر گاہ، سڑکوں پلوں کو چین ایشیا کے دور دراز ملکوں میں اپنی تجارت پھیلانے میں استعمال کرے گا۔ معاشی سرگرمیاں Interconnected ہوتی جائیں گی۔ اور پاکستان ایشیا میں تجارتی سرگرمیوں کا Hub ہو گا۔