President Trump Is Wrong About Iran And Wrong On China
This Is The World Opinion That Iran’s JCPOA Is Working Just Fine, And China Never Interfere In Other Countries Internal Affair
مجیب خان
President Donald Trump chairs a UN Security Council meeting on September 26, 2018 |
Chinese Foreign Minister Wang Yi during a UN Security Council Session Chaired by President Trump |
Iran's President Hassan Rouhani addresses the General Assembly |
اس ماہ امریکہ سلامتی کونسل کا صدر
تھا۔ صدر ٹرمپ نے سلامتی کونسل کے خصوصی اجلاس کی صدارت کی تھی۔ کونسل کے اراکین
سے صدر ٹرمپ نے خطاب کیا تھا۔ اپنے خطاب میں صدر ٹرمپ نے کونسل کے اراکین سے ایران
کا ایٹمی سمجھوتہ ختم کرنے کا اصرار کیا تھا۔ امریکہ نے ایران پر جو اقتصادی
بندشیں عائد کی ہیں ان پر عملدرامد کرنے کے لئے زور دیا تھا۔ اور انہیں یہ دھمکی
بھی دی تھی کہ جو ملک ان بندشوں کی خلاف ورزی کریں گے امریکہ ان کے خلاف کاروائی
کرے گا۔ سلامتی کونسل کے جن 14 اراکین سے
صدر ٹرمپ ایران کا سمجھوتہ ختم کرنے کی بات کر رہے تھے۔ ان سب نے امریکہ کے ساتھ
اس معاہدے کی حمایت کی تھی۔ اور اس کی توثیق متفقہ طور پر سلامتی کونسل کی قرار
داد 2231 منظور کر کے کی تھی۔ اور ایران پر سے تمام بندشیں ختم کر دی تھیں۔ کونسل
کے کسی ایک رکن نے بھی اس سمجھوتہ کی مخالفت نہیں کی تھی۔ لیکن صدر ٹرمپ نے اقتدار
میں آنے کے بعد ایران ایٹمی سمجھوتہ سے امریکہ کو علیحدہ کر لیا تھا۔ جو صدر ٹرمپ کا
انتخابی مہم کا ایک وعدہ تھا۔ 2016 کے صدارتی انتخاب کی مہم میں ڈونالڈ ٹرمپ نے
ایران کے ایٹمی پروگرام پر سمجھوتہ کو ایک بدترین سمجھوتہ کہا تھا۔ اور امریکی
عوام سے کہا تھا کہ وہ اس سمجھوتہ کو ختم کر دیں گے۔ اور اس سے زیادہ بہتر سمجھوتہ
کریں گے۔ یہ سمجھوتہ اوبامہ انتظامیہ میں ایران کے ساتھ دو سال تک مذاکرات ہونے کے
بعد عمل میں آیا تھا۔ صدر ٹرمپ نے اقتدار میں آنے کے صرف چند ماہ میں اس معاہدہ سے
امریکہ کو علیحدہ کر لیا تھا۔ سلامتی کونسل کے 14 اراکین، نیو کلیر ماہرین، IAEA کے اعلی حکام کے ایران ایٹمی سمجھوتہ کی بھر پور حمایت اور
اس معاہدہ پر مکمل عملدرامد ہونے کے دعووں کے باوجود صدر ٹرمپ نے اپنے فیصلے پر
دوسری بار غور کرنا مناسب نہیں سمجھا تھا۔ سلامتی کونسل کے اراکین کے ساتھ صدر
ٹرمپ کی یہ پہلی face to face ملاقات تھی۔ سلامتی
کونسل کے 14 اراکین نے اجلاس سے اپنے خطاب میں ایران سمجھوتہ سے اپنی یکجہتی کا
اظہار کیا تھا۔ سب نے اس سمجھوتہ کی حمایت کی تھی۔ سب نے اس سمجھوتہ پر عملدرامد
کو انتہائی کامیاب بتایا تھا۔ لیکن اسرائیل امریکہ اور جان بولٹن اینڈ کمپنی کی
"کامیابی" کی definition مختلف ہے۔ وہ
صد ام حسین کو اقتدار سے ہٹانے کے فیصلے کو درست اور بہت کامیاب کہتے ہیں۔ اور
ایران کے ایٹمی پروگرام کے سمجھوتہ کو غلط اور انتہائی خطرناک کہتے ہیں۔ جس کی
تائید دنیا میں صرف اسرائیل امریکہ سعودی عرب اور خلیج کے حکمران کرتے ہیں۔ دنیا
کی اکثریت اب اقلیت کے ظلم اور ظالمانہ بندشوں کا شکار بن گئی ہے۔ ان کے درمیان
امریکہ کا دنیا میں ایک ڈکٹیٹر کا رول بن گیا ہے۔
بولیو یا جو سلامتی کونسل کا غیر
مستقل رکن ہے۔ اس کے بائیں بازو کے صدر Evo Morales نے اجلاس سے اپنے خطاب میں دنیا میں ہر مسئلہ پر امریکہ کو بڑی
کھری کھری سنائی تھی۔ انہوں نے 1953 میں ایران میں ایک جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے
میں امریکہ کے رول کا ذکر کیا تھا۔ صدر Morales نے کہا "امریکہ انسانی حقوق اور انصاف کی پرواہ نہیں کرتا
ہے۔ اگر یہ نظیر نہیں ہے تو پھر امریکہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے کبھی
دستبردار نہیں ہوتا۔ Migrant بچوں کو ان کے
خاندانوں سے چھین کر انہیں جیلوں میں نہیں ڈالتا۔" فرانس کے صدر Emmanuel Macron نے کہا "ایران پر بندشیں
لگانے کی پالیسی سے روکا نہیں جا سکتا ہے۔" برطانیہ کی وزیر اعظم Teresa May نے کہا " ایران کو نیو کلیر
ہتھیار بنانے سے روکنے کے لئے JCPOA ایک اچھا معاہدہ ہے۔" چین اور روس نے بھی JCPOA کی حمایت کی تھی۔ اور اس کے نتائج
پر مکمل اطمینان کا اظہار کیا تھا۔ 4 ویٹو پاور ایران کے ساتھ معاہدہ کی مکمل حمایت
کرتی ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اسے بینجمن ناتھن یاہو کے ضمیر سے
دیکھتی ہے۔ اور اندرونی طور پر صدر ٹرمپ سیاسی مسائل میں جکڑ ے ہوۓ ہیں۔ صدر ٹرمپ
کی شکایتیں یہ ہیں کہ 2015 میں ایران کے ساتھ معاہدہ ہونے کے بعد "ایران کی
جارحیت خطہ میں بڑھ گئی ہے۔ ایران پر سے بندشیں ختم ہونے کے بعد جو فنڈ ز بحال ہوۓ
تھے۔ انہیں دہشت گردی اور انتشار فروغ دینے اور نیو کلیر میزائل بنانے میں استعمال
کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ یہ الزامات اسرائیل کے دعوی ہیں۔ جنہیں ٹرمپ انتظامیہ ایک
بڑا ایشو بنا رہی ہے۔ یورپی یونین کی طرف
سے ایران کے ساتھ تجارتی تعلقات برقرار رکھنے کے لئے ادائیگی کا ایک خصوصی سسٹم
قائم کیا جا رہا ہے۔ چین کے وزیر خارجہ Wang Yi کا زور اس پر تھا کہ ایران کے
ساتھ تجارت Sovereign ملکوں کا حق
ہے۔ اور اس کا احترام کیا جاۓ۔ سلامتی کونسل کے 14 اراکین کی راۓ میں ایران معاہدہ
پر عمل درآمد ہو رہا ہے اور یہ ایک اچھا معاہدہ ہے۔ لیکن صدر ٹرمپ کی سلامتی کونسل
میں ایک واحد آواز تھی جو اس معاہدہ کے خلاف تھی۔ صدر ٹرمپ سلامتی کونسل میں
جمہوریت کے اکثریتی اصول کو ماننے کے لئے تیار نہیں تھے۔ اور اپنا فیصلہ اکثریت پر
مسلط کرنے کے لئے بضد تھے۔ صدر بش نے عراق کے بارے میں بھی اکثریت کی راۓ اور
مخالفت کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ اور ایک مٹھی بھر اقلیت کے ساتھ دنیا کے امن پر
عراق جنگ تھوپ دی تھی۔ صد ام حسین کو سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرنے
کا الزام دیا تھا لیکن آخر میں یہ بش انتظامیہ تھی جس نے سلامتی کونسل کی قراردادوں
کی سنگین خلاف ورزی کی تھی اور عراق پر حملہ کیا تھا۔ سلامتی کونسل کی کسی قرارداد
میں عراق میں Regime change کے لئے نہیں
کہا گیا تھا۔ اور اب صدر ٹرمپ کے Advisers اور Speechwriter صدر ٹرمپ کو ایران میں اسی راستہ پر لے جا رہے
ہیں۔ لیکن دنیا نے عراق میں امریکہ کے اس رول سے بڑا تلخ سبق سیکھا تھا۔ اور اس
تجربہ کے پیش نظر امن اور استحکام کے مفاد میں ایران کے ایٹمی پروگرام کے مسئلہ پر
سمجھوتہ کو مڈل ایسٹ میں انتشار کی سیاست سے علیحدہ رکھا گیا تھا۔ جو ایک درست
فیصلہ تھا۔ پھر یہ کہ مڈل ایسٹ میں ہر طرف ایران کے دشمن ہیں۔ جو چھریاں تیز کر کے
وقت کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ اسرائیل کو اگر موقعہ ملا تو وہ ایران کو ہیرو شیما
اور ناگا ساکی بنا دے گا۔ اس بیک گراؤنڈ میں صدر ٹرمپ کی ایران کے خلاف پالیسی سے
سلامتی کونسل کے 14 اراکین نے ایک سنگل لفظ سے بھی اتفاق نہیں کیا ہے۔ صدر ٹرمپ کو
عراق تاریخ دوہرانے کی اجازت نہیں دی جاۓ۔
امریکہ کا مالی خزانہ خالی ہے۔ لیکن
امریکہ کا سیاسی خزانہ دنیا بھر کو الزام دینے اور ہر طرح کی دھمکیوں سے بھرا ہے۔
سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب میں صدر ٹرمپ نے بڑے ترش لہجہ میں چین کو نومبر میں
امریکہ کے مڈ ٹرم انتخابات میں مداخلت کرنے کا الزام دیا ہے۔ اور کہا ہے کہ چین مڈ
ٹرم انتخابات میں ری پبلیکن پارٹی کی شکست چاہتا ہے۔ کیونکہ ان کی انتظامیہ کا
ٹریڈ پر ایک سخت مؤقف ہے۔ صدر ٹرمپ نے کہا "وہ یہ نہیں چاہتے ہیں کہ میں یا
ہم جیتیں کیونکہ میں پہلا صدر ہوں جس نے ٹریڈ پر چین کو چیلنج کیا ہے۔" صدر
ٹرمپ نے کئی مرتبہ یہ بھی کہا ہے کہ چین نے امریکہ کے ساتھ تجارت سے بھر پور فائدہ
اٹھایا ہے۔ چین نے کھربوں ڈالر امریکہ سے ٹریڈ میں بناۓ ہیں۔ اور چین کی جدید
تعمیر نو کی ہے۔ سڑکیں اور پل بناۓ ہیں۔
جہاں تک امریکہ کے مڈ ٹرم انتخابات
میں چین کی مداخلت کا سوال ہے اس میں مبالغہ آ رائی زیادہ ہے اور حقیقت نہیں ہے۔ جیسا کہ چین کے وزیر خارجہ نے بڑے دو
ٹوک لفظوں میں اس کا جواب دیا ہے کہ "بیجنگ سختی سے عدم مداخلت کی پالیسی کا
پابند ہے۔ ہم نے کسی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی ہے اور نہ کبھی کریں گے۔
ہم نے چین کے خلاف کسی بھی بے جواز الزامات کو قبول نہیں کیا ہے۔" صدر ٹرمپ
کو چین کے ساتھ موازنہ یہ کرنا چاہیے کہ چین نے گزشتہ 50 سالوں میں کتنی جنگیں لڑی
ہیں اور امریکہ نے کتنی جنگیں شروع کی ہیں۔ چین نے کتنے ملکوں میں regime change کرنے کی سیاست کی ہے۔ اور امریکہ
نے کتنے ملکوں میں regime
change کرنے کے لئے حملہ کیے ہیں۔ امریکہ کے دنیا میں کہاں کہاں فوجی اڈے
ہیں۔ اور امریکہ ان فوجی اڈوں پر کتنا خرچ کرتا ہے۔
چین جو پاکستان کا صدا بہار دوست ہے۔
اس کے 200 ملین لوگ یہ گواہی دے سکتے ہیں کہ چین نے پاکستان کے اندرونی معاملات
میں کبھی مداخلت نہیں کی ہے۔ پاکستان میں فوجی حکومتیں آئی تھیں۔ سیاسی حکومتیں آتی
جاتی رہیں۔ پاکستان میں سیاسی بحران بھی آۓ تھے۔ لیکن چین نے پاکستان کی اندرونی
صورت حال سے کبھی فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی تھی۔ اس لئے چین اور پاکستان کے
تعلقات صدا بہار ہیں۔ اور پاکستان کے لوگ چین سے دوستی پر فخر کرتے ہیں۔ اسی طرح
پاکستان نے بھی چین کے اندرونی معاملات میں کبھی مداخلت نہیں کی ہے۔ دوسرے ملکوں
کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے کی امریکہ کی ایک تاریخ اور ثقافت ہے۔ امریکہ
نے عراق میں مداخلت کی ہے۔ امریکہ نے لیبیا میں مداخلت کی ہے۔ امریکہ نے شام کے
اندرونی معاملات میں مداخلت کی ہے اور اپنے ساتھ دوسرے ملکوں کو بھی شام میں
مداخلت کرنے کی دعوت دی ہے۔ امریکہ نے یمن میں مداخلت کی ہے۔ اپنے ساتھ سعودی عرب
اور خلیج کے ملکوں کو بھی جنگ کی صورت میں مداخلت کرنے کا موقعہ دیا ہے۔ یہ ایک بہت
لمبی فہرست ہے۔ امریکہ نے ان ملکوں میں مداخلت کرنے میں 7 ٹیریلین ڈالر خرچ کیے
ہیں جیسا کہ صدر ٹرمپ نے کہا ہے۔ ان ٹیریلین میں کچھ ٹیریلین چین کے ساتھ تجارت سے امریکہ کے خزانہ میں آۓ تھے۔ جو امریکہ
کے لیڈروں نے افغانستان، عراق، شام، لیبیا اور نام نہاد دہشت گردوں کے خلاف جنگوں پر
لوٹا دئیے ہیں۔ اور اب امریکہ کے 45 پریذیڈنٹ ڈونلڈ ٹرمپ الزام دوسروں کو دے رہے
ہیں۔ امریکہ کو جنگوں سے نکالنے کے بجاۓ ایران کے ساتھ ایک نئی جنگ اور Regime change کے لئے پلاننگ ہو
رہی ہے۔