CPEC Is A Nuclear Economic Power Plan
مجیب خان
Prime Minister Imran Khan and China's Foreign Minister Wang Yi |
Chinese President Xi Jinping and General Qamar Javed Bajwa |
وزیر اعظم عمران خان 2 نومبر سے چین
کے 4 روزہ دورے پر جائیں گے۔ وزیر اعظم شہنگائی میں چائنا انٹرنیشنل امپورٹ ایکسپو سے خطاب کریں
گے۔ لیکن وزیر اعظم عمران خان کے دورے میں اہم موضوع CPEC پروجیکٹ ہو گا۔ انتخابی مہم کے دوران عمران خان نے CPEC پروجیکٹ کے بارے میں چین کے قرضوں پر کچھ اعتراض کیا
تھا۔ اور یہ کہا تھا کہ وہ منتخب ہونے کے
بعد چین کے ساتھ اس پروجیکٹ کے لئے قرضوں پر معاہدوں میں رد و بدل کے لئے دوبارہ
مذاکرات کریں گے۔ عمران خان کے ان بیانات کو بھارت اور امریکہ میں ضرور توجہ دی
گئی ہو گی۔ لیکن چین میں عمران خان کے ان بیانات سے حکام خاصے پریشان ہو رہے تھے۔ اور
وہ فوری طور پر اس کی وضاحت چاہتے تھے۔ عمران خان بھی ان قرضوں کے بارے میں تفصیل
سے شاید پوری طرح با خبر نہیں تھے۔ مغربی میڈ یا میں ملیشیا اور سری لنکا کی
حکومتوں کے چین کے قرضوں پر جو بیانات آۓ تھے۔ ان سے پاکستان کو بھی خوف زدہ کر دیا تھا۔ کہ پاکستان
چین کے قرضوں میں پھنس جاۓ گا۔ پاک چین دوستی جب صدا بہار ہے۔ تو اس میں پھنسنے کا
کوئی راستہ نہیں ہے۔ وزیر خزانہ اسد عمر نے ملک کا خالی خزانہ دیکھ کر کہا کہ ہمیں
اب آئی ایم ایف کے پاس قرضہ لینے کے لئے جانا ہو گا۔ واشنگٹن میں وزیر خزانہ اسد
عمر کے اس بیان پر سیکرٹیری آف اسٹیٹ Mike Pompeo نے یہ بیان دیا کہ امریکہ پاکستان کی آئی ایم ایف
سے قرضہ لینے کی مخالفت کرے گا۔ پاکستان آئی ایم ایف سے قرضہ لے کر چین کا قرضہ
ادا کرنا چاہتا ہے۔ چین کی وزارت خارجہ نے سیکرٹیری آف اسٹیٹ کے اس بیان کی تردید
کی تھی۔ پاکستان نے اس کی وضاحت کی تھی کہ
چین کے قرضوں کی فوری ادائیگی کا ابھی کوئی سوال نہیں ہے۔ سیکرٹیری آف اسٹیٹ کے اس
بیان کے بعد برصغیر میں بحث کے لئے ایک نیا موضوع مل گیا تھا۔ بھارتی اخبارات میں CPEC معاہدہ پر ادارئیے لکھے گیے تھے۔
جس میں معاہدے کی مخالفت کی گئی تھی۔ جن میں بھارت کے خدشات کی ترجمانی کی گئی تھی۔
جبکہ پاکستان میں اس پر دو راۓ تھیں۔ کچھ کے خیال میں CPEC معاہدہ سے پاکستان چین کی کالونی بن جاۓ گا۔ تاہم اکثریت کی راۓ
میں CPEC کی تکمیل سے پاکستان کی اہمیت بڑھ
جاۓ گی۔ اور پاکستان میں تجارت اور صنعتی پیداوار کے مواقع بڑھ جائیں گے۔ چین نے
اپنی تاریخ میں کسی ملک کو کبھی اپنی کالونی نہیں بنایا ہے۔ بعض سری لنکا اور
ملائشیا کی مثالیں دے رہے تھے۔ جنہوں نے چین کے قرضوں پر تنقید کی تھی۔ اور چین
کے ساتھ اس مسئلہ پر نئے مذاکرات کرنے کا کہا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان چین
کے قرضوں میں کہیں پھنس نہ جاۓ۔ پاکستان سری لنکا اور ملائشیا نہیں ہے۔ چین کے
ساتھ ان کے تعلقات کا پاکستان سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔
سری لنکا آبادی اور رقبہ کے لحاظ سے
پاکستان سے بہت چھوٹا ملک ہے۔ جبکہ ملائشیا صنعتی اور ٹیکنالوجی کی ترقی میں
پاکستان سے بہت آ گے ہے۔ اس کی برآمدات پاکستان سے کہیں زیادہ ہیں۔ معیشت جب مضبوط
ہوتی ہے تو پھر مذاکرات کرنے کی پوزیشن بھی مضبوط ہوتی ہے۔ اور ملائشیا اس پوزیشن
میں ہے۔ پھر یہ کہ سری لنکا اور ملائشیا
کے چین کے ساتھ تعلقات کی نوعیت بہت مختلف ہے۔ چین کے پاکستان سے بہت اسپیشل
تعلقات ہیں جو صدا بہار ہیں۔ بغیر کچھ سوچے سمجھے صرف غیر ملکی پراپگنڈہ سے متاثر ہو کر پاکستان میں
یہ باتیں کرنا کہ 'ہم چین کے قرضوں میں پھنس جائیں گے' چین پاکستان تعلقات کو
نقصان پہنچانے کی گھناؤنی سازش کی سوچ ہے۔ چین نے ان باتوں کو بڑی سنجیدگی سے لیا
ہے۔ چین کے وزیر خارجہ خصوصی طور پر پاکستان آۓ تھے۔ CPEC کے بارے میں جو غلط فہمیاں پھیلائی جا رہی ہیں۔ انہیں دور کرنے کی
کوشش کی تھی۔ پھر پاکستان کے آرمی چیف بھی چین گیے تھے۔ صدر شی جن پنگ سے ملے تھے۔
آرمی چیف نے چین کی قیادت کو یہ یقین دلایا
کہ CPEC پاکستان کے مفاد میں ہے اور اس
پروجیکٹ کو مکمل کیا جاۓ گا۔ چین کے قرضہ پاکستان میں Infrastructures تعمیر کرنے پر خرچ
ہو رہے ہیں۔ پاکستان کے 20کڑوڑ عوام دیکھ رہے ہیں کہ چین کے یہ قرضہ کہاں خرچ ہو
رہے ہیں۔ پاکستان میں اکثر سیاستدان اور میڈیا میں بعض غیر ذمہ دارا نہ باتیں کر
تے ہیں۔ جیسے نواز شریف نے ایک اخبار سے انٹرویو میں کہا کہ ممبا ئی حملہ پاکستان
کی آرمی اور آئی ایس آئی نے کرایا تھا۔ نواز شریف نے یہ بیان دے کر پیارے لال مودی
اور امریکہ میں بھارتی لابی کو خوش کیا تھا۔ لیکن پاکستان میں لاکھوں اور کروڑوں محب
وطن پاکستانیوں کی نظروں میں گر گیے تھے۔ اس لئے جنرل کیانی نے یہ بالکل درست کہا
تھا کہ 'ہم زر داری کو پسند نہیں کرتے ہیں اور نواز شریف پر ہمیں بھر وسہ نہیں ہے۔'
Loose Cannon لیڈر ہیں۔
جنرل پرویز مشرف 1998 میں نواز شریف حکومت
کا تختہ الٹ کر اقتدار میں آۓ تھے۔ ایٹمی
دھماکہ کرنے پر اس وقت پاکستان پر امریکہ کی اقتصادی بندشیں لگی ہوئی تھیں۔ لیکن
2001 میں پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر 60بلین ڈالر تھے۔ یہ 60بلین ڈالر پاکستان
کے خزانے میں صرف 3 سال میں کیسے آۓ تھے۔ افغانستان میں طالبان حکومت ختم ہونے کے
بعد جب حامد کر ز ئی کو افغانستان کا نیا حکمران بنایا گیا تھا۔ تو اس حکومت کی
مدد کے لئے میونخ جرمنی میں Donor ملکوں کی کانفرنس
بلائی گئی تھی۔ جس میں پاکستان نے افغان فنڈ میں 50ملین ڈالر دئیے تھے۔ لیکن آج
صورت حال یہ ہے کہ پانچ سال زر داری نے اور 5 سال نواز شریف کی مسلم لیگ نے حکومت
کی ہے۔ لیکن پاکستان کے خزانے میں ملک چلانے کے لئے آج پیسے نہیں ہیں۔ پاکستان میں
امریکہ کے سابق سفیروں کا سیاسی حکومتوں کے بارے میں ایک عام تاثر یہ ہے کہ
پاکستان میں جب بھی سیاسی حکومتیں اقتدار میں آتی ہیں۔ بد نظمی پھیلاتی ہیں۔ معیشت
خراب کر دیتی ہیں۔ ان کی معاشی پالیسیوں میں کوئی نظم و ضبط نہیں ہوتا ہے۔ پاکستان
میں متعین امریکہ کے سابق سفیروں کے اس تاثر کو رد نہیں کیا جا سکتا ہے۔ 1990s سے پیپلز پارٹی اور نواز شریف کی
مسلم لیگ اقتدار میں تھیں۔ اور اب 5سال زر داری اور 5سال نواز شریف کی مسلم لیگ نے
حکومت کی ہے۔ دونوں نے جس طرح حکومت کی ہے اس سے سابق امریکی سفیروں کے تاثر کی
تائید ہوتی ہے۔ نواز شریف کی پارٹی پانچ سال حکومت کر نے کے بعد پاکستان کی معیشت
کے ٹائروں سے ہوا نکال کر گئی ہے۔ کیا دنیا کے کسی بھی جمہوری ملک میں سیاسی
پارٹیاں ملک کے ساتھ ایسا کرتی ہیں۔ اور ںئی حکومت کے لئے کشکول خزانے میں چھوڑ کر
جاتی ہیں۔ اور اب 'چوری اور سینہ زوری' کی سیاست کرنے والے اکڑ بھی رہے ہیں۔
انتخابات میں ان کی شکست کا ابھی چالیسواں بھی نہیں ہوا تھا کہ سیاسی قبروں سے نکل کر پھر ٹی وی کیمروں کے سامنے
کھڑے ہیں۔ اور قوم کا وقت برباد کرنے کے لئے دھونس دھمکیاں دے رہے ہیں۔ جمہوریت کی یہ کتنی بڑی توہین ہے کہ
یہ انتخاب ہار گیے ہیں۔ ملک کی اعلی عدالت نے انہیں کرپشن میں ملوث پا یا ہے۔ عدالتوں
میں ان پر کرپشن اور منی لا نڈرنگ کے کیس
چل رہے۔ لیکن یہ پھر سیاست کے ایوانوں میں بیٹھے ہیں۔ سابق صدر زر داری رکن قومی
اسمبلی بن گیے ہیں۔ اور اب وزیر اعظم بننے کے لئے جوڑ توڑ کر رہے ہیں۔ اس لئے
پیپلز پارٹی کے و ڈیروں نے اند رو ن سندھ
لوگوں کو جاہل رکھا ہے۔ تاکہ لوگوں کی جہالت صرف انہیں منتخب کرتی رہے۔ کراچی شہر کی روشنیوں نے لیاری کے لوگوں
میں بیداری پھیلائی ہے۔ تو اس مرتبہ لیاری کے لوگوں نے پیپلز پارٹی کو بری طرح
شکست دی ہے۔
ایک یہ مولانا فضل الرحمن ہیں۔ جو الیکشن بری
طرح ہار گیے ہیں۔ اور اب تمام شکست خوردہ جماعتوں کی اپنی قومی اسمبلی ایک محاذ کی
صورت میں بنا کر اس کا اسپیکر بننا چاہتے ہیں۔ مولانا ایک ایسے رہنما ہیں کہ جب وہ
خیبر پختون کے وزیر اعلی تھے انہوں نے صوبے کے ہر شہری کو وہیں رکھا تھا۔ جہاں وہ
نسل در نسل تھے۔ پشاور کی سڑکوں پر جو بچے جوتوں پر پالش کر ر ہے تھے۔ مولانا جب
اقتدار چھوڑ کر گیے تھے۔ ان بچوں کو بھی پشاور کی سڑک پر جوتوں پر پالش کرتا چھوڑ کر
گیے تھے۔ انہیں اس پر فخر ہو گا کہ وہ لوگوں کی زندگیوں میں کوئی تبدیلیاں نہیں
لاۓ تھے۔ ان کی برطانوی ملکہ نے 21ویں صدی کے آغاز پر پاکستان کا دورہ کیا تھا اور
سب کو یہ پیغام دیا تھا کہ 21ویں صدی میں صرف وہ قومیں زندہ رہیں گی جو سائنس
ٹیکنالوجی اور تعلیم میں آ گے ہوں گی۔ اور مولانا جن سیاسی جماعتوں کا محاذ بنانے جا
رہے ہیں۔ وہ سب اپنی قوم کو جہالت کی تاریکیوں میں لے جا رہے ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ پاکستان
کا وقت برباد کرنے کی سیاست کی ہے۔ ان کی مثبت اور تعمیری سیاست کی کوئی ایک مثال
بتاۓ۔
CPEC پاکستان کی معاشی بقا اور سلامتی
کے لئے اتنا ہی اہم کہ جس قدر ایٹمی ری پروسسنگ پلانٹ تھا۔ پاکستان اگر ایٹمی طاقت
نہیں ہوتا تو نامعلوم بھارت پاکستان کے خلاف کتنی پیشقدمی کر چکا ہوتا؟ بھارت
مشرقی پاکستان کی تاریخ دوہرانے کا موقعہ بھی ضائع نہیں کرے گا۔ لیکن یہ پاکستان کے
پاس ایٹمی ہتھیاروں کا خوف ہے جس نے بھارت
کو پاکستان کے خلاف جارحیت کرنے سے باز رکھا ہے۔ بھارت کی پاکستان پر معاشی غلبہ
قائم کرنے کی کوشش بھی تھی۔ جسے CPEC پروجیکٹ نے ناکام کر دیا ہے۔ بھارت کی اب پریشانی یہ ہے کہ اس
پروجیکٹ کی تکمیل سے چین کا اثر و رسوخ اور پاکستان کی جنوبی ایشیا، مغربی ایشیا
اور وسط ایشیا میں اہمیت بڑھ جاۓ گی۔ اور یہ پاک-چین صدا بہار دوستی کی بھارت کو تجارتی
اور صنعتی طور پر تنہا کرنے کی کوشش ہو گی۔ CPEC پاکستان کو معاشی ترقی دینے کا ایک سنہری موقعہ ہے۔ اور پاکستان
کو اس موقعہ سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ یہ قرضہ Tangible مقاصد کے لئے ہیں۔ معاشی پالیسیوں میں اگر نظم و ضبط رکھا جاۓ تو
20 کروڑ کی آبادی کے ملک کے لئے 60بلین ڈالر قرضہ ادا کرنا مشکل نہیں ہو گا۔ اس
پروجیکٹ کی تکمیل سے پاکستان کے لئے ریونیو کے نئے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔