Wednesday, October 31, 2018

CPEC Is A Nuclear Economic Power Plan


CPEC Is A Nuclear Economic Power Plan

مجیب خان

Prime Minister Imran Khan and China's Foreign Minister Wang Yi

Chinese President Xi Jinping and General Qamar Javed Bajwa

Pakistan's Foreign Minister Shah Mehmood Qureshi and Chinese Foreign Minister Wang Yi

   وزیر اعظم عمران خان 2 نومبر سے چین کے 4 روزہ دورے پر جائیں گے۔ وزیر اعظم شہنگائی  میں چائنا انٹرنیشنل امپورٹ ایکسپو سے خطاب کریں گے۔ لیکن وزیر اعظم عمران خان کے دورے میں اہم موضوع  CPEC پروجیکٹ ہو گا۔ انتخابی مہم کے دوران عمران خان نے   CPEC پروجیکٹ  کے بارے میں چین کے قرضوں پر کچھ اعتراض کیا تھا۔ اور یہ کہا تھا کہ  وہ منتخب ہونے کے بعد چین کے ساتھ اس پروجیکٹ کے لئے قرضوں پر معاہدوں میں رد و بدل کے لئے دوبارہ مذاکرات کریں گے۔ عمران خان کے ان بیانات کو بھارت اور امریکہ میں ضرور توجہ دی گئی ہو گی۔ لیکن چین میں عمران خان کے ان بیانات سے حکام خاصے پریشان ہو رہے تھے۔ اور وہ فوری طور پر اس کی وضاحت چاہتے تھے۔ عمران خان بھی ان قرضوں کے بارے میں تفصیل سے شاید پوری طرح با خبر نہیں تھے۔ مغربی میڈ یا میں ملیشیا اور سری لنکا کی حکومتوں کے چین کے قرضوں پر جو بیانات آۓ تھے۔ ان سے  پاکستان کو بھی خوف زدہ کر دیا تھا۔ کہ پاکستان چین کے قرضوں میں پھنس جاۓ گا۔ پاک چین دوستی جب صدا بہار ہے۔ تو اس میں پھنسنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ وزیر خزانہ اسد عمر نے ملک کا خالی خزانہ دیکھ کر کہا کہ ہمیں اب آئی ایم ایف کے پاس قرضہ لینے کے لئے جانا ہو گا۔ واشنگٹن میں وزیر خزانہ اسد عمر کے اس بیان پر سیکرٹیری آف اسٹیٹ Mike Pompeo نے یہ بیان دیا کہ امریکہ پاکستان کی آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کی مخالفت کرے گا۔ پاکستان آئی ایم ایف سے قرضہ لے کر چین کا قرضہ ادا کرنا چاہتا ہے۔ چین کی وزارت خارجہ نے سیکرٹیری آف اسٹیٹ کے اس بیان کی تردید کی تھی۔ پاکستان نے  اس کی وضاحت کی تھی کہ چین کے قرضوں کی فوری ادائیگی کا ابھی کوئی سوال نہیں ہے۔ سیکرٹیری آف اسٹیٹ کے اس بیان کے بعد برصغیر میں بحث کے لئے ایک نیا موضوع  مل گیا تھا۔ بھارتی اخبارات میں CPEC معاہدہ پر ادارئیے لکھے گیے تھے۔ جس میں معاہدے کی مخالفت کی گئی تھی۔ جن میں بھارت کے خدشات کی ترجمانی کی گئی تھی۔ جبکہ پاکستان میں اس پر دو راۓ تھیں۔ کچھ کے خیال میں CPEC معاہدہ سے پاکستان چین کی کالونی بن جاۓ گا۔ تاہم اکثریت کی راۓ میں CPEC کی تکمیل سے پاکستان کی اہمیت بڑھ جاۓ گی۔ اور پاکستان میں تجارت اور صنعتی پیداوار کے مواقع بڑھ جائیں گے۔ چین نے اپنی تاریخ میں کسی ملک کو کبھی اپنی کالونی نہیں بنایا ہے۔ بعض سری لنکا اور ملائشیا کی مثالیں دے رہے تھے۔ جنہوں نے چین کے ‍قرضوں پر تنقید کی تھی۔ اور چین کے ساتھ اس مسئلہ پر نئے مذاکرات کرنے کا کہا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان چین کے قرضوں میں کہیں پھنس نہ جاۓ۔ پاکستان سری لنکا اور ملائشیا نہیں ہے۔ چین کے ساتھ ان کے تعلقات کا پاکستان سے موازنہ نہیں کیا جا  سکتا ہے۔
   سری لنکا آبادی اور رقبہ کے لحاظ سے پاکستان سے بہت چھوٹا ملک ہے۔ جبکہ ملائشیا صنعتی اور ٹیکنالوجی کی ترقی میں پاکستان سے بہت آ گے ہے۔ اس کی برآمدات پاکستان سے کہیں زیادہ ہیں۔ معیشت جب مضبوط ہوتی ہے تو پھر مذاکرات کرنے کی پوزیشن بھی مضبوط ہوتی ہے۔ اور ملائشیا اس پوزیشن میں ہے۔ پھر یہ کہ  سری لنکا اور ملائشیا کے چین کے ساتھ تعلقات کی نوعیت بہت مختلف ہے۔ چین کے پاکستان سے بہت اسپیشل تعلقات ہیں جو صدا بہار ہیں۔ بغیر کچھ سوچے سمجھے صرف    غیر ملکی پراپگنڈہ سے متاثر ہو کر پاکستان میں یہ باتیں کرنا کہ 'ہم چین کے قرضوں میں پھنس جائیں گے' چین پاکستان تعلقات کو نقصان پہنچانے کی گھناؤنی سازش کی سوچ ہے۔ چین نے ان باتوں کو بڑی سنجیدگی سے لیا ہے۔ چین کے وزیر خارجہ خصوصی طور پر پاکستان آۓ تھے۔ CPEC کے بارے میں جو غلط فہمیاں پھیلائی جا رہی ہیں۔ انہیں دور کرنے کی کوشش کی تھی۔ پھر پاکستان کے آرمی چیف بھی چین گیے تھے۔ صدر شی جن پنگ سے ملے تھے۔ آرمی چیف نے  چین کی قیادت کو یہ یقین دلایا کہ CPEC  پاکستان کے مفاد میں ہے اور اس پروجیکٹ کو مکمل کیا جاۓ گا۔ چین کے قرضہ پاکستان میں Infrastructures تعمیر کرنے پر خرچ ہو رہے ہیں۔ پاکستان کے 20کڑوڑ عوام دیکھ رہے ہیں کہ چین کے یہ قرضہ کہاں خرچ ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں اکثر سیاستدان اور میڈیا میں بعض غیر ذمہ دارا نہ باتیں کر تے ہیں۔ جیسے نواز شریف نے ایک اخبار سے انٹرویو میں کہا کہ ممبا ئی حملہ پاکستان کی آرمی اور آئی ایس آئی نے کرایا تھا۔ نواز شریف نے یہ بیان دے کر پیارے لال مودی اور امریکہ میں بھارتی لابی کو خوش کیا تھا۔ لیکن پاکستان میں لاکھوں اور کروڑوں محب وطن پاکستانیوں کی نظروں میں گر گیے تھے۔ اس لئے جنرل کیانی نے یہ بالکل درست کہا تھا کہ 'ہم زر داری کو پسند نہیں کرتے ہیں اور نواز شریف پر ہمیں بھر وسہ نہیں ہے۔' Loose Cannon  لیڈر ہیں۔
   جنرل پرویز مشرف 1998 میں نواز شریف حکومت کا تختہ  الٹ کر اقتدار میں آۓ تھے۔ ایٹمی دھماکہ کرنے پر اس وقت پاکستان پر امریکہ کی اقتصادی بندشیں لگی ہوئی تھیں۔ لیکن 2001 میں پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر 60بلین ڈالر تھے۔ یہ 60بلین ڈالر پاکستان کے خزانے میں صرف 3 سال میں کیسے آۓ تھے۔ افغانستان میں طالبان حکومت ختم ہونے کے بعد جب حامد کر ز ئی کو افغانستان کا نیا حکمران بنایا گیا تھا۔ تو اس حکومت کی مدد کے لئے میونخ جرمنی میں Donor ملکوں کی کانفرنس بلائی گئی تھی۔ جس میں پاکستان نے افغان فنڈ میں 50ملین ڈالر دئیے تھے۔ لیکن آج صورت حال یہ ہے کہ پانچ سال زر داری نے اور 5 سال نواز شریف کی مسلم لیگ نے حکومت کی ہے۔ لیکن پاکستان کے خزانے میں ملک چلانے کے لئے آج پیسے نہیں ہیں۔ پاکستان میں امریکہ کے سابق سفیروں کا سیاسی حکومتوں کے بارے میں ایک عام تاثر یہ ہے کہ پاکستان میں جب بھی سیاسی حکومتیں اقتدار میں آتی ہیں۔ بد نظمی پھیلاتی ہیں۔ معیشت خراب کر دیتی ہیں۔ ان کی معاشی پالیسیوں میں کوئی نظم و ضبط نہیں ہوتا ہے۔ پاکستان میں متعین امریکہ کے سابق سفیروں کے اس تاثر کو رد نہیں کیا جا سکتا ہے۔ 1990s سے پیپلز پارٹی اور نواز شریف کی مسلم لیگ اقتدار میں تھیں۔ اور اب 5سال زر داری اور 5سال نواز شریف کی مسلم لیگ نے حکومت کی ہے۔ دونوں نے جس طرح حکومت کی ہے اس سے سابق امریکی سفیروں کے تاثر کی تائید ہوتی ہے۔ نواز شریف کی پارٹی پانچ سال حکومت کر نے کے بعد پاکستان کی معیشت کے ٹا‏ئروں سے ہوا نکال کر گئی ہے۔ کیا دنیا کے کسی بھی جمہوری ملک میں سیاسی پارٹیاں ملک کے ساتھ ایسا کرتی ہیں۔ اور ںئی حکومت کے لئے کشکول خزانے میں چھوڑ کر جاتی ہیں۔ اور اب 'چوری اور سینہ زوری' کی سیاست کرنے والے اکڑ بھی رہے ہیں۔ انتخابات میں ان کی شکست کا ابھی چالیسواں بھی نہیں ہوا تھا کہ  سیاسی قبروں سے نکل کر پھر ٹی وی کیمروں کے سامنے کھڑے ہیں۔ اور قوم کا وقت برباد کرنے کے لئے دھونس دھمکیاں  دے رہے ہیں۔ جمہوریت کی یہ کتنی بڑی توہین ہے کہ یہ انتخاب ہار گیے ہیں۔ ملک کی اعلی عدالت نے انہیں کرپشن میں ملوث پا یا ہے۔ عدالتوں میں ان پر کرپشن اور منی لا نڈرنگ  کے کیس چل رہے۔ لیکن یہ پھر سیاست کے ایوانوں میں بیٹھے ہیں۔ سابق صدر زر داری رکن قومی اسمبلی بن گیے ہیں۔ اور اب وزیر اعظم بننے کے لئے جوڑ توڑ کر رہے ہیں۔ اس لئے پیپلز پارٹی کے و ڈیروں نے اند رو ن  سندھ لوگوں کو جاہل رکھا ہے۔ تاکہ لوگوں کی جہالت صرف انہیں  منتخب کرتی  رہے۔ کراچی شہر کی روشنیوں نے لیاری کے لوگوں میں بیداری پھیلائی ہے۔ تو اس مرتبہ لیاری کے لوگوں نے پیپلز پارٹی کو بری طرح شکست دی ہے۔
  ایک یہ مولانا فضل الرحمن ہیں۔ جو الیکشن بری طرح ہار گیے ہیں۔ اور اب تمام شکست خوردہ جماعتوں کی اپنی قومی اسمبلی ایک محاذ کی صورت میں بنا کر اس کا اسپیکر بننا چاہتے ہیں۔ مولانا ایک ایسے رہنما ہیں کہ جب وہ خیبر پختون کے وزیر اعلی تھے انہوں نے صوبے کے ہر شہری کو وہیں رکھا تھا۔ جہاں وہ نسل در نسل تھے۔ پشاور کی سڑکوں پر جو بچے جوتوں پر پالش کر ر ہے تھے۔ مولانا جب اقتدار چھوڑ کر گیے تھے۔ ان بچوں کو بھی پشاور کی سڑک پر جوتوں پر پالش کرتا چھوڑ کر گیے تھے۔ انہیں اس پر فخر ہو گا کہ وہ لوگوں کی زندگیوں میں کوئی تبدیلیاں نہیں لاۓ تھے۔ ان کی برطانوی ملکہ نے 21ویں صدی کے آغاز پر پاکستان کا دورہ کیا تھا اور سب کو یہ پیغام دیا تھا کہ 21ویں صدی میں صرف وہ قومیں زندہ رہیں گی جو سائنس ٹیکنالوجی اور تعلیم میں آ گے ہوں گی۔ اور مولانا جن سیاسی جماعتوں کا محاذ بنانے جا رہے ہیں۔ وہ سب اپنی قوم کو جہالت کی تاریکیوں میں لے جا رہے ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ پاکستان کا وقت برباد کرنے کی سیاست کی ہے۔ ان کی مثبت اور تعمیری سیاست کی کوئی ایک مثال بتاۓ۔
  CPEC   پاکستان کی معاشی بقا اور سلامتی کے لئے اتنا ہی اہم کہ جس قدر ایٹمی ری پروسسنگ پلانٹ تھا۔ پاکستان اگر ایٹمی طاقت نہیں ہوتا تو نامعلوم بھارت پاکستان کے خلاف کتنی پیشقدمی کر چکا ہوتا؟ بھارت مشرقی پاکستان کی تاریخ دوہرانے کا موقعہ بھی ضائع نہیں کرے گا۔ لیکن یہ پاکستان کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کا  خوف ہے جس نے بھارت کو پاکستان کے خلاف جارحیت کرنے سے باز رکھا ہے۔ بھارت کی پاکستان پر معاشی غلبہ قائم کرنے کی کوشش بھی تھی۔  جسے  CPEC پروجیکٹ نے ناکام کر دیا ہے۔ بھارت کی اب پریشانی یہ ہے کہ اس پروجیکٹ کی تکمیل سے چین کا اثر و رسوخ اور پاکستان کی جنوبی ایشیا، مغربی ایشیا اور وسط ایشیا میں اہمیت بڑھ جاۓ گی۔ اور یہ پاک-چین صدا بہار دوستی کی بھارت کو تجارتی اور صنعتی طور پر تنہا کرنے کی کوشش ہو گی۔ CPEC پاکستان کو معاشی ترقی دینے کا ایک سنہری موقعہ ہے۔ اور پاکستان کو اس موقعہ سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ یہ قرضہ Tangible مقاصد کے لئے ہیں۔ معاشی پالیسیوں میں اگر نظم و ضبط رکھا جاۓ تو 20 کروڑ کی آبادی کے ملک کے لئے 60بلین ڈالر قرضہ ادا کرنا مشکل نہیں ہو گا۔ اس پروجیکٹ کی تکمیل سے پاکستان کے لئے ریونیو کے نئے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔        
                                                                                                                                                                                   

Saturday, October 27, 2018

Middle East: America Is Defending Its Strategic Interests, While Surrendering America’s Moral Values


Middle East: America Is Defending Its Strategic Interests, While Surrendering America’s Moral Values

مجیب خان
Palestinian Children in the Israeli prison

Palestinians in Israeli Jail

Female prisoners in Saudi prisons

Political activists in Saudi Arabia's Jail

Political Prisoners in Egypt's Jail

Egypt's First Elected Democratic President Mohamed Morsi in Jail


  مشرق وسطی میں اگر بادشاہتیں نہیں ہوتی، اسرائیل نہیں ہوتا اور تیل اور گیس کے وسیع ذخائر نہیں ہوتے تو اس خطہ کی سیاست اور سیاسی نقشہ آج بہت مختلف ہوتا۔ دنیا کو اس خطہ میں المیہ اور جنگوں کا شاید سامنا نہیں ہوتا۔ لیکن بادشاہوں، اسرائیل اور تیل اور گیس کی دولت نے مشرق وسطی کو تمام جنگوں کی ماں بنا دیا ہے۔ امریکہ  اسرائیل کے قیام سے یہاں بڑی سرگرمی سے ملوث ہے۔ اس خطہ میں قیام امن کے لئے ہنری کسنگر کا بریف کیس اور Shuttle Diplomacy امریکہ کی مڈل ایسٹ پالیسی کی Legacy ہیں۔ ہنری کسنگر نے 50s اور 60s میں امریکہ کو جو مڈل ایسٹ پالیسی دی تھی۔ آج مڈل ایسٹ کے حالات اس امریکی پالیسی کے نتائج ہیں۔ صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ امریکہ نے مڈل ایسٹ میں 7ٹیریلین ڈالر خرچ کیے ہیں لیکن امریکہ کو کچھ نہیں ملا ہے۔ مڈل ایسٹ کے 300ملین لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں امن ملا ہے اور نہ ہی ان کی زندگیوں میں استحکام ہے۔ اگر ان سے Future کے بارے میں پوچھا جاۓ تو وہ کہیں گے کہ یہ کیا ہوتا ہے۔ امریکہ نے 7ٹیریلین ڈالر خرچ کر کے اسرائیل کو طاقتور بنا کر عربوں پر بیٹھا دیا ہے۔ امریکہ کی مڈل ایسٹ پالیسی دراصل اسرائیل کی پالیسی ہے۔ اس لئے امریکہ فیل ہو رہا ہے اور اسرائیل کامیاب ہو رہا ہے۔ لیکن عربوں کا امن اور استحکام  بڑی تیزی سے Deteriorate ہو رہا ہے۔ صرف 20سال پہلے مڈل ایسٹ کے کیا حالات تھے اور آج یہ کیا ہیں؟ مڈل ایسٹ کے حالات خراب کرنے یا یہاں خراب حالات سے ‌فائدہ اٹھانے میں چین اور روس کا کوئی رول ہے اور نہ ہی کوئی دلچسپی ہے۔ انہوں نے عراق کے مسئلے کو ڈائیلاگ  سے حل کر نے پر زور دیا تھا۔ لیکن امریکہ نے بھر پور فوجی طاقت کے استعمال میں عراق کا حل دیکھا تھا۔
  صدر بش اور ان کی انتظامیہ کے اعلی حکام نے صد ام حسین کے خلاف جو مہم چلائی تھی۔ وہ صرف جھوٹ اور من گھڑت الزامات پرتھی۔  اور ان کا حقائق سے کو ئی تعلق نہیں تھا۔ صدر بش نے عربوں کو خوفزدہ کر نے کے لئے ان سے کہا کہ صد ام حسین مڈل ایسٹ کے تیل کی پائپ لائنوں پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔ اور مڈل ایسٹ کے تیل کی سپلائی کو کنٹرول کرنا چاہتے تھے۔ عرب حکمران محلوں کی دنیا میں رہتے تھے۔ انہیں باہر کی دنیا کا کوئی علم نہیں تھا۔ انہوں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ صد ام حسین مڈل ایسٹ کے تیل کی سپلائی کو کیسے کنٹرول کر سکتے تھے کہ جب خلیج میں امریکہ کا سب سے بڑا بحری اڈہ ان کی سرزمین پر تھا۔ کویت میں امریکہ کی فوجیں بیٹھی ہوئی تھیں۔ ہر طرف امریکہ کے طیارہ بردار بحری بیڑے تیل کی سپلائی کی چوکیداری کر رہے تھے۔ جبکہ فرانس اور برطانیہ کے طیارہ بردار بحری بیڑے بھی عراق سے زیادہ دور نہیں کھڑے تھے۔ امریکہ صرف عرب حکمرانوں کی ذہنیت سمجھتا تھا۔ لیکن صد ام حسین مڈل ایسٹ کی سیاست اور حالات کو سمجھتے تھے۔ صد ام حسین نے انہیں اقتدار سے ہٹانے کے بعد کے حالات سے آ گاہ کیا تھا کہ عراق میں دجلہ اور فرات  خون سے سرخ ہو جائیں گے۔ عراق پر امریکہ کے فوجی حملہ کے بعد عراق کی سڑکیں اور دریا خون سے سرخ ہو گیے تھے۔ صد ام حسین کو اقتدار سے ہٹانے سے مڈل ایسٹ کے حالات میں کوئی بہتری نہیں آئی تھی۔ مڈل ایسٹ کے حالات اب اتنے زیادہ خطرناک ہو گیے ہیں کہ انہیں دیکھ کر صد ام حسین کو خطرناک کہنا ثابت نہیں ہوتا ہے۔ صدر بش عراق کو عدم استحکام دے کر گیے تھے۔ صدر اوبامہ عراق کو امن دینے کے بجاۓ ISIS دینے میں کامیاب ہوۓ تھے۔
  صدر اوبامہ اقتدار میں آنے کے بعد مشرق وسطی کے حکمرانوں کو آزادی اور جمہوریت پر لیکچر دیتے رہے۔ پھر مشرق وسطی میں آزادی اور جمہوریت پھیلانے کا ایک پروجیکٹ شروع کیا تھا۔ جس پر 500ملین ڈالر خرچ کیے تھے۔ عرب اسپرنگ میں اوبامہ انتظامیہ کو مشرق وسطی میں آزادی اور جمہوریت پھیلانے کا پروجیکٹ کامیاب ہوتا نظر آنے لگا۔ مصر کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک منتخب جمہوری حکومت آئی تھی۔ صدر حسینی مبارک کا 40سال دور اقتدار ختم ہو گیا تھا۔ امریکہ کی قومی سلامتی کا مفاد بھی مطلق العنان حکمرانوں سے منتخب جمہوری حکومتوں کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اخوان المسلمون مصری عوام کے 60فیصد ووٹوں سے منتخب ہوۓ تھے۔ اب یورپ میں لوگ Extreme Far Right پارٹیوں کو منتخب کر رہے ہیں۔ اور یہ جمہوریت ہے۔ اسرائیل اور امریکہ کو ان پارٹیوں کے اقتدار میں آنے پر کوئی پریشانی نہیں ہے۔ مصر میں اخوان المسلمون کی حکومت ہوتی تو شاید ISIS کبھی وجود میں نہیں آتی۔ اخوان المسلمون کا ایک ماڈریٹ رول ابھر رہا تھا۔ امریکہ اور یورپ ان کے ساتھ ملوث رہتے۔ مصر میں جمہوریت ضرور کامیاب ہوتی۔ لیکن صدر اوبامہ، برطانیہ اور فرانس شام میں اسلامی انتہا پسندوں کے ساتھ ملوث ہو گیے تھے۔ اور د مشق حکومت کے خلاف دہشت گردی کرنے کی حوصلہ آ‌ فز ا ئی  کر رہے تھے۔ املاک کو نقصان پہنچانا اور بے گناہ شہریوں کو ہلاک کرنا دہشت گردی تھی۔ بہرحال اسرائیل کو مصر میں جمہوری حکومت  سے یہ خوف ہو رہا تھا کہ اسرائیل کے گرد Islamists کا گھیرا تنگ ہو رہا تھا۔ یہ خوف تھا جو اسرائیل اور سعودی عرب کو  مصر میں ایک مشترکہ دشمن جمہوریت کے خلاف ایک دوسرے کو قریب لایا تھا۔ جمہوریت کو مشرق وسطی میں اسرائیل، سعودی عرب اور خلیج کی حکومتوں نے اپنی سلامتی اور مفاد کے لئے ایک بڑا خطرہ قرار دیا تھا۔ اور انہوں نے مصر میں جمہوری حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ اسرائیل کا Behavior بڑا Outrageous تھا۔ جس سے اسرائیل کی جمہوریت Fake ثابت ہوتی تھی۔ بھارت میں بعض ایسی حکومتیں منتخب ہوئی تھیں جنہیں چین اپنے مفادات کے لئے خطرہ سمجھتا تھا۔ لیکن چین نے کبھی بھارت میں جمہوریت کو سبوتاژ کرنے کی سازش نہیں کی تھی۔ لیکن حیرت کی بات تھی کہ امریکہ نے مصر میں اپنی جمہوری قدروں کو Defend نہیں کیا تھا۔ بلکہ جمہوریت اور آزادی کے مخالف ملکوں کے ساتھ کھڑے ہونے میں فخر محسوس کیا تھا۔ سعودی عرب نے مصر میں فوجی حکومت کو 20بلین ڈالر دینے کا اعلان کیا تھا۔ اور امریکہ کو 20بلین ڈالر سے Match کرنے کا چیلنج کیا تھا۔
   عرب عوام کے ساتھ یہ ظلم تھا یا مذاق کہ صدر جارج بش اپنی 80ہزار فوجیں لے کر بغداد  صد ام حسین کی آمرانہ حکومت کا خاتمہ کرنے گیے تھے۔ اور عراق کو آزادی اور جمہوریت دی تھی۔ صدر بش نے عربوں سے کہا تھا کہ عرب دنیا کے وسط میں عراق ایک مثالی جمہوریت ہو گا۔ لیکن مصر میں اسرائیل اور سعودی عرب نے بھی جمہوریت کی ایک مثال بنا دی تھی۔ امریکہ مڈل ایسٹ میں جنہیں Allies کہتا تھا۔ انہوں نے صدر اوبامہ کو عراق میں صدر بش کی مثالی جمہوریت اور مصر میں انہوں نے جمہوریت کی جو مثال بنائی تھی اس کے درمیان بیٹھا دیا تھا۔ اور شام میں آمریت ختم کرنے کی جنگ میں صدر اوبامہ کو اپنا کمانڈر بنا لیا تھا۔ صدر اوبامہ بڑے فخر سے ان کے کمانڈر بن گیے تھے۔ لیکن صدر اوبامہ نے اسے بالکل نظر انداز کر دیا تھا کہ ان کے اپنے ملکوں میں جیلیں سیاسی قیدیوں سے بھری ہوئی تھیں۔ جبکہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں بد ترین اسرائیلی آمریت تھی۔ شام ایک Modern Society تھا۔ شیعہ سنی عیسائی سب ایک فیملی کی طرح رہتے تھے۔ عورتوں کو آزادی تھی۔ ایک مہذب معاشرہ تھا۔ حقوق اور آزادی کا مطالبہ کرنے والوں پر اسرائیلی فوج نے گولیاں چلائی ہیں۔ سعودی عرب میں تلوار سے ان کی گردنیں اڑا دی جاتی ہیں۔ اسلامی دہشت گردوں سے بش انتظامیہ Iron Fist سے پیش آئی تھی۔ اسرائیل 50سال سے شام کے علاقوں پر قابض ہے۔ لیکن د مشق حکومت نے اسرائیل کے خلاف کبھی دہشت گردی نہیں کی تھی۔ اسد حکومت کے ایران سے بھی اچھے تعلقات تھے۔ حزب اللہ سے بھی اچھے تعلقات تھے۔ آخر مصر میں فوجی آمریت بحال ہونے کے بعد صدر اوبامہ نے کیا سوچ کر شام میں Assad has to go کی بات کی تھی۔ صدر اوبامہ  پہلے مصر میں جمہوری منتخب حکومت کو بحال کراتے۔ پھر شام میں Assad has to go کر تے۔ صدر اوبامہ شام میں کچھ حاصل نہیں کر سکے تھے۔ شام میں صرف انسانی معاشرتی اور سماجی تباہی ہوئی ہے۔21ویں صدی میں جیسے Barbarian آۓ تھے۔ اور ایک قوم تباہ کر کے چلے گیے۔ صد ام حسین نے کویت کو کھنڈرات نہیں بنایا تھا۔ ان میں اتنی انسانیت ضرور تھی۔ افسوس کی بات ہے کہ امریکہ نے اپنی قدریں عرب Allies کو نہیں دیں تھیں۔ بلکہ ان کی قدریں Adopt کر لی تھیں۔
   اب جمال کشوگی کے بیہمانہ قتل پر اصولوں اور قدروں کی بات نہیں ہو رہی ہے۔ بلکہ جیسا کہ صدر ٹرمپ نے کہا ہے "سعودی عرب کے خلاف سخت کاروائی اس لئے مشکل ہے کہ سعودی عرب 110بلین ڈالر کے ہتھیار امریکہ سے خرید رہا ہے۔ اگر ہتھیاروں کی یہ فروخت روک دی جاۓ تو چین اور روس سعودی عرب کو ہتھیار فروخت کرنے لگے گے۔ نہ صرف یہ بلکہ سعودی عرب 400بلین ڈالر امریکہ میں انویسٹ کر رہا ہے۔ امریکہ میں ایک ملین Job creates ہوں گے۔ پھر سب سے اہم یہ ہے کہ سعودی عرب  ایران کے خلا ف کھڑا ہے۔ سعودی عرب کو مشرق وسطی میں ایک بڑا مقام حاصل ہے۔ " حالانکہ سعودی عرب 5سال میں یمن کی جنگ نہیں جیت سکا ہے۔ سعودی عرب کی پشت پر امریکہ برطانیہ اور فرانس بھی ہیں۔ کھربوں ڈالر کے بہترین ہتھیار بھی سعودی عرب کو فروخت کر رہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود سعودی عرب کو یمن کی جنگ میں کوئی نمایاں کامیابی نہیں ہوئی ہے۔ امریکی ہتھیار ایک غریب ترین ملک میں صرف انسانی تباہی کر رہے ہیں۔  بہرحال جمال کشوگی کے قتل پر سعودی عرب کے خلاف کاروائی سے گریز میں ایران ایک اہم Factor ہے۔ اور اسرائیلی لابی واشنگٹن میں سرگرم ہے۔
  
As Evangelical Christian Leader Pat Robertson said “Look, these people are key allies. Our main enemy in the Middle East is Iran, and the Saudis stand up against Iran.”
Well, if Hitler comes out from the grave and supports President Trump’s initiatives against Iran, will Mr. Robertson and “Bibi” Netanyahu praise him? 
             

Monday, October 22, 2018

Why Didn't The Saudi Consul General Inform The Turk Foreign Ministry About The Rogue Elements’ Altercation In The Consulate


 Saudi Arabia: Embarrassing Debacle

Why Didn't The Saudi Consul General Inform The Turk Foreign Ministry About The Rogue
Elements’ Altercation In The Consulate

مجیب خان
Crown Prince Mohammed Bin Salman

Saudi Arabia, Women's rights activists arrest the latest in a government crackdown on activists, Clerics, and Journalists 

   سعودی حکومت نے 17 روز کے بعد صرف ہاف گلاس سچ بولا ہے۔ اور جمال کشودیں کی ہلاکت کا اعتراف کر لیا ہے۔ لیکن پھر ہاف گلاس یہ جھوٹ بولا ہے کہ کشوگی کی ہلاکت کا سبب تفتیش کے دوران ہا تھا پائی بتایا ہے۔ سعودی انٹیلی جنس کے ڈپٹی ڈائریکٹر میجر جنرل احمد العصری کو جو ذرا Dark color ہیں۔ انہیں اور ان کے ساتھ بعض دوسرے  اعلی افسروں کو فوری طور پر برطرف کر دیا ہے۔ لیکن جمال کشوگی کے قتل سے ان کا تعلق نہیں بتایا ہے۔ ان کے علاوہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے انتہائی قریبی مشیر و ں کو بھی حراست میں لے لیا ہے۔ سعودی اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی سرپرستی میں ایک کمیشن اس کی تحقیقات کرے گا۔ صدر ٹرمپ نے سعودی حکومت کے ان اقدامات کو Credible کہا ہے۔ سعودی حکومت نے 400بلین ڈالر امریکہ کے ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس میں Invest کر کے جیسے امریکہ کی اعلی Moral values  خرید لی ہیں۔ اس سعودی Investment کا صدر ٹرمپ ایک سے زیادہ مرتبہ حوالہ دے چکے ہیں۔ اور اس لئے کشوگی کے بیہمانہ قتل کی سخت لفظوں میں مذمت کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ بلکہ دبی زبان میں سعودی حکومت کو Defend بھی کرتے ہیں کہ کشوگی کو Rogue elements نے قتل کیا ہے۔ اگر Rogue elements سعودی کونسلیٹ میں آ گیے تھے تو سعودی کونسل جنرل نے پولیس کیوں نہیں بلائی تھی؟ کونسلیٹ میں اس قتل کو مقامی پولیس سے کیوں چھپایا گیا تھا؟ اور جب ترکی کی حکومت نے کشوگی کے قتل کی تحقیقات شروع کی تو سعودی کونسل جنرل سعودی عرب چلے گیے۔ اور جانے سے پہلے کونسلیٹ میں کرائم سین کی صفائی کر کے گیے تھے۔ سعودی کونسلیٹ میں مقامی ترک بھی کام کرتے تھے۔ اور ان میں سے کسی نے ضرور اپنے موبائل سے سعودی کونسلیٹ میں اس واقعہ کے مناظر کی تصویریں بنائی ہوں گی۔ اس لئے ترک حکومت بڑے وثوق سے کشوگی کے قتل کے بارے میں ثبوت کے دعوی کر رہی ہے۔ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان جس طرح گزشتہ دو سال سے Behave کر رہے ہیں۔ اور جن کو وہ اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں ان کو راستہ سے ہٹاتے جا رہے ہیں۔ ولی عہد کے  اندرونی حلقہ میں جو ایڈوائزر ہیں وہ زیادہ تر نوجوان ہیں۔ اور انہوں نے امریکہ میں تعلیم حاصل کی ہے۔ یہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو اقتصادی اور سماجی شعبوں میں اصلاحات کرنے مشورے دے رہے ہیں۔ لیکن سیاسی اور آزادی اظہار خیال پر بندشیں رکھنے کی حمایت کرتے ہیں۔ کیونکہ صرف اسی صورت میں ولی عہد اپنی پوزیشن مضبوط رکھ سکتے ہیں۔ اور اپنے بھر پور اختیارات کا مظاہرہ  کر سکتے ہیں۔
  شاہ سلمان نے شہزادہ محمد کو ولی عہد نامزد کرنے کے بعد  جب سے انہیں اختیارات دئیے ہیں۔ ولی عہد شہزادہ محمد نے ابھی تک ایسے کام نہیں کیے ہیں کہ جن سے ان کے قابل، ذہن اور ایک با صلاحیت قیادت ہونے کا پتہ چلتا ہے۔ اصلاحات Fake ہیں۔ ولی عہد کی اصلاحات پر سعودی میڈیا اور عوام کو اظہار خیال کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ امام کعبہ نے اپنے خطبہ میں اصلاحات پر تنقید کی تو خفیہ پولیس انہیں ہزاروں نمازیوں کے سامنے پکڑ کر لے گئی۔ اس کے بعد سے ان کا پتہ نہیں ہے کہ وہ زندہ ہیں یا ان کا حشر بھی جمال کشوگی کی طرح ہوا ہے۔ ایسی بے شمار مثالیں ہیں۔ عورتوں کو ڈرائیونگ کی اجازت دینا اور سینما ہال کھولنا کوئی بڑی اصلاحات نہیں ہیں۔ یہ اصلاحات امریکہ، برطانیہ اور فرانس جو سعودی حکومت کو Patronize کرتے ہیں۔ یہ انہیں خوش کرتی ہیں۔ اصلاحات کی ابتدا آزادی صحافت، اظہار خیال کی آزادی اور آزاد میڈیا سے ہوتی ہے۔ اور ولی عہد محمد بن سلمان کی اصلاحات میں یہ آزادی شامل نہیں ہیں۔ آزادی کے بغیر اصلاحات بے مقصد ہیں۔
  اصلاحات کو کامیاب بنانے کے لئے ایک ماحول بنایا جاتا ہے۔ ارد گرد کے حالات اور اندرونی سیاسی حالات میں امن اور استحکام فروغ دینے کی پالیسیاں اختیار کی جاتی ہیں۔ اصلاحات کے لئے زمین زر خیز کی جاتی ہے۔ لیکن ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اصلاحات سے پہلے ایسے کوئی اقدامات نہیں کیے ہیں۔ امن اور استحکام کبھی ہتھیاروں کو جمع کرنے سے نہیں آتا ہے۔ سعودی عرب جتنا زیادہ ہتھیاروں پر انحصار کر رہا ہے۔ اس کی سلامتی اور استحکام کے خطرے اتنے ہی زیادہ بڑھتے جا رہے ہیں۔ سعودی عرب کھربوں ڈالر امریکہ کے ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس میں invest کر رہا ہے۔ لیکن پھر دوسری طرف سعودی عرب امریکی کمپنیوں سے لاکھوں ڈالر اس کے اقتصادی ترقی کے منصوبوں میں invest کرنے کی توقع کرتا ہے۔ کمپنیاں اور investors پہلے امن اور استحکام کی صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں۔ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ایران سے Permanent تصادم کی پالیسی اختیار کی ہے۔ اور اس کی وجہ 33 سالہ ولی عہد نے یہ بتائی ہے کہ شیعاؤں کے ساتھ سنیوں کی 1400 سال سے لڑائی جاری ہے۔ اور اب وہ اس لڑائی کو اختتام پر پہنچائیں گے۔ 33سالہ ولی عہد کے خطرناک خیالات ہیں۔ جو سعودی عرب کو 21ویں صدی کی ایک جدید ریاست بنانا چاہتے ہیں۔  نہ صرف یہ بلکہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا ترکوں نے ہزاروں اور لاکھوں عربوں کا قتل عام کیا تھا۔ اور وہ اسے کبھی بھولیں گے نہیں۔ پھر ولی عہد نے فلسطینیوں سے کہا امریکہ کا امن منصوبہ  قبول کرو۔ ورنہ اپنا منہ بند کرو۔ اس خطہ کے لوگوں اور ملکوں کے بارے میں ولی عہد کا یہ Attitude  ۔ ہے۔ ولی عہد نے اپنے خطہ کو پہلے شیعہ اور سنی میں تقسیم کیا ہے۔ پھر عرب اور غیر عرب میں تقسیم کیا ہے۔ اس بیوقوف ولی عہد کو شاید یہ معلوم نہیں ہے کہ سعودی عرب میں شیعاؤں کی ایک بہت بڑی آبادی ہے۔ جو عرب ہیں اور ہزاروں سال سے یہاں آباد ہیں۔ اس کے علاوہ کویت، اومان، بحرین اور متحدہ عرب امارات میں شیعہ بڑی تعداد میں ہیں۔ لبنان، یمن اور سوڈان میں بھی شیعہ ہیں۔ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی قیادت میں سعودی عرب مڈل ایسٹ کی ایک بڑی طاقت بننا چاہتا ہے۔ اس سعودی طاقت کا خطہ کے ملکوں کے ساتھ کیا سلوک ہو گا؟ اور اس کا رول کیا ہو گا؟
  قطر ایک سنی ملک ہے۔ لیکن ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے قطر سے بھی لڑائی شروع کر دی ہے۔ قطر کی ناکہ بندی ‏کر دی ہے۔ قطر نے کیونکہ سعودی عرب سے زیادہ ترقی کر لی ہے۔ ماحول میں بھی آزادی کا احساس ہوتا ہے۔ الجیزیرہ ٹی وی کی نشریات عرب دنیا میں بیداری بکھیر رہی ہیں۔ اور سعودی حکومت کو یہ پسند نہیں ہے۔ سعودی حکومت قطرسے الجیزیرہ ٹی وی کی نشریات بند کرنے کے لئے اصرار کرتی رہی ہے۔ لیکن قطر نے اس سے اختلاف کیا تھا۔ اور الجیزیرہ ٹی وی کی نشریات جاری ر کھی ہیں۔ جس پر سعودی عرب نے قطر سے تعلقات منقطع کر لئے ہیں۔ اور دونوں ملکوں میں حالات خاصے کشیدہ ہو گیے ہیں۔ اب سعودی عرب کے ایران سے تعلقات بہت خراب ہیں۔ قطر سے بھی سعودی عرب کے تعلقات خراب ہو گیے ہیں۔ ادھر یمن سے سعودی عرب کی جنگ کو 4 سال ہو رہے ہیں۔ اور جنگ ختم ہونے کے کوئی امکان نظر نہیں آ رہے ہیں۔ سعودی عرب کے لبنان سے بھی زیادہ اچھے تعلقات نہیں ہیں۔ لبنان کے لوگ یہ شاید کبھی نہیں بھولیں گے کہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ان کے وزیر اعظم Saad Hariri کو سعودی عرب کے دورے کے دوران یرغمالی بنا لیا تھا۔ اور وزیر اعظم سے سعودی عرب کے 2بلین ڈالر واپس کرنے کا کہا تھا۔ اور اس وقت تک انہیں یرغمالی بناۓ رکھا تھا۔ لیکن فرانس کی کوششوں سے وزیر اعظم کو رہا کر دیا تھا۔ اور اب گزشتہ اگست میں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے صرف اس وجہ سے کینیڈا سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا تھا کہ کینیڈا نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر شدید تنقید کی تھی۔ ایک 27سالہ سعودی لڑکی کو Tweet میں حکومت پر تنقید کرنے پر موت کی سزا دی گئی تھی۔ سعودی عرب کا کینیڈا میں جو Investment تھا حکومت نے اسے بھی ختم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ حالانکہ امریکہ کے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ہر سال سالانہ رپورٹ میں سعودی عرب میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے بارے میں تفصیل سے بتایا جاتا ہے۔ اور اس پر تنقید بھی کی جاتی ہے۔ لیکن سعودی عرب نے امریکہ کے خلاف کبھی اتنا سخت رد عمل نہیں کیا تھا۔
  اور اب استنبول میں سعودی کونسلیٹ میں جمال کشوگی کا انتہائی بیہمانہ قتل سعودی عرب کے لئے ایک Embarrassing debacle ہے۔ جس کو دنیا شاید کبھی بھول نہیں سکے گی۔ اس واقعہ پر سعودی حکومت نے کئی موقف تبدیل کیے ہیں۔ پہلے یہ کہا کہ انہیں اس واقعہ کا علم نہیں ہے۔ پھر یہ کہا کہ جمال کشوگی کونسلیٹ سے چلے گیے تھے۔ پھر یہ بتایا گیا کہ  جمال کشوگی تفتیش کے دوران مر گیے تھے۔ پھر یہ کہا گیا کہ Rogue Killers نے جمال کشوگی کو قتل کیا ہے۔ اور اب سعودی حکومت کے بیان میں جس میں جمال کشوگی کے مرنے کا اعتراف کیا گیا ہے۔ یہ بتایا ہے کہ Rogue Elements کے ساتھ  altercation میں جمال کشوگی کی موت ہوئی ہے۔ جمال کشوگی کے قتل پر سعودی حکومت کے ان بیانات میں تبدیلیاں ہونے پر یہ کہا جاۓ کہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو اس کا کوئی علم نہیں تھا۔ یہ تسلیم کرنا بڑا مشکل ہے۔ پھر یہ کہ اگر سعودی اعلی شخصیت کا جمال کشوگی کے قتل سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ تو پھر سعودی کونسل جنرل نے کونسلیٹ میں Rogue Elements کے altercation کی رپورٹ ترک وزارت خارجہ کو کیوں نہیں دی تھی؟ اور پولیس کیوں نہیں بلائی تھی؟ صرف یہ دو سوال بھی اصل حقائق سے پردہ اٹھا سکتے ہ۔                                                                               

Tuesday, October 16, 2018

Killing By Hit Squad: From Murder In Dubai Hotel To Abbottabad, Pakistan,To Istanbul In Saudi Consulate, A New Growing Danger In The World


Killing By Hit Squad: From Murder In Dubai Hotel To Abbottabad, Pakistan, To Istanbul In Saudi Consulate, A New Growing Danger In The World

مجیب خان
Saudi Dissident Jamal Khashoggi


   استنبول ترکی میں سعودی عرب کے کونسلیٹ میں جمال کشوگی کے لا پتہ ہونے کے معمہ کو 14 روز ہو گیے ہیں۔ سعودی حکومت نے جمال کشوگی کے بارے میں خاموشی اختیار کی ہے۔ اس کے whereabouts کے بارے میں کچھ نہیں بتایا جا رہا ہے۔  تاہم صدر ترکی کے صدر اردو گان نے یہ پورے یقین کے ساتھ کہا ہے کہ کشوگی کو کونسلیٹ میں قتل کیا گیا ہے۔ سعودی عرب سے دو جہاز سعود یوں سے بھرے آۓ تھے۔ اور کونسلیٹ میں ان کی نقل و حرکت دیکھی گئی تھی۔ ترکی حکومت کی ابتدائی تحقیقات میں کشوگی کا قتل ہونے کے کچھ ثبوت بھی ملے ہیں۔ ترکی کی حکومت کے پاس جمال کشوگی کی کونسلیٹ میں گفتگو کے آ ڈیو اور و ڈیو بھی ہیں۔ لیکن ٹرمپ انتظامیہ 14 روز سے اس واقعہ کے بارے میں تمام حقائق کا ابھی تک انتظار کر رہی ہے۔ یہ کوئی برسوں پرانی بات نہیں ہے صرف چند ماہ قبل کی بات ہے کہ جب یہ خبر آئی تھی کہ اسد حکومت نے اپنے مخالفین کے خلاف زہریلی گیس استعمال کی تھی۔ لیکن اس کے تمام حقائق کا انتظار کرنے کی بجاۓ صدر ٹرمپ نے اسد حکومت کے خلاف فوری کاروائی کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ شام میں اسد حکومت کی فوجی تنصیبات بمباری کر کے تباہ کر دی تھیں۔ اور شام پر 56 بم گراۓ تھے۔ حالانکہ اسد حکومت نے اس کی بھر پور لفظوں میں تردید کی تھی۔ اور اس کی تحقیقات میں مکمل تعاون کرنے کا کہا تھا۔ شام میں 101 دہشت گردوں کے گروپ تھے۔ جو اسد حکومت کا خاتمہ کرنے کی جنگ لڑ رہے تھے۔ لیکن انہیں کوئی کامیابی نہیں ہو رہی تھی۔ اسد حکومت نے اپنے بڑے علاقہ  دہشت گرد باغیوں سے آزاد کر ا لیے تھے۔ جب فوج پیش رفت کر رہی ہوتی ہے تو کبھی بھی زہریلی گیس یا مہلک ہتھیار استعمال نہیں کرتی ہے ۔ اب کیونکہ امریکہ سعودی عرب اور اسرائیل باغی دہشت گردوں کی پشت پنا ہی کر رہے تھے۔ اس لئے ان کے مفاد میں موقف اختیار کیا تھا۔ حالانکہ یہ جنگ کسی Rule of Law کے تحت نہیں تھی۔ اور ایک خود مختار ملک میں مداخلت تھی۔ اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی تھی۔ د مشق حکومت کے خلاف دہشت گردوں کو ہتھیار اور تربیت دی جا رہی تھی۔ شام میں اسرائیل کے اپنے مفادات تھے۔ سعودی عرب اپنے مفادات دیکھ رہا تھا۔ اور امریکہ کے اپنے علیحدہ مفادات تھے۔ جبکہ یمن میں ہوتیوں کے خلاف جنگ میں سعودی عرب کے اپنے مفادات ہیں اور ایران کے اپنے مفادات ہیں۔ اور امریکہ یمن میں سعودی عرب اور ایران کے مفادات کو Micromanage کر رہا ہے۔ ہتھیاروں کا کاروبار عروج پر ہے۔ ہو تیوں کو بھی ہتھیار سپلائی کیے جا رہے ہیں۔ اور یہ  جنگ اسی طرح جاری رہے گی۔ Human suffering پر commercial profit کو اہمیت دی جا رہی ہے۔
  صدر ٹرمپ جمال کشوگی کے مسئلہ پر جس طرح سعودی عرب میں امریکہ کے کمرشل مفادات کو اتنی اہمیت دے رہے ہیں۔ بالکل اسی طرح یورپ اور ایشیائی ممالک بھی ایران میں اپنے تجارتی مفادات کو اہمیت دیتے ہیں۔ اور صدر ٹرمپ کی ایران کے خلاف غیر ضروری اقتصادی بندشوں کے خلاف ہیں۔ صدر ٹرمپ نے صدارتی حلف برداری تقریب سے اپنے خطاب میں کہا تھا "ہر ملک کو اپنے مفادات میں فیصلے کرنے کا حق ہے۔ اور امریکہ اس میں مداخلت نہیں کرے گا۔" لیکن صدر ٹرمپ ایران کے مسئلہ میں ان ملکوں کو دھمکیاں دے رہے ہیں جو اپنے تجارتی مفاد میں ایران کے ساتھ تعلقات  کو اہمیت دیتے ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ امریکہ کے صدر جو کہتے ہیں وہ کرتے نہیں ہیں اور وہ کرنے لگتے  ہیں جو کہا نہیں تھا۔ نائن الیون کے بعد امریکہ کی سیاست میں یہ رجحان بہت بڑھ گیا ہے۔ Rule of Law کی سیاست میں اہمیت تقریباً ختم ہو گئی ہے۔ National Security کو American Values پر فوقیت دی جاتی ہے۔ نائن الیون کے بعد صدر بش کا یہ لہجہ کہ وہ ا سا مہ بن لادن کو زندہ یا مردہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ لہجہ شاید سعودی شہزادہ ولی عہد محمد بن سلمان کا جمال کشوگی کے لئے ہو سکتا تھا۔ لیکن یہ انداز لہجہ امریکہ کی قدریں نہیں تھا۔ نائن الیون کے بعد سی آئی اے نے بے شمار ملکوں میں القا عدہ کے دہشت گردوں کو پکڑنے کے لئے آپریشن کیے تھے۔ ان آپریشن میں بہت سے مارے بھی گیے تھے۔ حالانکہ یہ ثابت نہیں ہوا تھا کہ یہ سب دہشت گرد تھے۔ انصاف اور قانون جو امریکہ کی بنیادیں قدریں تھیں۔ انہیں فراموش کر دیا تھا۔ بش انتظامیہ میں جتنے بھی دہشت پکڑے گیے تھے۔ انہیں مجرم قرار دے دیا تھا۔ لیکن ان کا جرم ثابت نہیں کیا تھا۔ بش انتظامیہ نے افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں القا عدہ کے دہشت گردوں کو امریکہ کے حوالے کرنے والوں کو 5 ہزار ڈالر دینے کا اعلان کیا تھا۔ لوگوں نے 5ہزار ڈالر لینے کے لئے ایسے افراد پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیے تھے جنہیں بن لادن کے بارے میں کوئی علم تھا اور نہ ہی القا عدہ کا پتہ تھا کہ یہ شہ تھی۔ یہ نائن الیون کی سیاست تھی جو امریکہ کو بدل رہی تھی۔ امریکہ کی قدروں کو بدل رہی تھی۔
  صدر اوبامہ لا پروفیسر تھے۔ نائب صدر جو ز ف بائدن، سیکرٹیری آف اسٹیٹ ہلری کلنٹن، ایف بی آئی ڈائریکٹر رابٹ مولن یہ سب قانون دان تھے۔ ان کے علاوہ بھی انتظامیہ میں قانون دان تھے۔ لیکن اوبامہ انتظامیہ میں بھی Extra Judicial اور Extra territorial ملٹری آپریشن قومی سلامتی کے نام پر جاری تھے۔ ڈرون حملوں میں بڑی تعداد میں بے گناہ شہری مارے گیے تھے۔ 2مئی 2011 میں رات کی تاریکی میں امریکہ کے ملڑی ہیلی کاپٹر پاکستان کی حدود میں داخل ہوتے ہیں۔ ایبٹ آباد میں ا سا مہ بن لادن کو دریافت کرتے ہیں۔ اور موقعہ ہی پر اسے مار دیتے ہیں۔ اور اسے مردہ اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ جیسے صدر بش نے کہا تھا زندہ یا مردہ۔ یہ نائن الیون کے بعد کا امریکہ تھا۔ نائن الیون سے پہلے کے امریکہ میں سی آئی اے کا طیارہ حکومت پاکستان کی اجازت سے دن کی روشنی میں پاکستان میں جمیل کانسی کو حراست میں لینے آیا تھا جس نے 1980s میں ورجینیا میں سی آئی اے ہیڈ کوارٹر کے باہر سی آئی اے کے تین ایجنٹ مار دئیے تھے۔ اور پاکستان میں روپوش تھا۔ اسے ورجینیا کی عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔ اس پر قتل کے الزام میں مقدمہ چلا تھا۔ جیوری نے اسے پھانسی کی سزا سنائی تھی۔ یہ امریکہ کی نائن الیون سے پہلے کی قدریں تھیں۔ انصاف اور قانون کو با لا تر رکھا جاتا تھا۔ ا سا مہ بن لادن کو بھی اسی طرح عدالت کے سامنے کھڑا کیا  جاتا۔ اس پر فرد جرم عائد کیا جاتا۔ اور جیوری اس کے مجرم یا بے گناہ ہونے فیصلہ کرتی۔ مجرم کو بھی قانون کے مطابق اپنی صفائی میں کہنے کا موقعہ دیا جاتا۔ لیکن یہ المیہ تھا کہ ایک Due Legal Process کو By Pass کر دیا گیا تھا۔
  جنوری 2010 میں اسرائیلی Hit Squad نے دوبئی کے ایک ہوٹل میں حما س کے رہنما محمود المبحوح کو قتل کیا تھا۔ محمود المبحوح پر 1989 میں دو اسرائیلی فوجی اغوا کرنے اور انہیں قتل کرنے کا الزام تھا۔ اس وقت سے اسرائیلی حکومت اس کا تعاقب کر رہی تھی۔ 10جنوری 2010 میں اسرائیلی حکومت نے اسے قتل کر نے کے احکامات دئیے تھے۔ اس مقصد کی تکمیل میں اسرائیلی مو ساد کے 12 ایجنٹ برطانیہ، فرانس، آئرلینڈ، اور آسٹریلیا کے جعلی پا سپورٹ پر دوبئی آۓ تھے۔ دوبئی پولیس کے مطابق مو ساد کے یہ ایجنٹ یورپ کے مختلف حصوں سے یہاں پہنچے تھے۔ اور دوبئی کے مختلف ہوٹلوں میں ٹھہرے تھے۔ محمود المبحوح کے قتل کی تحقیقات کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی مو ساد کے ایجنٹ نے اسے نشہ آور چیز دی تھی۔ پھر اسے برقی جھٹکے دئیے گیے تھے۔ اور اس کا دم گھونٹ کر مار دیا تھا۔ اور دوبئی سے چلے گیے تھے۔ دوبئی پولیس کے چیف نے کہا کہ اسرائیلی مو ساد کے یہ ایجنٹ اسرائیل میں ہیں۔ مارچ 2010 میں برطانیہ کے سیکرٹیری خارجہ ملی بینڈ نے برطانیہ کی Serious organized crime agency کی تحقیقاتی رپورٹ پر کہ اسرائیل نے برطانوی پا سپورٹ کی جعلی کاپیاں بنائی تھیں۔ اسرائیلی سفارت کار کو برطانیہ سے نکال دیا تھا۔ اس کے بعد آسٹریلیا اور آئرلینڈ کی حکومتوں نے بھی ان کے جعلی پا سپورٹ  بنانے پر اسرائیلی سفارت کاروں کو اپنے ملکوں سے نکال دیا تھا۔ لیکن حیرت کی بات تھی کہ اوبامہ انتظامیہ نے اسرائیلی حکومت کی دوسرے ملکوں کے جعلی پا سپورٹ بنانے اور Hit squad بھیجنے کی پالیسی کی سخت مذمت کی تھی اور نہ ہی اسے روکا تھا۔ Allies ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کے ہر کرائم پر پردہ ڈالا جاۓ۔ ان کی قانون شکنی سے منہ موڑ لیا جاۓ۔ دہشت گردی کے نام پر جنگ میں امریکہ کی Extra Judicial Killing سرگرمیاں بڑھتی جا رہی تھیں۔ اور امریکہ Due Judicial Process سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ یمن میں سعودی جنگ سے قبل القا عدہ کے خلاف امریکہ کی جنگ میں ڈر ون حملوں میں کئی سو القا عدہ کے انتہا پسند مارے گیے تھے۔ جن میں Anwar al- Awlaki  بھی تھا۔ جو امریکی شہری تھا۔ لیکن یمن میں اب القا عدہ سعود یوں کے ساتھ ہوتیوں کے خلاف لڑ رہی ہے۔ اسرائیلی مو ساد کا دوبئی ہوٹل میں حما س کے رہنما کو قتل کرنے کا آپریشن اور استنبول میں سعودی کونسلیٹ میں جمال کشوگی کو قتل کرنے کا سعودی Hit Squad آپریشن مڈل ایسٹ میں ایک نئی تشویش ناک صورت ہے۔ دونوں ملکوں میں چند سالوں سے قریبی رابطہ بڑھ رہے ہیں۔ اب یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ سعودی Hit Squad کو کیا اسرائیل نے تربیت دی ہے؟ مڈل ایسٹ میں ہر طرف اسرائیل اور سعودی حکومت کے مخالفین ہیں۔ دونوں ملکوں کے پاس اپنی مخالفت کا کوئی سیاسی حل نہیں ہے۔