Elections In Taiwan: Landslide Victory Of Pro China Party Is The Result Of China’s Best Policy Of Dialogue And Diplomacy
America’s Diplomacy Backed By Arms Sales Is Creating The Chaos
مجیب خان
Supporters of the opposition Nationalist Pro China Party cheer in Kaohsiung, Taiwan. Taiwan's ruling party suffered a major defeat in local elections |
Nationalist party's supporters celebrate a series of gains in Elections |
Pro-Independence Democratic Progressive Party's crushing defeat in Taiwan's local elections, President Tsai Ing-wen |
تائیوان کی برسراقتدار ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی کو 24 نومبر 2018 کے درمیانی مدت کے لوکل انتخابات میں بری طرح شکست ہوئی ہے۔ ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی کی روایتی سیاست کا جھکاؤ تائیوان کی آزادی کی طرف ہے۔ پارٹی آزادی کے مسئلہ پر ریفرینڈم کرانا چاہتی ہے۔ لیکن چین کے بھر پور دباؤ میں اس سے گریز کرنے لگتی ہے۔ یہ پارٹی جب بھی اقتدار میں آتی ہے اس نے تائیوان کی آزادی کو ایشو بنایا ہے۔ اور چین نے اس پارٹی کی حکومت پر اپنا دباؤ بڑھایا ہے۔ صدر Tsai Ing-wen تائیوان کی آزادی کی حامی ہیں۔ حکومت میں آنے کے بعد انہوں نے تائیوان کی آزادی کو اپنی حکومت کا ایجنڈہ امریکہ اور چین میں ٹریڈ جنگ اور South China Sea میں امریکہ کی بڑھتی ہوئی مداخلت کے پس منظر میں فوقیت دی تھی۔ امریکہ نے Tsai Ing-wen حکومت کو کھربوں ڈالر کا اسلحہ فروخت کرنے کا اعلان کیا تھا۔ چین نے صدر Tsai Ing-wen کی اس پالیسی کی مخالفت کی تھی۔ اس سال موسم گرما میں صدر Tsai کو امریکہ کے دورے کی اجازت دینے کی پر ٹرمپ انتظامیہ سے شدید احتجاج کیا تھا۔ اور ٹرمپ انتظامیہ کو 45 سال قبل چین امریکہ تعلقات بحال ہونے پر اعلامیہ یاد دلایا تھا جس میں امریکہ نے “One China Policy” تسلیم کی تھی۔ ان 45 سالوں میں چین نے تائیوان کو Isolate کرنے کی پالیسی اختیار نہیں کی تھی۔ بلکہ چین کی اقتصادی ترقی میں تائیوان کو ضم کرنے کی حکمت عملی بنائی تھی۔ تائیوان کے صنعت کاروں کو چین میں سرمایہ کاری کے خصوصی موقع فراہم کیے تھے۔ اور چین کے تاجروں کو تائیوان سے تجارت بڑھانے کے موقع دئیے تھے۔ چین کی اقتصادی ترقی سے تائیوان کے عوام بھی خوشحال ہو رہے ہیں۔ تائیوان سے لوگ چین آتے ہیں۔ اور چین کی حیرت انگیز ترقی دیکھ کر بہت متاثر ہوتے ہیں۔ اسی طرح چین سے لوگ تائیوان جاتے ہیں۔ اور یہ Dialogue, Diplomacy اور People to People relations کی کامیابی ہے کہ دو سال بعد ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی درمیانی مدت کے انتخابات ہار گئی۔ برسراقتدار پارٹی کی انتخابات میں بری طرح شکست کے بعد صدر Tsai Ing-wen نے پارٹی کی صدارت سے استعفا دے دیا ہے۔ تاہم وہ صدر کے فرائض بدستور انجام دیتی رہیں گی۔ پارٹی کی صدارت سے استعفا دینے پر صدر Tsai نے کہا "آج ڈیموکریسی نے ہمیں ایک سبق سکھایا ہے۔ ہمیں اس پر توجہ دینا چاہیے اور ہمیں عوام کی اعلی توقعات قبول کرنا چاہیے۔"
برسراقتدار ڈیموکریٹک پارٹی کے مقابلے پر قوم پرست KMT پارٹی تھی جس نے چین کے ساتھ تجارتی تعلقات فروغ دینے کی پالیسی اختیار کرنے پر انتخابی مہم چلائی تھی۔ اقتصادی پیداوار، روز گار، پینشن اصلاحات انتخابات کے اہم ایشو ز تھے۔ تائیوان کے عوام کی صرف ان ایشو ز میں گہری دلچسپی کے نتیجہ میں 19ملین لوگ ووٹ ڈالنے آۓ تھے۔ نیشلسٹ پارٹی کے چیرمین Wu-Den-Yih نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ "ان کی پارٹی چین سے سفارتی ٹکراؤ سے گریز کرنے کی کوشش کرے گی۔ اور دو طرفہ تجارت میں شائستگی کو یقینی بنائے گی۔ ہمیں امید ہے دونوں تعلقات میں جلد امن اور استحکام کو فروغ دینے کی طرف واپس آئیں گے۔" یہ Chiang Kai Shek کے نیشلسٹ ہیں۔ اور اب یہ چیرمین ماؤ زے تنگ کے چین کی تیز تر اقتصادی ترقی سے خاصے متاثر ہیں۔ چین نے تائیوان میں 2016 کے انتخابات میں کوئی مداخلت نہیں کی تھی۔ اور ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی بھاری اکثریت سے منتخب ہوئی تھی۔ جس کی سربراہ Tsai Ing-wen pro independent تھیں۔ دو سال بعد اب تائیوان میں درمیانی مدت کے انتخابات میں بھی چین نے کوئی مداخلت نہیں کی ہے۔ تائیوان کے عوام نے صدر Tsai کی پالیسی مستر د کر دی ہے۔ صدر Tsai کے لئے 2020میں دوبارہ صدر منتخب ہونے کے امکان بھی کم ہو گیے ہیں۔ یہ چین کی Dialogue اور Diplomacy پالیسی کے مثبت نتائج ہیں۔ چین کا One country two system ہانگ کانگ میں کامیاب ہے۔ اور تائیوان کے لئے بھی اس نظام میں ایک بڑا مقام ہے۔
شمالی کوریا کی قیادت نے بھی تنازعوں کا حل Dialogue اور Diplomacy میں دیکھا ہے۔ اور جنوبی کوریا اور امریکہ سے تنازعوں کے حل کے لئے Dialogue اور Diplomacy کا راستہ اختیار کیا ہے۔ شمالی کوریا کے رہنما Kim Jong-Un اس میں زیادہ کامیاب ہیں۔ Dialogue اور Diplomacy نے امریکہ کی گرمی کاTemperature گرا دیا ہے۔ شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام کو حل کرنے میں امریکہ کا Dialogue back by force اور Diplomacy back by military force تصور تھا۔ جس میں 60سال سے امریکہ کو کوئی کامیابی نہیں ہو رہی تھی۔ امریکہ آ بناۓ کوریا میں اپنی فوجی سرگرمیوں میں اضافہ کر رہا تھا۔ اور شمالی کوریا ایٹمی ہتھیاروں کی پروڈکشن بڑھا تا جا رہا تھا۔ آ بناۓ کوریا میں بھی اب One country two system کو اختیار کیا جا سکتا ہے۔
مڈل ایسٹ میں اسرائیل کا Peace process back by military occupation اور امریکہ کا Peace process back by Arms sale جنگیں اور انتشار پھیلانے میں کامیاب ہے۔ لیکن مڈل ایسٹ کو امن اور استحکام دینے میں بری طرح ناکام ہے۔ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں Dialogue اور Diplomacy کا فقدان ہے۔ امریکہ نے مڈل ایسٹ میں عوام کو کبھی اہمیت نہیں دی ہے۔ ان کے حقوق اور سلامتی کا امریکہ نے کبھی تحفظ نہیں کیا ہے۔ امریکہ نے عرب عوام کو کبھی اپنا اتحادی نہیں کہا ہے۔ امریکہ کی مڈل ایسٹ پالیسی میں ہمیشہ عرب بادشاہوں، حکم رانوں اور ڈکٹیٹروں کو اہمیت دی گئی ہے۔ ان کی سلامتی کو امریکہ کی سلامتی کا مفاد قرار دیا ہے۔ سعودی شہری جمال کشوگی کے بہیمانہ قتل پر جس میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ملوث ہونے کے بہت واضح ثبوت ہیں۔ صدر ٹرمپ نے کشوگی کے ورثہ سے اظہار ہمدردی کرنے کے بجاۓ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ہمدردی کی ہے۔ اور کہا ہے کہ ولی عہد کا کشوگی کے قتل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ عراق میں جتنے بھی قتل ہوۓ تھے ان کا ذمہ دار صد ام حسین کو ٹھہرایا تھا۔ شام میں زہریلی گیس کس نے استعمال کی تھی؟ اس کی تحقیقات ہونے سے پہلے ہی امریکہ نے صد بشر السد کو اس کا الزام دے دیا تھا۔ اور شام پر 59 میزائلوں سے حملہ کر کے بشر السد کو اس کی سزا دی تھی۔ امریکہ کے قانون انصاف میں بھی اب نفع اور نقصان کو دیکھا جا رہا ہے۔