Wednesday, November 21, 2018

American Weapons And Preemptive Wars Make A Very Dangerous World

American Weapons And Preemptive Wars Make A Very Dangerous World 

مجیب خان
   
US President Donald Trump meets with France President Emmanuel Macron at Elysee presidential palace




President Donald Trump attends the American commemoration ceremony at the Suresnes  American cemetery in Paris, France.Nov.11,2018
  

   پیرس میں پہلی جنگ عظیم کی 100سالہ یاد گار ایسے حالات میں منائی جا رہی تھی کہ جب دنیا ہر طرف سے ہر طرح کی جنگوں میں گھیری ہوئی ہے۔ دنیا کے مختلف خطوں میں امریکی فوجوں کی مقامی ملکوں کی فوجوں کے ساتھ فوجی مشقیں ہو رہی ہیں۔ ایک جنگ ابھی ختم نہیں ہوتی ہے کہ نئی جنگ شروع ہو جاتی ہے۔ افغان جنگ دنیا کی تاریخ کی سب سے طویل جنگ ہے۔ جسے 17 سال ہو گیے ہیں۔ اور یہ ابھی تک جاری ہے۔ اور افغان جنگ ختم ہونے کے میلوں کوئی آثار نظر نہیں آ رہے ہیں۔ پہلی جنگ عظیم کی 100سالہ یاد گار منانے کی تقریب میں 60 ملکوں نے شرکت کی تھی۔ جن میں وہ بڑے ملک بھی تھے۔ جو مہلک ہتھیار بناتے ہیں۔ ان ہتھیاروں کو پھر دنیا کے انتہائی خطرناک خطوں میں فروخت کرتے ہیں۔ قوموں کو آپس میں لڑاتے ہیں۔ اور یہ قومیں ان کے ہتھیاروں سے جنگیں کرتی ہیں۔ لیکن پہلی جنگ عظیم کی 100سالہ یاد گار منائی جا رہی تھی۔ امریکہ 100سال بعد ابھی تک متعدد جنگوں میں سرگرم ہے۔ جس سے یہ تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ جیسے پہلی جنگ عظیم ابھی تک کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکی ہے۔ اسرائیل مڈل ایسٹ میں امریکہ کا انتہائی قریبی اتحادی ہے جو 70 سال سے فلسطینیوں کی نسل ختم کرنے کی جنگ کر رہا ہے۔ جبکہ پہلی جنگ عظیم اور امریکہ کی عراق جنگ میں صرف 89 سال کا فرق تھا۔ اب تک جنگیں سیاسی اور نظریاتی بنیادوں پر ہو رہی تھیں۔ جو ایک دور تک خاصی مقبول تھیں۔ لیکن پھر جب ان جنگوں کی مقبولیت ختم ہونے لگی تھی۔ صدر جارج بش نے War on Terror شروع کر دی تھی۔ اس جنگ کی Media کے ذریعہ Publicity کی جاتی تھی۔ صدر اوبامہ پہلے سیاہ فام امریکی صدر تھے۔ لیکن انہوں نے صدر بش کی جنگ کو آ گے بڑھانے کا کام کیا تھا۔ حالانکہ صدر اوبامہ کے قائد Martin Luther King تھے۔ جنہوں نے Nonviolence تحریک پر زور دیا تھا۔ اور امریکہ میں نسل پرستی ختم کرائی تھی۔ سیاہ فام امریکیوں کے مساوی حقوق تسلیم کیے گیے تھے۔ لیکن صدر اوبامہ نے شام میں لوگوں کو Violence کی تربیت دی تھی۔ اور Violence کے ذریعہ اپنے حقوق حاصل کرنے کی ایک نئی مثال قائم کی تھی۔ جمہوریت، قانون کی با لا دستی، انسانی حقوق کا احترام، اظہار خیال کی آزادی امریکہ کے اصول تھے۔ جس نے امریکہ کو Exceptional بنایا تھا۔ لیکن شام میں حکومت کے خلاف تحریک میں مطلق العنان عرب حکمران امریکہ کے قریبی اتحادی تھے۔ جو شام میں ڈکٹیٹر سے زیادہ بدتر تھے۔ جن کا انسانی حقوق میں ایمان نہیں تھا۔ لیکن دنیا میں امریکہ کی ہر جنگ میں یہ عرب حکمران ایمان رکھتے تھے۔ اور Religiously امریکہ کے اتحادی تھے۔
  
  A Billionaire President proudly telling the American people that Saudi is creating jobs in America. And Saudi is bringing $450 Billion Dollars to invest in America. CAN AMERICA BE GREAT AGAIN ON SAUDI MONEY?


  اب تک جنگیں سیاسی اور نظریاتی بنیادوں پر ہو رہی تھیں۔ صدر ٹرمپ نے اب ایک نئی جنگ کو 21ویں صدی کی جنگ بنایا ہے اور یہ Trade war ہو گی۔ یہ Trade war چین کے ساتھ ہے۔ لیکن یورپی یونین کے ملکوں کو بھی اس ٹریڈ جنگ میں شامل کر لیا ہے۔ اس جنگ میں ٹرمپ انتظامیہ نے Tariff کو ہتھیار بنایا ہے۔ امریکہ میں چین کی در امدادات  پر بھاری Tariff لگائی ہے۔ یورپی یونین سے جو کاریں امریکہ آئیں گی ان پر بھی Tariff لگایا گیا ہے۔ اور کاروں کے پارٹس پر بھی Tariff لگایا ہے۔ امریکہ کے لئے جنگیں جب تک Profitable تھیں۔ امریکہ کو ٹریڈ غیر منصفانہ نظر نہیں آئی تھی۔ یا ٹریڈ میں خسارے کو امریکہ منافع کی جنگوں سے برابر کر لیتا تھا۔ امریکہ کی معیشت کی بنیاد وار مشین پر تھی۔ پہلی جنگ عظیم، دوسری جنگ عظیم، ایشیا، افریقہ اور لا طین امریکہ میں سرد جنگ کی نظریاتی پروکسی جنگیں، سرد جنگ ختم ہونے کے بعد گلف جنگ، پھر 21ویں صدی کے آغاز پر افغان جنگ، عراق جنگ، شام کے داخلی سیاسی انتشار میں امریکہ کی مداخلت کے نتیجہ میں جنگ، یمن میں جنگ بش انتظامیہ نے القا عدہ کے خلاف شروع کی تھی۔ یہ جنگ  صدر بش صدر اوبامہ کے حوالے کر گیے تھے۔ صدر اوبامہ نے یمن میں 8سال تک جنگ جاری ر کھی تھی۔ اور جب صدر اوبامہ کے اقتدار کی میعاد پوری ہونے کے قریب  آئی تو صدر اوبامہ نے یمن جنگ سعودی عرب کے حوالے کر دی تھی۔ صدر ٹرمپ نے یمن میں جنگ ختم کرانے کے بجاۓ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو ہتھیار فروخت کرنے کی پالیسی اختیار کی تھی۔ جس میں صدر ٹرمپ نے امریکہ کا معاشی مفاد دیکھا تھا۔ کھربوں ڈالر کے ہتھیار سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو فروخت کیے تھے۔ یمن جنگ میں ہتھیاروں کے فروخت سے جو کمایا جا رہا تھا۔ اسے افغان جنگ میں انویسٹ کیا جا رہا تھا۔ 21ویں صدی کی جنگیں بہت مہنگی ہوتی جا رہی ہیں۔ ایک کروز میزائل 1.5 ملین ڈالر کا ہے۔ اگر 50 میزائل چند گھنٹوں میں استعمال ہوتے ہیں تو 75ملین ڈالر حکومت کے خزانے سے صرف چند سیکنڈ میں نکل جاتے ہیں۔ جبکہ زخمی فوجیوں کی تیمار داری کے اخراجات کھربوں میں ہیں۔ ان جنگوں کے نتیجہ میں امریکہ کے Resources اب تیزی سے Drain ہو رہے ہیں۔ اس لئے صدر ٹرمپ اب نیٹو کے رکن ملکوں سے اپنا Fair share ادا کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اور انہیں یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ امریکہ ان کی سیکیورٹی میں سب سے زیادہ خرچ کر رہا ہے۔ اور اسے جاری نہیں رکھا جا سکتا ہے۔ نیٹو کے ہر رکن ملک کو اپنا حصہ ادا کرنا ہو گا۔
فرانس کے صدر Emmanuel Macron نے 'امریکہ اور روس کے خلاف یورپ کا دفاع کرنے کے لئے اپنی فوج بنانے کی تجویز دی ہے۔' جس کی جرمنی نے حمایت کی ہے۔ جبکہ امریکہ اور یورپ کے درمیان اقتصادی اور معاشی مفادات پر تصادم ابھر کر سامنے آ رہا ہے۔ صدر ٹرمپ نے ایران پر اقتصادی بندشیں بحال کر کے دراصل یورپ کو معاشی طورپر نقصان پہنچایا ہے۔ فرانس، جرمنی اور برطانیہ کے ایران میں اقتصادی مفادات فروغ دئیے جا رہے تھے۔ ایران نے ان ملکوں کی کمپنیوں کو تیل، گیس، پیٹرولیم، انجیرنگ اور صنعتی شعبوں میں بڑے Contracts دئیے تھے۔ اور یورپی کمپنیاں بھی ایران میں Invest کر رہی تھیں۔ جیسا کہ صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ ""سعودی عرب امریکہ میں 400بلین ڈالر لا رہا ہے اور Job create کر رہا ہے۔"  ایران یورپ میں ایک سے زیادہ ملکوں کی کمپنیوں کو اپنے ملک میں Contracts کے ذریعہ ان کے ملکوں میں Job create کر رہا تھا۔ لیکن صدر ٹرمپ نے ایران پر غیر ضروری اقتصادی بندشیں بحال کر کے یورپی کمپنیوں کو ایران میں اپنے کاروبار بند کرنے  پر مجبور کر دیا تھا۔ بلکہ یورپی کمپنیوں اور بنکوں کو دھمکیاں بھی دیں کہ اگر وہ ایران کے ساتھ کاروبار کریں گے تو ان کے خلاف کاروائی کی جاۓ گی۔ اور امریکہ میں انہیں کاروبار کرنے کی اجازت نہیں دی جاۓ گی۔ یورپ Euro میں ایران سے تجارت کر سکتا ہے۔ لیکن اس کا مطلب Euro کو ڈالر کے مقابلے پر لانا ہو گا۔ اور امریکہ کو یہ بھی قبول نہیں ہو گا۔ ایران کے مسئلہ پر صدر ٹرمپ کے Behavior پر یورپ میں غصہ ہے اور Frustrations ہے۔ پیرس میں پہلی جنگ عظیم کی 100سالہ یاد گار منانے کے موقع پر فرانس کے صدر Emmanuel Macron اور صدر ٹرمپ کے درمیان ترش نوک جھونک اس غصہ اور Frustration کا اظہار تھا۔     
       

No comments:

Post a Comment