Economic Sanctions: Eighty Million Iranians In A Slaughterhouse
مجیب خان
Iranian Protesting aganist U.S. Sanctions |
Iranian protestors |
The Impotent Organization of Islamic Cooperation |
ترکی پہلا اسلامی ہے جس نے ایران کے
خلاف امریکہ کی اقتصادی بندشوں کو ماننے سے انکار کیا ہے۔ اور ایران کے ساتھ معمول
کے مطابق تجارت جاری رکھنے کا کہا ہے۔ صدر ارد و گان نے اقتصادی بندشوں کی مذمت کی
ہے۔ اور کہا ہے کہ 'ہم انہیں نہیں مانتے ہیں۔ ان اقدامات کا مقصد دنیا کو عدم
توازن کرنا ہے۔ ہم ایک سامراجی دنیا میں رہنا نہیں چاہتے ہیں۔ ہم ایران سے 10 بلین
کیو بک میٹر قدرتی گیس خریدتے ہیں۔ ہم اپنے عوام کو سردی میں ٹھٹھرتا نہیں رکھ
سکتے ہیں۔' 2015 میں ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان نیو کلیر پروگرام پر
سمجھوتہ ہونے کے بعد ایران پر سے اقتصادی بندشیں ہٹائی گئی تھیں۔ صدر ٹرمپ نے
گزشتہ سال اس سمجھوتہ سے امریکہ کو علیحدہ کر لیا تھا۔ اور اب بھر پور عالمی
مخالفت کے باوجود صدر ٹرمپ نے ان اقتصادی بندشوں کو بحال کر دیا ہے جو 2015 سے
پہلے ایران پر نافذ تھیں۔ ایٹمی پروگرام کے حل کو آ گے لے جانے کے بجاۓ صدر
ٹرمپ اسے دوبارہ واپس تنازعہ میں لے آئیں
ہیں۔ اوبامہ انتظامیہ نے دوسری عالمی طاقتوں کے ساتھ ایران کے نیو کلیر پروگرام کا
تنازعہ حل کرنے پر تقریباً دو سال انتھک مذاکرات کیے تھے۔ جس کے بعد ایران کے ساتھ
یہ معاہدہ ہوا تھا۔ سلامتی کونسل کے 15 اراکین نے ایران کے نیو کلیر پروگرام پر
سمجھوتہ کی توثیق کی تھی۔ امریکہ کے 2 ہزار نیو کلیر سائنس دانوں نے اس سمجھوتہ کی
حمایت کی تھی۔ IAEA گزشتہ
3سال سے ایران نیو کلیر سمجھوتہ پر مکمل عملدرامد ہونے کی رپورٹیں اقوام متحدہ کی
سلامتی کونسل کو دے رہا ہے۔ صد ام حسین کو امریکہ نے سلامتی کونسل کی قراردادوں پر
عملدرامد نہ کرنے کی سزا دی تھی۔ جو عراق میں ایٹمی پروگرام ختم کرنے کے بارے میں
تھیں۔ لیکن ایران کو ٹرمپ انتظامیہ اس کی سزا دے رہی ہے کہ ایران اپنا ایٹمی
پروگرام کیوں ختم کر رہا ہے۔
دنیا دیکھ رہی ہے کہ صدر ٹرمپ مڈل
ایسٹ کے دو Belligerent ملکوں اسرائیل
اور سعودی عرب کو ایران پر اقتصادی بندشیں بحال کر کے ایک بہت بڑی Favor دے رہے ہیں۔ کیونکہ ایران ان
دونوں ملکوں سے زیادہ بڑا ملک ہے۔ ایران میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی صلاحیتیں
بھی ہیں۔ اسرائیل اور سعودی عرب یہ بھی نہیں چاہتے ہیں کہ ایران اقتصادی ترقی میں
ان سے آگے نکل جاۓ۔ اور اب ایران کی معیشت کو تباہ کرنے کا کام ٹرمپ انتظامیہ سے لیا
جا رہا ہے۔ ویسے تو اسرائیل کا امریکہ کی پالیسیوں پر گہرا اثر و رسوخ ہوتا ہے۔
لیکن صدر ٹرمپ کے ایران کے بارے میں فیصلے اسرائیل کے نظر آتے ہیں۔ جبکہ سعودی عرب
امریکہ سے کھربوں ڈالر کا اسلحہ خریدتا ہے۔ امریکہ میں بڑے پیمانے پر انویسٹ کر
رہا ہے۔ امریکہ میں Job Create کر رہا ہے۔ اس
لئے سعودی عرب کا بھی امریکہ پر خاصا اثر و رسوخ ہے۔ لیکن اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ سعودی
عرب اور اسرائیل میں قربت بڑھتی جا رہی ہے۔ ایران جسے اسرائیل دشمن سمجھتا ہے۔
سعودی عرب نے بھی ایران کو اپنا دشمن بنا لیا ہے۔ اسرائیل ایک طرف ایران کو دنیا
میں تنہا کرنے کے لئے امریکہ کو استعمال کر رہا ہے اور دوسری طرف اسرائیل سعودی
عرب کو عرب اسلامی دنیا میں ایران کو تنہا کرنے کے لئے استعمال کر رہا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ میں با ظاہر انسانی
حقوق کو کوئی اہمیت دی جا رہی ہے۔ اور نہ ہی امریکہ کی اخلاقی قدروں کو فوقیت دی
گئی ہے۔ اسرائیل اور سعودی عرب امریکہ کے قریبی اتحادی انسانی حقوق کے سب زیادہ Polluters ہیں۔ سعودی عرب میں سیاسی مخالفین
کو موت کی سزائیں دی جاتی ہیں۔ یمن میں
سعودی عرب کی بمباری میں شہری سب سے زیادہ ہلاک ہو رہے ہیں۔ ہسپتالوں اور اسکولوں
پر بمباری میں بچے اور عورتیں ہلاک ہوۓ ہیں۔ اب تک تقریباً 10 ہزار یمنی اس جنگ
میں مارے گیے ہیں۔ جبکہ شہری املاک کی تباہی کا تخمینہ کھربوں میں ہے۔ اس جنگ کو
4سال ہو رہے ہیں۔ لیکن انسانی تباہی سے زیادہ اس جنگ میں کچھ حاصل نہیں ہو سکا ہے۔
پھر استنبول میں سعودی کونسیلٹ میں جمال کشوگی کا انتہائی بہیمانہ قتل امریکہ کی
اعلی اخلاقی قدروں کو چیلنج کرتا ہے۔ لیکن ایک ماہ ہو گیا ہے اور صدر ٹرمپ ابھی تک
یہ فیصلہ نہیں کر سکے ہیں کہ سعودی عرب کے خلاف کیا ایکشن لیا جاۓ؟
جبکہ اسرائیل جس کے لئے صدر ٹرمپ نے
ایران سمجھوتہ Null and Void کیا ہے۔ اور
امریکہ کے قریبی اتحادیوں اور دوستوں کی شدید مخالفت لی ہے۔ انہیں مایوس کیا ہے۔
لیکن فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی فوجی کاروائیاں بند نہیں ہوئی ہیں۔ روزانہ
فلسطینی بچے اسرائیلی فوج کی گولیوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ یہ نہتے فلسطینی
اسرائیلی نا کہ بندی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ کسی امریکی صدر نے اس مسئلہ کو حل
کرنے کو اتنی اہمیت نہیں دی تھی کہ جیسے عراق، لیبیا، شام، اور ایران کے مسئلے حل
کرنے کو اہمیت دی تھی۔ اس وقت مقبوضہ فلسطین میں اسرائیلی فوجی کاروائیاں اور یمن
کے خلاف سعودی عرب کی جنگ دنیا کے لئے ایران سے زیادہ بڑے مسئلے ہیں۔ ایران کو جنگوں میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
ایران نے عراق سے 9 سال جنگ لڑی تھی۔ اس جنگ میں ایران کے تقریباً ایک ملین لوگ
مارے گیے تھے۔ اور اس کے علاوہ مالی نقصانات علیحدہ تھے۔ جبکہ اسرائیل کے خلاف
امریکہ کی بندشیں بھی لگی ہوئی تھیں۔ مڈل ایسٹ میں امن اس وقت ایران کے لئے ایک ضرورت
ہے۔ امریکہ کے لئے جنگیں اس کی معیشت کی ضرورت ہیں۔ اور اسرائیل 70سال سے عربوں سے
جنگیں کرنے کا عادی ہو چکا ہے۔ پہلے ایران
کو اس کے ایٹمی پروگرام کی سرگرمیوں پر سزا دی جا رہی تھی۔ پھر جب ایران نے اپنا
ایٹمی پروگرام ختم کرنے پر سمجھوتہ کر لیا تو اب ایران کو شام، یمن اور مڈل ایسٹ
میں نام نہاد مداخلت کرنے اور حزب اللہ کے ساتھ تعلقات کی سزا دی جا رہی ہے۔ مڈل
ایسٹ میں ایران کو دہشت گردوں کی حمایت کرنے کا الزام بہت بڑا جھوٹ ہے۔ ایران دہشت
گردی کا شکار بنا ہے۔ دہشت گردی کے جتنے واقعات ایران میں ہوۓ ہیں۔ شاید مڈل ایسٹ
کے کسی دوسرے ملک میں نہیں ہوۓ ہوں گے۔ سینکڑوں ایرانی دہشت گردوں کے حملہ میں
مارے گیے ہیں۔ آخر ایران اپنے ارد و گرد ایسے حالات کیوں پیدا کرے گا جو اس کی
سلامتی کے لئے خطرہ بنیں گے۔ ہمسایہ ملکوں کے لئے مسائل کی غلاظت کا ڈھیر لگائیں
گے۔ اس سے ایران کو کیا ملے گا؟ عربوں سے اللہ نے عقل لے لی ہے اور انہیں دولت دے
دی ہے۔ وہ ہزاروں میل دور سے خطروں کی صفائی کرنے والوں کو بلاتے ہیں۔ انہیں لاکھوں
ڈالر دیتے ہیں اور ان سے صفائی کراتے ہیں۔ اور وہ بڑی خوشی خوشی صفائی کرنے آتے
ہیں۔ ان کے ہمسائے میں خطروں کی غلاظت صاف کرتے ہیں۔ پھر اسے ان کے ہمسائے کے
دوسرے طرف پھینک دیتے ہیں۔ کیونکہ یہ سلسلہ برسوں سے جاری ہے۔ اس خطہ میں خطروں کی
غلاظت سے دنیا میں بھی Pollution
پھیل رہا تھا۔ اس لئے یہاں ہمیشہ
خطروں کی صفائی کے لئے ایک West Waste management company بن
گئی ہے۔ جسے اب یہ ٹھیکہ مل گیا ہے۔
اسلامی ملکوں کی تنظیم جسے Organization of Islamic Cooperation کہا جاتا ہے۔ اسے
اگر Organization of Islamic Uncooperative کہا جاۓ تو موجودہ
حالات بہتر سمجھ میں آتے ہیں۔ موجودہ حالات میں اسلامی تنظیم کا کردار انتہائی
مایوس اور قابل مذمت ہے۔ اس تنظیم کا آخر کیا فائدہ ہے جو اسلامی دنیا کو در پیش تنازعوں
اور مسائل کو حل کرنے میں بالکل Impotent ہے۔ اس تنظیم کے واچ میں عراق میں 5لاکھ معصوم بچے پیدائش کے صرف چند
ہفتوں میں انتہائی غیر انسانی اقتصادی بندشوں کی وجہ سے مر گیے تھے۔ اس تنظیم کے
واچ میں شام ایک خوبصورت اور قدیم تاریخ اور ثقافت کا ملک کھنڈرات بن گیا ہے۔ اس
تنظیم کے واچ میں سعودی عرب اور یمن میں 4سال سے جنگ جاری ہے۔ 10ہزار یمنی ہلاک ہو
چکے ہیں۔ شام کی طرح یمن بھی کھنڈرات بن گیا ہے۔ ایران کے 80ملین عوام بھی مسلمان
ہیں۔ جو ایک عرصہ سے اقتصادی بندشوں میں انتہائی Miserable حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔ آخر
انہیں کس کی سزا دی جا رہی ہے۔ یورپی یونین نے ایران کے خلاف امریکہ کی اقتصادی بندشوں
کی مذمت کی ہے اور اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ہندو اور بدھ پرست ملکوں نے
بھی ایران کے خلاف اقتصادی بندشوں کو قبول نہیں کیا ہے۔ لیکن اسلامی ملکوں کی تنظیم
ایران کے خلاف اقتصادی بندشوں کے مسئلہ پر خاموش ہے۔ جیسے یہ تنظیم امریکہ اسرائیل
اور سعودی عرب کے ساتھ کھڑی ہے۔
No comments:
Post a Comment