Monday, November 26, 2018

Pakistan’s Biggest Help To America Was They Didn’t Tell The World At Large That President Bush Knew Bin Laden Was In Pakistan


Pakistan’s Biggest Help To America Was They Didn’t Tell The World At Large That President Bush Knew Bin Laden Was In Pakistan

مجیب خان

President George W. Bush during a press conference at the White House on Dece. 20,2007

President George W. Bush with Pakistan's President Pervez Musharraf for a press conference in the White House Sept. 22, 2006

President George W. Bush during the final news conference of his administration on January 12, 2009
  

   صدر ٹرمپ نے کہا ہے کر کہ 'پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کی مدد نہیں کی تھی۔ اس لئے پاکستان کی 1.3بلین ڈالر امداد انہوں نے بند کر دی ہے۔' صدر ٹرمپ نے پاکستان کی دہشت گردی کا خاتمہ  کرنے کی جنگ میں تمام قربانیوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ اگر پاکستان دہشت گردی کی جنگ میں کبھی شامل نہیں ہوتا تو آج پاکستان کو یہ distorted باتیں نہیں سننا پڑتی۔ پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ا سا مہ بن لادن پاکستان میں تھا۔ لیکن پاکستان نے  اسے امریکہ سے چھپا یا تھا۔ 9/11 حملہ میں 15 سعود یوں کا اتنا ذکر نہیں ہوتا ہے کہ جتنا پاکستان کو بن لادن کی ابیٹ آباد میں موجودگی پر مجرم سمجھا جاتا ہے۔ حقائق Distort کرنے کی بھی ایک تاریخ ہے۔ اب ٹرمپ انتظامیہ میں مڈل ایسٹ میں رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں دنیا کو بتایا جا رہا ہے کہ یہ ایران ہے جو مڈل کو عدم استحکام کر رہا ہے۔ شام ایران کی مداخلت کی وجہ سے کھنڈرات بنا ہے۔ یہ ایران ہے جو یمن میں ہوتیوں کے ذریعہ سعودی عرب سے Proxy جنگ کر رہا ہے۔ بش انتظامیہ نے 9/11 حملہ میں عراق کے صدر صد ام حسین کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ اور عراق کے خلاف فوجی کاروائی کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ بہرحال واقعات کو Distort کر کے حالات سے فائدہ اٹھانا قومی سلامتی کا مفاد کہا جاتا ہے۔ امریکی عوام Hangover رہتے ہیں اور عرب حکمران دولت کے نشہ میں رہتے ہیں۔ اس لئے وہ سوال نہیں کرتے ہیں کہ خلیج میں امریکہ کے طیارہ بردار بحری بیڑے کس لئے کھڑے ہیں؟ انہوں نے خلیج میں امریکہ کو سب سے بڑا بحری اڈہ بنا کر دیا ہے۔ کویت اور متحدہ عرب امارت میں امریکہ کے ائیر فورس اور ملڑی بیس ہے۔ مڈل ایسٹ میں امریکہ کی اتنے بڑے پیمانے پر فوجی موجودگی میں پھر ایران مڈل کو کیسے عدم استحکام کر رہا ہے؟ امریکہ کی فوجی طاقت کی موجودگی میں عرب بادشاہ اور شہزادے ایران سے کیوں اتنے خوفزدہ ہیں؟ اگر عرب حکم رانوں کو نظر نہیں آ رہا ہے۔ لیکن دنیا دیکھ رہی ہے کہ مڈل ایسٹ کو کون عدم استحکام کر رہا ہے؟
   پاکستان نے امریکہ کے لئے جتنا کچھ کیا ہے۔ اسرائیل نے بھی امریکہ کے لئے اتنا کچھ نہیں کیا ہے۔ امریکہ میں 9/11 کی دہشت گردی میں صرف 3ہزار لوگ مرے تھے۔ لیکن پاکستان میں دہشت گردی میں 75ہزار لوگ مارے گیے تھے۔ امریکہ کے اتنی بڑی تعداد میں فوجی افغانستان میں اور نہ ہی عراق میں مارے گیے تھے۔ صدر ٹرمپ کے یہ کہنے سے کہ پاکستان نے امریکہ کے لئے کچھ نہیں کیا تھا، حقائق Distort کیے جا سکتے ہیں لیکن حقائق تبدیل نہیں کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ امریکہ کو  ا سا مہ بن لادن کو پکڑنے کے بہت سے موقعہ ملے تھے۔ لیکن امریکہ نے اسے کیوں نہیں پکڑا تھا؟ بن لادن کو پکڑنے سے گریز کیوں کیا تھا؟ ا سا مہ بن لادن کو اگر 1996 میں پکڑ لیا جاتا تو 9/11 کبھی نہیں ہوتا۔ سعودی عرب میں امریکہ کے فوجی بیس پر بموں کے دھماکہ 1996 میں ہو ۓ تھے جس میں 20 سے زیادہ فوجی ہلاک ہوۓ تھے۔ کلنٹن انتظامیہ نے اسے دہشت گردی کہا تھا اور بن لادن کو اس کا الزام دیا تھا۔ سعودی حکومت نے بن لادن کو سعودی عرب سے نکال دیا تھا۔ ا سا مہ بن لادن پھر سوڈان آ گیا تھا۔ سوڈان کی حکومت نے کلنٹن انتظامیہ کو اطلاع دی تھی کہ بن لادن سوڈان میں ہے۔ اور اسے یہاں سے لے جاؤ۔ کلنٹن انتظامیہ نے سوڈان کی حکومت سے کہا کہ وہ بن لادن کو سوڈان سے نکال دے۔ بن لادن اب سوڈان سے افغانستان جا رہا تھا۔ امریکہ کی خفیہ ایجنسیاں اسے واچ کر رہی تھیں۔ لیکن اسے پکڑنے کے لئے کچھ نہیں کیا تھا۔ حالانکہ اس اثنا میں کینیا اور تنزانیہ میں امریکہ کے سفارت خانہ پر حملے ہوۓ تھے۔ دہشت گردی کے ان حملوں میں 250 سے زیادہ  سفارت خانہ کے لوگ مارے گیے تھے۔ صدر کلنٹن کی قومی سلامتی کی ٹیم بن لادن کے خلاف کاروائی کے لئے جیسے 9/11 کا انتظار کر رہی تھی۔ قومی سلامتی امور کے مشیر سنڈی بر گر تھے۔ جو 9/11 کمیشن کے سامنے پیش ہونے سے پہلے اپنی یا داشت Refresh کرنے Classified دستاویز دیکھنے Archives لائبریری گیے تھے۔ اور وہاں چند اہم Classified اپنے موزے میں رکھ لئے تھے۔ Archives لائبریری سے خفیہ دستاویز چوری کرنے پر ان کے خلاف فرد جرم عائد کی گئی تھی۔ اور انہیں سزا ہوئی تھی۔ تاہم وہ جیل نہیں گیے تھے۔
   امریکہ کی اسپیشل فورسز ز نے 13 سال بعد ابیٹ آباد پاکستان میں ا سا مہ بن لادن کو پکڑنے کے لئے آپریشن کیا تھا۔ یہ آپریشن 13 سال قبل 1998 میں افغانستان میں کیا جاتا۔ افغانستان میں ہر طرف لاقانونیت تھی۔ سرحدیں کھلی ہوئی تھیں۔ ا سا مہ بن لادن اور اس کے ساتھ القا عدہ کی پوری قیادت کو پکڑا جا سکتا تھا۔ امریکہ کے ایک درست فیصلے کے نتیجہ میں لاکھوں لوگوں کی جانیں بچ جاتیں۔ دنیا کے 18 سال اس جنگ میں برباد نہیں ہوتے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ امریکہ نے کب درست فیصلے کیے ہیں؟ بن لادن کے خلاف کچھ نہ کرنے کے در پردہ منصوبہ دنیا میں ایک War empire قائم کرنا تھا۔ اور اس مقصد میں ا سا مہ بن لادن اور القا عدہ کو استعمال کرنا تھا۔ 2001 میں طالبان حکومت کے خلاف امریکہ کے فوجی حملہ کے دوران بھی بن لادن کو پکڑنے کے کئی موقع آۓ تھے۔ بن لادن اور ایمن الظواھري  طورہ بورہ میں دیکھے گیے تھے۔ لیکن بعض اطلاعات کے مطابق سیکرٹیری ڈیفنس ڈونالڈ رمز فیلڈ نے انہیں پکڑنے کے لئے  فوجی کاروائی کرنے سے روک دیا تھا۔ اسپیشل فورسز ز کے کمانڈو نے اس کی تصدیق کی تھی کہ انہیں طورہ بورہ میں بن لادن کو پکڑنے سے روک دیا تھا۔ طورہ بورہ سے ا سا مہ بن لادن کہاں گیا تھا صدر بش کو بلا شبہ یہ علم تھا۔
 پاکستان میں فوجی حکومت تھی۔ انتہا پسندوں کے خلاف امریکہ کے ساتھ اتحاد کے نتیجہ میں فوجی حکومت اور آئی ایس آئی دونوں طرف سے شدید دباؤ میں تھے۔ ایک طرف انہیں انتہا پسندوں کی پشت پنا ہی کرنے کا الزام دیا جا رہا تھا۔ اور دوسری طرف انتہا پسند انہیں ٹارگٹ کر رہے تھے۔ کیونکہ فوج اور آئی ایس آئی امریکہ کے ساتھ ان کے خلاف کاروائی کر رہے تھے۔ ایسی صورت میں فوج اور آئی ایس آئی یہ غیر ذمہ دارا نہ  حرکت نہیں کر سکتے تھے کہ وہ ا سا مہ بن لادن کو پناہ دیتے اور اسے خفیہ رکھتے۔ جبکہ پاکستان میں ا سا مہ بن لادن کی تلاش میں ہر جگہ پوسٹر چسپاں تھے۔ امریکہ نے بن لادن کو تلاش کرنے والے کو 50ملین ڈالر دینے کا اعلان بھی کیا تھا۔ پھر یہ کہ صدر بش نے 11/9 کے بعد یہ کہا تھا 'جو دہشت گردوں کو پناہ دے گا اسے بھی دہشت گرد قرار دیا جاۓ گا۔' لہذا اس صورت میں پاکستان کبھی بھی ا سا مہ بن لادن کی Babysitting  نہیں کر سکتا تھا۔ فوجی اپنے فرائض بڑی ذمہ داری سے ادا کرتے ہیں۔ صدر جنرل پرویز مشرف فوجی تھے۔ بلاشبہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی کے بارے میں صدر مشرف نے صدر بش کو ضرور بتایا ہو گا۔ اور یہ بش انتظامیہ تھی جس نے بن لادن کی پاکستان میں موجودگی کی خبر کو دنیا سے خفیہ رکھا تھا۔
   دہشت گردی کے خلاف جنگ کو 50 سال کی جنگ بنانے کے لئے بن لادن کو زندہ رکھا گیا تھا۔ جیسا کہ نائب صدر ڈک چینی نے کہا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ 50 سال تک جاری رہے گی۔ صدر بش نے 11/9 کے بعد کہا تھا کہ "جو دہشت گردوں کو پناہ دے گا۔ اور دہشت گردوں کی پشت پنا ہی کر ے گا۔ وہ بھی دہشت گرد ہو گا۔" لیکن امریکی میڈیا میں ا سا مہ بن لادن کے و ڈیو پیغام کو خصوصی طور پر بریکنگ نیوز کے ذریعہ پبلسٹی دی جاتی تھی۔ اور اس کے پیغام پر پنڈت گھنٹوں تبصرے کرتے تھے۔ بن لادن کے پیغام امریکی میڈیا کے ذریعہ القا عدہ کے کارکنوں تک پہنچ رہے تھے۔ لیکن امریکہ کی 36 ایجنسیوں کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ا سا مہ بن لادن کے وڈیو کون بنا رہا تھا؟ اور کہاں بنا رہا تھا؟ اور یہ کیسے الجیزیرہ اور سی این این تک پہنچتے تھے؟  13مارچ 2002 میں صدر بش نے وائٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس میں ا سا مہ بن لادن کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہا
   “I truly Am not that concerned about Osama Bin Laden. I just don’t spend that much time on, who knows if he’s hiding in some cave or not. We haven’t heard from him in a long time. The idea of focusing on one person really indicates to me people don’t understand the scope of the mission. Terror is bigger than one person. He’s just a person who’s been marginalized…. I don’t spend that much time on him, to be honest with you.”
 صدر بش ان خیالات کا اظہار کئی مرتبہ کر چکے تھے۔ صدر بش نے یہ بھی کہا کہ ا سا مہ بن لادن اب زیادہ Relevant  نہیں ہے۔ اس وقت تک افغانستان، پاکستان، عراق، یمن، اور بہت سے دوسرے ملکوں میں دہشت گردی پھیل چکی تھی۔ اور ہر ملک اپنی ایک جنگ لڑ رہا تھا۔
   صدر اوبامہ کے سی آئی اے کے ڈائریکٹر Leon Panetta نے گزشتہ ہفتہ ایک امریکی کیبل چینل میں کہا کہ انہیں بن لادن کے بارے میں معلوم تھا لیکن انہوں نے جنوری 2011 تک اسے خفیہ رکھا تھا۔ اور پھر اسے پکڑنے کا منصوبہ بنا تھا۔ 2 مئی 2011 میں ابیٹ آباد پاکستان میں اسپیشل فورسز ز کے آپریشن میں بن لادن مارا گیا تھا۔ "بن لادن پاکستان میں تھا" فوج نے اسے پناہ دی تھی۔" "ایبٹ آباد فوجی چھاؤنی ہے۔ اور یہاں بن لادن کی رہائش گاہ تھی۔" یہ اخبارات کی سرخیاں تھیں۔ پاکستان کی فوج اور آئی ایس آئی کو اس طرح بدنام کرنے پر سابق صدر جنرل مشرف خاصے برہم ہوۓ تھے۔ آرمی چیف جنرل کیانی بھی زیادہ خوش نہیں تھے۔ سابق صدر بش اور ان کے قومی سلامتی امور کے مشیر Stephen Hadley نے بیان دئیے کے فوج کی اعلی قیادت کو بن لادن کے  پاکستان میں ہونے کا علم نہیں تھا۔ ہو سکتا ہے کہ فوج میں نچلی سطح پر کسی نے بن لادن کو یہاں رہائش دی ہو گی۔ اسی اثنا میں Stephen Hadley اسلام آباد آۓ تھے۔ اور جی ایچ کیو میں جنرل کیانی سے ملاقات کی تھی۔ ٹیکساس کے ری پبلیکن گورنر Rick Perry نے جن کے سابق صدر بش سے قریبی تعلقات تھے۔ صدر جنرل پرویز مشرف اور ان کی بیگم کو اپنی رہائش گاہ پر ڈنر دیا تھا۔ بلاشبہ ڈنر کے دوران ایبٹ آباد اور بن لادن پر سابق صدر بش کے توسط سے بات ہوئی ہو گی۔ بہرحال بن لادن کو پاکستان میں رکھنے پر بش انتظامیہ اور صدر جنرل مشرف میں کیا گٹھ جوڑ تھا۔ اسے دبا دیا گیا تھا۔ پاکستان کی سیاسی حکومتوں نے ایبٹ آباد واقعہ پر جسٹس جاوید اقبال کمیشن کی تحقیقات رپورٹ دبا دی تھی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ جھوٹ اور پراپگنڈہ پر تھی۔ Transparency کو بش انتظامیہ نے اس جنگ سے نکال دیا تھا۔ اب صدر ٹرمپ یہ کہتے ہیں کہ پاکستان نے امریکہ کی کوئی مدد نہیں کی تھی۔ اس سے بڑی امریکہ کی اور کیا مدد ہو سکتی تھی کہ پاکستان بھی Transparent نہیں تھا۔ پاکستان اگر 2002 میں صدر بش کو بتانے سے پہلے دنیا کو یہ بتا دیتا کہ ا سا مہ بن لادن پاکستان میں ہے۔ اور قانون نافذ کرنے والوں کی حراست میں ہے۔ بش انتظامیہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نقشہ بدل جاتا۔ جنگوں میں امریکہ کا اتحادی بننے کی قیمت بھی اتحادیوں کو دینا پڑتی ہے۔      
   

No comments:

Post a Comment