Monday, November 5, 2018

Saudi Arabia: Strength And Peace Is In The Conciliation, Confrontation. And Containment Is The Sign Of Weakness


Saudi Arabia: Strength And Peace Is In The Conciliation, Confrontation And Containment Is The Sign Of Weakness

مجیب خان
Destruction by the war in Yemen

The destruction caused by the war in Syria

Destruction by America's war in Iraq 

Destruction the Palestinian schools in the West Bank by the Israeli Army

   اسرائیلی حکومت جو عراق میں صد ام حسین کے خلاف  فوجی کاروائی کرنے کی حمایت میں یہ کہتی تھی کہ صد ام حسین اس خطہ اور دنیا کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ ہیں۔ صد ام حسین کا اقتدار میں رہنا عالمی امن اور خطہ کے استحکام کے لئے بہت بڑا خطرہ بنا رہے گا۔ اسرائیلی وزیر اعظم نتھن یا ہو نے صدر ٹرمپ سے کہا ہے کہ "جمال کشوگی  کا قتل انتہائی بھیانک ہے۔ اور اس کی مذمت کی جاۓ۔ تاہم دنیا کے استحکام، خطہ کے لئے اور دنیا کے لئے سعودی عرب کا استحکام بہت اہم ہے۔" نتھن یا ہو نے کہا "میں سمجھتا ہوں کہ اس کا ایک ایسا راستہ نکالا جاۓ کے دونوں مقاصد حاصل کر لئے جائیں۔ کیونکہ میرے خیال میں ایران بہت بڑا مسئلہ ہے۔" امریکی اخبار کی اس خبر کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم نتھن یا ہو نے صدر ٹرمپ سے خصوصی طور  پر ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی حمایت جاری رکھنے کا کہا ہے۔ کیونکہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اسرائیل کے مفاد میں ہیں۔ انہوں نے ایران کے خلاف ایک سخت موقف اختیار کیا ہے۔ اور صدر ٹرمپ کے فلسطین کے حل کی کوششوں کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ سعودی عرب کی حمایت فلسطینیوں کو صدر ٹرمپ کا مڈل ایسٹ پلان قبول کرنے پر مجبور کرے گی۔ وزیر اعظم نے اس صورت حال میں سعودی عرب کے بارے میں محتاط ہونے کا کہا ہے۔
   سعودی عرب کے شہزادہ ترہ کی الفیصل بھی واشنگٹن میں تھے۔ شہزادہ ترہ کی سعودی عرب کی انٹیلی جینس کے سابق ڈائریکٹر تھے۔ 80s میں سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد میں شہزادہ ترہ کی کا ایک کلیدی رول تھا۔ شہزادہ ترہ کی برطانیہ اور واشنگٹن میں سعودی عرب کے سفیر تھے۔ واشنگٹن میں تھینک ٹینک سے خطاب میں شہزادہ ترہ کی کا کشوگی کے مسئلہ پر خاصا سخت لہجہ تھا کہ "سعودی عرب کو کشوگی کے مسئلہ پر دنیا میں ملعون کیا جا رہا ہے۔ سعودی حکومت اس معاملہ کی تحقیقات کر رہی ہے۔ اور سعودی حکومت ان کے خلاف کاروائی کرے گی جو کشوگی کے قتل میں ملوث پائیں جائیں گے۔"  شہزادہ  ترہ کی نے کہا "سعودی عرب نے مڈل ایسٹ میں استحکام رکھا ہے۔ اور ایران کو Contain کر رہا ہے۔"  سعودی عرب نے اسرائیل کے ساتھ مل کر مصر میں جمہوریت کو Contain کیا ہے۔ سعودی عرب نے امریکہ کے ساتھ شام کو کھنڈرات بنانے کی خانہ جنگی میں مداخلت کی تھی۔ اس خانہ جنگی میں ایک لاکھ بے گناہ شامی مارے گیے ہیں۔ لاکھوں خاندان تباہ ہو  گیے ہیں۔ کیا سعودی عرب نے مڈل ایسٹ میں یہ استحکام رکھا تھا؟ سعودی عرب اگر ایران ایک مسلم ملک کو Contain کر رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ مڈل ایسٹ میں استحکام نہیں ہے۔ یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ شاہی خاندان جو اسلام کے دو مقدس مقامات کا محافظ ہے، اسلامی دنیا کو گمراہ کر رہا ہے۔ اسلامی دنیا کو لڑائیوں در لڑائیوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ نفرتوں کے درس کو عبادت کا درجہ مل گیا ہے۔ محلوں میں برادر اسلامی ملکوں کے خلاف سازشیں اسلام کا چھٹا ستون بن گیا ہے۔ الزام تراشی اسلام میں گناہ قرار دیا ہے۔ لیکن الزام تراشی عبادت بن گئی ہے۔ سعودی شہزادے یورپ میں بھی رہتے ہیں۔ انہوں نے یورپ سے کیا سیکھا ہے؟ جرمنی دوبارہ ابھر رہا ہے۔ کیا برطانیہ، فرانس جرمنی کو Contain کرنے کی باتیں کر رہے ہیں۔ یا یورپ کے دوسرے ملک جرمنی کے دوبارہ ایک طاقت بن کر ابھرنے سے خوفزدہ ہو رہے ہیں۔ یہ اسرائیل کی تنگ نظر طالبان سے بدتر مذہبی قدامت پسند حکومت ہے۔ جو ایران سے عربوں کو خوفزدہ کر رہی ہے۔ جس نے صد ام حسین سے دینا کو بڑی کامیابی سے خوفزدہ کیا تھا۔ جس نے مصر میں آزادی اور جمہوریت سے سعودی عرب اور خلیج کے حکمرانوں کو خوفزدہ کیا تھا۔ اور پھر ان سے اسرائیل کی حمایت حاصل کی تھی اور اس کے عوض ان کا تحفظ کرنے کی گا ر نٹی دی تھی۔ یہ تعلقات استوار کرنے کے انتہائی گھٹیا طریقے ہیں۔ ایسے طریقوں سے امن پائدار ہوتا ہے اور نہ ہی تعلقات مضبوط ہوتے ہیں۔
   مصر کے صدر انور سادات نے اسرائیل کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ امن سمجھوتہ ان شرائط پر کیا تھا کہ اسرائیل فلسطینیوں کی آزاد ریاست کے قیام اور عربوں کے علاقہ واپس کرنے پر مذاکرات کرے گا۔ اور ان کے ساتھ بھی جلد امن سمجھوتہ کرے گا۔ صدر سادات نے صدر کارٹر پر یہ واضح کر دیا تھا کہ اگر فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل نے یہ سمجھوتہ نہیں کیا تو اس صورت میں مصر اسرائیل کے ساتھ امن سمجھوتہ ختم کر دے گا۔ لیکن اس معاہدے کے چند ماہ بعد اسلامی انتہا پسندوں نے صدر انور سادات کو قتل کر دیا۔ حسینی مبارک جن کا تعلق فوج سے تھا مصر کے نئے صدر بن گیے تھے۔ امریکہ نے حسینی مبارک حکومت کو 3بلین ڈالر سالانہ امداد اسرائیل کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ معاہدہ برقرار رکھنے پر دینے کا اعلان کیا تھا۔ صدر حسینی مبارک نے 3بلین ڈالر لے کر کیمپ ڈیوڈ معاہدہ اپنی صدارتی کرسی کے نیچے رکھ کر اس پر بیٹھ  گیے تھے۔ فلسطینی بیچارے اسرائیل سے مذاکرات کے لئے صدر حسینی مبارک کے صدارتی محل کے چکر کاٹتے رہتے تھے۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدہ صرف اسرائیل کے مفاد میں تھا۔ مصر کو 3بلین ڈالر مل رہے تھے۔ جو امریکہ کے عوام کے ٹیکس سے ادا کیے جاتے تھے۔ لیکن فلسطینی عوام کو کچھ نہیں ملا تھا۔ انہیں اسرائیلی فوجی ملے تھے جن کے ہاتھوں میں میڈ ان امریکہ ہتھیار تھے۔
   تنظیم آزادی فلسطین PLO فلسطینیوں کی ایک واحد تنظیم تھی۔ جس کے چیرمین یا سر عرفات تھے۔ فلسطینی مسلمان اور عیسائی اس تنظیم کے پرچم تلے متحد تھے اور اپنی آزادی، حقوق اور خود مختاری کے لئے لڑ رہے تھے۔ یہ ایک سیکو لر لبرل اور پروگریسو تنظیم تھی۔ اس لئے PLO عرب قوم پرست اور سوشلسٹ  حکومتوں کے زیادہ قریب تھی۔ 1993 میں اسرائیلی حکومت اور PLO نے اوسلو امن معاہدہ پر دستخط کیے تھے۔ اسرائیلی حکومت نے PLO کو مذاکرات کا پارٹنر تسلیم کیا تھا۔ اس کے ساتھ PLO کو فلسطینیوں کی نمائندہ تنظیم تسلیم کیا تھا۔ PLO نے اسرائیل کی ریاست تسلیم کر لی تھی۔ اور PLO کے چارٹر سے اسرائیل تباہ کرنے کی شقیں ختم کر دی تھیں۔ لیکن اسرائیل کی لیکیوڈ پارٹی نے اوسلو امن معاہدہ قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ لیکیوڈ پارٹی ایک مذہبی نظریاتی اور انتہائی قدامت پسند تھی۔ امن کے لئے مذاکرات کرنے میں لیکیوڈ پارٹی  طالبان  کی طرح ہے۔ ان سے مذاکرات کرنا دیواروں سے سر مارنا ہے۔ سعودی عرب نے اس وقت لیکیوڈ پارٹی کی بر وقت مدد یہ کی تھی کہ PLO کو Contain کرنے کے لئے اس کے مقابلے پر حماس بنا دی تھی۔ حماس میں جو فلسطینی تھے ان کا تعلق Brotherhoods سے تھا۔ اور یہ خلیج کی ریاستوں میں پناہ گزین تھے۔ حماس نے اوسلو امن معاہدہ مستر د  کر دیا تھا۔ اسرائیل نے انہیں غازہ دے دیا تھا۔ اور PLO کو مغربی کنارے میں محصور کر دیا تھا۔ اسرائیلی طالبان نے وزیر اعظم Yitzhak Rabin کو PLO کے ساتھ امن سمجھوتہ کرنے پر قتل کر دیا تھا۔ لیکیوڈ پارٹی کے اسرائیلیوں نے Divide and Rule کی Colonial Mentality سے فلسطینیوں کو تقسیم کر دیا تھا اور ان کو اپنی Military Colony بنا لیا تھا۔
   جس Brotherhoods سے جمال کشوگی کا تعلق بتایا جا رہا ہے اس کی تاریخ کا شاید ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو علم ہے اور نہ ہی امریکہ میں جو ولی عہد شہزادہ محمد کی حمایت کر تے ہیں۔ انہیں کچھ معلوم ہے۔ Brotherhoods سعودی عرب نے 50s میں بنائی تھی۔ سعودی حکومت نے Brotherhoods بنانے کی وجوہ یہ بتائی تھی کہ عرب دنیا میں ہر طرف بڑی تیزی سے عرب قوم پرست سیکولر اور سوشلسٹ انقلابی حکومتیں ابھر رہی تھیں۔ اورسعودی حکومت نے Brotherhoods سے ان انقلابی حکومتوں کو Contain کرنے کا کام لیا تھا۔ مصر میں جمال عبدالناصر، لیبیا میں کرنل معمر قد ا فی، شام میں حافظ اسد، عراق میں صد ام حسین ان کے علاوہ شمالی افریقہ کے اسلامی ملک بھی تھے جہاں انقلابی حکومتیں اقتدار میں تھیں۔ یہ عرب حکومتیں Brotherhoods کا خاتمہ کرنے کی لڑائی بالکل ایسے ہی لڑ رہی تھیں۔ جیسے امریکہ آج شام اور عراق میں ISIS کا خاتمہ کرنے کی لڑائی لڑ رہا ہے۔ لیکن اس وقت امریکہ نے بھی سعودی عرب کے ساتھ  مڈل ایسٹ میں Brotherhoods کی اہمیت کا اعتراف کیا تھا۔ اور اسے مڈل ایسٹ میں سوویت یونین کے بڑھتے ہوۓ اثر کو Contain کرنے کے مقصد میں استعمال کیا تھا۔  لبنان کے خلاف اسرائیل کی جارحیت اور توسیع پسندی کو Contain کرنے کے لئے حزب اللہ بنائی گئی ہے۔ امریکہ نے بھی عراق اور افغانستان میں اپنے دشمنوں کو Contain کرنے لئے ملیشیا بنائی تھیں۔
   ایک Unstable region میں جسے امریکہ کی Preemptive اور Regime change جنگوں نے بری طرح Destabilize کر دیا ہے۔ اس میں سعودی عرب کا Stable ہونا دنیا کے لئے کیسے اہم ہو سکتا ہے۔ جبکہ سعودی عرب میں کھربوں ڈالر کے امریکی ہتھیاروں کے ڈھیر لگے ہوۓ ہیں۔ اور سعودی عرب Confrontations کے راستہ پر ہے۔ امریکہ اور اسرائیل نے اپنے گھناؤنے عزائم میں ایران کے خلاف سعودی عرب کو آ گے کر دیا ہے۔ اسرائیل اور امریکہ فلسطینیوں کے Self-determination دینے کی بات نہیں کرتے ہیں۔ امریکہ میں جو بھی صدر آتا ہے۔ مڈل ایسٹ میں ایک دو ملکوں کو کھنڈرات بنا کر چلا جاتا ہے۔ عرب اسلامی دنیا کو امریکہ-اسرائیل گٹھ جوڑ پالیسیوں سے اپنے آپ کو دور رکھنا ہو گا۔ صرف اسی میں ان کے لئے امن اور استحکام ممکن ہے۔ سعودی عرب کی ساکھ اور وقار جمال کشوگی کے مسئلہ پر بری طرح خراب ہوئی ہے۔ سعودی عرب کے پاس اسے بحال کرنے کا ایک کارڈ ہے۔ جسے وہ اس وقت استعمال کر سکتا ہے۔ سعودی عرب صدر ٹرمپ سے مرحوم شاہ عبداللہ کا عرب امن پلان تسلیم کر آۓ۔ جس کی 2002 میں بیروت میں عرب لیگ کے سربراہ اجلاس میں توثیق کی گئی تھی۔ اس اجلاس میں 'عرب رہنماؤں نے اجتماعی طور پر اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اس کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرنے کا کہا تھا۔ اور اس کے عوض میں عرب سرزمین سے اسرائیل کے مکمل انخلا جس پر اس نے 1967 کی جنگ میں قبضہ کر لیا تھا۔ فلسطینی ریاست کا قیام، ایسٹ یروشلم اس کا دارالحکومت، 3.8 ملین فلسطینی مہاجرین کے لئے یہ ایک منصفانہ حل ہے۔' سعودی عرب امریکہ سے کھربوں ڈالروں کا اسلحہ خرید رہا۔ امریکہ میں لاکھوں ڈالر انویسٹ کر رہا ہے۔ جیسا کہ صدر ٹرمپ نے کہا ہے" سعودی عرب امریکہ میں ایک ملین Job create کر رہا ہے۔ پھر امریکہ مرحوم شاہ عبداللہ کا عرب امن پلان کیوں قبول نہیں کر سکتا ہے؟ اور اس پر اسرائیل سے عملدرامد کیوں نہیں کرا سکتا ہے؟ ایران کو Contain کرنے کا یہ ایک بہترین طریقہ ہے۔                    
           

No comments:

Post a Comment