America, Allies, Alliance, And Coalition
?Who Has Bullied Who
مجیب خان
President Bush Hosts Presidents of Pakistan and Afghanistan at the White House |
President Obama, with Saudi Arabia's King Salman, last days of his Presidency, "regional allies to take more responsibility for their own security |
U.S Army in Saudi Arabia heads toward the Kuwait border in 1991, to drive the Iraqi military out of Kuwait. Since then The U.S military has been involved in Iraq for more than two decades |
Islamic State militants convoy in Tel Abyad, Northeast Syria |
امریکہ اب Alliance سے دور ہو رہا ہے۔ Allies امریکہ سے فاصلے رکھ رہے ہیں۔ اور Coalition ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ 70 سال امریکہ نے Alliance, Allies, Coalition کو اپنی خارجہ پالیسی کا کار نر اسٹون بنایا تھا۔ اور ان کے ذریعے اپنی خارجہ پالیسی کے مقاصد فروغ دئیے تھے۔ مغربی یورپ کے ساتھ امریکہ کا ہمیشہ ایک مضبوط Alliance تھا۔ ایشیا، افریقہ اور لا طین امریکہ میں امریکہ کے Allies تھے۔ جبکہ عرب اسلامی دنیا میں امریکہ کا ایک Coalition تھا۔ امریکہ کے یہ مضبوط Alliance, Allies, Coalition تھے جنہوں نے سرد جنگ جیت کر چاندی کی طشتری میں امریکہ کو دی تھی۔ امریکہ نے سرد جنگ میں ایک گولی بھی نہیں چلائی تھی۔ اور امریکہ سرد جنگ جیت گیا تھا۔ پھر 90s میں امریکہ نے Coalition کی قیادت کی تھی۔ جس نے صد ام حسین کی فوجوں سے کویت آزاد کرایا تھا۔ یہ اتنی بڑی کامیابی تھی کہ Coalition نے امریکہ کو دنیا کی واحد طاقت تسلیم کیا تھا۔ پھر 9/11 کے بعد Alliance, Allies, Coalition سب ایک ہو گیے تھے اور امریکہ سے یکجہتی میں اس کی قیادت کے پیچھے کھڑے ہو گیے تھے۔ اور یہ قیادت جارج ڈبیلو بش تھے۔ 9/11 سے امریکہ کو ایک نئی طاقت ملی تھی۔ اور اس طاقت نے امریکہ کے لئے دنیا بھر میں فوجی مہم جوئیوں کے گیٹ کھول دئیے تھے۔ امریکہ کی قیادت میں طاقت کا گھمنڈ آ گیا تھا۔ عالمی قانون امریکہ کی طاقت کے ماتحت آ گیا تھا۔ قانون جب طاقت کے ماتحت آ جاتا ہے۔ تو پھر Abuse اور Bully بنانے کی سیاست ہونے لگتی ہے۔
افغانستان دنیا میں امریکہ کی ایک واحد سپر پاور ہونے کے لئے ایک پہلا بڑا امتحان تھا۔ 9/11 کا امریکہ پر حملہ افغانستان سے نہیں ہوا تھا۔ افغانستان سے غیر ملکی جہادیوں کو نکالنے کے دوسرے طریقے بھی ہو سکتے تھے۔ ایک تباہ حال ملک میں جانا Suicidal ثابت ہوا ہے۔ ملا عمر بن لادن کو جب کسی تیسرے ملک کے حوالے کرنے کے لئے تیار ہو گیا تھا۔ صدر بش ملا عمر کی اس پیشکش کو قبول کر لیتے۔ اور اس کے بعد پھر طالبان حکومت کی مذہبی جنو نیت کا سوال کرتے۔ افغانستان سے تمام غیر ملکی جہادیوں کی صفائی کرنے کا کام بھی طالبان سے لیا جا سکتا تھا۔ طالبان سے افغان معاشرے کو متحد کرنے اور Reconciliation کا کام بھی لیا جا سکتا تھا۔ پاکستان سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے طالبان حکومت کو تسلیم کیا تھا اور یہ ملک طالبان کو تا جک ازبک اور ہزا رہ اقلیتوں کے ساتھ مفاہمت کرانے میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کر سکتے تھے۔ طالبان سوویت یونین کے خلاف جنگ میں امریکہ کے Allies تھے۔ CIA سے انہوں نے جہاد کی تربیت لی تھی۔ صدر ریگن اور نائب صدر جارج ایچ بش نے انہیں یہ کہہ کر جہاد کے لئے بیدار کیا تھا کہ 'کمیونسٹ فوجیں ان کا مذہب تباہ کر رہی تھیں۔ ان کی مسجدیں تباہ کی جا رہی تھیں۔ افغانستان کو کمیونسٹ ملک بنایا جا رہا تھا۔ افغان جہاد حق پر تھا۔ اور خدا تمہارے ساتھ تھا ۔' اور یہ ان کے جہاد کا بنیادی کا ز تھا۔ جبکہ امریکہ کا اصل کا ز افغانستان کو سوویت یونین کا ویت نام بنانا تھا۔ اور کمیونسٹ فوجوں کو افغانوں سے شکست دلانا تھا۔ امریکہ اپنے اس مشن میں کامیاب ہوا تھا۔ افغانوں نے اپنا مذہب بچانے کے لئے اپنا خون دیا تھا۔
طالبان کی حکومت نے دو بڑے اور اچھے کام یہ کیے تھے کہ افغانستان سے وار لارڈ ز کا نظام ختم کر دیا تھا۔ اور افیون کی پیداوار جڑ سے اکھاڑ دی تھی۔ اقوام متحدہ نے بھی اس کا اعتراف کیا تھا۔ اس مسئلہ پر طالبان صدر بش اور ان کی قومی سلامتی کے ماہرین سے زیادہ عقلمند تھے۔ طالبان نے یہ دیکھا تھا کہ اگر وار لارڈ ز مضبوط ہو گیے تو وہ افغانستان میں ایک بڑا مسئلہ بن جائیں گے۔ اور افیون کی پیداوار بھی اسی لئے ختم کی تھی کہ وار لارڈ ز کی زیر زمین معیشت بن جاتی اور پھر اپنی اس معیشت سے وہ ان کی حکومت کو عدم استحکام کرنے لگتے۔ لیکن صدر بش اور ان کی ٹیم امریکہ کی یہ Typical سوچ رکھتی تھی کہ صرف Iron fist hands طالبان کا خاتمہ کر سکتے تھے۔ اس سوچ سے بش انتظامیہ نے طالبان کا اقتدار ختم کر کے وار لارڈ ز کو بحال کر دیا تھا۔ اور ان سے طالبان کا مکمل خاتمہ کرنے کا کام لیا تھا۔ اور اس کے ساتھ افیون کی پیداوار بھی شروع ہو گئی تھی۔ اور یہ وار لارڈ ز کی زیر زمین معیشت بن گئی تھی۔ جو کابل حکومت کی معیشت سے زیادہ بڑی معیشت تھی۔ بش انتظامیہ میں کسی نے اس پر غور تک نہیں کیا تھا کہ بہرحال وار لارڈ ز، طالبان اور افیون کی کاشت افغانستان میں رہیں گے۔
پاکستان نے طالبان حکومت کے خلاف 180 ڈگری سے یو ٹرن لیا تھا۔ صدر بش نے پاکستان کو Non-NATO Ally کا درجہ دیا تھا۔ اور افغان جنگ میں پاکستان کو امریکہ کا ایک اہم Ally بتایا تھا۔ لیکن افغانستان میں ایک سیاسی حل کے لئے طالبان سے ڈائیلاگ کی پاکستان کی تجویز کو بش انتظامیہ ویٹو کر دیتی تھی۔ اور پاکستان کو صرف یہ پیغام دیا جاتا تھا کہ طالبان سے کوئی بات نہیں ہو گی۔ طالبان کا مکمل خاتمہ کیا جاۓ گا۔ حالانکہ طالبان اس وقت بہت کمزور تھے۔ ان کی طاقت کا شیرازہ بکھر چکا تھا۔ اور ان سے مذاکرات میں اپنے مقاصد تسلیم کرواۓ جا سکتے تھے۔ وہ ایک سنہری موقعہ تھا۔ جسے صدر بش نے کھو دیا تھا۔ امریکہ کے فوجی آپریشن سے طالبان زیادہ مضبوط ہو گیے تھے۔ اوبامہ انتظامیہ نے بھی طالبان سے مذاکرات کی ہر کوشش کو سبوتاژ کیا تھا۔ اور پاکستان سے طالبان کے خلاف صرف Do More کی پالیسی پر عمل کرنے کا کہا جاتا تھا۔ امریکہ کی دو انتظامیہ نے افغانستان کے ایک فوجی حل میں 16 سال گزار دئیے تھے۔ لیکن اس میں امریکہ کو ایک انچ بھی کامیابی نہیں ہوئی تھی۔ پاکستان جو امریکہ کا Ally تھا۔ امریکہ کی جنگوں میں پاکستان کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑی تھی۔ پاکستان میں 50ہزار لوگ دہشت گردی کی جنگ میں مارے گیے تھے۔ اور پاکستان کا 100بلین ڈالر کا اقتصادی نقصان ہوا تھا۔ 17سال سے پاکستان امریکہ سے طالبان کے ساتھ سنجیدہ سیاسی ڈائیلاگ کرنے پر زور دیتا رہا ہے۔ لیکن 17سال بعد امریکہ کی تیسری انتظامیہ یہ اعتراف کر رہی ہے کہ افغانستان کے مسئلہ کا فوجی حل نہیں ہے۔ اور پاکستان سے طالبان کے ساتھ امریکہ کے مذاکرات کرانے پر زور دیا جا رہا ہے۔
بش انتظامیہ اور اوبامہ انتظامیہ کا افغان جنگ سے جنوبی اور وسط ایشیا کو عدم استحکام کرنا مقصد تھا۔ جس طرح عراق جنگ سے مڈل ایسٹ کو عدم استحکام کیا گیا ہے۔ امریکہ کے ایشیائی، افریقی، لا طین امریکہ اور بعض یورپی Allies نے بش انتظامیہ کو عراق پر Preemptive حملے کے خوفناک نتائج سے آ گاہ کیا تھا۔ لیکن صدر بش نے عراق پر حملے کی Coalition کو Allies کی مخالفت پر ترجیح دی تھی۔ عراق میں جب تک ایک مضبوط حکومت تھی۔ اس خطہ میں استحکام تھا۔ اور دہشت گرد بھی ادھر کا رخ نہیں کرتے تھے۔ لیکن صدر بش کی قیادت میں Coalition کے عراق پر حملہ سے دہشت گردوں کو آزادی مل گئی تھی۔ اس خطہ میں ایسی خوفناک دہشت گردی کبھی نہیں دیکھی گئی تھی۔ جو امریکہ کی فوجی موجودگی میں دہشت گردی دیکھی گئی تھی۔ 2008 کے صدارتی انتخابات میں امریکی عوام نے با ر اک او بامہ کو اتنی ہی بھاری اکثریت سے ووٹ دئیے تھے۔ جیسے 2016 کے صدارتی انتخابات میں عوام نے ڈونالڈ ٹرمپ کو ووٹ دئیے تھے۔ لیکن با ر اک اوبامہ نے صدر بننے کے بعد عوام سے جنگیں ختم کرنے کے اپنے وعدہ کی سنگین خلاف ورزی کی تھی۔ افغانستان اور عراق میں سیاسی استحکام کے لئے کوششوں پر توجہ دینے کے بجاۓ صدر اوبامہ نے لیبیا میں غیر قانونی مداخلت Regime change کرنے کے لئے کی تھی اور اس ملک پر حملہ کیا تھا۔ صدر اوبامہ نے لیبیا پر حملہ کو Justified کرنے کے لئے Alliance کو استعمال کیا تھا۔ صدر بش کے بعد اوبامہ انتظامیہ بھی مڈل ایسٹ کو عدم استحکام کرنے کے مشن پر تھی۔ حالانکہ صدر معمر قد ا فی ان کے وزرا، لیبیا کی انٹیلی جینس کے اعلی حکام صدر اوبامہ اور Alliance میں شامل ملکوں کو یہ بتا رہے تھے کہ اسلامی انتہا پسند ان کی حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں اور یہ لیبیا میں اپنی اسلامی ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں۔ قد ا فی حکومت کے حکام نے یہ ایک مرتبہ نہیں کہا تھا بلکہ یہ اپیلیں خطہ کو اس خطرے سے بچانے کے لئے کر رہے تھے۔ لیکن امریکہ کی قیادت طاقت اور Regime change میں Intoxicated تھی۔ اوبامہ انتظامیہ نے لیبیا کو Destabilize کیا اور پھر Allies سے کہا کہ اب وہ لیبیا میں ISIS سے لڑیں۔ پھر شام کو Destabilize کیا اور Allies سے کہا کہ امریکی فوج کے ساتھ وہ ISIS سے لڑتے رہیں۔
بش انتظامیہ اور پھر اوبامہ انتظامیہ نے افغانستان، عراق، لیبیا، شام میں Regime change کرنے کے بعد کی صورت حال پر دنیا کو جو بتایا تھا وہ سب غلط ثابت ہوا تھا۔ حالات زیادہ خطرناک ہو گیے تھے۔ دہشت گردی اور بڑھ گئی تھی۔ القا عدہ سے زیادہ خوفناک دہشت گرد گروپ وجود میں آ گیے تھے۔ جن میں ISIS سر فہرست تھا۔ امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ سے دہشت گردی ختم ہونے کے بجاۓ فروغ کر رہی تھی۔ اور ISIS اس کا ثبوت ہے۔ صد ام حسین اور کرنل معمر قد ا فی نے ان کی حکومتیں ختم ہونے کے بعد مڈل ایسٹ کے سیاسی حالات کا جو نقشہ بیان کیا تھا وہ لفظ بہ لفظ درست ثابت ہوا ہے۔ امریکہ کی مڈل ایسٹ کو Destabilize کرنے کی پالیسیوں کا اسلامی انتہا پسندوں اور اسرائیل کو فائدہ ہوا تھا۔ اسرائیل کو فلسطینی کے علاقوں میں پھیلنے کا موقعہ ملا تھا۔ جبکہ ISIS کو عراق اور شام میں پھیلنے کا موقعہ ملا تھا۔ ا
No comments:
Post a Comment