Monday, December 24, 2018

"From Assad "Has To Go", To Assad "Has To Stay


"From Assad "Has To Go", To Assad "Has To Stay

This Is A Great Victory For The Syrian Military To Protect The Motherland From Domestic And Foreign Enemies. The Best Army In The Arab World

مجیب خان
President Assad visits Syrian army in E. Ghouta

Syrian President Bashar al-Assad in an iftar dinner with troops in the Eastern Ghout of Damascus, on Feb26, 2016

President Assad meets with former hostages released in a prisoner exchange with rebels, Damascus on February 9th, 2017  


  ابھی تک دنیا کو یہ بتایا جا رہا تھا کہ ایران مڈل ایسٹ کو عدم استحکام کر رہا ہے۔ یمن اور شام میں ایران کی مداخلت ہو رہی ہے۔ عراق، شام، یمن ایران کے حلقہ اثر میں آ گیے ہیں۔ ایران کے صدر حسن روحانی کا حالیہ دورہ ترکی  بہت کامیاب تھا۔ ترکی کے صدر طیب ارد و گان نے ایران کے ساتھ قریبی تعلقات کی اہمیت کا اعتراف کیا ہے۔ اور ایران کے ساتھ تجارت کو 30بلین ڈالر  پر لے جانے کا کہا ہے۔ عراق میں امریکی تجربہ کے خوفناک نتائج دیکھنے کے بعد ایران کی شام میں بر وقت مداخلت سے د مشق حکومت اور ریاست گرنے سے بچ گئی ہے۔ ورنہ اس خطہ کے حالات ایٹم بم کے استعمال سے کم بدتر نہیں ہوتے۔ یہ علاقائی سیاست میں ایران کی کامیابیوں کے ثبوت ہیں۔ امریکہ کی قیادت میں نام نہاد الائنس  افغانستان میں بری طرح ناکام ہوا ہے۔ یہ عراق میں ناکام ہوا۔ اسے یمن میں ناکامی ہو رہی ہے۔ لیبیا  کو صرف انتشار دینے میں کامیابی ہوئی ہے۔ الائنس کے پاس امریکہ جیسی طاقت کی قیادت میں ان مسلسل ناکامیوں پر کچھ کہنے کے لئے نہیں ہے تو انہوں نے ایران پر الزامات کی بھر مار کر دی ہے کہ یہ ایران ہے جو مڈل ایسٹ کو عدم استحکام کر رہا ہے۔ یہ ایران کی مداخلت ہے جو یمن میں جنگ کو طول دے رہی ہے۔ یہ ایران کی مداخلت ہے جس کی وجہ سے عراق میں امن نہیں ہے۔ اور یہ ایران کی مداخلت ہے جو شام میں انسانی تباہی کا سبب بننی ہے۔ اسرائیل اور سعودی عرب نے بھی ایران کے خلاف اسی پراپگنڈہ لائن کو اختیار کیا ہے۔ القا عدہ امریکہ کے ریڈار سے بالکل غائب ہے۔ کیونکہ القا عدہ  یمن میں ہو تیوں کے خلاف جنگ میں سعودی عرب کے ساتھ لڑ رہا ہے۔ ISIS کو Low profile  میں رکھا تھا۔ اور صرف ایران کو ٹارگٹ کیا جا رہا تھا۔ لیکن پھر 20 دسمبر 2018 کو جب یہ بریکنگ نیوز آئی تھی کہ صدر ٹرمپ نے شام سے تمام امریکی فوجوں کا فوری طور پر انخلا کا حکم دیا ہے۔ اور افغانستان سے بھی 7ہزار فوجیں واپس بلانے کا کہا ہے۔ میڈیا میں اس خبر کو اس طرح لیا گیا تھا کہ جیسے شمالی کوریا نے ایٹم بم گرا دیا تھا۔
   میڈیا میں پنڈت مڈل ایسٹ میں ایران کے رول کو بھول گیے تھے۔ ISIS ان کی گفتگو کا موضع بن گیا تھا کہ شام سے امریکی فوجی انخلا کے نتیجہ میں ISIS کو عراق اور شام میں ابھرنے کا موقع ملے گا۔ ISIS کا ابھی مکمل خاتمہ نہیں ہوا ہے۔ افغانستان سے 7ہزار فوجیں واپس بلانے پر یہ کہا جا رہا ہے کہ دنیا بھر سے جہادی پھر افغانستان پہنچ جائیں گے۔ اور پھر ایک نیا 9/11 ہو گا۔ لوگوں کو خوفزدہ کیا جا رہا ہے۔ حقائق کو Distort کر کے پیش کیا جا رہا ہے۔ قابل ذکر بات یہ تھی کہ جس وقت صدر ٹرمپ نے شام سے امریکی فوجوں کے انخلا کا اعلان کیا تھا۔ ایران کے صدر حسن روحانی اس وقت انقرہ کا دورہ کر رہے تھے۔ اور انقرہ میں دونوں ملکوں کے رہنماؤں کے درمیان ملاقات میں شام کی صورت حال پر بھی بات ہوئی تھی۔ دونوں ملکوں نے شام کے استحکام اور اس کی تعمیر نو میں مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ دہشت گردی کے خلاف مہم میں تعاون کرنے کا اعادہ کیا تھا۔ یمن کی جنگ بندی کے لئے اقوام متحدہ کی کوششوں کی حمایت کی تھی۔ اس کے علاوہ خطہ کی صورت حال پر بھی دونوں ملکوں کے رہنماؤں میں بات ہوئی تھی۔ اور خطہ میں انسانی ترقی کے لئے امن اور استحکام ضروری قرار دیا تھا۔ اور اس کے لئے مل کر کام کرنے کا کہا تھا۔ صدر حسن روحانی کے دورہ انقرہ کے دوران صدر ارد و گان، ان کی کابینہ کے وزیروں اور تر کش میڈیا کو ایسے شواہد نظر نہیں آۓ تھے کہ جس سے ایران کا مڈل ایسٹ کو عدم استحکام کرنے، یمن شام اور عراق کو انتشار کے حالات میں رکھنے کا مقصد تھا۔ دنیا میں شاید احمق ہوں گے جو اپنے اطراف ہمسایہ میں انتشار اور عدم استحکام میں اپنے ملک کا مفاد دیکھتے ہوں گے۔ شام میں امریکہ اور اس کے عرب اتحادیوں کی مداخلت کا کوئی قانونی جواز نہیں تھا۔ شام میں خانہ جنگی میں ہزاروں غیر ملکی جہادی حصہ لے رہے تھے۔ سی آئی اے انہیں ایسے تربیت اور ہتھیار دے رہی تھی جیسے یہ افغانستان میں کمیونسٹ فوجوں کے خلاف دنیا بھر سے آنے والوں جہادیوں کو منظم کرتی تھی۔ شام ایک Sovereign ملک ہے۔ لیکن اس ملک کے اندر حکومت کے نام نہاد باغیوں کی Syrian Democratic Force بنائی تھی۔ اور اس کو فوجی تربیت دی جا رہی تھی۔ کیا امریکہ کو یہ قبول ہو گا اگر روس KKK کے انارکسٹ کی فوج بنا دے اور انہیں پھر فوجی تربیت دینے لگے؟ Kurds جو شام کے شہری تھے اور یا ترکی کے شہری تھے۔ انہیں بھی امریکہ نے فوجی تربیت دینا شروع کر دی تھی۔  شام کے Kurdish گروپ کو ترکی  کرد ستان ور کر ز پارٹی (PKK) کی طرح سمجھتا تھا۔ جو دہشت گرد تھے۔ اور امریکہ انہیں بھی فوجی تربیت دے رہا تھا۔ ترکی کے شدید اعتراض پر امریکہ نے کہا کہ شام کے Kurdish گروپ سے تعلقات عارضی اور ISIS سے لڑائی کی حکمت عملی میں ہیں۔ PKK کے کرد دہشت گردوں نے استنبول میں بموں کے کئی دھماکے کیے تھے۔ جس میں 100 سے زیادہ لوگ مارے گیے تھے۔ جس پر صدر ارد و گان نے کہا کہ امریکہ نے ہماری پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے۔ اور کرد دہشت گردوں کو ہمارے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ اوبامہ انتظامیہ نے شام کی خانہ جنگی کو اس طرح ار گنائز کیا تھا کہ کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کون کس سے لڑ رہا تھا۔ القا عدہ بھی یہاں تھی جس سے  ISIS سے لڑنے کا کہا جا رہا تھا۔ کرد و ں کو ISIS سے لڑنے کی تربیت دی جا رہی تھی۔ لیکن وہ اس لڑائی میں اپنی ایک آزاد ریاست دیکھ رہے تھے۔ اور ترکی کرد و ں پر حملے کر رہا تھا۔
  لیکن امریکہ کی انٹیلی جینس نے ابھی تک دینا کو یہ بتایا ہے کہ کس ملک کی سر زمین پر ISIS وجود میں آئی تھی؟ کس نے 30ہزار کے اس لشکر کو منظم کیا تھا؟ کس نے انہیں فنڈ ز فراہم کیے تھے؟ فوجی ٹرک اور اسلحہ کس نے دیا تھا؟ نہ صرف یہ بلکہ امریکہ کی فوجی اور انٹیلی جینس کی موجودگی میں ISIS نے عراق اور شام کے بڑے علاقہ پر قبضہ کر لیا تھا۔ اور وہاں اپنی ایک اسلامی ریاست بھی بنا لی تھی۔ پھر ISIS نے اپنی ریاست کے اخراجات  پورے کرنے کے لئے شام کا تیل چوری کر کے اسے فروخت کرنا شروع کر دیا تھا۔ ISIS کے ٹرک شام سے تیل لے ترکی کے راستہ جاتے تھے۔ امریکی فوجی ISIS سے لڑ رہے تھے۔ لیکن حیرت کی بات تھی امریکی انٹیلی جینس کو ISIS کے تیل کے کاروبار کا علم نہیں تھا۔ شام میں روسی فوجوں نے ISIS کے تیل کے کاروبار کا انکشاف کیا تھا۔ اور ترکی کی حکومت سے اسے فوری طور پر روکنے کا کہا تھا۔ شام اور عراق سے ISIS کا خاتمہ کرنے میں ایران اور روس کا ایک بڑا رول ہے۔ روس اور ایران کو شام میں آنے کی ضرورت نہیں تھی۔ شام میں ان کے بڑی تعداد میں لوگ بھی مارے گیے تھے۔ پھر ان کے خزانے پر بھی شام میں فوجی آپریشن کے اخراجات کا بوجھ پڑا ہے۔ اس صورت حال میں ایران کو شام مداخلت کرنے یا مڈل ایسٹ کو عدم استحکام کرنے کا الزام انتہائی نا معقول ہے۔
  صدر ٹرمپ نے شام سے امریکی فوجیں بلانے کا فیصلہ بہت درست کیا ہے۔ اور افغانستان میں بھی فوجوں میں کمی کرنے کا کہا ہے۔ طالبان بھی افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کا انخلا چاہتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے اعلان کر کے انہیں یہ عندیہ دے دیا ہے۔ امید ہے طالبان کے ساتھ امریکہ کے مذاکرات میں ضرور پیش رفت ہو گی۔ شام کی فوج نے بڑی بہادری سے انتہائی مشکل حالات میں اپنی Mother land کا دفاع کیا ہے۔ اپنے ملک کی سلامتی بقا اور اقتدار اعلی کا تحفظ کیا ہے۔ شام کی فوج نے امریکہ کی سرپرستی میں 68 ملکوں کا مقابلہ کیا ہے۔ القا عدہ کو شکست دی ہے۔ ISIS کو شکست دی ہے۔ و ہا بیوں اور سلافسٹ کو شکست دی ہے۔ اپنی سرحدوں سے اسلامی انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کو نکالا ہے۔ صدر ٹرمپ کے شام سے امریکی فوجیں واپس بلانے کے فیصلہ کا موا ز ا نہ صدر اوبامہ کے عراق سے امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال سے کر ر ہے ہیں کہ اس خلا کو پھر ISIS نے پر، کیا تھا۔ ان کا یہ موا زا نہ بالکل غلط ہے۔ شام میں ایک مضبوط حکومت ہے۔ تمام وزارتیں کام کر رہی ہیں۔ فوج ہے اور بہترین انٹیلی جینس ہے۔ صدر بش نے عراق میں صد ام  حکومت ختم کرنے کے بعد یہ ایک انتہائی Ignorant فیصلہ کیا تھا کہ عراقی حکومت کے تمام محکمے اور وزارتیں ختم کر دئیے تھے۔ عراقیوں کو بیروزگار کر دیا تھا۔ اور بغداد میں امریکیوں کی حکومت بنا دی تھی۔ عراقیوں کی زندگیوں میں بش انتظامیہ کے اس فیصلے نے خلا پیدا کر دیا تھا۔ جس سے فائدہ اٹھانے بہت سے انتہا پسند گروپ اپنے ایجنڈا کے ساتھ عراق میں آ گیے تھے۔ اور انہوں نے بش انتظامیہ کو خاصا مصروف رکھا تھا۔ اور اس کے بعد اوبامہ انتظامیہ کو بھی مصروف رکھا تھا۔ انتظامیہ اتنی Naive تھی کہ اس نے شام میں ان گروپوں کے لئے نئے مواقع فراہم کیے تھے۔ اور امریکہ کو بھی مصروف رکھا تھا۔ اس Alliance میں جو شامل تھے۔ وہ نہ تو قانون کی حکمرانی جانتے تھے۔ اور نہ ہی انسانیت کے خلاف کرائم کو کرائم سمجھتے تھے۔ اوبامہ انتظامیہ میں صدر بشار السدد کو Butcher کہا جا رہا تھا۔ جبکہ بش انتظامیہ میں 9/11 کے بعد اسلامی دہشت گردوں کو اسد حکومت سے تحقیقات کرنے اور انہیں اذیتیں دینے کے لئے شام کے حوالے کیا جاتا تھا۔ امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دو انتظامیہ کے درمیان یہ بہت بڑا خلا تھا؟
  اس لئے امریکی میڈیا میں یہ سوال نہیں کیے جا رہے ہیں کہ سابقہ انتظامیہ میں کیا غلطیاں کی گئی تھیں کہ افغان جنگ کو 17 سال ہو گیے ہیں، عراق جنگ کو 15 سال ہو گیے ہیں، دہشت گردی کے خلاف جنگ کو 18 سال ہو گیے ہیں، شام کے خلاف جنگ کو 7 سال ہو گیے ہیں، لیبیا میں حکومت کا تختہ الٹنے کی جنگ کو 7 سال ہو گیے ہیں، یمن جنگ کو 5سال ہو گیے ہیں۔ اور اگر اس میں اسرائیل کی فلسطینیوں کے خلاف جنگ کو بھی شامل کر لیا جاۓ جو 70 سال سے جاری ہے۔ ان جنگوں میں امریکہ کی قیادت میں نام نہاد الائنس کیوں ناکام ہے؟                                                                                                                                                              

No comments:

Post a Comment