Friday, December 14, 2018

Pakistan: Imran Khan Government’s First Hundred Days


Pakistan: Imran Khan Government’s First Hundred Days

مجیب خان
Prime Minister Imran Khan meeting with President Xi Jinping, Beijing, China Nov. 2,2018

Prime Minister Imran Khan meeting with U.S. Secretary of State Mike Pompeo in Islamabad, September 4, 2018

   وزیر اعظم عمران خان حکومت کے پہلے 100 دن مکمل ہونے پر ا پوزیشن سیاسی جماعتوں کے رہنما یہ سوال کر رہے ہیں کہ عمران خان نے پہلے 100دنوں میں اپنے کتنے وعدے پورے کیے ہیں؟ یہ سوال وہ سیاسی جماعتیں کر رہی ہیں جو اپنے اقتدار کے پانچ سال مکمل کرنے کا حساب عوام کو نہیں سکی ہیں۔ اور انتخابات ہار گئی تھیں۔ عمران خان حکومت کے پہلے 100 دن دراصل اقتدار میں ان کی پیدائش کے پہلے 100 دن ہیں۔ اور انہوں نے وزیر اعظم بننے کے پہلے 100 دنوں میں یہ دریافت کیا ہے کہ 70سال سے ملک اور عوام کے ساتھ پیشہ ور لیڈر کیا کھیل کھیل رہے تھے؟ عمران خان نے اپنی انتخابی مہم میں عوام سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد سب سے پہلے کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ دیں گے۔ کر پٹ عناصر کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی جاۓ گی۔ یہ عناصر پاکستان کی جو دولت باہر لے گیے ہیں اسے واپس لایا جاۓ گا۔ اور عمران خان پہلے 100 دنوں میں اپنے اس وعدہ کو پورا کر رہے ہیں۔ ان کا یہ وعدہ دوسرے تمام وعدوں کو پورا کرنے کی ابتدا ہے۔ جس شخص کو اقتدار کی حوس ہے اور نہ ہی دولت کی لالچ ہے وہ عوام کے حالات بہتر بنانے اور ملک کی ترقی میں بہت سنجیدہ ہوتا ہے۔ عوام کا عمران خان کو اقتدار میں لانے کا فیصلہ درست تھا۔ پہلے 100 دنوں میں عمران خان حکومت نے کھربوں اور اربوں ڈالروں کی Money laundering کا کھوج لگایا ہے۔ جو سابقہ زر داری اور نواز شریف حکومتوں میں پاکستان کی ایک بڑی برآمدات تھی۔ جالی ناموں سے ان کے ہزاروں بنک اکاؤنٹس تھے۔ جوتحقیقات کے نتیجے میں اب سامنے آ رہے ہیں۔ یہ جیسے سیاسی جماعتیں نہیں تھیں۔ مافیا گینگ تھے۔ سابقہ حکومتوں میں جو عوام کی دولت چوری کر کے بیرون لے گیے ہیں۔ ان کا احتساب حکومت پر واجب ہو گیا ہے۔ جبکہ بیرونی ملکوں سے ان کی چوری کی دولت واپس پاکستان لانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ زر داری اور نواز شریف سے، ان کی حکومتوں نے عالمی مالیاتی اداروں سے جو قرضہ لئے تھے، اس کا حساب بھی لیا جاۓ کہ یہ کن مقاصد میں استعمال کیے گیے تھے۔ سپریم کورٹ سے کہا جاۓ کہ وہ سندھ اور بلوچستان کی حکومتوں سے پوچھے کہ صوبوں کے دیہی علاقوں میں پسماندگی کا خاتمہ کرنے کے لئے صوبے کی حکومتوں نے کیا کام کیے ہیں۔ اور تعلیم اور صحت پر ہر سال کتنا خرچ کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے 90فیصد عوام بلاشبہ وزیر اعظم عمران خان کی کرپشن کے خلاف کاروائیوں کی حمایت کرتے ہیں۔
   پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن تین مرتبہ اقتدار میں آئی تھیں۔ لیکن ان کے دور میں بیروزگاری کتنی کم ہوئی تھی۔ پاکستان کے ریونیو بڑھانے کے لئے کیا اقدام کیے تھے۔ یہ پارٹیاں اداروں کی بات کرتی ہیں۔ لیکن ان کے نااہل ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ PIA اور Steel Mill جیسے اداروں کو یہ Profitable ادارے نہیں بنا سکی تھیں۔ ان میں اتنی قابلیت اور ذہانت نہیں تھی کہ یہ پاکستان کے ریونیو بڑھانے کے نئے Ideas قوم کو دیتے۔ ان کے پاس صرف اپنے ریونیو بڑھانے کے سینکڑوں Ideas Evil تھے۔ ان پارٹیوں کی Elite class کے دوبئی میں بنگلے اور مینشن ہیں۔ وہاں رہنے میں یہ بڑا فخر کرتے ہیں۔ جہاں نہ جمہوریت ہے، نہ سیاسی آزادی ہے اور نہ پریس کو آزادی ہے۔ لیکن پاکستان میں یہ جمہوریت آزادی اور پریس فریڈم کی باتیں کرتے ہیں۔ اور اب یہ وزیر اعظم عمران خان سے سوال کر رہے ہیں کہ انہوں نے پہلے 100 دنوں میں اپنے کتنے وعدے پورے کیے ہیں؟ لیکن انہوں نے اپنے پانچ سال اقتدار میں کتنے وعدے پورے کیے تھے۔ اس کا جواب دینے کے بجاۓ یہ دوبئی اور لندن چلے جاتے ہیں۔
   عمران خان حکومت کے پہلے 100 دنوں میں سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عملدرامد کیا جا رہا ہے۔ اور یہ قانون کی بالا دستی کی طرف ایک اہم قدم ہے۔ حکومت NAB میں کرپشن کے Cases میں کوئی Coaching نہیں کر رہی ہے۔ جن پر کرپشن کے الزامات ہیں۔ انہیں ایک عدالتی عمل کے ذریعہ اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرنے کا موقعہ دیا جا رہا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں شاید پہلی بار  حکومت عدالتی عمل میں کوئی مداخلت نہیں کر رہی ہے۔ اور عدالتوں کے فیصلوں کا احترام اور ان پر عملدرامد کرایا جا رہا ہے۔ زمینوں پر ناجائز گھروں، دوکانیں اور پلا زہ گرانے کے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرامد ایک نئی مثال ہے۔ تاکہ آئندہ کوئی خالی پلاٹ پر ناجائز تعمیر نہیں کرے گا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کو سپریم کورٹ نے سوئس حکومت کو آصف علی زر داری کے خلاف کرپشن کی تحقیقات دوبارہ شروع کرنے کے بارے میں خط لکھنے کا حکم دیا تھا۔ لیکن پیپلز پارٹی کی حکومت نے صدر زر داری کے حکم کو کہ یہ خط نہیں لکھا جاۓ گا۔ حکومت نے توہین عدالت کرنا پسند کیا تھا۔ لیکن سپریم کورٹ کا فیصلہ نہیں مانا تھا۔ اور قانون کی بالا دستی اپنے وزیر اعظم کی سیاسی قربانی دے کر قائم کی تھی۔ وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف پا نا مہ کیس میں سپریم کورٹ نے جب انہیں کر پٹ اور نااہل قرار دیا تھا تو وزیر اعظم نواز شریف نے اسے ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ اور اس فیصلہ کے پیچھے فوج کا ہاتھ  بتایا تھا۔ 90s میں اسی سپریم کورٹ میں نواز شریف کے خلاف کرپشن کے مقدمہ کی کاروائی کے دوران مسلم لیگ ن کے کارکنوں نے سپریم کورٹ پر حملہ کیا تھا۔ ججوں کو اپنی جانیں بچا کر بھاگنا پڑا تھا۔ اس وقت بھی نواز شریف وزیر اعظم تھے۔ اس وقت ان کی حکومت نے قانون کی بالا دستی کی یہ ایک مثال قائم کی تھی۔ وزیر اعظم عمران خان نے اپنے اقتدار کے پہلے 100 دن پورے ہونے پر یہ درست کہا ہے کہ قانون کی بالا دستی کے بغیر جمہوریت کا تصور ممکن نہیں ہے۔
   عمران خان حکومت کے پہلے 100دنوں میں پاکستان کے خارجہ امور میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے۔ عالمی رہنماؤں نے عمران خان کو وزیر اعظم بننے پر مبارک باد کے فون کیے تھے۔  ان میں جرمنی، فرانس، کینیڈا اور برطانیہ کے رہنما نمایاں تھے۔ ایران کے صدر حسن روحانی نے وزیر اعظم عمران خان کو سب سے پہلے فون کیا تھا۔ انہیں وزیر اعظم بننے کی مبارک باد دی تھی۔ اور انہیں ایران کا دورہ کرنے کی دعوت دی تھی۔ امریکہ کے سیکرٹیری آف اسٹیٹ ، چین، جاپان اور ایران کے وزراۓ خارجہ اسلام آباد آۓ تھے۔ اور انہوں نے وزیر اعظم  عمران خان سے دو طرفہ باہمی امور، تجارت اور علاقائی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا تھا۔ شاہ سلمان نے وزیر اعظم عمران خان کو سعودی عرب بلایا تھا۔ قطر کا ایک وفد پاکستان وزیر اعظم عمران خان سے ملنے آیا تھا۔ وزیر اعظم عمران خان کا متحدہ عرب امارات پہنچنے پر والہانہ استقبال کیا گیا تھا۔ اس دورے میں پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے پر سمجھوتہ ہوۓ تھے۔ وزیر اعظم عمران خان  نے چین اور ملیشیا کا دورہ کیا تھا۔ چین کے صدر Xi Jinping  سے ملاقات میں CPEC پر مکمل عملدرامد ہونے پر اتفاق ہوا تھا۔ وزیر اعظم نے CPEC کو پاکستان کی اقتصادی ترقی کے لئے انتہائی اہم قرار دیا تھا۔
  وزیر اعظم عمران خان نے اپنے اقتدار کے پہلے 100 دنوں میں ایران کا دورہ نہیں کیا ہے۔ ایرانی حکومت کو ضرور یہ شکایت رہے گی۔ صدر روحانی نے انہیں سب سے پہلے فون کیا تھا اور وزیر اعظم عمران خان کو تہران آنے کی دعوت دی تھی۔ لیکن وزیر اعظم عمران خان دو مرتبہ سعودی عرب گیے تھے۔ اور پھر متحدہ عرب امارات بھی گیے تھے۔ لیکن وزیر اعظم ابھی تک تہر ان نہیں گیے ہیں۔ جس سے یہ تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ وزیر اعظم نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے دورے مالی مدد کے لئے کیے تھے۔ اور ایران اس پوزیشن میں نہیں تھا۔ بہرحال ایران ایک اہم ملک ہے۔ اس کی اہمیت ختم نہیں ہو سکتی ہے۔ اسلامی دنیا کو فرقہ پرستی میں تقسیم کرنے کی صیہونی سازش سے پاکستان کو دور رہنا چاہیے۔ اس خطہ کے امن اور استحکام کے لئے پاکستان اور ایران کا مفاد ایک ہے۔ اس میں کوئی دو راۓ نہیں ہیں۔ ایرانی حکومت کی ایک شکایت یہ بھی ہے کہ اس نے گیس پائپ لائن پاکستان کی سرحد تک مکمل کر دی ہے لیکن پاکستان نے ابھی تک اس منصوبہ کو سمجھوتہ کے مطابق مکمل نہیں کیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت میں یہ معاہدہ ہوا تھا۔ صدر زر داری بش انتظامیہ، سعودی عرب اور خلیج کی حکومتوں کے دباؤ میں اس معاہدہ سے پیچھے ہٹ گیے تھے۔ پھر نواز شریف پر بھی ایسا ہی دباؤ تھا اور انہوں نے بھی قومی اقتصادی سلامتی کو نظر انداز کر دیا تھا۔ جو کر پٹ لیڈر ہوتے ہیں۔ وہ ہمیشہ کمزور ہوتے ہیں۔ عمران خان نے اس گیس پائپ لائن کو مکمل کرنے کا یقین دلایا تھا۔ حالانکہ یہ منصوبہ پاکستان کے اقتصادی مفاد میں ہے۔ اس گیس پائپ لائن سے پاکستان کے خزانے میں ریونیو آئیں گے۔ جو بلین ڈالرمیں ہوں گے۔ پھر پاکستان کو رائلٹی بھی ملے گی۔ پاکستان کو اپنے ریونیو بڑھانے کے لئے ہر موقعہ سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ایک دن امریکہ کے ایران کے ساتھ تعلقات بحال ہو جائیں گے۔ اور ایک دن سعودی عرب کے ساتھ  امریکہ کے تعلقات کشیدہ ہو جائیں گے۔ کشو گی کے قتل پر دونوں ملکوں کے تعلقات میں یہ دراڑیں پڑ گئی ہیں۔ ادھر امریکہ کی تیل کی پیداوار بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ آیندہ سال امریکہ میں تیل کی پیداوار 22ملین بیرل یومیہ پر پہنچ جاۓ گی۔ بلاشبہ سعودی عرب کے ریونیو متاثر ہوں گے۔  
   وزیر اعظم عمران خان حکومت کے پہلے 100 دنوں کے ساتھ ا پوزیشن کے بھی پہلے 100 دن دیکھنا ہوں گے کہ یہ کیسے تھے؟ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن پہلی مرتبہ ایک ساتھ ا پوزیشن میں ہیں۔ اور ایک تیسری پارٹی تحریک انصاف پہلی مرتبہ اقتدار میں ہے۔ یہ ایک دلچسپ سیاسی تبدیلی ہے۔ پیپلز پارٹی کے پہلی مرتبہ ایک ہی خاندان کے تین افراد Father, Son, Aunt قومی اسمبلی کے رکن ہیں۔ Father اور Aunt کرپشن کے مقدمات میں گھرے ہوۓ ہیں۔ اور Son بلا و ل زر داری بھٹو قومی اسمبلی کے رکن ہیں۔ وہ کیا سیاسی رول ادا کریں۔ پرانی بوتل میں بلا و ل ایک نئی شراب کی طرح ہیں۔ انہیں شاید کوئی یہ مشورہ دے رہا ہو گا کہ مولانا فضل الرحمن کی شکست سے قومی اسمبلی میں جو خلا پیدا ہوا ہے۔ بلا و ل زر داری بھٹو مولانا کی جگہ لے لیں۔ کوئی یہ مشورہ دے رہا ہو گا کہ محمود خان اچکزئی کی جگہ لے لیں۔ وہ بھی الیکشن ہار گیے تھے۔ لیکن بلا و ل زر داری بھٹو کو اپنے نانا کی حکومت میں قومی اسمبلی میں نوابزادہ نصر اللہ کا رول شاید زیادہ پسند آیا ہے۔ نواب زادہ نصر اللہ کی برسی پر بلا و ل بھٹو نے اپنی تقریر میں انہیں زبردست خراج تحسین پیش کیا تھا۔ اور جمہوریت کے لئے نواب زادہ نصر اللہ کی جد و جہد اور قربانیوں کو سراہا یا تھا۔ کس نواب زادہ نے نواب زادہ نصر اللہ کے بارے میں اتنی تعارفی تقریر لکھ کر بلا و ل بھٹو کو دی تھی۔ شاید خود بھی بلا و ل بھٹو نے اپنے نانا کے دور کی سیاست کا مطالعہ نہیں کیا تھا۔ جب ہی وہ جمہوریت کے لئے نواب زادہ نصر اللہ  کی جد و جہد کو خراج تحسین پیش کر رہے تھے۔ حالانکہ یہ نواب زادہ نصر اللہ تھے جو 1977 میں ذوالفقار علی بھٹو کی منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کی تحریک انتخابات میں دھاندلیوں کے نام پر چلا رہے تھے۔ یہ نواب زادہ تھے جنہوں نے پاکستان میں جمہوریت کو کبھی پنپنے نہیں دیا تھا۔ اور جمہوریت  کو ہمیشہ سبوتاژ کیا تھا۔ اور بلا و ل بھٹو اب قومی اسمبلی میں نواب زادہ نصر اللہ کا رول ادا کرنا چاہتے ہیں۔
 اب سوال نئے پاکستان کا ہے کہ یہ کیسے بننے گا؟ جس دن کر پٹ اور پیشہ ور سیاسی چہرے پاکستان کی سڑکوں پر نظر نہیں آئیں گے۔ اس دن سب کو ایک نیا پاکستان نظر آۓ گا۔               

No comments:

Post a Comment